شوہر داری
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
میاں بیوی کے باہمی تعلقات کو بہتر کرنے کے لیے کون سے اصول و ضوابط پر عمل کرنا چاہیے اور کس طرح سے اس باہمی پیوند کو مضبوط بنایا جاسکتا ہے؟ اس موضوع پر
روایات معصومینؑ میں بہت کچھ وارد ہوا ہے جس پر عمل پیرا ہو کر ایک
شوہر بہترین شوہرداری کے فرائض پورے کرسکتا ہے۔ زوجہ بھی ان سنہری اصولوں پر عمل کر کے گھرداری کے فریضے کو احسن انداز سے نبھا سکتی ہے۔ اس تحریر میں میاں بیوی کے باہمی حقوق و فرائض کو روایات
معصومین علیہم السلام کی نظر سے بیان کیا گیا ہے اور واضح کیا گیا ہے کہ کس طرح سے میاں بیوی ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات رکھیں اور کامیاب زندگی بسر کریں۔
[ترمیم]
تحریر کے آغاز میں چند
روایات بیان کی جا رہی ہیں جن میں بیان کیا گیا ہے کہ شوہر اپنی بیوی کے ساتھ کس
اخلاق سے پیش آۓ؟
رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:
کلما ازداد العبد ایمانا ازداد حبا للنسآء؛
مومن کا جس مقدار میں
ایمان بڑھتا رہتا ہے، اِتنا ہی اسکا اپنی زوجہ کیلئے پیار
[
]
بڑھتا جاتا ہے۔ ایک اور روایت میں وارد ہوا ہے:
قول الرجل للمراة انی احبک لا یذهب من قلبها ابدا؛
مرد کا اپنی زوجہ کو یہ کہنا کہ "میں تجھ سے محبت کرتا ہوں، خاتون کے دل سے یہ بات کبھی فراموش نہیں ہوتی۔
امام صادقؑ فرماتے ہیں:
کل من اشتد لنا حبا اشتد للنساء حبا؛جو شخص ہم اہلبیت علیہم السلام سے زیادہ محبت کرتا ہے وہ اپنی عورتوں (زوجات) سے بھی زیادہ محبت کرتا ہے۔
حضرت امیرالمؤمنین علیؑ فرماتے ہیں:
فدارها علی کل حال واحسن الصحبة لها فیصفو عیشک؛ہمیشہ اور ہر حال میں اپنی زوجہ کے ساتھ بنا کر رکھو اور اسکے ساتھ نیکی سے پیش آؤ تاکہ تمہاری زندگی باصفا ہو سکے۔
رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:
خیر الرجال من امتی الذین لایتطاولون علی اهلیهم و یحنون علیهم ولا یظلمونهم؛میری امت کے بہترین مرد وہ ہیں جو اپنے گھر والوں پر غصہ نہ کرنے والے اور متکبر نہ ہوں، ان پر رحم اور نوازش سے پیش آتے ہوں اور گھر والوں کو کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچاتے ہوں۔
رسول اللہ ﷺفرماتے ہیں:
فای رجل لطم امراته لطمة، امرالله عزوجل مالک خازن النیران فیلطمه علی حر وجهه سبعین لطمة فی نار جهنم؛ہر شخص جو اپنی زوجہ کے منہ پر تھپڑ مارتا ہے تو
خداوند عالم
جهنم کے آتشبان کو حکم دیتا ہے کہ اس شخص کو جہنم کی آگ میں ستر تھپڑ مارے جائیں۔
ایک خاتون سے مخاطب ہو کر رسول اللہ ص نے فرمایا کہ خاتون کا اپنے شوہر پر ایک حق یہ بنتا ہے:
حقک علیه ان یطعمک مما یاکل و یکسوک مما یلبس ولا یلطم ولا یصیح فی وجهک؛تمہارا اپنے شوہر پر ایک حق یہ ہے کہ جو وہ خود کھاتا ہے تمہیں بھی کھلاۓ اور جس طرح کا وہ خود پہنتا ہے تمہیں بھی پہناۓ اور تمہیں تھپڑ نا مارے اور تم پر فریادیں بلند نا کرے۔
رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:
للمراة علی زوجها ان یشبع بطنها، و یکسو ظهرها، ویعلمها الصلاة والصوم والزکاة ان کان فی مالها حق، ولاتخالفه فی ذلک؛عورت کا اپنے شوہر پر ایک حق یہ ہے کہ شوہر اسے کھانا کھلاۓ، اور اسے لباس پہننے کے لیے مہیا کرے.
نماز و
روزه و
زکات کے مسائل سکھاۓ اور اگر عورت کے مال پر زکات بنتی ہے تو وہ ادا کرے، عورت کو بھی ان امور میں اپنے شوہر کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے۔
امام رضاؑ فرماتے ہیں:
الکآد علی عیاله من حل کالمجاهد فی سبیل الله؛جو شخص راہ
حلال کے ذریعے گھر کی رفاہ و بہبود کے لئے کوشش کرتا ہے، وہ شخص اس مجاہد کی مانند ہے جو راہ خدا میں
جهاد کرتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:
من دخل السوق فاشتری تحفة فحملها الی عیاله کان کحامل صدقة الی قوم محاویج ولیبدا بالاناث قبل الذکور فان من فرح ابنته فکانما اعتق رقبة من ولد اسماعیل ومن اقر بعین ابن فکانما بکی من خشیة الله ومن بکی من خشیة الله ادخله الله جنات النعیم؛جو شخص
بازار جاتا ہے اور اپنے گھر والوں کے لیے ہدیہ خرید کر گھر جاتا ہے
[
اسکی جزا
]
اس شخص کی مانند ہے جو نیازمندوں کے لیے صدقہ لے کر جاتا ہے.
[
اور جب
هدیه گھر لے کر جاۓ
]
، تو اسے چاہیے کہ اپنے بیٹوں سے پہلے اپنی بیٹیوں کو ہدیہ دے، کیونکہ جو بیٹیوں کو خوش کرتا ہے اس شخص کی مانند ہے کہ جس نے فرزندان
اسماعیلؑ میں سے ایک غلام آزاد کروایا ہو. اور جس نے
[
ہدیہ دے کر
]
اپنے بیٹوں کی آنکھوں کو روشن کیا اس شخص کی مانند ہے جس نے خوف خدا میں گریہ کیا ہے اور جو بھی خوف خدا سے گریہ کرے خداوند اسے
بہشت کی نعمات سے نواز دے گا۔
امام سجادؑ فرماتے ہیں:
لان ادخل السوق ومعی درهم ابتاع به لحما لعیالی وقد قرموا الیه احب الی من ان اعتق نسمة؛میرے نزدیک بازار جانا اور گھر والوں کے لیے ایک درہم کا گوشت خرید کرنا کہ جس کے لیے انکا دل چاہ رہا ہے، غلام آزاد کروانے سے زیادہ محبوب تر ہے۔
امام صادقؑ فرماتے ہیں:
اذا سافر احدکم فقدم من سفره فلیات اهله بما تیسر؛تم میں سے جب کوئی
سفر پر جاۓ اور وہاں سے واپس آئے تو اسے چاہیے کہ اپنی توان کے مطابق گھر والوں کے لیے سوغات خرید کر جاۓ۔
امام باقر (علیهالسّلام) فرماتے ہیں:
النسآء یحببن ان یرین الرجل فی مثل ما یحب الرجل ان یری فیه النسآء من الزینة؛جس طرح سے مرد حضرات پسند کرتے ہیں کہ اپنی عورتوں کو زینت و آرائش کیا ہوا دیکھیں، عورتیں بھی پسند کرتی ہیں کہ انکے مرد
زینت کو اختیار کریں۔
امام رضا (علیهالسّلام) فرماتے ہیں :
بنبغی للمؤمن ان ینقص من قوت عیاله فی الشتآء ویزید فی وقودهم؛مومن کو چاہیے کہ موسم سرما میں وہ اپنے خانوادے کے خوراک کے اخراجات میں سے کم کر کے گرم کرنے والے وسائل کا بندوبست کرے جو اسکے گھر والوں کو گرم رکھ سکیں۔
راوی نے
امام جعفر صادقؑ سے پوچھا کہ عورت کا اپنے شوہر پر کیا حق بنتا ہے؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا:
... ولاتکون فاکهة عامة الا اطعم عیاله منها ولایدع ان یکون للعید عندهم فضل فی الطعام وان یسنی لهم فی ذلک شی ء ما لم یسن لهم فی سآئر الایام؛... پھل جو عام لوگ کھا رہے ہوں مرد کو چاہیے کہ اپنے گھر والوں کو کھلاۓ اور عید کے ایام میں انکی خوراک پر زیادہ خرچ کرے، اور ان ایام میں وہ اشیاء بھی فراہم کرے جو عموما عام دنوں میں فراہم نہیں کرتا۔
امام صادق (علیهالسّلام) فرماتے ہیں:
لا تقذفوا نسآءکم فان فی قذفهن ندامة طویلة وعقوبة شدیدة؛اپنی خواتین پر
تهمت نہ باندھیں
[
اور انکی طرف ناروا نسبتیں نا دیں
]
، کیونکہ اس کام میں
[
تمہارے لیے
]
پشیمانی ہے اور سخت سزا ہے۔
رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:
هلک بذی المروة ان یبیت الرجل عن منزله بالمصر الذی فیه اهله؛یہ امر جوانمردی کے خلاف ہے کہ مرد جس شہر میں موجود ہو اسکے گھر والے بھی وہیں ہوں اور وہ اپنے گھر میں نا سوۓ کہیں اور جا کر رات گزارے۔
امام صادقؑ فرماتے ہیں:
یسلم الرجل اذا دخل علی اهله واذا دخل یضرب بنعلیه ویتنحنح یصنع ذلک حتی یؤذنهم انه قد جآء حتی لا یری شیئا یکرهه؛مرد جب گھر میں داخل ہو اور گھر والوں کو دیکھے
[
تو اسے چاہیے کہ
]
سلام کرے اور گھر میں داخل ہوتے وقت اپنے جوتوں کو ہلا کر آواز نکالنے سے یا ہلکا سا کھانس کے اپنے گھر میں داخل ہونے کا اشارہ کرے، تاکہ اسے کوئی ایسی ناگوار چیز نا دکھائی دے جس سے وہ ناراحت ہو۔
رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:
جلوس المرء عند عیاله احب الی الله تعالی من اعتکاف فی مسجدی هذا؛مرد کا اپنی زوجہ کے ساتھ بیٹھنا، خدا کے نزدیک
اعتکاف میں بیٹھنے اور اس
مسجد میں توقف کرنے سے زیادہ محبوب تر ہے۔
رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:
ان الرجل لیؤجر فی رفع اللقمة الی فی امراته؛ مرد اپنی زوجہ کے منہ میں لقمہ توڑ کر ڈالے تو اس کے لئے (اللہ تعالیٰ کے نزدیک) جزا ہے۔
[ترمیم]
جس طرح سے شوہر کو اپنی بیوی کے ساتھ اچھا سلوک رکھنے کا حکم دیا گیا ہے عورت کا بھی یہ فریضہ قرار دیا گیا ہے کہ وہ اپنے شوہر کا احترام و اکرام کرے، اس بارے میں چند روایات پیش خدمت ہیں:
رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:
ان للرجل حقا علی امراته اذا دعاها ترضیه واذا امرها (البته دستورهای شوهر باید مخالف با موازین اسلامی نباشد) لا تعصیه ولا تجاوبه بالخلاف ولا تخالفه؛
مرد کا اپنی زوجہ پر حق
[
یہ ہے که
]
جب شوہر اسے بلاۓ تو عورت کو چاہیے کہ اسے جواب دے، اور جب اسے کوئی کام بتاۓ تو اسے انجام دے، منفی جواب نہ دے اور اپنے شوہر کی مخالفت نہ کرے۔ البتہ یہ بات ذہن نشین ہونی چاہیے کہ شوہر کی اطاعت فقط جائز امور میں ضروری ہے اگر شوہر
احکام الهی کی مخالفت کرنے کا حکم دے تو یہاں پر
اطاعت کرنا جائز نہیں. کیونکہ بہرحال ہر صورت میں حکم خداوندی شوہر کے حکم سے بالاتر ہے۔
رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں: اگر سجدہ کرنا غیرِ خدا کے لیے جائز ہوتا تو میں حکم دیتا کہ بیویاں اپنے شوہروں کو
سجده کریں.
ایک اور روایت میں وارد ہوا ہے: کوئی بھی خاتون خدا کا حق ادا نہیں کرسکتی جب تک کہ اپنے شوہر کا حق ادا نہ کرے۔
نبی اکرم ﷺ فرماتے ہیں:
للرجل علی المراة ان تلزم بیته وتودده وتحبه وتشفقه وتجتنب سخطه وتتبع مرضاته وتوفی بعهده ووعده؛مرد کا اپنی عورت پر یہ حق بنتا ہے کہ
[
خاتون
]
اس کے گھر میں خدمت کرے، اپنے شوہر کی دوست ہو اور اس سے محبت و دلسوزی سے پیش آۓ، اپنے شوہر کو غضب میں نا لاۓ اور جو اسکا شوہر چاہتا ہو اسے انجام دے اسکے ساتھ کئے گئے وعدے کو وفا کرے۔
امام صادقؑ فرماتے ہیں:
ایما امراة قالت لزوجها: ما رایت قط من وجهک خیرا فقد حبط عملها؛جو عورت اپنے شوہر کو کہے: میں نے تم سے کبھی بھلائی نہیں پائی تو اسے اسکے اعمال کا ثواب عطا نہیں ہوگا۔
رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:
خیر نسائکم الودود الولود المؤاتیة وشرها اللجوج؛تم میں سے سب سے بہترین خاتون وہ ہے جو محبت سے اولاد پیدا کرنے والی ہو اور بدترین خاتون وہ ہے جو ضدی اور ڈھٹائی سے کام لے۔
نبی اکرم ﷺ فرماتے ہیں:
طوبی لامراة رضی عنها زوجها؛کیا ہی سعادت ہے اس عورت کے لئے جس سے اسکا شوہر راضی ہو۔
رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:
من کان له امراة تؤذیه لم یقبل الله صلاتها ولا حسنة من عملها حتی تعینه وترضیه وان صامت الدهر وقامت واعتقت الرقاب وانفقت الاموال فی سبیل الله وکانت اول من ترد النار ثم قال: وعلی الرجل مثل ذلک الوزر والعذاب اذا کان لها مؤذیا ظالما؛جس شخص
[
کی بیوی
]
اسے اذیت پہنچاتی ہو تو
خداوند اس عورت کی
نماز اور دیگر نیک کام قبول نہیں کرتا، یہاں تک کہ اپنے شوہر کی مدد کرے اور اسے راضی کرے. اور اگر اسی حالت میں(شوہر کو ناراض کرکے) تمام عمر
روزه رکھے اور نمازیں پڑھتی رہے، غلام آزاد کرتی رہے، اپنے اموال کو راہ خدا میں بخشتی رہے، پھر بھی یہ عورت ان عورتوں میں سے ہوگی جو سب سے پہلے جہنم میں ڈالی جائیں گی۔ پھر آپؐ نے فرمایا کہ مرد پر بھی یہی عذاب ہو گا اگر وہ اپنی زوجہ کو تکلیف پہنچاتا ہے یا اس پر ستم کرتا ہے۔
امام صادقؑ فرماتے ہیں:
... سعیدة سعیدة امراة تکرم زوجها ولا تؤذیه وتطیعه فی جمیع احواله؛خوشبخت ہے وہ عورت، خوشبخت ہے وہ عورت کہ جو اپنے شوہر کا اکرام کرے، اسکو تکلیف نہ پہنچائے اور ہمیشہ اسکی فرمانبردار رہے۔
رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:
لا یحل للمراة ان تتکلف زوجها فوق طاقته؛خاتون کے لیے جائز نہیں کہ اپنے شوہر کی توانائی و طاقت سے بڑھ کر اس سے مطالبہ کرے۔
پیغمبرخدا (صلیاللهعلیهوآلهوسلّم) فرماتے ہیں:
ایها الناس ان لنسآءکم علیکم حقا ولکم علیهن حقا حقکم علیهن [
... ان]
لا یدخلن احدا تکرهونه بیوتکم الا باذنکم؛
اے لوگو! تمہاری عورتیں تم پر حق رکھتی ہیں اور تمہیں بھی اپنی زوجات پر حق حاصل ہے. تمہارا اپنی زوجات پر یہ حق ہے کہ تمہاری اجازت کے بغیر کسی کو گھر میں نا لائیں جس کے لیے آپ راضی نہ ہوں۔ ایک شخص
رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: میری زوجہ ایسی ہے کہ جب میں گھر میں داخل ہوتا ہوں تو میرے استقبال کو آتی ہے، اور جب گھر سے باہر نکلتا ہوں تو دروازے تک چھوڑنے آتی ہے، جب مجھے غمگین دیکھتی ہے تو کہتی ہے: اگر
رزق و روزی
[
اور زندگی کے اخراجات
]
کے لیے پریشان ہو تو جان لو کہ یہ سب تو اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمے لے رکھا ہے کہ بندے کا رزق اس تک ہر صورت میں پہنچا دے، اور اگر
آخرت کے لیے پریشان ہو تو دعا ہے کہ اللہ تمہاری اس پریشانی میں اور بھی اضافہ کرے
[
تاکہ آخرت کے لیے زیادہ سامان کر سکو
]
رسول اللہ ﷺ نے یہ سن کر فرمایا:
ان لله عمالا و هذه من عماله لها نصف اجر الشهید؛خدا کے عُمّال ہیں
[
اسکی زمین پر
]
اور یہ خاتون بھی انہیں عُمال میں سے ایک ہے اس خاتون کی
پاداش ایک شہید کی نصف پاداش ہے۔
مسلمانوں کے اخلاقی آداب و رسوم میں سے ایک بہترین رسم سلام کرنے کی ہے کہ جب بھی دو مسلمان آپس میں مل بیٹھتے ہیں تو ایک دوسرے کو دعا کے طور پر سلام کرتے ہیں جس سے پیار محبت بڑھتا ہے، میاں بیوی کے باہمی تعلقات میں اُنس بڑھانے کے لئے ایک ضروری امر
سلام کرنا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ جب بھی شوہر باہر سے آئے تو بیوی کو سلام کرے.
نبی اکرم ﷺ فرماتے ہیں:
ایما امراة اعانت زوجها علی الحج والجهاد او طلب العلم اعطاها الله من الثواب ما یعطی امراة ایوب علیه السّلام؛جو خاتون
حج و
جهاد اور علم کے حصول میں اپنے شوہر کی مدد کرے، تو اللہ تعالیٰ اسے وہ پاداش و اجر عطا کرے گا جو اس نے
حضرت ایوبؑ کی زوجہ کو عطا کیا۔
امام صادقؑ فرماتے ہیں:
ما من امراة تسقی زوجها شربة من مآء الا کان خیرا لها من عبادة سنة صیام نهارها وقیام لیلها ویبنی الله لها بکل شربة تسقی زوجها مدینة فی الجنة وغفر لها ستین خطیئة؛ہر وہ عورت جو اپنے شوہر کو پانی پلاتی ہے، اس کا یہ پانی پلانا اسکے ایک سال کی عبادت سے بہتر ہے اور وہ بھی ایسا سال کہ جس کے دنوں میں وہ روزہ رکھتی رہی اور جسکی راتوں میں وہ نمازیں پڑھتی رہی. اللہ تعالٰی اسے ہر اس مقدار کے برابر کہ جو اس نے اپنے شوہر کو پانی پلایا جنت میں اس کے لئے ایک شہر تعمیر کرے گا اور اسکے ساٹھ گناہ معاف کرے گا۔
امام صادقؑ رسول اللہ ﷺ سے روایت نقل کرتے ہیں:
ایما امراة دفعت من بیت زوجها شیئا من موضع الی موضع ترید به صلاحا نظر الله الیها ومن نظر الله الیه لم یعذبه؛جو خاتون اپنے شوہر کے گھر میں کسی چیز کو سنبھال کر ایک جگہ سے دوسری جگہ رکھتی ہے تو خداوند نظرِ
[
رحمت
]
سے اس پر نگاہ ڈالتا ہے اور ہر بندہ جو مورد نظرِ
[
رحمت
]
الہی قرار پا جاتا ہے، اللہ اس پر عذاب نازل نہیں کرتا۔۔
رسول اللہ ﷺ شوہر کے بیوی پر ایک حق کے بارے میں فرماتے ہیں:
علیها ان تطیب باطیب طیبها وتلبس احسن ثیابها وتزین باحسن زینتها؛
عورت پر ضروری ہے کہ
[
اپنے شوہر کے لیے
]
سب سے بہترین
عطر استعمال کرے، بہترین لباس پہنے اور سب سے زیادہ زیبا کردینے والی زینت کو اختیار کرے.
امام صادقؑ فرماتے ہیں:
خیر نسآءکم الطیبة الریح الطیبة الطبیخ التی اذا انفقت انفقت بمعروف وان امسکت امسکت بمعروف فتلک عامل من عمال الله وعامل الله لایخیب ولایندم؛
تم میں سے بہترین خواتین وہ ہیں کہ جو خوشبودار اور اچھا کھانا بنانے والی ہیں، جب خرچ کرتی ہیں تو درست چیز خریدتی ہیں، اور جب خرچ نہیں کرتیں تو دراصل
فضول خرچی سے بچ رہی ہوتی ہیں، ایسی خواتین دراصل اللہ تعالیٰ کے عُمّال میں سے ایک ہوتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے عمال نہ تو ناامید ہوتے ہیں اور نا ہی پشیمان۔ ایک اور روایت میں
رسول اللہ ﷺ سے نقل ہوا ہے:
حق الرجل علی المراة انارة السراج واصلاح الطعام وان تستقبله عند باب بیتها فترحب وان تقدم الیه الطست والمندیل وان توضئه وان لاتمنعه نفسهآ الا من علة؛مرد کا اپنی زوجہ پر ایک حق یہ ہے کہ خاتون اس کے گھر کو روشن رکھے، اچھی غذا بنا کر تیار کرے، جب شوہر گھر آۓ تو دروازے پر اس کو خوش آمدید کہے، پانی اور لباس پیش کرے اور اسکے ہاتھ دھلاۓ، اور بغیر کسی شرعی مجبوری کے خود کو اپنے شوہر کے سامنے پیش کرنے سے انکار نا کرے۔
پیغمبر خدا ﷺ فرماتے ہیں:
ان من خیر نسآءکم... المتبرجة من زوجها الحصان عن غیره؛
تم میں سے سے بہترین خاتون وہ ہے جو خود کو اپنے شوہر کے لیے آراستہ کرے، اور اجنبیوں سے خود کو چھپاۓ۔
امام صادقؑ فرماتے ہیں:
خیر نسآءکم التی ان اعطیت شکرت وان منعت رضیت؛
تم میں سے بہترین خاتون وہ ہے کہ جب اسے کچھ دیا جائے تو شکرگزار ہو اور جب کچھ نا دیا جائے تو تب بھی راضی ہو۔
اچھی شوہرداری بھی ایک ہنر ہے ایک خاتون کی خوشبختی یا بدبختی بھی اسکی اچھی یا بری شوہرداری پر منحصر ہوتی ہے اگر خاتون اس مہارت کو حاصل کرلے تو سعادتمند ہو سکتی ہے، اور اپنے گھر کو جنت کا ایک باغ بنا سکتی ہے. اس لئے
اسلام میں اچھی شوہرداری کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے،
امام علیؑ اس بارے فرماتے ہیں: «خاتون کا جہاد یہ ہے کہ وہ اچھی شوہرداری کرے۔
ایک سمجھدار خاتون وہ ہوتی ہے کہ جسے یہ بات معلوم ہو کہ فقط محبت اور اخلاق سے ہی شوہر کا دل جیتا جا سکتا ہے. اپنے درست و عاقلانہ فیصلوں اور اخلاقی اقدار کو اپنا کر شوہر کے گھر کو بسایا جا سکتا ہے. ایک خوش اخلاق خاتون کی علامت یہ ہے کہ اپنے شوہر کے ساتھ ہمیشہ اچھا کلام کرتی ہے، چنے ہوئے مودب الفاظ کا استعمال کرتی ہے اور ہمیشہ کوشش کرتی ہے کہ اپنے شوہر سے ابراز محبت کرے اور اپنے شوہر کو مضطرب ہونے سے بچا لے. سمجھدار خاتون اپنے اچھے رویے کی وجہ سے اپنے شوہر کے ساتھ یا بچوں کے ساتھ خوش و خرم رہتی ہے اور مثلِ فرشتہء رحمت گھر کے اندر سکون کا باعث ہوتی ہے۔
رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ جو خاتون اپنی زبان درازی کی وجہ سے شوہر کو تکلیف پہنچاۓ تو
خداوند اسکا کوئی بھی
واجب یا مستحب عمل قبول نہیں کرتا، اسکا کوئی نیک عمل قبول نہیں ہوتا یہاں تک کہ وہ اپنے شوہر کو راضی کرلے، (اسکا کوئی بھی عمل ان ایام میں قبول نہیں ہوگا) چاہے ان ناراضگی کے ایام میں وہ روزے اور راتوں کو نمازیں بھی کیوں نہ پڑھتی رہی ہو۔
ایک سمجھدار خاتون کبھی بھی اپنے شوہر یا بچوں کے ساتھ دھمکی آمیز یا تحقیرانہ لہجے کے ساتھ بات نہیں کرتی، بلکہ ہمیشہ شاکرانہ اور ہمدردانہ انداز اپنا کر گھر کی حرمت کا خیال رکھتی ہے۔
بابصیرت خاتون وہ ہے جسے معلوم ہو کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی انسان ہیں وہ سب محبتوں کو قبول کرنے والے اور نفرتوں سے بیزار ہوتے ہیں، سب انسان احترام کو پسند اور بے عزت ہونے کو ناپسند کرتے ہیں، وہ یہ بات سمجھتی ہے کہ میں جس کا بھی احترام کرونگی وہ بھی مجھے پسند کرے گا اور احترام کرے گا، اور جس کا اکرام نہیں کرونگی وہ بھی مقابل میں مجھے عزت نہیں دے گا۔ ایک سمجھدار خاتون کو یہ بھی علم ہوتا ہے کہ اسکے شوہر کو سکون و آرام چاہیے، اسکے شوہر کو گھر میں امنیت، صمیمیت اور مخلص دلدار دوست چاہیے۔
امام صادقؑ فرماتے ہیں کہ سعادتمند ہے وہ عورت، سعادت مند ہے وہ عورت کہ جو اپنے شوہر کا احترام کرتی ہے اور اسکو تکلیف نہیں پہنچاتی، اور ہر موقع پر اپنے شوہر کی اطاعت کرتی ہے۔
ایک عقلمند خاتون وہ ہے کہ جسے علم ہے اسکا شوہر محبت کا تشنہ ہے، اسے ایک غم بانٹنے والا شریک چاہیے اس لیے وہ اپنا آپ شوہر کے سامنے نچھاور کردیتی ہے. لیکن اگر مرد کو یہ احساس ہوجاۓ کہ اسکی زوجہ اسے پسند نہیں کرتی تو وہ بھی احساس تنہائی کرنے لگتا ہے، ہمیشہ پژمردہ، غمگین اور مضطرب رہتا ہے۔ اس لئے دوراندیش عورت اپنے عشق و محبت کا اظہار کر کے اپنے جذبات زبان پر لاتی ہے اور شوہر کو جذب کرلیتی ہے۔
امام باقرؑ فرماتے ہیں کہ ایک خاتون کے لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں اسکی شوہر کی رضا سے بڑھ کر کوئی امر شفاعت کرنے والا قرار نہیں دیا۔
[ترمیم]
۱. شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر قدم نہ رکھے.
۲. اگر شرعی عذر نہ رکھتی ہو تو شوہر کی نفسانی طلب پر حتما خود کو پیش کرے اور کسی قسم کا عذر پیش نہ کرے.
۳. خود کو ہر اس چیز سے پاک اور دور رکھے جس سے شوہر کو جنسی استفادہ کرنے میں کراہت محسوس ہو.
۴. شوہر کی اجازت کے بغیر اسکے مال سے صدقہ نہ دے. (اپنے شوہر کے مال سے
نذر اور
صدقه دینا درست نہیں البتہ اپنا مال خرچ کرنے میں آزاد ہے)۔
[ترمیم]
۱. آیین ہمسرداری، مؤلف: آیت الله
ابراہیم امینی؛
۲. بہشت خانواده، مؤلف: سید جواد مصطفوی؛
۳. حقوق و وظائف زن در اسلام، مؤلف: عیسی عبده غالب احمد، مترجم: جہانگیر ولدبیگی۔
[ترمیم]
[ترمیم]
پایگاه اطلاع رسانی حوزه، یہ تحریر مقالہ آیین ہمسرداری در احادیث اسلامی سے مأخوذ ہے، مشاہدہ لنک کی تاریخ:۱۳۹۶/۱۰/۰۲۔ سایت مرکز ملی پاسخگوئی به سؤالات دینی، یہ تحریر مقالہ وظائف شرعی و وظائف اخلاقی زن در اسلام سے مأخوذ ہے، مشاہدہِ لنک کی تاریخ:۱۳۹۶/۱۰/۰۲۔