حضرت امام حسینؑ

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



امام حسینؑ اہل تشیع کے تیسرے امام ہیں۔ آپ کو تمام اہل سنت بھی اپنا امام، پیشوا اور مقتدا تسلیم کرتے ہیں۔ آپؑ کے بہت سے ایسے فضائل ہیں جو اولین و آخرین میں سے کسی کے نہیں ہیں۔ آپ کے نانا رسولؐ خدا ہیں، آپ کے پدر بزرگوار مولائے کائنات علی بن ابی طالبؑ ہیں، آپ کی والدہ خاتون جنت سیدہ نساء العالمین حضرت فاطمہ زہراؑ ہیں۔ آپؑ کے بھائی امام حسنؑ مجتبیٰ جنت کے جوانوں کے سردار ہیں کہ اس فضیلت میں آپؑ بھی اپنے بھائی کے ساتھ برابر کے شریک ہیں۔ حضرت امام حسینؑ وہ عظیم ہستی ہیں کہ جنہوں نے دین اسلام کی بقا کی خاطر میدان کربلا میں عظیم قربانی دے کر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے کلمہ توحید کے پرچم کو سربلند کر دیا۔

فہرست مندرجات

۱ - مربوط فقہی احکام
۲ - مشخصات
۳ - اسم گرامی
۴ - کنیت
۵ - القاب
۶ - ولادت
۷ - شہادت
۸ - امامت سے پہلے کے واقعات
       ۸.۱ - پیغمبرؐ کے زمانہ حیات میں
       ۸.۲ - عمر بن خطاب کے دور میں
       ۸.۳ - زمانہ عثمان میں
       ۸.۴ - حضرت علیؑ کی خلافت کے دوران
       ۸.۵ - امام حسنؑ کے زمانہ امامت میں
۹ - امامت
       ۹.۱ - حکومتِ معاویہ کے دوران
۱۰ - شمائل و خصوصیات
۱۱ - سیرت
۱۲ - امامت کے دلائل
۱۳ - فضائل و مناقب
       ۱۳.۱ - روز عاشور کے معجز نما واقعات
       ۱۳.۲ - امام حسینؑ کے بارے میں قرآن کی آیات
۱۴ - امام حسینؑ کی ازواج
       ۱۴.۱ - رباب
       ۱۴.۲ - شہربانو
       ۱۴.۳ - لیلیٰ
       ۱۴.۴ - امّ اسحاق
       ۱۴.۵ - سُلافہ یا ملومہ
۱۵ - فرزندان امام حسینؑ
۱۶ - امام حسینؑ کی زیارت کے فضائل
۱۷ - اقوال
۱۸ - امام حسینؑ کی دعائیں
۱۹ - روایات
۲۰ - اشعار
۲۱ - راوی
۲۲ - امام حسینؑ سے روایت کرنے والی شخصیات
۲۳ - امام حسینؑ کے اقوال پر مشتمل مطبوعہ کتب
۲۴ - امام حسینؑ کی زیارت کا حکم
۲۵ - امام حسینؑ کی عزاداری کا حکم
۲۶ - امام حسینؑ
۲۷ - امام حسینؑ پر سلام بھیجنے کا حکم
۲۸ - امام حسینؑ کی تربت کی فضیلت
۲۹ - مربوط عناوین
۳۰ - منابع کی فہرست
۳۱ - حوالہ جات
۳۲ - مآخذ

مربوط فقہی احکام

[ترمیم]

حضرتؑ سے مربوط فقہی احکام باب صلاۃ اور باب اطعمہ و اشربہ میں وارد ہوئے ہیں۔

مشخصات

[ترمیم]

حسین بن علیؑ شیعہ امامیہ کے بارہ آئمہؑ میں سے تیسرے امام اور چہاردہ معصومینؑ میں سے ایک ہیں۔ تمام معتبر کتب کا اتفاق ہے کہ آپ کا نام اور نسب حسین ‌بن علی ‌بن ابی ‌طالب ‌بن عبد المطلب ‌بن ہاشم ہے۔ آپؑ کے نانا رسول اللہؐ ہیں، آپ کے والد امیر المومنین علیؑ ہیں اور آپؑ کی والدہ ماجدہ حضرت فاطمہؑ بنت رسولؐ اللہ ہیں۔
[۱] ابن سعد، طبقات الکبری، ج۶، ص۳۹۹۔


اسم گرامی

[ترمیم]

پیغمبر اکرمؐ نے آپؑ کا نام ہارونؑ کے دوسرے فرزند کے نام پر شَبیر یعنی حسین رکھا۔
[۴] ابن سعد، طبقات الکبری، ج۶، ص۳۵۶ـ۳۵۷۔
[۵] ابن‌حنبل، مسند الامام احمد بن حنبل، ج۱، ص۹۸۔
[۶] ابن‌حنبل، مسند الامام احمدبن حنبل، ج۱، ص۱۱۸۔
[۹] دولابی، محمد بن احمد، الذریة الطاهرة، ص۱۲۲، که حسین را مشتق از حسن شمرده‌اند۔
بعض روایات کے مطابق امام علیؑ یہ چاہتے تھے کہ آپؑ کا نام حرب رکھیں، تاہم آپؑ نے اس میں پیغمبر اکرمؐ پر سبقت نہیں کی۔
[۱۰] صدوق، محمد بن علی، عیون اخبار الرضا، ج۲، ص۲۵ـ۲۶۔
دیگر روایات کی بنا پر پہلے امامؑ اپنے چچا جعفر طیار جو ان دنوں حبشہ میں تھے؛ کے نام پر اپنے فرزند کا نام رکھ چکے تھے۔ تاہم پیغمبرؐ نے ان کا نام تبدیل کر کے حسینؑ رکھ دیا۔
[۱۳] ابن‌حنبل، مسند الامام احمد بن حنبل، ج۱، ص۱۵۹، بیروت: دارصادر۔
[۱۴] دولابی، محمد بن احمد، الذریة الطاهرة، ص۹۹۔
[۱۵] دولابی، محمد بن احمد، الذریة الطاهرة، ص۱۲۱۔
[۱۶] طبرانی، سلیمان ‌بن احمد، المعجم‌ الکبیر، ج۳، ص۹۸۔

بہرحال شیعہ روایات کی بنا پر پیغمبرؐ نے سب سے پہلے خدا کے حکم پر آپؑ کیلئے حسینؑ نام تجویز فرمایا۔
[۱۹] طوسی، محمد بن حسن، الامالی، ج۱، ص۳۶۷۔
(دوسری روایات کے مضمون پر تنقید کیلئے ’’باقر شریف قرشی‘‘ کی کتاب کی طرف رجوع کیجئے)
[۲۰] شریف قریشی، شریف قرشی، ج۱، ص۳۱ـ۳۲۔
بعض روایات میں یہ تاکید کی گئی ہے کہ حسنؑ اور حسینؑ بہشتی نام ہیں اور اسلام سے قبل یہ نام رائج نہیں تھے۔
[۲۱] ابن سعد، طبقات الکبری، ج۱، ص۳۵۷۔
[۲۲] دولابی، محمد بن احمد، الذریة الطاهرة، ص۱۰۰۔


کنیت

[ترمیم]

امام حسینؑ کی کنیت تمام منابع میں ابو عبد اللہ ذکر کی گئی ہے،
[۲۳] ابن ابی‌شیبه، المصنَّف فی الاحادیث و الآثار، ج۸، ص۶۵۔
[۲۴] دینوری، ابن ‌قتیبه، المعارف، ج۱، ص۲۱۳۔
[۲۵] طبرانی، سلیمان ‌بن احمد، المعجم‌ الکبیر، ج۳، ص۹۴۔
تاہم خصیبی نے خواص کے نزدیک آپؑ کی کنیت ابو علی قرار دی ہے۔

القاب

[ترمیم]

امام حسینؑ کی جانب بہت سے القاب کی نسبت دی گئی ہے کہ جن میں سے بعض آپؑ کے بھائی امام حسنؑ کے القاب کے ساتھ مشترک ہیں۔ امام کے خاص القاب میں سے زکی، طیب، وفیّ، سید، مبارک،
[۲۸] ابن ابی‌الثلج، تاریخ الائمة، ج۱، ص۲۸۔
[۲۹] شافعی، ابن طلحه، مطالب السؤول فی مناقب آل‌الرسول، ج۲، ص۳۷۴۔
نافع، الدلیل علی ذات‌ اللّه،
[۳۰] ابن ابی‌الثلج، تاریخ الائمة، ج۱، ص۲۸۔
رشید اور التابع لمرضات اللّه
[۳۱] شافعی، ابن طلحه، مطالب السؤول فی مناقب آل‌الرسول، ج۲، ص۳۷۴۔
قابل ذکر ہیں۔
[۳۲] برای فهرستی از القاب آن حضرت رجوع کنید به، ابن ‌شهرآشوب، ج۴، ص۸۶، مناقب آل ابی‌طالب۔
ابن‌ طلحہ شافعی
[۳۳] شافعی، ابن طلحه، مطالب السؤول فی مناقب آل‌الرسول، ج۲، ص۳۷۴۔
نے حضرتؑ کے لقب ’’زکی‘‘ کو دیگر القاب سے مشہور تر قرار دیا ہے۔ آئمہ اہل بیتؑ کی کچھ احادیث میں آپؑ کو سید الشہدا کے لقب سے دیا کیا گیا ہے۔
[۳۶] طوسی، محمد بن حسن، الامالی، ج۱، ص۴۹ـ ۵۰۔
چوتھی صدی ہجری سے بعد کے بعض ادبی اور تاریخی متون میں بھی امام حسینؑ کیلئے امیر المومنینؑ کا لقب بھی ذکر کیا گیا ہے
[۳۸] کوفی، ابن‌ اعثم، کتاب‌ الفتوح، ج۱، ص۸۰۲، ترجمه محمد بن احمد مستوفی هروی۔
[۳۹] کوفی، ابن‌ اعثم، کتاب‌ الفتوح، ج۱، ص۸۴۶، ترجمه محمد بن احمد مستوفی هروی۔
[۴۰] ناصرخسرو، سفرنامه ناصرخسرو قبادیانی مروزی، ج۱، ص۷۲ـ۷۵۔
[۴۱] ناصرخسرو، سفرنامه ناصرخسرو قبادیانی مروزی، ج۱، ص۸۵۔
[۴۲] سنایی، مجدود بن آدم، حدیقة الحقیقة و شریعة الطریقة، ج۱، ص۲۶۲۔
[۴۳] سنایی، مجدود بن آدم، حدیقة الحقیقة و شریعة الطریقة، ج۱، ص۲۶۶۔
[۴۴] خوافی، مجد، روضه خلد، ج۱، ص۲۲۔
[۴۵] خوافی، مجد، روضه خلد، ج۱، ص۲۶۔
[۴۶] خوافی، مجد، روضه خلد، ج۱، ص۲۰۵۔
[۴۷] خوافی، مجد، روضه خلد، ج۱، ص۲۷۱۔
[۴۸] جنید شیرازی، جنید بن محمود، شدّ الازار فی حطّ الاوزار عن زوّار المزار، ج۱، ص۲۵۱ـ۲۵۲۔
جو اس امر کو دیکھتے ہوئے کہ حضرتؑ ہرگز ظاہری خلافت پر فائز نہیں ہوئے، قابل توجہ ہے۔

ولادت

[ترمیم]

امام حسینؑ کی جائے ولادت مدینہ ہونے کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ آپ کا سال ولادت تین،
[۵۳] ابن عبدالبرّ، الاستیعاب فی معرفة الاصحاب، ج۱، ص۳۹۲۔
چار،
[۵۴] ابن سعد، طبقات الکبری، ج۶، ص۳۹۹۔
[۵۵] یعقوبی، تاریخ، ج۲، ص۲۴۶۔
[۵۷] دولابی، محمد بن احمد، الذریة الطاهرة، ص۱۲۱۔
پانچ
[۶۱] ابن عبدالبرّ، الاستیعاب فی معرفة الاصحاب، ج۱، ص۳۹۳۔
اور چھ ہجری
[۶۲] حاکم نیشابوری، محمد بن عبداللّه، المستدرک علی‌الصحیحین، ج۳، ص۱۷۷۔
[۶۳] ابن‌ عساکر، تاریخ مدینة دمشق، ج۱۴، ص۱۱۶۔
ذکر کیا گیا ہے۔ آپ کا روز ولادت مشہور قول کی بنا پر تین شعبان ہے، ، تاہم بعض نے امامؑ کی ولادت کو ربیع الاول، پانج شعبان
[۶۸] شافعی، ابن طلحه، مطالب السؤول فی مناقب آل‌الرسول، ج۲، ص۳۷۲۔
یا ماہ شعبان کی ابتدائی راتوں میں سے کوئی ایک
[۶۹] ابن سعد، طبقات الکبری، ج۶، ص۳۹۹۔
[۷۲] دولابی، محمد بن احمد، الذریة الطاهرة، ص۱۲۱۔
لکھا ہے۔ ایک روایت کے مطابق امامؑ جمعرات کے دن غروب کے وقت پیدا ہوئے۔
امامؑ کی ولادت کے دن، مہینے اور سال کے بارے میں منقول مختلف اقوال کا مطالعہ کرنے کیلئے اس کتاب کی طرف مراجعہ کریں
[۷۵] مزی، یوسف‌ بن عبدالرحمان، تهذیب الکمال فی اسماء الرجال، ج۶، ص۳۹۸ـ۳۹۹۔
امام حسنؑ اور امام حسینؑ کی ولادت کے مابین چھ ماہ دس دن،
[۷۷] ابن ابی‌الثلج، تاریخ الائمة، ج۱، ص۸۔
دس ماہ بائیس دن، اور ایک سال دس ماہ کا فاصلہ ذکر کیا گیا ہے۔
ولادت کے بعد پیغمبرؐ نے آپؑ کیلئے وہی آداب انجام دئیے جو امام حسن بن علیؑ کیلئے انجام دئیے تھے جیسے نوزاد کے کان میں آذان و اقامت کہنا، عقیقہ کرنا وغیرہ۔ ابن سعد نے طبقات الکبریٰ
[۸۲] ابن سعد، طبقات الکبری، ج۶، ص۴۰۰ـ۴۰۱۔
میں لکھا ہے کہ ام فضل بنت عباس بن عبد المطلب نے پیغمبرؐ کے حکم پر امام کی پرورش کا ذمہ لیا اور یوں امام قثم بن عباس کے رضاعی بھائی کہلائے جو خود بھی شیر خوار تھے۔
[۸۳] کوفی، ابن‌ اعثم، کتاب‌ الفتوح، ج۴، ص۳۲۳۔
[۸۴] ابن‌حنبل، مسند الامام احمد بن حنبل، ج۶، ص۳۴۰۔
[۸۵] دولابی، محمد بن احمد، الذریة الطاهرة، ص۱۰۶۔
[۸۶] اربلی، علی ‌بن عیسی، کشف الغمة فی معرفة الائمة علیھم‌ السلام، ج۲، ص۳۰۸۔
[۸۷] اربلی، علی ‌بن عیسی، کشف الغمة فی معرفة الائمة علیھم‌ السلام، ج۲، ص۳۲۰۔
(مراجعہ کیجئے کتاب کشف الغمہ کی طرف کہ جس میں یہ بات امام حسینؑ سے منسوب کی گئی ہے)
[۸۸] اربلی، علی ‌بن عیسی، کشف الغمة فی معرفة الائمة علیھم‌ السلام، ج۲، ص۳۴۸ـ۳۴۹۔
تاہم کلینیؒ نے ایسی روایات نقل کی ہیں کہ جن کی بنا پر امام حسینؑ نے کسی بھی خاتون حتی اپنی والدہ حضرت فاطمہ زہراؑ سے بھی رضاعت نہیں کی۔

شہادت

[ترمیم]

امام حسینؑ، دس محرم یوم عاشورا سنہ ۶۱ہجری کو عراق کی سرزمین نینوا (کربلا ) میں شہید ہوئے۔
[۹۰] ابن سعد، طبقات الکبری، ج۶، ص۴۴۱۔
[۹۱] بلاذری، احمد بن یحیی، انساب‌ الاشراف، ج۲، ص۵۱۲۔
(مراجعہ کیجئے تاریخ طبری کی طرف کہ جس نے ایک روایت کی بنا پر امامؑ کی شہادت کو ماہ صفر میں قرار دیا ہے) (اسی طرح رجوع کیجئے تاریخ الآئمہ کی طرف کہ جنہوں نے سنہ شہادت ۶۰ہجری ذکر کیا ہے)
[۹۶] ابن ابی‌الثلج، فی تاریخ الائمة، ج۱، ص۸۔

امامؑ کا روز شہادت جمعہ،
[۹۷] ابن سعد، طبقات الکبری، ج۶، ص۴۴۱۔
ہفتہ، اتوار
[۱۰۴] دولابی، محمد بن احمد، الذریة الطاهرة، ص۱۳۳۔
اور سوموار
[۱۰۵] کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۴۶۵۔
شمار کیا گیا ہے کہ جس میں سے روز جمعہ کی شہادت کے قول کو صحیح اور مشہور شمار کیا گیا ہے۔
[۱۰۸] مسعودی، تنبیه، ج۱، ص۳۰۳۔
[۱۰۹] ناطق ‌بالحقیحیی ‌بن حسین، الافاده فی تاریخ الائمة السادة، ج۱، ص۱۱۔
ابو الفرج اصفہانی نے سوموار کے دن امامؑ کی شہادت کے قول کو لوگوں میں مشہور قرار دیا ہے لیکن اسے کیلنڈر کے اعداد و شمار کی رو سے مسترد کر دیا ہے۔
[۱۱۱] ناطق ‌بالحق، یحیی ‌بن حسین، الافاده فی تاریخ الائمة السادة، ج۱، ص۱۱۔

شہادت کے وقت امامؑ کا سن مبارک ۵۶ سال پانچ ماہ
[۱۱۲] ابن سعد، طبقات الکبری، ج۶، ص۴۴۱۔
[۱۱۵] بلاذری، احمد بن یحیی، انساب‌ الاشراف، ج۲، ص۵۱۲۔
[۱۱۶] یعقوبی، تاریخ، ج۲، ص۲۴۶۔
[۱۱۷] طبرانی، سلیمان ‌بن احمد، المعجم‌ الکبیر، ج۳، ص۱۱۵، امام کا سن مبارک ۵۶ سال لکھا ہے۔
[۱۲۰] ابن ابی‌الثلج، فی تاریخ الائمةج۱، ص۸، ۵۷ سال۔
[۱۲۱] مسعودی، ج۱، ص۳۰۳، ۵۷ سال، تنبیه۔
اور ۵۸ سال
[۱۲۲] ابن سعد، طبقات الکبری، ج۶، ص۴۴۱۔
[۱۲۴] طبرانی، سلیمان ‌بن احمد، المعجم‌ الکبیر، ج۳، ص۹۸ـ۹۹۔
[۱۲۵] طبرانی، سلیمان ‌بن احمد، المعجم‌ الکبیر، ج۳، ص۱۰۳۔
[۱۲۶] طبرانی، سلیمان ‌بن احمد، المعجم‌ الکبیر، ج۳، ص۱۰۵۔
ذکر کیا گیا ہے۔ (شہادت کے وقت امامؑ کے سن مبارک کے حوالے سے اس کتاب کی طرف رجوع کیجئے)
[۱۲۸] مزی، یوسف‌ بن عبدالرحمان، تهذیب الکمال فی اسماء الرجال، ج۶، ص۴۴۵ـ۴۴۶۔


امامت سے پہلے کے واقعات

[ترمیم]


← پیغمبرؐ کے زمانہ حیات میں


ابن ‌سعد
[۱۲۹] ابن سعد، طبقات الکبری، ج۶، ص۳۹۹۔
امام حسینؑ کو رسولؐ خدا کے اصحاب کے پانچویں اور آخری طبقے میں شمار کرتے ہیں چونکہ آپؑ آنحضرتؐ کی رحلت کے وقت کم سن تھے اور اسی وجہ سے کسی جنگ میں آنحضورؐ کی ہمراہی نہیں کی تھی۔ امامؑ کی زندگی کے سات سال پیغمبرؐ کے زمانہ حیات میں بسر ہوئے۔
[۱۳۰] ابن ابی‌الثلج، فی تاریخ الائمة، ج۱، ص۸۔
پیغمبرؐ آپؑ سے اور امام حسنؑ سے بہت محبت رکھتے تھے، چنانچہ ان دونوں کو اپنے سینے پر بٹھاتے تھے اور اسی حال میں لوگوں سے خطاب کرتے تھے
[۱۳۲] ابن سعد، طبقات الکبری، ج۶، ص۴۰۱۔
اور بعض اوقات انہیں اپنے کاندھوں پر بٹھاتے تھے،
[۱۳۳] ابن ‌ماجه، سنن ابن‌ماجة، ج۱، ص۲۱۶۔
[۱۳۴] طبرانی، سلیمان ‌بن احمد، المعجم‌ الکبیر، ج۳، ص۶۵۔
ایک نقل کے مطابق ایک دن پیغمبرؐ منبر پر تشریف فرما ہو کر خطبہ ارشاد فرما رہے تھے لیکن جونہی ان دونوں کو دیکھا تو نیچے اتر آئے اور انہیں آغوش میں لے لیا۔
[۱۳۵] ابن‌حنبل، مسند الامام احمد بن حنبل، ج۵، ص۳۵۴۔
[۱۳۶] ابن ‌ماجه، سنن ابن‌ماجة، ج۲، ص۱۱۹۰۔
[۱۳۷] ترمذی، محمد بن عیسی، سنن‌ الترمذی، ج۵، ص۳۲۴۔

امامؑ کے بچپن کا اہم ترین واقعہ مباہلے میں شرکت ہے کہ جس میں آپؑ اور آپ کے برادر امام حسنؑ ’’أبناءنا‘‘ کے عنوان سے تشریف لے گئے تھے (اس آیت کے بارے میں امام رضاؑ کے بیان کا مطالعہ کرنے کیلئے اس کتاب کی طرف رجوع کیجئے)
[۱۳۹] صدوق، محمد بن علی، عیون اخبار الرضا، ج۱، ص۲۳۱ـ۲۳۲۔
[۱۴۰] ابن سعد، طبقات الکبری، ج۶، ص۴۰۶ـ۴۰۷۔
[۱۴۱] مسلم‌ بن حجاج، الجامع‌ الصحیح، ج۷، ص۱۲۰ـ۱۲۱، بیروت: دارالفکر۔
[۱۴۲] صدوق، محمد بن علی، عیون اخبار الرضا، ج۱، ص۸۵۔


← عمر بن خطاب کے دور میں


ایک روایت کے مطابق امام حسینؑ نے بچپن میں خلیفہ دوم پر اس وقت اعتراض کیا جب وہ منبر پر بیٹھے ہوئے تھے اور خلیفہ بھی اپنا خطاب چھوڑ کر منبر سے اتر آئے۔
[۱۴۴] نمیری، ابن‌ شبّه، تاریخ المدینة المنورة: اخبار المدینة النبویة، ج۳، ص۷۹۸ـ۷۹۹۔
اسی طرح روایت ہے کہ خلیفہ دوم نے بیت المال کی نسبت امام حسنؑ اور امام حسینؑ کو رسولؐ خدا کے ساتھ قرابت کی وجہ سے امام علیؑ اور دیگر بدری اصحاب جیسا مقام دے رکھا تھا۔
[۱۴۵] ابن سعد، طبقات الکبری، ج۶، ص۴۰۷۔
بعض تاریخی منابع میں سنہ ۲۹ ہجری کی فتح طبرستان میں امام حسنؑ اور امام حسینؑ کی شرکت کا ذکر ملتا ہے۔
[۱۴۶] بلاذری، احمد بن یحیی، فتوح‌ البلدان، ج۱، ص۴۶۷۔
[۱۴۸] دانشنامه جهان اسلام، ذیل حسن بن علی۔


← زمانہ عثمان میں


خلافت عثمان کے دوران، امام حسینؑ نے حضرت ابوذرؓ کی ربذہ جلاوطنی کے وقت اپنے پدر بزرگوار اور برادر عزیز کے ہمراہ انہیں رخصت کیا۔
[۱۴۹] مسعودی، المروج، ج۳، ص۸۴۔
(ابوذر کو مخاطب کر کے آپؑ نے جو ارشادات فرمائے، اس سے مطلع ہونے کیلئے اس کتاب کی طرف رجوع کیجئے) ایک روایت کے مطابق عثمان کے خلاف بغاوت میں امام علیؑ کی خواہش پر اپنے بھائی کے ہمراہ یہ کوشش کرتے رہے کہ عثمان کو اس خطرے سے محفوظ رکھیں۔ اور ایک نقل کے مطابق اس دوران آپؑ زخمی بھی ہوئے۔
[۱۵۴] دینوری، ابن ‌قتیبه، الامامة و السیاسة، ج۱، ص۵۸۔
[۱۵۵] دینوری، ابن ‌قتیبه، الامامة و السیاسة، ج۱، ص۶۲۔
[۱۵۶] مسعودی، المروج، ج ۳، ص ۸۹، کہ اس زخمی ہونے کو امام حسنؑ کی طرف نسبت دی ہے۔


← حضرت علیؑ کی خلافت کے دوران


امام حسینؑ نے اپنے والد گرام حضرت علیؑ کی خلافت کا زمانہ بھی دیکھا
[۱۵۷] بلاذری، احمد بن یحیی، انساب‌ الاشراف، ج۲، ص۱۸۷۔
[۱۵۸] بلاذری، احمد بن یحیی، انساب‌ الاشراف، ج۲، ص۲۱۳۔
[۱۵۹] بلاذری، احمد بن یحیی، انساب‌ الاشراف، ج۲، ص۲۴۶۔
[۱۶۰] بلاذری، احمد بن یحیی، انساب‌ الاشراف، ج۲، ص۳۲۳۔
[۱۶۱] مسعودی، المروج، ج۳، ص۱۰۴ـ۱۱۴۔
[۱۶۲] مسعودی، المروج، ج۳، ص۱۳۶۔
اور جنگ صِفّین کے دوران جہاد کی طرف رغبت دلانے کیلئے ایک خطبہ ارشاد فرمایا۔ اسی طرح امام علیؑ نے امام حسنؑ کے بعد امام حسینؑ کو صدقات و (موقوفات ) کا متولی قرار دیا.
[۱۶۵] سید رضی، نهج‌البلاغه۔
ایک نقل کے مطابق امام حسینؑ اپنے والد گرامی کی شہادت کے وقت کچھ فرائض منصبی کی ادائیگی کے سلسلہ میں مدائن کے سفر پر تھے اور امام حسنؑ کے خط سے انہیں حالات سے آگاہی ہوئی۔
[۱۶۶] بلاذری، احمد بن یحیی، انساب‌الاشراف، ج۲، ص۳۵۶۔
[۱۶۷] بلاذری، احمد بن یحیی، انساب‌ الاشراف، ج۲، ص۳۵۷۔
جبکہ دیگر منابع کے مطابق امام حسینؑ اپنے والد کے نماز جنازہ اور تدفین کے موقع پر موجود تھے۔
[۱۶۸] دینوری، ابن ‌قتیبه، الامامة و السیاسة، ج۱، ص۱۸۱۔
[۱۶۹] بلاذری، احمد بن یحیی، انساب‌ الاشراف، ج۲، ص۳۵۵ـ ۳۵۶۔


← امام حسنؑ کے زمانہ امامت میں


امام حسنؑ کی دس سالہ امامت کے دوران
[۱۷۳] ابن ابی‌الثلج، فی تاریخ الائمة، ج۱، ص۸۔
امام حسینؑ ہمیشہ اپنے برادر گرامی کے ہمراہ رہے۔ بعض تاریخی منابع کے مطابق امام حسینؑ خلافت کو معاویہ کے سپرد کرنے کے مخالف تھے
[۱۷۶] بلاذری، احمد بن یحیی، انساب‌ الاشراف، ج۲، ص۳۹۳۔
[۱۷۷] بلاذری، احمد بن یحیی، انساب‌ الاشراف، ج۲، ص۴۵۶۔
[۱۷۸] کوفی، ابن‌ اعثم، الفتوح، ج۴، ص۲۸۹ـ۲۹۰۔
اور حتی انہوں نے امام حسنؑ کی صلح کے بعد بھی معاویہ کی ہرگز بیعت نہیں کی۔
[۱۷۹] کوفی، ابن‌ اعثم، الفتوح، ج۴، ص۲۹۲۔

صلح ہو جانے کے بعد اس کی پابندی فرماتے رہے، حتی جب بعض شیعوں نے آپؑ سے درخواست کی کہ صلح کو توڑ دیں اور معاویہ کے ساتھ جنگ کریں تو انہیں حکم دیا کہ معاویہ کی موت تک انتظار کریں۔
[۱۸۰] بلاذری، احمد بن یحیی، انساب‌ الاشراف، ج۲، ص۴۵۷ـ۴۵۸۔
ابن ‌سعد
[۱۸۱] ابن سعد، طبقات الکبری، ج۶، ص۴۱۰ـ۴۱۵۔
نے امام باقرؑ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ امام حسنؑ اور امام حسینؑ نماز میں معاویہ کے مقرر کردہ گورنر مروان کی اقتدا کرتے تھے حالانکہ حسین بن علیؑ اس کے ساتھ سختی سے پیش آتے تھے؛ اس میں تقیہ بھی کارفرما نہیں تھا۔ مگر یہ روایت شیعہ منابع کے اندر موجود بہت سی احادیث سے سازگار نہیں ہے کہ جن میں صحیح عقائد نہ رکھنے والے شخص اور اسی طرح فاسق شخص کی اقتدا کرنے کی نہی کی گئی ہے۔ نیز جب مروان نے حضرت فاطمہؑ کی شان میں گستاخی کی تو امامؑ نے اس کو دو ٹوک اور صریح جواب دیا۔ اسی طرح جب اموی امام علیؑ کو برابھلا کہتے تھے تو امامؑ کا ردعمل بہت سخت ہوتا تھا۔
[۱۸۴] ابن سعد، طبقات الکبری، ج۶، ص۴۰۹ـ۴۱۰۔
[۱۸۵] ابن سعد، طبقات الکبری، ج۶، ص۴۱۵۔
( امام حسینؑ کے ردعمل سے آگاہی کیلئے ان کتابوں کی طرف رجوع کریں:
[۱۸۶] ابن سعد، طبقات الکبری، ج۶، ص۴۰۹ـ۴۱۰۔
[۱۸۷] ابن سعد، طبقات الکبری، ج۶، ص۴۱۵۔
[۱۸۸] دانشنامه جهان اسلام، ذیل حسن ‌بن علی۔
مجموعی طور پر روایات سے پتہ چلتا ہے کہ امام حسینؑ، امام حسنؑ کی امامت کے دوران بنی امیہ کے خلاف اپنے برادر کی نسبت زیادہ واضح موقف پیش کرتے تھے اور ان کی کھلم کھلا مخالفت کرتے تھے۔
[۱۸۹] ابن سعد، طبقات الکبری، ج۶، ص۴۱۴ـ۴۱۵۔
اس کے باوجود امام حسنؑ اور امام حسینؑ کی سیرت میں نظر آنے والے اس ظاہری اختلاف کی
[۱۹۰] ابن سعد، طبقات الکبری، ج۶، ص۴۱۳۔
[۱۹۱] ابن ابی‌شیبه، المصنَّف فی الاحادیث و الآثار، ج۲، ص۱۷۴۔
مختلف تفسیریں کی گئی ہیں؛ جن میں سے ایک یہ ہے کہ امامت منصوص من اللہ ہوتی ہے اور امامؑ وہی عمل انجام دیتا ہے جس پر خدا کی طرف سے مامور ہوتا ہے البتہ تاریخی تحلیل کے اعتبار سے بھی دونوں کے رویوں میں کلی وحدت اور ہم آہنگی کو ثابت کیا جا سکتا ہے (اس ہم آہنگی کا ایک نمونہ امام حسنؑ کی تدفین کے موقع پر بھی مروی ہے)
[۱۹۲] دانشنامه جهان اسلام، ذیل حسن ‌بن علی، امام امام۔


امامت

[ترمیم]

امام حسنؑ کی شہادت کے بعد امام حسینؑ اپنے سے بڑے افراد کی موجودگی کے باوجود بنو ہاشم کے سب سے معزز فرد شمار ہوتے تھے کہ جن کے احترام کا ابن عباس نے خصوصیت سے ذکر کیا ہے
[۱۹۳] یعقوبی، تاریخ، ج۲، ص۲۲۶۔
[۱۹۴] ، ابن سعد، طبقات الکبری، ج۶، ص۴۰۹۔
اور وہ بھی اپنے امور میں آپؑ کے ساتھ مشاورت کرتے تھے اور آپؑ کی رائے کو دوسروں کی آرا پر ترجیح دیتے تھے۔
[۱۹۵] ابن سعد، طبقات الکبری، ج۶، ص۴۱۴ـ۴۱۵۔


← حکومتِ معاویہ کے دوران


امام حسنؑ کی شہادت کے بعد اہل کوفہ نے معاویہ کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کیلئے امام حسینؑ کو خط لکھا، تو امامؑ نے معاویہ کی حکومت کی مشروعیت کو بھی رد کیا اور ظلم کے خلاف جہاد پر بھی زور دیا مگر مسلح قیام سے اجتناب کیا اور اسے معاویہ کی موت تک مؤخر کر دیا۔
[۱۹۶] ابن سعد، طبقات الکبری، ج۶، ص۴۲۲ـ۴۲۳۔
[۱۹۷] بلاذری، احمد بن یحیی، انساب‌ الاشراف، ج۲، ص۴۵۸ـ۴۵۹۔
معاویہ کو بھی اس قیام کا خوف تھا اور امام حسنؑ کی شہادت کے بعد اس نے امامؑ سے قیام سے پرہیز اور صلح پر کاربند رہنے کا مطالبہ کیا۔
[۱۹۹] ابن سعد، طبقات الکبری، ج۶، ص۴۲۲ـ۴۲۳۔
[۲۰۰] بلاذری، احمد بن یحیی، انساب‌ الاشراف، ج۲، ص۴۵۹ـ۴۶۰۔
معاویہ نے بھی معاہدے کے مطابق سالانہ مالی ادائیگیوں کو جاری رکھا۔
[۲۰۱] بلاذری، احمد بن یحیی، انساب‌ الاشراف، ج۲، ص۴۶۰۔

معاویہ بخوبی امام حسینؑ کے مدینہ میں اثر و رسوخ سے آگاہ تھا، چنانچہ اس نے قریش کے ایک فرد کو کہا تھا کہ جب بھی تو نے مسجد نبوی میں ایسا حلقہ درس دیکھا جس میں فضول گوئی نہ ہو تو وہ حسینؑ کا حلقہ ہو گا۔
[۲۰۲] ابن سعد، طبقات الکبری، ج۶، ص۴۱۴۔
جب معاویہ یزید کیلئے بیعت لے رہا تھا تو امامؑ ان معدود شخصیات میں سے تھے کہ جنہوں نے یزید کی بیعت کو قبول نہیں کیا اور ایک قاطعانہ خطاب کے ضمن میں معاویہ کی مذمت کی
[۲۰۳] ابن سعد، طبقات الکبری، ج۶، ص۴۲۲۔
[۲۰۴] یعقوبی، تاریخ، ج۲، ص۲۲۸۔
[۲۰۵] کوفی، ابن‌ اعثم، الفتوح، ج۴، ص۳۳۷ـ۳۳۹۔
[۲۰۶] کوفی، ابن‌ اعثم، الفتوح، ج۴، ص۳۴۲ـ۳۴۳۔
اور بنی ہاشم کے دیگر افراد کے برخلاف معاویہ کا ہدیہ بھی قبول نہیں کیا۔
[۲۰۸] کوفی، ابن‌ اعثم، الفتوح، ج۴، ص۳۳۹۔
معاویہ نے بھی امامؑ کے مقام و منزلت کو دیکھتے ہوئے یزید کو نصیحت کی تھی کہ امامؑ کے ساتھ نرمی سے پیش آئے اور امامؑ سے بیعت لینے کی کوشش نہ کرے۔
[۲۰۹] ابن سعد، طبقات الکبری، ج۶، ص۴۲۳۔
[۲۱۱] کوفی، ابن‌ اعثم، الفتوح، ج۴، ص۳۴۹ـ۳۵۰۔


شمائل و خصوصیات

[ترمیم]


اکثر قدیم حدیثی اور تاریخی و رجالی کتب میں حسین بن علیؑ کی پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ مشابہت کا تذکرہ ملتا ہے۔
[۲۱۳] بلاذری، احمد بن یحیی، انساب‌ الاشراف، ج۲، ص۳۶۶۔
[۲۱۴] بلاذری، احمد بن یحیی، انساب‌ الاشراف، ج۲، ص۴۵۳۔
[۲۱۶] طبرانی، سلیمان ‌بن احمد، المعجم‌ الکبیر، ج۳، ص۹۵۔
[۲۱۷] ناطق ‌بالحق، یحیی ‌بن حسین، الافاده فی تاریخ الائمة السادة، ج۱، ص۱۱۔
ایک روایت کے مطابق امام حسینؑ کو پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ سب سے زیادہ مشابہہ توصیف کیا گیا ہے۔
[۲۱۹] ابن‌حنبل، مسند الامام احمد بن حنبل، ج۳، ص۲۶۱۔
[۲۲۰] بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح بخاری، ج۴، ص۲۱۶۔
[۲۲۱] ترمذی، محمد بن عیسی، سنن‌ الترمذی، ج۵، ص۳۲۵۔
امام علیؑ سے منقول ایک اور روایت کے مطابق حضرتؑ نے اخلاق، مزاج اور عمل میں اپنے فرزند حسینؑ کو سب سے زیادہ اپنا مشابہہ قرار دیا۔
[۲۲۲] ابن سعد، طبقات الکبری، ج۶، ص۴۱۳۔
[۲۲۳] بلاذری، احمد بن یحیی، انساب‌ الاشراف، ج۲، ص۱۲۳۔

امام حسینؑ کا چہرہ مبارک سفید تھا۔
[۲۲۴] ناطق ‌بالحق، یحیی ‌بن حسین، الافاده فی تاریخ الائمة السادة، ج۱، ص۱۱۔
آپ بعض اوقات سیاہ عمامہ پہنے تھے۔
[۲۲۵] ابن سعد، طبقات الکبری، ج۶، ص۴۱۵۔
[۲۲۶] ابن ابی‌شیبه، المصنَّف فی الاحادیث و الآثار، ج۶، ص۴۶۔
[۲۲۷] طبرانی، سلیمان ‌بن احمد، المعجم‌ الکبیر، ج۳، ص۱۰۰۔
اپنے سر کے بالوں اور ریش مبارک کو خضاب کرتے تھے۔
[۲۲۸] ابن سعد، طبقات الکبری، ج۶، ص۴۱۳ـ ۴۱۷۔
[۲۲۹] ابن ابی‌شیبه، المصنَّف فی الاحادیث و الآثار، ج۶، ص۳۔
[۲۳۰] ابن ابی‌شیبه، المصنَّف فی الاحادیث و الآثار، ج۶، ص۱۵۔
آپ کی دو انگوٹھیوں میں سے ایک کا نقش «لااله‌الّااللّه، عُدَّةٌ للِقاءاللّه» اور دوسری کا نقش «ان‌اللّه بالغٌ اَمْرَه» تھا۔
[۲۳۳] صدوق، محمد بن علی، الامالی، ج۱، ص۱۹۴۔


سیرت

[ترمیم]

امام حسینؑ نے اپنے پیاروں کے ہمراہ پچیس مرتبہ پیدل حج کیے۔
[۲۳۵] ابن سعد، طبقات الکبری، ج۶، ص۴۱۰۔
[۲۳۶] طبرانی، سلیمان ‌بن احمد، المعجم‌الکبیر، ج۳، ص۱۱۵۔
[۲۳۷] ابن عبدالبرّ، الاستیعاب فی معرفة الاصحاب، ج۱، ص۳۹۷۔
آپ مسکینوں کے ساتھ بیٹھا کرتے تھے، ان کی دعوت کو قبول فرماتے تھے اور ان کے ساتھ کھانا تناول کرتے اور انہیں اپنے گھر میں دعوت دیتے تھے؛ گھر میں جو کچھ ہوتا ان کے سامنے پیش فرما دیتے تھے۔
[۲۳۸] ابن سعد، طبقات الکبری، ج۶، ص۴۱۳۔
امامؑ کے دشمن بھی آپؑ کے فضائل کے معترف تھے چنانچہ معاویہ کہتا تھا کہ حسینؑ اپنے باپ علیؑ کی طرح اہل مکر و حیلہ (معاذ اللہ) نہیں ہے!
[۲۳۹] کوفی، ابن‌ اعثم، الفتوح، ج۳، ص۴۰۔
اور عمرو بن عاص آپؑ کو اہل آسمان کے نزدیک اہل زمین میں سے محبوب ترین شخصیت قرار دیتا تھا۔
[۲۴۰] ابن سعد، طبقات الکبری، ج۶، ص۴۰۸۔
[۲۴۱] ابن ابی‌شیبه، المصنَّف فی الاحادیث و الآثار، ج۷، ص۲۶۹۔

آپؑ ہمیشہ اپنے برادر گرامی امام حسنؑ کے احترام کا خیال رکھتے تھے اور ان کی موجودگی میں کلام نہیں فرماتے تھے
[۲۴۲] اربلی، علی ‌بن عیسی، کشف الغمة فی معرفة الائمة علیھم‌ السلام، ج۲، ص۴۸۱۔
چنانچہ محمد بن حنفیہ امام حسینؑ کے ساتھ ایسا ہی برتاؤ کرتے تھے۔
[۲۴۴] ابن ‌شهرآشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی‌طالب، ج۴، ص۷۴۔
امامؑ
انتہائی سخی تھے اور مدینہ میں آپ کا جود و کرم معروف تھا۔
[۲۴۵] ابن ‌شهرآشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی‌طالب، ج۴، ص۷۳۔
اگر کوئی سائل درخواست کرتا اور امامؑ نماز کی حالت میں ہوتے تو اپنی نماز کو مختصر کر دیتے اور جو کچھ پاس ہوتا اسے عطا فرما دیتے تھے۔ امامؑ اپنے غلاموں اور کنیزوں کو ان کی خوش اخلاقی کے بدلے آزاد فرما دیتے تھے۔ ایک نقل کے مطابق معاویہ نے مال اور بہت سی پوشاکوں کے ہمراہ ایک کنیز آپؑ کیلئے بطور ہدیہ بھیجی تھی؛ آپؑ نے قرآن کی آیات کی تلاوت اور موت اور دنیا کے فنا ہونے کے بارے میں اشعار پڑھنے کے بدلے اسے آزاد کر دیا اور وہ سارا مال و اسباب بھی اسے ہی بخش دیا۔
[۲۴۸] ابن‌حزم، المُحَلّی، ج۸، ص۵۱۵۔
[۲۴۹] اربلی، علی ‌بن عیسی، کشف الغمة فی معرفة الائمة علیھم‌ السلام، ج۲، ص۴۷۶۔
اسی طرح ایک مرتبہ آپؑ کے ایک غلام سے خطا ہوئی جس پر وہ سزا کا مستحق تھا مگر جب غلام نے آیت «والعافین عن‌الناس» کی تلاوت کی تو امامؑ نے اسے معاف فرما دیا، پھر غلام نے کہا: «واللّه یحب‌المحسنین» تو امامؑ نے اسے راہ خدا میں آزاد کر دیا۔
[۲۵۰] اربلی، علی ‌بن عیسی، کشف الغمة فی معرفة الائمة علیھم‌ السلام، ج۲، ص۴۷۸ـ۴۷۹۔
اسامہ بن زید کا قرض ادا کر دیا جو بستر علالت پر تھے اور اپنے قرض کی ادائیگی سے عاجز تھے۔
[۲۵۱] ابن ‌شهرآشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی‌طالب، ج۴، ص۷۲ـ۷۳۔
ایک روایت کے مطابق زمین اور جو اشیا آپ کو وراثت میں پہنچی تھیں، انہیں دریافت کرنے سے پہلے ہی صدقہ کر دیا۔
[۲۵۲] قاضی نعمان، نعمان ‌بن محمد، دعائم الاسلام و ذکر الحلال و الحرام و القضایا و الاحکام، ج۲، ص۳۳۹۔
تین سوالات کے درست جواب دینے پر ایک مرد کی دیت کو مکمل ادا کر دیا اور اپنی انگوٹھی بھی اسے عطا کر دی۔ (حسنینؑ کی بخشش و سخاوت کے بارے میں مزید معلومات کیلئے اس کتاب کی طرف رجوع کیجئے) آپؑ کا کرم اس حد تک تھا کہ ایک یہودی مرد و زن اس اخلاق حسنہ کی بدولت مسلمان ہو گئے۔
[۲۵۷] ابن ‌شهرآشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی‌طالب، ج۴، ص۸۳۔
آپ نے اپنے بچوں کے معلم کو بہت زیادہ مال اور لباس عطا کیے اور اس کا منہ موتیوں سے بھر دیا؛ اس کے باوجود یہ فرما رہے تھے کہ اس سے تیری تعلیم اور تدریس کا حق ادا نہیں ہوا۔
[۲۵۸] ابن ‌شهرآشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی‌طالب، ج۴، ص۷۳ـ۷۴۔
امامؑ کے حلم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جب ایک شامی مرد آپؑ کو اور آپ کے والد گرامی کو ناسزا کہہ رہا تھا تو اسے معاف کر دیا اور اس کے ساتھ مزید لطف و کرم سے پیش آئے۔ منقول ہے کہ کھانے پینے کی اشیا جو حضرتؑ کاندھے پر اٹھایا کرتے تھے، اس کے نشانات روز شہادت بڑے واضح تھے۔
[۲۶۰] ابن ‌شهرآشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی‌طالب، ج۴، ص۷۳۔


امامت کے دلائل

[ترمیم]

شیعہ عقائد کے مطابق ہر امام کی امامت کے اثبات کیلئے نص اور الہٰی تعیین ضروری ہے۔ یہ نص امام حسینؑ کے بارے میں بھی مختلف طریقوں سے وارد ہوئی ہے۔ منجملہ وہ مشہور حدیث ہے جو حسنین کریمینؑ کی امامت پر دلالت کرتی ہے۔
[۲۶۱] قاضی نعمان، نعمان ‌بن محمد، دعائم الاسلام و ذکر الحلال و الحرام و القضایا و الاحکام، ج۱، ص۳۷۔
اس کے علاوہ پیغمبرؐ سے کچھ احادیث منقول ہیں کہ جن میں آئمہؑ کی تعداد اور امام علیؑ ، امام حسنؑ ، امام حسینؑ اور حسین بن علیؑ کے ۹ فرزندوں کی امامت کی تصریح کی گئی ہے۔ (امام علیؑ اور امام حسنؑ سے منقول اس مضمون کی روایات کیلئے اس کتاب کی طرف رجوع کیجئے) دوسری دلیل امام حسنؑ کی وصیت ہے جس میں امام حسینؑ کی جانشینی کا ذکر کیا گیا ہے اور محمد بن حنفیہ کو حضرتؑ کی پیروی کی نصیحت کی گئی ہے۔
[۲۷۱] کوفی، ابن‌ اعثم، الفتوح، ج۴، ص۳۱۹۔
شیخ مفیدؒ کا نظریہ یہ ہے کہ مذکورہ ادلہ کے پیش نظر امام حسینؑ کی امامت قطعی اور مسلم ہے اگرچہ حضرتؑ نے تقیہ، صلح کی پابندی اور جنگ و جدال سے اجتناب کی خاطر اپنی امامت کی طرف اعلانیہ دعوت نہیں دی؛ تاہم معاویہ کی موت اور صلح نامہ کا وقت ختم ہونے کے بعد آپؑ نے اپنی امامت کا اعلان کر دیا۔
دین کے تمام علوم و معارف کا مکمل علم بھی امامت کے لوازم میں سے ہے؛ اس اعتبار سے امام علیؑ نے امام حسنؑ کی طرح آپؑ سے بھی یہ خواہش کی کہ لوگوں کے سامنے خطاب فرمائیں تاکہ قریشی بعد میں آپؑ پر علم نہ رکھنے کی تہمت نہ لگا سکیں۔ اس امر پر شاہد صحابہ کے حضرتؑ کے علمی مقام کے بارے میں منقول اقوال اور آپؑ سے پوچھے گئے سوالات ہیں۔ امام حسینؑ کے اپنی امامت کے بارے میں بیانات
[۲۸۴] صدوق، محمد بن علی، عیون اخبار الرضا، ج۱، ص۶۸۔
اور آپؑ کے ہاتھوں پر ظاہر ہونے والے بعض معجزات اور کرامات بھی آپؑ کی امامت کے منجملہ دلائل میں سے ہیں۔
[۲۹۴] ابن‌ عساکر، تاریخ مدینة دمشق، ج۱۴، ص۸۲۔
[۲۹۵] ابن ‌شهرآشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی‌طالب، ج۴، ص۵۷۔
[۲۹۶] ابن ‌شهرآشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی‌طالب، ج۴، ص۵۹ـ۶۰۔
[۲۹۹] دانشنامه جهان اسلام، ذیل حبابه والبیه۔
پس بہت سی کرامات، فضائل عالیہ اور اعمال حسنہ امام حسنؑ اور امام حسینؑ پر منتہی ہوتے ہیں۔

فضائل و مناقب

[ترمیم]

شیعہ و سنی معتبر حدیثی کتب میں ولادت سے شہادت تک امام حسینؑ کے بارے میں خاص فضائل و مناقب نقل ہوئے ہیں۔ منجملہ مذکور ہے کہ آپؑ کے حمل کی مدت چھ ماہ تھی جس کی نظیر پہلے صرف حضرت عیسی بن مریمؑ یا حضرت یحییٰ بن زکریاؑ کے احوال میں ملتی ہے۔
[۳۰۴] ابن ‌شهرآشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی‌طالب، ج۴، ص۹۲۔
آپؑ کی ولادت کے وقت حضرت جبرئیل ہزار فرشتوں کے ہمراہ آسمان سے اترے تاکہ پیغمبرؐ کی خدمت میں آپؑ کی ولادت پر مبارکباد پیش کریں۔
[۳۰۸] ابن ‌شهرآشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی‌طالب، ج۴، ص۸۲۔
پھر جبرئیل نے مسلمانوں کے ہاتھوں آپ کی شہادت اور آپؑ کی نسل میں سلسلہ امامت کے جاری رہنے کی خبر دی۔
[۳۱۲] بحرانی، عبداللّه ‌بن نوراللّه، عوام‌ العلوم و المعارف و الاحوال من الآیات و الاخبار و الاقوال، ج۱۷، ص۱۱۳ـ۱۳۳۔
جبرئیل پیغمبرؐ کیلئے مٹھی بھر کربلا کی خاک بھی لائے اور یہ خاک بعد میں ام المومنین حضرت ام سلمہؒ کے پاس محفوظ رہی اور عاشور کے دن اس کے سرخ ہو جانے پر انہیں نواسہ رسولؐ کی شہادت کی خبر ہوئی۔
[۳۱۳] ابن سعد، طبقات الکبری، ج۶، ص۴۱۷ـ۴۱۹۔
[۳۱۴] ابن‌حنبل، مسند الامام احمد بن حنبل، ج۶، ص۲۹۴۔
[۳۱۵] قمی، ابن‌ قولویه، کامل‌الزیارات، ج۱، ص۱۳۲۔
[۳۱۶] ابن ‌شهرآشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی‌طالب، ج۴، ص۶۳۔

بہت سی روایات میں پیغمبرؐ نے اپنے اصحاب کو اپنے بیٹے حسینؑ کی شہادت سے آگاہ کر دیا تھا۔
[۳۱۹] قمی، ابن‌ قولویه، کامل‌الزیارات، ج۱، ص۱۴۳ـ۱۴۸۔
پیغمبرؐ کے علاوہ امام علیؑ اور امام حسنؑ نے بھی حضرتؑ کی شہادت کے واقعے سے آگاہ فرمایا تھا۔
[۳۲۲] ابن سعد، طبقات الکبری، ج۶، ص۴۱۹ـ۴۲۰۔
[۳۲۳] قمی، ابن‌ قولویه، کامل‌الزیارات، ج۱، ص۱۴۹ـ۱۵۶۔
[۳۲۹] ابن ‌شهرآشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی‌طالب، ج۴، ص۹۳ـ۹۴۔
[۳۳۰] امینی، عبدالحسین، سیرتنا و سنتنا: سیرة نبینا صلی‌اللّه علیه وآله و سنته، ج۱، ص۴۹ـ۱۵۰۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے گزشتہ انبیاؑ کو بھی امامؑ کی شہادت کے واقعات کی خبر دے رکھی تھی۔
[۳۳۱] بحرانی، عبداللّه ‌بن نوراللّه، عوام‌ العلوم و المعارف و الاحوال من الآیات و الاخبار و الاقوال، ج۱۷، ص۱۰۱ـ۱۱۲۔


← روز عاشور کے معجز نما واقعات


روز عاشور کے واقعات اور حضرتؑ کی شہادت کے بعد رونما ہونے والے حالات نیز امامؑ کی شہادت کے ذمہ داروں کے عبرتناک انجام سے متعلق بھی حیران کن امور منقول ہیں۔ منجملہ مذکور ہے کہ خدا نے عاشور کے دن جنگ بدر کی تعداد کے برابر چار ہزار فرشتوں کو آپؑ کے پاس بھیجا تھا اور امامؑ کو اختیار دیا کہ فتح و نصرت اور پیغمبرؐ کے دیدار میں سے ایک کا انتخاب کر لیں، مگر امامؑ نے ترجیح دی کہ پیغمبرؐ کے ساتھ ملحق ہو جائیں۔ یہ فرشتے خدا کے حکم سے تا قیامت آپؑ کے مزار پر گریہ و زاری میں مشغول ہیں اور آپؑ کے زائرین کیلئے طلبِ دعا و مغفرت فرماتے ہیں۔
[۳۳۲] صدوق، محمد بن علی، کامل‌ الزیارات، ج۱، ص۱۷۱ـ۱۷۲۔
[۳۳۳] صدوق، محمد بن علی، کامل‌ الزیارات، ج۱، ص۳۵۴۔


← امام حسینؑ کے بارے میں قرآن کی آیات


شیعہ احادیث و تفاسیر کی کتب میں بھی قرآن کی بعض آیات کی امام حسینؑ پر تطبیق کی گئی ہے یا ان کی آپؑ کی شان میں تاویل
[۳۳۶] دانشنامه جهان اسلام، ذیل جری و انطباق۔
کی گئی ہے۔ منجملہ سوره احقاف کی آیت ۱۵ کہ جس میں ایک حاملہ ماں کا ذکر ہے جس نے اپنے بچے کیلئے حمل کی مشقت کو برداشت کیا اور وضع حمل کی تکلیف کا بھی سامنا کیا۔ اس آیت کو حضرت فاطمہ زہراؑ کے متعلق قرار دیا گیا ہے کہ جنہیں جبرئیلؑ کے توسط سے پیغمبرؐ نے ان کے فرزند کی شہادت کی خبر دی جس پر حضرتؑ غمگین ہو گئیں۔
[۳۳۹] صدوق، محمد بن علی، کامل‌ الزیارات، ج۱، ص۱۲۲۔
[۳۴۱] ابن ‌شهرآشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی‌طالب، ج۴، ص۵۷۔
اسی طرح سورہ مریم کے ابتدائی حروف مقطعات (کهیعص ) کی واقعہ کربلا کے حوالے سے تاویل کی گئی ہے کہ خداوند عالم نے پنجتن کے اسماء گرامی حضرت زکریاؑ کو سکھانے کے بعد آپؑ کو ان حروف کی رمز اور تاویل کا علم عطا کیا۔
[۳۴۹] ابن ‌شهرآشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی‌طالب، ج۴، ص۹۲۔
[۳۵۰] طبرسی، فضل‌ بن حسن، مجمع‌ البیان فی تفسیرالقرآن، ذیل آیه۔
منقول ہے کہ جب حضرت زکریاؑ، امام حسینؑ کی شہادت کے واقعات سے آگاہ ہوئے تو انہوں نے خدا سے دعا کہ انہیں ایک ایسا فرزند عطا کرے جس کی سرنوشت حسینؑ جیسی ہو؛ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے انہیں جناب یحییؑ عطا کیے کہ جن کے حمل کی مدت چھ ماہ ہے اور وہ مثلِ حسینؑ شہید ہوئے۔
[۳۵۴] ابن ‌شهرآشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی‌طالب، ج۴، ص۹۲۔
اسی طرح سورہ احزاب کی چھ آیات
[۳۵۸] ابن ‌شهرآشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی‌طالب، ج۴، ص۵۴۔
اور سوره زخرف کی اٹھائیسویں آیت
[۳۶۲] صدوق، محمد بن علی، علل‌الشرایع، ج۱، ص۲۰۷۔
[۳۶۷] ابن ‌شهرآشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی‌طالب، ج۴، ص۵۳ـ۵۴۔
[۳۶۸] طبرسی، فضل‌ بن حسن، مجمع‌ البیان فی تفسیر القرآن، ذیل آیه۔
[۳۶۹] طباطبائی، محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ذیل آیه۔
کی تفسیر امام حسینؑ کی نسل میں سلسلہ امامت کے باقی رہنے سے کی گئی ہے۔ قرآن کریم کی بعض آیات کا اشارہ حضرتؑ کے قیام اور شہادت کی طرف قرار دیا گیا ہے، منجملہ سورہ نساء کی ۷۷ویں آیت، سوره اسراء کی ۳۳ویں آیت
[۳۷۶] قمی، ابن‌ قولویه، کامل‌ الزیارات، ج۱، ص۱۳۵۔
سوره فجر کی آیات ۲۷ تا ۳۰ . (تفسیر مجمع البیان میں سورہ فجر کو سورہ امام حسینؑ قرار دیا گیا ہے)؛ قارئین رجوع فرمائیں:
[۳۸۳] طبرسی، فضل‌ بن حسن، مجمع‌ البیان فی تفسیر القرآن، ج۱۰، ص۷۳۰۔


امام حسینؑ کی ازواج

[ترمیم]

معتبر تاریخی اور رجالی منابع میں امام حسین بن علیؑ کی پانچ ازواج کا ذکر موجود ہے:

← رباب


آپ رَباب بنت امرء القیس ہیں۔ ابن سعد نے آپ کا مکمل نسب ذکر کیا ہے۔ آپ کا والد امرء القیس نصرانی تھا؛ تاہم اس نے عمر بن خطاب کے زمانے میں اسلام قبول کر لیا تھا اور حضرت علیؑ نے امام حسینؑ کیلئے اس کی بیٹی کا رشتہ تجویز فرمایا تھا۔
[۳۸۵] بلاذری، احمد بن یحیی، انساب‌ الاشراف، ج۲، ص۱۳۹۔
[۳۸۶] ابوالفرج اصفهانی، علی بن حسین، الاغانی، ج۱۶، ص۱۳۹ـ ۱۴۱۔
[۳۸۷] ابن‌ حزم، جمهرة انساب العرب، ج۱، ص۴۵۷۔
اس ازدواج سے عبد اللہ نامی فرزند اور سکینہ نامی دختر کی ولادت ہوئی۔
[۳۸۸] زبیری، مُصْعَب ‌بن عبداللّه، نسب قریش، ج۱، ص۵۹۔

رباب ایک ممتاز اور عظیم خاتون تھیں
[۳۹۱] ابوالفرج اصفهانی، علی بن حسین، الاغانی، ج۱۶، ص۱۴۱۔
اور امام حسینؑ کے نزدیک ان کی بہت قدر و منزلت تھی۔
[۳۹۲] ذهنی، محمد، خیرات حسان، ج۱، ص۱۴۱ـ۱۴۲۔
یہاں تک کہ بعض کتب کے مطابق حضرتؑ نے ایک شعر میں جناب رباب اور سکینہ سے اپنے گہرے تعلق کا اظہار بھی فرمایا ہے۔
[۳۹۳] زبیری، مُصْعَب ‌بن عبداللّه، نسب قریش، ج۱، ص۵۹۔
[۳۹۴] ابن‌ حبیب، کتاب لمُحَبَّر، ج۱، ص۳۹۶ـ۳۹۷۔
[۳۹۶] ابوالفرج اصفهانی، علی بن حسین، مقاتل الطالبیین، ج۱۶، ص۱۳۹۔

رباب کربلا میں حاضر تھیں؛ آپ کے فرزند عبد اللہ کربلا میں شہید ہوئے جو ایک شیرخوار بچے تھے۔ اس کے علاوہ ایک روایت کے مطابق امام حسینؑ نے میدان جنگ میں جانے سے پہلے اپنے گھر کے ایک ایک فرد کا نام پکارا اور ’’یا رباب‘‘ کہہ کر آپ کا نام بھی لیا۔
ابو الفرج اصفہانی
[۳۹۸] ابوالفرج اصفهانی، علی بن حسین، مقاتل الطالبیین، ج۱۶، ص۱۴۲۔
نے اپنے ایک مرثیے میں ان کا نام ذکر کیا ہے۔ امامؑ کی شہادت کے بعد کچھ اشراف اور معززین نے آپ سے عقد کی خواہش ظاہر کی مگر آپ نے قبول نہیں کیا۔
[۳۹۹] ابن‌ حبیب، کتاب لمُحَبَّر، ج۱، ص۳۹۶ـ۳۹۷۔
آپ کی وفات ۶۲ہجری میں ہوئی۔
[۴۰۱] سبط ابن‌ جوزی، تذکرة الخواص، ج۱، ص۲۳۸۔
[۴۰۲] ابن‌ کثیر، البدایة و النهایة، ج۸، ص۲۲۹۔


← شہربانو


کتب میں شہر بانو کا اسم گرامی سِنْدیہ، غزالہ، سُلافہ اور شاه زنان بھی مذکور ہے۔

← لیلیٰ


آپ کا نام لیلیٰ بنت ابی‌ مُرَّة بن عروۃ بن مسعود ثَقَفی ہے۔ بہت سی کتابوں میں آپ کا نام یہی ذکر ہوا ہے
[۴۰۳] زبیری، مُصْعَب ‌بن عبداللّه، نسب قریش، ج۱، ص۵۷۔
[۴۰۴] یعقوبی، تاریخ، ج۲، ص۲۴۶ـ۲۴۷۔
[۴۰۸] قاضی نعمان، نعمان ‌بن محمد، شرح الاخبار فی فضائل الائمة الاطهار، ج۳، جزء۱۲، ص۱۵۲۔
مصعب بن عبد اللّہ نے
[۴۰۹] زبیری، مُصْعَب ‌بن عبداللّه، نسب قریش، ج۱، ص۵۷۔
آپ کا اور آپ کی والدہ کا پورا سلسلہ نسب ذکر کیا ہے۔ لیلیٰ کے جد عروۃ بن مسعود ثقفی، رسولؐ خدا کے صحابی تھے۔ امام حسینؑ کے ان کے ساتھ عقد کی تاریخ کے بارے میں کوئی معلومات دستیاب نہیں ہیں۔ صرف ہمیں اس قدر علم ہے کہ علی بن حسینؑ ان کے بیٹے تھے۔

← امّ اسحاق


آپ کا نام امّ اسحاق بنت طلحہ ہے۔ آپ کے والد طلحہ بن عبید اللہ رسولؐ خدا کے مشہور صحابی ہیں اور آپ کی والدہ جرباء بنت قسامۃ بن حنظلہ ہیں۔ امّ اسحاق کا پہلے امام حسن مجتبیٰ سے عقد ہوا۔ امام حسنؑ نے شہادت سے پہلے اپنے بھائی امام حسینؑ کو تلقین کی تھی کہ بعد میں اس خاتون کے ساتھ عقد کریں۔
[۴۱۶] ابوالفرج اصفهانی، علی بن حسین، الاغانی، ج۲۱، ص۱۱۴۔
[۴۱۸] ابن‌ حبیب، کتاب لمُحَبَّر، ج۱، ص۶۶۔
اس ازدواج سے فاطمہ پیدا ہوئیں۔
[۴۲۱] ابوالفرج اصفهانی، علی بن حسین، الاغانی، ج۲۱، ص۱۱۴۔
ام ‌اسحاق نے امام حسینؑ کی شہادت کے بعد عبد اللّہ‌ بن عبد الرحمان‌ بن ابی ‌بکر کے ساتھ عقد کر لیا۔
[۴۲۲] ابن‌ حبیب، کتاب لمُحَبَّر، ج۱، ص۶۶۔


← سُلافہ یا ملومہ


بعض منابع میں قبیلہ قضاعہ کی ایک خاتون کو بھی امامؑ کی ازواج میں سے شمار کیا گیا ہے کہ جن سے جعفر نامی امامؑ کے فرزند کی ولادت ہوئی۔
[۴۲۵] بیهقی، علی ‌بن زید، لباب الأنساب و الألقاب و الأعقاب، ج۱، ص۳۴۹۔
[۴۲۶] ابن شهر آشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی‌طالب، ج۴، ص۷۷۔
[۴۲۷] ابن شهر آشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی‌طالب، ج۴، ص۱۱۳۔
سِبط ابن‌ جوزی
[۴۲۸] سبط ابن‌ جوزی، تذکرة الخواص، ج۱، ص۲۴۹۔
نے ان کا نام سُلافہ اور بیہقی
[۴۲۹] سبط ابن‌ جوزی، تذکرة الخواص، ج۱، ص۲۴۹۔
نے مَلومہ ذکر کیا ہے۔ آپ کے حالات زندگی کی مزید تفصیلات کے حوالے سے کوئی معلومات دستیاب نہیں ہیں۔

فرزندان امام حسینؑ

[ترمیم]

معتبر تاریخی و رجالی کتابوں میں حسین بن علیؑ کے چھ بیٹوں کا نام ذکر ہوا ہے۔
قدیم کتابوں میں
[۴۳۱] بخاری، سهل‌ بن عبداللّه، سرّ السلسلة العلویة، ج۱، ص۳۰۔
امامؑ کی اولاد میں چار لڑکوں اور دو لڑکیوں جبکہ متاخرین کی کتب میں
[۴۳۳] طبری، محمد بن جریر، دلائل الامامة، ج۱، ص۷۴۔
[۴۳۴] ابن شهر آشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی‌طالب، ج۴، ص۷۷۔
[۴۳۵] شافعی، ابن‌ طلحه، مطالب السؤول فی مناقب ال الرسول، ج۲، ص۶۹۔
چھ لڑکے اور تین لڑکیاں مرقوم ہیں:
۱) علی‌اکبر: امام حسینؑ کے لیلیٰ سے بڑے بیٹے۔
۲) علی ‌اصغر: شیعوں کے چوتھے امام کہ جن کا لقب ہے زین العابدینؑ، والدہ شہر بانو۔
۳) عبد اللّه: امامؑ کے کم سن فرد جن کی والدہ رباب تھیں۔ آپ کی تاریخ ولادت مشخص نہیں ہے مگر زیادہ تر منابع نے انہیں شہادت کے وقت صغیر اور شیر خوار قرار دیا ہے۔
[۴۳۷] بلاذری، احمد بن یحیی، انساب‌ الاشراف، ج۲، ص۴۹۸۔
[۴۴۰] بخاری، سهل‌ بن عبداللّه، سرّ السلسلة العلویة، ج۱، ص۳۰۔
سنی اور شیعہ قدیم کتب میں آپ کا نام عبد اللہ ذکر کیا گیا ہے مگر متاخر شیعہ کتب میں یہ علی اصغر کے نام سے مشہور ہیں۔ اخطب خوارمی کی کتاب مقتل الحسین
[۴۴۱] خوارزمی، موفق‌ بن احمد، مقتل الحسین علیہ ‌السلام، ج۲، ص۳۷۔
اور ابن شهر آشوب کی مناقب آل ابی‌طالب ،
[۴۴۲] ابن شهر آشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی‌طالب، ج۴، ص۱۰۹۔
قدیم‌ ترین کتابیں ہیں جن میں امامؑ کے کم سن بچے کی شہادت ذکر کرتے وقت انہیں علیؑ کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔ بعد کی کتابوں نے ان کی پیروی کرتے ہوئے شہید بچے کا نام علی اصغر اور غالبا امام سجادؑ کا نام علی اوسط ذکر کیا ہے۔
[۴۴۳] اربلی، علی‌ بن عیسی، کشف الغمة فی معرفة الائمة، ج۲، ص۲۵۰۔
[۴۴۴] ابن ‌طقطقی، الاصیلی فی انساب الطّالبیین، ج۱، ص۱۴۳۔
[۴۴۵] ابن ‌صباغ، الفصول المهمة فی معرفة احوال الائمة علیھم‌ السلام، ج۱، ص۱۹۶۔
[۴۴۶] شَبراوی شافعی، عبداللّه ‌بن محمد، الاتحاف بحب الاشراف، ج۱، ص۱۳۰۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ ان کتابوں میں امام حسینؑ کی اولاد کے ضمن میں عبد اللہ کا نام بھی شمار کیا گیا ہے مگر ان کی شہادت کا حال مذکور نہیں ہے۔
[۴۴۷] ابن شهر آشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی‌طالب، ج۴، ص۱۰۹۔
[۴۴۸] شافعی، ابن‌ طلحه، مطالب السؤول فی مناقب ال الرسول، ج۲، ص۶۹۔
[۴۴۹] اربلی، علی‌ بن عیسی، کشف الغمة فی معرفة الائمة، ج۲، ص۲۵۰۔
[۴۵۰] ابن ‌صباغ، الفصول المهمة فی معرفة احوال الائمة علیھم‌ السلام، ص ۱۹۶۔
اس کا باعث قدیم اور متاخر کتب میں امام حسینؑ کی اولاد کا ذکر کرتے ہوئے علی نام کے بیٹوں کی تعداد میں اختلاف ہے۔
[۴۵۱] زبیری، مُصْعَب ‌بن عبداللّه، نسب قریش، ج۱، ص۵۹‌۔
[۴۵۲] بخاری، سهل‌ بن عبداللّه، سرّ السلسلة العلویة، ج۱، ص۳۰۔
[۴۵۳] مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفة حجج‌ اللّه علی‌ العباد، ج۲، ص۱۳۵۔
[۴۵۴] طبری، محمد بن جریر، دلائل الامامة، ج۱، ص۷۴۔
[۴۵۵] ابن شهر آشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی‌طالب، ج۴، ص۱۰۹۔
[۴۵۶] شافعی، ابن‌ طلحه، مطالب السؤول فی مناقب ال الرسول، ج۲، ص۶۹۔
[۴۵۷] اربلی، علی‌ بن عیسی، کشف الغمة فی معرفة الائمة، ج۲، ص۲۵۰۔
کلینیؒ کی روایت کے مطابق امام حسینؑ نے مروان کے اعتراض کہ حسین بن علیؑ نے اپنے دو بیٹوں کا نام علیؑ کیوں رکھا ہے؛ کے جواب میں فرمایا کہ اگر میرے سو بیٹے بھی ہوں تو مجھے پسند ہے کہ ان سب کا نام علی رکھوں۔
امام حسینؑ نے آخری لمحات میں میدان جنگ جانے سے قبل عبد اللہ کو آغوش میں لیا مگر قبیلہ بنی اسد کے ایک شخص نے عبد اللہ کو تیر مار کر شہید کر دیا۔
[۴۶۱] خوارزمی، موفق‌ بن احمد، مقتل الحسین علیہ ‌السلام، ج۲، ص۳۷۔
تیر مارنے والے کا نام حرملۃ بن کاھل ذکر کیا گیا ہے۔
[۴۶۲] بلاذری، احمد بن یحیی، انساب‌الاشراف، ج۲، ص۴۹۸۔
[۴۶۳] مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفة حجج‌ اللّه علی‌ العباد، ج۲، ص۱۳۵۔
[۴۶۴] خوارزمی، موفق‌ بن احمد، مقتل الحسین علیہ ‌السلام، ج۲، ص۳۷۔
امامؑ نے اپنی شمشیر کے ساتھ ایک گھڑا کھودا اور بچے کو سپرد خاک کر دیا۔
[۴۶۶] خوارزمی، موفق‌ بن احمد، مقتل الحسین علیہ ‌السلام، ج۲، ص۳۷۔

۴) جعفر: ان کی والدہ قبیلہ قضاعہ کی خاتون تھیں۔ وہ امامؑ کی زندگی میں ہی انتقال فرما گئی تھیں اور انہوں نے کوئی اولاد نہیں چھوڑی تھی۔
[۴۶۹] ابن شهر آشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی‌طالب، ج۴، ص۱۰۹۔

۵) فاطمہ: امامؑ کی بڑی بیٹی؛
[۴۷۲] ابن‌ حبیب، کتاب لمُحَبَّر، ج۱، ص۴۰۴۔
آپ کی والدہ ام اسحاق تھیں۔ فاطمہ کی ولادت کی درست تاریخ متعین نہیں ہے مگر چونکہ ان کی والدہ امام حسنؑ کی سنہ ۴۹ یا ۵۰ میں شہادت کے بعد امام حسینؑ کے عقد میں آئیں، لہٰذا آپ کی ولادت اس کے بعد ہی ہوئی۔
آپ ایک پرہیزگار خاتون اور خطابت میں ماہر تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ آپؑ کا چہرہ اپنی دادی حضرت فاطمہؑ بنت رسولؐ اللہ پر تھا۔
[۴۷۳] بخاری، سهل‌ بن عبداللّه، سرّ السلسلة العلویة، ج۱، ص۶۔
[۴۷۴] ابوالفرج اصفهانی، علی بن حسین، مقاتل الطالبیین، ج۱، ص۱۲۲۔
امام باقرؑ سے منقول ایک حدیث کے مطابق امام حسینؑ نے شہادت سے قبل امامت کے تبرکات اور اپنی مکتوب وصیت فاطمہ کے سپرد کی اور انہوں نے بعد میں اسے امام سجادؑ کے حوالے کیا تھا۔
فاطمہ تابعی خاتون اور حدیث کی راویہ تھیں؛ انہوں نے اپنے والد عبد اللہ بن عباس اور اسماء بنت عمیس سے روایات نقل کی ہیں۔
[۴۷۹] مزی، یوسف‌ بن عبدالرحمان، تهذیب الکمال فی اسماء الرجال، ج۳۵، ص۲۵۴ـ۲۵۵۔

فاطمہ کا عقد پہلے حسن مُثّنی سے ہوا۔
[۴۸۱] بخاری، سهل‌ بن عبداللّه، سرّ السلسلة العلویة، ج۱، ص۶۔
آپ کربلا میں بھی حاضر تھیں اور خاندان کے دیگر افراد کے ہمراہ انہیں بھی اسیر کر کے شام لے جایا گیا۔ یزید اور آپ کے درمیان کچھ بات چیت بھی ہوئی۔
[۴۸۴] قاضی نعمان، نعمان ‌بن محمد، شرح الاخبار فی فضائل الائمة الاطهار، ج۳، جزء۱۳، ص۲۶۸۔
احمد بن علی طبرسی نے آپ کے اہل کوفہ سے احتجاج(مدلل خطاب) کو نقل کیا ہے۔
شوہر کی وفات کے بعد مدینہ کے والی عبدالرحمان ‌بن ضحاک نے آپ کو عقد کا پیغام بھیجا جو آپ نے قبول نہیں کیا۔ ابن‌ حِبّان،
[۴۸۷] اندلسی، ابن حِبّان، کتاب الثقات، ج۵، ص۳۰۱۔
نے کسی خاص تاریخ کا ذکر کیے بغیر ان کی ۹۰ برس کے سن میں وفات کا ذکر کیا ہے۔ ابن‌ عساکر نے بھی ہشام بن عبد الملک کے زمانے میں آپ کی وفات کو نقل کیا ہے۔
۶) سُکَینہ: رباب سے امام حسینؑ کی چھوٹی بیٹی۔
ان چھ بچوں کے علاوہ تاریخی کتب میں مزید دو لڑکوں اور ایک لڑکی کا نام دیکھنے کو ملتا ہے جو یہ ہیں: علی‌اصغر، محمد اور زینب۔
[۴۸۹] طبری، محمد بن جریر، دلائل الامامة، ج۱، ص۷۴۔
[۴۹۰] ابن شهر آشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی‌طالب، ج۴، ص۱۰۹۔
ابن‌ طلحہ شافعی
[۴۹۱] شافعی، ابن‌ طلحه، مطالب السؤول فی مناقب ال الرسول، ج۲، ص۶۹۔
نے بھی امامؑ کی اولاد کی تعداد دس تک شمار کی ہے لیکن صرف نو کا نام ذکر کیا ہے۔ تاریخی کتب میں ان کے حالات زندگی کی تفصیلات دستیاب نہیں ہیں۔ اسی طرح کچھ تذکروں اور مرثیوں میں امام حسینؑ کی چار سالہ بیٹی رقیہ کا ذکر ملتا ہے۔
[۴۹۲] کاشفی، حسین ‌بن علی، روضة الشهداء، ج۱، ص۳۸۹ـ۳۹۰۔
[۴۹۳] امین، ج۷، ص۳۴۔


امام حسینؑ کی زیارت کے فضائل

[ترمیم]

امام حسینؑ کی زیارت کے بہت سے فضائل ذکر ہوئے ہیں اور پیغمبرؐ اور شیعہ آئمہؑ سے منقول احادیث میں اس پر بہت تاکید کی گئی ہے؛
[۴۹۵] قمی، ابن‌ قولویه، کامل‌ الزیارات، ج۱، ص۲۲۰۔
[۴۹۶] قمی، ابن‌ قولویه، کامل‌ الزیارات، ج۱، ص۴۳۹۔
اسی طرح امام حسینؑ کی تربت کے بہت سے فضائل مذکور ہیں۔
[۴۹۸] دانشنامه جهان اسلام، ذیل تربت۔


اقوال

[ترمیم]

امام حسینؑ کی زیادہ تر احادیث ہم تک نہیں پہنچ سکی ہیں اور اس کی سب سے اہم وجہ اس وقت عالم اسلام کے مخصوص حالات ہیں کہ جنہیں اموی حکومت نے عترت طاہرہ کیلئے بھی اور ان کے پیروکاروں کیلئے بھی ایجاد کر رکھا تھا۔ قیامِ عاشورا کے دوران امامؑ کے خطبات اور اقوال کے علاوہ
[۴۹۹] موسوی، مصطفی، روائع الحکمة: بلاغة الامامین‌الحسن و الحسین (ع)، (اعداد)، ج۱، ص۲۷۲ـ۳۱۱۔
[۵۰۰] سخنان حسین‌ بن علی (علیہما السلام) (از مدینه تا کربلا)۔
حضرتؑ کے کچھ متفرق اقوال اہل سنت اور شیعوں کی قدیم کتابوں میں ملتے ہیں؛ جن میں سے ’’اصنافِ خلق‘‘ کے حوالے سے امامؑ کے حکمت آمیز اقوال کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔
[۵۰۱] ابن سعد، طبقات الکبری، ج۶، ص۴۱۲۔
[۵۰۲] عطاردی‌قوچانی، عزیزاللّه، مسند الامام الشهید ابی‌ عبداللّه‌ الحسین‌ بن علی (علیہما‌ السلام)، ج۳، ص۱۴۳ـ۱۵۲۔
[۵۰۳] عطاردی‌قوچانی، عزیزاللّه، مسند الامام الشهید ابی‌ عبداللّه‌ الحسین‌ بن علی (علیہما‌ السلام)، ج۳، ص۲۶۲ـ۳۱۱۔

اسی طرح حضرتؑ کا انسانی اقدار کا خیال رکھنے کے حوالے سے مشہور قول ہے کہ جب اموی لشکر امامؑ کے خیام پر حملہ آور ہونے کا قصد کرتا ہے تو امامؑ یہ فرماتے ہیں کہ اگر تم دین نہیں رکھتے ہو تو کم از کم انسانی اقدار کی پابندی تو کرو۔
[۵۰۴] دینوری، احمد بن داوود، الاخبار الطِّوال، ج۱، ص۳۰۰۔
[۵۰۵] کوفی، ابن‌ اعثم، الفتوح، ج۵، ص۱۱۷۔
[۵۰۸] ابن ‌طاووس، علی بن موسی، اللهوف فی قتلی الحسین علیہ السلام، ج۱، ص۷۱۔


امام حسینؑ کی دعائیں

[ترمیم]

امام حسینؑ کی کچھ دعائیں قدیم کتب میں نقل ہوئی ہیں۔
[۵۰۹] ابن سعد، طبقات الکبری، ج۶، ص۴۱۳۔
[۵۱۰] ابن ابی‌شیبه، المصنَّف فی الاحادیث و الآثار، ج۲، ص۲۰۰۔
[۵۱۱] ابن ابی‌شیبه، المصنَّف فی الاحادیث و الآثار، ج۷، ص۱۱۳۔
[۵۱۲] حمیری، عبداللّه ‌بن جعفر، قریب الاسناد، ج۱، ص۱۵۷ـ ۱۵۸۔
ان میں سے مشہور ترین دعائے عرفہ ہے کہ جس کا متن طولانی ہے اور یہ شیعہ کی مشہور دعاؤں میں سے شمار ہوتی ہے اور اس میں بلند عرفانی مضامین ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں۔
[۵۱۳] ابن ‌طاووس، علی بن موسی، اقبال الاعمال، ج۲، ص۷۴ـ۸۷۔


روایات

[ترمیم]

عقائد کے موضوعات میں بھی امامؑ سے شیعہ کتب میں روایات نقل ہوئی ہیں، منجملہ توحید ، امامت، مناقبِ اہل‌ بیت،
[۵۲۳] محمد بن حسن طوسی، الامالی، ج۱، ص۲۵۳ـ۲۵۴، قم ۱۴۱۴۔
غیبت،
[۵۲۵] ابن ‌ابی‌ زینب، الغیبة، ج۱، ص۲۱۳۔
شیعہ کی خصوصیات اور مؤمن کی صفات کے بارے میں امامؑ کی احادیث منقول ہیں۔
حضرتؑ کے کچھ مناظرے اور احتجاجات بھی نقل ہوئے ہیں جو اہل بیتؑ کے فضائل کی حقانیت کے اثبات پر مشتمل ہیں۔ حضرتؑ سے کچھ احادیث، فضائل قرآن اور اہل بیتؑ کی شان میں بعض آیات کی تفسیر کے حوالے سے بھی منقول ہیں۔
امام حسینؑ سے بعض فقہی ابواب میں بھی کچھ روایات منقول ہیں۔
[۵۴۱] صنعانی، عبدالرزاق ‌بن همام، المصنَّف، ج۳، ص۵۳۲ـ۵۳۳۔
[۵۴۲] صنعانی، عبدالرزاق ‌بن همام، المصنَّف، ج۴، ص۲۱۴۔
[۵۴۳] ابن ابی‌شیبه، المصنَّف فی الاحادیث و الآثار، ج۱، ص۳۵۵۔
[۵۴۴] ابن ابی‌شیبه، المصنَّف فی الاحادیث و الآثار، ج۲، ص۲۰۰۔
[۵۴۵] ابن ابی‌شیبه، المصنَّف فی الاحادیث و الآثار، ج۷، ص۳۸۸۔
[۵۴۶] ابن ابی‌ شیبه، المصنَّف فی الاحادیث و الآثار، ج۷، ص۶۱۹۔
[۵۴۷] عطاردی‌قوچانی، عزیزاللّه، مسند الامام الشهید ابی‌ عبداللّه‌ الحسین‌بن علی (علیہما‌ السلام)، ج۳، ص۲۲۰ـ۲۶۰۔
اخلاقی موضوعات میں بھی امام حسینؑ سے کچھ احادیث منقول ہیں۔
[۵۴۸] ابن ‌شهرآشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی‌طالب، ج۴، ص۸۱۔
[۵۴۹] اربلی، علی ‌بن عیسی، کشف الغمة فی معرفة الائمة علیھم‌ السلام، ج۲، ص۴۷۴۔


اشعار

[ترمیم]

امامؑ سے کچھ اشعار بھی منسوب ہیں جن میں سے معروف ترین اشعار وہ ہیں جو امامؑ نے اپنی دختر سکینہ اور ان کی والدہ رباب کیلئے کہے ہیں۔
[۵۵۰] ابن سعد، طبقات الکبری، ج۶، ص۴۰۰۔
[۵۵۲] بلاذری، احمد بن یحیی، انساب‌ الاشراف، ج۲، ص۱۴۰۔

اسی طرح ایک شعر ہے جو امامؑ نے آخری ایام میں زمانے کی بے وفائی سے متعلق ارشاد فرمایا۔ (امامؑ کے اشعار اور ان کے مضامین کی کلی تحلیل کیلئے اس کتاب کی طرف رجوع کیجئے)

راوی

[ترمیم]

امام حسینؑ پیغمبرؑ اور اپنے پدر بزرگوار امام علیؑ بن ابی طالب اور اپنی والدہ حضرت فاطمہ زہراؑ کی احادیث کے راوی ہیں کہ جن میں سے کچھ احادیث اہل سنت کی کتب میں وارد ہوئی ہیں۔
[۵۵۶] ابن‌ حنبل، مسند الامام احمد بن حنبل، ج۱، ص۲۰۱۔
[۵۵۷] دولابی، محمد بن احمد، الذریة الطاهرة، ص۱۲۵ـ ۱۳۳۔
[۵۵۸] دولابی، محمد بن احمد، الذریة الطاهرة، ج۱، ص۱۳۷ـ ۱۳۸۔
[۵۵۹] طبرانی، سلیمان ‌بن احمد، المعجم‌ الکبیر، ج۳، ص۱۲۷ـ۱۳۶۔
[۵۶۰] مزی، یوسف‌ بن عبدالرحمان، تحفةّ الاشراف بمعرفة الاطراف، ج۳، ص۶۵ـ ۶۷۔
(ان راویوں کی فہرست سے آگاہی کیلئے کہ جن سے امامؑ نے روایت کیا ہے، اس کتاب کی طرف رجوع کیجئے)
[۵۶۱] مزی، یوسف‌ بن عبدالرحمان، تهذیب الکمال فی اسماء الرجال، ج۶، ص۳۹۷۔


امام حسینؑ سے روایت کرنے والی شخصیات

[ترمیم]

امامؑ سے امام سجادؑ اور آپؑ کی بیٹی فاطمہ، نے سب سے زیادہ روایات نقل کی ہیں۔
[۵۶۲] دولابی، محمد بن احمد، الذریة الطاهرة، ص۱۲۵ـ ۱۳۱۔
(ان دو شخصیات کی امام حسینؑ سے منقول روایات کی فہرست سے آگاہی کیلئے ان کتب کی طرف رجوع کیجئے)
[۵۶۳] عطاردی‌قوچانی، عزیزاللّه، مسند الامام الشهید ابی‌ عبداللّه‌ الحسین‌ بن علی (علیہما‌ السلام)، ج۳، ص۳۸۲ـ۳۸۳۔
[۵۶۴] عطاردی‌قوچانی، عزیزاللّه، مسند الامام الشهید ابی‌ عبداللّه‌ الحسین‌ بن علی (علیہما‌ السلام)، ج۳، ص، ۳۹۳۔
عطاردی ‌قوچانی کی تحقیق کے مطابق
[۵۶۵] عطاردی‌قوچانی، عزیزاللّه، مسند الامام الشهید ابی‌ عبداللّه‌ الحسین‌ بن علی (علیہما‌ السلام)، ج۳، ص۳۱۴ـ۴۱۸۔
امامؑ سے روایت نقل کرنے والے راویوں کی تعداد دو سو پچاس سے زیادہ ہے، (امامؑ سے روایت کرنے والے اشخاص کے بارے میں معلومات کیلئے حواشی میں مذکور قدیم کتب کی طرف رجوع کیجئے)
[۵۶۶] ابن‌حنبل، مسند الامام احمد بن حنبل، ج۱، ص۲۰۱۔
[۵۶۷] دولابی، محمد بن احمد، الذریة الطاهرة، ص۱۳۱ـ۱۳۵۔
[۵۶۸] طبرانی، سلیمان ‌بن احمد، المعجم‌ الکبیر، ج۳، ص۱۲۷ـ۱۳۶۔
[۵۶۹] مزی، یوسف‌ بن عبدالرحمان، تهذیب الکمال فی اسماء الرجال، ج۶، ص۳۹۷۔
[۵۷۰] مزی، یوسف‌ بن عبدالرحمان، تحفةّ الاشراف بمعرفة الاطراف، ج۳، ص۶۵ـ ۶۷۔
طوسی نے اپنے حدیثی و رجالی مبانی کے تحت کتاب رجال، میں سو شخصیات کو حضرتؑ کے اصحاب کے عنوان سے ذکر کیا ہے کہ جن میں سے بعض کا شمار رسولؐ خدا، امیر المومنین علی بن ابی طالبؑ اور امام حسنؑ کے اصحاب میں ہوتا ہے اور ان میں سے زیادہ تر افراد نے کربلا میں حضرتؑ کا ساتھ دیا اور آپؑ کے ساتھ جام شہادت نوش کیا۔

امام حسینؑ کے اقوال پر مشتمل مطبوعہ کتب

[ترمیم]

امام حسینؑ کے اقوال اب تک مختلف دائرۃ المعارف کی شکل میں شائع ہو چکے ہیں، منجملہ موسوعة کلمات الامام الحسین (علیہ السلام) (قم ۱۳۷۴شمسی)، مسند الامام الشهید ابی‌عبدالله الحسین ‌بن علی (علیہما‌ السلام) (تہران ۱۳۷۶شمسی) اور حکمت‌ نامہ امام حسین (علیہ ‌السلام) (قم ۱۳۸۵شمسی)

امام حسینؑ کی زیارت کا حکم

[ترمیم]

امام حسینؑ کی زیارت بالخصوص نزدیک سے عرفہ، عید فطر، عید قربان، ماه رجب کے اول اور وسط، نیمہ شعبان، عاشورا،اربعین (بیس صفر) اور شب قدر میں مستحب ہے۔

امام حسینؑ کی عزاداری کا حکم

[ترمیم]

اسی طرح اہل بیتؑ بالخصوص امام حسینؑ کیلئے عاشور کے دن عزاداری اور حزن و غم کا اظہار اسی طرح حضرتؑ کیلئے گریہ و زاری مستحب ہے؛ مصیبت کے وقت جزع فزع کی ممانعت میں سے حضرتؑ کیلئے جزع فزع کا استثنا کیا گیا ہے۔
[۵۷۶] صراط النجاة، ج۵، ص۳۰۰۔


امام حسینؑ

[ترمیم]

امام حسینؑ کی ضریح ان چار مقامات میں سے ایک ہے کہ جہاں پر مسافر کو چار رکعتی نماز کو تمام کرنے یا قصر کرنے کا اختیار ہے؛ اگرچہ مشہور قول کے مطابق نماز کو پورا پڑھنا افضل ہے۔

امام حسینؑ پر سلام بھیجنے کا حکم

[ترمیم]

پانی پیتے وقت امام حسینؑ پر درود و سلام اور حضرتؑ کے دشمنوں پر لعنت بھیجنا مستحب ہے۔
[۵۷۸] جامع عباسی، ص۳۴۴۔


امام حسینؑ کی تربت کی فضیلت

[ترمیم]

امام حسینؑ کی تربت خاص احکام کی حامل ہے جیسے شفا کیلئے اسے کھانا جائز ہے۔

مربوط عناوین

[ترمیم]

امام علی علیہ السلامامام حسن علیہ السلامامام سجاد علیہ السلامامام محمد باقر علیہ السلامامام صادق علیہ السلامامام کاظم علیہ السلامامام رضا علیہ السلامامام علی النقی علیہ السلامامام حسن عسکری علیہ السلامامام مھدی علیہ السلام



منابع کی فہرست

[ترمیم]
(۱) ابن ابی‌الثلج، تاریخ الائمة، در مجموعة نفیسة فی تاریخ الائمة، طبع محمود مرعشی، قم: کتابخانه آیت‌اللّه مرعشی نجفی، ۱۴۰۶۔
(۲) ابن ابی‌الحدید، شرح نهج‌البلاغة، طبع محمد ابوالفضل ابراهیم، قاهره ۱۳۸۵ـ۱۳۸۷/ ۱۹۶۵ـ۱۹۶۷، آفسٹ پرنٹنگ بیروت۔
(۳) ابن ابی‌الدنیا، مکارم‌الاخلاق، طبع مجدی سیدابراهیم، بولاق۔
(۴) ابن ‌ابی‌زینب، الغیبة، طبع فارس حسون کریم، قم ۱۴۲۲۔
(۵) ابن ابی‌شیبه، المصنَّف فی الاحادیث و الآثار، طبع سعید محمد لحّام، بیروت ۱۴۰۹/۱۹۸۹۔
(۶) ابن‌ اعثم کوفی، کتاب‌الفتوح، طبع علی شیری، بیروت ۱۴۱۱/۱۹۹۱۔
(۷) ابن‌ اعثم کوفی، کتاب‌الفتوح، ترجمه محمد بن احمد مستوفی هروی، طبع غلامرضا طباطبائی‌مجد، تهران ۱۳۷۲شمسی۔
(۸) ابن ‌بابویه، الامالی، قم ۱۴۱۷۔
(۹) ابن ‌بابویه، التوحید، طبع هاشم حسینی طهرانی، قم ۱۳۵۷شمسی۔
(۱۰) ابن ‌بابویه، ثواب الاعمال و عقاب الاعمال، قم ۱۳۶۸شمسی۔
(۱۱) ابن ‌بابویه، علل‌الشرایع، نجف ۱۳۸۵ـ۱۳۸۶، آفسٹ پرنٹنگ قم۔
(۱۲) ابن ‌بابویه، عیون اخبار الرضا، طبع مهدی لاجوردی، قم ۱۳۶۳ش الف۔
(۱۳) ابن ‌بابویه، کتاب‌الخصال، طبع علی‌اکبر غفاری، قم ۱۳۶۲شمسی۔
(۱۴) ابن ‌بابویه، کمال‌الدین و تمام النعمة، طبع علی‌اکبر غفاری، قم ۱۳۶۳ش ب۔
(۱۵) ابن ‌بابویه، معانی الاخبار، طبع علی‌اکبر غفاری، قم ۱۳۶۱شمسی۔
(۱۶) ابن‌حزم، المُحَلّی، طبع احمد محمد شاکر، بیروت: دارالفکر۔
(۱۷) ابن‌حنبل، مسند الامام احمدبن حنبل، بیروت: دارصادر۔
(۱۸) ابن سعد، طبقات الکبری۔
(۱۹) ابن‌ شبّه نمیری، کتاب تاریخ المدینة المنورة: اخبار المدینةالنبویة، طبع فهیم محمد شلتوت، (جده) ۱۳۹۹/۱۹۷۹، آفسٹ پرنٹنگ قم ۱۳۶۸شمسی۔
(۲۰) ابن‌ شعبه، تحف‌العقول عن آل الرسول صلی‌اللّه علیهم، طبع علی‌اکبر غفاری، قم ۱۳۶۳شمسی۔
(۲۱) ابن ‌شهرآشوب، مناقب آل ابی‌طالب، طبع یوسف بقاعی، قم ۱۳۸۵شمسی۔
(۲۲) ابن ‌طاووس، اقبال الاعمال، طبع جواد قیومی اصفهانی، قم ۱۴۱۴ـ۱۴۱۵۔
(۲۳) ابن ‌طاووس، مقتل‌الحسین (علیه‌السلام)، المسمی باللهوف فی قتلی الطفوف، قم (۱۴۱۷)۔
(۲۴) ابن طلحه شافعی، مطالب السؤول فی مناقب آل‌الرسول، طبع ماجدبن احمد عطیه۔
(۲۵) ابن عبدالبرّ، الاستیعاب فی معرفة الاصحاب، طبع علی‌محمد بجاوی، بیروت ۱۴۱۲/۱۹۹۲۔
(۲۶) ابن‌ عساکر، تاریخ مدینة دمشق، طبع علی شیری، بیروت ۱۴۱۵ـ۱۴۲۱/ ۱۹۹۵ـ۲۰۰۱۔
(۲۷) ابن ‌قتیبه، الامامة و السیاسة، المعروف بتاریخ الخلفاء، طبع علی شیری، بیروت ۱۴۱۰/۱۹۹۰۔
(۲۸) ابن ‌قتیبه، المعارف، طبع ثروت عکاشه، قاهره ۱۹۶۰۔
(۲۹) ابن‌ قولویه، کامل‌الزیارات، طبع جواد قیومی اصفهانی، قم ۱۴۱۷۔
(۳۰) ابن ‌ماجه، سنن ابن‌ماجة، طبع محمدفؤاد عبدالباقی، (قاهره ۱۳۷۳/ ۱۹۵۴)، آفسٹ پرنٹنگ (بیروت)۔
(۳۱) ابن حِبّان، کتاب الثقات، حیدرآباد، دکن ۱۳۹۳ـ۱۴۰۳/ ۱۹۷۳ـ۱۹۸۳، آفسٹ پرنٹنگ بیروت۔
(۳۲) ابن‌ حبیب، کتاب لمُحَبَّر، طبع ایلزه لیشتن اشتتر، حیدرآباد، دکن ۱۳۶۱/۱۹۴۲، آفسٹ پرنٹنگ بیروت۔
(۳۳) ابن‌ حزم، جمهرة انساب العرب، طبع عبدالسلام محمد هارون، قاهره (۱۹۸۲)۔
(۳۴) ابن شهر آشوب، مناقب آل ابی‌طالب، طبع هاشم رسولی محلاتی، قم۔
(۳۵) ابن ‌صباغ، الفصول المهمة فی معرفة احوال الائمة علیهم‌السلام، بیروت ۱۴۰۸/۱۹۸۸۔
(۳۶) ابن‌ طاووس، مقتل الحسین (علیه‌السلام)، المسمی باللهوف فی قتلی الطفوف، قم (۱۴۱۷)۔
(۳۷) ابن ‌طقطقی، الاصیلی فی انساب الطّالبیین، طبع مهدی رجائی، قم ۱۳۷۶شمسی۔
(۳۸) ابن‌ طلحه شافعی، مطالب السؤول فی مناقب ال الرسول، طبع ماجدبن احمد عطیه، بیروت ۱۴۰۲۔
(۳۹) ابن‌ کثیر، البدایة و النهایة، طبع علی شیری، بیروت ۱۴۰۸/۱۹۸۸۔
(۴۰) ابوالفرج اصفهانی، کتاب‌الاغانی، قاهره ۱۳۸۳، آفسٹ پرنٹنگ بیروت۔
(۴۱) ابوالفرج اصفهانی، مقاتل الطالبیین، طبع کاظم مظفر، نجف ۱۳۸۵/۱۹۶۵، آفسٹ پرنٹنگ قم ۱۴۰۵۔
(۴۲) عبدالحسین امینی، سیرتنا و سنتنا: سیرة نبینا صلی‌اللّه علیه وآله و سنته، بیروت ۱۴۱۲/۱۹۹۲۔
(۴۳) عبداللّه ‌بن نوراللّه بحرانی، عوام‌العلوم و المعارف و الاحوال من الآیات و الاخبار و الاقوال، ج ۱۷، قم ۱۳۸۲شمسی۔
(۴۴) هاشم ‌بن سلیمان بحرانی، مدینةالمعاجز، او، معاجز اهل‌البیتؑ، طبع علاءالدین اعلمی، (قم) ۱۴۲۶/۲۰۰۵۔
(۴۵) محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح بخاری، (طبع محمد ذهنی‌افندی)، استانبول ۱۴۰۱/۱۹۸۱، آفسٹ پرنٹنگ بیروت۔
(۴۶) احمد بن محمد برقی، کتاب‌المحاسن، طبع جلال‌الدین محدث ارموی، تهران ۱۳۳۰شمسی۔
(۴۷) احمد بن یحیی بلاذری، انساب‌الاشراف، طبع محمود فردوس‌العظم، دمشق ۱۹۹۶ـ ۲۰۰۰۔
(۴۸) احمد بن یحیی بلاذری، فتوح‌البلدان، طبع عبداللّه انیس طبّاع و عمر انیس طبّاع، بیروت ۱۴۰۷/۱۹۸۷۔
(۴۹) علی ‌بن عیسی بهاءالدین اربلی، کشف الغمة فی معرفة الائمة علیهم‌السلام، طبع علی فاضلی، (قم) ۱۴۲۶۔
(۵۰) موفق‌ بن احمد اخطب خوارزم، مقتل الحسین علیہ ‌السلام للخوارزمی، طبع محمد سماوی، (قم) ۱۳۸۱شمسی۔
(۵۱) امین، اعیان الشیعه۔
(۵۲) ابونصر سهل‌ بن عبداللّه بخاری، سرّالسلسلة العلویة، طبع محمدصادق بحرالعلوم، نجف ۱۳۸۱/۱۹۶۲۔
(۵۳) احمد بن یحیی بلاذری، انساب‌الاشراف، طبع محمود فردوس‌العظم، دمشق ۱۹۹۶ـ۲۰۰۰۔
(۵۴) علی‌ بن عیسی بهاءالدین اربلی، کشف الغمة فی معرفة الائمة، طبع هاشم رسولی محلاتی، بیروت ۱۴۰۱/ ۱۹۸۱۔
(۵۵) علی ‌بن زید بیهقی، لباب الأنساب و الألقاب و الأعقاب، طبع مهدی رجائی، قم ۱۴۱۰۔
(۵۶) دلائل الامامة، (منسوب به) محمد بن جریر طبری آملی، بیروت: مؤسسة الاعلمی للمطبوعات، ۱۴۰۸/۱۹۸۸۔
(۵۷) محمد ذهنی، خیرات حسان، ترجمه محمدحسن اعتمادالسلطنه، طبع سنگی (تهران) ۱۳۰۴ـ۱۳۰۷۔
(۵۸) سبط ابن‌ جوزی، تذکرة الخواص، بیروت ۱۴۰۱/۱۹۸۱۔
(۵۹) عبداللّه ‌بن محمد شَبراوی شافعی، کتاب الاتحاف بحب الاشراف، مصر (۱۳۱۶)، آفسٹ پرنٹنگ قم ۱۳۶۳شمسی۔
(۶۰) احمد بن علی طبرسی، الاحتجاج، طبع محمدباقر موسوی خرسان، نجف ۱۳۸۶/۱۹۶۶، آفسٹ پرنٹنگ قم۔
(۶۱) طبری، تاریخ (بیروت)۔
(۶۲) نعمان ‌بن محمد قاضی نعمان، شرح الاخبار فی فضائل الائمة الاطهار، طبع محمد حسینی جلالی، قم ۱۴۰۹ـ۱۴۱۲۔
(۶۳) حسین ‌بن علی کاشفی، روضة الشهداء، طبع محمد رمضانی، (تهران) ۱۳۴۱شمسی۔
(۶۴) یوسف‌ بن عبدالرحمان مزّی، تهذیب الکمال فی اسماء الرجال، طبع بشار عواد معروف، بیروت ۱۴۲۲/۲۰۰۲۔
(۶۵) مُصْعَب ‌بن عبداللّه، کتاب نسب قریش، طبع لوی پرووانسال، قاهره ۱۹۵۳۔
(۶۶) محمد بن محمد مفید، الارشاد فی معرفة حجج‌اللّه علی‌العباد، قم ۱۴۱۳۔
(۶۷) محمد بن عیسی ترمذی، سنن‌الترمذی، ج ۳ و ۵، طبع عبدالرحمان محمد عثمان، بیروت ۱۴۰۳۔
(۶۸) جنید بن محمود جنید شیرازی، شدّ الازار فی حطّ الاوزار عن زوّار المزار، طبع محمد قزوینی و عباس اقبال آشتیانی، تهران ۱۳۶۶شمسی۔
(۶۹) محمد بن عبداللّه حاکم نیشابوری، المستدرک علی‌الصحیحین، طبع یوسف عبدالرحمان مرعشلی، بیروت ۱۴۰۶۔
(۷۰) حرّ عاملی،‌ وسائل الشیعه۔
(۷۱) عبیداللّه ‌بن عبداللّه حسکانی، شواهدالتنزیل لقواعد التفضیل، طبع محمدباقر محمودی، تهران ۱۴۱۱/۱۹۹۰۔
(۷۲) حکمت‌نامه امام حسین (علیه‌السلام)، (گردآوری) محمد محمدی‌ری‌شهری، (همراه‌با) ترجمه عبدالهادی مسعودی، قم: دارالحدیث، ۱۳۸۵شمسی۔
(۷۳) عبداللّه ‌بن جعفر حِمْیری، قریب الاسناد، قم ۱۴۱۳۔
(۷۴) علی‌ بن محمد خزاز رازی، کفایة الاثر فی‌النص علی‌الائمة الاثنی‌عشر، طبع عبداللطیف حسینی کوه کمری خوئی، قم ۱۴۰۱۔
(۷۵) حسین ‌بن حمدان خصیبی، الهدایة الکبری، بیروت ۱۴۰۶/ ۱۹۸۶۔
(۷۶) دلائل الامامة، (منسوب به) محمد بن جریر طبری آملی، قم: مؤسسةالبعثة، ۱۴۱۳۔
(۷۷) محمد بن احمد دولابی، الذریة الطاهرة، طبع محمدجواد حسینی جلالی، قم ۱۴۰۷۔
(۷۸) احمد بن داوود دینوری، الاخبار الطِّوال، طبع عبدالمنعم عامر، قاهره ۱۹۶۰، آفسٹ پرنٹنگ قم ۱۳۶۸شمسی۔
(۷۹) روائع الحکمة: بلاغة الامامین‌الحسن و الحسینؑ، (اعداد) مصطفی محسن موسوی، محسن شراره عاملی، و مهدی عطبی بصری، بیروت: دارالصفوة، ۱۴۲۴/۲۰۰۴۔
(۸۰) مجدود بن آدم سنایی، حدیقة الحقیقة و شریعة الطریقة، طبع مدرس رضوی، تهران ۱۳۵۹شمسی۔
(۸۱) محمد بن حسن صفار قمی، بصائرالدرجات الکبری فی فضائل آل محمدؑ، طبع محسن کوچه‌باغی‌تبریزی، تهران ۱۳۶۲ شمسی۔
(۸۲) عبدالرزاق ‌بن همام صنعانی، المصنَّف، طبع حبیب‌الرحمان اعظمی، بیروت ۱۴۰۳/۱۹۸۳۔
(۸۳) طباطبائی، تفسیر المیزان۔
(۸۴) سلیمان ‌بن احمد طبرانی، المعجم‌الکبیر، طبع حمدی عبدالمجید سلفی، آفسٹ پرنٹنگ بیروت ۱۴۰۴ــ۱۴۰۔
(۸۵) احمد بن علی طبرسی، الاحتجاج، طبع محمدباقر موسوی خرسان، نجف ۱۳۸۶/ ۱۹۶۶، آفسٹ پرنٹنگ قم۔
(۸۶) فضل‌ بن حسن طبرسی، اعلام الوری باعلام الهدی، قم ۱۴۱۷۔
(۸۷) فضل‌ بن حسن طبرسی، مجمع‌البیان فی تفسیرالقرآن، طبع هاشم رسولی محلاتی و فضل‌اللّه یزدی طباطبائی، بیروت ۱۴۰۸/۱۹۸۸۔
(۸۸) محمد بن حسن طوسی، الامالی، قم ۱۴۱۴۔
(۸۹) محمد بن حسن طوسی، تهذیب ‌الاحکام، طبع حسن موسوی خرسان، بیروت ۱۴۰۱/۱۹۸۱۔
(۹۰) محمد بن حسن طوسی، رجال‌الطوسی، طبع جواد قیومی اصفهانی، قم ۱۴۱۵۔
(۹۱) محمد بن حسن طوسی، کتاب‌الغیبة، طبع عباداللّه طهرانی و علی‌احمد ناصح، قم ۱۴۱۱۔
(۹۲) عزیزاللّه عطاردی‌قوچانی، مسندالامام الشهید ابی‌عبداللّه‌الحسین‌بن علی (علیهما‌السلام)، (تهران) ۱۳۷۶شمسی۔
(۹۳) محمد بن علی علوی‌شجری، فضل زیارة الحسین (علیه‌السلام)، طبع احمد حسینی، قم ۱۴۰۳۔
(۹۴) علی ‌بن ابی‌طالبؑ، امام اول، نهج‌البلاغه، طبع صبحی صالح، بیروت ۱۳۸۷/۱۹۶۷، آفسٹ پرنٹنگ قم۔
(۹۵) محمد بن مسعود عیاشی، کتاب‌التفسیر، طبع هاشم رسولی محلاتی، قم ۱۳۸۰ـ۱۳۸۱، آفسٹ پرنٹنگ تهران۔
(۹۶) نعمان ‌بن محمد قاضی نعمان، دعائم الاسلام و ذکر الحلال و الحرام والقضایا و الاحکام، طبع آصف‌بن علی‌اصغر فیضی، قاهره (۱۹۶۳ـ ۱۹۶۵)، آفسٹ پرنٹنگ (قم)۔
(۹۷) باقر شریف قرشی، حیاةالامام الحسن‌بن علی، بیروت ۱۴۱۳/ ۱۹۹۳۔
(۹۸) سعید بن هبةاللّه قطب راوندی، الخرائج و الجرائح، قم ۱۴۰۹۔
(۹۹) علی‌ بن ابراهیم قمی، تفسیرالقمی، طبع طیب موسوی جزائری، نجف ۱۳۸۷، آفسٹ پرنٹنگ قم۔
(۱۰۰) کلینی، اصول کافی۔
(۱۰۱) فرات ‌بن ابراهیم کوفی، تفسیر فرات‌الکوفی، طبع محمدکاظم محمودی، تهران ۱۴۱۰/۱۹۹۰۔
(۱۰۲) مجد خوافی، روضه خلد، طبع حسین خدیوجم، تهران ۱۳۴۵شمسی۔
(۱۰۳) مجلسی، بحار الانوار۔
(۱۰۴) یوسف‌ بن عبدالرحمان مِزّی، تحفةّ الاشراف بمعرفة الاطراف، طبع عبدالصمد شرف‌الدین و زهیر شاویش، بیروت ۱۴۰۳/۱۹۸۳۔
(۱۰۵) یوسف‌ بن عبدالرحمان مِزّی، تهذیب الکمال فی اسماء الرجال، طبع بشار عواد معروف، بیروت ۱۴۲۲/۲۰۰۲۔
(۱۰۶) مسعودی، تنبیه۔
(۱۰۷) مسعودی، مروج (بیروت)۔
(۱۰۸) مسلم‌ بن حجاج، الجامع‌الصحیح، بیروت: دارالفکر۔
(۱۰۹) محمد بن محمد مفید، الارشاد فی معرفة حجج‌اللّه علی‌العباد، بیروت ۱۴۱۴/۱۹۹۳۔
(۱۱۰) ناصرخسرو، سفرنامه ناصرخسرو قبادیانی مروزی، طبع محمد دبیرسیاقی، تهران ۱۳۷۳شمسی۔
(۱۱۱) یحیی ‌بن حسین ناطق ‌بالحق، الافاده فی تاریخ الائمة السادة، طبع محمدکاظم رحمتی، تهران ۱۳۸۷شمسی۔
(۱۱۲) محمدصادق نجمی، سخنان حسین‌بن علیؑ (از مدینه تا کربلا)، قم ۱۳۷۸شمسی۔
(۱۱۳) نصر بن مزاحم، وقعة صفّین، طبع عبدالسلام محمد هارون، قاهره ۱۳۸۲، آفسٹ پرنٹنگ قم ۱۴۰۴۔
(۱۱۴) نعیم‌ بن حمّاد، کتاب‌الفتن، طبع سهیل زکار، (بیروت) ۱۴۱۴/ ۱۹۹۳۔
(۱۱۵) یعقوبی، تاریخ۔
(۱۱۶) دانشنامه جهان اسلام۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. ابن سعد، طبقات الکبری، ج۶، ص۳۹۹۔
۲. ابوالفرج اصفهانی، علی بن حسین، مقاتل الطالبیین، ج۱، ص۵۱۔    
۳. محمد بن محمد مفید، الارشاد فی معرفة حجج‌اللّه علی‌العباد، ج۲، ص۲۷۔    
۴. ابن سعد، طبقات الکبری، ج۶، ص۳۵۶ـ۳۵۷۔
۵. ابن‌حنبل، مسند الامام احمد بن حنبل، ج۱، ص۹۸۔
۶. ابن‌حنبل، مسند الامام احمدبن حنبل، ج۱، ص۱۱۸۔
۷. دولابی، محمد بن احمد، الذریة الطاهرة، ص۹۹۔    
۸. کلینی، محمد بن یعقوب، اصول کافی، ج۶، ص۳۳۔    
۹. دولابی، محمد بن احمد، الذریة الطاهرة، ص۱۲۲، که حسین را مشتق از حسن شمرده‌اند۔
۱۰. صدوق، محمد بن علی، عیون اخبار الرضا، ج۲، ص۲۵ـ۲۶۔
۱۱. طبرسی، فضل‌ بن حسن، اعلام الوری باعلام الهدی، ج۱، ص۴۲۷ ۴۲۸۔    
۱۲. بلاذری، احمد بن یحیی، انساب‌ الاشراف، ج۳، ص۱۴۴۔    
۱۳. ابن‌حنبل، مسند الامام احمد بن حنبل، ج۱، ص۱۵۹، بیروت: دارصادر۔
۱۴. دولابی، محمد بن احمد، الذریة الطاهرة، ص۹۹۔
۱۵. دولابی، محمد بن احمد، الذریة الطاهرة، ص۱۲۱۔
۱۶. طبرانی، سلیمان ‌بن احمد، المعجم‌ الکبیر، ج۳، ص۹۸۔
۱۷. کلینی، محمد بن یعقوب، اصول کافی، ج۶، ص۳۳۳۴۔    
۱۸. صدوق، محمد بن علی، علل‌الشرایع، ج۱، ص۱۳۷۱۳۸۔    
۱۹. طوسی، محمد بن حسن، الامالی، ج۱، ص۳۶۷۔
۲۰. شریف قریشی، شریف قرشی، ج۱، ص۳۱ـ۳۲۔
۲۱. ابن سعد، طبقات الکبری، ج۱، ص۳۵۷۔
۲۲. دولابی، محمد بن احمد، الذریة الطاهرة، ص۱۰۰۔
۲۳. ابن ابی‌شیبه، المصنَّف فی الاحادیث و الآثار، ج۸، ص۶۵۔
۲۴. دینوری، ابن ‌قتیبه، المعارف، ج۱، ص۲۱۳۔
۲۵. طبرانی، سلیمان ‌بن احمد، المعجم‌ الکبیر، ج۳، ص۹۴۔
۲۶. مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفة حجج‌اللّه علی‌العباد، ج۲، ص۲۷۔    
۲۷. خصیبی، حسین ‌بن حمدان، الهدایة الکبری، ج۱، ص۲۰۱۔    
۲۸. ابن ابی‌الثلج، تاریخ الائمة، ج۱، ص۲۸۔
۲۹. شافعی، ابن طلحه، مطالب السؤول فی مناقب آل‌الرسول، ج۲، ص۳۷۴۔
۳۰. ابن ابی‌الثلج، تاریخ الائمة، ج۱، ص۲۸۔
۳۱. شافعی، ابن طلحه، مطالب السؤول فی مناقب آل‌الرسول، ج۲، ص۳۷۴۔
۳۲. برای فهرستی از القاب آن حضرت رجوع کنید به، ابن ‌شهرآشوب، ج۴، ص۸۶، مناقب آل ابی‌طالب۔
۳۳. شافعی، ابن طلحه، مطالب السؤول فی مناقب آل‌الرسول، ج۲، ص۳۷۴۔
۳۴. حمیری، عبداللّه ‌بن جعفر، قریب الاسناد، ج۱، ص۹۹۱۰۰۔    
۳۵. ابن‌ قولویه، کامل‌ الزیارات، ج۱، ص۲۱۶۲۱۹۔    
۳۶. طوسی، محمد بن حسن، الامالی، ج۱، ص۴۹ـ ۵۰۔
۳۷. مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۳۷، ص۹۴۹۵۔    
۳۸. کوفی، ابن‌ اعثم، کتاب‌ الفتوح، ج۱، ص۸۰۲، ترجمه محمد بن احمد مستوفی هروی۔
۳۹. کوفی، ابن‌ اعثم، کتاب‌ الفتوح، ج۱، ص۸۴۶، ترجمه محمد بن احمد مستوفی هروی۔
۴۰. ناصرخسرو، سفرنامه ناصرخسرو قبادیانی مروزی، ج۱، ص۷۲ـ۷۵۔
۴۱. ناصرخسرو، سفرنامه ناصرخسرو قبادیانی مروزی، ج۱، ص۸۵۔
۴۲. سنایی، مجدود بن آدم، حدیقة الحقیقة و شریعة الطریقة، ج۱، ص۲۶۲۔
۴۳. سنایی، مجدود بن آدم، حدیقة الحقیقة و شریعة الطریقة، ج۱، ص۲۶۶۔
۴۴. خوافی، مجد، روضه خلد، ج۱، ص۲۲۔
۴۵. خوافی، مجد، روضه خلد، ج۱، ص۲۶۔
۴۶. خوافی، مجد، روضه خلد، ج۱، ص۲۰۵۔
۴۷. خوافی، مجد، روضه خلد، ج۱، ص۲۷۱۔
۴۸. جنید شیرازی، جنید بن محمود، شدّ الازار فی حطّ الاوزار عن زوّار المزار، ج۱، ص۲۵۱ـ۲۵۲۔
۴۹. مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفة حجج‌اللّه علی‌العباد، ج۲، ص۲۷۔    
۵۰. طوسی، محمد بن حسن، تهذیب ‌الاحکام، ج۶، ص۴۱۔    
۵۱. کلینی، محمد بن یعقوب، اصول کافی، ج۱، ص۴۶۳۔    
۵۲. طوسی، محمد بن حسن، تهذیب ‌الاحکام، ج۶، ص۴۱۔    
۵۳. ابن عبدالبرّ، الاستیعاب فی معرفة الاصحاب، ج۱، ص۳۹۲۔
۵۴. ابن سعد، طبقات الکبری، ج۶، ص۳۹۹۔
۵۵. یعقوبی، تاریخ، ج۲، ص۲۴۶۔
۵۶. دولابی، محمد بن احمد، الذریة الطاهرة، ص۶۸۔    
۵۷. دولابی، محمد بن احمد، الذریة الطاهرة، ص۱۲۱۔
۵۸. طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری، ج۵، ص۳۹۴۔    
۵۹. ابوالفرج اصفهانی، علی بن حسین، مقاتل الطالبیین، ج۱، ص۵۱۔    
۶۰. مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفة حجج‌اللّه علی‌العباد، ج۲، ص۲۷۔    
۶۱. ابن عبدالبرّ، الاستیعاب فی معرفة الاصحاب، ج۱، ص۳۹۳۔
۶۲. حاکم نیشابوری، محمد بن عبداللّه، المستدرک علی‌الصحیحین، ج۳، ص۱۷۷۔
۶۳. ابن‌ عساکر، تاریخ مدینة دمشق، ج۱۴، ص۱۱۶۔
۶۴. مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۴۴، ص۲۰۱۔    
۶۵. طوسی، محمد بن حسن، تهذیب ‌الاحکام، ج۶، ص۴۱۔    
۶۶. ابوالفرج اصفهانی، علی بن حسین، مقاتل الطالبیین، ج۱، ص۵۱۔    
۶۷. مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفة حجج‌اللّه علی‌العباد، ج۲، ص۲۷۔    
۶۸. شافعی، ابن طلحه، مطالب السؤول فی مناقب آل‌الرسول، ج۲، ص۳۷۲۔
۶۹. ابن سعد، طبقات الکبری، ج۶، ص۳۹۹۔
۷۰. طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، ج۲، ص۵۵۵۔    
۷۱. دولابی، محمد بن احمد، الذریة الطاهرة، ص۶۸۔    
۷۲. دولابی، محمد بن احمد، الذریة الطاهرة، ص۱۲۱۔
۷۳. صدوق، محمد بن علی، کمال‌الدین و تمام النعمة، ج۱، ص۲۸۲۔    
۷۴. طبرسی، فضل‌ بن حسن، اعلام الوری باعلام الهدی، ج۱، ص۴۲۱۔    
۷۵. مزی، یوسف‌ بن عبدالرحمان، تهذیب الکمال فی اسماء الرجال، ج۶، ص۳۹۸ـ۳۹۹۔
۷۶. کلینی، محمد بن یعقوب، اصول کافی، ج۱، ص۴۶۴۔    
۷۷. ابن ابی‌الثلج، تاریخ الائمة، ج۱، ص۸۔
۷۸. دینوری، ابن ‌قتیبه، المعارف، ج۱، ص۱۵۸۔    
۷۹. دولابی، محمد بن احمد، الذریة الطاهرة، ص۶۸۔    
۸۰. ابن عبدالبرّ، الاستیعاب فی معرفة الاصحاب، ج۱، ص۳۹۳۔    
۸۱. ابن‌ عساکر، تاریخ مدینة دمشق، ج۱۴، ص۱۱۶۔    
۸۲. ابن سعد، طبقات الکبری، ج۶، ص۴۰۰ـ۴۰۱۔
۸۳. کوفی، ابن‌ اعثم، کتاب‌ الفتوح، ج۴، ص۳۲۳۔
۸۴. ابن‌حنبل، مسند الامام احمد بن حنبل، ج۶، ص۳۴۰۔
۸۵. دولابی، محمد بن احمد، الذریة الطاهرة، ص۱۰۶۔
۸۶. اربلی، علی ‌بن عیسی، کشف الغمة فی معرفة الائمة علیھم‌ السلام، ج۲، ص۳۰۸۔
۸۷. اربلی، علی ‌بن عیسی، کشف الغمة فی معرفة الائمة علیھم‌ السلام، ج۲، ص۳۲۰۔
۸۸. اربلی، علی ‌بن عیسی، کشف الغمة فی معرفة الائمة علیھم‌ السلام، ج۲، ص۳۴۸ـ۳۴۹۔
۸۹. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۴۶۵۔    
۹۰. ابن سعد، طبقات الکبری، ج۶، ص۴۴۱۔
۹۱. بلاذری، احمد بن یحیی، انساب‌ الاشراف، ج۲، ص۵۱۲۔
۹۲. طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری، ج۵، ص۳۹۴۔    
۹۳. طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری، ج۵، ص،۳۹۴۔    
۹۴. طوسی، محمد بن حسن، تهذیب ‌الاحکام، ج۶، ص۴۱۴۲۔    
۹۵. طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری، ج۵، ص۳۹۴۔    
۹۶. ابن ابی‌الثلج، فی تاریخ الائمة، ج۱، ص۸۔
۹۷. ابن سعد، طبقات الکبری، ج۶، ص۴۴۱۔
۹۸. طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری، ج۵، ص۴۲۲۔    
۹۹. ابوالفرج اصفهانی، علی بن حسین، مقاتل الطالبیین، ج۱، ص۵۱۔    
۱۰۰. طوسی، محمد بن حسن، تهذیب ‌الاحکام، ج۶، ص۴۱۴۲۔    
۱۰۱. طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری، ج۵، ص۴۲۲۔    
۱۰۲. ابوالفرج اصفهانی، علی بن حسین، مقاتل الطالبیین، ج۱، ص۵۱۔    
۱۰۳. طوسی، محمد بن حسن، تهذیب ‌الاحکام، ج۶، ص۴۱۴۲۔    
۱۰۴. دولابی، محمد بن احمد، الذریة الطاهرة، ص۱۳۳۔
۱۰۵. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۴۶۵۔
۱۰۶. طوسی، محمد بن حسن، تهذیب ‌الاحکام، ج۶، ص۴۱۴۲۔    
۱۰۷. طبرسی، فضل‌ بن حسن، اعلام الوری باعلام الهدی، ج۱، ص۴۲۱، قم ۱۴۱۷۔    
۱۰۸. مسعودی، تنبیه، ج۱، ص۳۰۳۔
۱۰۹. ناطق ‌بالحقیحیی ‌بن حسین، الافاده فی تاریخ الائمة السادة، ج۱، ص۱۱۔
۱۱۰. ابوالفرج اصفهانی، علی بن حسین، مقاتل الطالبیین، ج۱، ص۴۰۵۔    
۱۱۱. ناطق ‌بالحق، یحیی ‌بن حسین، الافاده فی تاریخ الائمة السادة، ج۱، ص۱۱۔
۱۱۲. ابن سعد، طبقات الکبری، ج۶، ص۴۴۱۔
۱۱۳. ابوالفرج اصفهانی، علی بن حسین، مقاتل الطالبیین، ج۱، ص۵۱۔    
۱۱۴. دینوری، ابن ‌قتیبه، المعارف، ج۱، ص۲۱۳۔    
۱۱۵. بلاذری، احمد بن یحیی، انساب‌ الاشراف، ج۲، ص۵۱۲۔
۱۱۶. یعقوبی، تاریخ، ج۲، ص۲۴۶۔
۱۱۷. طبرانی، سلیمان ‌بن احمد، المعجم‌ الکبیر، ج۳، ص۱۱۵، امام کا سن مبارک ۵۶ سال لکھا ہے۔
۱۱۸. طبرسی، فضل‌ بن حسن، اعلام الوری باعلام الهدی، ج۱، ص۴۲۱، ۵۷ سال و پنج ماه، قم ۱۴۱۷۔    
۱۱۹. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۴۶۳، ۵۷سال و چند ماه۔    
۱۲۰. ابن ابی‌الثلج، فی تاریخ الائمةج۱، ص۸، ۵۷ سال۔
۱۲۱. مسعودی، ج۱، ص۳۰۳، ۵۷ سال، تنبیه۔
۱۲۲. ابن سعد، طبقات الکبری، ج۶، ص۴۴۱۔
۱۲۳. دینوری، ابن ‌قتیبه، المعارف، ج۱، ص۲۱۳۔    
۱۲۴. طبرانی، سلیمان ‌بن احمد، المعجم‌ الکبیر، ج۳، ص۹۸ـ۹۹۔
۱۲۵. طبرانی، سلیمان ‌بن احمد، المعجم‌ الکبیر، ج۳، ص۱۰۳۔
۱۲۶. طبرانی، سلیمان ‌بن احمد، المعجم‌ الکبیر، ج۳، ص۱۰۵۔
۱۲۷. طوسی، محمد بن حسن، تهذیب ‌الاحکام، ج۶، ص۴۱۴۲۔    
۱۲۸. مزی، یوسف‌ بن عبدالرحمان، تهذیب الکمال فی اسماء الرجال، ج۶، ص۴۴۵ـ۴۴۶۔
۱۲۹. ابن سعد، طبقات الکبری، ج۶، ص۳۹۹۔
۱۳۰. ابن ابی‌الثلج، فی تاریخ الائمة، ج۱، ص۸۔
۱۳۱. طبری، محمد بن جریر، دلائل الامامة، ج۱، ص۱۷۷۔    
۱۳۲. ابن سعد، طبقات الکبری، ج۶، ص۴۰۱۔
۱۳۳. ابن ‌ماجه، سنن ابن‌ماجة، ج۱، ص۲۱۶۔
۱۳۴. طبرانی، سلیمان ‌بن احمد، المعجم‌ الکبیر، ج۳، ص۶۵۔
۱۳۵. ابن‌حنبل، مسند الامام احمد بن حنبل، ج۵، ص۳۵۴۔
۱۳۶. ابن ‌ماجه، سنن ابن‌ماجة، ج۲، ص۱۱۹۰۔
۱۳۷. ترمذی، محمد بن عیسی، سنن‌ الترمذی، ج۵، ص۳۲۴۔
۱۳۸. آل‌عمران/سوره۳، آیه۶۱۔    
۱۳۹. صدوق، محمد بن علی، عیون اخبار الرضا، ج۱، ص۲۳۱ـ۲۳۲۔
۱۴۰. ابن سعد، طبقات الکبری، ج۶، ص۴۰۶ـ۴۰۷۔
۱۴۱. مسلم‌ بن حجاج، الجامع‌ الصحیح، ج۷، ص۱۲۰ـ۱۲۱، بیروت: دارالفکر۔
۱۴۲. صدوق، محمد بن علی، عیون اخبار الرضا، ج۱، ص۸۵۔
۱۴۳. مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفة حجج‌ اللّه علی‌العباد، ج۱، ص۱۶۸۔    
۱۴۴. نمیری، ابن‌ شبّه، تاریخ المدینة المنورة: اخبار المدینة النبویة، ج۳، ص۷۹۸ـ۷۹۹۔
۱۴۵. ابن سعد، طبقات الکبری، ج۶، ص۴۰۷۔
۱۴۶. بلاذری، احمد بن یحیی، فتوح‌ البلدان، ج۱، ص۴۶۷۔
۱۴۷. طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری، ج۴، ص۲۶۹۔    
۱۴۸. دانشنامه جهان اسلام، ذیل حسن بن علی۔
۱۴۹. مسعودی، المروج، ج۳، ص۸۴۔
۱۵۰. ابن ابی‌الحدید، شرح نهج‌البلاغة، ج۸، ص۲۵۳۔    
۱۵۱. مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۲۲، ص۴۱۲۴۱۳۔    
۱۵۲. نعیم‌ بن حمّاد، الفتن، ج۱، ص۸۴۸۵۔    
۱۵۳. نمیری، ابن‌ شبّه، تاریخ المدینة المنورة:اخبار المدینة النبویة، ج۳، ص۱۱۳۱۔    
۱۵۴. دینوری، ابن ‌قتیبه، الامامة و السیاسة، ج۱، ص۵۸۔
۱۵۵. دینوری، ابن ‌قتیبه، الامامة و السیاسة، ج۱، ص۶۲۔
۱۵۶. مسعودی، المروج، ج ۳، ص ۸۹، کہ اس زخمی ہونے کو امام حسنؑ کی طرف نسبت دی ہے۔
۱۵۷. بلاذری، احمد بن یحیی، انساب‌ الاشراف، ج۲، ص۱۸۷۔
۱۵۸. بلاذری، احمد بن یحیی، انساب‌ الاشراف، ج۲، ص۲۱۳۔
۱۵۹. بلاذری، احمد بن یحیی، انساب‌ الاشراف، ج۲، ص۲۴۶۔
۱۶۰. بلاذری، احمد بن یحیی، انساب‌ الاشراف، ج۲، ص۳۲۳۔
۱۶۱. مسعودی، المروج، ج۳، ص۱۰۴ـ۱۱۴۔
۱۶۲. مسعودی، المروج، ج۳، ص۱۳۶۔
۱۶۳. نصر بن مزاحم، وقعة صفّین، ج۱، ص۱۱۴۱۱۵۔    
۱۶۴. نمیری، ابن‌ شبّه، تاریخ المدینة المنورة:اخبار المدینة النبویة، ج۱، ص۲۲۷۔    
۱۶۵. سید رضی، نهج‌البلاغه۔
۱۶۶. بلاذری، احمد بن یحیی، انساب‌الاشراف، ج۲، ص۳۵۶۔
۱۶۷. بلاذری، احمد بن یحیی، انساب‌ الاشراف، ج۲، ص۳۵۷۔
۱۶۸. دینوری، ابن ‌قتیبه، الامامة و السیاسة، ج۱، ص۱۸۱۔
۱۶۹. بلاذری، احمد بن یحیی، انساب‌ الاشراف، ج۲، ص۳۵۵ـ ۳۵۶۔
۱۷۰. مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفة حجج‌ اللّه علی‌ العباد، ج۱، ص۲۵۔    
۱۷۱. مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۴۲، ص۲۳۴-۲۳۵۔    
۱۷۲. مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۴۲، ص۲۹۴ ۲۹۵۔    
۱۷۳. ابن ابی‌الثلج، فی تاریخ الائمة، ج۱، ص۸۔
۱۷۴. طبری، محمد بن جریر، دلائل الامامة، ج۱، ص۱۵۹۔    
۱۷۵. طبری، محمد بن جریر، دلائل الامامة، ج۱، ص۱۷۷۔    
۱۷۶. بلاذری، احمد بن یحیی، انساب‌ الاشراف، ج۲، ص۳۹۳۔
۱۷۷. بلاذری، احمد بن یحیی، انساب‌ الاشراف، ج۲، ص۴۵۶۔
۱۷۸. کوفی، ابن‌ اعثم، الفتوح، ج۴، ص۲۸۹ـ۲۹۰۔
۱۷۹. کوفی، ابن‌ اعثم، الفتوح، ج۴، ص۲۹۲۔
۱۸۰. بلاذری، احمد بن یحیی، انساب‌ الاشراف، ج۲، ص۴۵۷ـ۴۵۸۔
۱۸۱. ابن سعد، طبقات الکبری، ج۶، ص۴۱۰ـ۴۱۵۔
۱۸۲. حرّ عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعه، ج۸، ص۳۰۹۳۱۸۔    
۱۸۳. طبرسی، احمد بن علی، الاحتجاج، ج۲، ص۲۳۔    
۱۸۴. ابن سعد، طبقات الکبری، ج۶، ص۴۰۹ـ۴۱۰۔
۱۸۵. ابن سعد، طبقات الکبری، ج۶، ص۴۱۵۔
۱۸۶. ابن سعد، طبقات الکبری، ج۶، ص۴۰۹ـ۴۱۰۔
۱۸۷. ابن سعد، طبقات الکبری، ج۶، ص۴۱۵۔
۱۸۸. دانشنامه جهان اسلام، ذیل حسن ‌بن علی۔
۱۸۹. ابن سعد، طبقات الکبری، ج۶، ص۴۱۴ـ۴۱۵۔
۱۹۰. ابن سعد، طبقات الکبری، ج۶، ص۴۱۳۔
۱۹۱. ابن ابی‌شیبه، المصنَّف فی الاحادیث و الآثار، ج۲، ص۱۷۴۔
۱۹۲. دانشنامه جهان اسلام، ذیل حسن ‌بن علی، امام امام۔
۱۹۳. یعقوبی، تاریخ، ج۲، ص۲۲۶۔
۱۹۴. ، ابن سعد، طبقات الکبری، ج۶، ص۴۰۹۔
۱۹۵. ابن سعد، طبقات الکبری، ج۶، ص۴۱۴ـ۴۱۵۔
۱۹۶. ابن سعد، طبقات الکبری، ج۶، ص۴۲۲ـ۴۲۳۔
۱۹۷. بلاذری، احمد بن یحیی، انساب‌ الاشراف، ج۲، ص۴۵۸ـ۴۵۹۔
۱۹۸. مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفة حجج‌ اللّه علی‌ العباد، ج۲، ص۳۲۔    
۱۹۹. ابن سعد، طبقات الکبری، ج۶، ص۴۲۲ـ۴۲۳۔
۲۰۰. بلاذری، احمد بن یحیی، انساب‌ الاشراف، ج۲، ص۴۵۹ـ۴۶۰۔
۲۰۱. بلاذری، احمد بن یحیی، انساب‌ الاشراف، ج۲، ص۴۶۰۔
۲۰۲. ابن سعد، طبقات الکبری، ج۶، ص۴۱۴۔
۲۰۳. ابن سعد، طبقات الکبری، ج۶، ص۴۲۲۔
۲۰۴. یعقوبی، تاریخ، ج۲، ص۲۲۸۔
۲۰۵. کوفی، ابن‌ اعثم، الفتوح، ج۴، ص۳۳۷ـ۳۳۹۔
۲۰۶. کوفی، ابن‌ اعثم، الفتوح، ج۴، ص۳۴۲ـ۳۴۳۔
۲۰۷. طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری، ج۵، ص۳۰۳۔    
۲۰۸. کوفی، ابن‌ اعثم، الفتوح، ج۴، ص۳۳۹۔
۲۰۹. ابن سعد، طبقات الکبری، ج۶، ص۴۲۳۔
۲۱۰. طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری، ج۵، ص۳۲۲۔    
۲۱۱. کوفی، ابن‌ اعثم، الفتوح، ج۴، ص۳۴۹ـ۳۵۰۔
۲۱۲. صدوق، محمد بن علی، الامالی، ج۱، ص۲۱۵۲۱۶۔    
۲۱۳. بلاذری، احمد بن یحیی، انساب‌ الاشراف، ج۲، ص۳۶۶۔
۲۱۴. بلاذری، احمد بن یحیی، انساب‌ الاشراف، ج۲، ص۴۵۳۔
۲۱۵. دولابی، محمد بن احمد، الذریة الطاهرة، ص۷۱۔    
۲۱۶. طبرانی، سلیمان ‌بن احمد، المعجم‌ الکبیر، ج۳، ص۹۵۔
۲۱۷. ناطق ‌بالحق، یحیی ‌بن حسین، الافاده فی تاریخ الائمة السادة، ج۱، ص۱۱۔
۲۱۸. مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفة حجج‌ اللّه علی‌العباد، ج۲، ص۲۷۔    
۲۱۹. ابن‌حنبل، مسند الامام احمد بن حنبل، ج۳، ص۲۶۱۔
۲۲۰. بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح بخاری، ج۴، ص۲۱۶۔
۲۲۱. ترمذی، محمد بن عیسی، سنن‌ الترمذی، ج۵، ص۳۲۵۔
۲۲۲. ابن سعد، طبقات الکبری، ج۶، ص۴۱۳۔
۲۲۳. بلاذری، احمد بن یحیی، انساب‌ الاشراف، ج۲، ص۱۲۳۔
۲۲۴. ناطق ‌بالحق، یحیی ‌بن حسین، الافاده فی تاریخ الائمة السادة، ج۱، ص۱۱۔
۲۲۵. ابن سعد، طبقات الکبری، ج۶، ص۴۱۵۔
۲۲۶. ابن ابی‌شیبه، المصنَّف فی الاحادیث و الآثار، ج۶، ص۴۶۔
۲۲۷. طبرانی، سلیمان ‌بن احمد، المعجم‌ الکبیر، ج۳، ص۱۰۰۔
۲۲۸. ابن سعد، طبقات الکبری، ج۶، ص۴۱۳ـ ۴۱۷۔
۲۲۹. ابن ابی‌شیبه، المصنَّف فی الاحادیث و الآثار، ج۶، ص۳۔
۲۳۰. ابن ابی‌شیبه، المصنَّف فی الاحادیث و الآثار، ج۶، ص۱۵۔
۲۳۱. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۶، ص۴۷۳۴۷۴۔    
۲۳۲. صدوق، محمد بن علی، الامالی، ج۱، ص۱۹۳۔    
۲۳۳. صدوق، محمد بن علی، الامالی، ج۱، ص۱۹۴۔
۲۳۴. صدوق، محمد بن علی، الامالی، ج۱، ص۵۴۳۔    
۲۳۵. ابن سعد، طبقات الکبری، ج۶، ص۴۱۰۔
۲۳۶. طبرانی، سلیمان ‌بن احمد، المعجم‌الکبیر، ج۳، ص۱۱۵۔
۲۳۷. ابن عبدالبرّ، الاستیعاب فی معرفة الاصحاب، ج۱، ص۳۹۷۔
۲۳۸. ابن سعد، طبقات الکبری، ج۶، ص۴۱۳۔
۲۳۹. کوفی، ابن‌ اعثم، الفتوح، ج۳، ص۴۰۔
۲۴۰. ابن سعد، طبقات الکبری، ج۶، ص۴۰۸۔
۲۴۱. ابن ابی‌شیبه، المصنَّف فی الاحادیث و الآثار، ج۷، ص۲۶۹۔
۲۴۲. اربلی، علی ‌بن عیسی، کشف الغمة فی معرفة الائمة علیھم‌ السلام، ج۲، ص۴۸۱۔
۲۴۳. مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۴۳، ص۳۱۹۔    
۲۴۴. ابن ‌شهرآشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی‌طالب، ج۴، ص۷۴۔
۲۴۵. ابن ‌شهرآشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی‌طالب، ج۴، ص۷۳۔
۲۴۶. ابن‌ عساکر، تاریخ مدینة دمشق، ج۱۴، ص۱۸۵۔    
۲۴۷. ابن‌ عساکر، تاریخ مدینة دمشق، ج۷۰، ص۱۹۶۱۹۷۔    
۲۴۸. ابن‌حزم، المُحَلّی، ج۸، ص۵۱۵۔
۲۴۹. اربلی، علی ‌بن عیسی، کشف الغمة فی معرفة الائمة علیھم‌ السلام، ج۲، ص۴۷۶۔
۲۵۰. اربلی، علی ‌بن عیسی، کشف الغمة فی معرفة الائمة علیھم‌ السلام، ج۲، ص۴۷۸ـ۴۷۹۔
۲۵۱. ابن ‌شهرآشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی‌طالب، ج۴، ص۷۲ـ۷۳۔
۲۵۲. قاضی نعمان، نعمان ‌بن محمد، دعائم الاسلام و ذکر الحلال و الحرام و القضایا و الاحکام، ج۲، ص۳۳۹۔
۲۵۳. مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۴۴، ص۱۹۶۔    
۲۵۴. ابن ابی‌الدنیا، مکارم‌ الاخلاق، ج۱، ص۱۴۰۔    
۲۵۵. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۴، ص۴۷۔    
۲۵۶. صدوق، محمد بن علی، الخصال، ج۱، ص۱۳۵۱۳۶۔    
۲۵۷. ابن ‌شهرآشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی‌طالب، ج۴، ص۸۳۔
۲۵۸. ابن ‌شهرآشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی‌طالب، ج۴، ص۷۳ـ۷۴۔
۲۵۹. ابن‌ عساکر، تاریخ مدینة دمشق، ج۴۳، ص۲۲۴۲۲۵۔    
۲۶۰. ابن ‌شهرآشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی‌طالب، ج۴، ص۷۳۔
۲۶۱. قاضی نعمان، نعمان ‌بن محمد، دعائم الاسلام و ذکر الحلال و الحرام و القضایا و الاحکام، ج۱، ص۳۷۔
۲۶۲. صدوق، محمد بن علی، علل‌الشرایع، ج۱، ص۲۱۱۔    
۲۶۳. رازی، علی‌ بن محمد، کفایة الاثر فی‌ النص علی‌ الائمة الاثنی‌ عشر، ج۱، ص۱۱۷۔    
۲۶۴. مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفة حجج‌ اللّه علی‌ العباد، ج۲، ص۳۰۔    
۲۶۵. ، کمال‌ الدین و تمام النعمة، ج۱، ص۲۵۷۲۵۸۔    
۲۶۶. رازی، علی‌ بن محمد، کفایة الاثر فی‌ النص علی‌ الائمة الاثنی‌ عشر، ج۱، ص۱۳۱۴۔    
۲۶۷. رازی، علی‌ بن محمد، کفایة الاثر فی‌ النص علی‌ الائمة الاثنی‌ عشر، ج۱، ص۲۳۔    
۲۶۸. رازی، علی‌ بن محمد، کفایة الاثر فی‌ النص علی‌ الائمة الاثنی‌ عشر، ج۱، ص۲۸۲۹۔    
۲۶۹. رازی، علی‌ بن محمد، کفایة الاثر فی‌ النص علی‌ الائمة الاثنی‌ عشر، ج۱، ص۲۱۷۔    
۲۷۰. رازی، علی‌ بن محمد، کفایة الاثر فی‌ النص علی‌ الائمة الاثنی‌ عشر، ج۱، ص۲۲۱۲۲۳۔    
۲۷۱. کوفی، ابن‌ اعثم، الفتوح، ج۴، ص۳۱۹۔
۲۷۲. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۳۰۱۳۰۲۔    
۲۷۳. رازی، علی‌ بن محمد، کفایة الاثر فی‌ النص علی‌ الائمة الاثنی‌ عشر، ج۱، ص۲۲۹۔    
۲۷۴. طبرسی، فضل‌ بن حسن، اعلام الوری باعلام الهدی، ج۱، ص۴۲۲۔    
۲۷۵. طبرسی، فضل‌ بن حسن، ج۱، ص۴۲۴، اعلام الوری باعلام الهدی۔    
۲۷۶. مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفة حجج‌ اللّه علی‌ العباد، ج۲، ص۳۰۳۱۔    
۲۷۷. طبرسی، فضل‌ بن حسن، اعلام الوری باعلام الهدی، ج۱، ص۴۲۳۴۲۴۔    
۲۷۸. صدوق، محمد بن علی، الامالی، ج۱، ص۴۲۵۔    
۲۷۹. صدوق، محمد بن علی، التوحید، ج۱، ص۳۰۷۳۰۸۔    
۲۸۰. صدوق، محمد بن علی، التوحید، ج۱، ص۸۰۔    
۲۸۱. ابن‌ عساکر، تاریخ مدینة دمشق، ج۱۴، ص۱۷۴۔    
۲۸۲. ابن‌ عساکر، تاریخ مدینة دمشق، ج۱۴، ص۱۸۰۔    
۲۸۳. ابن‌ عساکر، تاریخ مدینة دمشق، ج۱۴، ص۱۸۳۱۸۴۔    
۲۸۴. صدوق، محمد بن علی، عیون اخبار الرضا، ج۱، ص۶۸۔
۲۸۵. رازی، علی‌ بن محمد، کفایة الاثر فی‌ النص علی‌ الائمة الاثنی‌ عشر، ج۱، ص۲۳۰۲۳۴۔    
۲۸۶. طبرسی، فضل‌ بن حسن، اعلام الوری باعلام الهدی، ج۱، ص۴۲۴۔    
۲۸۷. صفار قمی، محمد بن حسن، بصائر الدرجات الکبری فی فضائل آل محمد (ع)، ج۱، ص۲۹۱۔    
۲۸۸. صدوق، محمد بن علی، کمال‌ الدین و تمام النعمة، ج۲، ص۵۳۷۔    
۲۸۹. طوسی، محمد بن حسن، تهذیب ‌الاحکام، ج۵، ص۴۷۰۔    
۲۹۰. سعید بن هبةاللّه قطب راوندی، الخرائج و الجرائح، ج۱، ص۲۴۵۲۴۶، قم ۱۴۰۹۔    
۲۹۱. طبری، محمد بن جریر، دلائل الامامة، ج۱، ص۱۸۱۱۸۳۔    
۲۹۲. طبری، محمد بن جریر، دلائل الامامة، ج۱، ص۱۸۶۔    
۲۹۳. طبری، محمد بن جریر، دلائل الامامة، ج۱، ص۱۸۸۱۸۹۔    
۲۹۴. ابن‌ عساکر، تاریخ مدینة دمشق، ج۱۴، ص۸۲۔
۲۹۵. ابن ‌شهرآشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی‌طالب، ج۴، ص۵۷۔
۲۹۶. ابن ‌شهرآشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی‌طالب، ج۴، ص۵۹ـ۶۰۔
۲۹۷. مجلسی، بحار الانوار، ج۴۴، ص۱۸۵۱۸۶۔    
۲۹۸. بحرانی، هاشم ‌بن سلیمان، مدینة المعاجز، ج۲، ص۸۳۲۳۰۔    
۲۹۹. دانشنامه جهان اسلام، ذیل حبابه والبیه۔
۳۰۰. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۴۶۵۔    
۳۰۱. صدوق، محمد بن علی، علل‌الشرایع، ج۱، ص۲۰۶۔    
۳۰۲. طبری، محمد بن جریر، دلائل الامامة، ج۱، ص۱۷۷۔    
۳۰۳. صدوق، محمد بن علی، کمال‌ الدین و تمام النعمة، ج۱، ص۴۶۱۔    
۳۰۴. ابن ‌شهرآشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی‌طالب، ج۴، ص۹۲۔
۳۰۵. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۴۶۴۔    
۳۰۶. صدوق، محمد بن علی، کمال‌ الدین و تمام النعمة، ج۱، ص۲۸۲۲۸۴۔    
۳۰۷. طبری، محمد بن جریر، دلائل الامامة، ج۱، ص۱۹۰۔    
۳۰۸. ابن ‌شهرآشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی‌طالب، ج۴، ص۸۲۔
۳۰۹. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۴۶۴۔    
۳۱۰. صدوق، محمد بن علی، علل‌ الشرایع، ج۱، ص۲۰۵۲۱۰۔    
۳۱۱. صدوق، محمد بن علی، الخصال، ج۱، ص۳۰۵۔    
۳۱۲. بحرانی، عبداللّه ‌بن نوراللّه، عوام‌ العلوم و المعارف و الاحوال من الآیات و الاخبار و الاقوال، ج۱۷، ص۱۱۳ـ۱۳۳۔
۳۱۳. ابن سعد، طبقات الکبری، ج۶، ص۴۱۷ـ۴۱۹۔
۳۱۴. ابن‌حنبل، مسند الامام احمد بن حنبل، ج۶، ص۲۹۴۔
۳۱۵. قمی، ابن‌ قولویه، کامل‌الزیارات، ج۱، ص۱۳۲۔
۳۱۶. ابن ‌شهرآشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی‌طالب، ج۴، ص۶۳۔
۳۱۷. صفار قمی، محمد بن حسن، بصائر الدرجات الکبری فی فضائل آل محمد (ع)، ج۱، ص۶۸۔    
۳۱۸. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۲۰۹۔    
۳۱۹. قمی، ابن‌ قولویه، کامل‌الزیارات، ج۱، ص۱۴۳ـ۱۴۸۔
۳۲۰. صدوق، محمد بن علی،، الامالی، ج۱، ص۸۹۔    
۳۲۱. نصر بن مزاحم، وقعة صفّین، ج۱، ص۱۴۲۔    
۳۲۲. ابن سعد، طبقات الکبری، ج۶، ص۴۱۹ـ۴۲۰۔
۳۲۳. قمی، ابن‌ قولویه، کامل‌الزیارات، ج۱، ص۱۴۹ـ۱۵۶۔
۳۲۴. صدوق، محمد بن علی، الامالی، ج۱، ص۱۷۷۱۷۸۔    
۳۲۵. صدوق، محمد بن علی، الامالی، ج۱، ص۱۹۶۱۹۷۔    
۳۲۶. صدوق، محمد بن علی، کمال‌ الدین و تمام النعمة، ج۱، ص۲۵۹۲۶۰۔    
۳۲۷. صدوق، محمد بن علی، کمال‌ الدین و تمام النعمة، ج۲، ص۵۳۲۵۳۵۔    
۳۲۸. مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفة حجج‌ اللّه علی‌ العباد، ج۱، ص۳۳۰۳۳۱۔    
۳۲۹. ابن ‌شهرآشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی‌طالب، ج۴، ص۹۳ـ۹۴۔
۳۳۰. امینی، عبدالحسین، سیرتنا و سنتنا: سیرة نبینا صلی‌اللّه علیه وآله و سنته، ج۱، ص۴۹ـ۱۵۰۔
۳۳۱. بحرانی، عبداللّه ‌بن نوراللّه، عوام‌ العلوم و المعارف و الاحوال من الآیات و الاخبار و الاقوال، ج۱۷، ص۱۰۱ـ۱۱۲۔
۳۳۲. صدوق، محمد بن علی، کامل‌ الزیارات، ج۱، ص۱۷۱ـ۱۷۲۔
۳۳۳. صدوق، محمد بن علی، کامل‌ الزیارات، ج۱، ص۳۵۴۔
۳۳۴. صدوق، محمد بن علی، کمال‌ الدین و تمام النعمة، ج۲، ص۶۷۲۔    
۳۳۵. طبری، محمد بن جریر، دلائل الامامة، ج۱، ص۱۷۸۔    
۳۳۶. دانشنامه جهان اسلام، ذیل جری و انطباق۔
۳۳۷. احقاف/سوره۴۶، آیه۱۵۔    
۳۳۸. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۴۶۴۔    
۳۳۹. صدوق، محمد بن علی، کامل‌ الزیارات، ج۱، ص۱۲۲۔
۳۴۰. صدوق، محمد بن علی، علل‌ الشرایع، ج۱، ص۲۰۶۔    
۳۴۱. ابن ‌شهرآشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی‌طالب، ج۴، ص۵۷۔
۳۴۲. قمی، علی‌ بن ابراهیم، تفسیر القمی، ج۲، ص۲۹۷۔    
۳۴۳. مریم/سوره۱۹، آیه۱۔    
۳۴۴. قمی، علی‌ بن ابراهیم، تفسیر القمی، ج۲، ص۴۸۔    
۳۴۵. صدوق، محمد بن علی، کمال‌ الدین و تمام النعمة، ج۲، ص۴۶۱۔    
۳۴۶. صدوق، محمد بن علی، معانی الاخبار، ج۱، ص۲۲۔    
۳۴۷. طبری، محمد بن جریر، دلائل الامامة، ج۱، ص۵۱۳۵۱۴۔    
۳۴۸. طبرسی، احمد بن علی، الاحتجاج، ج۲، ص۲۷۲ ۲۷۳۔    
۳۴۹. ابن ‌شهرآشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی‌طالب، ج۴، ص۹۲۔
۳۵۰. طبرسی، فضل‌ بن حسن، مجمع‌ البیان فی تفسیرالقرآن، ذیل آیه۔
۳۵۱. صدوق، محمد بن علی، کمال‌ الدین و تمام النعمة، ص۴۶۱۔    
۳۵۲. طبری، محمد بن جریر، دلائل الامامة، ج۱، ص۵۱۳۵۱۴۔    
۳۵۳. طبرسی، احمد بن علی، الاحتجاج، ج۲، ص۲۷۲ ۲۷۳۔    
۳۵۴. ابن ‌شهرآشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی‌طالب، ج۴، ص۹۲۔
۳۵۵. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۲۸۷۲۸۸۔    
۳۵۶. صدوق، محمد بن علی، کمال‌ الدین و تمام النعمة، ج۱، ص۳۲۳۔    
۳۵۷. صدوق، محمد بن علی، کمال‌ الدین و تمام النعمة، ج۲، ص۴۱۴۔    
۳۵۸. ابن ‌شهرآشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی‌طالب، ج۴، ص۵۴۔
۳۵۹. عیاشی، محمد بن مسعود، التفسیر، ج۱، ص۲۵۱۔    
۳۶۰. معیاشی، حمد بن مسعود، التفسیر، ج۲، ص۷۲۔    
۳۶۱. زخرف/سوره۴۳، آیه۲۸۔    
۳۶۲. صدوق، محمد بن علی، علل‌الشرایع، ج۱، ص۲۰۷۔
۳۶۳. صدوق، محمد بن علی، کمال‌ الدین و تمام النعمة، ج۱، ص۳۲۳۔    
۳۶۴. صدوق، محمد بن علی، کمال‌ الدین و تمام النعمة، ج۲، ص۳۵۹۔    
۳۶۵. صدوق، محمد بن علی، کمال‌ الدین و تمام النعمة، ج۲، ص۴۱۵۔    
۳۶۶. صدوق، محمد بن علی، کمال‌ الدین و تمام النعمة، ج۲، ص۴۱۷۔    
۳۶۷. ابن ‌شهرآشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی‌طالب، ج۴، ص۵۳ـ۵۴۔
۳۶۸. طبرسی، فضل‌ بن حسن، مجمع‌ البیان فی تفسیر القرآن، ذیل آیه۔
۳۶۹. طباطبائی، محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ذیل آیه۔
۳۷۰. نساء/سوره۴، آیه۷۷۔    
۳۷۱. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۸، ص۳۳۰۔    
۳۷۲. عیاشی، محمد بن مسعود، التفسیر، ج۱، ص۲۵۸۔    
۳۷۳. عیاشی، محمد بن مسعود، التفسیر، ج۲، ص۲۳۵۔    
۳۷۴. اسراء/سوره۱۷، آیه۳۳۔    
۳۷۵. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۸، ص۲۵۵۔    
۳۷۶. قمی، ابن‌ قولویه، کامل‌ الزیارات، ج۱، ص۱۳۵۔
۳۷۷. عیاشی، محمد بن مسعود، التفسیر، ج۲، ص۲۹۰۔    
۳۷۸. کوفی، فرات ‌بن ابراهیم، تفسیر فرات‌ الکوفی، ج۱، ص۲۴۰۔    
۳۷۹. فجر/سوره۸۹، آیه۲۷-۳۰۔    
۳۸۰. قمی، علی‌ بن ابراهیم، تفسیر القمی، ج۲، ص۴۲۲۔    
۳۸۱. مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۲۴، ص۹۳۔    
۳۸۲. صدوق، محمد بن علی، ثواب الاعمال و عقاب الاعمال، ج۱، ص۱۲۳۔    
۳۸۳. طبرسی، فضل‌ بن حسن، مجمع‌ البیان فی تفسیر القرآن، ج۱۰، ص۷۳۰۔
۳۸۴. ابن سعد، طبقات الکبری، ج۸، ص۴۷۵۔    
۳۸۵. بلاذری، احمد بن یحیی، انساب‌ الاشراف، ج۲، ص۱۳۹۔
۳۸۶. ابوالفرج اصفهانی، علی بن حسین، الاغانی، ج۱۶، ص۱۳۹ـ ۱۴۱۔
۳۸۷. ابن‌ حزم، جمهرة انساب العرب، ج۱، ص۴۵۷۔
۳۸۸. زبیری، مُصْعَب ‌بن عبداللّه، نسب قریش، ج۱، ص۵۹۔
۳۸۹. ابوالفرج اصفهانی، علی بن حسین، مقاتل الطالبیین، ج۱، ص۵۹۔    
۳۹۰. مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفة حجج‌ اللّه علی‌ العباد، ج۲، ص۱۳۵۔    
۳۹۱. ابوالفرج اصفهانی، علی بن حسین، الاغانی، ج۱۶، ص۱۴۱۔
۳۹۲. ذهنی، محمد، خیرات حسان، ج۱، ص۱۴۱ـ۱۴۲۔
۳۹۳. زبیری، مُصْعَب ‌بن عبداللّه، نسب قریش، ج۱، ص۵۹۔
۳۹۴. ابن‌ حبیب، کتاب لمُحَبَّر، ج۱، ص۳۹۶ـ۳۹۷۔
۳۹۵. دینوری، ابن ‌قتیبه، المعارف، ج۱، ص۲۱۳۔    
۳۹۶. ابوالفرج اصفهانی، علی بن حسین، مقاتل الطالبیین، ج۱۶، ص۱۳۹۔
۳۹۷. ابن‌ طاووس، علی بن موسی، اللهوف فی قتلی الطفوف، ج۱، ص۵۰۔    
۳۹۸. ابوالفرج اصفهانی، علی بن حسین، مقاتل الطالبیین، ج۱۶، ص۱۴۲۔
۳۹۹. ابن‌ حبیب، کتاب لمُحَبَّر، ج۱، ص۳۹۶ـ۳۹۷۔
۴۰۰. ابن‌ عساکر، تاریخ مدینة دمشق، ج۶۹، ص۱۲۰۔    
۴۰۱. سبط ابن‌ جوزی، تذکرة الخواص، ج۱، ص۲۳۸۔
۴۰۲. ابن‌ کثیر، البدایة و النهایة، ج۸، ص۲۲۹۔
۴۰۳. زبیری، مُصْعَب ‌بن عبداللّه، نسب قریش، ج۱، ص۵۷۔
۴۰۴. یعقوبی، تاریخ، ج۲، ص۲۴۶ـ۲۴۷۔
۴۰۵. طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری، ج۵، ص۴۴۶۔    
۴۰۶. طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری، ج۵، ص۴۶۸۔    
۴۰۷. دینوری، ابن ‌قتیبه، المعارف، ج۱، ص۲۱۳۔    
۴۰۸. قاضی نعمان، نعمان ‌بن محمد، شرح الاخبار فی فضائل الائمة الاطهار، ج۳، جزء۱۲، ص۱۵۲۔
۴۰۹. زبیری، مُصْعَب ‌بن عبداللّه، نسب قریش، ج۱، ص۵۷۔
۴۱۰. زبیری، مُصْعَب ‌بن عبداللّه، نسب قریش، ج۱، ص۵۷۔    
۴۱۱. ابن سعد، طبقات الکبری، ج۳، ص۲۱۴۔    
۴۱۲. زبیری، مُصْعَب ‌بن عبداللّه، نسب قریش، ج۱، ص۲۸۲۔    
۴۱۳. ابن سعد، طبقات الکبری، ج۳، ص۲۱۴۔    
۴۱۴. زبیری، مُصْعَب ‌بن عبداللّه، نسب قریش، ج۱، ص۲۸۳-۲۸۲۔    
۴۱۵. دینوری، ابن ‌قتیبه، المعارف، ج۱، ص۲۳۳۔    
۴۱۶. ابوالفرج اصفهانی، علی بن حسین، الاغانی، ج۲۱، ص۱۱۴۔
۴۱۷. ابن سعد، طبقات الکبری، ج۳، ص۲۱۴۔    
۴۱۸. ابن‌ حبیب، کتاب لمُحَبَّر، ج۱، ص۶۶۔
۴۱۹. ابن سعد، طبقات الکبری، ج۳، ص۲۱۴۔    
۴۲۰. دینوری، ابن ‌قتیبه، المعارف، ج۱، ص۲۳۳۔    
۴۲۱. ابوالفرج اصفهانی، علی بن حسین، الاغانی، ج۲۱، ص۱۱۴۔
۴۲۲. ابن‌ حبیب، کتاب لمُحَبَّر، ج۱، ص۶۶۔
۴۲۳. زبیری، مُصْعَب ‌بن عبداللّه، نسب قریش، ج۱، ص۵۹۔    
۴۲۴. مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفة حجج‌ اللّه علی‌ العباد، ج۲، ص۱۳۵۔    
۴۲۵. بیهقی، علی ‌بن زید، لباب الأنساب و الألقاب و الأعقاب، ج۱، ص۳۴۹۔
۴۲۶. ابن شهر آشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی‌طالب، ج۴، ص۷۷۔
۴۲۷. ابن شهر آشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی‌طالب، ج۴، ص۱۱۳۔
۴۲۸. سبط ابن‌ جوزی، تذکرة الخواص، ج۱، ص۲۴۹۔
۴۲۹. سبط ابن‌ جوزی، تذکرة الخواص، ج۱، ص۲۴۹۔
۴۳۰. زبیری، مُصْعَب ‌بن عبداللّه، نسب قریش، ج۱، ص۵۷ ۵۹۔    
۴۳۱. بخاری، سهل‌ بن عبداللّه، سرّ السلسلة العلویة، ج۱، ص۳۰۔
۴۳۲. مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفة حجج‌ اللّه علی‌العباد، ج۲، ص۱۳۵۔    
۴۳۳. طبری، محمد بن جریر، دلائل الامامة، ج۱، ص۷۴۔
۴۳۴. ابن شهر آشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی‌طالب، ج۴، ص۷۷۔
۴۳۵. شافعی، ابن‌ طلحه، مطالب السؤول فی مناقب ال الرسول، ج۲، ص۶۹۔
۴۳۶. زبیری، مُصْعَب ‌بن عبداللّه، نسب قریش، ج۱، ص۵۹۔    
۴۳۷. بلاذری، احمد بن یحیی، انساب‌ الاشراف، ج۲، ص۴۹۸۔
۴۳۸. طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری، ج۵، ص۴۴۸۔    
۴۳۹. طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری، ج۵، ص۴۶۸۔    
۴۴۰. بخاری، سهل‌ بن عبداللّه، سرّ السلسلة العلویة، ج۱، ص۳۰۔
۴۴۱. خوارزمی، موفق‌ بن احمد، مقتل الحسین علیہ ‌السلام، ج۲، ص۳۷۔
۴۴۲. ابن شهر آشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی‌طالب، ج۴، ص۱۰۹۔
۴۴۳. اربلی، علی‌ بن عیسی، کشف الغمة فی معرفة الائمة، ج۲، ص۲۵۰۔
۴۴۴. ابن ‌طقطقی، الاصیلی فی انساب الطّالبیین، ج۱، ص۱۴۳۔
۴۴۵. ابن ‌صباغ، الفصول المهمة فی معرفة احوال الائمة علیھم‌ السلام، ج۱، ص۱۹۶۔
۴۴۶. شَبراوی شافعی، عبداللّه ‌بن محمد، الاتحاف بحب الاشراف، ج۱، ص۱۳۰۔
۴۴۷. ابن شهر آشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی‌طالب، ج۴، ص۱۰۹۔
۴۴۸. شافعی، ابن‌ طلحه، مطالب السؤول فی مناقب ال الرسول، ج۲، ص۶۹۔
۴۴۹. اربلی، علی‌ بن عیسی، کشف الغمة فی معرفة الائمة، ج۲، ص۲۵۰۔
۴۵۰. ابن ‌صباغ، الفصول المهمة فی معرفة احوال الائمة علیھم‌ السلام، ص ۱۹۶۔
۴۵۱. زبیری، مُصْعَب ‌بن عبداللّه، نسب قریش، ج۱، ص۵۹‌۔
۴۵۲. بخاری، سهل‌ بن عبداللّه، سرّ السلسلة العلویة، ج۱، ص۳۰۔
۴۵۳. مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفة حجج‌ اللّه علی‌ العباد، ج۲، ص۱۳۵۔
۴۵۴. طبری، محمد بن جریر، دلائل الامامة، ج۱، ص۷۴۔
۴۵۵. ابن شهر آشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی‌طالب، ج۴، ص۱۰۹۔
۴۵۶. شافعی، ابن‌ طلحه، مطالب السؤول فی مناقب ال الرسول، ج۲، ص۶۹۔
۴۵۷. اربلی، علی‌ بن عیسی، کشف الغمة فی معرفة الائمة، ج۲، ص۲۵۰۔
۴۵۸. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۶، ص۱۹۔    
۴۵۹. طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری، ج۵، ص۴۴۸۔    
۴۶۰. مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفة حجج‌ اللّه علی‌ العباد، ج۲، ص۱۰۸۔    
۴۶۱. خوارزمی، موفق‌ بن احمد، مقتل الحسین علیہ ‌السلام، ج۲، ص۳۷۔
۴۶۲. بلاذری، احمد بن یحیی، انساب‌الاشراف، ج۲، ص۴۹۸۔
۴۶۳. مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفة حجج‌ اللّه علی‌ العباد، ج۲، ص۱۳۵۔
۴۶۴. خوارزمی، موفق‌ بن احمد، مقتل الحسین علیہ ‌السلام، ج۲، ص۳۷۔
۴۶۵. طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری، ج۵، ص۴۶۸۔    
۴۶۶. خوارزمی، موفق‌ بن احمد، مقتل الحسین علیہ ‌السلام، ج۲، ص۳۷۔
۴۶۷. زبیری، مُصْعَب ‌بن عبداللّه، نسب قریش، ج۱، ص۵۹‌۔    
۴۶۸. مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفة حجج‌ اللّه علی‌ العباد، ج۲، ص۱۳۵۔    
۴۶۹. ابن شهر آشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی‌طالب، ج۴، ص۱۰۹۔
۴۷۰. ابن سعد، طبقات الکبری، ج۳، ص۲۱۴۔    
۴۷۱. زبیری، مُصْعَب ‌بن عبداللّه، نسب قریش، ج۱، ص۵۹۔    
۴۷۲. ابن‌ حبیب، کتاب لمُحَبَّر، ج۱، ص۴۰۴۔
۴۷۳. بخاری، سهل‌ بن عبداللّه، سرّ السلسلة العلویة، ج۱، ص۶۔
۴۷۴. ابوالفرج اصفهانی، علی بن حسین، مقاتل الطالبیین، ج۱، ص۱۲۲۔
۴۷۵. مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفة حجج‌ اللّه علی‌ العباد، ج۲، ص۲۵۔    
۴۷۶. صفار قمی، محمد بن حسن، بصائرالدرجات الکبری فی فضائل آل‌محمد (ع)، ج۱، ص۱۸۲۱۸۳۔    
۴۷۷. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۳۰۳۔    
۴۷۸. ابن‌ عساکر، تاریخ مدینة دمشق، ج۷۰، ص۱۰۔    
۴۷۹. مزی، یوسف‌ بن عبدالرحمان، تهذیب الکمال فی اسماء الرجال، ج۳۵، ص۲۵۴ـ۲۵۵۔
۴۸۰. ابن سعد، طبقات الکبری، ج۸، ص۴۷۳۔    
۴۸۱. بخاری، سهل‌ بن عبداللّه، سرّ السلسلة العلویة، ج۱، ص۶۔
۴۸۲. مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفة حجج‌ اللّه علی‌ العباد، ج۲، ص۱۲۱۔    
۴۸۳. طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری، ج۵، ص۴۶۴۔    
۴۸۴. قاضی نعمان، نعمان ‌بن محمد، شرح الاخبار فی فضائل الائمة الاطهار، ج۳، جزء۱۳، ص۲۶۸۔
۴۸۵. طبرسی، احمد بن علی، الاحتجاج، ج۲، ص۲۷۲۹۔    
۴۸۶. ابن سعد، طبقات الکبری، ج۸، ص۴۷۴۔    
۴۸۷. اندلسی، ابن حِبّان، کتاب الثقات، ج۵، ص۳۰۱۔
۴۸۸. ابن‌ عساکر، تاریخ مدینة دمشق، ج۷۰، ص۱۷۔    
۴۸۹. طبری، محمد بن جریر، دلائل الامامة، ج۱، ص۷۴۔
۴۹۰. ابن شهر آشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی‌طالب، ج۴، ص۱۰۹۔
۴۹۱. شافعی، ابن‌ طلحه، مطالب السؤول فی مناقب ال الرسول، ج۲، ص۶۹۔
۴۹۲. کاشفی، حسین ‌بن علی، روضة الشهداء، ج۱، ص۳۸۹ـ۳۹۰۔
۴۹۳. امین، ج۷، ص۳۴۔
۴۹۴. علوی‌شجری، محمد بن علی، فضل زیارة الحسین (علیہ السلام)، ج۱، ص۲۸۹۴۔    
۴۹۵. قمی، ابن‌ قولویه، کامل‌ الزیارات، ج۱، ص۲۲۰۔
۴۹۶. قمی، ابن‌ قولویه، کامل‌ الزیارات، ج۱، ص۴۳۹۔
۴۹۷. طوسی، محمد بن حسن، تهذیب ‌الاحکام، ج۶، ص۴۲ ۶۹۔    
۴۹۸. دانشنامه جهان اسلام، ذیل تربت۔
۴۹۹. موسوی، مصطفی، روائع الحکمة: بلاغة الامامین‌الحسن و الحسین (ع)، (اعداد)، ج۱، ص۲۷۲ـ۳۱۱۔
۵۰۰. سخنان حسین‌ بن علی (علیہما السلام) (از مدینه تا کربلا)۔
۵۰۱. ابن سعد، طبقات الکبری، ج۶، ص۴۱۲۔
۵۰۲. عطاردی‌قوچانی، عزیزاللّه، مسند الامام الشهید ابی‌ عبداللّه‌ الحسین‌ بن علی (علیہما‌ السلام)، ج۳، ص۱۴۳ـ۱۵۲۔
۵۰۳. عطاردی‌قوچانی، عزیزاللّه، مسند الامام الشهید ابی‌ عبداللّه‌ الحسین‌ بن علی (علیہما‌ السلام)، ج۳، ص۲۶۲ـ۳۱۱۔
۵۰۴. دینوری، احمد بن داوود، الاخبار الطِّوال، ج۱، ص۳۰۰۔
۵۰۵. کوفی، ابن‌ اعثم، الفتوح، ج۵، ص۱۱۷۔
۵۰۶. طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری، ج۵، ص۴۵۰۔    
۵۰۷. ابوالفرج اصفهانی، علی بن حسین، مقاتل الطالبیین، ج۱، ص۷۹۔    
۵۰۸. ابن ‌طاووس، علی بن موسی، اللهوف فی قتلی الحسین علیہ السلام، ج۱، ص۷۱۔
۵۰۹. ابن سعد، طبقات الکبری، ج۶، ص۴۱۳۔
۵۱۰. ابن ابی‌شیبه، المصنَّف فی الاحادیث و الآثار، ج۲، ص۲۰۰۔
۵۱۱. ابن ابی‌شیبه، المصنَّف فی الاحادیث و الآثار، ج۷، ص۱۱۳۔
۵۱۲. حمیری، عبداللّه ‌بن جعفر، قریب الاسناد، ج۱، ص۱۵۷ـ ۱۵۸۔
۵۱۳. ابن ‌طاووس، علی بن موسی، اقبال الاعمال، ج۲، ص۷۴ـ۸۷۔
۵۱۴. محمدی ریشهری، محمد، حکمت‌نامه امام حسین (علیہ السلام)، ج۱، ص۵۰۸۵۴۷۔    
۵۱۵. محمدی ریشهری، محمد، حکمت‌نامه امام حسین (علیہ السلام)، ج۱، ص۴۸۶۵۹۲۔    
۵۱۶. صدوق، محمد بن علی، علل‌ الشرایع، ج۱، ص۹۔    
۵۱۷. حرانی، ابن‌ شعبه، تحف‌ العقول عن آل الرسول صلی‌اللّه علیهم، ج۱، ص۲۴۴۲۴۵۔    
۵۱۸. ابن‌ عساکر، تاریخ مدینة دمشق، ج۱۴، ص۱۸۳۱۸۴۔    
۵۱۹. صفار قمی، محمد بن حسن، بصائر الدرجات الکبری فی فضائل آل محمد (ع)، ج۱، ص۳۲ش۔    
۵۲۰. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۳۹۸۳۹۹۔    
۵۲۱. برقی، احمد بن محمد، المحاسن، ج۱، ص۶۱۔    
۵۲۲. صفار قمی، محمد بن حسن، بصائر الدرجات الکبری فی فضائل آل محمد (ع)، ج۱، ص۴۷۲۔    
۵۲۳. محمد بن حسن طوسی، الامالی، ج۱، ص۲۵۳ـ۲۵۴، قم ۱۴۱۴۔
۵۲۴. طبرسی، احمد بن علی، الاحتجاج، ج۲، ص۲۲۲۳۔    
۵۲۵. ابن ‌ابی‌ زینب، الغیبة، ج۱، ص۲۱۳۔
۵۲۶. صدوق، محمد بن علی، کمال‌ الدین و تمام النعمة، ج۱، ص۲۶۴۲۶۹۔    
۵۲۷. صدوق، محمد بن علی، کمال‌ الدین و تمام النعمة، ص۳۱۶-۳۱۸۔    
۵۲۸. طوسی، محمد بن حسن، الغیبة، ج۱، ص۱۹۰۱۹۱۔    
۵۲۹. برقی، احمد بن محمد، المحاسن، ج۱، ص۱۴۷۔    
۵۳۰. برقی، احمد بن محمد، المحاسن، ج۱، ص۱۶۳۱۶۴۔    
۵۳۱. عیاشی، محمد بن مسعود، التفسیر، ج۱، ص۱۸۵۔    
۵۳۲. صدوق، محمد بن علی، الامالی، ج۱، ص۲۰۰، قم ۱۴۱۷۔    
۵۳۳. مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۷۱، ص۳۱۴۔    
۵۳۴. طبرسی، احمد بن علی، الاحتجاج، ج۲، ص۱۳۲۶۔    
۵۳۵. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۲، ص۶۱۱۶۱۳۔    
۵۳۶. عیاشی، محمد بن مسعود، التفسیر، ج۲، ص۳۳۷۳۳۸۔    
۵۳۷. کلینی، اصول کافی، ج۸، ص۲۴۴۲۴۵۔    
۵۳۸. صدوق، محمد بن علی، الخصال، ج۱، ص۴۲ ۴۳۔    
۵۳۹. صدوق، محمد بن علی، التوحید، ج۱، ص۹۰۹۱۔    
۵۴۰. حسکانی، عبیداللّه ‌بن عبداللّه، شواهد التنزیل لقواعد التفضیل، ج۱، ص۵۶۰۔    
۵۴۱. صنعانی، عبدالرزاق ‌بن همام، المصنَّف، ج۳، ص۵۳۲ـ۵۳۳۔
۵۴۲. صنعانی، عبدالرزاق ‌بن همام، المصنَّف، ج۴، ص۲۱۴۔
۵۴۳. ابن ابی‌شیبه، المصنَّف فی الاحادیث و الآثار، ج۱، ص۳۵۵۔
۵۴۴. ابن ابی‌شیبه، المصنَّف فی الاحادیث و الآثار، ج۲، ص۲۰۰۔
۵۴۵. ابن ابی‌شیبه، المصنَّف فی الاحادیث و الآثار، ج۷، ص۳۸۸۔
۵۴۶. ابن ابی‌ شیبه، المصنَّف فی الاحادیث و الآثار، ج۷، ص۶۱۹۔
۵۴۷. عطاردی‌قوچانی، عزیزاللّه، مسند الامام الشهید ابی‌ عبداللّه‌ الحسین‌بن علی (علیہما‌ السلام)، ج۳، ص۲۲۰ـ۲۶۰۔
۵۴۸. ابن ‌شهرآشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی‌طالب، ج۴، ص۸۱۔
۵۴۹. اربلی، علی ‌بن عیسی، کشف الغمة فی معرفة الائمة علیھم‌ السلام، ج۲، ص۴۷۴۔
۵۵۰. ابن سعد، طبقات الکبری، ج۶، ص۴۰۰۔
۵۵۱. دینوری، ابن ‌قتیبه، المعارف، ج۱، ص۲۱۳۔    
۵۵۲. بلاذری، احمد بن یحیی، انساب‌ الاشراف، ج۲، ص۱۴۰۔
۵۵۳. طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری، ج۵، ص۴۲۰۔    
۵۵۴. محمدی ریشهری، محمد، حکمت‌نامه امام حسین (علیہ السلام)، ج۲، ص۳۳۸ ۴۲۰۔    
۵۵۵. محمدی ریشهری، محمد، حکمت‌نامه امام حسین (علیہ السلام)، ج۲، ص۳۳۰۳۳۶۔    
۵۵۶. ابن‌ حنبل، مسند الامام احمد بن حنبل، ج۱، ص۲۰۱۔
۵۵۷. دولابی، محمد بن احمد، الذریة الطاهرة، ص۱۲۵ـ ۱۳۳۔
۵۵۸. دولابی، محمد بن احمد، الذریة الطاهرة، ج۱، ص۱۳۷ـ ۱۳۸۔
۵۵۹. طبرانی، سلیمان ‌بن احمد، المعجم‌ الکبیر، ج۳، ص۱۲۷ـ۱۳۶۔
۵۶۰. مزی، یوسف‌ بن عبدالرحمان، تحفةّ الاشراف بمعرفة الاطراف، ج۳، ص۶۵ـ ۶۷۔
۵۶۱. مزی، یوسف‌ بن عبدالرحمان، تهذیب الکمال فی اسماء الرجال، ج۶، ص۳۹۷۔
۵۶۲. دولابی، محمد بن احمد، الذریة الطاهرة، ص۱۲۵ـ ۱۳۱۔
۵۶۳. عطاردی‌قوچانی، عزیزاللّه، مسند الامام الشهید ابی‌ عبداللّه‌ الحسین‌ بن علی (علیہما‌ السلام)، ج۳، ص۳۸۲ـ۳۸۳۔
۵۶۴. عطاردی‌قوچانی، عزیزاللّه، مسند الامام الشهید ابی‌ عبداللّه‌ الحسین‌ بن علی (علیہما‌ السلام)، ج۳، ص، ۳۹۳۔
۵۶۵. عطاردی‌قوچانی، عزیزاللّه، مسند الامام الشهید ابی‌ عبداللّه‌ الحسین‌ بن علی (علیہما‌ السلام)، ج۳، ص۳۱۴ـ۴۱۸۔
۵۶۶. ابن‌حنبل، مسند الامام احمد بن حنبل، ج۱، ص۲۰۱۔
۵۶۷. دولابی، محمد بن احمد، الذریة الطاهرة، ص۱۳۱ـ۱۳۵۔
۵۶۸. طبرانی، سلیمان ‌بن احمد، المعجم‌ الکبیر، ج۳، ص۱۲۷ـ۱۳۶۔
۵۶۹. مزی، یوسف‌ بن عبدالرحمان، تهذیب الکمال فی اسماء الرجال، ج۶، ص۳۹۷۔
۵۷۰. مزی، یوسف‌ بن عبدالرحمان، تحفةّ الاشراف بمعرفة الاطراف، ج۳، ص۶۵ـ ۶۷۔
۵۷۱. طوسی، محمد بن حسن، رجال‌ الطوسی، ج۱، ص۹۷۱۰۶۔    
۵۷۲. بحرانی، یوسف، الحدائق الناضرة، ج۱۷، ص۴۳۴۔    
۵۷۳. حرعاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعة، ج۱۴، ص۵۰۰۔    
۵۷۴. بحرانی، یوسف، الحدائق الناضرة، ج۴، ص۱۶۴۔    
۵۷۵. خویی، ابوالقاسم، التنقیح (الطهارة)، ج۹، ص۲۳۵۔    
۵۷۶. صراط النجاة، ج۵، ص۳۰۰۔
۵۷۷. محقق حلی، جعفر بن حسن، شرائع‌ الاسلام، ج۱، ص۳۰۱۔    
۵۷۸. جامع عباسی، ص۳۴۴۔


مآخذ

[ترمیم]

دانشنامه جهان اسلام، بنیاد دائرة المعارف اسلامی، ماخوذ از مقالہ امام حسین ۱، شماره۶۲۱۲۔    
دانشنامه جهان اسلام، بنیاد دائرة المعارف اسلامی، ماخوذ از مقالہ امام حسین ۲، شماره۶۲۱۳۔    
فرهنگ فقه مطابق مذهب اهل بیت، ج۱، ص۶۸۰-۶۸۱۔    
فرهنگ فقه مطابق مذهب اهل بیت، ج۳، ص۳۰۴-۳۰۵۔    






جعبه ابزار