مولود کعبہپی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریںامیر المومنین حضرت علی بن ابی طالبؑ تیرہ رجب تیس عام الفیل کو خانہ کعبہ میں پیدا ہوئے۔ حضرتؑ کی خانہ کعبہ کے اندر ولادت کی بحث فریقین کے نزدیک ایک مسلمہ امر ہے۔ اس تحریر میں بعض شیعہ و اہل سنت اقوال کی روشنی میں آپ کے سامنے کعبہ میں ولادت کا اثبات کیا جائے گا۔ فہرست مندرجات۱.۱ - شیخ صدوقؒ ۱.۲ - شیخ مفیدؒ ۱.۳ - شیخ طوسیؒ ۱.۴ - سید رضیؒ ۱.۵ - ابن بطریق ۱.۶ - طبرسی ۱.۷ - ابن شہر آشوب ۱.۸ - قطب راوندی ۱.۹ - علامہ حلیؒ ۱.۱۰ - شیخ یوسف بحرانی ۲ - اہل سنت علما کے اقوال کی روشنی میں ولادت در کعبہ ۲.۱ - حاکم نیشاپوری ۲.۲ - سبط ابن جوزی ۲.۳ - حلبی شافعی ۲.۴ - فاکھی ۲.۵ - ابو زکریا الازدی ۲.۶ - آلوسی ۲.۷ - ابن صباغ مالکی ۲.۸ - گنجی شافعی ۲.۹ - صفوری شافعی ۲.۱۰ - مسعودی ۲.۱۱ - زرندی ۲.۱۲ - امیر صنعانی ۲.۱۳ - دیار بکری ۲.۱۴ - محمد بن عبد الواحد موصلی ۲.۱۵ - بستی ۲.۱۶ - ابن مغازلی ۲.۱۷ - جوینی ۲.۱۸ - بسنوی ۲.۱۹ - شبلنجی ۲.۲۰ - خواجہ نصر اللہ ہندی ۲.۲۱ - عبد العزیز دہلوی ۲.۲۲ - ولی اللہ دہلوی ۲.۲۳ - جنابی ۲.۲۴ - صالح الغامدی ۲.۲۵ - عباس محمود عقاد ۲.۲۶ - اهل سنت معاصرین ۲.۲۶.۱ - محمد عمر سربازی ۲.۲۶.۲ - مصطفی سباعی ۲.۲۶.۳ - سیف الله مدرس گرجی ۲.۲۶.۴ - محمد حسیب قادری ۲.۲۶.۵ - عبد الرحمن محبی ۳ - نتیجہ ۴ - حوالہ جات ۵ - ماخذ شیعہ علما کے نزدیک کعبہ میں ولادت[ترمیم]یہاں ہم کعبہ میں ولادت سے متعلق کچھ شیعہ علما کے نظریات کو اختصار سے بیان کریں گے۔ ← شیخ صدوقؒآپ نے امام علیؑ کی کعبہ میں ولادت کی داستان کو اپنی تالیفات میں سے تین کتابوں میں نقل کیا ہے۔ اسی طرح نجاشی نے شیخ صدوقؒ کی اس موضوع پر مستقل کتاب مولد امیرالمؤمنین (علیهالسّلام) کا ذکر کیا ہے۔ سید بن طاؤس نے اسی کتاب کو "مولد مولانا علی (علیهالسّلام) بالبیت" کے نام سے شیخ صدوقؒ کی کتاب قرار دیا ہے۔ ← شیخ مفیدؒبزرگ شیعہ عالم شیخ مفیدؒ لکھتے ہیں: حضرت امیرالمؤمنین علی بن ابیطالبؑ بروز جمعہ تیس عام الفیل کو مکہ شہر میں واقع بیت اللہ میں پیدا ہوئے۔ خانہ خدا میں نہ آپ سے پہلے کسی کی ولادت ہوئی اور نہ ہی آپؑ کے بعد۔ یہ عظیم امر خدا تعالیٰ کی جانب سے امام علیؑ کیلئے مخصوص تھا۔ [۳]
الشیخ المفید، ابیعبدالله محمد بن محمد بن النعمان العکبری البغدادی (متوفای۴۱۳ه)، الارشاد فی معرفة حجج الله علی العباد، ج۱، ص۵، تحقیق:مؤسسة آل البیت (علیهمالسّلام) لتحقیق التراث، ناشر:دار المفید للطباعة والنشر والتوزیع - بیروت، الطبعة:الثانیة، ۱۴۱۴ه - ۱۹۹۳ ء۔
← شیخ طوسیؒشیخ الطائفہ مزید لکھتے ہیں: امام علیؑ تیرا رجب بروز جمعۃ المبارک بمطابق ۳۰ عام الفیل کو بیت اللہ شریف میں پیدا ہوئے۔ [۴]
الطوسی، الشیخ ابوجعفر، محمد بن الحسن بن علی بن الحسن (متوفای۴۶۰ه)، تهذیب الاحکام، ج۶، ص۱۹، تحقیق:السید حسن الموسوی الخرسان، ناشر:دار الکتب الاسلامیة طهران، الطبعة الرابعة، ۱۳۶۵ شمسی۔
← سید رضیؒمرحوم سید رضیؒ اس فضیلت کے بارے میں یہ لکھتے ہیں: آپؑ تیرہ رجب تیس عام الفیل کو مکہ کے اندر خانہ خدا میں پیدا ہوئے۔ ہمیں آپؑ کے علاوہ کسی ایسے مولود کے بارے میں علم نہیں ہے جس کی ولادت خانہ خدا میں ہوئی ہو۔ [۵]
الشریف الرضی، محمّد بن الحسین، خصائص الائمه، ص۳۹، ناشر:مجمع البحوث الاسلامیة - الآستانة الرضویة المقدسة۔
← ابن بطریقشیعہ عالم ابن بطریق تحریر کرتے ہیں: آپؑ تیرہ ماہ رجب بروز جمعۃ المبارک تیس عام الفیل کو مکہ میں بیت اللہ کے اندر پیدا ہوئے۔ آپؑ سے پہلے اور آپؑ کے بعد کوئی بھی مولود بیت اللہ میں پیدا نہیں ہوا۔ یہ خدا کا ان پر احسان ہے اور ان کے مقام کی تجلیل ہے۔ [۶]
ابنالبطریق، عمدة عیون صحاح الاخبار فی مناقب امام الابرار، ص۲۴، مؤسسة النشر الاسلامی التابعة لجماعة المدرسین بقم المشرفة، جمادی الاولی ۱۴۰۷۔
← طبرسیمرحوم طبرسی لکھتے ہیں: آپؑ تیرہ رجب تیس عام الفیل بروز جمعۃ المبارک کو مکہ کے اندر بیت اللہ میں پیدا ہوئے۔ آپؑ سے پہلے اور بعد میں کوئی بھی بچہ بیت اللہ میں پیدا نہیں ہوا۔ یہ وہ فضیلت ہے جو خدا نے علیؑ کے مقام کی تجلیل اور ان کی شان و منزلت کی بلندی کی وجہ سے آپؑ سے مخصوص فرمائی۔ [۷]
الطبرسی، ابی علی الفضل بن الحسن (متوفای۵۴۸ه)، اعلام الوری باعلام الهدی، ج۱ ص۳۰۶، تحقیق و نشر:تحقیق مؤسسة آل البیت (علیهمالسّلام) لاحیاء التراث قم، الطبعة:الاولی، ۱۴۱۷ھ۔
← ابن شہر آشوبابنشہر آشوب حضرت علیؑ کی کعبہ میں ولادت کے بارے میں لکھتے ہیں: امام علیؑ کے سوا کوئی ایسا نہیں ہے جو برترین دن یعنی روز جمعہ کو اور ماہ حرام (رجب) میں خانہ خدا کے اندر پیدا ہوا ہو۔ [۸]
ابنشهر آشوب، رشیدالدین ابیعبدالله محمد بن علی السروی المازندرانی (متوفای۵۸۸ه)، مناقب آل ابیطالب، ج۲، ص۲۳۔
← قطب راوندیقطب راوندی بھی لکھتے ہیں: بلاشبہہ امام علیؑ خانہ خدا میں پیدا ہوئے اور آپؑ کے علاوہ کوئی اور وہاں پیدا نہیں ہوا ہے۔ [۹]
الراوندی، قطبالدین (متوفای۵۷۳ه)، الخرائج والجرائح، ج۲، ص۸۸۸، تحقیق ونشر:مؤسسة الامام المهدی (علیهالسّلام) قم، الطبعة:الاولی، ۱۴۰۹ھ۔
← علامہ حلیؒمشہور شیعہ متکلم مرحوم علامہ حلیؒ بھی تحریر فرماتے ہیں: امیر المومنینؑ تیرہ رجب بروز جمعۃ المبارک بمطابق تیس عام الفیل کو خانہ خدا میں پیدا ہوئے اور آپؑ سے نہ پہلے کوئی وہاں پیدا ہوا اور نہ ہی آپؑ کے بعد۔ [۱۰]
الحلی، الحسن بن یوسف بن المطهر (متوفای۷۲۶ ه)، کشف الیقین فی فضائل امیر المؤمنین، ص۱۷، تحقیق:حسین الدرگاهی ابا محمد حسن حسین آبادی، محل نشر:تهران، بینا، الطبعة الاولی ۱۴۱۱ ه - ۱۹۹۱ ء۔
← شیخ یوسف بحرانیشیخ یوسف بحرانی، صاحب حدائق اس فضیلت کے بارے میں لکھتے ہیں: امام علیؑ خانہ خدا میں پیدا ہوئے اور آپؑ سے پہلے اور بعد میں کوئی وہاں پیدا نہیں ہوا ہے۔ یہ ایسی فضیلت ہے جو آپؑ سے مخصوص ہے۔ [۱۱]
البحرانی، الشیخ یوسف، (متوفای۱۱۸۶ه)، الحدائق الناضرة فی احکام العترة الطاهرة، ج۱۷ ص۴۳۲ و ۴۳۳، ناشر:مؤسسة النشر الاسلامی التابعة لجماعة المدرسین بقم المشرفة، طبق برنامه مکتبه اهل البیت۔
اگرچہ علمائے امامیہ کے اس موضوع پر اقوال بکثرت ہیں کہ جن میں سے بطور نمونہ کچھ آپ کے سامنے پیش کیے گئے اور ہم انہی پر اکتفا کرتے ہوئے اب اہل سنت علما کے اقوال کو نقل کریں گے۔ اہل سنت علما کے اقوال کی روشنی میں ولادت در کعبہ[ترمیم]اس فصل میں بھی اہل سنت علما کے نقطہ نظر سے حضرت کی ولادت کی طرف اشارہ کیا جائے گا۔ ← حاکم نیشاپوریاہل سنت کے بزرگ عالم حاکم نیشاپوری حضرت امیرؑ کی کعبہ میں ولادت کے بارے میں تواتر کا دعویٰ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: متواتر روایات وارد ہوئی ہیں کہ فاطمہ بنت اسد سے امیر المومنینؑ کی ولادت کعبہ کے اندر ہوئی ہے۔ ← سبط ابن جوزییہ ایک اور اہل سنت عالم ہیں جو حضرتؑ کی ولادت با سعادت کے بارے میں لکھتے ہیں: مروی ہے کہ فاطمہ بنت اسد حاملگی کی حالت میں خانہ خدا کا طواف کر رہی تھیں کہ درد زہ شروع ہو گیا اور آپ پر خانہ کعبہ کا دروازہ کھل گیا۔ پس آپ خانہ کعبہ میں داخل ہو گئیں اور وہیں بچے کی ولادت ہوئی۔ ← حلبی شافعیایک اور سنی مذہب عالم برھان الدین حلبی حضرت علیؑ کی کعبہ میں ولادت کے بارے میں لکھتے ہیں: پیغمبر اکرمؐ کی ولادت کے تیسویں سال علی بن ابی طالب (کرماللهوجهه) کعبہ میں پیدا ہوئے۔ ← فاکھیمحمد بن اسحاق فاکھی مکی اپنی کتاب میں اخبار مکہ کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں: بنی ہاشم اور مہاجرین میں سے پہلی شخصیت جن کی کعبہ میں ولادت ہوئی، علی بن ابی طالب (رضی اللہ عنہ) ہیں۔ ← ابو زکریا الازدیازدی بھی کعبہ میں ولادت کے بارے میں لکھتے ہیں: حضرتؑ کعبہ میں پیدا ہوئے، امیر المومنین علی بن ابی طالبؑ کے علاوہ کوئی بھی خلیفہ کعبہ میں پیدا نہیں ہوا ہے۔ [۱۶]
ازدی، ابوزکریا، تاریخ موصل، کتاب الثالث عشر، ص۵۸۔
← آلوسیآلوسی نے عبدالباقی عمری افندی جو خلیفہ دوم کی اولاد میں سے ہے؛ کی شرح اشعار عینیہ پر ایک شرح لکھی ہے کہ جس کا نام سرح الخریدہ الغیبیۃ فی شرح القصیدۃ العینیۃ ہے کہ جس میں افندی کے شعر کو ان الفاظ میں نقل کرتا ہے: آپ وہ علیؑ ہیں کہ آپؑ کا مقام اللہ نے بلند کیا ہے اور آپ انسانی رفعت کے عروج پر ہیں۔ خدا نے آپؑ کو مکہ میں اور کعبہ کے اندر قرار دیا اور آپ اس مقام پر پیدا ہوئے۔ آلوسی آگے چل کر افندی کے ابیات کی شرح میں لکھتا ہے: علی بن ابی طالبؑ کا خانہ خدا میں پیدا ہونا، ایک مشہور امر ہے جو شیعہ اور اہل سنت کتابوں میں وارد ہوا ہے۔ [۱۷]
آلوسی، سرح الخریده، ص۳ و ۱۵۔
آلوسی کے کلام میں دقت کے ساتھ ہم یہ سمجھ جاتے ہیں کہ انہوں نے ایک بزرگ اہل سنت عالم ہونے کے عنوان سے کعبہ میں امیر المومنینؑ کی ولادت کو ایک مشہور امر سمجھا ہے اور وہ معترف ہے کہ شیعہ و سنی کتب اس مسئلے کو اہمیت دیتی ہیں۔ ← ابن صباغ مالکیاہل سنت کے مالکی مذہب کے عالم ابن صباغ، نے حضرت علیؑ کی فضیلت کے بارے میں یہ لکھا ہے: علیؑ مکہ شریف میں بیت الحرام کے اندر بروز جمعۃ المبارک شھر اللہ یعنی ماہ رجب کی تیرہ تاریخ بمطابق تیس عام الفیل کو اور ہجرت سے تئیس برس قبل پیدا ہوئے۔۔۔۔ آپؑ سے پہلے کوئی بھی کعبہ میں پیدا نہیں ہوا اور یہ وہ فضیلت ہے جس سے اللہ نے انہیں خاص کیا، ان کی تجلیل، مقام و مرتبے کی بلندی اور ان کی کرامت کے اظہار کیلئے! ابن صباغ بھی اشارہ کرتا ہے کہ کعبہ میں ولادت حضرت کی خاص فضیلت ہے جو ان کے مقام کی رفعت اور کرامت کے اظہار کیلئے اللہ نے انہیں بخشی ہے۔ ← گنجی شافعیشافعی مذہب کے عالم حافظ گنجی کفایۃ الطالب میں لکھتے ہیں: امیر المومنینؑ تیرہ رجب کی شب جمعہ تیس عام الفیل کو بیت اللہ کے اندر پیدا ہوئے۔ نہ کوئی حضرتؑ سے پہلے اور نہ ہی کوئی حضرتؑ کے بعد خانہ کعبہ کے اندر پیدا نہیں ہوا ہے اور یہ حضرتؑ کے مخصوص فضائل میں سے ہے جو اللہ نے ان کے مقام کی تجلیل کی غرض سے انہیں عطا فرمائے ہیں۔ [۱۹]
حافظ گنجی، محمد بن یوسف، کفایة الطالب، ص۴۰۵-۴۰۶۔
گنجی کے کلمات میں غور و فکر کے بعد ہم سمجھ جاتے ہیں کہ وہ بھی حضرتؑ کی کعبہ میں ولادت کی طرف اشارہ کرنے کے علاوہ تصریح کرتے ہیں کہ یہ فضیلت حضرت علیؑ کے علاوہ کسی اور کیلئے واقع نہیں ہوئی ہے۔ ← صفوری شافعیصفوری شافعی بھی ان سنی علما میں سے ہیں کہ جنہوں نے اپنی دو کتابوں میں حضرت علیؑ کی کعبہ میں ولادت کو کتاب الفصول المھمۃ سے نقل کرتے ہوئے ان الفاظ میں لکھا ہے: میں نے کتاب ’’فصول المهمه فی معرفة الائمۃ بمکة المشرفة‘‘ کہ جس کا مؤلف ابو الحسن مالکی ہے؛ میں دیکھا کہ علیؑ کی والدہ نے کعبہ کے اندر وضع حمل کیا اور یہ ایسی فضیلت ہے جو اللہ تعالیٰ نے صرف انہیں دی ہے۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ فاطمہ بنت اسد کو درد زہ ہو گیا، ابوطالب آپ کو کعبہ کے اندر لے گئے اور وہاں آپ نے بچے کو جنم دے دیا۔ یہ ولادت بروز جمعہ ۱۳ رجب سنہ ۳۰ عام الفیل کو ہوئی۔ اسی طرح وہ کتاب مختصر المحاسن المجتمعه میں مذکورہ بالا متن کے مطابق یہ لکھتے ہیں: میں نے ایک مالکی مذہب کے عالم کی کتاب الفصول المھمہ میں دیکھا ہے کہ منقول تھا: فاطمہ بنت اسد نے علیؓ کو کعبہ کے اندر جنم دیا اور یہ ایسی فضیلت ہے جو خدا نے انہیں عنایت کی ہے؛ یہ اس طرح ہوا کہ جب آپؓ کی والدہ پر درد زہ کا غلبہ ہوا تو ابو طالب کہ جن کا نام عبد مناف ہے، انہیں کعبہ کے اندر لے گئے؛ چنانچہ ایک مرتبہ اور درد کا احساس ہوا اور انہوں نے بروز جمعۃ المبارک، تیس عام الفیل اور پیغمبرؐ کے حضرت خدیجہؓ کے ساتھ ازدواج کے تین سال بعد انہیں (حضرت علیؑ) جنم دیا۔ [۲۱]
صفوری شافعی، عبدالرحمن بن عبدالسلام، مختصر المحاسن المجتمعه، ص۱۵۶۔
← مسعودیایک اور اہل سنت عالم مسعودی اس حوالے سے لکھتے ہیں: مروی ہے کہ فاطمہ بنت اسد جب حاملہ تھیں اور خانہ کعبہ کا طواف کر رہی تھیں؛ اچانک ان کا درد بڑھ گیا تو وہ کعبہ میں داخل ہو گئیں اور اپنے بیٹے علیؑ کو کعبہ کے اندر جنم دیا۔ وہ اسی طرح مروج الذھب میں یہ لکھتا ہے: علیؑ کا مقام ولادت خانہ کعبہ ہے۔ [۲۳]
مسعودی، علی بن حسين، مروج الذهب، ج۲، ص۲۷۳۔
← زرندیزرندی حنفی بھی اس حوالے سے یہ لکھتے ہیں: حضرت علی بن ابی طالبؑ خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے۔ وہ ایک دوسرے مقام پر لکھتے ہیں: آپ کی والدہ فاطمہ بنت اسد بنت ہاشم بن عبد مناف پہلی ہاشمی خاتون تھیں کہ جن کے ہاں ہاشمی بچے کی ولادت ہوئی۔ روایت ہے جب انہیں درد زہ ہوا تو ابوطالب نے انہیں رات کے پہلے حصے میں کعبہ میں داخل کر دیا کہ جہاں علی بن ابی طالبؑ کی ولادت ہوئی۔ ← امیر صنعانیوہ بھی ان اہل سنت علما میں سے ہیں کہ جو حضرتؑ کی خانہ خدا میں ولادت کے بارے میں لکھتے ہیں: آپ کی ولادت مکہ مکرمہ اور خانہ خدا میں عام الفیل کے تیسویں سال بروز جمعہ تیرہ رجب کو ہوئی۔ [۲۶]
امیر صنعانی، محمد بن اسماعیل، الروضة الندیه، ص۳۶۔
← دیار بکریدیار بکری اپنی کتاب تاریخ الخمیس میں بھی اس واقعے کو ان الفاظ میں تحریر کرتا ہے: پیغمبر اکرمؐ کی ولادت کے تیس سال بعد علی بن ابی طالبؑ کعبہ میں پیدا ہوئے۔ ← محمد بن عبد الواحد موصلیموصلی امیر المومنینؑ کی کعبہ میں ولادت کو ان الفاظ میں بیان کرتا ہے: حضرت علیؑ کا مقام ولادت کعبہ شریفہ میں ہے اور کعبہ میں آپؑ کے علاوہ کوئی پیدا نہیں ہوا۔ پہلے درد زہ کے ساتھ ہی آپؑ کی ولادت ہو گئی تھی۔ ← بستیاہل سنت معتزلی عالم بستی حضرتؑ کی ولادت اور بنی ہاشم کی خواتین کی زچگی کے دوران عادات کے حوالے سے لکھتا ہے: تمام اہل بیتؑ کے نزدیک موجود صحیح روایات کی تحقیق سے ہم نے جان لیا کہ فاطمہ بنت اسد نے یہ فرمایا: جب علیؑ کی ولادت کا وقت نزدیک آیا تو بنی ہاشم کی خواتین کی عادت یہ تھی کہ خانہ خدا میں جا کر اپنا شکم دیوار کعبہ کے ساتھ مس کرتی تھیں تاکہ ان کا وضع حمل آسان ہو جائے۔ (پھر اپنے گھر میں وضع حمل کرتی تھیں) مگر میں اپنے بچے کے ساتھ (خانہ کعبہ) سے باہر آئی۔ کوئی مکان کعبہ سے بالاتر نہیں ہے اور فرزندِ پاک (یعنی حضرت علیؑ) سب سے عظیم مقام پر پیدا ہوئے۔ یہ ایسی فضیلت ہے جو صرف انہی پر انعام ہوئی اور یہ فضیلت اساتذہ اور مشائخ میں سے کسی ایک کو بھی نصیب نہ ہوئی کہ جن کو ہم پہچانتے ہیں۔ پھر آپؑ کیلئے مسجد میں ایک خاص اہمیت اور مقام ہے کہ ان کے ساتھ کوئی بھی شریک نہیں تھا اور یہ آپؑ ہی کا خاصہ ہے۔ آپؑ پہلی شخصیت ہیں جن کی ولادت کعبہ میں ہوئی۔ بستی معتزلی کے پورے کلام سے چند مطالب کا استفادہ ہوتا ہے: ۱۔ بنی ہاشم کی خواتین وضع حمل سے پہلے اپنا شکم کعبہ کی دیوار سے مس کرتی تھیں۔ ۲۔ کعبہ اس زمانے میں لوگوں بالخصوص بنی ہاشم کیلئے ایک مقدس مقام شمار ہوتا تھا۔ ۳۔ علیؑ کی ولادت خانہ کعبہ میں ہوئی۔ ۴۔ کعبہ بالاترین مقام ہے اور خواتین تبرک کے طور پر اس گھر کے قریب جاتی تھیں۔ ۵۔ کعبہ میں ولادت حضرت علیؑ کیلئے ایک خاص فضیلت شمار ہوتی ہے اور کوئی بھی اس فضیلت میں آپؑ کے ساتھ شریک نہیں ہے۔ ← ابن مغازلیابنمغازلی شافعی بھی حضرت علیؑ کے امر ولادت میں امام سجادؑ سے یہ نقل کرتے ہیں: موسیٰ بن جعفر اپنے والد امام صادقؑ سے اور وہ امام سجادؑ سے نقل کرتے ہیں: ایک دن میں اپنے والد کے ہمراہ اپنے نانا رسول خداؐ کی قبر کی زیارت کیلئے گیا، ہم بیٹھے تھے جبکہ وہاں بہت سی خواتین بھی موجود تھیں۔ ان میں سے ایک خاتون ہماری طرف متوجہ ہوئی؛ میں نے ان سے کہا: تم پر خدا کی رحمت ہو، تم کون ہو؟ کہنے لگیں: میں زیدہ بنت قریبہ بن عجلان قبیلہ بنی ساعدہ سے ہوں۔ میں نے اسے کہا: کیا تمہارے پاس کوئی بات ہے جو ہمارے لیے بیان کرو؟ کہنے لگیں: ہاں، خدا کی قسء۔ میری ماں ام العارہ بنت عبادہ بن نضلہ بن مالک بن عجلان الساعدی ۔۔۔ ایک دن عرب کی خواتین کے ہمراہ بیٹھی تھیں کہ ابوطالب گریہ کناں اور غمگین حالت میں آئے۔ میں نے ان سے پوچھا: آپ کو کیا ہوا ہے، اے ابوطالب؟! کہنے لگے: فاطمہ بنت اسد کو شدید درد زہ ہے اور پھر ہاتھوں سے اپنا چہرہ چھپا لیا۔ اتنے میں پیغمبرؐ تشریف لے آئے اور فرمایا: چچا جان! کیا ہوا ہے؟ ابو طالب نے کہا: فاطمہ بنت اسد وضع حمل کی سختی کی شدت سے گری پڑی ہیں۔ پیغمبرؐ نے ابوطالب کا ہاتھ تھاما جبکہ وہ فاطمہ بنت اسد کا ہاتھ تھامے ہوئے تھے؛ اور کعبہ میں آ گئے، انہیں کعبہ کے اندر لے گئے اور کہا: اللہ کے نام سے بیٹھ جائیں۔ کہنے لگیں: پھر اسی پہلی درد کے دوران ہی ایک انتہائی خوبصورت، پاک اور پاکیزہ بچے کی ولادت ہوئی؛ میں نے اتنا خوبصورت چہرہ کبھی نہیں دیکھا تھا پس ابوطالب نے اس کا نام علی رکھا اور پیغمبرؐ گھر تک ان کے ہمراہ رہے۔ امام سجادؑ فرماتے ہیں: خدا کی قسم! میں نے جو بھی خوبصورت بات سنی، یہ اس سے زیادہ خوبصورت بات تھی۔ ← جوینیجوینی بھی اہل سنت کے شافعی مذہب کے علما میں سے ہیں، وہ یہ لکھتے ہیں: مروی ہے کہ جب وضع حمل کا وقت ہوا اور آپ کی درد شدید ہو گئی تو ابوطالب نے رات کے پہلے حصے میں انہیں کعبہ میں داخل کیا اور علی وہاں پر پیدا ہوئے۔ اور کہا جاتا ہے کہ علیؑ کے علاوہ کوئی اور کعبہ میں پیدا نہیں ہوا۔ ← بسنویبسنوی نے بھی محاضرات الاوائل حضرتؑ کے القاب اور کعبہ میں ولادت کے حوالے سے یہ لکھا ہے: وہ پہلے مسلمان صحابی کہ بچپن میں جنہیں شیر کا نام دیا گیا؛ وہ ہمارے آقا و مولیٰ علی بن ابی طالبؑ ہیں۔ ولادت کے وقت آپؑ کے نانا موجود نہیں تھے۔ آپ کی والدہ فاطمہ بنت اسد ہیں اور انہوں نے آپؑ کا نام حیدر اپنے والد کے نام اسد کی مناسبت سے رکھا؛ آپؑ بنو ہاشم کے بزرگان میں سے تھے؛ فاطمہ بنت اسد پہلی ہاشمی خاتون تھیں کہ جن کے ہاں ہاشمی بچے کی ولادت ہوئی اور حضرت علیؑ نسب کے اعتبار سے پیغمبرؐ کے نزدیکی ترین خلیفہ ہیں اور پیغمبرؐ کی برترین دختر کے شوہر اور آنحضورؐ کے چچا زاد تھے۔ [۳۲]
بسنوی، علاءالدين علی، محاضرة الاوائل ومسامرة الاواخر، ص۷۹۔
بسنوی کے کلام پر غور کرنے سے چند نکتے سامنے آتے ہیں: ۱۔ حضرت علیؑ کا مخصوص نام اسد بمعنی شیر ہے۔ ۲۔ حضرتؑ کی ولادت مکہ میں کعبہ کے اندر ہوئی۔ ۳۔ حضرت علیؑ بنو ہاشم کے بزرگ اور ہاشمی ماں باپ سے پیدا ہوئے۔ ۴۔ حضرت علیؑ نسب کے اعتبار سے پیغمبر اکرمؐ کے سب سے زیادہ نزدیک اور آنحضورؐ کے داماد ہیں۔ ← شبلنجیمؤمن بن حسن شبلنجی شافعی بھی نورالابصار میں یہ لکھتے ہیں: حضرت علیؑ خانہ کعبہ کے اندر ایک قول کی بنا پر ۱۳ رجب بروز جمعہ تیس عام الفیل کو ہجرت سے تئیس برس قبل پیدا ہوئے۔ [۳۳]
شبلنجی، مؤمن بن حسن، نور الابصار، ص۱۵۸۔
← خواجہ نصر اللہ ہندیخواجہ نصر اللہ ہندی نے بھی حضرتؑ کی کعبہ میں ولادت کی تصریح کرتے ہوئے لکھا ہے: ہم اہل سنت کے نزدیک امیر المومنین کی ولادت کے بارے میں مشہور یہ ہے کہ اہل جاہلیت کے آداب میں سے ایک یہ تھا کہ پندرہ رجب کو کعبہ کا دروازہ کھولا جاتا تھا اور لوگ زیارت کے قصد سے اس میں داخل ہوتے تھے اور فاطمہ بنت اسد ان لوگوں میں شامل تھیں جو داخل ہوئیں اور اسی دن آپ کا وضع حمل ہوا۔۔۔ ← عبد العزیز دہلویاسی طرح عبد العزیز دہلوی منجملہ ان افراد میں سے ہے جس نے امیر المومنینؑ کی کعبہ میں ولادت کی تصریح کی ہے: صحیح یہ ہے کہ اہل جاہلیت کی عادت یہ تھی کہ پندرہ رجب کو کعبہ کا دروازہ کھولا جاتا تھا، تمام لوگ زیارت کے قصد سے داخل ہو جاتے تھے اور خواتین کی یہ عادت تھی کہ مردوں سے ایک یا دو دن قبل وارد ہوتی تھیں اور فاطمہ بنت اسد کا وضع حمل نزدیک تھا اور اتفاق سے بھیڑ زیادہ ہونے کی وجہ سے وہیں وضع حمل ہو گیا۔۔۔ ← ولی اللہ دہلویدہلوی بھی ان بزرگ اور مشہور اہل سنت علما میں سے ہیں، جنہوں نے حضرتؑ کی کعبہ میں ولادت کا ذکر کیا ہے؛ چنانچہ لکھتے ہیں: ولادت کے وقت آپؑ سے جو مناقب ظاہر ہوئے؛ ان میں سے ایک یہ ہے کہ جوف کعبہ میں پیدا ہوئے۔ [۳۶]
دهلوی، ولیالله، ازالة الخفاء عن خلافة الخلفاء، ج۴، ص۲۶۲۔
← جنابیدسویں صدی کے اہل سنت عالم ابومصطفیٰ جنابی امیر المومنینؑ کی ولادت کے بارے میں یہ لکھتے ہیں: کہا جاتا ہے کہ آپؑ کی ولادت کعبہ میں ہوئی۔ [۳۷]
جنابی، مصطفی بن حسن، البحر الزخار والعیلم التیار للجنابی (متوفای ۹۹۹ هـ)، ص۲۵۵، مخطوط۔
← صالح الغامدیمعاصر سلفی عالم صالح بن عبد اللہ الغامدی بھی امیر المومنینؑ اور آپؑ کی ولادت کے بارے میں یہ لکھتے ہیں: آپؑ کی والدہ فاطمہ بنت اسد بن ہاشم بن عبد مناف ہیں۔ انہوں نے امیر المومنینؑ کو کعبہ کے اندر جنم دیا اور آپ پہلی ہاشمی خاتون ہیں جن سے ہاشمی بچے کی ولادت ہوئی۔ [۳۸]
غامدی، صالح بن عبدالله، الاکتفاء فی اخبار الخلفاء، ج۱، ص۴۸۰۔
← عباس محمود عقادیہ ایک معاصر اہل سنت مصنف ہیں جو امیر المومنینؑ کی ولادت کے بارے میں یہ لکھتے ہیں: حضرت علیؑ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے۔ [۳۹]
عباس محمود عقاد، عبقریة الامام علی، ص۴۳۔
← اهل سنت معاصریناہل سنت علما، بزرگان اور معاصرین نے بھی آنحضرتؐ کی کعبہ میں ولادت کی طرف اشارہ کیا ہے؛ بطور نمونہ چند موارد پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ ←← محمد عمر سربازییہ بلوچستان کے علاقے کے بزرگ اہل سنت عالم تھے؛ حضرتؑ کی فضیلت کے بارے میں لکھتے ہیں: حضرت علی المرتضیؑ جو رسول اکرمؐ کے چچا زاد تھے؛ تیرہ رجب کو اور امام جعفر صادقؑ کی روایت کے مطابق ہجرت سے ۲۳ برس قبل سات شعبان کو بیت الحرام میں پیدا ہوئے۔ [۴۰]
سربازی، محمد عمر، پرسش و پاسخهای ارزشمند برای جوانان، ص۱۰۴۔
نکتہ: البتہ سات شعبان کا قول مشہور کے برخلاف ہے۔ ←← مصطفی سباعییہ معاصر اہل سنت مؤلفین میں سے ہیں، انہوں نے "زندگانی حضرت علی (رضیاللهعنه)" کے نام سے اپنی کتاب میں اہل سنت منابع کی بنیاد پر حضرتؑ کی ولادت کے بارے میں لکھا ہے کہ: رسول خداؐ کی ولادت کے بتیس سال بعد حضرت علیؓ کعبہ میں پیدا ہوئے۔ [۴۱]
سباعی، مصطفی، زندگانی حضرت علی رضیاللهعنه، ص۸۔
←← سیف الله مدرس گرجییہ بھی ایک اور معاصر اہل سنت مؤلف ہیں؛ انہوں نے ’’مختصری از باورهای اهل سنت‘‘ نامی کتاب میں حضرت علیؑ کی کعبہ میں ولادت کے بارے میں یہ لکھا ہے: آپؑ پیغمبرؐ کی ولادت کے تیس سال بعد ۱۳ رجب (۶۰۱ء) کو بیت اللہ میں پیدا ہوئے۔ [۴۲]
مدرس گرجی، سیفالله، مختصری از باورهای اهل سنت، ص۹۸۔
←← محمد حسیب قادرییہ بھی معاصر اہل سنت علما اور مولفین میں سے ہیں۔ ان کی کتاب اردو زبان میں ہی ہے؛ جس میں یہ رقمطراز ہیں: ولادت با سعادت حضرت سیدنا علی المرتضیؓ حضور نبی کریمؐ کی ولادت کے ۲۳ سال بعد پیدا ہوئے۔ یوں حضرت علیؑ سن و سال کے اعتبار سے حضور نبی کریم سے ۲۳ برس چھوٹے تھے۔ حضرت علیؑ خانہ کعبہ میں پیدا ہوئے۔ حضرت علیؓ کی ولادت کے وقت نبی کریمؐ نے اپنا لعاب دہن حضرت علیؑ کے دہان مبارک میں قرار دیا اور آپؓ کا نام علی رکھا۔ جب حضور نبی کریمؐ نے اعلان نبوت کیا، اس وقت حضرت علیؑ کا سن مبارک دس برس کا تھا۔ [۴۳]
قادری، محمد حسیب، سیرت حضرت سیدنا علی المرتضی رضیاللهعنه، ص۲۷۔
←← عبد الرحمن محبیمولوی محمد زکریا کی تالیف کردہ کتاب فضائل حج جو عبد الرحمٰن محبی کے ترجمے اور مولوی عبد الحمید کی تقریظ کے ساتھ شائع ہوئی ہے، اس کے حاشیے میں مصنف نے شیعہ و سنی علما سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ حضرت علیؑ کی ولادت کعبہ میں ہوئی ہے جبکہ اکثر شیعہ و سنی علما نے حضرت علیؓ کی ولادت جوف کعبہ میں ذکر کی ہے۔ [۴۴]
محبی، عبدالرحمن، فضائل حج، ص۱۱۲۔
نتیجہ[ترمیم]امیر المومنین، مولائے متقیان، صدیق اکبر، فاروق اعظم، اسد اللہ الغالب، حضرت علی بن ابیطالب (سلاماللہ علیہ) کی ولادت کعبہ معظمہ میں ہوئی اور علمائے اہل سنت کی تصریحات کے مطابق کہ جن میں سے چھبیس سے زیادہ موارد کی طرف اشارہ کیا گیا؛ یہ بات مسلمہ اور ناقابل انکار و تردید ہے۔ اسی طرح یہ مطلب بھی روشن ہوا کہ کعبہ میں ولادت وہ فضیلت ہے کہ جس کا افتخار صرف اور صرف حضرت علیؑ کو حاصل ہوا اور اس امر میں حضرتؑ کا کوئی بھی شریک نہیں ہے۔ حوالہ جات[ترمیم]ماخذ[ترمیم]موسسہ ولی عصر، ماخوذ از مقالہ آیا بر اساس منابع شیعه و اهل سنت امیرمؤمنان (علیهالسلام) در کعبه به دنیا آمدهاند؟! اس صفحے کے زمرہ جات : حضرت ولی عصرؑ تحقیقاتی مرکز کے مقالات
|