قم روایات میں

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



قم اور اہل قم کی فضیلت میں بے شمار روایات موجود ہیں۔ علامہ شہید قاضی نورالله شوشتری کہتے ہیں:
جو روایات قم اور اہل قم کی فضیلت میں رسول خداؐ اور آئمہ اطہارؑ سے مروی ہیں، بہت زیادہ ہیں۔
[۱] شوشتری، مجالس المومنین، ج۱، ص۸۳۔
اس اعتبار سے ان میں سے بعض کا ذکر کریں گے۔


چوتھے آسمان میں لؤلؤ کا گنبد

[ترمیم]

روی علی بن محمد العسکری عن ابیه عن جده عن امیرالمومنین (ع) قال: قال رسول الله (ص) : ((لما اسری بی الی السمأ الرابعه، نظرت الی قبه من لولولها اربعه ارکان و اربعه ابواب کأنها من استبرق أخضر.
قلت: یا جبرئیل، ما هذه القبه التی لم ارفی السمأ الرابعه احسن منها؟ فقال: یا حبیبی محمد، هذه صوره مدینه یقال لها قم، یجتمع فیها عبادالله المومنون.
ینتظرون محمدا و شفاعته للقیامه و الحساب.یجری علیهم الغم و الهم و الاحزان و المکاره...))
پیغمبرؐ نے فرمایا: جب مجھے چوتھے آسمان پر لے جایا گیا تو میں نے چار ستونوں پر قائم موتیوں کا ایک گنبد دیکھا۔
میں نے کہا: یہ گنبد کیا ہے کہ جس سے بہتر میں نے چوتھے آسمان پر نہیں دیکھا؟! جبرئیل نے عرض کیا: اے میرے حبیب محمد! یہ ایک شہر کی صورت ہے کہ جسے قم کہا جاتا ہے۔
اس میں خدا کے مومن بندے جمع ہوں گے، وہ محمد اور آپؐ کی بروز قیامت شفاعت کے منتظر ہیں۔ ان پر غم، پریشانی، حزن اور مصائب وارد ہوں گے۔

نجیب لوگوں کی سرزمین

[ترمیم]

عن حماد الناب قال: کنا عند ابی عبدالله (ع) و نحن جماعه اذ دخل علیه عمران بن عبدالله القمی فسأله و بره و بشه فلما أن قام، قلت لابی عبدالله (ع) من هذاالذی بررت به هذا البر؟ فقال: (من اهل البیت النجبأ یعنی اهل قم ما ارادهم جبار من الجبابره الا قصمه الله).
[۳] مجلسی، بحار الانوار، ج۵۷۔

حماد ناب نامی شخص کہتا ہے: ایک جماعت کے ہمراہ امام صادقؑ کی خدمت میں حاضر ہوا کہ عمران بن عبدالله قمی داخل ہوا۔
امامؑ نے اس سے احوال پرسی کی اور اسے خوش کیا۔
جب وہ واپس چلا گیا تو میں نے ابا عبد اللہ سے عرض کیا: یہ کون تھا کہ جس کے ساتھ آپ اس طرح نیکی سے پیش آئے؟! امامؑ نے فرمایا: وہ نجیب خاندان یعنی اہل قم میں سے ہے۔ کوئی بھی جابر بادشاہ ان کا رخ نہیں کرتا مگر یہ کہ اللہ اسے ہلاک کر دیتا ہے۔
بالفرض مذکورہ روایت امام صادقؑ سے صادر ہوئی ہو تو مسلمہ طور پر آپؑ کی مراد یہ نہیں تھی کہ کوئی بھی حاکم، ظالم یا جابر خواہ تھوڑی مدت کیلئے بھی قم پر مسلط نہیں ہوا ہے۔ (مثلا افغانیوں کے ایران پر ۱۱۳۶ ہجری میں حملے کے دوران کچھ مدت تک قم شہر ان کی لوٹ مار کا شکار رہا ہے)
شاید امامؑ کی مراد یہ ہے کہ قم پر بری نظر رکھنے والے جابروں کی نابودی کا مقتضی موجود تھا لیکن موانع جیسے کچھ اہل قم کی طرف سے گناہ سرزد ہوئے؛ جس کے باعث ظالم حاکم ان پر مسلط ہو گئے ہیں۔
اصولی طور پر خدا کسی قوم کی تقدیر اس وقت تک نہیں تبدیل فرماتا جب تک وہ خود نہ چاہیں۔ (اس بارے میں سورہ انفال کی آیت ۵۳ میں ہم یہ پڑھتے ہیں: (ذلک بأن الله لم یک مغیرا نعمه انعمها علی قوم حتی یغیروا ما بانفسهم...))
یہاں سے یہ استنباط کیا جا سکتا ہے کہ قم کے لوگوں یا ایران اور دیگر اسلامی ممالک پر غیروں کے قبضے کی اصل وجہ خود وہاں کے لوگوں کا ناشائستہ کردار اور احکام الہٰی سے غفلت کے سوا کچھ نہیں تھا۔
خدا تعالیٰ نے اس بارے میں فرمایا ہے: ذَٰلِكَ بِأَنَّ ٱللَّهَ لَمۡ يَكُ مُغَيِّرٗا نِّعۡمَةً أَنۡعَمَهَا عَلَىٰ قَوۡمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنفُسِهِمۡۙ وَأَنَّ ٱللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٞ. خدا کسی قوم کے حالات کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے کو تبدیل نہ کرلےز

شہروں پر حجت

[ترمیم]

عن ابی عبدالله (ع) قال: ((ان الله احتج بالکوفه علی سائر البلاد و بالمومنین من اهلها علی غیرهم من اهل البلاد و احتج ببلده قم علی سائر البلاد و بأهلها علی جمیع اهل المشرق و المغرب من الجن و الانس و لم یدع الله قم و اهله مستضعفا بل وفقهم و ایدهم...و سیأتی زمان تکون بلده قم واهلها و حجه علی الخلائق و ذلک فی زمان غیبه قائمنا (ع) الی ظهوره و لولا ذلک لساخت الارض باهلها.و ان الملائکه لتدفع البلایا عن قم و اهله، و ما قصده جبار بسوء الا قصمه قاصم الجبارین عنهم بداهیه او مصیبه او عدو.و ینسی الله الجبارین فی دولتهم ذکر قم و اهله کما نسوا ذکرالله.))
امام صادقُ نے فرمایا: اللہ نے کوفہ کے ذریعے تمام شہروں پر حجت قائم کی ہے اور وہاں کے مومنین کے ذریعے دیگر شہروں کے باسیوں پر حجت قائم کی ہے اور قم شہر کے ذریعے تمام شہروں پر اور وہاں کے رہنے والوں کے ذریعے مشرق و مغرب کے تمام جن و انس پر حجت قائم کی ہے۔۔۔ اللہ تعالیٰ قم اور وہاں کے رہنے والوں کو (دین میں) مستضعف نہیں رہنے دیا بلکہ انہیں توفیق دیتا ہے اور ان کی تائید کرتا ہے ۔۔۔ ۔
عنقریب ایسا زمانہ آئے گا کہ قم اور اہل قم دوسرے لوگوں پر حجت ہوں گے اور یہ وقت ہمارے قائم کی غیبت سے آپؑ کے ظہور تک کا ہے۔
اگر ایسا نہ ہو تو زمین اپنے اوپر رہنے والوں کو نگل لے گی۔ مسلمہ طور پر ملائکہ سختیوں کو قم اور وہاں کے رہنے والوں سے دفع کرتے ہیں۔
کبھی کوئی جابر قمیوں کی نسبت برا ارادہ نہیں کرتا مگر یہ کہ جابروں کو نابود کرنے والا اسے نابود کر دیتا ہے یا کسی مصیبت میں ڈال دیتا ہے یا وہ درد سر یا کسی دشمن کا شکار ہو جاتا ہے۔
خدا جابروں کے زمانہ حکومت کے دوران انہیں قم کا تذکرہ بھلا دیتا ہے، جس طرح وہ خدا کے ذکر کو بھول جاتے ہیں۔

علم و فضل کا سرچشمہ ، قائم مقام حجت

[ترمیم]

عن الصادق (ع) انه ذکرکوفه و قال:
«ستخلو کوفه من المومنین و یأزر عنها العلم کما تأزر الحیه فی حجرها، ثم یظهر العلم ببلده یقال لها قم و یصیر معدنا للعلم و الفضل حتی لا یبقی فی الارض مستضعف فی الدین حتی المخدرات فی الحجال، و ذلک عند قرب ظهور قائمنا، فیجعل الله قم و اهله قائمین مقام الحجه و لولا ذلک لساخت الارض بأهلها و لم یبق فی الارض حجه فیقیض العلم منه الی سائر البلاد فی المشرق و المغرب، فیتم حجه الله علی الخلق حتی لا یبقی احد علی الارض لم یبلغ الیه الدین و العلم، ثم یظهر القائم (ع) و یسیر سببا لنقمه الله و سخطه علی العباد; لان الله لا ینتقم من العباد الا بعد انکار هم حجه.»
امام صادقؑ نے کوفہ کو یاد کر کے فرمایا: عنقریب کوفہ مومنین سے خالی ہو جائے گا اور علم و دانش وہاں سے پشت کر جائیں گے، جس طرح سانپب اپنے بل میں پشت کر بیٹھتا ہے۔ پھر علم قم نام کے ایک شہر میں ظاہر ہو گا اور وہ علم و فضیلت کی کان بن جائے گا، یوں کہ پھر روئے زمین پر دینی امور سے ناواقف نہیں ملے گا۔
اس زمانے میں پردہ دار خواتین بھی دینی مسائل سے آگاہ ہوں گی۔ یہ زمانہ قائم کے ظہور سے نزدیک ہو گا۔
اس وقت خدا قم اور وہاں کے رہنے والوں کو حجت کے قائمقام قرار دے گا۔ اگر ایسا نہ ہوا تو زمین اپنے اوپر رہنے والوں کو نگل لے گی اور پھر اس کے اوپر کوئی حجت باقی نہیں رہے گی۔
اس زمانے میں قم سے علم مشرق و مغرب میں جاری ہو گا۔
بزرگ متاخر مجتہد حاج ابراھیم اصفہانی اعلی اللہ مقامہ سے منقول ہے کہ حرم مقدس کی پچھلی طرف موجود قبرستان میں نو سو جامع الشرائط مجتہد مدفون ہیں۔
[۷] انصاری، تاریخ قم، نسخه خطی کتابخانه آیت الله نجفی، ضمن ش ۴۸۹۸۔

لہٰذا لوگوں پر خدا کی حجت تمام ہو گی، یوں کہ پھر کوئی ایسا نہیں ہو گا کہ جس تک دین کے احکام اور علمِ الہٰی نہ پہنچا ہو۔
پھر قائمؑ کا ظہور ہو گا اور اس کے ذریعے خدا کا غضب اور انتقام عملی ہو گا؛ کیونکہ خدا اس وقت تک بندوں سے انتقام نہیں لیتا جب تک اس کی حجت کا انکار نہ کر دیں۔

مومنین کی آرام گاہ ، بنی فاطمہؑ کی پناہ گاہ

[ترمیم]

عن محمد بن جعفر عن ابیه الصادق (ع) قال:
«اذا اصابتکم بلیه و عناء فعلیکم بقم، فانه مأوی الفاطمیین و مستراح المومنین.
و سیأتی زمان ینفر اولیاءنا و محبونا عنا و یبعدون عنا و ذلک مصلحه و لهم لیکلا یعرفوا بولایتنا و یحقنوا بذلک دماوهم و اموالهم و ما اراد احد بقم و اهله سوءا الا اذله الله و ابعده من رحمته.»
امام صادقؑ نے فرمایا: جب تم پر کوئی بلا آن پڑے تو قم چلے جاؤ کیونکہ یہ بنی فاطمہ کی پناہ گاہ اور مومنین کی استراحت گاہ ہے۔ ایک زمانہ آئے گا کہ ہمارے چاہنے والے ہم سے دور جائیں گے تاکہ ہماری دوستی سے پہچانے نہ جائیں اور ان کا خون و مال محفوظ رہے۔ یہ ان کے فائدے میں ہے۔
کوئی قم اور اہل قم کی نسبت برا ارادہ نہیں کرتا مگر یہ کہ خدا اسے خوار اور اپنی رحمت سے دور کر دیتا ہے۔
اس روایت کا عمدہ حصہ بنی فاطمہؑ اور علیؑ کے شیعوں پر سفاک اموی و عباسی بادشاہوں کے ظلم و جور کے زمانے سے مربوط ہے۔

بہشت کا دروازہ کھلنے کا مقام

[ترمیم]

عن صفوان بن یحیی بیاع السابری قال: کنت یوما عند ابی الحسن (ع) فجری ذکر قم و اهله و میلهم الی المهدی (ع) فترحم علیهم و قال ((رضی الله عنهم)).
ثم قال: ((ان للجنه ثمانیه ابواب و واحد منها لاهل قم وهم خیار شیعتنا من بین سائر البلاد.
خمرالله تعالی و لایتنا فی طینتهم.))
صفوان یحییٰ پارچہ فروش کہتے ہیں: میں ایک دن امام کاظمؑ (یا امام رضاؑ) کی خدمت میں تھا کہ قم اور وہاں کے رہنے والوں کا نام اور ان کے حضرت مہدیؑ کی نسبت اشتیاق کا ذکر ہوا۔
اس پر امامؑ نے ان پر رحمت کی دعا کی اور فرمایا: خدا ان سے راضی ہو!
پھر فرمایا: بہشت کے آٹھ دروازے ہیں اور ان میں سے ایک قمیوں کیلئے مخصوص ہے۔
اہل قم دیگر شہروں کی نسبت ہمارے بہترین شیعہ ہیں۔
خدا نے ہماری ولایت کو ان کی سرنوشت میں شامل کر دیا ہے۔
مذکورہ بالا روایت کی وضاحت میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ قم کے شیعہ دیگر مقامات کے شیعوں سے بہتر ہیں۔

مقدس سرزمین

[ترمیم]

عن ابی مسلم العبدی عن ابی عبدالله الصادق (ع) قال: ((قم مقدسه و اهلها منا و نحن منهم لایریدهم جباربسوء الا عجلت عقوبته، ما لم بجو لوا احوالهم فاذا فعلوا ذلک، سلط الله علیهم جبابره سوء.اما انهم انصار قائمنا و دعاه حقنا) ثم رفع رأسه الی السمأ و قال: (الهم اعصمهم من کل فتنه و نجهم من کل هلکه). ابو مسلم عبدی کہتے ہیں: امام صادقؑ نے فرمایا: قم کی مٹی مقدس ہے اور وہاں کے رہنے والے ہم سے ہیں اور ہم ان سے ہیں۔
کبھی کوئی جابر ان کی نسبت برا اراہ نہیں کرتا مگر یہ کہ اپنے انجام کو جلد پہنچتا ہے۔ البتہ یہ اس وقت تک ہے جب تک یہ اپنے حالات کو تبدیل نہ کریں؛ کیونکہ اس صورت میں خدا ان پر جابروں کو مسلط کر دے گا۔
آگاہ ہو جاؤ! اہل قم ہمارے قائم کی نصرت کرنے والے ہیں اور ہمارے حق کے داعی ہیں۔
راوی کہتا ہے: اس وقت امامؑ نے اپنا سر آسمان کی طرف بلند کیا اور کہا: خدایا! انہیں ہر فتنے سے محفوظ فرما اور ہر ہلاکت سے نجات دے۔
اس روایت سے قم شہر کی ذاتی شرافت و قداست کا استفادہ ہوتا ہے۔
[۱۱] انوار المشعشعین، ج۱، ص۱۷۹۔

یعنی امامؑ کے سخن سے واضح طور پر سمجھا جا سکتا ہے کہ قم کی خاک خصوصی اہمیت کی حامل ہے اور یہ خصوصیت ان نمایاں شخصیات سے قطع نظر ہے جو وہاں پر ساکن ہیں۔
ایک بہت جالب نکتہ جس کی اس روایت میں تصریح کی گئی ہے، یہ ہے کہ اہل قم جب تک شائستہ کردار اور پسندیدہ اعمال کو ترک نہیں کریں گے، اللہ کی رحمت ان کے شامل حال رہے گی اور جابر حاکم ان پر مسلط نہیں ہوں گے۔
البتہ الہٰی احکام کو ترک کرنے اور گناہوں میں غرق ہو جانے کی صورت میں ظالم و جابر حکمران ان پر مسلط ہو جائیں گے۔
( یہ نکتہ سوره رعد کی آیت نمبر ۱۱ سوره انفال کی آیت ۵۳ سے اخذ ہوتا ہے اور پہلے بھی اس کی طرف اشارہ کر چکے ہیں ۔
قابل ذکر ہے کہ بعض نسخوں میں مذکورہ روایت کے متن میں کلمہ ((مالم یحولوا احوالهم)) کی بجائے ((مالم یخونوا الخوانهم)) ہے۔
اس بنا پر روایت کے اس حصے کا معنی یہ ہو گا: کوئی جابر ان کی نسبت برا ارادہ نہیں کرتا ہے مگر یہ کہ اپنے انجام کی طرف جلدی کرتا ہے؛ جب تک اہل قم اپنے بھائیوں کی نسبت خیانت نہ کریں!

قائم آل محمدؑ کے انصار کا مقام اجتماع

[ترمیم]

عن عفان البصری عن ابی عبدالله (ع) قال: قال لی: (اتدری لمی سمی قم؟)) قلت: الله و روسله و انت اعلم.
قال: ((انما سمی قم لان اهله یجتمعون مع قائم آل محمد (ع) و یقومون معه و یستقیمون علیه و ینصرونه.)) عفان کہتا ہے کہ امام صادقؑ نے مجھ سے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ اس شہر کو قم کا نام کیوں دیا گیا؟! عفان نے عرض کیا: خدا اور اس کا رسول اور آپؑ دانا تر ہیں۔
امامؑ نے فرمایا: اس شہر کو قم اس وجہ سے کہا گیا ہے کیونکہ اس کے لوگ قائم آل محمدؐ کے ساتھ جمع ہوں گے اور آپؑ کی راہ میں ثابت قدم ہوں گے اور آپؑ کی نصرت کریں گے۔
بعض نے اس حدیث کی شرح میں کہا ہے:
اس حدیث اور اس جیسی احادیث سے اس سرزمین کے لوگوں کا حضرت مہدیؑ کی عالمی حکومت میں کردار روشن ہوتا ہے۔
اسلام کے عالمگیر انقلاب کے بنیادی ارکان زمانہ ظہور میں ایران کے لوگوں بالخصوص قم کے لوگوں پر مشتمل ہوں گے۔
اس اعتبار سے حقیقی اسلام کے موازین اور علمی و تربیتی امور کی توسیع کی اشد ضرورت ہے۔ صرف اس بات پر خوش نہیں رہا جا سکتا ہے کہ یہ شہر قم ہے اور یہاں حضرت معصومہؑ کا روضہ مبارک ہے اور کسی قسم کی ذمہ داری کا احساس نہ کیا جائے! یہ ایک قسم کی سادہ لوحی ہے؛ کیونکہ ماضی و حال کے پیش نظر قم مستقبل میں ایک عظیم ذمہ داری کا حامل ہے۔ یہاں کے لوگوں کے کاندھوں پر بھاری فرائض ہیں۔ لہٰذا زیادہ تقویٰ اور شائستگی اپنائیں جو اس ملکوتی سرزمین کے شایان شان ہو۔
[۱۶] حکیمی، حضرت معصومه و شهر قم، ج۱، ص۱۲۱ ۱۲۰۔


محفوظ ترین شہر

[ترمیم]

سئل امیر المومنین علی بن ابی طالب عن اسلم المدن و خیر المواضع عند نزول الفتن و ظهور السیف.
فقال (ع) : ((اسلم المواضع یومئذ قصبه قم.
فأذا اضطربت خراسان و وقتعت الحرب بین اهل جرجان و طبرستان و خربت سجستان، فأسلم المواضع یومئذ قصبه قم.
تلک البلده التی یخرج منها انصار خیر الناس ابا و اما و جدا و جده و عما و عمه.
تلک التی تسمی الزهرأ...))
امیر المومنین علی بن ابی طالبؑ سے فتنوں کے نزول اور سیف کے ظہور کے وقت سالم ترین اور بہترین شہر کے بارے میں سوال ہوا تو آپؑ نے جواب دیا: اس وقت سالم ترین جگہ قم کا قصبہ ہے۔
جب خراسان میں حالات خراب ہوتے ہیں اور گرگان و طبرستان (طبرستان نام کا اطلاق مورخین نے مازندران اور اس کی مشرق سے مغرب تک کی حدود اور مضافاتی علاقوں پر کیا ہے)
[۱۸] معین، فرهنگ فارسی، ج ۵، ص ۱۰۷۹ ۱۰۷۸۔
میں جنگ ہوتی ہے تو اس وقت سالم ترین جگہ قم شہر ہے۔
قم وہ شہر ہے کہ جہاں سے وہ لوگ اٹھیں گے جن کے ماں باپ اور دادی دادا بہترین لوگ ہوں گے۔
عن الصادق (ع) قال: اهل خراسان اعلامنا و اهل قم انصارنا و اهل کوفه اوتادنا و اهل هذاالسواد منا و نحن منهم.) امام صادقؑ سے مروی ہے کہ اہل خراسان ہمارے پرچم، اہل قم ہمارے انصار اور اہل کوفہ ہماری میخیں (بظاہر مقصود یہ ہے کہ کوفی آئمہ اطہارؑ کے امر کے ثبات کا باعث ہوئے ہیں) اور اس سیاہی والے (بظاہر سیاہی سے مقصود کوفہ کی سیاہی ہے کہ جس کی وضاحت گزر چکی ہے) ہم سے ہیں اور ہم بھی ان سے ہیں۔

اہل بیتؑ کا حرم

[ترمیم]

عن الصادق (ع) قال: ((الا ان لله حرما و هو مکه.
الا ان لرسول الله حرما و هو مدینه.
الا ان لامیرالمومنین حرما و هو کوفه.
الا ان حرمی و حرم ولدی (اگر این کلمه را به ضم واو بخوانیم، جمع ((ولد)) و به معنای فرزندان است در ترجمه همین مبنا رعایت شده است.) من بعدی قم.
[۲۰] شوشتری، مجالس المومنین، ج۱، ص۸۳۔
[۲۱] انوار المشعشعین، ج۱، ص۱۱۔


بابرکت شہر

[ترمیم]

۱۲ عن الصادق (ع) قال: ((ان لعلی قم ملکا رفرف علیها بجناحیه لایریدها جبار بسوء الا اذا به الله کذئب الملح فی المأ.)) ثم اشار الی عیسی بن عبدالله فقال:
«سلام الله علی اهل قم یسقی الله بلادهم الغیث و ینزل الله علیهم البرکات و یبدل الله سیئاتهم حسنات.
هم اهل رکوع و سجود و قیام و قعود.
هم الفقهأ العلمأ الفهمأ.
هم اهل الدرایه و الروایه و حسن العباده.»

چھوٹا کوفہ

[ترمیم]

۱۳ عن الصادق (ع) انه قال: ((ان لله حرما و هو مکه.
الا ان لرسول الله حرما و هوالمدینه.
الا ان لامیرالمومنین حرما و هو الکوفه.
الا و ان قم الکوفه الصغیره...))
[۲۳] آیت الله خویی، معجم رجال الحدیث، ج۱، ص۲۲۸۔


قم شہر کے نام

[ترمیم]

آئمہ اطہارؑ کی روایات کے مطابق اس مقدس شہر کے ۲۵ نام اور اوصاف ذکر ہوئے ہیں:
۱) قم
۲) ارض جبل
۳) سرزمین نجیبان
۴) حجت بلاد
۵) معدن علم و فضل
۶) قائم مقام حجت
۷) منزل آل محمد
۸) جایگاه شیعیان
۹) استراحتگاه مومنان
۱۰) مأوای فاطمیان
۱۱) شیعوں کی پناہ گاہ
۱۲ بہشت کے دروازے کھلنے کا مقام
۱۳) مقدس سرزمین
۱۴) قائم آل محمد کے انصار کا مقامِ اجتماع
۱۵) بیت المقدس کا ٹکڑا
۱۶) زہرا
۱۷) محفوظ ترین شہر
۱۸) بہترین مقام
۱۹) بحر
۲۰) شیعوں کا معدن
۲۱) بلد امین
۲۲) شہر انصار ائمه
۲۳) حرم اہل بیت
۲۴) بابرکت شہر
۲۵) چھوٹا کوفہ

مصادر کی فہرست

[ترمیم]

(۱) قرآن کریم
(۲) کریمه اهل بیت
(۳) مجلسی، بحار الانوار
(۴) آیت الله مکارم شیرازی، تفسیرنمونه
(۵) انصاری، تاریخ قم، نسخه خطی کتابخانه آیت الله نجفی، ضمن ش ۴۸۹۸
(۶) انوار المشعشعین
(۷) حکیمی، حضرت معصومه و شهر قم
(۸) آیت الله خویی، معجم رجال الحدیث
(۹) شوشتری، مجالس المومنین
(۱۰)معین، فرهنگ فارسی

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. شوشتری، مجالس المومنین، ج۱، ص۸۳۔
۲. مجلسی، بحار الانوار، ج۵۷، ص۲۰۷۔    
۳. مجلسی، بحار الانوار، ج۵۷۔
۴. رعد/سوره۱۳، آیه۱۱.    
۵. مجلسی، بحار الانوار، ج۵۷، ص۲۱۳ - ۲۱۲۔    
۶. مجلسی، بحار الانوار، ج۵۷، ص۲۱۳۔    
۷. انصاری، تاریخ قم، نسخه خطی کتابخانه آیت الله نجفی، ضمن ش ۴۸۹۸۔
۸. مجلسی، بحار الانوار، ج۵۷، ص۲۱۵ - ۲۱۴۔    
۹. مجلسی، بحار الانوار، ج۵۷، ص۲۱۶۔    
۱۰. مجلسی، بحار الانوار، ج۵۷، ص۲۱۹ ۲۱۸۔    
۱۱. انوار المشعشعین، ج۱، ص۱۷۹۔
۱۲. رعد/سوره۱۳، آیه۱۱.    
۱۳. انفال/سوره۸، آیه۵۳.    
۱۴. مجلسی، بحار الانوار، ج۵۷، ص۲۱۹ ۲۱۸۔    
۱۵. مجلسی، بحار الانوار، ج۵۷، ص۲۱۶۔    
۱۶. حکیمی، حضرت معصومه و شهر قم، ج۱، ص۱۲۱ ۱۲۰۔
۱۷. مجلسی، بحار الانوار، ج۵۷، ص۲۱۸ ۲۱۷۔    
۱۸. معین، فرهنگ فارسی، ج ۵، ص ۱۰۷۹ ۱۰۷۸۔
۱۹. مجلسی، بحار الانوار، ج۵۷، ص۲۱۴۔    
۲۰. شوشتری، مجالس المومنین، ج۱، ص۸۳۔
۲۱. انوار المشعشعین، ج۱، ص۱۱۔
۲۲. مجلسی، بحار الانوار، ج۵۷، ص۲۱۷۔    
۲۳. آیت الله خویی، معجم رجال الحدیث، ج۱، ص۲۲۸۔


مآخذ

[ترمیم]
سایت اندیشه قم، ماخوذ از مقالہ «قم در نگاه روایات»۔    



جعبه ابزار