علم کلام کی اہمیت

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



علم کلام اور کلامی ابحاث منجملہ اسلامی علوم میں سے ہیں۔ علم کلام امامیہ کے آئمہؑ کے نزدیک اس قدر حائز اہمیت ہے کہ وہ ذوات مقدسہ نہ صرف بذات خود کلامی مسائل کی تحقیق و تحلیل پیش کرتی تھیں بلکہ اپنے مکتب میں ایک جماعت کی عقائدی ابحاث کے شعبہ میں تربیت بھی کرتی تھیں۔


علم کلام کا مقام

[ترمیم]

قرآن کریم نے علما کے بلند مقام کو مخصوص الفاظ میں بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے: یَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِینَ آمَنُوا مِنْکُمْ وَ الَّذِینَ اُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجاتٍ جو لوگ تم میں سے ایمان لائے ہیں اور جن کو علم عطا کیا گیا ہے اللہ ان کے درجات بلند کرتا ہے۔
جاہلوں اور منحرفوں کی ہدایت اس قدر اہمیت کی حامل ہے کہ رسول اکرمؐ نے علیؑ سے فرمایا: اگر کسی شخص کو ایمان و ہدایت کی درست راہ کی ہدایت کرو تو یہ خدا کے نزدیک ان تمام چیزوں سے برتر ہے جن پر سورج طلوع کرتا ہے۔
وَ اَیْمُ اللهِ لَئِنْ یَهْدِی اللهُ عَزَّوَجَلَّ عَلی یَدَیْکَ رَجُلاً خَیرٌ لَکَ مِمّا طَلَعَتْ عَلَیهِ الشَّمْسُ وَ غَرِبَتْ.
جیسا کہ بیان کیا گیا کہ عقائد کا دفاع خدا کی راہ میں عظیم جہاد ہے اور یہ دو چیزیں پیغمبروں اور اوصیا کے خصائص میں سے ہیں۔ دوسرے دینی علوم کی علم کلام کی طرف احتیاج اس علم کی اہمیت پر ایک اور دلیل ہے۔
اس بنا پر حقیقی متکلمین اسلام کی اعتقادی سرحدوں کے دفاع کے پرچمدار ہیں اور پیغمبروں کی تبلیغی و ارشادی رسالت کے مشن کو آگے بڑھانے کے ذمہ دار ہیں۔ یہ منصب ان کے کاندھوں پر ذمہ داری کا سنگین بوجھ ڈالتا ہے کہ اگر اسے انجام دینے کی سعی کریں تو خداوند عالم کی طرف سے عظیم اجر دریافت کریں گے۔

اہل بیتؑ اور علم کلام

[ترمیم]

تاریخِ اسلام اور اسلامی مفکرین کا مطالعہ اس حقیقت کو برملا کرتے ہیں کہ علم کلام ماضی میں مسلمانوں کیلئے حائز اہمیت تھا اور اس کے نتیجے میں شہرہ آفاق اسلامی متکلمین پیدا ہوئے جنہوں نے اس موضوع پر انتہائی اہم کتب تالیف کیں۔ یہ تصنیفات انتہائی گرانقدر دینی اور فکری ورثہ شمار ہوتی ہیں۔
امام باقرؑ اور امام صادقؑ کے زمانہ حیات میں بوجوہ دینی تفکر کے احیا کیلئے مناسب ماحول فراہم ہوا۔ ان دو ہادیان برحق نے مختلف علوم میں نمایاں علما کی تربیت کی کہ جن میں سے متکلمین کا مقام بہت نمایاں تھا۔ امام صادقؑ نے اپنے اصحاب میں سے ہشام بن حکم جو ان میں سے جوان ترین تھے، کی دوسروں سے زیادہ تکریم کی اور فرمایا:
هذا ناصرنا بقلبه و لسانه و یده.
[۳] صدر، سید حسن، تاسیس الشیعة، ص۳۶۱۔
ہشام کہتے ہیں کہ امام صادقؑ نے ابن طیار کے بارے میں مجھ سے پوچھا، میں نے کہا: ان کا انتقال ہو گیا ہے۔ امامؑ نے فرمایا: خدا اس پر رحمت کرے اور اسے مسرور فرمائے، وہ ہم اہل بیتؑ کے مکتب کا بھرپور انداز سے دفاع کرتا تھا۔ نضر بن صباح کہتے ہیں: امام صادقؑ عبد الرحمن بن حجاج کو فرماتے تھے: مدینہ کے لوگوں سے بات کرو (کلامی ابحاث کرو) کیونکہ مجھے پسند ہے کہ شیعہ رجال میں تمہارے جیسے نظر آئیں۔

علم کلام کی برتری

[ترمیم]

عظیم مفکر شہید مطہریؒ اس بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں: آئمہ اہل بیتؑ نہ صرف خود کلامی مسائل کی تحقیق و تحلیل پیش کرتے تھے بلکہ اپنے مکتب کی ایک جماعت کی بھی عقائدی ابحاث کے شعبہ میں تربیت کرتے تھے، ہشام بن الحکم کا سارا امتیاز علم کلام کے حوالے سے تھا، نہ فقہ یا حدیث یا تفسیر میں۔ امام صادقؑ نے جوان ہونے کے باوجود ان کی دیگر اصحاب سے زیادہ تجلیل کی اور انہیں دوسروں پر مقدم فرمایا، تمام لوگ اس عمل کی تاویل میں متفق ہیں کہ یہ تجلیل صرف ان کے متکلم ہونے کی وجہ سے تھی۔ امام صادقؑ نے متکلم کو فقیہ اور محدثین پر اہمیت دے کر علم کلام کی فضیلت کو واضح کیا ہے۔ بدیہی ہے کہ آئمہؑ اس طرح کے افعال کے ساتھ علم کلام کی ترویج میں موثر کردار ادا کرتے تھے تاکہ شیعہ تفکر ابتدا سے ہی کلامی و فلسفی منہج کو اختیار کرے۔

مدارس میں علم کلام کی مہجوریت

[ترمیم]

علم کلام اور اعتقادی مباحث کو دینی مدارس کے ضمنی دروس میں شمار نہ کیا جائے بلکہ درحقیقت یہ اصلی ترین علوم اور دروس میں سے ہیں، بعض محققین کے بقول یہ علم ماضی قریب میں حوزہ نجف میں خصوصی اعتبار اور اہمیت کا حامل تھا اور ابتدائی اور اعلیٰ تعلیمی سطح پر بحث و تحقیق کا محور تھا مگر آہستہ آہستہ اسے فراموش کر دیا گیا اور پھر حوزوی دروس کی فہرست سے حذف ہو گیا۔
[۷] فاضل مقداد، مقداد بن عبدالله، اللوامع الالهیة، مقدمه مرحوم سید علی قاضی طباطبائی۔
علامہ طباطبائیؒ نے اس بارے میں فرمایا ہے: فن الکلام فن شریف یذب عن المعارف الحقة الدینیة، غیران المتکلمین من المسلمین اساؤا فی طریق البحث...
اس علم کا مہجور و متروک ہونا اس امر کا موجب بنا کہ اس علم کی منظم ارتقا کے عمل میں تعطل پیدا ہو گیا اور در نتیجہ اس کی تاریخ، مبادی، مسائل و قواعد فراموش ہو گئے یہاں تک کہ آج بعض نے انہی مسائل کو ’’کلام جدید‘‘ کے عنوان سے پیش کرنا شروع کر دیا ہے کہ جو اس علم کے ابتدائی زمانے میں متکلمین کی توجہ کا محور تھے۔

علم کلام کی مذمت پر مبنی روایات کا جواب

[ترمیم]

آئمہ معصومینؑ سے مروی بعض احادیث میں علم کلام اور متکلمین کی مذمت کی گئی ہے اور دین میں مجادلہ کرنے کی بطور مطلق ممانعت کی گئی ہے، کچھ لوگوں نے ان روایات کا سہارا لیتے ہوئے کلامی ابحاث کو مطلقا مذموم اور ناجائز قرار دیا ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ اگر کوئی کلام کی تاریخ اور آئمہؑ بالخصوص امام باقرؑ اور امام صادقؑ کے زمانے سے آشنا ہو تو وہ جانتا ہے کہ یہ مذمت کس کلام اور کس کلامی جدال کی نسبت ہے، اس زمانے میں دینی مباحثات کیلئے نسبتا مناسب ماحول فراہم تھا، کچھ ناتجربہ کار اور نااہل افراد خود کو متکلم سمجھتے ہوئے یہ جرات کرتے تھے کہ تمام موضوعات حتی ذات الہٰی کے بارے میں غور و فکر اور مناظرہ کریں، یہ روش نادرست تھی کہ جس کا نتیجہ ضلالت اور گمراہی کے سوا کچھ نہیں تھا اور آئمہ کی جانب سے کلام اور متکلمین کی مذمت اسی حوالے سے وارد ہوئی ہے اور یہ مطلب روایات کی طرف رجوع کرنے سے بخوبی سمجھا جا سکتا ہے کہ جن میں سے بطور نمونہ چند روایات پیش خدمت ہیں۔

← علم کلام کی مذمت پر مبنی روایات


یونس بن یعقوب کہتے ہیں: میں امام صادقؑ کی خدمت میں حاضر تھا کہ اس دوران ایک شامی مرد جو خود کو متکلم اور فقیہ قرار دے رہا تھا؛ آن پہنچا، اس نے امامؑ کی طرف رخ کر کے کہا: میں آپؑ کے شاگردوں کے ساتھ مناظرہ کرنے آیا ہوں۔
امامؑ نے میری طرف دیکھ کر فرمایا: اے یونس! کاش تو علم کلام میں ماہر ہوتا تو اس کے ساتھ مناظرہ کرتا۔
میں نے عرض کیا: میں آپ پر قربان! میں نے آپ سے سنا تھا کہ آپؑ نے علم کلام سے منع فرمایا تھا اور متکلمین کی مذمت کی تھی۔
امامؑ نے فرمایا: یہ مذمت ان لوگوں کے حوالے سے ہے جو میرے اقوال کو چھوڑ کر اپنی مرضی کی باتیں کرتے ہیں، پھر حکم دیا کہ اقامت گاہ میں جا کر امام کے جن متکلم شاگردوں کو پاؤں، انہیں ساتھ لے آؤں چنانچہ میں حمران بن اعین، ابوجعفر احول، ہشام بن سالم، قیس بن ماصر کو لے آیا۔ کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ ہشام بن حکم بھی پہنچ گئے، وہ سن و سال میں سب سے چھوٹے تھے، مگر امامؑ نے ان کی بہت تجلیل و تکریم کی اور ان کے بارے میں فرمایا: ناصرنا بقبله و لسانه ویده پھر امامؑ کے شاگردوں نے اس شامی شخص کے ساتھ مناظرہ کیا، آخرکار ہشام بن حکم نے اسے شکست دی اور اس نے حضرت صادقؑ کی امامت کا اقرار کر لیا۔
اس موقع پر امامؑ نے مناظرے کے قوی اور ضعیف نکات کی اپنے شاگردوں کے سامنے تشریح فرمائی اور ہشام بن حکم کو خراج تحسین پیش کیا اور فرمایا: مثلک فلیتکلَّم النّاس. تجھ جیسے کو چاہئے کہ لوگوں کے ساتھ مناظرہ کرے۔

← روایات میں نہی کا معنی


کس طرح یہ کہا جا سکتا ہے کہ دینی عقائد کے بارے میں استدلالی مباحث آئمہ معصومینؑ کی طرف سے ممنوع ہیں جبکہ ان ذوات مقدسہ نے اس حوالے سے عمیق ترین مباحث کی تعلیم دی ہے؟! آئمہؑ کی اس باب میں مذمت اور نہی ذیل کے امور کی طرف ناظر ہے:
۱۔ اللہ تعالیٰ کی حقیقتِ ذات کے بارے میں بحث جو بشر کی فکری توانائی سے بالاتر ہے اور اس میں غور و فکر گمراہی کے سوا کچھ نہیں ہے، جیسا کہ امام صادقؑ سے مروی ہے: اِیّاکُمْ وَ الْکَلاَم فِی الله، تَکَلَّموا فی عَظَمتِه وَ لا تَکلَّمُوا فِیه فَاِنَّ الْکَلامَ ‌فِی اللهِ لا یَزْداد اِلاّ تِیهاً. خدا کے بارے میں کلام سے ڈرو، خدا کی عظمت کے بارے میں کلام کرو مگر اس کی ذات کے بارے میں کلام نہ کرو؛ چونکہ اس کے بارے میں کلام حیرت کے سوا کسی چیز میں اضافہ نہیں کرتا ہے۔
۲۔ بحث و جدال میں افراط جو خصومت و دشمنی کی جڑ ہے جیسا کہ ابو بصیر کہتے ہیں کہ میں نے امام باقرؑ سے سنا کہ فرمایا: اَلْخُصومَة تَمْحَقُ الدّینَ وَ تَحْبِطُ الْعَملَ وَ تُورثُ الشَّکَ. خصومت، دین کو نابود اور عمل کو تباہ کر دیتی ہے، یہ شک و تردید کا سبب بنتی ہے۔
انہوں نے امام صادقؑ سے یہ روایت بھی نقل کی ہے کہ فرمایا: لا یُخاصِمُ الاّ رَجلٌ لَیسَ لَه وَرعٌ اَوْ رَجلٌ شاکٌّ. غیر متقی اور شکی مزاج آدمی کے سوا کوئی خصومت و جھگڑا نہیں کرتا۔
۳۔ نادرست مذہب اختیار کرنے والوں کے نظریات و اقوال سے استدلال اور آئمہ طاہرینؑ کے افکار کو چھوڑ دینا کہ جن کی بات درست اور صواب ہے؛ جیسا کہ اصول کافی کی ایک روایت میں منقول ہے کہ امام صادقؑ نے متکلمین کی مذمت کی علت یہی بیان کی ہے، اسی طرح ابوعبیدہ کہتے ہیں کہ امام باقرؑ نے مجھے فرمایا: اِیّاکَ وَاَصْحابَ الْخُصُوماتِ وَالْکَذّابین عَلَینا فَاِنَّهُم تَرکُوا ما اُمِروا بِعِلْمِه وَ تَکَلَّفُوا عِلْمَ السَّماءِ. جھگڑا لو اشخاص اور ہم پر جھوٹ باندھنے والوں سے خبردار رہو، کیونکہ انہوں نے ان تعلیمات کو چھوڑ دیا ہے کہ جنہیں سیکھنے پر مامور تھے اور خود کو آسمان کے علم میں (غیر ضروری طور پر) مبتلا کیے ہوئے ہیں۔
۴۔ آخری روایت سے ایک دوسری صورت کا بھی استفادہ ہوتا ہے اور وہ یہ کہ متکلمین اس زمانے میں غیر ضروری ابحاث میں مشغول رہتے تھے اور یہ امر ضروری دینی مطالب کو سیکھنے کی راہ میں رکاوٹ بنتا تھا۔

احتجاج میں طبرسی کا بیان

[ترمیم]

الاحتجاج کے مؤلف ابو منصور طبرسی کا اس بارے میں ایک بیان ہے جو قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں:
’’جس چیز نے مجھے اس کتاب کی تالیف کی طرف راغب کیا، وہ علمائے امامیہ کے ایک گروہ کی طرف سے احتجاج و جدال (خواہ برحق ہی کیوں نہ ہو) کی روش سے عدول وروگردانی ہے، ان کے نزدیک پیغمبرؐ اور آئمہؑ نے ہرگز مجادلہ نہیں کیا تھا اور اپنے پیروکاروں کو بھی اجازت نہیں دی بلکہ ان کو منع کیا ہے اور اس کام کی مذمت کی ہے؛ چنانچہ میں نے ایک ایسی کتاب کی تالیف کا ارادہ کیا جس میں آئمہؑ کے برحق جدال کے نمونوں کو جمع کروں اور یہ کہ آئمہؑ کی جدال سے نہی ناتوان و نااہل افراد کی نسبت تھی جو بخوبی اپنے دین کو بیان کرنے سے قاصر ہوں، نہ احتجاج کی روش میں برجستہ اور تربیت یافتہ لوگوں کو بلکہ وہ آئمہؑ کی جانب سے اس کام پر مامور تھے اور اسی وجہ سے ان کی منزلت بلند ہوئی اور ان کی فضیلت رائج ہوئی‘‘۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. مجادله/سوره۵۸، آیه۱۱۔    
۲. شیخ حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعه، ج ۱۱، ص۳۰، کتاب الجهاد، باب ۱۰، حدیث ۱۔    
۳. صدر، سید حسن، تاسیس الشیعة، ص۳۶۱۔
۴. قمی، عباس، سفینة البحار، ج ۷، ص۵۲۵۔    
۵. قمی، عباس، سفینة البحار،، ج۷، ص۵۲۵۔    
۶. مطهری، مرتضی، آشنائی با علوم اسلامی (کلام، عرفان)، ج۲، ص۶۴۔    
۷. فاضل مقداد، مقداد بن عبدالله، اللوامع الالهیة، مقدمه مرحوم سید علی قاضی طباطبائی۔
۸. طباطبایی، سید محمدحسین، تفسیر المیزان، ج ۵، ص۲۷۹۔    
۹. کلینی، محمد بن یعقوب، اصول کافی، ج۱، ص۵۳۵، کتاب الحجة، باب اول، روایت ۴۔    
۱۰. شیخ صدوق، محمد بن علی، توحید صدوق، ج۱، ص۴۵۷، باب ۶۷، روایت ۱۷۔    
۱۱. شیخ صدوق، محمد بن علی، توحید صدوق، باب ۶۷، روایت ۲۱۔    
۱۲. شیخ صدوق، محمد بن علی، توحید صدوق، ج۱، ص۴۵۸، باب ۶۷، روایت ۲۳۔    
۱۳. شیخ صدوق، محمد بن علی، توحید صدوق، ج۱، ص۴۵۹، باب ۶۷، روایت ۲۴۔    
۱۴. طبرسی، احمد بن علی، احتجاج، ص۹۔    


ماخذ

[ترمیم]

سایت اندیشه قم، ماخوذ از مقالہ جایگاه علم کلام و منزلت متکلمان، تاریخ نظرثانی ۱۳۹۵/۸/۱۶۔    






جعبه ابزار