مہمان نوازی

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



مہمان نوازی انسانی اقدار میں سے ایک بہترین قدر اور اعلی صفت ہے، مہمان نواز ہونا دراصل آپ کے مہذب اور دیندار ہونے کا آئینہ دار ہے۔ آج کے دور میں مہمان نوازی کا رواج ختم ہوتا جا رہا ہے لیکن اگر ہم مہمان نوازی کے اسلامی آداب و دینی سنتوں کو دوبارہ احیاء کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو نا صرف مہمان نوازی کی ایک اچھی ثقافت کو زندہ کرسکتے ہیں بلکہ گھرانوں کے اندر بھی برکت و خوشحالی کا باعث بن سکتے ہیں۔


مہمان نوازی ایک ضروری امر

[ترمیم]

انسان نے جس طرح سے اس دور میں اپنی مصروفیات کو بڑھا لیا ہے نفسیاتی طور پر اسے آرام دہ و سکون آور تفریحات کی اشد ضرورت ہے، اس نفسانفسی کے دور میں اگر فراغت کے اوقات میں باوفا دوست اور عزیز و اقارب سے ملاقات ہو جائے اور ان کے ساتھ درد دل اور حال احوال ہو جائے تو بقدرِ پریشانیاں اور ذہنی تھکاوٹ دور ہو جاتی ہے. ایسی ملاقاتوں میں انسان ایک دوسرے کو پیار محبت کے دو الفاظ بولتا ہے جس سے اُنس بڑھتا ہے، ذہنی دباؤ میں کمی واقع ہوتی ہے، دوستی کا پیوند مضبوط تر ہوتا ہے، ایک دوسرے کی مشکلات جاننے کا بھی موقع ملتا ہے اور کوشش کی جاتی ہے کہ ایک دوسرے کی پریشانیوں کا حتی الامکان تدارک کیا جا سکے۔

ضیف کے معنی

[ترمیم]

ضیف عربی زبان کا لفظ ہے۔ عربی میں مہمان کے لیے ضیف کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ ضیف کے معنی رغبت کے ہیں۔ مہمان کو بھی مہمان اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ میزبان کی طرف رغبت بڑھاتا ہے اور اس کے گھر آتا ہے۔

مہمان کی شرعی حیثیت

[ترمیم]

اگر مہمان نوازی کرتے ہوئے ہم اسلامی آداب کی رعایت کریں تو مہمان ہمارے لیے باعث زحمت نہیں بنے گا بلکہ باعث برکت ہو گا اور ہمارے لیے خوشحالی کا سبب بنے گا۔ مہمان در اصل پروردگار کی جانب سے ہمارے لیے رزق میں اضافے کا سبب بن کر آتا ہے اور سبب بنتا ہے مغفرت الهی کا لیکن ہم اسے سمجھ نہیں سکتے کیونکہ ہم نے مہمان نوازی کے معیار ہی بدل ڈالے. رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں: جب خدا کسی کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو اس کی جانب ایک گرانبہا ہدیہ بھیجتا ہے، پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ ﷺ وہ کونسا ہدیہ ہے؟ آپ نے فرمایا: وہ مہمان ہے، وہ اپنی روزی ساتھ لے کر آتا ہے اور میزبان کے گناہوں کو ساتھ لے کر جاتا ہے (یعنی) بخشوا کر جاتا ہے۔

ولیمہ کرنے کی فضیلت

[ترمیم]

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: پانچ موقع پر ولیمہ یا مہمان نوازی سنت ہے: نکاح، شادی، عقیقہ (عقیقہ یعنی بچے کی پیدائش کے ساتویں دن قربانی کرنا اور دعوت عمومی بلانا)، ختنہ کرنا، اور حج سے واپسی پر۔ اس کے علاوہ نیا گھر خریدنے یا بنوانے پر بھی ولیمہ کرنا سنت ہے۔

ولیمہ سے کیا مراد ہے؟

[ترمیم]

مندرجہ بالا حدیث میں جن موارد میں دعوت عمومی و کھانا کھلانے کا حکم دیا گیا ہے ان مواقع پر جو کھانا پیش کیا جاتا ہے اس کو ولیمہ کہتے ہیں. ولیمہ کا مطلب وہ ہرگز نہیں جو ہمارے یہاں شادی بیاہ کے موقع پر ثقافت بن گیا ہے جس میں نمود و نمائش کی جاتی ہے اور مدعوین سے بھی پیسے وصول کیے جاتے ہیں، ولیمہ در اصل انبیاءؑ کی سنت ہے جس میں مومنین خصوصاً فقرا کو مدعو کیا جاتا ہے اور انہیں کھانا کھلایا جاتا ہے، مومنین کے لیے بھی اس دعوت کو قبول کرنا مستحب مؤکد ہے چاہے اور اسے مومن کی دعوت پر جانا چاہیے چاہے اس نے مستحبی روزہ بھی کیوں نہ رکھا ہوا ہو۔

ولیمہ، ایک اسلامی سنت

[ترمیم]

ولیمہ کرنا ایک اسلامی سنت ہے اور بعض مواقع پر اس سنت کو بجالانے کی تاکید وارد ہوئی ہے، اس اسلامی سنت سے مومنین کے دل آپس میں جڑتے ہیں جس سے معاشرے میں صمیمیت اور بھائی چارہ بڑھتا ہے، افراد ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں احوال پرسی کرتے ہیں جو زندگی میں نشاط و مسرت کا سبب بنتا ہے۔

مہمان نوازی کی آفات

[ترمیم]

ہر اچھے عمل کے جہاں پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں وہیں پر بعض جوانب سے آفات بھی اس عمل کا حصہ بن جاتی ہیں، اگر مہمان نوازی کی اسلامی سنت کا عمل انجام دیتے ہوئے ہم تعادل سے کام نہ لیں تو یہ اسلامی عمل بہت سی آفات کا شکار ہوجاۓ گا جس میں سے ایک آفت اسراف ہے۔ اسراف یعنی اپنی اوقات اور ضرورت سے زیادہ خرچ کرنا، دوسروں کو نیچا دکھانے کے لیے یا خودنمائی اور تفاخر کے مرض میں مبتلا ہو کر اس اسلامی سنت کی قداست کو ختم کردینا، یہ سب باعث بنتا ہے کہ مہمان نوازی کا امر انجام دے کر ہم محبوبیت خدا حاصل کرنے کی بجائے خدا سے دور ہو جائیں۔

میزبان کا قصد قربت

[ترمیم]

مہمان نوازی کا عمل اس وقت خدا کے ہاں قبول ہوتا ہے جب اس کے ذریعے کسی بھوکے کے پیٹ کو بھرا جائے یا کسی مؤمن کو قصد قربت الہی سے بلایا جاۓ، صله رحم کے طور پر رشتہ داروں کو کھانے کے لیے بلانا ضروری ہے لیکن اگر میزبان کے پیش نظر یہ سب نہ ہو تو ایسی مہمان نوازی اسلامی سنت نہیں. پیغمبر خدا (صلوات اللہ علیہ) فرماتے ہیں: اگر کوئی شخص ریا (یعنی لوگوں کے دکھاوے کی خاطر) یا خود نمائی کے طور پر میزبان بنتا ہے تو روزِ قیامت اللہ تعالیٰ اسے جہنمی کھانوں میں سے کھانا کھلاۓ گا۔ یہ بات ایک مہمان بخوبی محسوس کر سکتا ہے کہ کونسی مہمان نوازی ریا کاری کے طور پر ترتیب دی گئی، مختلف کھانوں کی انواع و اقسام، مہمان نوازی کی جگہ کا انتخاب، کھانا پیش کیے جانے کا طریقہ یہ سب بتا دیتا ہے کہ یہ دعوت خود نمائی کے طور پر ترتیب دی گئی ہے یا خالص قربتا الی اللہ. دعوت میں شائستہ ترین افراد و مستحق ترین افراد کا مدعو نہ ہونا، ریاکارانہ طور پر یا مصلحت کے طور پر اپنا حساب برابر کرنے کے لیے افراد کو مدعو کرنا بھی نعمات الہی کو ضائع کرنے کے برابر ہے۔

مہمان نوازی کے آداب

[ترمیم]

۱. دعوت میں ضروری ہے کہ اپنے قریبی رشتہ داروں کو بلاۓ، کیونکہ صلہ رحم کے ذیل میں ان کو مدعو کرنا ضروری بھی ہے اور رضایت الہی کا بھی باعث ہے، قریبی رشتہ داروں میں افضل یہ ہے کہ ان رشتہ داروں کو ضرور مدعو کیا جائے جو دیندار ہوں۔
۲. بہتر یہ ہے کہ دعوت دینے والا پرہیزگار و متقی، اپنے دینی بھائیوں شیعیان حیدر کرارؑ کو مدعو کرے۔
۳. دعوت کے دوران ضروری ہے کسی ثروت مند اور فقیر کے درمیان فرق نہ رکھے، جو کھانا امیروں کو دیا جا رہا ہے انہیں میں سے فقراء کو بھی دیا جائے۔
۴. دعوت ریاکاری اور خودنمائی کے طور پر ترتیب نہ دی جائے بلکہ صلہ رحم و إطعام المؤمن کی نیت سے قربت الہی کا قصد کرے۔
۵. کسی ایسے شخص کو مدعو کرنا کہ جس کے بارے میں ہم جانتے ہوں کہ اس کے لیے زحمت یا تکلیف کا باعث بنے گا، یا کسی ایسے شخص کو بلانا جو دیگر مدعو افراد کے لیے مصیبت کا باعث بنے گا، درست نہیں۔
۶. اگر آپ دعوت میں چند افراد کو مدعو کررہے ہیں تو اس بات کو ذہن نشین کرلیں کہ ان سب کی دعوت اور بہترین پزیرائی کی قدرت رکھتے ہوں، اگر دعوت میں کسی نامناسب امر کے لاحق ہونے کا خوف ہو یا اپنے ہی گھر والوں کو تنگی میں ڈالنے کا اندیشہ ہو تو زیادہ اہتمام نہ کرے۔

میزبان کی ذمہ داریاں

[ترمیم]

۱. ایک اچھا میزبان وہ ہے جو مہمان کی پزیرائی بہترین انداز سے انجام دے جو کہ اس کے جود اور سخاوت کی علامت ہے۔
۲. مہمان کی بہترین انداز میں خدمت کرنا، مثلا اس کے لیے بستر خود لگاۓ۔
۳. اگر مہمان کسی قسم کا قیمتی یا متوسط ہدیہ میزبان کی خدمت میں پیش کرے تو اسے بخوشی قبول کرے۔
۴. کوئی بھی کام مہمان سے نہ کرواۓ، اگر مہمان خود سے کسی کام کو انجام دینے کے لیے آگے بڑھتا ہے تو میزبان کو چاہیے کہ اسے زحمت نہ دے لیکن اگر مہمان اصرار کرے تو کوئی حرج نہیں۔
۵. مہمان کی آمد کے وقت اس کی مدد کرنا میزبان کا فریضہ ہے، مثلا اگر مہمان کہیں دور سے آرہا ہے اور اس کے ساتھ سامان وغیرہ بھی ہمراہ ہے تو میزبان کو چاہیے کہ مہمان سے سامان لے لے اور خندہ پیشانی سے مہمان کی ہمراہی کرے اور آگے بڑھ کر جس جگہ پر اسے بٹھانا ہے اسکی رہنمائی کرے۔

کھانا پیش کرنے کے آداب

[ترمیم]

۱. کھانا آمادہ کرنے یا پیش کرنے میں زیادہ تاخیر مت کرے، مگر یہ کہ خود مہمان دیر سے کھانا لانے کا کہے۔
۲. جو کھانا آمادہ کیا گیا ہے وہ سب ایک ساتھ لاۓ یا اول سے ہی مہمان کو اطلاع دے کہ اس کے لیے کون کون سا کھانا آمادہ کیا گیا ہے، ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ جب مہمان ایک کھانا کھا کر سیر ہو جائے تو دوسرا کھانا لاۓ۔
۳. کھانے کی جو مقدار مطلوب ہو اتنا ہی کھانا بنوایا جائے، نا اس سے کم کھانا بنواۓ کہ مہمان بھوکے رہ جائیں اور نہ ہی زیادہ کھانا بنواۓ کہ جو ضائع ہو۔
۴. اگر محسوس ہو کہ مہمان بھوکا ہے تو جو بھی بنا ہو پیش کردے، اسے بھوکا رکھ کر کھانا بنوانا درست نہیں بلکہ جو موجود ہو وہ پیش کردے، دراصل یہاں پر آپ مہمان کی بھوک کو مدنظر رکھ کر اسے فوقیت دے رہے ہیں، یہ نا سمجھیں کہ ہم نے مہمان کو اچھا کھانا نہیں کھلایا۔
۵. اگر آپ خلوص نیت سے مہمان نوازی کرتے ہیں اور جو کچھ اپنی اوسط کے مطابق پیش کرتے ہیں اسے کم اور حقیر نہ سمجھیں، کیونکہ خود یہ امر ایک قسم کی ناسپاسی ہے۔
۶. اگر آپ قدرت رکھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا کیا ہے تو مہمان نوازی کرتے ہوئے مہمان کے سامنے بہترین سے بہترین کھانا پیش کریں، مہمان کو حتی الامکان آسائش فراہم کریں۔

مہمان نوازی کی مشکلات

[ترمیم]

مہمان نواز ہونا ایک بہت اچھی صفت ہے ہر شخص مہمان نواز انسان کی تعریف کرتا ہے، لیکن مہمان نوازی کی دو مشکلات ایسی ہیں کہ جس کی وجہ سے کوئی بھی مہمان نواز نہیں بننا چاہتا اگرچہ دوسروں کی تعریف کرتا ہے لیکن خود مہمان نواز بننے کے لیے تیار نہیں ہوتا. یہ دو مشکلات ایسی ہیں کہ جس کی وجہ سے مہمان نوازی کی بہترین رسم ختم ہوتی جارہی ہے اور جب تک کہ کسی خانوادے کے لیے ناگزیر نہیں ہوجاتا تب تک کسی کو مدعو کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتے۔

← پہلی مشکل


پہلی مشکل تجملات کا شکار ہوجانا ہے، بے جا نمود و نمائش، اپنی اوسط سے کئی گنا زیادہ لوازم خانہ کی خرید اور تکلفات میں پڑنا یہ وہ مصیبت ہے جس نے گھرانوں کا چین برباد کر کے رکھ دیا ہے. یہ سوچ کر مہمان نوازی کی اعلی اخلاقی قدر کو فراموش کیا جا رہا ہے کہ لوگ کیا سوچیں گے؟ ہمارا گھر دیکھ کر کیا سوچیں گے؟ ہمارے برتن دیکھ کر مہمان کیا باتیں بنائیں گے؟ مہمانوں کو کہاں پر بٹھائیں گے ہمارا تو پزیرائی کا ہال کمرہ ہی موجود نہیں. ہم نے اس سوچ کو اتنا پروان چڑھایا ہے کہ کوئی بھی مہمان قبول کرنے کے لیے تیار نہیں خود کو حقیر سمجھنا، نعمات الہی کا کیفر کرنا واقعا قابل مذمت ہے۔

←← مشکل کا حل


اس مشکل کے حل کے لیے ہمیں کسی لمبی چوڑی فکر کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ اپنے سوچنے کے زاویے کو بدلنے کی ضرورت ہے، جب ہم کسی دوست کو دعوت دیتے ہیں یا رشتہ داروں کو گھر پہ بلاتے ہیں تو ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ وہ گھر دیکھنے تھوڑی آ رہے ہیں؟ اگر وہ واقعی اس کام کے لیے آ رہے ہیں تو پھر انہیں کسی سیاحتی مقام یا کسی ماڈرن پارک میں چلے جانا چاہیے، ہم نے جدید ترین سامان اور اشیاء کی نمائش تھوڑی لگانی ہے جو ایسا سوچ رہے ہیں، ہاں اگر آپ نمائش کے لیے بلا رہے ہیں تو ایسا سوچیں گے لیکن اگر آپ مہمان نوازی قربتا الی اللہ کررہے ہیں تو ایسا ہرگز مت سوچیں. اگر مہمان نوازی انس، محبت بڑھانے کے لیے رکھی ہے تو کسی قسم کی فکر ذہن میں مت پنپنے دیں، کیونکہ آپ نے دعوت فخر و مباهات کے لیے نہیں بلکہ صلہ رحمی یا حبیب خدا کی ملاقات کے لیے رکھی ہے. ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ مہمان یہاں پر بھوکا ہونے کی وجہ سے تھوڑی آ رہا ہے یا ہمارے گھر پر نکتے لگانے کے لیے تھوڑی آ رہا ہے اس نے تو ہماری دعوت قبول کر کے ہمیں عزت دی اور ہمارا مان رکھ لیا. اگر ہم اس سوچ کو پروان چڑھائیں تو نا فقط اس تجمل گرائی کی مصیبت سے چھٹکارا حاصل کرسکتے ہیں بلکہ مہمان نوازی کی بہترین اعلی انسانی قدر کو زندہ کر کے ایک دوسرے کے ساتھ رفت و آمد کی رسم کو بھی بڑھ سکتے ہیں لیکن اس کے لیے جرات و شجاعت چاہیے، اگر یہ سوچ زندہ ہو جائے تو خود اس مہمان کے لیے بھی اچھا ہے اور وہ بھی آپ کی سادگی اور خلوص کو دیکھ کر ہمت باندھے گا اور بغیر کسی زحمت میں خود کو ڈالے آپ کو بھی مدعو کرے گا، جب دیکھے گا کہ آپ نے بغیر کسی تکلف میں پڑنے کے مہمان کی خلوص نیت سے پزیرائی کی تو وہ بھی آگے سے اس رسم کے تسلسل کو آگے بڑھاۓ گا اور اس طرح سے رفت و آمد کا سلسلہ جاری رہے گا لیکن اگر کسی نے بھی ہمت و حوصلہ کر کے اس تجمل گرائی اور تکلفات میں پڑ کر ریاکاری اور خودنمائی کے بت کو نہ توڑا، کوئی بھی مہمان نواز بننا نہیں چاہے گا، ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمت و جرات سے ان تکلفات سے جان چھڑائی جاۓ۔

← دوسری مشکل


دعوتوں کی ایک اہم ترین مشکل کھانا تیار کرنا ہے، اگر آپ ایک فیملی کو مدعو کررہے ہیں تو ناچار ہیں ان کے لیے کم از کم دو تین کھانے بنوائیں اور اس کے لیے ایک ہی بندہ ہے جس نے سارے کام انجام دینے ہیں اور وہ آپکی زوجہ. زوجہ بھی اس بات کو لے کر پریشان ہے کہ کم وقت میں اتنے کھانے اس مقدار میں بنانے ہیں اور کسی بھی کھانے میں کسی قسم کی کمی واقع نہیں ہونی چاہیے ورنہ جہاں شوہر ناراض ہوگا ایک طرف، خود خاتون کی بھی خاندان میں شکایت ہوگی کہ صحیح کھانا نہیں بنا سکتی. یعنی آپ نے زحمت بھی کرنی ہے شوہر کے خرچے کو ضائع بھی نہیں ہونے دینا اور خاندان والوں کے ذائقوں کا بھی لحاظ رکھنا ہے، اس مشکل کے پیش نظر کوئی بھی فیملی تیار نہیں ہوتی کہ دعوت ترتیب دیں۔

←← مشکل کا حل


یقیناً مہمان نوازی کی یہ دوسری مشکل پہلی مشکل سے زیادہ سخت تر ہے کیونکہ پہلی مشکل انسان کے ارادے سے تعلق رکھتی ہے انسان اگر ہمت و جرات سے کام لے اور مصمم ارادہ کر کے تو پہلی مشکل پر قابو پایا جاسکتا ہے لیکن دوسری مشکل میں معاملہ تھوڑا سخت تر ہے اس میں فقط ارادہ نہیں بلکہ عملی طور پر آپ کو چند امور انجام دینے ہیں. اس بات کو کوئی انکار نہیں کرسکتے کہ ایک اچھی دعوت ترتیب دینا واقعی مشکل کام ہے لیکن اگر انسان با تدبیر اور مہمان نوازی کے رسم و آداب سے بخوبی واقف ہے اور اسے دو تین گھنٹوں کے اندر سمٹ جانے والا کام نہیں سمجھتا تو بہت سی مشکلات کو تدریجا و تدبیر سے حل کرسکتا ہے، نمونے کے طور پر آپ کے سامنے ایک منظم و مناسب دعوت کی صورت کو مجسم کر کے پیش کیا جا رہا ہے تاکہ آپ بھی اطمینان سے ایک بہترین دعوت کے امور انجام دے پائیں.

←← نمونہ


مرد گھر میں داخل ہوگا اور اپنی زوجہ سے کہے گا کہ مثلا اتوار کے دن میں نے اپنے دس دوستوں کو دعوت پر مدعو کیا ہے ان کے لیے رات کا کھانا تیار کرنا ہے، کھانے میں کون کونسی چیز بنانی ہے اس کے لیے دونوں مل بیٹھ کر مشورت کریں گے اور طے کریں گے کہ فلاں چیز بنانی ہے. سب سے پہلے ایک کاغذ قلم لے کر ان تمام اشیاء خورد و نوش کی لسٹ بنائیں جو کھانا آمادہ کرنے کے لیے چاہیے ہونگی، لکھنے کے بعد ایک بار دوبارہ اس کا اول سے آخر تک جائزہ لیں گے کہ کوئی چیز رہ تو نہیں گئی اگر لسٹ مکمل ہے تو اس کے بعد ان اشیاء پر لکیر کا نشان لگاتے جائیں گے جو گھر میں پہلے سے ہی موجود ہیں، جو اشیاء رہ جائیں انکی دوبارہ لسٹ بنا لیں اور ایک دن پہلے خرید کر گھر والوں کو مہیا کریں. دعوت سے ایک دن پہلے ہفتہ کو ہی بعض امور شوہر اور بچوں کی مدد سے انجام دے دیں اور زوجہ سے یہ توقع ہرگز مت رکھیں کہ وہ آپ کے دس دوستوں کا کھانا اکیلے بنا لے گی، اگر آپ ایک اسلامی قدر یعنی مہمان نوازی کو انجام دے رہے ہیں تو یہ بھی ذہن نشین کرلیں کہ گھر کے کام کاج میں زوجہ کا ہاتھ بٹانا بھی ایک اسلامی سنت ہے اور ہمارے آئمہ معصومینؑ کی سنت بھی ہے اس لیے زوجہ کا ہاتھ بٹائیں. اس لئے جو کام ایک دن پہلے انجام کیے جاسکتے ہوں ان کو بچوں اور شوہر کی مدد سے ایک دن پہلے ہی انجام دے دیجیے. اتوار کی صبح ناشتے کے بعد زوجہ کچھ دیگر امور کو آگے بڑھاۓ گی اور صبر و حوصلے سے بغیر مضطرب ہوۓ اہتمام کرے، دوپہر تک جو کام کرسکتی ہے کرے پھر دوپہر کے کھانے کے بعد استراحت کرے اور پھر دوبارہ شوہر یا بچوں کی مدد سے دعوت کے آخری امور انجام دے. کبھی بھی زیادہ افراد کو مدعو کر کے یا اچھی دعوت کا اہتمام کر کے کاموں کو تاخیر میں مت ڈالیں بلکہ کاموں کو تقسیم کرلیں، کاموں کی ایک تقسیم وہ ہے کہ جو آپ نے ایک دن پہلے سے انجام دینے ہیں، ایک تقسیم وہ ہے جو آپ نے گھر والوں کی مدد لے کر انجام دینے ہیں، ایک تقسیم وہ ہے جو فقط آپ نے انجام دینی ہے اور جس میں کسی اور کو ہاتھ نہیں ڈالنے دینا، اگر کاموں کی تقسیم نہ کی جائے تو یہ اضطراب اور پریشانی کا باعث بنتا ہے اور پریشانی اور عجلت میں کھانا بھی صحیح نہیں بنتا۔

← نتیجہ


۱. آپ کی پرخلوص دعوت و با تدبیر مہمان نوازی اور لذیذ کھانے کبھی بھی مہمانوں کو فراموش نہیں ہونگے، اس دعوت کے بعد آپس میں انس و مودت میں افزائش ہوگی اور آپ کی تدبیر اور مہمان نوازی کے سب مشکور و ممنون ہوں گے۔
۲. گھر کا مرد کہ جس کے کہنے پر آپ نے ایک بہترین دعوت ترتیب دی اور اس نے اپنے دوستوں کے ساتھ بہترین وقت گزارا اور آپ کے کھانوں کی تعریف سن کر خوشحال ہوا، آپ کا ہمیشہ ممنون و احسان مند رہے گا. اور یہ امر خود میاں بیوی کے باہمی تعلقات کے لیے بھی ایک اچھی پیش رفت ثابت ہوگا. مرد کو اس لاجواب دعوت پر اپنی زوجہ کا حتما و حتما شکریہ ادا کرنا چاہیے۔
۳. شوہر اور مہمانوں کی جانب سے مناسب تعریف و تمجید کے بعد خاتون کی تھکن دور ہو جاتی ہے کیونکہ اگر خاتون نے واقعی دل سے اور خلوص سے کھانا بنایا اور زحمت کی تو اس کا حق بنتا ہے کہ اسکے شکرگزار ہوں، اس کے نتیجے میں خاتون بھی گھر کے اندر اور خاندان میں ہمیشہ خود کو سرخرو اور قابل عزت سمجھے گی، اور بعد میں اسی قسم کی دیگر دعوتوں پر اضطراب کا شکار نہیں ہو گی۔

اہم نکات

[ترمیم]

۱. اگر آپ سمجھتے ہیں کہ فکری طور پر یا معاشرے سے متاثر ہو کر آپ کے اندر ایک اچھا مہمان نواز بننے کی صلاحیت نہیں ہے تو آپ کو چاہیے کہ ایک قاطع و تصمیم گیرندہ فیصلے کے ذریعے اس ڈر کو خود سے اکھاڑ کر پھینک دیجیے. اور خود کو اس خدا پسندانہ عمل کے لیے تدریجا آمادہ کیجیے مثلا اول میں ہی بڑی بڑی اور طولانی دعوتیں مت دیں بلکہ چھوٹی چھوٹی دعوتوں سے شروع کریں اور خود کو تلقین کریں کہ آپ ایک اچھے مہمان نواز بن سکتے ہیں۔
۲. اگر خدانخواستہ آپ کے اندر یہ منفی سوچ بن چکی ہے کہ آپ اقتصادی و معیشت طور پر ایک اچھی دعوت ترتیب نہیں دے سکتے اور ایک بہترین دعوت ترتیب نہیں سے سکتے تو اس طرز فکر کی پرواہ نہ کریں، ایسے وقت میں توکل بر خدا کریں اور اپنی توانائی کے مطابق ایک اچھی دعوت کا اہتمام کریں، غیبی امداد الہی کے منتظر رہیں اور ایمان کو دل سے مت جانے دیں کیونکہ یہ وعدہ الہی ہے کہ آپ کی روزی اللہ تعالیٰ نے آپ تک حتما پہچانی ہے اور اسے کوئی آپ سے چھین کر نہیں جا سکتا۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں: مہمان کا رزق آسمان سے نازل ہوتا ہے جب وہ اپنا رزق تناول کرلیتا ہے میزبان کے گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔
[۱] شیخ حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعٍۃ، ج۱۶، ص۵۵۷۔

۳. مومنین کی دعوت کو اس بنا پر رد مت کریں کہ اگر میں دعوت پر گیا تو مجھے بھی انکی دعوت کرنی پڑے گی۔ امام رضاؑ فرماتے ہیں: سخاوت مند لوگوں کے کھانے میں سے کھا لیتا ہے تاکہ لوگ بھی اس کی دعوت قبول کریں، لیکن بخیل اس بناء پر لوگوں کی غذا میں سے نہیں کھاتا کہ کہیں اس کے کھانے میں سے کوئی نہ کھا لے۔
[۲] شیخ حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعۃ، ج۱۶، ص۵۲۰۔

۴. ایسا ہرگز مت سوچیں کہ دعوت دے کر یا مہمان نوازی سے آپ کا وقت ضائع ہوگیا کیونکہ مومنین کو دعوت دینا اور ان کو کھانا کھلانا نا صرف عبادت ہے بلکہ ثواب کا باعث ہے۔

اہم منابع

[ترمیم]

۱. ہمسرداری، امینی، ابراہیم۔
۲. بہشت خانواده، مصطفوی، سید جواد۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. شیخ حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعٍۃ، ج۱۶، ص۵۵۷۔
۲. شیخ حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعۃ، ج۱۶، ص۵۲۰۔


مأخذ

[ترمیم]

سایت اندیشہ قم، یہ تحریر مقالہ مہمان داری سے مأخوذ ہے، مشاہدہِ لنک کی تاریخ:۹۵/۸/۱۵۔    
سایت پژوہہ۔    






جعبه ابزار