علوم حدیث

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



علم حدیث وہ علم ہے جو قول معصوم، فعل معصوم اور تقریر معصوم کے بارے میں بحث کرتا ہے نیزاس میں حدیث کا معصومؑ سے صدور اور اس کی صحت وضعف کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا جاتا ہے ۔علم حدیث ان اسلامی علوم میں سے ہے جن کا اسلامی معارف اور بالخصوص فقہ میں اہم کردار رہا ہے ۔
اہل تشیع اور اہل تسنن علماء حدیث کے درمیان، علوم حدیث کی اقسام اور ان کے مختلف اسماء کے بارے میں کافی اختلاف پایا جاتا ہے ۔لیکن اکثر اہلِ تحقیق نے حدیث سے متعلق تمام مباحث کو تین بنیادی اقسام درایت حدیث، روایت حدیث اور رجال حدیث کے زمرے میں قرار دیا ہے ۔


مقدمہ

[ترمیم]

زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ حدیث اور سنت سے متعلق موضوعات میں وسعت پیدا ہوتی گئی جس کے نتیجے میں حدیث کے متعدد علوم وجود میں آگئے ۔اس بارے میں صبحی صالح لکھتے ہیں :
«لقد کانت المباحث المتعلقة بعلم الحديث، انواعا مختلفة فی نشاتها الاولی وکانت ـ علی کثرتها ـ مستقلة فی موضوعها وغايتها ومنهجها، حتی اذا شاع التدوين وکثر التصنيف اتّجه کلّ عالم الی ناحية فکثرت العلوم المتعلّقة…»
علم حدیث سے متعلق مباحث،ابتدائی مراحل میں مختلف انواع پر مشتمل تھے ۔ یہ ابحاث موضوع ،غرض وغایت اور اسلوب کے لحاظ سے ایک دوسرے سے الگ اور مستقل تھے اور حدیث کے میدان میں جب تدوین اور تصنیف کا سلسلہ بڑھتا گیا تو ہر عالم نے علم حدیث کے ایک خاص پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے بحث وتحقیق شروع کی ، علماء کی یہ روش حدیث کے متعدد علوم وجود میں آنے کا باعث بنی۔صبحی صالح اس کے بعد حدیث کے چھ علوم اور ان کے کتابوں کا تذکرہ کرتے ہیں ۔ وہ چھ علوم مندرجہ ذیل ہیں:
۱ـ علم جرح و تعدیل؛
۲ـ علم رجال الحدیث؛
۳ـ علم مختلف الحدیث؛
۴ـ علم علل الحدیث؛
۵ـ علم غریب الحدیث؛
۶ـ علم ناسخ الحدیث ومنسوخه.
حدیث سے متعلق موضوعات اگرچہ مختلف علوم میں تقسیم ہوگئے اور ان میں سے ہر ایک بارے میں مستقل طور پر کتابیں تالیف ہوئی ہیں ، لیکن اکثر محققین ، حدیث کے تمام مباحث کو تین بنیادی عناوین : علم درایت حدیث،علم روایت حدیث اور علم رجال حدیث کے ذیل میں مورد بحث قرار دیتے ہیں۔
علمی اصطلاح کے مطابق ان تین علوم کا مقسم، علوم حدیث(بمعنی عام) ہے۔مذکورہ تینوں علوم اور حدیث سے متعلق دیگر معارف سے مزید آگاہی حاصل کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ان میں سے ہرایک کا مختصراً تعارف کیا جائے۔

علم درایت حدیث

[ترمیم]

علم درایت حدیث کی تعریف، موضوع اور غرض وغایت بیان کرنے سے پہلے، مناسب ہے کہ درایت کے لغوی معنی کا مختصر طور جائزہ لیا جائے ۔
اکثر علماءِلغت ، درایت اور علم کو مترادف جانتے ہیں ، اس ضمن میں المصباح المنیر کے مؤلف لکھتے ہیں:
«دريت الشیء دريا، من باب دری ودرية ودراية، علمته.»
اور معجم الفروق اللغویّۃ کے مصنّف ، درایت اور علم کے درمیان میں فرق کے قائل ہیں، وہ تحریر کرتے ہیں:
«الدّراية علم يشتمل علی المعلوم من جميع وجوهه وذالک ان الفعالة للاشتمال مثل العصابة والعمامة والقلادة ولذالک جاء اکثر اسماء الصناعات علی فعالة نحو القصارة والخياطة ومثل ذالک العبارة لاشتمالها علی ما فيها فالدّراية تفيد ما لاتفيد العلم من هذه الوجه والفعالة ايضا تکون للاستيلاء مثل الخلافة والامارة فيجوز ان تکون بمعنی الاستيلاء فتفارق العلم من هذه الجهة.»
اس نظریے کی بناء پر، درایت اور علم کو مترادف قرار دینا صحیح نہیں ہے، کیونکہ درایت کے معنی، معلوم کے تمام جہات اور پہلوؤں کے بارے میں آگاہی کے ہیں اور دوسری بات یہ ہے کہ فعالۃ کاوزن عمومیت پر دلالت کرتا ہے۔لہذا اس لحاظ سے درایت کا معنی علم کے معنی سے مختلف ہے۔علاوہ از این، کلمہ علم کا علم خدا پر اطلاق کرنا درست ہے لیکن کلمہ درایت علم خدا کیلئے استعمال نہیں ہوا ہے۔پس معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں میں کلموں میں فرق پایا جاتا ہے۔ ممکن ہے یہ کہنا صحیح ہو کہ کلمہ درایت کا وہاں استعمال کیا جاتا ہے جہاں شک وتردید کے بعد آگاہی حاصل ہو۔
پس معلوم ہوا کہ جن علماء نے ان دونوں کلموں کو مترادف قرار دیا ہے جیسے: مقباس الہدایۃ کے مؤلف ،ضیاء الدرایۃ
[۷] علاّمة، سید ضیاءالدین، ضیاء الدّرایة، ص۱۳، مطبعةالحکمة، قم.
اور صاحب تعلیقہ بر وجیزہ کا نظریہ درست نہیں ہے مگر یہ کہ اس کی کوئی قابل قبول توجیہ کی جائے۔

← تعریف علم درایت


علم درایت کے ماہرین نے اس علم کی مختلف تعریفیں ذکر کی ہیں۔اس تحریر میں دو بزرگ علمی شخصیات کی تعریفوں کا جائزہ لیا جاتا ہے ۔ شیخ بہائیؒ علم درایت کی تعریف کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:
«علم الدراية، علم يبحث فيه عن سند الحديث ومتنه وکيفية تحمّله وآداب نقله؛علم درایت وہ علم ہے جس میں سند حدیث، متن حدیث ، تحمل حدیث کی کیفیت اور حدیث کو نقل کرنے کے آداب کے بارے میں بحث کی جاتی ہے.»
شہیدثانیؒ علم درایت کی تعریف کی سلسلے میں لکھتے ہیں:
«علم يبحث فيه عن متن الحديث وطرقه من صحيحها وسقيمها وعللها ومايحتاج اليد ليعرف المقبول منه من المردود؛ علم درایۃ وہ علم ہے جس میں متنِ حدیث ، طرق حدیث کی صحت وضعف اور علت، نیز ان امور کے بارے میں بحث کی جاتی ہے جن کے ذریعے مقبول حدیث کو مردود سے تمیز دی جاتی ہے.»

← نقدِ تعریف علم درایۃ


مذکورہ تعریفوں میں غور کرنے کے بعد ، چند چیزیں واضح ہوجاتی ہیں:
۱ـ شیخ بہائیؒ کی تعریف شہیدثانیؒ کی تعریف سے جامع اور وسیع ہے؛ کیونکہ شیخ بہائیؒ نے سند الحدیث کہہ کر اس متعلق تمام مباحث جیسے: حدیث متصل،]حدیث منقطع ، حدیث صحیح، حدیث موثق، حدیث حسن، حدیث مسلسل اور حدیث معنعن وغیرہ کو علم درایۃ میں شامل قرار دیا ۔لیکن شہید سند الحدیث کی بجائے طرق کہا ہے مگر یہ کہا جائے کہ طرق ، اسناد سے متعلق مباحث کو شامل ہے (بلکہ یقیناً شہیدثانیؒ کی مراد یہی ہے کیونکہ انہوں نے کہا : طرقه من صحیحها وسقیمها وعللها من کے ذریعے بیان کیا ہے کہ اسناد صحیح ، اسناد ضعیف اور اسناد معلول ...... اور یہ حدیث کی مختلف اقسام کی طرف اشارہ ہے)۔ دوسری بات یہ ہے کہ شیخ بہائیؒ نے آداب نقلہ کہہ کر تحمّل ِ حدیث کی کیفیت کو بھی علم درایۃ کا جزء قرار دیا ہے لیکن شہیدثانیؒ کی تعریف میں ایسی کوئی بات موجود نہیں ہے۔
۲ـ شہید ثانیؒ کی تعریف میں چونکہ کلمہ سند موجود نہیں ہے لہذا ان کی تعریف علم رجال کے مسائل کو شامل نہیں ہوتی۔لیکن شیخ بہائیؒ کی تعریف علم رجال کے بعض مسائل کو شامل ہوتی ہےکیونکہ علم رجال میں بھی سند سے ہی بحث کی جاتی ہے ۔
لیکن شیخ بہائیؒ کی طرف سے یہ عذر پیش کیا جاسکتا ہے کہ اگر چہ علم درایۃ اور علم رجال دونوں میں سند سے بحث ہوتی ہے مگر دونوں کی روش مختلف ہے ؛علم رجال میں جزئی یعنی ایک ایک فرد اور راوی کے اوصاف اور احوال کے بارے میں بحث ہوتی ہے اور علم درایۃ میں سند کے بارے میں کلی طور پر بحث ہوتی ہے کہ فلاں سند صحیح ہے یا ضعیف وغیرہ۔
بالفاظ دیگر علم رجال میں صغروی بحث ہوتی ہے اور علم درایہ میں کبروی بحث کی جاتی ہے ۔
۳ـ علم درایۃ کی مذکورہ دو تعریفوں اور بہت سی دیگر تعریفوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں علم درایۃ کو علم روایت سے تمیز نہیں دی گئی ہے حالانکہ ان دونوں علوم میں بنیادی فرق پایا جاتا ہے ۔

فقہ الحدیث

[ترمیم]

علم فقہ ِالحدیث ان علوم میں سے ہے جو علم حدیث(بمعنی عام) کے تحت مندرج ہوتے ہیں ۔علوم حدیث کے بارے میں تألیف شدہ کتابوں -خصوصااہل تشیّع کی کتب - میں علم فقہ الحدیث کو مستقل طور پر موردِ بحث قرار نہیں دیا ہے ،متأخرین میں سے بعض محققین نے علم فقہ الحدیث کو علم درایۃ الحدیث سے الگ جانا ہے ۔اس سلسلے میں شیخ آقا بزرگ تہرانی لکھتے ہیں:
:فقه الحديث المخالف معهما فی الموضوع فانّ موضوعه متن الحديث خاصة فيبحث فيه فی شرح لغاته وبيان حالاته من کونه نصّا او ظاهرا عاما او خاصا مطلقا او مقيّدا مجملا او مبيّنا معارضا او غير معارض؛ علم فقہ الحدیث، موضوع کے لحاظ سے علم رجال اور علم درایۃ سے مختلف ہے ؛کیونکہ علم فقہ الحدیث فقط متنِ حدیث سے بحث کرتا ہے ؛یعنی اس میں حدیث کے الفاظ کی وضاحت کے علاوہ اس کے مختلف حالات جیسے :نص ہے یا ظاہر، عام ہے یا خاص ، مطلق ہے یا مقید، مجمل ہے یا مبیّن اور معارض ہے معارض نہیں ہے،کے بارے میں بحث کی جاتی ہے.»
آقا بزرگ تہرانی کی تعریف، اس صورت میں صحیح ہے کہ ہم علم درایۃ کو فقط اسناد سے متعلق مباحث میں منحصر قرار دے ؛یعنی یہ کہ سندِحدیث متصل ہے یا منقطع،مسند ہے یا مرسل،مسلسل ہے یا معنعن،صحیح ہے یا موثق حسن ہے یا ضعیف وغیرہ ۔
لیکن شیخ بہائیؒ اور دیگر اہل علم کی تعریفوں سے معلوم ہوتا ہے کہ علم درایۃ میں ، سندِ حدیث کے ساتھ ساتھ متنِ حدیث کےمباحث جیسے: حدیث کا مجمل و مبیّن ہونا، محکم ومتشابہ ہونا، مضطرب وغیر مضطرب ہونا اور نص یا ظاہر ہونا وغیرہ، سے بھی بحث کی جاتی ہے۔

رجال الحدیث

[ترمیم]

اگرچہ علم رجال کے بارے میں کتب تألیف کرنے والے بہت سے علماء نے ، علم رجال کی تعریف کیے بغیر رجالی مباحث کو ذکر کیا ہے ، لیکن بعض علماء رجال نے اس کی متعدد تعریفیں بیان کی ہیں۔یہاں نمونے کے طور پر دو تعریفوں کا تذکرہ کیا جاتاہے۔
بہجۃ الآمال کے مؤلف علم رجال کی تعریف یوں کی ہے:

«انّه العلم الموضوع لتشخيص الرّواة ذاتا او وصفا مدحا او قدحا؛علم رجال وہ علم ہے جسے راویوں کے نسب معلوم کرنے اور جرح وتوثیق کے لحاظ ان کے اوصاف بیان کرنے کیلئے وضع کیا گیا ہے۔.»
[۱۲] علیاری، علی، بهجة الآمال فی شرح زبدة المقال، ج۱، ص۴، بنیاد فرهنگ اسلامی کوشان پور.

علامہ تہرانی اپنی کتاب الذریعۃ میں تحریر کرتے ہیں :
«علم الرجال هو علم يبحث فيه عن احوال رواة الحديث واوصافهم الّتی لها دخل فی جواز قبول قولهم وعدمه؛ علم رجال وہ ہے جو روایوں کے ان حالات اور صفات کے بارے میں بحث کرتا ہے جن کی بناء پر ان کے قول کو قبول یا ردّ کردیا جاتا ہے.»
مفہوم اور معنی کے لحاظ سے علم رجال کی تعریفوں میں کوئی خاص فرق نہیں پایا جاتا اور جو اختلاف موجود ہے وہ فقط الفاظ تک محدود ہے۔ مذکورہ دوتعریفوں میں سے علامہ تہرانی کی تعریف «لها دخل فی جواز قبول …»کی قید کی وجہ سے زیادہ مناسب ہے اور مذکورہ قیدہمیں ، «ذاتا» کی شرط لگانے سے مستغنی کردیتی ہے؛اور مامقانی کی تعریف ،ان سے بھی زیادہ جامع اور مناسب ہے ،وہ اپنی کتاب تنقیح المقال میں لکھتے ہیں:
«انّه علم يبحث فيه عن احوال الراوی من حيث اتّصافه بشرائط قبول الخبر وعدم؛علم رجال، وه علم ہےجس میں راویوں کی خبرکے قبول کرنے یا ردّ کرنے کی شرائط سے بحث کی جاتی ہے.»

دیگر علوم

[ترمیم]

علمِ حدیث کے تحت مندرج ہونے والے علوم میں سے فہرست شناسی، مشیخہ شناسی اور علم تراجم بھی قابلِ ذکر ہیں۔ان علوم کی حقیقت اور ماہیت واضح کرنے کیلئے یہ کہنا مناسب ہے کہ اگر کسی کے حالاتِ زندگی اور اوصاف اس لحاظ سے بیان کئے جائیں کہ وہ حدیث کا راوی ہے، تو یہ علم رجال کا موضوع کہلائے گا؛ اگر مؤلف اور مصنّف ہونے کی اعتبار سے اس کا تذکرہ کیا جائے تو یہ علم فہرست نگاری کے زمرے میں داخل ہوگا؛اگر شیخ ، استاد اور صاحبِ اجازہ ہونے کے عنوان سے اس کے بارے میں بحث کی جائے تو یہ علم مشیخہ کا موضوع ہوگا؛اور اگر کسی کے مختلف سیاسی، ثقافتی اور اجتماعی صفات اور آثار کا تذکرہ کیا جائے تو اسے علم تراجم کا موضوع کہا جائے گا۔
مذکورہ چار علوم، اگرچہ موضوع(افراد کے حالاتِ زندگی اور ان کے اوصاف) کے لحاظ سے مشترک ہیں، لیکن یہ بات واضح ہے کہ ان میں سے ہر ایک، علم حدیث کے ایک خاص پہلو کے بارے میں بحث کرتا ہے اس بناء پر علوم ِ حدیث میں ان کی تأثیر بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوگی۔
ایک بات ذہن نشین رہے کہ علومِ حدیث کی کتب میں،فہرست شناسی اور مشیخہ شناسی کے مباحث کو مستقل علم کا نام نہیں دیا گیا ہے،لیکن اس بات کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ یہ مباحث ،موضوع اور غرض وغایت کے لحاظ سے علم حدیث کے دیگر علوم سے مختلف ہیں، لہذا ان کو مستقل علوم کا عنوان دینا کوئی قباحت نہیں رکھتا۔.

علوم حدیث کی اقسام کے بارے میں اہل سنت کی نظر

[ترمیم]

علوم حدیث کے بارے میں،اہل سنت علماء نے متعدد کتابیں تالیف کی ہیں۔یہاں بعض علماء کے نقطہ نظر کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔

← سیوطی


سیوطی، علم حدیث کو دو قسموں -ایک علم حدیث جو روایت کے ساتھ مختص ہے اور دوسرا جو درایت کےساتھ خاص ہے-میں تقسیم کرتے ہیں اور پھر ہرایک کی تعریف ابن اکفانی سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
«علم الحديث الخاصّ بالرواية علم يشتمل علی اقوال النّبی وافعاله وروايتها وضبطها وتحرير الفاظها؛علم روایتِ حدیث وہ علم ہے جو رسول خداؐ کے اقوال اور افعال کے نقل کرنے نیز ان کے الفاظ کو تحریر کرنے پر مشتمل ہو.»
اور علم درايۃ کے بارے میں تحریر کرتے ہیں:
«علم الحديث الخاصّ بالدّراية علم يعرف منه حقيقة الرّواية وشروطها وانواعها واحکامها وحال الرّواة وشروطهم واصناف المرويّات وما يتعلق بها؛ علم درایۃ وہ علم ہے جو روایت کی حقیقت،شرائط، انواع، اسکے احکام، نیز روایوں کے حالات ، شرائط، روایات کی اقسام اور ان سے متعلقہ امور کے بارے میں بحث کرتا ہے.»
مذکورہ تعریفوں سے معلوم ہوتا ہے کہ علم روایت اور علم درایت،تعریف، موضوع اور نتیجے کے لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔

← مبارکفوری کی نظرمیں


تحفۃ الاحوذی کے مؤلف مبارکفوری،جزائری سے علمِ حدیث کی تقسیم -روایتِ حدیث اور درایتِ حدیث-نقل کرنے اور ان(دوقسموں) کی متعدد تعریفیں ذکر کرنے کے بعد، اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ حدیث سے متعلق مباحث، تین علوم میں تقسیم ہوتے ہیں۔ وہ اس ضمن میں لکھتے ہیں۔
«وقدظهر من هذه العبارات انّ علم الحديث يطلق علی ثلاثة معان، الاوّل انّه علم تعرف به اقوال رسول الله (صلی‌الله‌عليه‌و‌آله‌وسلّم) وافعاله واحواله وقدقيل له العلم برواية الحديث کما فی عبارة ابن الاکفانی والباجوری؛ مذکورہ عبارات سے ظاہر ہوتا ہے کہ علم حدیث کا تین معانی پر اطلاق ہوتا ہے۔پہلا وہ علم ہے جس کے ذریعے رسولِ خداؐ کے اقوال، افعال اور حالات سے آشنائی حاصل کی جاتی ہےاور اس علم کو اصطلاح میں علمِ روایت کہا جاتا ہے؛جیساکہ ابن اکفانی اور باجوری کے کلام سے واضح ہے.»
[۱۷] مبارکفوری، محمد بن عبدالرحمان، تحفة الاحوذی بشرح جامع التّرمذی، ج۱، ص۷، مقدّمه، دارالکتب.

وہ حدیث سے متعلق، دوسرے علم کے بارے میں تحریر کرتے ہیں:
«والثانی انّه علم يبحث فیه عن کيفية اتصال الاحاديث بالرسول من حيث احوال رواتها ضبطا وعدالتا ومن حيث کيفيّة السند اتصالا وانقطاعا وغير ذالک؛ اور حدیث سے مربوط دوسرا علم وہ ہے جو راویوں کے ضبط اور عدالت کے احوال کے لحاظ سے، احادیث کا رسولِ خداؐ کی طرف استناد کی کیفیت ؛نیز اتصال اور انقطاع وغیرہ کے اعتبارسے سند کی کیفیت کے بارے میں بحث کرتا ہو.»
[۱۸] مبارکفوری، محمد بن عبدالرحمان، تحفة الاحوذی بشرح جامع التّرمذی، ج۱، ص۷، مقدّمه، دارالکتب.

اور علوم حدیث کے تحت مندرج ہونے والے تیسرے علم کے بارے میں لکھتے ہیں:
«والثالث انّه علم باحث عن المعنی المفهوم من الفاظ الحديث وعن المراد منها مبنيّا علی قواعد العربيّة وضوابط الشريعة ومطابقا لاحوال النبی (صلی‌الله‌عليه‌و‌آله‌وسلّم)؛ تیسرا وہ علم ہے جو الفاظِ حدیث کے مفہوم،نیز لغوی اور شرعی قواعد - جو رسولِ خدا کے حالات کے مطابق ہوں- کی رو سے ان الفاظ کے معنی (مرادِ شارع) کے بارے میں بحث کرتا ہے.»
[۱۹] مبارکفوری، محمد بن عبدالرحمان، تحفة الاحوذی بشرح جامع التّرمذی، ج۱، ص۷، مقدّمه، دارالکتب.

مذکورہ تقسیم میں،پہلے علم سے مرادوہی علم روایت ہے جس کا تذکرہ دوسرے علماء کے کلام میں بھی موجود ہے؛دوسرے علم سے مراد علمِ درایت حدیث ہے؛اوراس تقسیم میں علمِ درایت کے بعض مباحث کو ایک مستقل علم کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔

← محمد بن عجاج کی نظر میں


اصول الحدیث کے مؤلف محمد بن عجاج لکھتے ہیں:
«علم الحدیث روایة هوالعلم الذی یقوم علی نقل ما اضیف الی النّبی من قول او فعل او تقریر او صفة خلقیّة او خلقیّة؛ علم حدیث وہ علم ہے جو رسولِ خداؐ کی طرف منسوب قول، فعل ، تقریر، نیز آپؐ کے جسمانی اور اخلاقی اوصاف کے بارے میں بحث کرتا ہے.»
[۲۰] خطیب، محمدعجاج، اصول الحدیث علومه ومصطلحه، ص۷، دارالفکر، بیروت.

اور علم درایتِ حدیث کے بارے میں مختلف تعریفیں نقل کرنے بعد، وہ تحریر کرتے ہیں:
«هو مجموعة القواعد والمسائل التی یعرف بها حال الرّاوی والمرویّ، من حیث القبول والرّد؛ علمِ درایت حدیث، قواعد اورمسائل کے اس مجموعے کو کہا جاتا ہےجس کے ذریعے، قبول اور ردّ کے لحاظ سےراوی اور روایت کے حالات سے آگاہی حاصل ہوتی ہے.»
[۲۱] خطیب، محمدعجاج، اصول الحدیث علومه ومصطلحه، ص۸، دارالفکر، بیروت.


← علوم حدیث کے مؤلف کی نظر میں


علوم الحدیث کے مؤلف، علوم حدیث کی مختلف تقسیموں اور تعریفوں کو ذکر کرنے کے بعد، تحریر کرتےہیں کہ علم حدیث کو تین علوم میں تقسیم کرنا مناسب ہے ۔ اس کے بعد وہ پہلے علم کے بارے میں کہتے ہیں:
«اوّلا، علم الحدیث روایة … وهو علم یشتمل علی نقل ما اضیف الی النبی (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) قولا کان او فعلا او تقریرا او صفة؛ پہلی قسم، علمِ روایتِ حدیث ہے جو رسول خداؐ سے منسوب، قول وفعل وتقریر اور آپؐ کے(جسمانی اور اخلاقی) اوصاف پر مشتمل ہو.»
[۲۲] زیدان، عبدالکریم و وارد عبدالله، عبدالقهار، علوم الحدیث، ص۷، مطبعه عصام بغداد.

دوسرے علم کے بارے میں وہ لکھتے ہیں:
«ثانیا، علم اصول الحدیث او مصطلح الحدیث، هو علم یعرف به حقیقة الروایة وشروطها وانواعها واحکامها وحال الرّواة وشروطهم واصناف الرّوایات وما یتعلق بها؛ دوسراعلم، علم اصول حدیث یا مصطلح حدیث ہے جس کے ذریعے روایات کی حقیقت ، شرائط ، انواع ، احکام ، نیز روایوں کے حالات ، شرائط اور روایات کی اقسام سے آشنائی حاصل ہوتی ہے.»
[۲۳] زیدان، عبدالکریم و وارد عبدالله، عبدالقهار، علوم الحدیث، ص۷، مطبعه عصام بغداد.

علومِ حدیث میں سے تیسرے علم کے بارے میں انہوں نےیوں تحریر کیا ہے:
«ثالثا، علم الحدیث درایة او فقه الحدیث، علم یبحث فی المعنی المقصود من متن الحدیث قولا کان او فعلا او تقریرا مبنیّا علی القواعد والاصول الخاصّة فی هذا الشّان …؛ تیسری قسم، علمِ درایت حدیث یاعلم فقہِ حدیث ہےجو علمِ حدیث کے مخصوص قواعد اور اصول کی روشنی میں، متنِ حدیث –چاہے وہ قول ہو یا فعل ہو یا تقریر- کے معنی اور مفہوم کے بارے میں بحث کرتا ہو.»
[۲۴] زیدان، عبدالکریم و وارد عبدالله، عبدالقهار، علوم الحدیث، ص۷، مطبعه عصام بغداد.


← خلاصہ


دوسری اور چوتھی تقسیم سے یہ واضح ہوتا ہے کہ بعض اہل سنت علماء نے، علوم حدیث کو تین قسموں میں تقسیم کیا ہے: ۱-علم روایت، ۲-علم درایت، ۳-فقہ الحدیث۔
بعض اہل سنت محققین نے،حدیث(روایت) کو (پہلی اور تیسری تقسیم کی مانند) دو قسموں میں تقسیم کیا ہے:۱-علم روایت،۲-علم درایت ؛ اور اس تقسیم کی بناء پر فقہ الحدیث کے مباحث کو بھی علم درایت کے زمرے میں داخل کیاگیا ہے۔
بہرحال،علوم حدیث کی تقسیم کے بارے میں،شیعہ اور اہل سنت علماء کے درمیان اختلاف پایا جاتاہے؛کیونکہ شیعہ علماء حدیث نے،روایت کو مستقل علم قرار دینے کے قائل نہیں ہیں۔اگرچہ،الذریعۃ الی تصانیف الشیعۃ کے مؤلف نے فقہ الحدیث کے مباحث کو علیحدہ طور پرموردِ بحث قرار دیا ہے۔

علومِ حدیث کا ایک دوسرے کے ساتھ فرق

[ترمیم]

علوم حدیث کی مختلف اقسام کاباہمی تفاوت سے آشنائی ،ان مباحث میں سے ہے جن کے بارے میں بحث وتحقیق کرنا ضروری ہے۔
مقالے کے آغاز میں یہ مطلب بیان گیا کہ علومِ حدیث کی مختلف اقسام کے اسماء، موضوع اور تعریفوں کے بارے میں،اہل فن کے اقوال وآراء مختلف اوربعض موارد میں ایک دوسرے کے ساتھ متناقض ہیں۔مذکورہ اختلاف اور تناقض کو حل کرنا اس مقالے میں ممکن نہیں؛لیکن علومِ حدیث کی مختلف اقسام کا باہمی تفاوت بیان کرنے سے مشکل بہت حد تک حل ہوجاتی ہے۔
علماء کے درمیان اس بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ علوم ایک دوسرے سے موضوع کے لحاظ سے مختلف ہوتے ہیں یا اغراض کے اعتبارسےref>آخوند خراسانی، کفایةالاصول، با تعلیقه آیةالله حکیم، ج۱، ص۸، مکتبه بصیرتی، قم.     اس سلسلے میں صحیح نظریے کا اثبات اس مقالے میں ممکن نہیں۔یہاں ہم دونوں نظریوں(موضوغ اور غرض) کی روشنی میں، علوم حدیث کی اقسام کا باہمی تفاوت ذکر کریں گے۔

← علم رجال کا علم تراجم کے ساتھ فرق


علم رجال،علم تراجم، مشیخہ شناسی اور فہرست شناسی(اس فرض کے ساتھ کہ مشیخہ شناسی اور فہرست شناسی کو مستقل مانے)کا ایک دوسرے کے ساتھ فرق یوں ہے:
اگر اشخاص کی تاریخ اور حالاتِ زندگی ،سندِ حدیث میں وارد ہونے(راوی کے)لحاظ سے بیان کیے جائیں نیز ان کی ایسی صفات کا تذکرہ کیا جائے جو قبولِ حدیث یا ردِّ حدیث میں مؤثر ہوں جیسےکذب وصدق، تو یہ علم رجال کہلائے گا۔
اگر افراد اور شخصیات کی اجتماعی، سیاسی اور ثقافتی حالاتِ زندگی اور ان کی صفات کا ، قبول ِ حدیث یا ردِّ حدیث سے قطع نظر،تذکرہ کیا جائے تو اصطلاح میں یہ علم رجال کہلاتا ہے۔
اور اگر کسی کے حالاتِ زندگی، صاحبِ اجازہ روایت ہونے کے اعتبار سے بیان کیے جائیں، جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ان راویوں کی روایت قابل قبول ہے جو مشائخ ِ اجازہ سے نقل کرتے ہیں،تو یہ مشیخہ شناسی کے زمرے میں داخل ہوگا۔
اور اسی طرح اگر کسی کا، صاحبِ کتاب یاصاحبِ اصل حدیث ہونے کی حیثیت سےتذکرہ کیا جائے، جس کا مقصد اس کتاب یا اصل میں موجود احادیث کو معتبر جاننا ہوتا ہے، تو یہ فہرست شناسی کا موضوع کہلائےگا۔

← علم رجال کا علم درایۃ کے ساتھ فرق


علم رجال کا علم درایۃ کے ساتھ فرق یوں بیان کیا جائے گاکہ علم درایۃ کا موضوع کلی ہے؛کیونکہ درایتِ حدیث کے موضوع میں سند اور متن دونوں داخل ہوتے ہیں اور اس کی غرض وغایت،قبولِ حدیث یا اس کو ردّ کرنا ہے۔لیکن علم رجال کا موضوع جزئی ہےکیونکہ علم رجال میں سند کے ایک ایک فرد (راوی) کے بارے میں بحث ہوتی ہے اور متنِ حدیث سے غرض نہیں ہوتی۔مثال کے طور پر، روایوں میں سے ضعیف اور ثقہ کی شناخت،ان کے صدق وکذب ، ضبط اور عدم ضبط، اور غلو اور عدم غلوجیسے مسائل سے آگاہی، علم رجال کے مباحث میں سے شمار کیا جاتاہے؛ اور یہ بحث کرنا کہ فلاں حدیث صحیح ہے یا حسن،موثق ہے یا ضعیف، متصل ہےیا منقطع اور معنعن ہےیا مسلسل وغیرہ، اگرچہ سندِ حدیث سے مربوط ہے، لیکن چونکہ سند کے ایک ایک فرد اور راوی سے متعلق نہیں بلکہ کلی طور پر سندِ حدیث پر،صحت یا ضعف کا حکم لگایا جاتا ہے، اس لیے یہ مباحث، علم درایۃ کے زمرے میں شمار ہوں گے۔
بالفاظِ دیگر، علم رجال میں موضوع، محدِّث اور اس کی صفات سے آشنائی ہے؛اور علم درایۃ کا موضوع، حدیث اور اس کی مختلف اقسام کی شناخت ہے۔البتہ متنِ حدیث سے متعلق بعض مباحث جیسے:متن کا نص یا ظاہر ہونا،مجمل یا مبیّن ہونا اور محکم یا [[متشابہ ہونا وغیرہ بھی علم درایۃ میں شامل ہیں۔

نتیجہ

[ترمیم]

جیساکہ بیان ہوچکا کہ علم رجال، علم تراجم، مشیخہ شناسی اور فہرست شناسی کا موضوع، اشخاص اور افراد (راوی) ہیں اور علم درایۃ ، علم روایت ، علم فقہ الحدیث اور علم رجال(ایک لحاظ سے) کا موضوع، حدیث ہے۔لیکن یہ علوم جہتِ بحث کے لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔کیونکہ یہ بحث کرنا کہ کونسی حدیث صحیح یا موثق یا ضعیف ہے، کونسی حدیث حدیث نص یا مجمل ہے، علم درایۃ میں داخل ہے؛ اور یہ بحث کرنا کہ فلاں راوی نے ائمہ علیہم السلام سے کونسی آحادیث روایت کی ہیں اور ان کا متن کیا ہے، علمِ روایت میں شامل ہے؛ اور یہ کہنا کہ ان احادیث کا معنی اور مفہوم کیا ہےاور کن معارف اور مطالب پر مشتمل ہیں، علم فقہ الحدیث کا موضوع ہے؛اور یہ بحث کہ کونسے راویوں کی حدیث قبول کی جاتی ہے اور کن افراد کی حدیث ردّ کی جاتی ہے، علم رجال کے زمرے میں شمار کی جائےگی۔
پس معلوم ہوا کہ حدیث سے متعلق علوم، مندرجہ ذیل ہیں:
۱-علم درایت
۲-علم روایت
۳-علم فقہ الحدیث
۴-علم رجال
۵-علم تراجم
۶-مشیخہ شناسی
۷-فہرست شناسی

متعلقہ عنوانات

[ترمیم]

علوم حدیث میں تحقیق؛ علوم حدیث

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. صالح، صبحی، علوم الحدیث ومصطلحه، ص۱۰۸، دارالعلم للملایین.    
۲. فیّومی، احمد بن محمد، المصباح المنیر، ج۱، ص۱۰۲، دارالکتب العلمیة.    
۳. ابن‌منظور، محمد بن مکرم، لسان العرب، ج۱۴، ص۲۵۴.    
۴. طریحی، فخرالدین، مجمع البحرین، ج۲، ص۲۹.    
۵. عسکری، ابوهلال، معجم الفروق اللّغویة، ص۲۳۱، مؤسسه نشر اسلامی.    
۶. مامقانی، عبدالله، مقباس الهدایة فی علم الدّرایة، ج۱، ص۴۱، تحقیق محمدرضا مامقانی، موسسة آل البیت.    
۷. علاّمة، سید ضیاءالدین، ضیاء الدّرایة، ص۱۳، مطبعةالحکمة، قم.
۸. عاملی، بهاءالدین، الوجیزة مع تعالیق مفیدة، ص۲، انتشارات الرسول المصطفی (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم).    
۹. عاملی، بهاءالدین، الوجیزة مع تعالیق مفیدة، ص۲، انتشارات الرسول المصطفی (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم).    
۱۰. شهید ثانی، زین‌الدین، الرعایة فی علم الدرایة، ص۴۹، تحقیق محمدعلی بقّال، منشورات مکتبة آیةالله المرعشی النجفی، قم.    
۱۱. آقابزرگ تهرانی، محمدمحسن، الذریعة الی تصانیف الشیعة، ج۸، ص۵۴.    
۱۲. علیاری، علی، بهجة الآمال فی شرح زبدة المقال، ج۱، ص۴، بنیاد فرهنگ اسلامی کوشان پور.
۱۳. آقابزرگ تهرانی، محمدمحسن، الذریعة الی تضانیف الشیعة، ج۱۰، ص۸۰.    
۱۴. مامقانی، عبدالله، تنقیح المقال فی علم الرجال، ج۱، ص۴۱.    
۱۵. سیوطی، جلال‌الدین، تدریب الرّاوی، ج۱، ص۲۱، تحقیق الدکتور احمد عمرهاشم، دارالکتاب العربی.    
۱۶. سیوطی، جلال‌الدین، تدریب الرّاوی، ج۱، ص۲۱، تحقیق الدکتور احمد عمرهاشم، دارالکتاب العربی.    
۱۷. مبارکفوری، محمد بن عبدالرحمان، تحفة الاحوذی بشرح جامع التّرمذی، ج۱، ص۷، مقدّمه، دارالکتب.
۱۸. مبارکفوری، محمد بن عبدالرحمان، تحفة الاحوذی بشرح جامع التّرمذی، ج۱، ص۷، مقدّمه، دارالکتب.
۱۹. مبارکفوری، محمد بن عبدالرحمان، تحفة الاحوذی بشرح جامع التّرمذی، ج۱، ص۷، مقدّمه، دارالکتب.
۲۰. خطیب، محمدعجاج، اصول الحدیث علومه ومصطلحه، ص۷، دارالفکر، بیروت.
۲۱. خطیب، محمدعجاج، اصول الحدیث علومه ومصطلحه، ص۸، دارالفکر، بیروت.
۲۲. زیدان، عبدالکریم و وارد عبدالله، عبدالقهار، علوم الحدیث، ص۷، مطبعه عصام بغداد.
۲۳. زیدان، عبدالکریم و وارد عبدالله، عبدالقهار، علوم الحدیث، ص۷، مطبعه عصام بغداد.
۲۴. زیدان، عبدالکریم و وارد عبدالله، عبدالقهار، علوم الحدیث، ص۷، مطبعه عصام بغداد.


مأخذ

[ترمیم]
رحمانی، محمد، مجله علوم حدیث، سال ۱۳۷۶، ش۳ مأخوذ از «بحث‌های مقارن در علم الحدیث (۱)»، تاریخ بازیابی ۱۳۹۹/۱۰/۱۷۔    
سایت اندیشه قم، مأخوذ از «اقسام علوم حدیث»، تاریخ بازیابی ۱۳۹۹/۱۰/۱۷۔    


اس صفحے کے زمرہ جات : تراجم | حدیثی مباحث | درایہ | علم رجال | فقہ الحدیث




جعبه ابزار