غالی فرقہ
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
غالی وہ گروہ ہے جس نے ہر دور میں تعلیمات آئمہ معصومینؑ کو نقصان پہنچایا اور آج بھی فرقہ غالیہ برصغیر میں شدت سے مومنین میں اپنے انحرافی عقائد عوام الناس میں پھیلا رہے ہیں، ماضی میں بھی سلاطینِ جور نے اس گروہ کو استعمال کیا اور آج بھی استعمار تشیع کی ابھرتی ہوئی طاقت کو توڑنے کے لیے اسی گروہ سے مدد لے رہا ہے. غالی حضرات یعنی وہ لوگ جو آئمہ معصومین ؑ پر
اعتقاد رکھنے میں
حد سے تجاوز کر جاتے ہیں اور افراطی گری کا شکار ہوتے ہیں، اس تحریر میں غالیوں کی تاریخ، ان کے اعتقادات اور ان کے مکتب تشیع پر پڑنے والے برے اثرات کے بارے میں مختصر طور پر ذکر کیا گیا ہے.
[ترمیم]
غلو کے لغوی معنی
حد سے
تجاوز کرنے کے ہیں۔
غلاة دراصل غالی کی جمع ہے۔ اصطلاح میں غالی سے مراد وہ شخص ہے جو
امیر المومنینؑ اور بقیہ آئمہ معصومینؑ کے بارے میں
الوهیت یا
نبوت کا دعویٰ کرے اور کہے کہ یہ شخصیات رب ہیں، اس طرح وہ ان شخصیات کے بارے میں
اعتدال کی
حد کو تجاوز کرتے ہیں.
غلو کا لفظ در اصل
قرآن کریم سے لیا گیا ہے جب اللہ تعالیٰ نے مسیحیوں کو حضرت عیسیؑ کے بارے میں غلو کرنے سے
نہی فرمائی اور فرمایا کہ ان کی ذات میں غلو کرنے سے پرہیز کرو۔
یا اهل الکتاب لا تغلوا فی دینکم ولا تقولوا علی الله الا الحق؛ اے اہل کتاب! دین میں غلو مت کرو اور سواۓ
حق بات کے خدا کے بارے میں کوئی بات نہ کرو۔
البتہ اس بات کی طرف توجہ رہے کہ آئمہ معصومینؑ کے وہ فضائل جو برحق ہیں ان کا اقرار کرنے سے کوئی غالی نہیں بن جاتا جیسا کہ
علمِ امام،
عصمتِ امام و
قدرتِ امام کا اقرار کرنا ہے. فقط الوہیت و
ربوبیت کی ان شخصیات کی طرف نسبت دینے سے انسان غالی بنتا ہے۔
[ترمیم]
غلو کرنا یعنی اپنی محبوب شخصیات کو بڑھا چڑھا کر یا ان کی حد سے بڑھا کر پیش کرنا۔ غلو دراصل ایک نفسیاتی کیفیت ہے جو ایک انسان کی نادانی، کم عقل اور چاپلوس ہونے کی نشاندہی کرتی ہے۔ ایک انسان جب اپنے لیڈر و رہبر کی بے جا تعریفیں کرتا ہے تاکہ وہ لیڈر کی نظروں میں مقام و منزلت حاصل کر لے اور اس طرح اپنی دنیا سنوار سکے تو آہستہ آہستہ وہ غلو کرنے لگتا ہے یہاں تک ایک وقت آتا ہے کہ اس کا وجود غلو کے مرض میں ڈھل جاتا ہے۔ یہی وجہ کہ الہی رہبران بے جا تعریف اور خوش آمد کو ناپسند جانتے اور اپنے پیروکاروں کو جھوٹی تعریفیں کرنے سے منع فرما دیتے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ ایک پیروکار اپنے رہبر کے راہ یا اس کے نظریات کے مطابق خود کو نہیں ڈھال پاتا تو کم از کم یہ کرتا ہے کہ اپنے رہبر کی ذات میں غلو کر کے اپنے نفس کو خوش کرنے کی کوشش کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اس کام سے اس کا رہبر بھی خوش ہوگا. اعتقادات میں غلو کرنا کوئی آج کل کی بات نہیں بلکہ قبل
اسلام بھی یہ مرض افراد میں موجود تھا، مثلا عیسائیوں نے
حضرت عیسیؑ کی ذات میں غلو کیا، اور یہودیوں نے حضرت
عزیرؑ کی ذات میں غلو کیا، اور یہی غلو کرنے والے، جب ان کے نبی مشکلات کا شکار تھے ایک بھی نظر نہ آیا اور نہ ان کا زندگی میں کبھی ساتھ دیا کیونکہ یہ افراد چاپلوسی کرنے کے ماہر ہوتے ہیں اپنے رہبر پر جان قربان کرنے والے نہیں.
قرآن کریم میں ان
غلاة کا ذکر ہوا ہے:
وقالت الیهود عزیر ابن الله وقالت النصاری المسیح ابن الله؛ اور
یہود کہتے تھے کہ عزیرؑ
فرزند خدا ہیں، اور
نصاری کہتے تھے کہ مسیحؑ اللہ کے فرزند ہیں۔ البتہ باقاعدہ طور پر غالیوں کا ایک گروہ کی شکل اختیار کر جانا اور ایک منظم فرقہ بننا اوائل اسلام میں قرار پایا، مثلا حضرت علیؑ کی ذات میں بعض افراد نے غلو کا اظہار کیا تو امام نے ان کو بہت سخت سزا دی.
امام باقرؑ و
صادقؑ سے منقول روایات سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس فرقے کی فعالیت اور تعلیمات اس زمانے میں بہت پھیل گئی تھیں۔
[ترمیم]
غالیوں کا سب سے اہم ترین عقیدہ یہ ہے کہ وہ
امیرالمومنین امام علیؑ کو مقام الوہیت یا نبوت پر فائز سمجھتے ہیں اور بقیہ آئمہؑ کرام کے بارے میں بھی یہی عقیدہ رکھتے ہیں.
غالیوں کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ امام
خالقیت اور
رازقیت میں اللہ تعالیٰ کا شریک ہوتا ہے وہ سمجھتے ہیں کہ امام بدونِ
وحی و بدون
اذنِ خدا علم غیب رکھتا ہے یعنی امام کا علم مستقل ہے اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ نہیں، غالی سمجھتے ہیں کہ امام دراصل ذات باری تعالیٰ میں حلول کرجاتا ہے یا امام اور خدا اس طرح سے آپ میں متحد ہیں کہ جیسے ایک ہی ذات ہو، غالیوں کا سب سے خطرناک ترین عقیدہ یہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں اگر کوئی شخص امام کی معرفت حاصل کر لے تو اسے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں وہ معصیت بھی کرے تو اسے کوئی مسئلہ نہیں ہوگا.
یہی وہ نظریہ ہے کہ جس کی وجہ سے غالیوں کے عقائد و ان کی کیفیت کو سمجھنا آسان ہو جاتا ہے، غالی کا نفس اسے دھوکہ دیتا ہے اور وہ چاہ رہا ہوتا ہے کہ اس کا رہبر اسے کوئی حکم نہ دے، کسی بات سے مت روکے، جو اس کا دل کرے وہ انجام دے اور جو اس کی نفسانی میلان کے برخلاف ہو وہ کام اس سے نہ لیا جائے، یہ نکما اور فالتو انسان چاہ رہا ہوتا ہے کہ فقط اپنی چرب زبانی کے زور پر اپنے رہبر کی چاپلوسی کرے اس کو بھی راضی کرے اور خود کو بھی اپنے رہبر کی نظروں میں خود کو عزیز بھی بنا لے.
[ترمیم]
ائمه معصومینؑ کوو ہر دور میں ایسے مددگار اور فداکار افراد مطلوب تھے جو دین کی راہ میں وقت کے امام کی نصرت کرتے، نا کہ ایسے افراد جو سارا دن چمٹے رہیں چاپلوسی کریں اور جب امام کوئی حکم دے تو بہانہ بنا کر فرار کا راستہ اختیار کریں. افسوس کے ساتھ ایسے افراد آئمہؑ کو بہت میسر آۓ اور آئمہؑ نے بھی کبھی ان کو اپنے مفاد کے لیے استعمال نہ کیا الٹا ان کے خلاف سخت ترین موقف اختیار کیا کیونکہ انہوں نے فقط شان امامت میں ہی گستاخی نہیں کی تھی بلکہ اسلام کے اعلی و عظیم ترین عقیدہ
توحید کو نشانہ بنایا، اس لیے آئمہؑ نے بہت سخت الفاظ میں غالیوں کے عقائد کو رد کیا اور انہیں دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا.
امام علیؑ سے روایت میں وارد ہوا ہے:
قال امیرالمؤمنینؑ: اللهم انی برئ من الغلاة کبراءة عیسی بن مریم من النصاری، اللهم اخذلهم ابدا ولا تنصر منهم احد؛امیرالمومنینؑ نے فرمایا: میں غالیوں سے بری ہوں بیزار ہوں جس طرح سے
عیسی بن مریم نے ان نصاری سے بیزاری اختیار کی(جنہوں نے حضرت عیسیؑ کی ذات میں غلو کیا) خدایا ان کو ذلیل و خوار فرما اور ان میں سے کسی ایک کی بھی مدد نہ کرنا۔
امام جعفر صادق فرماتے ہیں:
احذروا علی شبابکم الغلاة لا یفسدوهم فان الغلاة شر خلق الله، یصغرون عظمة الله ویدعون الربوبیة لعباد الله؛ اپنے جوانوں کے بارے میں غالیوں کے خطرے سے آگاہ رہو، کہیں غلاة ان کو گمراہ نہ کریں کیونکہ غالی خداوند کی بدترین مخلوق ہیں یہ
عظمتِ خدا کو کم کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے بندوں کے بارے میں
ربوبیت کا دعویٰ کرتے ہیں۔
[ترمیم]
آئمہ معصومینؑ نے ہر دور میں غالیوں کے بارے میں شدید مؤقف رکھا اور ان کی مخالفت کی، ہمیشہ کوشش کرتے کہ غالیوں کو شیعوں سے دور رکھیں، اگرچہ غالی خود کو شیعہ کہتے تھے اور خود کو آئمہ معصومینؑ سے منسوب کرتے تھے اور ان کا نام لے کر من گھڑت غلو آمیز عقائد بیان کرتے لیکن آئمہؑ کی ہمیشہ یہ کوشش رہتی کہ ان کو شیعت سے دور رکھیں، یہی وجہ تھی کہ اس زمانے کے لوگ ان کے من گھڑت عقائد سنتے اور یہ سمجھ لیتے کہ یہی عقائد شیعوں کے بھی ہیں، ان کے امام بھی دراصل ایسا ہی ادعا کرتے ہیں (نعوذبااللہ). یہی وجہ تھی کہ مکتب تشیع و رہبران تشیع کو بدنام کرنے کے لیے انہوں نے کوئی کسر نہ چھوڑی.
یحیی بن عبدالحمید اپنی کتاب اثباث
ولایت امیرالمومنین میں لکھتا ہے کہ ایک دن اس نے شریک سے پوچھا کہ میں نے سنا ہے کہ جعفر صادقؑ نے اپنے اجداد سے روایت نقل کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ ان کی معرفت رکھنے سے انسان پر
روزه و
نماز ساقط ہوجاتا ہے، یا ایک حدیث میں انہوں نے کہا ہے کہ علیؑ بادلوں میں ہوتے ہیں اور ہوا کی طرح فضا میں پرواز کرتے ہیں؟ یہ سب سن کر مجھے شریک نے جواب دیا: خدا کی قسم! جعفر صادقؑ نے ایسی کوئی بات کبھی بھی نہیں کی، جعفر اس سے بہت زیادہ با تقوی تر اور پرہیزگار تر ہے کہ ایسی باتیں بیان کرے کہ لوگ ان سے ایسی باتیں سنیں اور انہیں نقل حدیث میں
حدیث ضعیف شمار کریں.
یہ ایک نمونہ ہے ایسی روایات کا کہ جس میں غالیوں کی جانب سے آئمہ معصومینؑ کو بدنام کرنے کا اشارہ موجود ہے، یہ لوگ احکام دین کے قائل نہیں تھے اور آئمہؑ کی موجودگی میں ان پر تہمتیں باندھتے، حالانکہ اگر واقعی کوئی شیعہ ہے تو اس کی معرفت امام بڑھنے سے اطاعت الہی بڑھ جانی چاہیے لیکن غالیوں کے نظریے کے مطابق جو امام کی معرفت رکھے اسے نماز روزے کی ضرورت نہیں.
غالیوں نے سب سے زیادہ نقصان مکتب تشیع کو پہنچایا اس فرقے نے کبھی بھی وقت کے ظالم فاسق حکومتوں کو کبھی نقصان نہ پہنچایا، علماء سو و درباری علماء سے کبھی علمی بحث مباحثے نہ کیے، اگر کوئی کام کیا تو فقط مکتب تشیع و رہبران تشیع کی بدنامی کروائی، مثلا کتاب
ملل و نحل کے لکھاری نے شیعہ دشمنی میں غالیوں کے متعدد فرقوں کو شیعت سے جوڑ دیا اور ان گمراہ فرقوں کی آئمہ معصومینؑ کے اصحاب کی جانب نسبت دے ڈالی اور دعوی کیا کہ ان سب غالی فرقوں کے بانی آئمہؑ کے شاگرد تھے، یہ دعوی کرنا اس سبب سے تھا کہ خود غالی اپنے منحرف عقائد کو آئمہؑ کے حقیقی اصحاب کی طرف نسبت دیتے بلکہ خود امام سے منسوب کرتے اور کہتے کہ یہ سب نظریات امام نے بیان کیے ہیں. انہیں غالیوں کے منحرف فرقوں میں سے چند کا ذکر یہاں پر کیا جا رہا ہے جو آئمہ معصومینؑ کے اصحاب سے منسوب کر دیے گئے، ہشامیہ (منسوب به ہشام بن سالم جوالیقی)
زراریہ (منسوب بہ
زرارہ بن اعین)، شیطانیہ یا نعمانیہ (منسوب بہ
مومن الطاق) مفضلیہ (منسوب بہ مفضل بن عمر صیرفی)
انہیں میں سے ایک بڑا نام
جابر بن یزید جعفی کا ہے کہ جس کی علماء رجال نے وثاقت بیان کی ہے لیکن ان کے بارے میں غالیوں نے ادعا کیا ہے کہ جابر بن یزید جعفی، مغیرة بن سعید کے
خلیفہ و جانشین ہیں، اور یہ کہ جابر
فرقہ مغیریہ کے رئیس ہیں.
غالی حضرات دینی احکام کو نہیں مانتے تھے یا ان کو اصلاً اہمیت نہیں دیتے تھے اس لیے غالیوں نے شیعوں کی جانب سے ہر حکومت مخالف قیام کو نقصان پہنچایا، طرفدارانِ قیام میں شیعہ بن کر گھل مل جانا، رہبرانِ قیام کے بارے میں پروپیگنڈہ کرنا کہ وہ بھی غالی نظریات کا حامل شخص ہے، سب سے زیادہ نقصان انہوں نے تشیع کو یہ پہنچایا کہ خود کو شیعت سے منسوب کیا اور لوگوں نے بھی اس کو مان لیا جس سے امت قرآنی و محمدی دین سے دور ہو گئی.
[ترمیم]
علماء امامیہ نے بھی بغیر کسی خوف و
مسامحہ کے غالیوں کی
تکفیر کی ہے اور ان کو دائرہ
اسلام سے خارج قرار دیا.
شیخ صدوق فرماتے ہیں: ہمارا غلاة اور مفوضہ کے بارے میں یہ نظریہ ہے کہ وہ کافر ہیں، یہود و نصاری سے بدتر اور
مجوس و
قدریہ و
حروریہ سے بھی گمراہ تر ہیں.
شیخ مفید غلاة کے بارے میں اپنی نظر بیان فرماتے ہیں: یہ گمراہ کافر ہیں جن کے بارے میں
امیرالمومنینؑ نے حکم دیا کہ ان کو قتل کر دیا جائے اور انہیں جلا دیا جائے، بقیہ ائمہؑ نے بھی ان کے کافر اور خارج از اسلام ہونے کا
حکم صادر فرمایا ہے.
[ترمیم]
تاریخ میں غالیوں کے ایک سو پچاس سے زائد فرقوں کا ذکر ملتا ہے.
ان میں سے بعض مشہور فرقہ جات کا ذکر کیا جا رہا ہے: ۱. ابلقیہ ۲. ابوسعیدیہ ۳. ابومسلمیہ ۴. اسحاقیہ ۵. بابکیہ ۶. بکریہ ۷. جواربیہ ۸. حربیہ ۹. حلمانیہ ۱۰. حماریہ ۱۱. خابطیہ ۱۲. خداشیہ ۱۳. راوندیہ.
[ترمیم]
زمانہ غیبت کبری سے لے کر آج تک غالی فرقہ جات کا ذکر جو ان میں مشہور ہیں: ۱-
اہل حق ۲-
بابیہ ۳-
بکتاشیہ ۴-
بہائیہ ۵-
پسیخانیہ ۶-
حروفیہ ۷-
دروزیہ ۸-
سنائیہ ۹-
صباحیہ ۱۰-
طاووسیہ ۱۱-
قزلباشیہ ۱۲-
کاکائیہ ۱۳-
مشعشعیہ ۱۴-
نصیریہ ان سب فرقہ جات کی تعلیمات کو بغور مطالعہ کیا جاۓ تو یہ بات بطور احسن معلوم ہو جاۓ گی کہ ان فرقہ جات کا
شیعہ اثنی عشری سے کسی قسم کا تعلق واسطہ نہیں، تشیع اور ان غالی فرقوں کے نظریات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
[ترمیم]
روایات میں غالی فرقوں کے وجود میں آنے کے اسباب بیان کیے گئے ہیں جن میں سے بعض کو یہاں پر ذکر کیا جا رہا ہے:
امام رضاؑ ایک روایت میں ارشاد فرماتے ہیں: یہ گمراہ کافر لوگ حق سے
منحرف نہ ہوۓ مگر یہ کہ اپنی نادانی کی وجہ سے، یہاں تک کہ ان کی حیرت و ہیجان بڑھ گیا..... انہوں نے مقامِ
خدا کو کم قرار دیا اور اس کے امر کی
تحقیر کی.
امام سجادؑ سے ایک روایت میں وارد ہوا ہے کہ یہودیوں نے حضرت عزیرؑ اور نصاری نے حضرت عیسیؑ کے مورد میں غلو کیا اس کا ایک سبب ان سے زیادہ محبت کرنا تھا.
اگر ہم غالی فرقوں کی تعلیمات اور ان کے نظریات کو با دقت مطالعہ کریں تو ہمیں ملتا ہے کہ یہ لوگ اباحی گریِ مطلق کی
تبلیغ کیا کرتے تھے، مطلب سب کچھ مباح ہے کوئی بھی کام ناجائز نہیں، جو بھی کریں انجام دینا چاہیں کوئی حرج نہیں، ان کا ماننا تھا کہ کیونکہ ہم امام کی حقیقی معرفت رکھتے ہیں اس لیے جو بھی گناہ انجام دینا چاہیں وہ ہمارے لیے مباح ہے. یہاں تک کہ اپنی بیٹی سے
ازدواج کو بھی مباح سمجھتے تھے.
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ حقیقت میں کسی قسم کی فضیلت اہلبیتؑ کے قائل ہی نہیں تھے بلکہ یہ صرف ایک نعرہ تھا جس کی بنا پر یہ لوگ اپنی
شهوتیں پوری کرتے، فرض کریں جو شخص اپنی بیٹی سے بھی ازدواج کرنے کے لیے تیار ہے اسے کونسا دین کا یا امام کا درد ہونا ہے۔
غالی فرقہ جات کے رہبران کی زندگی کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے اکثر افراد جاہ طلب و شہرت طلب تھے مثلا
ابوالخطاب،ابومنصور عجلی جس نے محبت اہلبیتؑ کا دعویٰ کیا، محبین اہلبیتؑ کو اپنی طرف جذب کیا اور اس طرح مالی فوائد حاصل کرنے کی کوشش کی.
[ترمیم]
[ترمیم]
سایت پژوہہ، یہ تحریر مقالہ فرقہ غالیہ سے مأخوذ ہے۔