صراط مستقیم
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
قرآن کریم کی متعدد اوصاف میں سے ایک صفت اس کا
صراط مستقیم ہونا ہے جسے
سورہ حمد آیت چھ میں ذکر کیا گیا ہے۔
[ترمیم]
طبرسی نے
اهدنا الصراط المستقیم کی تفسیر میں
پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و|آلہ) اور
امام علی(علیہ السلام)، سے روایت نقل کی ہے جس میں آیا ہے کہ صراط مستقیم سے مراد قرآن کریم ہے۔
زرکشی اور
سیوطی نے
سورہ انعام کی آیت ۱۵۳ کے مطابق
صراط مستقیم کو
قرآن کریم کے اسامی میں سے ایک
اسم قرار دیا ہے۔
و انّ هذا صراطى مستقیماً فاتبعوه۔[ترمیم]
قرآن کریم کو اس لیے
صراط مستقیم کہا گیا ہے کیونکہ یہ
بشر کو مستقیم اور بغیر کسی کجی کے جاویدانہ سعادت یعنی خوشنودی
خداوند عالم کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔
امام خمینی نے اس مطلب پر عارفانہ نگاہ ڈالتے ہوۓ صراط مستقیم کی دو اقسام بیان کی ہیں؛
۱)
صراط مستقیم وجودی: اس سے مراد یہ ہے کہ تمام موجودات اپنی تعیناتی کے مرتبہ پر سیر صعودی سے خارج نہیں ہو سکتے یعنی سب موجودات صراط مستقیم پر ہیں۔ اس پر دلیل دیتے ہوۓ امام قرآن کریم کی آیت پیش کرتے ہیں جس میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:
ما من دابه الّا هو آخذ بناصیتها انّ ربی علی صراط مستقیم؛ کوئی جاندار ایسا نہیں جس کی پیشانی اللہ کی گرفت میں نہ ہو، بیشک میرا رب سیدھے راستے پر ہے۔
امام معتقد ہیں کہ تمام موجودات کا ایک خاص صراط ہے جس پر وہ رواں دواں ہیں۔ اس بنا پر ان کے نزدیک اس عالم دنیا کے ہر موجود کا عالم کثرت سے غیب کی طرف رجوع صراط مستقیم سے تعبیر ہے۔
۲)
صراط مستقیم سلوکی: اس سے مراد سالکان الی اللہ کا سیر و سلوک ہے۔ اس لیے یہ ایک خاص ہدایت ہے جس کی طرف
انبیاء(علیہم السلام) لوگوں کو دعوت دیتے ہیں تاکہ وہ انسانیت اور نور مطلق تک پہنچ جائیں اور ہر قسم کے کفر و ظلم سے خارج ہو جائیں۔
یہ وہی صراط ہے جس کا متون دینی اور روایات میں ذکر ہوا ہے اور اسے باریک ترین راہ قرار دیا گیا ہے جو جہنم سے ہوتے ہوۓ گزرتا ہے۔ اس صراط میں جو وارد نہیں ہوۓ جن کو امام نے غیر کاملان کی تعبیر سے یاد کیا ہے ان کے لیے یہ صراط ظاہر شریعت یعنی دین و اسلام کی صورت میں ہے اور جو افراد اس صراط میں وارد ہو گئے ان کے لیے صراط نزدیک ترین راہ ہے جس کے ذریعے وہ خدا کی طرف سفر کر سکتے ہیں اور یہ راہ
اہلبیت(علیہم السلام) کا راہ ہے۔
امام خمینی اس صراط کی مزید تشریح کرتے ہوۓ فرماتے ہیں کہ یہ وہی راہ ہے جس پر انسان کامل کا رب ہے۔ کیونکہ
حق تعالی اسم جامع کے مقام پر ہوتے ہوۓ صراط مستقیم پر ہے اور اسم جامع
مقام وسطیت و جامعیت اسماء ہے۔ یعنی وہ مقام جہاں کسی صفت کو کسی دوسری صفت پر برتری حاصل نہیں اور کسی اسم کو کسی دوسرے اسم پر غلبہ حاصل نہیں۔ اس بنا پر
انسان کامل بھی اس لحاظ سے کہ وہ تمام اسماء و
صفات الہی کا مظہر و
مربوب حق ہونے کی بنا پر اسم جامع ہے اور اس پر اسماء میں سے کسی ایک اسم کا بھی غلبہ کا تصرف نہیں اس لیے وہ صاحب
مقام وسطیت و
برزخیت کبری پر فائز ہے اس لیے اس کی سیر صراط مستقیم کے طریق پر ہے۔
امام معتقد ہیں کہ صراط درحقیقت عالم طبیعت میں انسان کے باطن کی حرکت کا نام ہے اور یہ اس عالم میں ظہور کرے گی۔ اس صراط کا آغاز عالم دنیا سے ہے اور اس کی دوسری طرف بہشت یعنی
مقام الوہیت ہے۔ اور اگر اس صراط سے کوئی منحرف ہو جاتا ہے تو اس کا انجام
جہنم ہے۔ اور وہ روایات جن میں وارد ہوا ہے کہ صراط مستقیم جہنم کے راستے سے گزرتی ہے تو اس کا معنی یہ ہے کہ صراط اس کے مرکز میں ہے۔ جہنم اور آگ صراط پر محیط ہیں اور جب
اولیاء الہی اس سے گزرتے ہیں تو وہ خاموش ہو جاتی ہے اس معنی میں کہ آگ خود انسان کے فعل سے سرچشمہ پکڑتی ہے اور وہ مومن کی ذات میں بجھ جاتی ہے۔
[ترمیم]
طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیرالقرآن، ج۱، ص۲۸۔ طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیرالقرآن، ج۲، ص۱۵۔ فخر رازی، محمد بن عمر، التفسیرالکبیر، ج۱، ص۲۵۶۔ سیوطی، عبد الرحمان بن ابی بکر، الاتقان فی علوم القرآن، ج۱، ص ۱۷۹رامیار، محمود، تاریخ قرآن، ص۳۱۔ محمد باقر، پژوہشی درتاریخ قرآن کریم، ص ۲۶۔ [ترمیم]
[ترمیم]
•
اطلاعات ومدارک اسلامی۔ • دانشنامہ امام خمینی، تہران، موسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، ۱۴۰۰ شمسی۔