طلاق مبارات

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



طلاقِ مبارات سے مراد وہ طلاق ہے جو اس وقت دی جائے جب زوجہ اپنے شوہر سے اس قدر نفرت کرے کہ اس بات پر راضی ہو جائے وہ کچھ رقم دے کر اپنے شوہر سے آزاد ہو جانا چاہتی ہے۔


مبارات کا معنی

[ترمیم]

مبارات کا معنی ایک دوسرے سے بیزار ہونا اور ایک دوسرے سے نفرت کرنا ہے۔ طلاقِ مبارات کا طلاقِ خلع سے فرق یہ ہے کہ طلاقِ مبارات میں میاں بیوی ہر دو ایک دوسرے سے بیزار ہوتے ہیں جبکہ طلاقِ خلع میں نفرت اور بیزاری فقط بیوی کی طرف سے ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے طلاقِ مبارات میں طلاق کے عوض میں دی جانے والی رقم حق مہر سے زیادہ نہیں ہو سکتی۔

قرآن کریم میں مبارات کا بیان

[ترمیم]

طلاق مبارات شرعی حیثیت رکھتی ہے اور قرآنی آیات سے اس پر استدلال قائم کیا گیا ہے۔ قرآن کریم میں ارشادِ باری تعالی ہوتا ہے: الطَّلاقُ مَرَّتانِ فَإِمْساكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْريحٌ بِإِحْسانٍ وَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً إِلاَّ أَنْ يَخافا أَلاَّ يُقيما حُدُودَ اللَّهِ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ يُقيما حُدُودَ اللَّهِ فَلا جُناحَ عَلَيْهِما فيمَا افْتَدَتْ بِه‌؛ طلاق دو مرتبہ ہے، اس کے بعد نیکی کے ساتھ روک لیا جائے گا یا اچھے برتاؤ کے ساتھ آزاد کر دیا جائے گا، اور تمہارے لیے جائز نہیں ہے کہ جو کچھ تم نے انہیں دے دیا ہو وہ لے لو سوائے اس کے کہ دونوں کو یہ خوف و خدشہ ہو کہ وہ دونوں اللہ کی حدود کی پاسداری نہیں کر سکیں گے، پس اگر تمہیں یہ ڈر ہے کہ دونوں اللہ کی حدود کی پاسداری نہیں کر پائیں گے تو دونوں اس فدیہ میں آزاد ہیں جو خاتون مرد کو دے گی۔ طلاقِ مبارات میں شرط ہے کہ مرد اور اس کی زوجہ ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہوں ۔ آیت کریمہ کا یہ حصہ إِلاَّ أَنْ يَخافا أَلاَّ يُقيما حُدُودَ اللَّهِکا معنی یہ ہے کہ ظنِ غالب یہ ہو کہ شوہر اور اس کی بیوی ایک دوسرے سے نفرت کی وجہ سے دینی واجبات اور محرمات کی رعایت نہیں کر سکتے اور اخلاقی طور پر ایک دوسرے سے اس قدر دور ہو گئے ہیں کہ کینہ و بغض کی وجہ سے ایک دوسرے کے قریب نہیں آ سکتے۔

طلاق مبارات طلاق بائن ہے

[ترمیم]

طلاق مبارات میں شوہر اپنی زوجہ کی طرف رجوع نہیں کر سکتا کیونکہ یہ طلاقِ بائن شمار ہوتی ہے۔ البتہ اگر زوجہ عدتِ طلاق سے پہلے فدیہ کی طرف رجوع کر لے تو اس صورت میں شوہر زوجہ کی طرف رجوع کر سکتا ہے۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. بقره/سوره۲، آیت ۲۲۹۔    
۲. مقدس اردبیلی، احمد بن محمد‌، زبدة البیان، ج۱، ص۶۰۵۔    
۳. طباطبائی، محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ج۲، ص۲۳۴۔    
۴. خمینی، سید روح اللہ، تحریر الوسیلۃ، ج ۲، ص ۳۸۰۔    
۵. خوئی، سید ابو القاسم، منہاج الصالحین، ج ۲، ص ۳۰۸۔    


مأخذ

[ترمیم]

مرکز فرہنگ و معارف قرآن، فرہنگ قرآن، ج۱۱، ص۴۵۳، مقالہِ حکمِ طلاق سے یہ تحریر لی گئی ہے۔    






جعبه ابزار