غیبت علم فقہ میں
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
کسی شخص کی پیٹھ پیچھے
برائی کرنا اور اس کی عدم موجودگی میں اس کی
بدگوئی کرنا غیبت کہلاتا ہے۔
[ترمیم]
فقہی کتب میں
باب المتاجر اور
باب المکاسب میں اس لفظ کا استعمال کیا جاتا ہے۔
مکاسب میں ایسے اعمال سے کمائی کا تذکرہ کیا جاتا ہے جو بذات خودِ
حرام اعمال و افعال ہیں تو اس کے ضمن میں غیبت سے تفصیلی بحث کی جاتی ہے۔
[ترمیم]
غیبت سے مراد کسی شخص کی پیٹھ پیچھے عیب جوئی کرنا یا اس کی عدم موجودگی میں اس کی برائی کرنا یا مذمت کی
نیت سے بدگوئی کرنا ہے۔ عیب جوئی اور بدگوئی اعم ہے جو
زبان، آنکھوں کے اشاروں کنایوں،
جسم کی حرکات سکنات، لکھنا اور ہر وہ عمل یا اثر جس سے برائی یا
عیب جوئی کو ظاہر کیا جا سکے کو شامل ہے۔ نیز غیبت میں بدن،
نسب،
اخلاق، کردار، گفتار و رفتار،
دین،
دنیا بلکہ لباس، گھر اور اس کی مانند دیگر اشیاء میں کسی قسم کا فرق نہیں ہے۔
اگر کوئی شخص ایک عیب کو اپنی طرف نسبت دینے کو ناپسند نہیں سمجھتا بلکہ اس عیب کی نسبت پر خوش ہوتا ہے اور اس کو اپنے لیے کمال قرار دیتا ہو تو یہ عیب جوئی غیبت شمار نہیں ہو گی۔ اسی طرح اگر ایک عیب
عرف کی نظر میں عیب شمار نہ ہوتا ہو یا عیب جوئی و سرزنش کی
نیت سے عیب کا بیان کرنا مقصود نہ ہو تو یہ بھی غیبت نہیں کہلائے گی، جیسے
ڈاکٹر کا مریض کو چیک کرنا یا بادشاہ یا سلطان سے امداد وصول کرنے کے لیے کسی کا عیب بیان کرنا تاکہ سن کر اس کا دل نرم ہو جائے وغیرہ۔
[ترمیم]
غیبت کے
وجود اور تحقق کے لیے جو شرائط فقہی کتب میں ذکر کی گئی ہیں ان میں سے اہم شرط یہ ہے کہ غیبت کرنے والا کسی
مؤمن کے ایسے عیب کو بیان کرے جو عیب اس میں حقیقتًا پایا جائے اور وہ عیب پوشیدہ ہو۔ نیز بعض نے یہ شرط بھی ذکر کی ہے کہ اس عیب کے بیان کرنے پر مومن راضی نہ ہو بلکہ ناراضگی اور نا پسندیدگی کا اظہار ہے۔
البتہ بعض دیگر فقہاء نے
کراہت اور ناپسند جاننے کو غیبت کے تحقق کی شرط قرار نہیں دیا اور اس صورت میں بھی عیب جوئی کو غیبت کا
مصداق شمار کیا ہے جب عیب رکھنے والا اس عیب جوئی پر راضی اور خوش ہو۔ پس جس مومن کی برائی کی جا رہی ہے اگر وہ اس برائی کرنے پر راضی ہو تب بھی یہ برائی کرنا غیبت شمار ہو گا۔ اس طرف توجہ رہے کہ یہاں پر کلام
متجاہر یعنی اعلانیہ
فسق و فجور کرنے والے اور
متہتک یعنی ایسا شخص جسے کوئی پروا نہیں ہوتی کہ اس کے بارے میں کیا کہا جا رہا ہے کے متعلق نہیں ہے۔
غیبت کے تحقق کی اہم شرط یہ ہے کہ جس عیب کو بیان کیا جا رہا ہے وہ عیب وجود بھی رکھتا ہو۔ پس جس کی غیبت کی جا رہی ہے اگر اس میں وہ عیب نہیں پایا جاتا ہے تو یہ عمل غیبت شمار نہیں ہو گا بلکہ یہ
بہتان کا مصداق قرار پائے گا۔ اسی طرح اگر عیب لوگوں سے پوشیدہ ہو تو اس عیب کو آشکار کرنا غیبت کرنا کہلائے گا۔ لیکن اگر کوئی عیب ظاہر اور آشکار ہو اور اس کو مذمت یا عیب جوئی کے
ارادہ سے نہ بیان کیا جائے تو یہ غیبت کرنا شمار نہیں ہو گا، مثلا اگر ایک شخص
نابینا ہے یا بہرہ یا اپاہج ہے اور اس آشکار و اعلانیہ نقص و عیب کو عیب جوئی کے بغیر بیان کیا جائے تو یہ غیبت شمار نہیں ہو گی۔ لیکن اگر ایسا عیب ہو جو لوگوں کے سامنے آشکار اور ظاہر ہے اور اس عیب کو مومن کی اذیت اور
اہانت کے ارادہ سے بیان کیا جائے تو بلا شک و شبہ یہ عمل خود
حرام ہے کیونکہ مومن کو اذیت دینا یا اس کی توہین کرنا حرام ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس صورت میں یہ عمل غیبت شمار ہو گا یا نہیں؟ اس بارے میں اختلاف بایا جاتا ہے۔
[ترمیم]
قرآن کریم میں اللہ تعالی نے
غیبت کرنے سے منع فرمایا ہے اور اس کو برادر مومن کا
گوشت کھانا قرار دیا ہے۔
اس اعتبار سے غیبت حرام بلکہ
گناہِ کبیرہ ہے۔
غیبت کی
حرمت مؤمن کے ساتھ مختص ہے۔ مؤمن سے مراد بارہ
آئمہ معصومینؑ کی
امامت کا قائل ہے۔ غیر مومن کی غیبت حرام ہے یا نہیں؟ اس بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔
جس طرح سے غیبت کرنا حرام ہے اسی طرح سے غیبت سننا بھی
حرام ہے۔ سننے والے پر
واجب ہے کہ اگر اس کے لیے ممکن ہے تو غیبت سننے سے اجتناب کرے اور غیبت کو دور کرے۔
غیبت سے اجتناب کرنے اور اس کو دور کرنے سے مراد یہ نہیں ہے کہ جو شخص غیبت کر رہا ہے اس کو منع کر دیا جائے اور اس سے الجھا جائے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ جس مؤمن کی غیبت ہو رہی ہے اس کے عیب کا
دفاع کیا جائے اور اس مؤمن کی اس طور پر مدد کی جائے کہ اس کا نقص و عیب پوشیدہ رہے، مثلا کسی مؤمن کے بارے میں کوئی دنیوی عیب جوئی سنے تو فورا کہے کہ یہ تو
عیب نہیں ہے، عیب تو وہ ہوتا ہے جسے
اللہ تعالی عیب شمار کرتا ہے۔
بعض فقہاء نے تصریح کی ہے کہ
ممیز بچے کو اپنی غیبت سننے سے اذیت و تکلیف ہوتی ہو تو اس کی غیبت حرام ہے۔
بعض فقہاء نے ذکر کیا ہے کہ اگرچے غیبت کے عمل کا تعلق لوگوں سے ہے لیکن اس کے باوجود اس کا شمار
حقوق اللہ میں ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے اللہ تعالی کی بارگاہ میں اس عمل سے توبہ کافی ہے اور ضروری نہیں ہے کہ جس کی غیبت کی گئی ہے اس سے معافی اور بخشش کی درخواست کرنا ضروری نہیں ہے۔
اس کے مقابلے میں بعض فقہاء قائل ہیں کہ جس کی غیبت کی گئی ہے اس سے معذرت خواہی کرنا اور اسے معافی کی درخواست کرنا
واجب ہے۔ اگر ایسا ممکن نہ ہو تو اس کے
دعا کرے اور اللہ تعالی سے معافی مانگے۔
بعض دیگر فقہاء قائل ہیں کہ امکان کی صورت میں مطلقًا احتیاط کا تقاضا ہے کہ جس کی غیبت کی گئی ہے اس سے معافی مانگی جائے اور اس بخشش کی درخواست کی جائے۔ اگر یہ ممکن نہ ہو تو اللہ تعالی کی بارگاہ میں
توبہ اور استغفار کرنا کافی ہو گا۔
[ترمیم]
غیبت حرام عمل ہے جس سے اجتناب کرنا
واجب ہے۔ غیبت کی حرمت سے بعض موارد مستثنی ہیں۔ ان استثنائی موارد میں غیبت کرنا جائز ہے۔ غیبت کے جائز ہونے کا ایک کلی ضابطہ بھی ہے جس کے مطابق ایسی مصلحت جو مؤمن کی
ہتکِ حرمت کے مفسدہ سے زیادہ اہم اور عزتِ مومن سے بھی مہم تر ہو تو اس مورد میں اس
مومن کی غیبت کرنا جائز ہے۔ درج ذیل سطور میں بعض موارد ذکر کیے جاتے ہیں جن میں غیبت کرنا جائز ہے:
فاسق سے مراد ایسا فرد ہے جو
شریعت کی خلاف ورزی کا برملا اور آشکار طور پر مرتکب ہو۔ ایسا شخص جو اعلانیہ طور پر اللہ تعالی کی حدود پامال کرے اور
حرام کام انجام دے تو اس شخص کی غیبت جائز ہے۔ یہ غیبت فقط اس گناہ میں جائز قرار پائے گی جو گناہ اس نے اعلانیہ اور برملا کیا ہے جبکہ وہ گںاہ جو اس نے اعلانیہ انجام نہیں دیئے آیا ان میں اس
فاسق کی غیبت جائز ہے یا نہیں؟ اس بارے میں فقہاء میں اختلاف پایا جاتا ہے۔
بعض فقہاء قائل ہیں کہ وہ گناہ جن کا ارتکاب اعلانیہ طور پر نہیں کیا گیا ان میں بھی غیبت جائز ہے کیونکہ ان گناہوں کی قباحت اور مفسدہ اعلانیہ گناہوں سے کم نہیں ہے۔
ظالم اور ستم گر کی غیبت اس وقت جائز ہے جب
مظلوم اپنے پر ہونے والے
ظلم کی داد رسی چاہتا ہو۔ چنانچہ مظلوم کے لیے ظالم کی اس کے ظلم کے مقابلے میں غیبت جائز ہے۔ فرق نہیں پڑتا کہ وہ ظالم نے ظلم و ستم پوشیدہ کیا ہے یا اعلانیہ، مظلوم کو داد رسی کا حق حاصل ہے۔ البتہ یہاں یہ سوال ابھرتا ہے کہ آیا ظالم کی غیبت اس وقت جائز ہے جب غیبت ایسے فرد کے سامنے کی جائے جس سے ظلم و ستم کے دور کرنے کی توقع ہو یا مطلقًا غیبت جائز ہے؟ اس مسئلہ میں اختلاف پایا جاتا ہے۔
اگر ایک شخص کسی مسئلہ میں
مشاورت کی خاطر کسی کے پاس جائے تو مشورہ دینے والے پر واجب ہے کہ وہ اس کی خیر خواہی کو مدنظر رکھتے ہوئے مشورہ دے، ایسی صورت میں اگر خیر و صلاح کا جاننا اور مشورہ لینے والے کی خیر خواہی مد مقابل کسی کی غیبت پر موقوف ہے تو اتنی مقدار میں غیبت جائز ہے جس سے مشورہ لینے والا نقصان اور ضرر سے بچ جائے اور خیر و صلاح کو پا لے، مثلا اگر ایک شخص کسی خاتون سے
نکاح کرنا چاہتا ہے اور خاتون کے بارے میں تحقیق کرتے ہوئے کسی سے
مشورہ کرتا ہے اور مشورہ دینے والا جانتا ہے کہ وہ خاتون
اخلاقی فساد میں مبتلا ہے یا ایسے
مرض میں مبتلا ہے جس سے ازدواجی زندگی بسر نہیں ہو سکتی تو ایسی صورت میں مشورہ دینے والے کے لیے اس خاتون کی غیبت کرنا جائز ہے اور اس خاتون کا اخلاقی فساد یا نکاح میں مانع مرض وغیرہ سے باخبر کرنا جائز ہے۔
ہر وہ مورد جہاں
فتوی کا جاننا کسی شخص کے عملِ گناہ کے روشن کرنے یا ظالم کے نام لینے پر موقوف ہو وہاں اس گناہ گار یا ظالم کی غیبت جائز ہے، مثلا فلاں میرا حق غصب کر گیا ہے ایسی صورت میں میری راہِ نجات کیا ہے اور میں کیسے اپنا
حق حاصل کروں؟ اس مورد میں حق غصب کرنے والے کی غیبت جائز ہے۔ اس مورد کے علاوہ دیگر موارد میں غیبت جائز نہیں ہے۔
وہ موارد جن میں منکرات سے
نہی کرنا ضروری ہے اور یہ وظیفہ غیبت کرنے پر موقوف ہے تو ایسے میں منکرات سے باز کرنے اور برائی سے روکنے کی
نیت و
ارادہ سے غیبت کرنا جائز ہے۔
فتنہ گر اور بدعتی کی روک تھام کے لیے غیبت کرنا جائز ہے۔ اگر یہ خوف ہو کہ بدعتی یا دین میں فتنہ میں برپا کرنے والے کی غیبت اور مذمت نہ کی گئی تو لوگ اس بدعت کو شکار ہو جائیں گے اور دین میں فتنہ پیدا کرنے والے کا اثر لینے لگیں گے تو ایسے میں بدعتی اور فتنہ گر کی غیبت کرنا واجب ہو قرار پائے گا۔
اگر غیبت کرنے سے کسی کی جان بچتی ہو یا ضرر و
خطر دور ہوتا ہو تو ایسے مورد میں بد گوئی اور عیب جوئی جائز ہے۔
اگر کسی شخص میں کسی قسم کا عیب یا کوئی
صفت و حالت غلبہ پیدا کر لے جو واضح و آشکار ہو اور وہ اس کی پہچان پن جائے تو ایسے مورد میں اس عیب کو بیان کرنا جائز ہے، مثلا
أحۡوَل یعنی ایک آنکھ سے نابینا ہونا، لنگڑا ہونا، ٹیڑھی آنکھوں والا ہونا وغیرہ۔ ایسے نمایاں اوصاف یا عیوب میں اگر برائی کے ارادہ سے بھی عیب جوئی کی جائے تو یہ غیبت و عیب جوئی جائز ہے۔ یہ استنثاء اس صورت میں ہے جب عیوب یا اوصاف کی نوعیت ایسی ہو جو ظاہر، آشکار اور انسان کی پہچان بن جائے ورنہ دیگر عیوب یا اوصاف کو یہ مورد شامل نہیں ہے اور ان عیوب میں غیبت شمار ہو گی۔ پس اگر یہ موضوع نہ ہو تو یہ غیبت کے جواز کے مورد سے خارج ہو گا۔
جھوٹے
نسب کا دعوی کرنے والے کے جھوٹے دعوی کو جھٹلانے کے لیے اس کی اس امر میں غیبت کرنا جائز ہے۔
اگر اہل باطل کا قول اور اس کی دلیل کو باطل کرنا اور حق کی پاسداری و حفاظت غیبت پر موقوف ہو تو اس مورد میں اہل باطل کی غیبت جائز ہے۔
قاضی کی نظر میں گواہی دینے والے گواہان فاسق ہوں یا گواہوں کے فسق کو
حاکم شرع کے سامنے آشکار کرنے کے لیے غیبت کرنا اس شخص کے لیے جائز ہے جو ان گواہوں کے فسق و فجور سے آگاہ و مطلع ہے۔ نیز
حدیث کی
سند کی جانچ پڑتال کے لیے
راویوں کے فسق کو ظاہر اور آشکار کرنا اور ان پر
جرح کرنا بھی جائز ہے۔
[ترمیم]
[ترمیم]
فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت علیہمالسلام، ج۵، ص۶۲۰، مقالہِ غیبت در فقہ سے یہ تحریر لی گئی ہے۔