صحیح الحدیث

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



علم حدیث میں جرح و تعدیل کے الفاظ میں سے ایک اصطلاح صحیح الحدیث ہے۔ یہ اصطلاح راوی کی مدح کے الفاظ میں شمار ہوتی ہے۔ جبکہ بعض نے اس کو راوی کی عدالت اور وثاقت پر دلیل قرار دیا ہے۔


اصطلاح کی وضاحت

[ترمیم]

صحیح الحدیث راوی کی مدح کے الفاظ میں سے ایک ہے۔ علم الدرایۃ میں راوی کی جرح و تعدیل کے الفاظ ذکر کیے جاتے ہیں اور اس میں جائزہ لیا جاتا ہے کہ وہ کونسے الفاظ راوی کی عدالت اور وثاقت پر دلالت کرتے ہیں اور کونسے راوی کی جرح اور مذمت پر دلالت کرتے ہیں۔ راوی کی عدالت اور وثاقت پر دلالت کرنے والے الفاظ میں سے ایک لفظ صحیح الحدیث ہے۔ البتہ علماءِ فن رجال و حدیث میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ آیا صحیح الحدیث کا لفظ راوی کی مدح کا فائدہ دیتا ہے یا نہیں؟ اس بارے میں چند اقوال پیش خدمت ہیں:

۱- متأخر علماء قائل ہیں کہ صرف اس شخص کی روایت حجیت کا فائدہ دیتی ہے جو عادل، امامی اور صحیح حافظے کا مالک ہو جیساکہ عدل إمامی ضابط کی شرائط ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے ایک عدالتِ راوی ہے کہ جب تک راوی کا عادل ہونا ثابت نہ ہو اس کی روایت قبول نہیں۔ شیخ کلباسی نے تحریر کیا ہے کہ قدماء اور متأخرین میں صحیح الحدیث کی راوی کی عدالت و وثاقت اور امامی ہونے پر دلالت ہونے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ ظاہراً اس لفظ کی راوی کے عادل ہونے بر دلالت نہیں ہے کجا امامی ہونے پر دلالت ہو۔ نیز شہید ثانی نے جو ذکر کیا ہے کہ یہ کلمات راوی کی وثاقت پر دلالت کرتے ہیں درست نظریہ نہیں ہے۔ اسی طرح نعمت اللہ جزائری نے عبد السلام بن صالح کے ذیل میں جو لکھا ہے کہ صحیح الحدیث کا لفظ راوی کے عامی ہونے کے منافی ہے تو یہ بھی درست نہیں ہے۔

۲- عبد اللہ مامقانی اور بعض دیگر نے تصریح کی ہے کہ اگر قدماء کے کلام میں کسی راوی کے لیے صحیح الحدیث کے الفاظ آ جائیں تو یہ بلا شک و شبہ اس راوی کی روایت لینے کے اعتبار سے مدحِ کامل پر دلالت کرتے ہیں۔

۳- قدماء نے جس راوی کو صحیح الحدیث کہا ہے تو یہ بذاتِ خود راوی کی مدحِ کامل پر دلالت کرتے ہیں اور اس صورت میں اس کی روایت قوی شمار ہو گی۔

۴- صحیح الحدیث کی اصطلاح صراحت کے ساتھ دلالت کرتی ہے کہ راوی ثقہ اور ضابط ہے اور یہ راوی کے تزکیہ کی زیادتی پر دلالت کرتی ہے۔ جرح و تعدیل کے الفاظ دو طرح کے ہیں: ۱۔ وہ جو صراحت کے ساتھ تعدیل یا جرح کو بیان کرتے ہیں، ۲۔ وہ الفاظ جو غیر صریح ہیں۔ صحیح الحدیث کا شمار ان اصطلاحات میں ہوتا ہے جو صریح ہیں۔

۵- قدماء کی اصطلاح میں اس شخص کی روایت صحیح ہے جس کی وثاقت ثابت ہے کیونکہ ان کے نزدیک وثاقت کا لازمہ حدیث کی صحت ہے۔

۶- قدماء نے جس راوی کو صحیح الحدیث کہا ہے تو کیا یہ کلمات اس راوی کے عادل ہونے کا فائدہ دیتے ہیں؟ اس میں دو قول ہیں جن میں سے اظہر یہ ہے کہ اس کی عدالت پر دلالت کرتے ہیں کیونکہ کسی راوی کی حدیث کی طرف مطلق طور پر صحیح ہونے کی نسبت دینے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس راوی کے ایسے اوصاف ان کی نظر میں موجود تھے جو بذاتِ خود اس سے حدیث لینے کے اطمینان اور اس کی حدیث پر کسی خدشے کے نہ ہونے کا فائدہ دیتے ہیں۔ بلا شک و شبہ اگر کوئی راوی عادل نہ ہو تو مطلقًا اس کی احادیث کی طرف صحیح ہونے کی نسبت نہیں دی جا سکتی۔

۷- قدماء کے نزدیک یہ اصطلاح راوی کی عدالت کا فائدہ نہیں دیتی اور یہ اصطلاح ثقۃ فی الحدیث سے ضعیف تر ہے۔

۸- صحیح الحدیث کی اصطلاح الفاظِ مدح میں سے ہے۔
[۱۱] مامقانی، عبد الله، مستدرکات مقباس الہدایۃ، ج۵، ص۹۲۔
[۱۲] مامقانی، عبد الله، مستدرکات مقباس الہدایۃ، ج۶، ص۱۴۷-۱۴۸۔


حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. اسدی جزائری، عبدالنبی بن سعد الدین، حاوی الاقوال فی معرفۃ الرجال، ج۱، ص۹۸۔    
۲. کلباسی، ابو الہدی، سماء المقال، ج۲، ص۲۵۴۔    
۳. ہبہانی، وحید، فوائد الحائریۃ، ص۱۲۰۔    
۴. نوری، حسین، مستدرک الوسائل، ج۳، ص۴۷۶۔    
۵. مامقانی، عبد الله، مقباس الہدایۃ، ج۲، ص۱۶۷۔    
۶. مامقانی، عبد الله، مقباس الہدایۃ، ج۲، ص۱۶۶-۱۶۹۔    
۷. سبحانی، جعفر، اصول الحدیث و احکامہ، ص۱۵۴۔    
۸. مامقانی، عبد الله، مقباس الہدایۃ، ج۲، ص۱۶۷۔    
۹. طریحی، فخر الدین، جامع المقال، ص۲۶۔    
۱۰. نوری، حسین، مستدرک الوسائل، ج۷، ص۶۸۔    
۱۱. مامقانی، عبد الله، مستدرکات مقباس الہدایۃ، ج۵، ص۹۲۔
۱۲. مامقانی، عبد الله، مستدرکات مقباس الہدایۃ، ج۶، ص۱۴۷-۱۴۸۔
۱۳. مازندرانی، محمد بن اسماعیل، منتہی المقال، ج۱، ص۵۸۔    
۱۴. صدر، سید حسن، نہایۃ الدرایۃ، ص۳۹۷۔    
۱۵. مشکینی، ابو الحسن، وجیزة فی علم الرجال، ص۷۸۔    
۱۶. حر عاملی، محمد حسن، وسائل الشیعۃ، ج۲۰، ص۱۱۴۔    


مأخذ

[ترمیم]

پایگاه مدیریت اطلاعات علوم اسلامی، یہ تحریر مقالہ صحیح الحدیث سے مأخوذ ہے، مشاہدہِ لنک کی تاریخ ۱۳۹۶/۱۰/۲۔    






جعبه ابزار