علم حدیث میں حجت کے معنی
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
حجّت،
علم حدیث کی ایک اصطلاح ہے جس کے ذریعے
راوی کی تعدیل اور توثیق کی جاتی ہے۔
[ترمیم]
عربی
لغت کے لحاظ سے حجّت کے معنی
دلیل اور
برہان کے ہیں، یعنی جس کے ذریعے کسی چیز کا اثبات کیا جائے اور
بحث ومباحثے میں مخالف پر غلبہ حاصل کیا جائے.
اسی وجہ سے حجت کو، دلیل سے بھی تعبیر کیا گیا ہے.
[ترمیم]
علم حدیث کی
اصطلاح میں،حجّت کا اطلاق اس راوی پر کیا جاتا ہے جسکی حدیث کے ذریعے استدلال اور احتجاج ممکن ہو۔ کسی راوی کی حدیث سے استدلال کرنا، اگرچہ ایک وسیع
مفہوم رکھتا ہے لیکن یہاں استدال سے مراد،اسکی توثیق کرنا ہے.
اور اسکے علاوہ اس شخص کو بھی حجّت کہا گیا ہے جو
اسناد کے ساتھ تین لاکھ احادیث کا حافظ ہو نیز ان راویوں کی تفصیلات بھی جانتا ہو.
[ترمیم]
محدّثین کے مراتب کے لحاظ سے، حاکم کے بعد حجّت کو عالی ترین مقام ومرتبہ حاصل ہے.
عبد اللہ مامقانی کہتے ہیں کہ شیعہ محدّثین کے نزدیک، لفظ ِحجّت کسی راوی کی مدح اور اسکے امامی،
عادل اور
ضابط ہونے پر دلالت کرتا ہے
۔
ابن صلاح اور
خطیب بغدادی،
جیسے علماء کی نظرمیں،کلمہ حجّت،
راوی کی توثیق وتعدیل میں استعمال ہونے والے پہلے مرتبہ کے الفاظ میں شمار ہوتا ہے
اور بعض اوقات تعدیل کے دوسرے اور تیسرے مرتبہ کو بیان کرنے کیلئے بھی لفظِ حجّت کا استعمال کیا جاتا ہے.
لیکن یہ بات واضح رہے کہ کلمہ حجّت مرتبہ کے لحاظ سےہمیشہ ،تعدیل کے دوسرے کلمات جیسے
ثقہ ،
عدل ،ضابط،حافظ،متقن،اور
ثبت کے بعد واقع ہوتا ہے.
۔
ذہبی،
قائل ہیں کہ کلمہ حجّت مرتبہ کے اعتبار سے لفظِ ثقہ سے اعلی ہے ، اسی وجہ سے
یحیی بن معین نے
محمد بن اسحاق کو ثقہ کہا ہے لیکن ان کو حجّت نہیں کہہ سکا.
۔
طریحی،
کے نزدیک کلمہ حجّت کا،راوی کی تعدیل اور توثیق پر دلالت کرنا اجماعی مسئلہ ہے۔.
عبد الرحیم بن حسین حافظ عراقی،
نے لفظِ حجّت کو ، کلمہ ثقہ کی طرح ، تعدیل کے پہلے مرتبہ میں شمار کیا ہے۔
نورالدین عِتر،
کی نظر میں، سنداور متن کی
حفظ میں دقت، اتقان اور استحکام کے ذریعےسے راوی ،حافظ کے مرتبہ سے حجّت کے مرتبہ تک پہنچتا ہے۔
[ترمیم]
کلمہ حجّت بعض موارد میں، دیگر
الفاظِ تعدیل جیسے ثبت اور ثقہ وغیرہ کیلئےبطور صفت بھی استعمال ہواہے.
لیکن اس صورت میں لفظِ حجّت، تعدیل کے دوسرے مرتبے میں شمار ہوتا ہے.
۔
[ترمیم]
کلمہ حجّت، بعض محدّثین کیلئے لقب کے طور پر بھی استعمال ہوا ہے، جیسے
ابوهاشم رمّانی واسطی (متوفی ۱۳۲) اور
عباس بن عبدالعظیم (متوفی ۲۴۶).
۔
[ترمیم]
(۱) ابن جماعہ، المنهل الروی فی مختصر علوم الحدیث النبوی، چاپ محییالدین عبدالرحمان رمضان، دمشق ۱۴۰۶/۱۹۸۶.
(۲) ابن حجر عسقلانی، کتاب تهذیبالتهذیب، چاپ صدقی جمیل عطار، بیروت ۱۴۱۵/۱۹۹۵.
(۳) ابن صلاح، مقدمۃ ابن الصّلاح فی علومالحدیث، چاپ مصطفی دیب البغا، دمشق ۱۴۰۴/۱۹۸۴.
(۴) محمد بن احمد ازهری، تهذیباللغۃ، ج ۳، چاپ عبدالحلیم نجار، قاهره: دارالمصریہ للتألیف و الترجمہ، (بیتا).
(۵) محمدضیاءالرحمان اعظمی، معجم مصطلحاتالحدیث و لطائفالاسانید، ریاض ۱۴۲۰/۱۹۹۹.
(۶) زکریا بن محمد انصاری ازهری، فتحالباقی بشرح الفیۃالعراقی، چاپ حافظ ثناءاللّه زاهدی، بیروت ۱۹۹۹/۱۴۲۰.
(۷) محمداعلی بن علی تهانوی، موسوعۃکشّاف اصطلاحات الفنون و العلوم، چاپ رفیق العجم و علی دحروج، بیروت ۱۹۹۶.
(۸) علی بن محمد جرجانی، التعریفات، چاپ عبدالرحمان عمیرة، بیروت ۱۴۰۷/۱۹۸۷.
(۹) حسین بن عبدالصمد حارثی، وصولالاخیار الی اصولالاخبار، چاپ عبداللطیف کوهکمری، قم ۱۴۰۱.
(۱۰) عبدالرحیم بن حسین حافظ عراقی، التّقیید و الایضاح لما اطلق و اغلق من مقدّمۃ ابن الصّلاح، بیروت ۱۴۱۱/۱۹۹۱.
(۱۱) احمد بن علی خطیب بغدادی، کتابالکفایۃفی علمالروایۃ، حیدرآباد، دکن ۱۳۹۰/۱۹۷۰.
(۱۲) محمد بن احمد ذهبی، سیر اعلامالنبلاء، ج ۶، چاپ شعیب ارنؤوط و حسین اسد، بیروت ۱۴۰۲/۱۹۸۲، ج ۱۲، چاپ شعیب ارنؤوط، بیروت ۱۴۰۳/۱۹۸۳.
(۱۳) محمد بن احمد ذہبی، کتاب تذکرةالحفاظ، حیدرآباد، دکن ۱۳۷۶ـ۱۳۷۷/ ۱۹۵۶ـ۱۹۵۸، چاپ افست بیروت (بیتا).
(۱۴) محمد بن احمد ذہبی، میزانالاعتدال فی نقدالرجال، چاپ علیمحمد بجاوی، قاهره ۱۹۶۳ـ۱۹۶۴، چاپ افست بیروت (بیتا).
(۱۵) حسن صدر، نهایۃالدرایۃ فی شرح الرسالۃ الموسومۃ بالوجیزة للبهائی، چاپ ماجد غرباوی، (قم ۱۴۱۳).
(۱۶) فخرالدین بن محمد طریحی، جامعالمقال فیما یتعلق باحوال الحدیث و الرجال، چاپ محمدکاظم طریحی، (تهران ۱۳۷۴).
(۱۷) نورالدین عتر، منهجالنقد فی علومالحدیث، دمشق ۱۴۰۱/۱۹۸۱.
(۱۸) عبداللّه مامقانی، مقباسالهدایہ فی علمالدرایه، چاپ محمدرضا مامقانی، قم ۱۴۱۱ـ۱۴۱۳.
(۱۹) حسن محمد مقبولی اهدل، مصطلحالحدیث و رجالہ، صنعا ۱۴۱۰/ ۱۹۹۰.
(۲۰) محمد عبدالرؤوف بن تاجالعارفین مناوی، الیواقیت و الدّرر فی شرح نخبہ ابن حجر، چاپ مرتضی زیناحمد، ریاض ۱۴۲۰/۱۹۹۹.
[ترمیم]
[ترمیم]
دانشنامہ جہان اسلام، اسلامک انسائیکلوپیڈیا فاؤنڈیشن، مأخوذ از مقالہ «حجت در علم حدیث»، شماره۵۸۳۴.