عمر کی بیت فاطمہؑ کو جلانے کی دھمکی (طبری کی روایت)
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
محمد بن جریر طبری ایک روایت میں نقل کرتے ہیں کہ
عمر نے بیت فاطمہؑ کو آگ لگانے کی دھمکی دی تھی۔ معاصر وہابی مصنف
عبد الرحمن دمشقیہ نے ایک مقالے میں اس روایت پر اشکال کیے ہیں کہ جن کا اس مقالے میں جائزہ لیا جائے گا۔ اس تحقیق سے یہ معلوم ہوا کہ
روایت کی سند بالکل صحیح ہے اور عبد الرحمن دمشقیہ کے سارے اشکالات بے بنیاد ہیں اور ان سے اس کی بے دقتی اور عدم توجہی کا پتہ چلتا ہے۔
[ترمیم]
معاصر
وہابی مصنف،
عبد الرحمن دمشقیہ نے «قصة حرق عمر رضی الله عنه لبیت فاطمة رضی الله عنها» کے عنوان سے «فیصل نور» سائٹ پر شائع ہونے والے مقالے میں
محمد بن جریر طبری کی روایت اور
عمر بن خطاب کی
فاطمہؑ کے گھر کو جلانے کی دھمکی کے بارے میں لکھا ہے:
۲ -
حدثنا ابنحمید قال حدثنا جریر عن مغیرة عن زیاد بن کلیب قال اتی عمر منزل علی وفیه طلحة والزبیر ورجال من المهاجرین فقال والله لاحرقن علیکم او لتخرجن الی البیعة فخرج علیه الزبیر مصلتا بالسیف فعثر فسقط السیف من یده فوثبوا علیه فاخذوه فی الروایة آفات وعلل منها: جریر بن حازم وهو صدوق یهم وقد اختلط کما صرح به ابوداود والبخاری فی التاریخ الکبیر (۲/۲۲۳۴).
المغیرة وهو ابنالمقسم. ثقة الا انه کان یرسل فی احادیثه لا سیما عن ابراهیم. ذکره الحافظ ابنحجر فی المرتبة الثالثة من المدلسین وهی المرتبة التی لا یقبل فیها حدیث الراوی الا اذا صرح بالسماع عمر،
علیؑ کے گھر کی طرف آیا کہ جہاں
طلحہ و
زبیر اور مہاجرین کی ایک جماعت جمع تھی اور کہا: خدا کی قسم!
ابوبکر کی
بیعت کیلئے آؤ ورنہ گھر کو آگ لگا دوں گا۔ زبیر تلوار نیام سے نکال کر باہر آئے مگر اچانک زمین پر گر پڑے اور تلوار ان کے ہاتھ سے گر گئی۔ ان پر حملہ آور ہو کر انہیں اسیر کر لیا گیا۔
اس روایت میں کئی مشکلات ہیں کہ ان میں سے ایک
جریر بن حازم کا وجود ہے اگرچہ وہ سچا ہے مگر کبھی وہم و اشتباہ سے دوچار ہو کر درست و نادرست کو ابوداؤد کے بقول مخلوط کر دیتا تھا۔
دوسری مشکل
مغیرہ بن مقسم ہے جو
ثقہ ہے؛ مگر اس کی احادیث
مرسل ہیں۔
ابن حجر نے اسے مدلسین کے تیسرے مرتبے میں قرار دیا ہے کہ جن کی روایات قابل قبول نہیں ہیں مگر یہ کہ انہوں نے خود سننے کی صراحت کی ہو۔
’’تاریخ طبری‘‘ کی روایت کی سند کے آغاز اور اختتام پر دو اور اشکال بھی کیے گئے ہیں؛ کہ اس کے پہلے راوی یعنی ابن حمید پر جھوٹ پھیلانے کی تہمت ہے اور اس کا آخری راوی بھی واقعے کا شاہد نہ تھا اور بالواسطہ روایت کر رہا ہے۔ لہٰذا یہ روایت جعلی بھی ہے اور منقطع بھی۔
[ترمیم]
حدثنا ابنحُمَیْدٍ قال حدثنا جریر عن مغیرة عن زِیَادِ بن کُلَیْبٍ قال اتی عمر بن الخطاب منزل علی وفیه طلحة والزبیر ورجال من المهاجرین فقال والله لاحرقن علیکم او لتخرجن الی البیعة فخرج علیه الزبیر مصلتا بالسیف فعثر فسقط السیف من یده فوثبوا علیه فاخذوهعمر بن خطاب بیت علی پر آیا اس حال میں کہ مہاجرین کی ایک جماعت وہاں پر جمع تھی۔ ان سے کہنے لگا: خدا کی قسم! گھر کو آگ لگا دوں گا مگر یہ کہ
بیعت کیلئے باہر نکلو۔ زبیر گھر سے باہر نکلا اس حال میں کہ تلوار سونت رکھی تھی، اچانک ان کا پاؤں پھسلا اور تلوار ان کے ہاتھ سے گر گئی اس موقع پر دیگر حملہ آوروں نے اس پر حملہ کیا اور تلوار اس سے چھین لی۔
[ترمیم]
روایت کی سند میں بہت سے افراد ہیں کہ جن کی وثاقت کا آگے چل کر جائزہ لیا جائے گا۔
ذہبی اس کے بارے میں لکھتے ہیں:
محمد بن حمید. ابنحیان العلامة الحافظ الکبیر ابوعبدالله الرازی مولده فی حدود الستین ومئة قال ابوزرعة من فاته محمد بن حمید یحتاج ان ینزل فی عشرة آلاف حدیث. وقال عبدالله بن احمد سمعت ابییقول لا یزال بالری علم ما دام محمد بن حمید حیا. وقال ابوقریش الحافظ قلت لمحمد بن یحیی ما تقول فی محمد بن حمید فقال الا ترانی احدث عنه. وقال ابوقریش وکنت فی مجلس محمد بن اسحاق الصاغانی فقال حدثنا ابنحمید فقلت تحدث عنه فقال ومالی لا احدث عنه وقد حدث عنه احمد ویحیی بن معینعظیم حافظ علامہ
محمد بن حمید کی ولادت سنہ ۱۶۰ھ کی ہے۔ ابوزرعہ نے ان کے بارے میں کہا ہے: جس نے محمد بن حمید کو درک نہ کیا ہو، وہ دس ہزار احادیث سے محروم ہوا ہے۔
عبد اللہ بن احمد بن حنبل کہتے ہیں: میں نے اپنے والد کو یہ کہتے سنا: جب تک محمد بن حمید
ری شہر میں زندہ تھے، علم و دانش بہت مضبوط تھی۔
ابو قریش محمد بن جمعہ بن خلف کہتا ہے: میں نے
محمد بن یحییٰ سے کہا: محمد بن حمید کے بارے میں کیا کہتے ہو؟! کہنے لگا: کیا دیکھ نہیں رہے کہ اس کی حدیث کو نقل کر رہا ہوں، پھر کہا:
محمد بن اسحاق کی مجلس میں حاضر تھا، میں نے دیکھا کہ وہ محمد بن حمید سے روایت نقل کر رہے ہیں ، میں نے کہا: کیا محمد بن حمید سے حدیث کی روایت کرتے ہو؟! اس نے کہا: کیوں، اس سے حدیث نقل نہ کروں جبکہ احمد حنبل اور
یحییٰ بن معین نے اس سے حدیث کی روایت کی ہے۔
مزی ،
تهذیب الکمال میں اس کے حالات میں لکھتا ہے:
وَقَال ابوبکر بن ابیخیثمة: سئل یحیی بن مَعِین عن محمد بن حمید الرازی فقال: ثقة. لیس به باس، رازی کیس. وَقَال علی بن الحسین بن الجنید الرازی: سمعت یحیی ابنمَعِین یقول: ابنحمید ثقة، وهذه الاحادیث التی یحدث بها لیس هو من قبله، انما هو من قبل الشیوخ الذین یحدث عنهم. وَقَال ابوالعباس بن سَعِید: سمعت جعفر بن ابیعثمان الطیالسی یقول: ابنحمید ثقة، کتب عنه یحیی وروی عنه من یقول فیه هو اکبر منهم....یحییٰ بن معین سے اس کے بارے میں سوال ہوا تو اس نے جواب میں کہا: وہ موردِ اطمینان ہے اور اس میں کوئی اشکال نہیں ہے، وہ اہل ری اور ذہین ہے۔
علی بن حسین رازی نے کہا ہے: میں نے یحییٰ بن معین کو یہ کہتے سنا: ابن حمید موردِ اعتماد ہے۔ اسی طرح علی بن حسین بن جنید رازی نے کہا ہے: ابن حمید کی نقل کردہ احادیث اس کی نہیں ہیں بلکہ اساتذہ سے نقل کی ہیں۔
ابو العباس بن سعد کہتے ہیں: میں نے
جعفر بن عثمان طیالسی کو یہ کہتے سنا: ابن حمید موردِ اطمینان ہے؛ یحییٰ نے اس سے روایت نقل کی ہے اور اس شخص نے اس سے روایت نقل کی ہے جو خود شہرت کا حامل اور ان سب (راویوں) سے بزرگ ہے یعنی
احمد بن حنبل نے۔
البانی، محمد بن حمید کی روایت کو صحیح قرار دیتے ہیں:
معاصر وہابی مصنف محمد ناصر البانی نے کتاب
صحیح و ضعیف سنن الترمزی اور
سلسله احادیث الصحیحه میں ان احادیث کو صحیح قرار دیا ہے جن کی اسناد میں محمد بن حمید موجود ہے۔
یہاں چند موارد کی طرف اشارہ کریں گے:
رضی تلامتی ما رضی لها ابنامِّ عبدٍ... و قد روی الحدیث بزیادة فیه بلفظ: و کرهت لامتی ما کره لها ابنام عبد . قال فی المجمع (۹/ ۲۹۰):
رواه البزار و الطبرانی فی الاوسط باختصار الکراهة، و رواه فی الکبیر منقطع الاسناد، و فی اسناد البزار محمد بن حمید الرازی و هو ثقةو فیه خلاف و بقیة رجاله وثقوا (سنن الترمذی) ۶۰۶
حدثنامحمد بن حمید الرازی حدثنا الحکم بن بشیر بن سلمان حدثنا خلاد الصفار عن الحکم بن عبدالله النصری عن ابیاسحق عن ابیجحیفة عن علی ابنابیطالب رضی الله عنه ان رسول الله صلی الله علیه وسلم قال ستر ما بین اعین الجن وعورات بنی آدم اذا دخل احدهم الخلاء ان یقول بسم الله قال ابوعیسی هذا حدیث غریب لا نعرفه الا من هذا الوجه واسناده لیس بذاک القوی وقد روی عن انس عن النبی صلی الله علیه وسلم اشیاء فی هذا تحقیق الالبانی: صحیح، ابنماجة (۲۹۷)
(سنن الترمذی) ۱۷۶۲
حدثنامحمد بن حمیدالرازیحدثنا ابوتمیلة والفضل بن موسی وزید بن حباب عن عبد المؤمن بن خالد عن عبدالله بن بریدة عنام سلمة قالت کان احب الثیاب الی النبی صلی الله علیه وسلم القمیص قال ابوعیسی هذا حدیث حسن غریب انما نعرفه من حدیث عبد المؤمن بن خالد تفرد به وهو مروزی وروی بعضهم هذا الحدیث عن ابیتمیلة عن عبد المؤمن بن خالد عن عبدالله بن بریدة عن امه عنام سلمة تحقیق الالبانی: صحیح، ابنماجة (۳۵۷۵)
(سنن الترمذی) ۲۴۷۸
حدثنامحمد بن حمیدالرازیحدثنا عبد العزیز بن عبدالله القرشی حدثنا یحیی البکاء عن ابنعمر قال تجشا رجل عند النبی صلی الله علیه وسلم فقال کف عنا جشاءک فان اکثرهم شبعا فی الدنیا اطولهم جوعا یوم القیامة قال ابوعیسی هذا حدیث حسن غریب من هذا الوجه وفی الباب عن ابیجحیفة تحقیق الالبانی: حسن، ابنماجة (۳۳۵۰ - ۳۳۵۱)
(سنن الترمذی) ۲۹۳۶
حدثنا محمد بن حمید الرازی حدثنا نعیم بن میسرة النحوی عن فضیل بن مرزوق عن عطیة العوفی عن ابنعمر انه قرا علی النبی صلی الله علیه وسلم (خلقکم من ضعف) فقال (من ضعف) حدثنا عبد بن حمید حدثنا یزید بنهارون عن فضیل بن مرزوق عن عطیة عن ابنعمر عن النبی صلی الله علیه وسلم نحوه قال ابوعیسی هذا حدیث حسن غریب لا نعرفه الا من حدیث فضیل بن مرزوق تحقیق الالبانی: حسن، الروض النضیر (۵۳۰)
(سنن الترمذی) ۳۵۳۳
حدثنامحمد بن حمیدالرازیحدثنا الفضل بن موسی عن الاعمش عن انس ان رسول الله صلی الله علیه وسلم مر بشجرة یابسة الورق فضربها بعصاه فتناثر الورق فقال ان الحمد لله وسبحان الله ولا اله الا الله والله اکبر لتساقط من ذنوب العبد کما تساقط ورق هذه الشجرة قال ابوعیسی هذا حدیث غریب ولا نعرف للاعمش سماعا من انس الا انه قد رآه ونظر الیه تحقیق الالبانی: حسن، التعلیق الرغیب (۲/ ۲۴۹)
وہابی علما میں البانی کے مقام کو دیکھتے ہوئے محمد بن حمید کی وثاقت کے اثبات کیلئے اس کی توثیق و تصحیح کافی ہے۔
نسائی اور
جوزجانی جیسے بعض علمائے
جرح و تعدیل نے محمد بن حمید کو ضعیف قرار دیا ہے؛ مزی لکھتے ہیں:
وقال النسائی: لیس بثقة. وقال ابراهیم بن یعقوب الجوزجانی: ردئ المذهب غیر ثقةنسائی نے کہا ہے کہ محمد بن حمید ثقہ نہیں ہیں اور ابراہیم بن یعقوب جوزجانی نے انہیں ناقابل اطمینان اور پست مذہب قرار دیا ہے۔
نسائی نے
ابو حنیفہ کی بھی تضعیف کی ہے۔ کیا ان افراد کی تضعیف کوئی اہمیت یا اعتبار رکھتی ہے؟!
نسائی اور جوزجانی کی تضعیف ناقابل قبول اور غیر معتبر ہے؛ کیونکہ نسائی توثیق کے حوالے سے بہت سخت موقف رکھتے ہیں اور احناف کے سربراہ یعنی ابوحنیفہ کی بھی تضعیف کر دی ہے؛
لکھنوی نے
الرفع والتکمیل میں لکھا ہے:
ولم یقبل جرح النسائی فی ابیحنیفة وهو ممن له تعنت وتشدد فی جرح الرجال المذکور فی میزان الاعتدال ضعفه النسائی من قبل حفظهنسائی نے ابو حنیفہ کی مذمت میں جو کہا ہے، اسے قبول نہیں کیا جائے گا؛ کیونکہ اس نے کتاب
میزان الاعتدال میں افراد کی مذمت میں سخت موقف اختیار کیا ہے۔
پھر جوزجانی وہ شخص ہے جو
امیر المومنینؑ کے ساتھ دشمنی میں مشہور و معروف ہے۔ ذہبی اور ابن حجر اس کے بارے میں لکھتے ہیں:
وکان من الحفاظ المصنفین والمخرجین الثقات، لکن فیه انحراف عن علیوہ حفاظ و مصنفین میں سے ہے بلکہ ثقہ راویوں کو متعین کرنے والوں میں سے ہے مگر اس میں امیر المومنین علیؑ سے انحراف ہے (ان کے دشمنوں میں سے شمار ہوتا تھا)۔
حتی اگر یہ فرض کریں کہ نسائی اور جوزجانی کی تضعیفات کی اہمیت ہو، پھر بھی یہ اس امر کا سبب نہیں ہو گی کہ ہم محمد بن حمید کی روایت سے دستبردار ہو جائیں؛ کیونکہ اولا: یحییٰ بن معین، احمد بن حنبل اور طیالسی جیسوں نے اس کی توثیق کی ہے جو آئمہ جرح و تعدیل میں سے شمار ہوتے ہیں اور نسائی کی تضعیفات جو سخت گیر اور متشدد شمار ہوتے ہیں اور یا جوزجانی جو امیر المومنینؑ کا دشمن ہے؛ کی تضعیف یحییٰ بن معین کی توثیق کے سامنے نہیں ٹھہر سکتی۔
ثانیا: ان تمام موارد سے چشم پوشی کرتے ہوئے یہ فرض کرتے ہیں کہ ایک گروہ نے اس کی تضعیف اور ایک نے توثیق کی ہو، پھر بھی یہ روایت قبول کی جائے گی؛ کیونکہ اہل سنت کے رجالی قواعد کے مطابق ایسے شخص کی روایت ’’حسن‘‘ کا درجہ رکھتی ہے اور حسن روایت علمائے
اہل سنت کے نزدیک
حجت ہے اور اس حوالے سے ہم بطور مثال چند نمونے پیش کریں گے:
ابنحجر عسقلانی قزعہ بن سوید کے بارے میں لکھتے ہیں:
اما قزعة بن سوید... واختلف فیه کلام یحیی بن معین فقال عباس الدوری عنه ضعیف وقال عثمان الدارمی عنه ثقة وقال ابوحاتم محله الصدق ولیس بالمتین یکتب حدیث هو لایحتج به وقال ابنعدی له احادیث مستقیمة وارجو انه لا باس به وقال البزار لم یکن بالقوی و قدحدث عنه اهل العلم و قال العجلی لاباس به وفیه ضعیف. فالحاصل من کلام هؤلاء الائمة فیهان حدیثه فی مرتبة الحسن والله اعلماس کے بارے میں اہل علم کے اقوال مختلف ہیں، بعض نے اس کی تضعیف کی ہے اور بعض نے اسے صادق یا ثقہ قرار دیا ہے مگر کہا ہے کہ اس کی حدیث کو لکھا جائے گا لیکن اس کے ساتھ استدلال نہیں ہو گا اور ایک گروہ نے اس کی حدیث کو قبول کیا ہے اگرچہ وہ قوی نہیں ہے۔
مگر ابن حجر آخر یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں: رجال و حدیث کے آئمہ سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ قزعۃ بن سوید کی روایت و حدیث حسن کا مرتبہ رکھتی ہے۔
تہذیب التہذیب میں
عبد اللہ بن صالح لکھتے ہیں:
وقال ابنالقطان هو صدوق ولم یثبت علیه ما یسقط له حدیثه الاانه مختلف فیه فحدیثه حسنابن قطان عبد اللہ بن صالح کو صادق قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں: وہ چیز جو اس کی حدیث کو رد کرنے کی باعث ہو، ثابت نہیں ہوئی ہے اور اس کے بارے میں اختلاف موجود ہے مگر اس کی حدیث حسن ہے۔
زرکشی نے
اللآلئ المنثوره میں لکھا ہے:
وقد اخرجه ابنماجة فی سننه عن کثیر بن شنظیر عن محمد سیرین... وکثیر بن شنظیر مختلف فیه فالحدیث حسنابنماجه نے اپنی سنن میں عبدالله بن صالح کی حدیث کو
کثیر بن شنطیر کے
محمد بن سیرین کے طریق سے نقل کیا ہے اگرچہ کثیر بن شنطیر کے بارے میں اختلاف ہے؛ مگر اس کے باوجود اس کی حدیث صحیح ہے۔
حافظ ہیثمی نے
مجمع الزوائد میں لکھا ہے:
رواه احمد وفیه عبدالله بن محمد بن عقیل وهو سیء الحفظ قال الترمذی صدوق وقد تکلم فیه بعض اهل العلم من قبل حفظه وسمعت محمد بن اسماعیل یعنی البخاری یقول کان احمد بن حنبل واسحق بن ابراهیم والحمیدی یحتجون بحدیث ابنعقیل قلت فالحدیث حسن والله اعلمعبد الله بن محمد بن عقیل کا حافظہ اچھا نہیں تھا، ترمذی نے اسے سچا قرار دیا ہے اور بعض علما نے اس کے حافظے کی توانائی کے حوالے سے کچھ باتیں کی ہیں،
بخاری کہتے ہیں: احمد حنبل،
اسحاق بن ابراہیم اور حمیدی نے اس کی حدیث سے استدلال کیا ہے، پھر نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ
ابن عقیل کی حدیث حسن ہے۔
حافظ ابن قطان نے
بیان الوهم والایهام میں بہت سے موارد میں اسی قاعدے کا سہارا لیا ہے کہ جن میں سے دو موارد کی طرف اشارہ کریں گے:
وهو انما یرویه ابنوهب، عن اسامة بن زید اللیثی، عن نافع عنه. واسامة مختلف فیه، فالحدیث حسن. وقد تقدم ذکر اسامة فی هذا الباباسامہ بن زید سے نقلِ روایت میں اختلاف ہے مگر اس کی حدیث حسن ہے اور اسامہ بن زید لیثی کے بارے میں بھی اسی انداز سے بات کی ہے اور آخر میں اس کی حدیث کو حسن کا درجہ دے دیا ہے۔
وهو حدیث یرویه سلام ابوالمنذر، عن ثابت، عن انس. وهو سلام بن سلیمان القارئ، صاحب عاصم، وهو مختلف فیه، فالحدیث حسنسلام بن سلمان قاری کے بارے میں اختلاف ہے؛ مگر اس کی حدیث «حسن» ہے۔
اسی طرح
ملا علی قاری ایک حدیث کہ جس کی اسناد میں ابو المنیب موجود ہے؛ کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
ورواه الحاکم وصححه وقال ابوالمنیب ثقة ووثقه ابنمعین ایضاً وقال ابنابیحاتم سمعت ابییقول صالح الحدیث وانکر علی البخاری ادخاله فی الضعفاء وتکلم فیه النسائی وابن حبان وقال ابنعدی لا باس به فالحدیث حسنحاکم نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور اس کو صحیح قرار دیتے ہوئے کہا ہے: ابو المنیب ثقہ ہے اور ابن معین نے بھی اس کی توثیق کی ہے اور ابن ابی حاتم کہتا ہے: مین نے اپنے والد کو یہ کہتے سنا: ابو المنیب کی حدیث صحیح ہے اور بخاری کی جانب سے اس کا نام ضعیف افراد کے ردیف میں قرار دینے پر اسے اعتراض تھا۔ نسائی نے اس کے بارے میں تردید کی ہے اور
ابن حبان اور
ابن عدی نے کہا ہے کہ اس میں کوئی اشکال نہیں ہے؛ پس حدیث حسن ہے۔
نیز مناوی فیض القدیر میں لکھتے ہیں:
طب عن عبدالله بن زید الانصاری الاوسی ثم الخطمی کوفی شهد الحدیبیة قال الهیثمی: وفیه احمد بن بدیل وثقه النسائی وضعفه ابوحاتم ای فالحدیث حسناحمد بن بدیل کی نسائی نے توثیق اور ابو حاتم نے تضعیف کی ہے مگر اس کی حدیث حسن کے مرتبے پر ہے۔
اسی طرح
محیی الدین نووی،
شوکانی اور
مبارکفوری ایک روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
وفی اسْنَادِهِ عبدالرحمن بن حَبِیبِ بن ازدک (اردک) وهو مُخْتَلَفٌ فیه قال النَّسَائِیّ مُنْکَرُ الحدیث وَوَثَّقَهُ غَیْرُهُ قال الْحَافِظُ فَهُوَ علی هذا حَسَنٌاس کی سند میں
عبد الرحمن بن حبیب بن ازدک موجود ہیں کہ جس کی وضیعت میں اختلاف ہے مگر بہر صورت اس کی حدیث حسن ہے۔
اسی طرح
زیلعی،
نصب الرایة میں ایک حدیث کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
حدیث آخر اخرجه الترمذی... وقال غریب ورواه احمد فی مسنده قال بن القطان فی کتابه وابو معشرهذا مختلف فیه فمنهم من یضعفه ومنهم من یوثقه فالحدیث من اجله حسن انتهیابو معشری اس
حدیث کی سند میں موجود ہیں، بعض نے ان کی تضعیف کی ہے اور بعض نے توثیق کی ہے؛ لہٰذا سند میں ان کے وجود کی وجہ سے حدیث کا رتبہ حسن ہے۔
اب مذکورہ بالا مطالب کی روشنی میں یہ ثابت ہوا کہ راوی کی توثیق و تضعیف میں علما کا اختلاف حدیث کے درجہ اعتبار سے سقوط کا سبب نہیں بنتا بلکہ وہ روایت ’’حسن‘‘ کے مرتبہ پر فائز ہو جاتی ہے اور
روایتِ حسن بھی
روایتِ صحیح کی مانند
حجت اور علمائے اہل سنت کیلئے قابل قبول ہے۔
اس قاعدے پر عمل قدیم علما سے مخصوص نہیں ہے بلکہ معاصر اہل سنت علما نے بھی اس کی صحت کو قبول کیا ہے اور اس کے پابند ہیں۔
وہابیوں کے مابین خصوصی اہمیت کے حامل
محمد ناصر البانی نے صرف کتاب
سلسلۃ احادیث الصحیحۃ، میں اسی قاعدے سے استفادہ کرتے ہوئے پچاس سے زیادہ مقامات پر روایات کو صحیح قرار دیا ہے کہ جن میں سے مختلف کتب سے ۱۵ موارد کی طرف اشارہ کریں گے۔
۱.
قلت: وهذا اسنادحسن، رجاله کلهم ثقات رجال البخاری غیر ابنثوبان واسمه عبد الرحمن بن ثابت وهو مختلف فیه اس حدیث کی سند حسن ہے کیونکہ اس حدیث کے رجال سب بخاری کے رجال میں سے ہیں اور سب ثقہ ہیں، سوائے
ابن ثوبان کہ جس کے بارے میں اختلاف ہے۔
۲.
وصالح بن رستم و هو ابوعامر الخزاز البصری لم یخرج له البخاری فی صحیحه الا تعلیقا، واخرج له فی الادب المفرد ایضاثم هو مختلف فیه، فقال الذهبی نفسه فی الضعفاء: وثقه ابوداود، وقال ابنمعین: ضعیف الحدیث. وقال احمد: صالح الحدیث. وهذا هو الذی اعتمده فی المیزان فقال: وابو عامر الخزاز حدیثه لعله یبلغ خمسین حدیثا، وهو کما قال احمد: صالح الحدیث. قلت: فهوحسن الحدیث ان شاء الله تعالی، فقد قال ابنعدی: وهو عندی لا باس به، ولم ار له حدیثا منکرا جدا. واما الحافظ فقال فی التقریب: صدوق، کثیر الخطا. وهذا میل منه الی تضعیفه. والله اعلمابو عامر خزّار بصری سے بخاری نے صرف تعلیقی صورت میں حدیث نقل کی ہے، اس کے بارے میں اختلاف ہے۔ ذہبی ضعیف راویوں کے ذیل میں لکھتے ہیں: ابو داؤد نے خزار بصری کی توثیق کی ہے اور ابن معین کے بقول ضعیف ہے اور احمد بن حنبل نے اسے
صالح الحدیث کا نام دیا ہے اور کتاب
المیزان میں اسی بات پر اعتماد کیا گیا ہے اور اسے دہرایا گیا ہے۔
البانی اس کے بعد کہتے ہیں: ابو عامر کی حدیث کا رتبہ حسن ہے؛ کیونکہ ابن عدی نے کہا ہے؛ میرے نزدیک ابو عامر میں کوئی اشکال نہیں ہے اور اس سے کوئی منکر حدیث نقل نہیں ہوئی ہے ۔ ابن حجر نے کتاب
التقریب میں کہا ہے: ابو عامر سچا ہے مگر اس کی خطائیں بہت زیادہ ہیں کہ گویا اس کی تضعیف کی طرف مائل ہیں۔
۳.
قلت: وهذا اسناد حسن رجاله ثقات معرفون غیر سلیمان بن عتبة وهو الدمشقی الدارانی مختلف فیه، فقال احمد: لا اعرفه وقال ابنمعین: لا شیء، وقال دحیم: ثقة، ووثقه ایضا ابومسهر والهیثم ابنخارجة وهشام بن عمار وابن حبان ومع ان الموثقین اکثر، فانهم دمشقیون مثل المترجم فهم اعرف به من غیرهم من الغرباء، والله اعلم حدیث کی سند حسن ہے کیونکہ اس کے رجال معروف اور ثقہ ہیں؛ سلیمان بن عتبہ دمشقی کے علاوہ کہ اس کے بارے میں اختلاف ہے۔ احمد نے کہا ہے: میں اسے نہیں پہچانتا۔ ابن معین کہتا ہے: اس کا کوئی مقام نہیں ہے۔ دحیم اسے ثقہ قرار دیتا ہے اور ابومسھر، ھیثم بن خارجہ، ہشام بن عمار اور ابن حبان نے بھی اسے ثقہ قرار دیا ہے اور کیونکہ اس کی توثیق کرنے والے زیادہ ہیں اور دوسری طرف سے وہ سب دمشقی ہیں؛ پس یہ نتیجہ لینا چاہئے کہ وہ دوسرے اجنبیوں کی نسبت زیادہ آگاہ ہیں۔
۴.
واسناد احمد حسن رجاله ثقات رجال مسلم غیر محمد بن عبدالله بن عمرو وهو سبط الحسن الملقب بـ (الدیباج) وهو مختلف فیه احمد کی سند حسن ہے؛ کیونکہ اس کے رجال ثقہ ہیں اور صحیح مسلم کے رجال میں سے ہیں؛ سوائے
محمد بن عبد اللہ بن عمر کے کہ اس کے بارے میں اختلاف ہے۔
۵.
قلت: واسناده خیر من اسناد حدیث عیاض رجاله ثقات رجال الشیخین غیر سنان بن سعد وقیل: سعد بن سنان وهومختلف فیه، فمنهم من وثقه ومنهم من ضعفه. قلت: فهوحسن الحدیثاس کے اسناد عیاض کی حدیث سے بہتر ہیں؛ اس کے رجال ثقات ہیں اور شیخین (بخاری و مسلم) کے رجال میں سے ہیں؛ سوائے
سنان بن سعد کہ جس کے بارے میں اختلاف ہے، بعض نے اس کی توثیق کی ہے اور بعض نے تضعیف کی ہے؛ مگر اس کی حدیث ’’حسن‘‘ ہے۔
۶. وروی منه ابنماجه (۳۳۷۶)
القضیة الوسطی منه من طریق اخری عن سلیمان بن عتبة به. قال البوصیری فی الزوائد: اسناده حسن، وسلیمان بن عتبة مختلف فیهوباقی رجال الاسناد ثقات. قلت: وهو کما قالاس حدیث کی سند کے رجال ثقہ ہیں؛ سوائے سلیمان بن عتبہ کے۔
بوصیری نے
الزوائد میں کہا ہے: اس حدیث کی سند حسن ہے اور
سلیمان بن عتبہ میں اختلاف واقع ہوا ہے۔ باقی راوی موردِ اعتماد ہیں۔
۷.
وابراهیم بن المهاجر وهو البجلی مختلف فیه، فقال احمد: لا باس به وقال یحیی القطان: لم یکن بقوی، وفی التقریب: صدوق لین الحفظ. قلت: فهوحسن الحدیث ان شاء الله تعالیابراہیم بن مہاجر بجلی کے بارے میں اختلاف ہے۔ احمد کہتا ہے: اس میں کوئی اشکال نہیں ہے اور
یحیٰ بن قطان نے کہا ہے: قوی نہیں ہے، تقریب میں آیا ہے: صادق ہے مگر اس کا حافظہ کمزور تھا؛ بہرحال اس کی حدیث حسن ہے۔
۸.
قلت: وهذا اسنادحسن، رجاله ثقات رجال الصحیح غیر الاجلح وهو ابنعبدالله الکندی وهو صدوق کما قال الذهبی والعسقلانی والحدیث قال فی الزوائد (۱۳۱/ ۲):
هذا اسناد فیه الاجلح بن عبدالله مختلف فیه، ضعفه احمد وابو حاتم والنسائی وابو داود وابن سعد، ووثقه ابنمعین والعجلی ویعقوب بن سفیان وباقی رجال الاسناد ثقاتسند کے رجال، سب ثقہ ہیں اور
صحیح بخاری کے رجال میں سے ہیں؛ سوائے
اجلج بن عبدالله کندی جو سچا ہے؛ چنانچہ ذہبی اور ابن حجر نے یہی بات کی ہے۔
مجمع الزوائد میں کہا ہے: اس حدیث کے اسناد میں اجلج بن عبد اللہ کہ جس کی احمد،
ابو حاتم اور
ابن سعد نے تضیعف کی ہے مگر ابن معین،
عجلی اور
یعقوب بن سفیان نے ان کی توثیق کی ہے؛ مگر
حدیث کے باقی
رجال ثقہ ہیں۔
۹. اخرجه ابنماجه (۲/ ۴۰۷)
من طریق سعد بن ابراهیم بن عبد الرحمن بن عوف عن معبد الجهنی عن معاویة مرفوعا. وفی الزوائد: اسناده حسنلان معبد الجهنی مختلف فیهوباقی رجال الاسناد ثقات. قلت: وهو کما قالمجمع الزوائد میں آیا ہے: حدیث کی سند میں معبد جہنی ہے کہ جس کے بارے میں اختلاف ہے مگر سند کے باقی رجال ثقہ ہیں۔ میں کہتا ہوں: اس کا کلام درست ہے۔
۱۰.
قلت: ورجاله ثقات رجال مسلم غیر الباهلی هذا، وهو مختلف فیه، وقال الحافظ فی التقریب: صدوق له اوهام. قلت: فهو حسن الحدیث ان شاء الله تعالی حدیث کی سند کے رجال وہی صحیح مسلم والے ہیں کہ ثقہ ہیں سوائے باہلی کے، حافظ نے تقریب میں اسے صادق کہا ہے مگر اس کی حدیث حسن ہے۔
۱۱.
قلت: وهذا اسناد حسنعلی الخلاف المعروف فی الاحتجاج بروایة عمرو بن شعیب عن ابیه عن جده، و الذی استقر علیه عمل الحفاظ المتقدمین و المتاخرین الاحتجاج بها، و حسب القاریء ان یعلم قول الحافظ الذهبی فیه فی کتابه المغنی: مختلف فیه، و حدیثه حسن، و فوق الحسنحدیث کی اسناد حسن ہے؛ کیونکہ استدلال میں
عمرو بن شعیب کی اس کے والد اور جد سے روایت میں اختلاف ہے مگر متقدم و متاخر حفاظ نے اس کی روایت سے استناد و استدلال کیا ہے۔ اس مطلب کے بارے میں ذہبی کا یہ سخن کافی ہے کہ کہتا ہے: عمر بن شعیب کے بارے میں اختلاف ہے مگر اس کی حدیث حسن ہے بلکہ اس سے بالاتر ہے۔
۱۲.
اسناده حسن رجاله کلهم ثقات غیر عمر بن یزید النصری وهو مختلف فیه کما تقدم آنفا وقد خرجت الحدیث فی الصحیحةاس حدیث کی سند میں موجود سب رجال ثقہ ہیں؛ سوائے
عمر بن یزید نصری کہ جس کے بارے میں اختلاف ہے۔ جیسا کہ اس سے پہلے گزر چکا ہے، میں نے اس کی حدیث کو کتاب الصحیحہ میں نقل کیا ہے۔
۱۳.
حدیث صحیح اسناده حسن ورجاله ثقات غیرسکین بن عبد العزیز و هو مختلف فیه والراجح عندی انه حسن الحدیث حدیث صحیح اور اس کی سند حسن ہے، اس کے رجال سب ثقہ ہیں؛ سوائے
سکین بن عبد العزیز جس کے بارے میں اختلاف ہے؛ تاہم میرے نزدیک راجح کلام یہ ہے کہ اس کی روایت حسن ہے۔
۱۴.
قلت: وهذا سندحسنبما قبله فان داود هذامختلف فیه وجزم الذهبی فی المیزان بانه ضعیف ووثقه ابنحبان (۱/ ۴۱)
وقال ابوحاتم: تغیر حین کبر وهو ثقة صدوق وقال النسائی: لیس بالقویحدیث کی سند حسن ہے؛ کیونکہ اس حدیث میں فقط داؤد کے بارے میں اختلاف ہے۔ ذہبی نے
المیزان میں اس کے ضعیف ہونے کا یقین کیا ہے۔ تاہم میرے نزدیک راجح قول یہ ہے کہ اس کی حدیث حسن ہے۔
۱۵.
قلت: وهذا اسناده حسن رجاله ثقات رجال الشیخین غیر عبدالله بن دکین وهو ابوعمر الکوفی البغدادی مختلف فیه قال الذهبی فی المغنی: معاصر لشعبة وثقه جماعة وضعفه ابوزرعة وقال الحافظ فی التقریب: صدوق یخطئاس حدیث کی سند میں موجود سب رجال ثقہ ہیں؛ کیونکہ صحیح بخاری و مسلم کے رجال میں سے ہیں سوائے
عبد اللہ بن دکین کوفی کہ ذہبی کتاب المغنی میں کہتا ہے: وہ شعبہ کا ہم عصر تھا اور ایک گروہ نے اس کی توثیق کی ہے؛ مگر
ابو زرعہ نے تضعیف کی ہے۔ حافظ ابن حجر نے بھی کتاب التقریب میں اسے صادق مگر خطاکار کہا ہے۔
مذکورہ بالا مطالب سے یہ نکتہ واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ علمائے جرح و تعدیل اس روایت کو حسن کہتے ہیں کہ جس کے ایک راوی کے بارے میں اختلاف ہو اور بعض نے اس کی تائید و تصدیق کی ہو۔
در نتیجہ حتی اگر فرض کریں کہ نسائی، جوزجانی اور بعض دیگر سنی علما کی محمد بن حمید کے بارے میں جرح قابل قبول بھی ہو پھر بھی روایت کے اعتبار کیلئے مضر نہیں ہے؛ کیونکہ زیادہ سے زیادہ محمد بن حمید مختلف فیہ ہو گا اور مختلف فیہ راوی کی روایت مذکورہ قاعدے کی رو سے حسن ہو گی اور حسن روایت بھی صحیح روایت کی مانند اہل سنت کے نزدیک معتبر اور قابل قبول ہے۔
جریر بن عبدالحمید بن قُرْط ضَبِّی صحیح بخاری و مسلم کے راویوں میں سے ہے اور مزی
تہذیب الکمال میں اس کے ترجمے کے بارے میں لکھتے ہیں:
قال محمد بن سعد: کان ثقة کثیر العلم، یرحل الیه. و قال محمد بن عبدالله بن عمار الموصلی: حجة کانت کتبه صحاحامحمد بن سعد کہتے ہیں: جریر ثقہ اور کثیر العلم تھے، لوگ حصول علم کیلئے اس کے پاس آتے تھے۔
محمد بن عبد اللہ موصلی کہتے ہیں: وہ حجت تھے اور ان کی سب کتب صحیح ہیں۔
لہٰذا عبد الرحمن دمشقیہ کا اشکال کہ اس نے کہا ہے:
جریر بن حازم وهو صدوق یهم وقد اختلط کما صرح به ابوداود والبخاری فی التاریخ الکبیر (۲/۲۲۳۴)
بلا اساس ہے اور اس پر دو اہم اشکال ہیں:
اولاً: محمد بن حمید رازی، نے روایت کو جریر بن عبد الحمید سے نقل کیا ہے نہ کہ جریر بن حازم سے اور یہ دمشقیہ کی روایت کی سند میں عدم دقت کی علامت ہے۔
ثانیاً: حتی اگر فرض کریں کہ جریر بن حازم بھی ہو تو اس کی توثیق نہیں کی جا سکتی؛ کیونکہ وہ بھی بخاری، مسلم اور باقی صحاح ستہ کے راویوں میں سے ہیں؛ اس لیے دمشقیہ کا اشکال بالکل بے بنیاد ہے۔
مغیرة بن مِقْسَم ضَبِّی بھی بخاری، مسلم اور باقی صحاح ستہ کے راویوں میں سے ہیں۔ مزی نے
تہذیب الکمال میں اس کے بارے میں لکھا ہے:
عن ابیبکر بن عیاش: ما رایت احدا افقه من مغیرة، فلزمته. وقال احمد بن سعد بن ابیمریم، عن یحیی بن معین: ثقة، مامون. قال عبد الرحمن بن ابیحاتم: سالت ابی، فقلت: مغیرة عن الشعبی احب الیک ام ابنشبرمة عن الشعبی فقال: جمیعا ثقتان. وقال النسائی: مغیرة ثقةابوبکر عیاش کہتا ہے: میں نے مغیرہ سے دانا تر کسی کو نہیں دیکھا کہ جس کی صحبت اختیار کرتا۔ یحییٰ بن معین کہتا ہے: وہ ثقہ اور امین ہے۔
ابن ابی حاتم کہتا ہے: میں نے اپنے والد سے سوال کیا کہ آیا مغیرہ کی شعبی سے روایت تجھے زیادہ پسند ہے یا شبرمہ کی شعبی سے روایت؟! کہنے لگا: دونوں موردِ اطمینان ہیں۔ نسائی کہتا ہے: مغیرہ ثقہ ہے۔
دمشقیہ نے اشکال کیا تھا کہ:
المغیرة وهو ابنالمقسم. ثقة الا انه کان یرسل فی احادیثه لا سیما عن ابراهیم. ذکره الحافظ ابنحجر فی المرتبة الثالثة من المدلسین وهی المرتبة التی لا یقبل فیها حدیث الراوی الا اذا صرح بالسماع(مغیرۃ بن مقسم ثقہ ہے؛ فقط نکتہ یہ ہے کہ اس نے اپنی احادیث کو
مرسل نقل کیا ہے نہ مسند؛ بالخصوص ابراہیم سے۔ ابن حجر نے اسے مدلسین کے تیسرے مرتبے میں ذکر کیا ہے کہ جن کی روایات قابل قبول نہیں ہیں؛ سوائے یہ کہ راوی نے سماع کی تصریح کی ہو)
تو اس کے جواب میں ہم کہیں گے کہ اگر وہ مدلس تھا تو کیوں بخاری، مسلم اور ۔۔ نے اس سے روایات نقل کی ہیں؟!
وہ بھی
صحیح مسلم،
ترمذی اور ۔۔ کے راویوں میں سے ہیں۔ مزی نے تہذیب الکمال میں اس کے ترجمے میں لکھا ہے:
قال احمد بن عبدالله العجلی: کان ثقة فی الحدیث، قدیم الموت. وقال النسائی: ثقة. وقال ابنحبان: کان من الحفاظ المتقنین، مات سنة تسع عشرة و مئةعجلی نے کہا ہے: وہ روایت میں موردِ اطمیان تھا۔ نسائی نے کہا ہے: وہ موردِ اطمینان ہے۔
ابن حبان نے کہا ہے: وہ مضبوط حفاظ میں سے تھے اور ۱۱۹ برس کے سن میں فوت ہوئے۔
اولا: جیسا کہ
بلاذری کی روایت میں اشارہ ہوا کہ جب اہل سنت بزرگوں میں سے کسی شخص نے کسی مطلب کا اعتراف کیا ہو تو یہ اثباتِ مطلب کیلئے کافی ہے حتی اگر وہ خود واقعات کا شاہد نہ بھی ہو؛
ثانیا: وہ تمام روایات جنہیں
زیاد بن کلیب نقل کرتا ہے، وہ ایسے افراد سے ہیں کہ جو اہل سنت کے بزرگ علما کے نزدیک سب کے سب قطعی طور پر
ثقہ ہیں۔
اس کے اساتذہ کے نام یہ ہیں:
۱.
ابراہیم نخعی: وہ
فقیہ و عالم فرد تھے، ان کا تقویٰ سب اہل خیر کیلئے باعث تعجب تھا، بہت ہی مشہور و معروف تھے اور علم میں سرفہرست تھے۔
ابراهیم النخعی: الفقیه کان عجبا فی الورع و الخیر، متوقیا للشهرة، راسا فی العلم ۲.
سعید بن جبیر: ثقہ، ثبت اور
دین و
احکام میں فقیہ تھے۔
سعید بن جبیر: ثقة ثبت فقیه ۳.
عامر شعبی: ثقہ، مشہور و معروف، فقیہ اور فاضل تھے۔
۴. فضیل بن عمرو فقیمی: ثقہ ہیں۔
[ترمیم]
روایت کی سند بالکل صحیح ہے اور عبد الرحمن دمشقیہ کے سب اشکالات بے بنیاد ہیں کہ جس سے اس کی عدم توجہی اور بے دقتی کا پتہ چلتا ہے؛ حتی سند کا انقطاع بھی اس کی حجیت کیلئے مضر نہیں ہے۔
[ترمیم]
[ترمیم]
موسسه ولیعصر، ماخوذ از مقالہ «بررسی روایت تاریخ طبری و تهدید عمر به آتش زدن خانه فاطمه (سلاماللهعلیها)»۔