عثمان، نبی کریمؐ کی دو صاحبزادیوں کا قاتل؟!

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



اہل سنت کی متعدد کتبِ احادیث میں عثمان بن عفان کا جو سب سے بڑا افتخار ذکر کیا جاتا ہے وہ رسول اللہ ﷺ کی دو بیٹیوں رقیہ اور ام کلثوم یا بعض کتب کے مطابق زینب سے نکاح کا ہونا اور رسول اللہ ﷺ کی دامادی کا شرف حاصل ہونا ہے۔ شیعہ و سنی کتب احادیث و تواریخ میں بعض ایسے شواہد ہمیں ملتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عثمان نے جناب رقیہ کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا اور مختلف قسم کے درد و الآم میں مبتلا کیا جن کی تاب نہ لاتے ہوئے رقیہ اس دنیا سے چل بسیں اور ان کا قتل ان کے شوہر عثمان کی گردن پر آیا۔ زیر نظر تحریر میں اس موضوع سے مربوط شواہد پر تبصرہ کیا جائے گا۔


مقدمہ

[ترمیم]
اہل سنت کی کثیر کتبِ روائی میں عثمان کا سب سے بڑا افتخار رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادیوں سے نکاح اور دامادی کو ذکر کیا گیا ہے۔ اس وجہ سے اہل سنت خلیفہ سوم کو ذو النورین کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔ کتبِ اہل سنت میں یہ بھی وارد ہوا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی دونوں بیٹیوں کی وفات پر یہ فرمایا: اگر میری دس بیٹیاں بھی ہوتیں تو میں ان کا عقد عثمان بن عفان سے کرتا۔ لیکن اس کے برعکس ہمیں فریقین کی کتب میں بعض ایسے شواہد دکھائی دیتے ہیں جس کے مطابق رسول اللہ ﷺ سے منسوب دختر جن کا نام رقیہ تھا خلیفہ سوم کے عقد میں تھیں اور عثمان کے ظلم و ستم کی تاب نہ لاتے ہوئے موت سے ہمکنار ہوئیں۔ نیز دس بیٹیوں والا قول بھی معتبر دکھائی نہیں دیتا کیونکہ جناب فاطمہ علیہا السلام کا ازدواج خود رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالی کے حکم سے امام علیؑ سے کیا اور موقع ہوتے ہوئے آنحضرت ﷺ نے عثمان سے ان کا نکاح نہیں کیا۔

جناب رقیہ کی رسول اللہ ﷺ سے نسبت

[ترمیم]

علماء و مؤرخین میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ رقیہ اور ام کلثوم یا زینب نامی دو بیٹیاں آیا رسول اللہ ﷺ کی بیٹیاں تھیں یا جناب خدیجہؑ کی بہن ہالہ کی بیٹیاں تھیں؟ یعنی یہ رسول اللہ ﷺ کی سگی بیٹیاں تھیں یا ربائب یعنی لے پالک ہونے کی بناء پر بیٹی ہونے کی نسبت معاشرے نے دی ہوئی تھی؟ یہ مسئلہ قابل تحقیق ہے۔ محققین نے تحقیقی قول پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ بیٹیاں جناب خدیجہؑ کی بہن ہالہ کی بیٹیاں تھیں۔ ہالہ کے شوہر جلد فوت گئے اور ان کا نان نفقہ اٹھانے والا کوئی موجود نہیں تھا تو جناب خدیجہؑ ہے اپنی بہن کو ان کے بچوں سمیت اپنے گھر میں منتقل کر دیا۔ عربوں میں رائج تھا کہ وہ جو بچے کسی کے گھر میں نشوونما پاتے ہیں وہ گھر کے مرد کی طرف اولاد کے عنوان سے منسوب کر دیئے جاتے تھے۔ اس بناء پر انہیں رسول اللہ ﷺ کی بیٹیاں کہا جاتا ہے۔ حقیقت میں وہ رسول اللہ ﷺ کی بیٹیاں نہیں تھیں۔ اس کے مقابلے میں دوسرا قول یہ ہے کہ احادیث اور سیر و تواریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی متعدد بیٹیاں تھیں اگرچے میں جناب فاطمہؑ کی مانند کوئی بیٹی موجود نہیں تھی۔ خلاصہِ کلام دونوں میں سے جو بات بھی درست ہو بعض شیعہ کتب میں وارد ہوا ہے کہ حضرت عثمان نے اپنی اہلیہ جناب رقیہ کو قتل کیا۔ اس کے کچھ شواہد اہل سنت کتب سے بھی مل جاتے ہیں۔

دختر رسول ﷺ کے قتل شواہد کتب شیعہ سے

[ترمیم]

ذیل میں شیعہ کتب احادیث سے چند شواہد پیش کیے جا رہے ہیں جو دلالت کرتے ہیں کہ جناب رقیہ کو خلیفہ سوم نے قتل کیا تھا جس پر نبی اکرم ﷺ عثمان پر شدید برہم ہوئے اور عثمان کو جنازے سے واپس بھیج دیا یا مراسم جنازہ انجام نہیں دینے دئیے۔ ذیل میں ہم الکافی کی تفصیلی حدیث پیش کر رہے ہیں جس میں اس ماجرا کی تفصیلات مذکور ہیں:

← اصول کافی کی معتبر روایت


شیخ کلینی نے الکافی میں معتبر سند سے روایت نقل کی ہے جس میں ابو بصیر امام صادقؑ سے سوال کرتے ہیں۔ یہ روایت کلینی نے اس سند کے ساتھ نقل کی ہے: عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عِيسَى عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي حَمْزَةَ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع أَ يُفْلِتُ‌ مِنْ ضَغْطَةِ الْقَبْرِ أَحَدٌ قَالَ فَقَالَ نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْهَا مَا أَقَلَّ مَنْ يُفْلِتُ مِنْ ضَغْطَةِ الْقَبْرِ! إِنَّ رُقَيَّةَ لَمَّا قَتَلَهَا عُثْمَانُ‌ وَقَفَ رَسُولُ اللَّهِ ص عَلَى قَبْرِهَا فَرَفَعَ رَأْسَهُ إِلَى السَّمَاءِ فَدَمَعَتْ عَيْنَاهُ وَ قَالَ لِلنَّاسِ إِنِّي ذَكَرْتُ هَذِهِ وَمَا لَقِيَتْ فَرَقَقْتُ لَهَا وَاسْتَوْهَبْتُهَا مِنْ ضَمَّةِ الْقَبْرِ قَالَ، فَقَالَ: اللَّهُمَّ هَبْ لِي رُقَيَّةَ مِنْ ضَمَّةِ الْقَبْرِ، فَوَهَبَهَا اللَّهُ لَه؛ ابو بصیر کہتے ہیں میں نے امام صادقؑ سے دریافت کیا کہ کیا کوئی شخص فشارِ قبر سے بچ سکتا ہے ؟ امامؑ نے فرمایا: ہم فشار قبر سے اللہ کی پناہ لیتے ہیں، قشارِ قبر سے بچنے والے کتنے قلیل ہیں !! عثمان نے جب رقیہ کو جب قتل کیا تو رسول اللہ ﷺ ان کی قبر پر تشریف لائے اور آپ ﷺ نے اپنا سر مبارک آسمان کی طرف بلند کیا جبکہ آپ ﷺ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے، آپ ﷺ نے لوگوں سے فرمایا: میں نے اس کا اور جس کا سامنا رقیہ نے کیا ہے اس کی وجہ سے رقیہ کی خاطر مجھ پر رقّت طاری ہو گئی اور میں نے رقیہ کے لیے فشارِ قبر سے چھٹکارا کا تقاضا کیا، آپ ﷺ نے فرمایا: بارِ الہٰا ! رقیہ کو فشارِ قبر سے ۔

← حبیب‌ الله‌ خوئی کا تجزیہ تحلیل


میر حبیب‌ الله‌ ہاشمی موسوی خوئی اپنی کتاب منہاج البرغۃ فی شرح نہج البلاغۃ میں محدث جزائری سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:انّ طوایف العامّة و الخاصّة رووا انّ عثمان قد ضرب رقیة زوجته ضربا مبرحا‌ای مؤلما حتی اثرت السیاط فی بدنها علی غیر جنایة تستحقّها و لما اتت النبیّ صلّی اللّه علیه و آله شاکیة تکلّم علیها، و قال صلّی اللّه علیه و آله و سلّم: لا یلیق بالمرئة ان تشکو من زوجها و امرها بالرّجوع الی منزله، ثمّ کرّر علیه الضرب فاتت النبیّ صلّی اللّه علیه و آله ثمّ ردّها، ثمّ ضربها الضرب الذی کان السبب فی موتها فامر النبیّ صلّی اللّه علیه و آله علیّا ان یخرجها من منزل عثمان فاتی بها الی بیت النبیّ صلّی اللّه علیه و آله و ماتت فیه؛ اہل سنت و شیعہ ہر دو گروہوں نے روایت کیا ہے کہ عثمان نے اپنے زوجہ رقیہ کو بڑے ظالمانہ طریقے سے مارا یہاں تک کہ کوڑوں نے ان کے بدن پر نشان ڈال دیئے جبکہ رقیہ کی کوئی ایسی خطاء نہیں تھی جس کی وہ رویے کی مستحق قرار پائیں۔ رقیہ جب نبی ﷺ کے پاس شکایت لے کر آئیں اور اپنے اوپر ہونے والے تشدد کو بیان کیا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: خاتون کے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ اپنے شوہر کی شکایت کرے اور پھر آپ ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ عثمان کے گھر واپس چلی جائیں، پھر یہی تشدد تکرار تو رقیہ نبی ﷺ کے پاس آئیں ، لیکن آپ ﷺ نے دوبارہ انہیں پلٹا دیا، پھر عثمان نے رقیہ کو اسی طرح سے مارا کہ وہ ضربت ان کی موت کا باعث بن گئی ، ایسی صورت میں نبی ﷺ نے امام علیؑ کو حکم دیا کہ وہ عثمان کے گھر سے رقیہ کو نکال کر واپس لے آئیں، امام علیؑ نے گئے اور رقیہ کو نبی ﷺ کے گھر میں منتقل کر دیا اور آنحضرت ﷺ کے گھر میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دنیا سے چل بسیں۔
[۳] ہاشمی خوئی، سید میر حبیب الله‌، منہاج البراعۃ فی شرح نہج البلاغۃ، ج۳، ص۳۴۔


اہل سنت کی کتابوں سے کچھ مطالب

[ترمیم]

اہل سنت کتب میں جناب رقیہ کے دفن کرنے کا ماجرا مختلف جگہوں میں وارد ہوا ہے جس میں اس واقعہ کی طرف اشارات موجود ہیں۔ ذیل میں اہل سنت کتبِ احادیث سے صحیح السند روایات اور شارحین کے اقوال پیش کیے جاتے ہیں:

← احمد بن حنبل کی روایت


احمد بن حنبل اپنی مسند میں صحیح سند کے ساتھ لکھتے ہیں: ان رقیة رضی الله عنها لما ماتت قال رسول الله صلی الله علیه وسلم لا یدخل القبر رجل قارف اهله، فلم یدخل عثمان بن عفان رضی الله عنه القبر...؛ رقیہ رضی اللہ عنہا جب وفات پا گئیں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: وہ شخص قبر میں داخل نہ ہو جس نے رات اپنے اہل خانہ کے ساتھ ہمبستری کی ہے، پس عثمان بن عفان قبر میں داخل نہیں ہوئے... ۔
[۷] عسقلانی، ابن‌حجر، فتح الباری، ج۳، ص۱۲۷۔


←← صحتِ روایت


حاکم نیشابوری اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:هذا حدیث صحیح علی شرط مسلم ولم یخرجاه؛ یہ حدیث صحیح ہے جوکہ مسلم کی شرط پر ہے لیکن انہوں نے اس کو ذکر نہیں کیا۔ ذہبی نے تلخیص المستدرک میں اس روایت کے صحیح ہونے کا اعتراف کیا ہے۔

← بخاری کی روایت


محمد بن اسماعیل بخاری نے اپنی کتاب صحیح بخاری میں انس بن مالک سے روایت نقل کی ہے:عن انس، قال: شهدنا دفن بنت رسول الله " (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) " ورسول الله (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) جالس علی القبر، فرایت عینیه تدمعان، فقال: هل منکم من احد لم یقارف اللیلة؟ فقال ابوطلحة: انا، فنزل فی قبرها؛انس بیان کرتے ہیں کہ دخترِ رسول اللہ ﷺ کی تدفین کے ہم شاہد ہیں، رسول اللہ ﷺ قبر کے پاس تشریف فرما تھے، میں نے دیکھا ان کی چشم مبارک سے آنسو بہہ رہے تھے، آپ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کون ہے جس نے رات کو اپنی اہلیہ سے ہمبستری نہیں کی، ابو طلحہ نے کہا: میں ہوں جس نے ایسا نہیں کیا، پھر وہ جناب رقیہ کی قبر میں اترے۔

←← ابن بطال کی شرح


ابن‌بطال بخاری کی احادیث شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: أراد النبی (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) ان یحرم عثمان النزول فی قبرها. وقد کان احق بها، لانه کان بعلها. وفقد منهم علقا لا عوض منه، لانه حین قال " (علیه‌السّلام) ": " ایکم لم یقارف اللیلة اهله " سکت عثمان، ولم یقل: انا، لانه کان قد قارف لیلة ماتت بعض نسائه، ولم یشغله الهم بالمصیبة، وانقطاع صهره من النبی (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) عن المقارفة، فحرم بذلک ما کان حقا له، وکان اولی به من ابی‌طلحة وغیره، وهذا بین فی معنی الحدیث. ولعل النبی (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) قد کان علم ذلک بالوحی، فلم یقل له شیئا، لانه فعل فعلا حلالا، غیر ان المصیبة لم تبلغ منه مبلغا یشغله، حتی حرم ما حرم من ذلک، بتعریض دون تصریح؛ نبی ﷺ کا ارادہ یہ تھا کہ وہ جناب رقیہ کی قبر میں عثمان کو اترنے سے منع کر دیں، جبکہ وہ اس کے زیادہ حقدار و سزاوار تھے، کیونکہ عثمان رقیہ کے شوہر تھے اور وہ ان لوگوں کے درمیان واحد تھے جو ایسا تعلق کھو بیٹھے تھے جس کا کوئی عوض نہیں تھا، کیونکہ جب آنحضرت ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کون ہے جس نے رات اپنی زوجہ سے قربت اختیار نہیں کی؟ عثمان خاموش رہے اور یہ نہیں کہا: میں، کیونکہ جس رات جناب رقیہ کی وفات ہوئی انہوں اس رات اپنی بعض زوجات میں سے کسی ایک ساتھ ہمبستری کی تھی، جبکہ یہ مصیبت اور نبی ﷺ کی دامادی کا شرف ختم ہونے کا غم بھی انہیں ہمبستری سے روک نہیں سکا، چنانچہ آپ ﷺ اس وجہ سے اس چیز سے انہیں محروم رکھا جو ان کا حق تھا اور وہ ابو طلحہ اور دیگر افراد کی نسبت اس کے زیادہ مستحق تھے، اور یہ مطلب حدیث کے معنی سے واضح ہے، شاید نبی ﷺ کو وحی کی ذریعے اس کا علم ہوا تھا، البتہ آپ ﷺ نے عثمان کو کچھ نہیں کہا کیونکہ انہوں نے حلال عمل انجام دیا تھا، حالانکہ مصیبت انہیں اس حد تک نہیں پہنچا سکی کہ وہ ہمبستری کو ترک کر دیتے، یہاں تک کہ آنحضرت ﷺ نے اشارہ کنایہ میں اس شیء سے انہیں محروم کر دیا جس سے انہیں محروم ہونا چاہیے تھا، البتہ آنحضرت ﷺ نے صراحت کے ساتھ منع نہیں فرمایا۔

←← طحاوی کا شرح


بخاری کی بیان کردہ روایت کو طحاوی نے اس طرح سے نقل کیا ہے: فیه: اَنَس، قَالَ: شَهِدْنَا بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) وَرَسُولُ اللَّهِ (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) جَالِسٌ عَلَی الْقَبْرِ، فَرَاَیْتُ عَیْنَیْهِ تَدْمَعَانِ، فَقَالَ: هَلْ فِیکُمْ مِنْ اَحَدٍ لَمْ یُقَارِفِ اللَّیْلَةَ؟ فَقَالَ ابوطَلْحَةَ: اَنَا، قَالَ: فَانْزِلْ فِی قَبْرِهَا، قَالَ ابن‌مُبَارَکٍ: قَالَ فُلَیْحٌ اُرَاهُ یَعْنِی: الذَّنْبَ؛ انس کہتے ہیں کہ ہم نے دختر رسول اللہ ﷺ کی تدفین میں شرکت کی اور رسول اللہ ﷺ قبر کے پاس تشریف فرما تھے، میں نے دیکھا کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تم میں کوئی ایسا ہے جس نے رات کو اپنی زوجہ سے ہمبستری نہ کی ہو، ابو طلحہ نے کہا: میں ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا: رقیہ کی قبر میں اترو، ابن مبارک کہتے ہیں: فُلیح کہتے ہیں میری نظر میں عثمان نے ایسا کیا ہے، یعنی انہوں نے گںاہ کیا ہے۔
[۱۴] طحاوی، احمد بن محمد بن سلامۃ، شرح مشکل الاثار، ج۶، ص۳۲۳۔


←← ابن‌حزم کی تشریح


بخاری کی مندرجہ بالا حدیث کے ذیل میں ابن حزم اندلسی اپنی کتاب المحلی میں لکھتے ہیں:۵۸۵ - مَسْاَلَةٌ - وَاَحَقُّ الناس بِاِنْزَالِ الْمَرْاَةِ فی قَبْرِهَا من لم یَطَاْ تِلْکَ اللَّیْلَةَ، مسئلہ ۵۸۵: زوجہ کی قبر میں اترنے کا سب سے زیادہ حقدار وہ ہے جس نے رات کو ہمبستری نہ کی ہو۔

روایات کا نتیجہ

[ترمیم]

شیعہ و سنی کتب میں وارد ہونے والے تمام بیانات و موارد سے اگر استفادہ کریں تو اس واقعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جناب رقیہ کو قتل کیا گیا۔ اس واقعہ کی اگر تحلیل کی جائے تو درج نکات کے ذیل میں ہم اس ماجرا کو اہم دلائل سے سمجھ سکتے ہیں:

← معاویہ بن مغیرہ کا عثمان سے رابطہ


ابن حجر عسقلانی نے اور دیگر علماء رجال نے نقل کیا ہے:معاویة بن المغیرة بن ابی‌العاص الاموی فهذا الرجل کان مع قریش فی معرکة احد التی انتصر فیها المشرکون. ثم قام مع هند بنت عتبة بتمزیق اوصال حمزة سید الشهداء؛ معاویہ بن مغیرہ بن ابی العاص کا تعلق بنی امیہ سے تھا، اس نے جنگ احد میں مشرکین کی ہمراہی میں جنگ لڑی تھی اور مشرکین کی کامیابی کے بعد اس شخص نے ہند بنت عتبہ جوکہ ابو سفیان کی زوجہ تھی کے ساتھ مل کر سید الشہداء جناب حمزہؑ کا مُثلہ کیا تھا۔
[۱۸] عسقلانی، ابن‌ حجر، الاصابۃ، ج۸، ص۲۳۷۔
اس کے بعد معاویہ بن مغیرہ کو عثمان نے اپنے گھر میں چھپا لیا تاکہ اس کی جان بچ سکے اور رسول اللہ ﷺ سے اس کی بخشش کی سفارش کی۔ اس واقعہ کو ابن کثیر اور دیگر مؤرخین نے اس طرح سے نقل کیا ہے:فنزل جبرئیل من السماء وأخبر الرسول (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) باخفاء عثمان لمعاویة فی بیته، فارسل (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) مجموعة من الصحابة الی بیت عثمان فاخرجوا معاویة منه، وجاءوا به الی رسول الله (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم). فجاء عثمان وتوسل برسول الله (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) للصفح عن معاویة، فترکه (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) وامهله ثلاثة ایام للخروج من المدینة واقسم النبی (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) علی قتله ان وجده فی اطرافها، وسار رسول الله (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) الی حمراء الاسد. لکنه لم یخرج منها وبقی فی اطراف المدینة یتجسس اخبار جیوش المسلمین! فاخبر جبرائیل رسول الله (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) بذلک فارسل علیا (علیه‌السّلام) وعمارا فقتله علی (علیه‌السّلام)؛ آسمان سے جبرئیلؑ نازل ہوئے اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو خبر دی کہ عثمان نے معاویہ بن مغیرہ کو اپنے گھر میں چھپایا ہوا ہے، پس آپ ﷺ نے صحابہ کی ایک جماعت عثمان کے گھر بھیجی، انہوں نے معاویہ کو وہاں سے نکالا اور پکڑ کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لے آئے، عثمان فورا آنحضرت ﷺ کی خدمت میں آئے اور رسول اللہ ﷺ سے سفارش کی کہ وہ معاویہ سے درگزر فرمائیں، آنحضرت ﷺ نے اسے چھوڑ دیا اور اس کو تین دن کی مہلت دی کہ وہ مدینہ سے نکل جائے، نبی ﷺ نے قسم کھائی کہ اگر یہ مدینہ کے اطراف میں نظر آیا تو اس کو قتل کر دیا جائے گا، رسول اللہ ﷺ حمراء الاسد کی طرف چل دئیے لیکن مدینہ سے باہر نہیں گئے اور مدینہ کے اطراف میں قیام فرمایا۔ مسلمانوں کے لشکروں کی خبریں معلوم کرتے رہے۔ اسی دوران جبرئلؑ نے رسول اللہ ﷺ کو خبر کہ وہ یہاں ہے، آپ ﷺ نے امام علیؑ اور جناب عمار بھیجا کہ وہ اس کو قتل کر دیں، امام علیؑ آگے بڑھے اور انہوں اسے قتل کر دیا۔

← رقیہ پر ظلم و گالم گلوچ کی وجہ


الکافی میں شیخ کلینی نے اپنے طریق سے امام جعفر صادقؑ سے ان الفاظ میں روایت نقل کی ہے:عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ وَ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْكُوفِيُّ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِهِ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَحْيَى عَنْ يَزِيدَ بْنِ خَلِيفَةَ الْخَوْلَانِيِّ وَ هُوَ يَزِيدُ بْنُ خَلِيفَةَ الْحَارِثِيُّ قَالَ: سَأَلَ عِيسَى بْنُ عَبْدِ اللَّهِ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع وَ أَنَا حَاضِرٌ فَقَالَ تَخْرُجُ‌ النِّسَاءُ إِلَى‌ الْجَنَازَةِ وَ كَانَ ع مُتَّكِئاً فَاسْتَوَى جَالِساً ثُمَّ قَالَ إِنَّ الْفَاسِقَ عَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ آوَى عَمَّهُ الْمُغِيرَةَ بْنَ أَبِي الْعَاصِ وَ كَانَ مِمَّنْ هَدَرَ رَسُولُ اللَّهِ ص دَمَهُ فَقَالَ لِابْنَةِ رَسُولِ اللَّهِ ص لَا تُخْبِرِي أَبَاكِ بِمَكَانِهِ كَأَنَّهُ لَا يُوقِنُ أَنَّ الْوَحْيَ يَأْتِي مُحَمَّداً فَقَالَتْ مَا كُنْتُ لِأَكْتُمَ رَسُولَ اللَّهِ ص عَدُوَّهُ فَجَعَلَهُ بَيْنَ مِشْجَبٍ لَهُ وَ لَحَفَهُ بِقَطِيفَةٍ فَأَتَى رَسُولَ اللَّهِ ص الْوَحْيُ فَأَخْبَرَهُ بِمَكَانِهِ فَبَعَثَ إِلَيْهِ عَلِيّاً ع وَ قَالَ اشْتَمِلْ عَلَى سَيْفِكَ ائْتِ بَيْتَ ابْنَةِ ابْنِ عَمِّكَ فَإِنْ ظَفِرْتَ بِالْمُغِيرَةِ فَاقْتُلْهُ فَأَتَى الْبَيْتَ فَجَالَ فِيهِ فَلَمْ يَظْفَرْ بِهِ فَرَجَعَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ص فَأَخْبَرَهُ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَمْ أَرَهُ فَقَالَ إِنَّ الْوَحْيَ قَدْ أَتَانِي فَأَخْبَرَنِي أَنَّهُ فِي الْمِشْجَبِ وَ دَخَلَ عُثْمَانُ بَعْدَ خُرُوجِ عَلِيٍّ ع فَأَخَذَ بِيَدِ عَمِّهِ فَأَتَى بِهِ إِلَى النَّبِيِّ ص فَلَمَّا رَآهُ أَكَبَّ عَلَيْهِ‌ وَ لَمْ يَلْتَفِتْ إِلَيْهِ وَ كَانَ نَبِيُّ اللَّهِ ص حَيِيّاً كَرِيماً فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذَا عَمِّي هَذَا الْمُغِيرَةُ بْنُ أَبِي الْعَاصِ وَفَدَ وَ الَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ آمَنْتَهُ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع وَ كَذَبَ وَ الَّذِي بَعَثَهُ بِالْحَقِّ مَا آمَنَهُ فَأَعَادَهَا ثَلَاثاً وَ أَعَادَهَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع ثَلَاثاً أَنَّى آمَنَهُ إِلَّا أَنَّهُ يَأْتِيهِ عَنْ يَمِينِهِ ثُمَّ يَأْتِيهِ عَنْ يَسَارِهِ فَلَمَّا كَانَ فِي الرَّابِعَةِ رَفَعَ رَأْسَهُ إِلَيْهِ فَقَالَ لَهُ قَدْ جَعَلْتُ لَكَ ثَلَاثاً فَإِنْ قَدَرْتُ عَلَيْهِ بَعْدَ ثَالِثَةٍ قَتَلْتُهُ فَلَمَّا أَدْبَرَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص- اللَّهُمَّ الْعَنِ الْمُغِيرَةَ بْنَ أَبِي الْعَاصِ وَ الْعَنْ مَنْ يُؤْوِيهِ وَ الْعَنْ مَنْ يَحْمِلُهُ وَ الْعَنْ مَنْ يُطْعِمُهُ وَ الْعَنْ مَنْ يَسْقِيهِ وَ الْعَنْ مَنْ يُجَهِّزُهُ وَ الْعَنْ مَنْ يُعْطِيهِ سِقَاءً أَوْ حِذَاءً أَوْ رِشَاءً أَوْ وِعَاءً وَ هُوَ يَعُدُّهُنَّ بِيَمِينِهِ وَ انْطَلَقَ بِهِ عُثْمَانُ فَآوَاهُ وَ أَطْعَمَهُ وَ سَقَاهُ وَ حَمَلَهُ وَ جَهَّزَهُ حَتَّى فَعَلَ جَمِيعَ مَا لَعَنَ عَلَيْهِ النَّبِيُّ ص مَنْ يَفْعَلُهُ بِهِ ثُمَّ أَخْرَجَهُ فِي الْيَوْمِ الرَّابِعِ يَسُوقُهُ فَلَمْ يَخْرُجْ مِنْ أَبْيَاتِ الْمَدِينَةِ حَتَّى أَعْطَبَ اللَّهُ رَاحِلَتَهُ وَ نُقِبَ حِذَاهُ وَ وَرِمَتْ قَدَمَاهُ فَاسْتَعَانَ بِيَدَيْهِ وَ رُكْبَتَيْهِ وَ أَثْقَلَهُ جَهَازُهُ حَتَّى وَجَسَ بِهِ فَأَتَى شَجَرَةً فَاسْتَظَلَّ بِهَا لَوْ أَتَاهَا بَعْضُكُمْ مَا أَبْهَرَهُ ذَلِكَ‌ فَأَتَى رَسُولَ اللَّهِ ص الْوَحْيُ فَأَخْبَرَهُ بِذَلِكَ فَدَعَا عَلِيّاً ع فَقَالَ خُذْ سَيْفَكَ وَ انْطَلِقْ أَنْتَ وَ عَمَّارٌ وَ ثَالِثٌ لَهُمْ فَأْتِ الْمُغِيرَةَ بْنَ أَبِي الْعَاصِ تَحْتَ شَجَرَةِ كَذَا وَ كَذَا فَأَتَاهُ عَلِيٌّ ع فَقَتَلَهُ فَضَرَبَ عُثْمَانُ بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ ص وَ قَالَ أَنْتِ أَخْبَرْتِ أَبَاكِ بِمَكَانِهِ فَبَعَثَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ص تَشْكُو مَا لَقِيَتْ فَأَرْسَلَ إِلَيْهَا رَسُولُ اللَّهِ ص اقْنَيْ حَيَاءَكِ مَا أَقْبَحَ بِالْمَرْأَةِ ذَاتِ حَسَبٍ وَ دِينٍ فِي كُلِّ يَوْمٍ تَشْكُو زَوْجَهَا فَأَرْسَلَتْ إِلَيْهِ مَرَّاتٍ كُلَّ ذَلِكَ يَقُولُ لَهَا ذَلِكَ فَلَمَّا كَانَ فِي الرَّابِعَةِ دَعَا عَلِيّاً ع وَ قَالَ خُذْ سَيْفَكَ وَ اشْتَمِل‌ عَلَيْهِ ثُمَّ ائْتِ بَيْتَ ابْنَةِ ابْنِ عَمِّكَ فَخُذْ بِيَدِهَا فَإِنْ حَالَ بَيْنَكَ وَ بَيْنَهَا أَحَدٌ فَاحْطِمْهُ‌ بِالسَّيْفِ وَ أَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ ص كَالْوَالِهِ مِنْ مَنْزِلِهِ إِلَى دَارِ عُثْمَانَ فَأَخْرَجَ عَلِيٌّ ع ابْنَةَ رَسُولِ اللَّهِ فَلَمَّا نَظَرَتْ إِلَيْهِ رَفَعَتْ صَوْتَهَا بِالْبُكَاءِ وَ اسْتَعْبَرَ رَسُولُ اللَّهِ ص وَ بَكَى ثُمَّ أَدْخَلَهَا مَنْزِلَهُ وَ كَشَفَتْ عَنْ ظَهْرِهَا فَلَمَّا أَنْ رَأَى مَا بِظَهْرِهَا قَالَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ مَا لَهُ قَتَلَكِ قَتَلَهُ اللَّهُ وَ كَانَ ذَلِكَ يَوْمَ الْأَحَدِ وَ بَاتَ عُثْمَانُ مُلْتَحِفاً بِجَارِيَتِهَا فَمَكَثَ الْإِثْنَيْنَ وَ الثَّلَاثَاءَ وَ مَاتَتْ فِي الْيَوْمِ الرَّابِعِ فَلَمَّا حَضَرَ أَنْ يَخْرُجَ بِهَا أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ ص فَاطِمَةَ ع فَخَرَجَتْ ع وَ نِسَاءُ الْمُؤْمِنِينَ مَعَهَا وَ خَرَجَ عُثْمَانُ يُشَيِّعُ جَنَازَتَهَا فَلَمَّا نَظَرَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ ص قَالَ مَنْ أَطَافَ الْبَارِحَةَ بِأَهْلِهِ أَوْ بِفَتَاتِهِ فَلَا يَتْبَعَنَّ جَنَازَتَهَا قَالَ ذَلِكَ ثَلَاثاً فَلَمْ يَنْصَرِفْ فَلَمَّا كَانَ فِي الرَّابِعَةِ قَالَ لَيَنْصَرِفَنَّ أَوْ لَأُسَمِّيَنَّ بِاسْمِهِ فَأَقْبَلَ عُثْمَانُ مُتَوَكِّئاً عَلَى مَوْلًى لَهُ مُمْسِكاً بِبَطْنِهِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أَشْتَكِي بَطْنِي فَإِنْ رَأَيْتَ أَنْ تَأْذَنَ لِي أَنْصَرِفُ قَالَ انْصَرِفْ وَ خَرَجَتْ فَاطِمَةُ ع وَ نِسَاءُ الْمُؤْمِنِينَ وَ الْمُهَاجِرِينَ فَصَلَّيْنَ عَلَى الْجِنَازَةِ؛ یزید بن خلیفہ حارثی بیان کرتے ہیں کہ عیسی بن عبد اللہ نے امام صادقؑ سے سوال کیا جبکہ میں ان کے پاس موجود تھا، اس نے پوچھا: کیا خواتین جنازے میں شرکت کے لیے نکل سکتیں ہیں؟ امامؑ ٹیک لگائے ہوئے تھے، یہ سن کر سیدھے ہو کر تشریف فرما ہو گئے اور فرمایا: فاسق - اس پر اللہ کی لعنت ہو - نے اپںے چچا (معاویہ بن) مغیرہ بن ابی العاص کو پناہ دی جبکہ رسول اللہ ﷺ نے اس کا خون حلال قرار دے دیا تھا اور رسول اللہ ﷺ کی بیٹی سے کہا: اپنے والد کو اس کی خبر نہ دینا، گویا کہ اس کو یقین نہیں تھا کہ محمد ﷺ پر وحی نازل ہوتی ہے، آنحضرت ﷺ کی بیٹی نے کہا: میں رسول اللہ ﷺ سے ان کے دشمن کو پوشیدہ نہیں رکھ سکتی، اس (فاسق) نے ابن مغیرۃ کو اپںے کپڑے لٹکانے کی جگہ پر چھپا دیا اور اس کو اپنے کپڑوں سے ڈھانپ دیا، اتنے میں رسول اللہ ﷺ پر وحی نازل ہوئی اور جبرئیلؑ نے آپ ﷺ کو اس کے مخفی گاہ کی خبر دی، آپ ﷺ نے امام علیؑ کو اس کی طرف بھیجا اور فرمایا:کہ اپنی تلوار کو اپنے ہمراہ لے لو اور اپنے چچا زاد کی بیٹی کے گھر جاؤ ، اگر وہاں (معاویہ بن) مغیرۃ کو پا لیا تو اس کو قتل کر دو، امامؑ ان کے گھر تشریف لائے اور گھر میں کافی ڈھونڈا لیکن انہیں (معاویہ بن ) مغیرہ نہیں ملا، آپؑ واپس رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں لوٹ آئے اور انہیں سارا ماجرا سنایا اور فرمایا: اے اللہ کے رسول ﷺ وہ مجھے نہیں ملا، آپ ﷺ نے فرمایا: وحی میرے پر اتری ہے اور وحی نے مجھے خبر دی ہے کہ وہ کپڑے لٹکانے کی جگہ میں چھپا ہوا ہے۔ جب امام علیؑ تلاشی لے کر واپس جا چکے تو عثمان (معاویہ بن) مغیرہ کے پاس آیا اور اس کا ہاتھ پکڑا اور اسے نبی ﷺ کے پاس لے آیا، جب آنحضرت ﷺ نے اس کو دیکھا تو اپنی نگاہیں نیچے کر لیں اور اس کی طرف اصلاً توجہ نہیں دی، کیونکہ نبی ﷺ انتہائی با حیا کریم و نفیس شخصیت تھے، عثمان نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ ! یہ میرا چچا ہے یہ (معاویہ بن) مغیرۃ بن ابی العاص ہے، قسم اس ذات کی جس نے حق کے ساتھ آپ ﷺ کو مبعوث کیا وہ یہ گزارش لے کر آپ ﷺ کی خدمت میں آیا ہے کہ آپ ﷺ نے اس کو امان دے دی تھی، امام صادقؑ فرماتے ہیں: اس نے کذب بیانی کی ، قسم اس ذات کی جس نے آںحضرت ﷺ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا انہوں نے اس کو امان نہیں دی تھی، اس نے یہ بات تین بار دہرائی تھی اور امام صادقؑ نے بھی اس کو تین مرتبہ دہرایا کہ آنحضرت ﷺ نے کب اس کو پناہ دی ہے؟! مگر یہ کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی منت سماجت کرتے ہوئے دائیں طرف سے آیا، پھر بائیں جانب سے آیا، جب وہ چوتھی مرتبہ آیا تو آپ ﷺ نے اپنا سر مبارک بلند کیا اور عثمان کو مخاطب کر کے فرمایا: میں اسے تین دن مہلت دیتا ہوں، اگر ان تین کے بعد میں نے اس کو پا لیا تو میں اس کو قتل کر دوں گا، جب وہ واپس پلٹ گیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بارِ الہٰا ! (معاویہ بن ) مغیرۃ بن ابی العاص پر لعنت فرما اور اس پر بھی لعن فرما جس نے اس کو پںاہ دی ہے اور ان پر بھی لعنت فرما جس نے اس کا بوجھ اٹھایا اور اس پر بھی لعنت فرما جس نے اس کو کھانا کھلایا اور اس پر بھی لعنت فرما جس نے اس کو پانی پلایا اور اس پر بھی لعنت فرما جس نے اس کے لیے (فرار و بچاؤ) کا اہتمام کیا اور اس پر بھی لعنت فرما جس نے اس کو سیراب کیا یا پہننے کے لیے لباس جوتے دیئے یا رہنے سہنے اور کھانے پینے کے وسائل مہیا کر کے دیئے جبکہ عثمان ان سب کو اپنے دائیں ہاتھ سے شمار کر رہا تھا، پھر عثمان اس کو لے کر چلا گیا اور (معاویہ بن مغیرہ) کو پںاہ دی اور اس کو کھانا کھلایا اور پانی پلا کر سیراب کیا اور اس کو اپںے ساتھ لے گیا اور اس کے لیے تمام امکانات و وسائل مہیا کر کے دئیے، یہاں تک کہ وہ تمام کام انجام دیئے جن کو انجام دینے والے پر نبی ﷺ نے لعن فرمائی تھی، پھر عثمان نے اس (معاویہ بن مغیرہ) کو چوتھے دن نکالا اور اپنے پیچھے پیچھے اس کو چلایا تاکہ وہ فرار کر سکے، ابھی وہ مدینہ کے اطراف سے نہیں نکلا تھا کہ اللہ نے اس کی سواری کو ہلاک کر دیا اور اس کے جوتے پھٹ گئے اور اس کے قدموں میں وَرم پڑ گیا، وہ مجبورا اپنے ہاتھوں اور گھٹنوں کی مدد سے چلنے لگا، اس کے سامان کے بوجھ نے اس کو مزید بوجھل بنا دیا یہاں تک کہ اسے موت کا خوف محسوس ہونے لگا اور وہ سہمے ہوئے ایک درخت کی آڑ میں آیا گیا اور اس کے سائے میں بیٹھ گیا، اگر تم میں سے بعض (مدینہ) سے آتے تو انہیں یہاں پہنچتے ہوئے ایسی مشقت و زحمت کا سامنا نہ کرنا پڑتا جو مشقت اس کو اٹھانا پڑی ہے۔ اتنے میں رسول اللہ ﷺ پر وحی نازل ہوئی اور اللہ نے انہیں وحی کے ذریعے (معاویہ بن) مغیرہ کی خبر دی، آنحضرتﷺ نے امام علیؑ کو بلایا اور فرمایا: اپنی تلوار اٹھا لو، تم اور عمار اور تیسرا شخص جاؤ اور فلاں جگہ پر اس اس طرح کے درخت کے نیچے (معاویہ بن) مغیرہ ہے اس کو پکڑ لو، امام علیؑ نے رسول اللہ ﷺ کے فرمان پر عمل کرتے ہوئے (معاویہ بن) مغیرہ کو پکڑا اور قتل کر دیا۔ اس پر عثمان نے رسول اللہ ﷺ کی بیٹی کو مارا اور کہا: تم نے اس اپنے باپ کو اس جگہ کی خبر دی ہے، جناب رقیہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیغام بھیجا اور جس مصیبت کا سامنا کرنا پڑا اس کی شکایت آپ ﷺ کی خدمت میں کی ، رسول اللہ ﷺ نے ان کی طرف پیغام بھیجا، اپنی عزت و حیاء کی حفاظت کرو، ایک حسب و شرف رکھںے والی ایک دین دار خاتون کے لیے کس قدر قبیح ہے کہ وہ ہر روز اپنے شوہر کی شکایت کرے، پھر ہر روز عثمان کا یہی سلوک ہوتا اور ہر مرتبہ رقیہ آنحضرت ﷺ کو پیغام بھجواتی، یہاں تک کہ تین دن گزر گئے، جب چوتھا دن آیا تو آنحضرت ﷺ نے امام علیؑ کو بلایا اور فرمایا: اپنی تلوار اٹھاؤ اور اس کو اپنے ہمراہ لے لو اور اپنے چچا زاد کی بیٹی کے گھر پر جاؤ اور اس کو اپنے ہمراہ لے آؤ، اگر تمہارے اور اس کے درمیان کوئی حائل ہو تو اس کو تلوار سے زمین بوس کر دو، پھر رسول اللہ ﷺ اپنے گھر سے عثمان کے گھر کی طرف اس شخص کی مانند نکلے جس کی اولاد کھو گئی ہو، امام علیؑ نے دخترِ رسول اللہ ﷺ کو گھر سے نکالا، جب رقیہ نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا تو بلند آواز کے ساتھ رونے لگی، رسول اللہ ﷺ نے کی آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے اور آپ ﷺ نے بھی گریہ فرمایا، پھر آپ ﷺ رقیہ کو لے کر اپنے گھر تشریف لے آئے، رقیہ نے زخموں کی وجہ سے اپنی کمر کو ظاہر کیا، جب رسول اللہ ﷺ نے ان کی کمر کو دیکھا تو تین مرتبہ فرمایا: اس کا برا ہو، اللہ اس کو قتل کرے جس نے تجھے قتل کیا،وہ دن اتوار کا دن تھا، عثمان نے وہ رات اپنے کنیز کے ساتھ ایک بستر پر گزاری اور پیر و منگل کے دن تک اسی طرح رہا، چوتھے دن یعنی بدھ والے دن رقیہ کی وفات ہو گئی۔ جب عثمان آیا تاکہ وہ رقیہ کے ساتھ نکلے تو رسول اللہ ﷺ نے جناب فاطمہؑ کو حکم دیا، پس جناب سیدہؑ اور مؤمنین کی خواتین رقیہ کو اٹھا کر نکلیں، عثمان بھی ان کے ساتھ ہو لیا اور رقیہ کے جنازے کے پیچھے پیچھے چلنے لگا، جب نبی ﷺ کی نگاہ عثمان پر پڑی تو فرمایا: جس شخص نے گذشتہ رات اپنی اہلیہ یا کسی لڑکی کے ساتھ ہمبستری کی ہے وہ رقیہ کے جنازے کے پیچھے پیچھے نہ چلے،آنحضرت ﷺ نے یہ جملہ تین مرتبہ تکرار کیا لیکن عثمان واپس نہیں پلٹا، جب چوتھی مرتبہ کہنے کی نوبت آئی تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا: اسے چاہیے کہ وہ پلٹ جائے یا میں اس کا نام لے کر اس کو کہوں، اس پر عثمان اپنے غلام کا سہارا لیے ہوئے اور پیٹ کو ہاتھ سے پکڑے ہوئے آگے بڑھا اور کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ ! میں شکم میں تکلیف ہے اگر آپ ﷺ مجھے اجازت دیں تو میں واپس پلٹ جاؤں، آپ ﷺ نے فرمایا: واپس چلے جاؤ، جناب فاطمہؑ اور مؤمنین و مہاجرین کی خواتین جنازے کو لے کر آگے بڑھیں اور ان خواتین نے جنازہ پڑھأ۔

تعجب آور کلام

[ترمیم]

جب عثمان نے رسول اللہ ﷺ کی پہلی دختر کے ساتھ یہ سلوک کیا اور آپ ﷺ نے اس کے ساتھ سخت برخورد کیا تو پھر کیسے رسول اللہ ﷺ کی طرف اس حدیث کی نسبت دی جا سکتی ہے جس اہل سنت بڑے شد و مد کے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ اگر میری دس بیٹیاں بھی ہوتیں تو میں عثمان کے ساتھ ان کا ازدواج کرتا!!! پس اہل سنت کی نقل کردہ یہ روایت درایت کے اعتبار سے قابل قبول نہیں ہے۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. مؤسسہ ولیعصر، مقالہ آیا ازدواج دو دختر پیامبر (ص) با عثمان صحت دارد؟    
۲. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۳، ص۲۳۶۔    
۳. ہاشمی خوئی، سید میر حبیب الله‌، منہاج البراعۃ فی شرح نہج البلاغۃ، ج۳، ص۳۴۔
۴. شیبانی، احمد بن حنبل، مسند احمد بن حنبل، ج۲۱، ص۹۲۔    
۵. نمری، ابن عبد البر، الاستیعاب‌ ہامش الاصابۃ، ج۴، ص۱۸۴۱۔    
۶. عسقلانی، ابن‌حجر، الاصابۃ، ج۴، ص۳۰۴۔    
۷. عسقلانی، ابن‌حجر، فتح الباری، ج۳، ص۱۲۷۔
۸. حاکم، محمد بن عبد الله، المستدرک علی الصحیحین، ج۴، ص۵۱۔    
۹. ابو عبد الله بخاری جعفی، محمد بن إسماعیل، صحیح بخاری، ج۲، ص۹۱۔    
۱۰. ابن‌بطال، ابو الحسن علی بن خلف، شرح صحیح بخاری، ج۳، ص۳۲۸۔    
۱۱. سہیلی، عبد الرحمن بن عبد الله، الروض الانف، ج۳، ص۱۲۷۔    
۱۲. سہیلی، عبد الرحمن بن عبد الله، الروض الانف، ج۵، ص۲۲۷۔    
۱۳. عا‌صمی‌ مکی‌، عبد الملک‌ بن‌ حسین‌ بن‌ عبد الملک‌، سمط النجوم العوالی، ج۱، ص۵۱۲۔    
۱۴. طحاوی، احمد بن محمد بن سلامۃ، شرح مشکل الاثار، ج۶، ص۳۲۳۔
۱۵. ابن‌ حزم‌، علی بن احمد، المحلّی، ج۵، ص۱۴۴۔    
۱۶. النّمری، ابن عبد البر، الاستیعاب، ج۴، ص۱۹۲۳۔    
۱۷. ابن‌ الأثیر، عز الدین، اسد الغابۃ، ج۵، ص۵۶۲۔    
۱۸. عسقلانی، ابن‌ حجر، الاصابۃ، ج۸، ص۲۳۷۔
۱۹. ابن‌ الأثیر، عز الدین، الکامل، ج۲، ص۵۳۔    
۲۰. ابو الفداء، ابن‌ کثیر، البدایۃ و النہایۃ، ج۴، ص ۵۸۔    
۲۱. تقی‌ الدین مقریزی، أحمد بن علی بن عبد القادر، امتاع الاسماع، مقریزی، ج۱، ص۱۷۸۔    
۲۲. ابو عبد الله، ابن‌ ہشام حمیری، السیرۃ النبویۃ، ج۳، ص ۶۱۸۔    
۲۳. تقی‌ الدین المقریزی، أحمد بن علی بن عبد القادر، النزاع و التخاصم، مقریزی، ص۶۰۔    
۲۴. حلبی شافعی، ابو الفرج، السیرۃ الحلبیۃ، ج۲، ص۳۵۳۔    
۲۵. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۳، ص۲۵۱۔    


مأخذ

[ترمیم]

مؤسسہ ولیعصر، یہ تحریر مقالہ آیا عثمان قاتل دو دختر پیامبر (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) بوده؟ سے مأخوذ ہے۔    


اس صفحے کے زمرہ جات : تاریخی مباحث | روائی مباحث | کلامی مباحث




جعبه ابزار