پندرہ خرداد کا قیام
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
امام خمینی کی گرفتاری کے
خلاف،
تہران قم اور دوسرے شهرو ں میں۱۵
خرداد ۱۳۴۲ کی
بغاوت، ایک اچانک اور مقبول تحریک تھی۔
[ترمیم]
اس بغاوت کے سیاسی، معاشرتی اور مذہبی سیاق و سباق کا تعلق، ۱۹۳۰ کی دہائی میں حکومت کے
اشتعال انگیز اقدام سے تھا۔
۱۶
[۱] ۱۳۴۱ کو
عالم کی کابینہ میں ریاستی اور صوبائی ایسوسی ایشن بل کی منظوری،
لوگوں کے مذہبی جذبات کو ہوا دینے کا ایک بڑا عنصر تھی۔
اس بل کی (منظوری) کا مقصد انتظامیہ کے لئے عوامی آراء پر مبنی دیھاتوں، قصبوں اور صوبوں میں انجمن سازی کرنا تھا، لیکن اس بل میں شامل تین نئی شرائط: رائے دہندگان اور منتخبین سے (
[۳] کی قید کو حذف کرنا)، ((قرآن)) کے بجای هر آسمانی کتاب پر ((حلف برداری)) کی تقریب اور
خواتین کا حق
رأے دهی، لوگوں کے مذہبی جذبات اکسانے اور علمائے کرام کے سخت احتجاج اور مخالفت کا باعث بنی.
مجتهدین نے اس مسودہ (که جس میں
[۴] کی کتاب آوستا،
[۵] ، اور کچھ دوسری
کتابوں کو ((قرآن پاک)) کے برابر قرار دیا گیا تھا)
کو حکمران حکومت کی
اسلام اور آئین کے ساتھ علنی اور جرأت مند انه تصادم قرار دیتے هوئے ملک کی
آزادی کے لئے سنگین
خطرہ قرار دیا اور
اسلام اور ملک کو((صہیونی]] قبضه
میںجاتا دیکھ کر لوگوں کو اس بل کے مندرجات سے آگاہ کیا اور اس کی مخالفت کی.
اس مسئلے کا جائزہ لینے کے لئے روح الله
خمینی، متعدد علماء اور
مراجعین قم کی دعوت پر آیت اللہ حاج شیخ عبدالکریم حائری کے گھر اجلاس ہوا۔ اور اس میٹنگ اور دیگر اجلاسوں میں طے پایا که شاہ کو
ٹیلیگرام بهیج کر اس بل کی مخالفت کی جائے.
ان میٹنگز کے نتیجے میں ملک کے علماء اور اسکالرز نے مذکورہ بل کی مخالفت میں پچاس سے زائد اعلانات، ٹیلی گرام اور خطوط جاری کئے۔
بل کو مسترد کرنے کی وجوہات: شریعیت و آئین کی مخالفت، مذہب مخالف ملکی آزادی کے دشمنوں کا غلط استعمال، بل کی تدوین میں غیر ملکیوں کی
[۹] اور خواتین کی سیاسی شمولیت، تها.
عوام کو اس بل کی
[۱۰] اور نقصانات سے آگاہ کرنے کے لئے علمائے کرام نے بھی اعلانات جاری کیے اور آخر کار عوامی
جدوجہد کیلیے عمومی اعلامیه جاری کیا گیا
کچھ سیاسی جماعتیں بھی ان مظاہروں میں شامل ہوئیں اور شاہ کی نئی
پالیسیوں کو بے نقاب کرنے والے بیانات جاری کئے۔
بالآخر،
عالم نےدو مہینوں کی مزاحمت کے باوجود، ۱۰[[آذر] ۱۳۴۱] کو مجبورا اس بل کی منسوخی کا اعلان کیا.
ریاستی اور صوبائی انجمنوں سے متعلق بل کی منسوخی کے چالیس دن سے بھی کم وقت میں، شاہ نے ۱۰ جنوری کو ایران کے دیہی کوآپریٹوز کی پہلی کانفرنس میں علماء کے اعتراضات کے جواب میں انفرااسٹرکچر اصلاحات کا معاملہ اٹھایا اور علماء کو واضح طور پر اس کا مخالف قرار دیا.
ان اصلاحات کا منصوبہ ۱۹۳۰ کی دہائی کے آخر کا ہے۔
اس دہائی میں
متحدہ امریکہ کے
ایران میں بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے پیش نظر، جب ۱۳۳۸ میں امریکی
صدر کیندی نے عوامی تحریکوں اور سوویت یونین
کمونیسم کے اثر و رسوخ کو روکنے کے لئے امریکه کے زیراثر ممالک کے لئے بنیادی ڈھانچو کی اصلاحات کا منصوبہ شروع کیا تو شاہ ایران ان لوگوں میں شامل تھا که جس نے اس منصوبے کو قبول کیا اور
اصلاحات کے نفاذ پر توجہ دی۔
کچھ گروپوں کی مزاحمت اور احتجاج کے باوجود لینڈ ریفارم بل ۱۱ جنوری ۱۹۷۱ کو منظور کیا گیا.
حکمران حکومت اور شاہ کی ان اصلاحات کی بڑے پیمانے پر تشہیر، عادلانه
ایمج پیش کرنے
اور اسکالرز اور مراجع تقلید کو راغب کرنے کی کوششوں کے باوجود علماء نے (اس وقت کے وزیر زراعت اور زمینی اصلاحات کے نفاذ کرنے والے حسن ارسنجانی کا آیت اللہ سید محمد رضا گلپائیگانی کو لکهے گئے خط کے متن)
کو ماننے سے انکار کیا
اور مذہبی معیار کے لحاظ سے اسے غلط کہا۔
زمینی اصلاحات کے سیاسی محرکات، علماء، ماہرین اور لوگوں کا ان اقدامات سے مقابلہ کرنے میں ایک موثر عنصر تھا۔
اس سے قبل بهی، شاہ کے نمائندے اس وقت کے
مرجع تقلید،
اللہ حاج آغا حسین بروجردی کے پاس گئے اور انہیں زمینی اصلاحات کے اقدام کے حوالے سے آگاہ کیا. لیکن انهوں نے واضح طور پر
حکومت میں بنیادی اصلاحات کی زمینی اصلاحات پر ترجیح دینے کی بات کی تو زمینی اصلاحات کے بل پر خاموشی اختیار کر لی گئی.
اللہ بروجردی کی وفات کے بعد، شاہ نے اس منصوبے پر عمل درآمد شروع کیا۔
پارلیمنٹ کی تحلیل کے بعد، جنوری ۱۹۶۱ میں علی امینی کی
کابینه میں لینڈ ریفارم بل
منظور هوا لیکن اس کے اجراء میں کئی رکاوٹوں اوراعتراضات کا سامنا کرنا پڑا۔
ریاستی اور صوبائی انجمنوں کے بل کو زبردستی ختم کرنا اور زمینی اصلاحات پر عمل درآمد نہ ہونے اور اس پر مختلف اعتراضات کے ابھرنے کی وجہ سے شاہ نے اس بار اپنی مطلوبہ اصلاحات که جسے اس نے "
سفید انقلاب" کا نام دیا که جو (چھ اصولوں پر مشتمل) تها، کو پورا کرنے کیلیے آئین کے آرٹیکل ۲۷ اور ترمیم کے آرٹیکل ۲۶ کا حواله دیتے هوئے، ان اصولوں کے نفاذ سے متعلق رائے شماری کا مطالبہ کیا۔
وائٹ انقلاب کے چھ اصول یہ تھے:
۱) ۱۹ دی ۱۳۴۰ کو منظور شدہ لینڈ ریفارم کے ترمیمی بل اور اس کے ملحقه قانون کے مطابق، ایران میں
لینڈ ریفارمز کی [[منظوری]]] کی بنیاد پر
مالک اور رعیت حکومت کا خاتمہ.
۲) ]].ملک]] بھر میں جنگلات کو قومی بنانے کے لئے بل کی منظوری۔
۳) زمینی اصلاحات کی حمایت کے طور پر سرکاری فیکٹریوں کے حصوں کے
فروخت کے بل کی منظوری.
۴) مزدوروں کو پیداواری اور صنعتی ورکشاپس کے مفادات میں شامل کرنے کے لئے بل کی منظوری.
۵) انتخابی قانون کا ترمیمی بل۔
۶)) عمومی اور لازمی تعلیم سے متعلق قانون کے نفاذ کی
[۱۵] کے لئے
کور کے قیام سے متعلق بل.
بظاہر،
[۱۷] کے انعقاد کا مقصد لوگوں کی
تأیید حاصل کرنا اور یہ بتانا تھا که حزب اختلاف کی مخالفت بلاجواز ہے۔
وائٹ انقلاب کے چھ اصولوں کا اعلان اوراس کی تائید کے لئے ریفرنڈم کے انعقاد کا فیصله مختلف طبقات خصوصا مراجعین اور علمائے کرام کی حساسیت کا سبب بنا.
امام خمینی نے متعدد اعلانات اور خطوط میں اس کو سیاه انقلاب سیاه کا نام دیتے ہوئے اس پر اپنی تشویش کا
اظہار کیا.
انہوں نے زور دے کر کہا کہ اسلام کے دشمن اس بل کو آئین میں "مذہب کے خاتمے" کا پیش خیمہ قرار دیتے ہوئے ایک اور طرح سے ریاستی اور صوبائی انجمنوں میں کالعدم بل کے اہداف کو عملی جامہ پہنانا چاہتے ہیں. حکومت نے جب یه محسوس کیا کہ وہ عوامی طاقت کا مقابله نہیں کرسکتے تو"جبری رائے شماری" کا سہارا لیاہے۔
امام خمینی اور دیگران کے بقول، ملک میں زرعی نازک صورتحال و غیرہ کے موقع پر، حکومت انتخابات میں خواتین کی شمولیت جیسے فریب انگیز تشریحات کے ساتھ سامنے آئی ہے۔
انہوں نے کہا که حکومت سمجھتی ہے"خواتین کی آزادی کے نام پر، وہ اسرائیل کے مذموم عزائم کو انجام دینے کے لئے مسلم قوم کو دھوکہ دے سکتے ہیں۔
اعلانات، ٹیلی گرام اور دیگر بیانات کا مجموعہ، اسلام اور قرآن کے ساتھ ظالم حکومت کے تصادم
اور "اسلام کے ضروری احکام کے بارے میں علمائے کرام کی شدید تشویش کی نشاندہی کرتا ہے
اور اسلامی ریاستو کے خلاف اسرائیل کے ساتھ اتحاد
اس کے نتیجے میں مسلم ملت ایران اور دیگر مسلم اقوام کے مابین فاصله ڈالنا اور ملک کی تقدیر اور معیشت پر غیر ملکیوں کا تسلط هے
ہم
یہودیو اور
امریکہ کے
فائدہ کے لئے ذلیل هوں،
زندان جائیں۔
اب ملک کی ساری معیشت اسرائیل کے قبضہ میں ہے۔
اس صورتحال میں،
قم کے مراجع اور علماء، خرم آباد کے با اثر عالم آیت اللہ حاج آغا روح اللہ کمال وند سے مشاورت کے بعد اس نتیجه پر پهنچے که وه ریفرنڈم کی مخالفت کے لئے شاہ سے ملاقات کریں اور اسے نتائج سے آگاہ کریں۔
شاہ نے علماء کی تجاویز کو نظرانداز کیا، حتی کہ حکومت کی پالیسیوں سے علمائے کرام کے تصادم کے بارے میں بھی شکایت کی۔
لہذا علماء نے ایک اور اجلاس کے دوران یه
فیصلہ کیا که اعلامیه کے ذریعے لوگوں کو
ریفرنڈم میں شرکت سے روکا جائے.
ان اعلانات میں،
مراجع کی طرف سے شرعی احکام کے بارے میں عوامی رائے کی
قبولیت کو مسترد کرتے ہوئے اس ریفرنڈم کو ملکی
آزادی اور [[مفاد]]] کے لئے نقصان ده قرار دیا اور اسے
[۲۶] میں
[۲۷] سے متعلق مضامین منسوخ کرنے کا مقدمه قرار دیا.
دانشوروں اور قومی سیاسی تنظیموں کے ایک گروپ نے بهی علمائے کرام اور عوام کے ساتھ، ان چھ اصولوں کی مخالفت میں بیانات جاری کیے، اور ان اصلاحات کو شاہ کے بیرون ملک میں
مصلح کے طور پر اپنی پوزیشن کو
مستحکم کرنے کی طرف اشارہ کیا۔
اس کے علاوہ، انہوں نے ان اصولوں کو ملک کے اندر ملاکین عظیم کی
طاقت کو ختم کرنے کی پالیسی کے طور پر دیکھا تاکہ
حکومت کی مخالفت کے مراکز پیدا نہ ہوں، اور هر قسم کی بغاوت کی روک تھام اور رعایا کو سرگرم رکهنے کے لئے
زمین کی مالکیت دینے کو اصلاحات کا مقصد جانا.
ان اعلانات کے ساتھ ہی، تمام بازار
بند ہوگئے اور پورے
تہران میں
ہڑتال اور
مظاہرے شروع ہوگئے.
بہمن ۱۳۴۱ کے آغاز سے لے کر ریفرنڈم کے دن (۲۶ فروری) تک، لوگوں نے بڑے پیمانے پر مظاہروں میں حصہ لیا، کچھ نے مساجد کی ریلیوں میں شرکت کی اور حکمران حکومت اور ریفرنڈم کے خلاف نعرے لگائے۔ سیکیورٹی فورسز کی لوگوں سے جھڑپ کے نتیجه میں بهت سے لوگ
زخمی ہوئے.
چار
[۲۹] کو، تہران یونیورسٹی میں فورسز کے حملے کے دوران، طلبا کو
مارا پیٹا گیا۔
حکومتی تشدد کی انتہا اس وقت ہوئی جب تہران کے با اثر عالم دین
آیت اللہ سید احمد خانساری کو بازاریوں اور لوگوں کی ریلی میں شامل ہونے کے جرم میں
اهانت کی گئی اور پھر علماء کو بھی گرفتار کیا گیا۔
علماء کرام اور مجتهدین نے آیت اللہ خانساری کی توهین کی
مذمت میں ایک بیان جاری کیا۔
اس عرصے کے دوران، حکمران حکومت کے پروپیگنڈہ میڈیا نے کوشش کی که
رد عمل پسند عوامل خصوصا زمینداروں کو حزب اختلاف کو
اکسانے کا ذمه دار قرار دیا جائے.
اسی طرح، ریفرنڈم سے قبل، ریفرنڈم مخالف متعدد علما اور سیاسی جنگجو من جمله
اللہ سید محمود طالقانی اور
انجینئر مہدی بازگان گرفتار ہوئے.
ان واقعات کے بعد
دینی علماء کی همراهی کا دعوی کرتے ہوئے شاہ چار بہمن کو
[۳۲] روانہ ہوا.
قم میں بھی
تہران کی طرح، ان دنوں بہت زیاده مظاہرے اور سیکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں، اور شاہ کے سفر کے جواب میں، قم کے عوام نے علمائے کرام کی
نصیجتوں پر عمل کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل کر بادشاہ کے استقبال سے انکار کردیا.
شاہ نے بھی قم میں زمین کی ملکیت کی دستاویزات دینے کے حوالے سے ایک تقریب سے خطاب کیا اور اصلاحی پروگراموں کے مخالف علماء پر حملہ کرتے ہوئے
شدید رد عمل کا اظهار کیا.
ان سب مخالفتوں کے باوجود، خواتین نے بهی پہلی بار اس ریفرنڈم میں شرکت کی
یہ ریفرنڈم ۶ بہمن کو منعقد ہوا۔
حکومت کی سرکاری رپورٹ کے مطابق رائے شماری کا نتیجہ ۵.۵ ملین
ووٹ موافق، (خواتین کے ۲۷۱۱۷۹ ووٹ) اور ۱۱۵ ۴ ووٹ چھ اصولوں کے برخلاف تهے.
ریفرنڈم کے بعد،
امریکی حکومت نے اس کامیابی پر بادشاہ کو
مبارکباد پیش کی
حالانکہ شواہد سے پتہ چلتا تها کہ علمائے کرام کی متفقہ مخالفت کی وجہ سے "لوگوں نے رائے شماری کو نظرانداز کیا تها"
ریفرنڈم کے دو ماہ بعد، ۱۳۴۲ میں
رمضان کا آغاز هوا۔ اس سے علماء کرام کو ملک کے مختلف علاقوں میں
جاکر،تقریروں کے ذریعے واقعات سے آگاہ کرنے کا ایک اچھا موقع فراہم ہوا۔
اس تبلیغی فرصت سے نمٹنے کے لئے، اسد اللہ عالم نے ۶
بهمن، کو پهلے سے هی گورنرز کو ایک سرکلر جاری کیا، جس میں متنبہ کیا گیا تھا کہ علماء صرف مذہبی معاملات پر تبلیغ کریں۔
اس نے
ساواکی مراکز کو بھی حکم دیا کہ تمام
مبلغین اور
خطباء کو
تهانه میں طلب کرکے ضروری انتباہ دیا جائے۔
بہر حال، علماء کی سرگرمیاں اس
[۳۵] کے دوران بهی جاری رہیں اور اس تحریک کے
[۳۶] کا باعث بنیں۔
[۳۷] ۱۳۴۲، پچیس
شوال)،
امام صادق کی
شہادت کے دن
امام خمینی کے مشورے
اور مراجع تقلید کی همراهی سے و [اسلام]] اور مسلمانوں پر آنے والی مصیبتوں، جعفریه
[۳۸] کو دشمنوں کے هاتهوں بازیچه قرار دینے،"مذہبی اسکالرز ، ، پروفیسرز ، اور طلباء کے کے
جیل"میں هونے. اور
قوم میں "
بهوک [[[غربت]]]] اور [
فقیری پهیلنے کے خوف کے پیش نظر اس سال کی عید نوروز کو سوگ کا اعلان کیا گیا اور نوروز کی تقریبات کا بائیکاٹ کیا گیا۔
وسری طرف،
امام صادق علیه السلام کی
شہادت کی مناسبت سے مساجد میں متعدد لیکچرز کا انعقاد کیا گیا، اور
مدرسه فیضیه قم پر حملے کا واقع رونما هوا.
امام صادق علیہ السلام کے سوگ کی تقریب جو هر سال مرجع تقلید
آیت اللہ محمد رضا گلپائیگانی کی طرف سے پچیس
شوال کو مدرسه فیضیه میں منعقد ہوتی تهی۔ اس سال بهی
منعقد هوئی اور لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے اس تقریب میں شرکت کی۔
تقریب میں پهلے سے موجود
[۴۰] ایجنٹس نے پارلیمنٹ میں خلل ڈالنے ، افراتفری پیدا کرنے اور فوجی اور سیکیورٹی فورسز کی مداخلت کی گنجائش فراہم کرنے کا موقع فراهم کیا، جب قم کے ایک مشہور مبلغ تقریر کررہے تھے تو سکیورٹی فورسز نے سوگواروں پر دهاوا بول دیا اور مجلس عزا کو روک دیا۔
اس واقعے میں سیکیورٹی اہلکاروں نے خاص طور پر
طلبا کو
مارا،
پیٹا جس کے نتیجه میں ایک طالب علم سید یونس رودباری
شہید هوا.
انہوں نے طلباء کے کمروں میں بهی
لوٹ مار کی۔
اسی طرح کا واقعہ تبریز کے مدرسه طلبیہ میں بهی پیش آیا اور سیکیورٹی عہدیداروں اور طلباء کے مابین جھڑپوں کے نتیجے میں متعدد طلباء زخمی اور کچھ گرفتار ہوئے .
یه واقعات مذہبی اور قومی جذبات مجروح ہونے کا سبب بنے، مجتهدین، اسکالرز، ماہرین تعلیم اور کچھ سیاسی گروہوں نے شاہ اور حکومت کے ان اقدامات کی مذمت کرتے ہوئے بیانات جاری کیے۔
ملک بھر میں ان واقعات کی خبریں عام هو چکی تهیں اور سرکاری میڈیا ان واقعات کو
مسخ کرنے اور اس واقعه کو متعدد طلباء اور شاهدوست کسانوں کے مابین تنازعہ کی حیثیت سے پیش کرنے میں ناکام رها تها. عوام کی رائے تیزی سے متاثر هو چکی تهی اور آہستہ آہستہ
بغاوت کا زمینه فراهم هوا۔
اس مرحلے کا اہم نکتہ مجتهدین کرام کے اعلانات میں
لہجہ کی
تبدیلی تھا، جس نے اس بار براہ راست شاہ، حکومت، اسرائیل اور اس کے ایجنٹوں کو نشانہ بنایا۔
دریں اثنا، امام خمینی کا اعلان سب سے زیادہ شدید اللحن تھا اور انہوں نے اس حقیقت کو بے نقاب کیا کہ "کچھ لوگوں نے جاوید شاہ کا نعره لگا کر
امام صادق اور ان کی عظیم جسمانی اور روحانی اولاد" پر اچانک حملہ کیا ہے اور بتایا که"شاه دوستی کا مطلب
لوٹ مار، احکام اسلامی پر حمله اور روحانیت کا قلعه قمع کرنا ہے شینشاهی
حکومت کو للکارا که میرا دل تمهارے سپاهیوں کی گولیوں کیلیے حاضرہے.
ان بیانات کی صراحت نے عوام کے ذهنوں میں ایک بهت بڑا انقلاب ایجاد کیا اور حکمران حکومت کے منصوبوں_
فیضیه پر
حمله اور علماء کی
قتل و غارت _ کو
شکست سے دوچارکیا.
اس وقت کے [عظیم]]
[۴۳] تقلید آیت اللہ سید محسن حکیم نے بھی ۳۲ ایرانی مراجع تقلید اور علماء سے اظہارہمدردی کرتے ہوئے ایک [[[ٹیلی گراف]] میں علماء سے مطالبہ کیا که وه حکمران حکومت کی کارکردگی کے خلاف
احتجاج کے طور پر [[[عراق]]
عتبات عالیات مهاجرت کریں لیکن علماء نے اس
دعوت کے جواب میں علمائے کرام کی
ایران میں موجودگی پر [زور دیا اور شاه کے ساتھ
مبارزه جاری رکھنے کی جدوجہدپر
تأکید کی.
ان واقعات کے بعد، شاہ نے متعدد تقاریر میں علماء کو شدید حملوں کا نشانہ بنایا اور باضابطہ طور پر اعلان کیا کہ انہیں اپنی اصلاحی اقدامات کو آگے بڑھانے کے لئے خونریزی کا کوئی خوف نہیں ہے۔
دوسزی طرف محرم آتے هی مبارزات میں شدت آگئی.
امام خمینی نے ایک اعلان جاری کیا جس میں دینی مبلغین اور واعظین سے خطاب کرتے ہوئے حکمران حکومت کے ساتھ
مبارزه کے لئے ان دنوں کو استعمال کرنے اور [اسلام]] و
فقہی و
دینی مراکز،
ناصران شریعت پر آنے والی مصیبت کو یاد دلانے کا مطالبہ کیا تھا۔
اور زور دے کر کہا کہ شاهی حکومت کا اسلام
مخالفت کا خطرہ "
اموی حکومت کے خطرہ سے کم نہیں.
حکومت کا
اسرائیل کے ساتھ تعاون کا انتباہ کیا اور کہا کہ جبار حکومت خواتین کی آزادی کے نام پر قوم کو دھوکہ دینے کا ارادہ رکھتی ہے اور "
[۴۴] کے مذموم عزائم" پر عمل پیرا ہونا چاہتی ہے اور ضاله فرقے کی حکومت کے اندر
و رسوخ کی نشاندہی کرتے هو ئے مبلغین سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل کے خطرے سے لوگوں کو متنبہ کریں. اور انتباہ کیا کہ "ان ایام میں خاموشی، ظالم حکومت کی توثیق اور اسلام دشمنوں کو مدد فراہم کرنا ہے۔۔
مراجع تقلید اور دیگر علمائے کرام نے بھی حکومتی حکام کے ساتھ اس طرح کے تصادم کی تأئید کی اور یوں [اس سال
محرم میں
امام خمینی اور علمائے کرام کا پیغام تمام شهروں میں پهنچا.
اگرچه سیکیورٹی اہلکاروں نے مبلغین سے
تعهد لیا تھا که وه سوگ کی تقریبات میں
اسرائیل اور
بادشاہ کے خلاف بولنے سے گریز کریں اور اسلام خطرے کی بات نه کریں لیکن لوگوں کی موجودگی میں، مجالس عزا، تقریروں اور نوحہ خوانیوں نے بیشتر شہروں اور
قارا،
قصبوں،
تہران ،
قم اور
تبریز میں سیاسی رنگ اختیار کر لیا تها اور دینی مبلغین اور واعظین نے حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا اور حکومت کے راز لوگوں کی سامنے برملا کیے.
[۴۷] کی ایک خبر کے مطابق مجالس عزا
شاہی حکومت پر حملہ کرنے والی
[۴۸] میں
[۴۹] ہو گئی تھیں۔
یہ بات بھی قابل
غور ہے کہ جدوجہد کے اس مرحلے پر ریاستی آلات کے پروپیگنڈے کے باوجود، علماء اور اسکالرز نے
زمینی اصلاحات کی بات کرنے سے
اجتناب کیا اور حکومت کے منفی پروپیگنڈه سے بچنے کے لئے غیر ملکیوں کے تسلط اور
[۵۰] سے دوستی اور
[۵۱] سے لاتعلقی جیسے بنیادی معاملات کو اٹھایا۔
اسلامی اتحاد، خاص طور پر طیب حاج رضائی جیسے تہران کے بڑے وفد کی حمایت سے
تہران اور
قم میں
[۵۲] پر بڑے مظاہرے منعقد کیے گئے که جو لوگوں کے احتجاج کی انتہا کو ظاہر کرتا ہے.
شرکاء کی تعداد اور تنوع (علماء، ماہرین تعلیم اور کارکنوں کی شرکت) کے لحاظ سے اس مظاہرے کی غیر معمولی اہمیت تھی۔
اس دن ری اسٹریٹ پر واقع ابوالفتح مسجد کے سامنے مظاہرین کی شرکت کا اندازہ ۷۰ سے۱۲۰ هزار کے درمیان اور ایک رپوٹ کے مطابق مبینہ طور پر ۳۰ سے ۵۰ هزار تک لگایا گیا.
مظاہرین نے ابوالفتح مسجد کے سامنے سے سرچشمہ، بہارستان چوک اور مخبرالدولہ تک مارچ کیا اور وہاں سے تہران یونیورسٹی کا رخ کیا۔
تہران یونیورسٹی کے سامنے دو افراد نے تقریر کی اور پھر ہجوم نے نعرے لگاتے ہوئے مرمر محل تک مارچ کیا.
عصر
[۵۳] ، استنبول اسٹریٹ (موجودہ: اسلامی جمہوریہ اسٹریٹ) میں واقع مسجد همت میں جمع ہونے کے بعد
ایران کی
تحریک آزادی سے وابستہ طلباء اور کچھ قومی جماعتوں نے آمرانہ حکومت کے خلاف اور امام خمینی کی حمایت میں نعرے لگاتے ہوئے مارچ کیا۔
ان دنوں کا سب سے اہم واقعہ مدرسه فیضیه قم میں امام خمینی کی تقریر اور اس کا ملک میں نشر ہونا تھا۔
اس تقریر میں امام خمینی نے شاہ اور
اسرائیل پر شدت اور صراحت سے حملہ کیا اور کہا ہے کہ ایران کی
[۵۴] حکومت، (اسلام) کی بنیاد کے مخالف ہے . اسرائیل نہیں چاہتا کہ اس ملک میں اسلام کے احکام نافذ ہوں۔
انهوں نے شاہ کو
نصیحت کی کہ وہ اپنے باپ کے انجام سے
عبرت لے۔
اس تقریر کے بعد، امام خمینی کو ۱۵
خرداد کی
صبح قم میں واقع ان کے گھر سے گرفتار کرکے تہران منتقل کردیا گیا۔
امام کی گرفتاری کے ساتھ ہی مشہد میں آیة الله حاج آغا حسن قمی
شیراز میں
حاج شیخ بہاء الدین محلاتی، اسی طرح تہران اور کچھ دوسرے شہروں میں متعدد علماء و مبلغین کو بهی گرفتار کیا گیا۔
اس خبر کے وسیع اور تیزی سے پھیلاؤ کے ساتھ ، تہران کے بازار کو فوری طورپر
[۵۶] کردیا گیا
اسی دن لوگ قم، تہران اور دوسرے شہروں میں سڑکوں پر نکل آئے اور ۶ جون کی بغاوت شروع ہوگئی۔
تہران کے طلباء نے کلاسوں کی چهٹی کرکے احتجاج کیا، آہستہ آہستہ لوگ مرکزی چوک، بازار کے آس پاس اور ارک چوک کے قریب سڑکوں پر جمع ہوئے اور "یا موت یا خمینی" کے نعرے لگاتے رہے۔
یہ خود ساخته بغاوت، مذہبی فریضہ اور عقیدے کے احساس سے پیدا ہوئی اور کسی تنظیم نے اس کا اہتمام نہیں کیا تھا
یہ مظاهره سہ پہر تک جاری رہا۔
لوگوں نے ریڈیو
اسٹیشن، مرمر محل اور گلستان محل پر
قبضه کرنے کی کوشش کی تو فوج اور سیکیورٹی فورسز نے انهیں تشدد کا نشانه بنایا اور بہت ساروں کو
[۵۷] اور
[۵۸] کیا۔
اس بغاوت میں شہدا کی تعداد کے بارے میں ایک قطعی رائے نہیں ہے
ساواکی دستاویزات میں سینکڑوں افراد کا اندراج کیا گیا ہے۔
پیکرهای شهدای تهران را پس از جمع آوری به شکل دسته جمعی در گورستان مسگرآباد تهران
دفن کردند.
اس طرح کے مظاهرے کم و بیش ۹ جون تک جاری رہے لیکن سیکیورٹی فورسز نے آہستہ آہستہ
[۵۹] کو
سرکوب کیا
۱۵
خرداد کے موقع پر تہران کے علاوہ ورامین (خصوصا امامزادہ جعفر) کے آس پاس کے کچھ کسان اور کن کے کچھ لوگ امام خمینی کی گرفتاری کی خبر سنتے ہی
کفن پوش پوش یا موت یا خمینی کا نعرہ لگاتے هوئے"تہران کی طرف چل پڑے. راستے میں ایک بڑی تعداد فوجی دستوں کی فائرنگ سے" شہید "ہوگئی۔
(کها جاتا هے که ۴۰۰۰ کفن پوش تهے.
قم میں لوگوں نے دوسرے شہروں کی نسبت خبروں کے بارے میں پہلے جانا اور فورا امام خمینی کے گھر گئے، وہاں سے انکے بڑے بیٹے مرحوم حاج آغا مصطفی کے ساتھ حضرت
حرم معصومہ کی سمت روانه هوئے.
حاج آغا مصطفیٰ نے ایک مختصر تقریر میں عوام کو واقعہ سے آگاه کیا. لوگوں نے بھی "یا موت یا خمینی" کا نعره لگا کر
احتجاج کیا اور "فوجی اور قانون نافذ کرنے والے دستوں سے تنازعہ" کر کے قم کے پولیس اسٹیشن کا گھیراؤ کیا۔
شاہی حکومت نے جب دیکها که
بغاوت کو سرکوب کرنے میں ناکام رھی هے تو قم میں ایک بمبار طیاره بهیجا تاکہ ضرورت پڑنے پر شہر پر بمباری کی جاسکے۔
اس دن عَلَم کی زیرصدارت کابینہ کا ایک اجلاس هوا اور تہران و شیراز میں متفقہ طور پر چھ ہفتوں کے لئے فوجی حکومت کی منظوری دی گئی۔
اجلاس میں وزراء اور سرکاری عہدیداروں میں شدید تشویش پائی گئی۔ اگرچہ وہ اس بغاوت کی وجہ بیرونی ممالک (جیسے مصر اور عراق) اور ان کی مالی امداد کو قرار دینا چاہتے تھے لیکن بغاوت کا دائرہ ۳۰ تیر کی بغاوت کے مقابلے میں وسیع اور سنجیدہ تھا لذا لوگوں کا علمائے کرام کے ساتھ پیوند اس
بغاوت کے قبول کرنے کا باعث بنا.
وزیر اعظم نے بهی ریڈیو کی تقریر میں با ضابطہ طور پر ایک "سیاسی سازش" کے وجود پر زور دیا که جس کا مقصد "حکومت کو ختم کرنا" تھا۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ حالات پوری طرح حکومت کے کنٹرول میں هیں اور حکومت "اپنی پوری طاقت سے رجعت پسندوں کو ختم کرنے کے لئے پرعزم ہے۔
کچھ دن بعد ڈیلی ٹیلی گراف کو ایک انٹرویو میں شاہ نے اس واقعے کے لئے کچھ بڑے جاگیرداروں اور خطے کے ایک ملک کو مورد الزام ٹھہرایا اور "سماجی اصلاحات" کو جاری رکھنے کی ضرورت پر زور دیا۔
ان واقعات کے بعد مجتهدین اور اسکالرز، خاص طور پر قم، مشہد نیز نجف کے مجتهدین نے ان اقدامات کی مذمت کرتے ہوئے سخت اور عسکریت پسند بیانات جاری کیے۔
سید محسن حکیم، سید محمد ہادی میلانی، سید محمد رضا گلپائیگانی،سیدابوالقاسم خوئی ، سید شہاب الدین مرعشی ، سید کاظم شریعتمداری اور دیگر آیات عظام کے جاری کردہ اعلانات میں آخری لمحے تک استقامت پر زور دیا گیا اور
[۶۰] مسلم قوم [[[ایران]] اور [[دنیا]]] کے شیعہ علماء نے
حکومت کے خلاف شرعی اور قانونی احتجاج" کی تصریح کی.
انہوں نے
خمینی کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا اور کہا: ہمارا خون ہمارے پیارے بھائی، عظیم الشان آیت اللہ خمینی کے خون سے زیادہ رنگین نہیں ہے. جب تک انہیں مناسب اور محفوظ طریقے سے ہمارے حوالے نہیں کیا جاتا ہم اس اقدام سے دست بردارنہیں هونگے۔
انہوں نے یہ بھی کها کہ "ایران کی موجودہ حکومت اپنے مذموم عزائم کو آگے بڑھانے کے لئے کسی بھی طرح کی ہراسگی اور ظلم سے دست بردارنہیں ہے لذا کسی بھی
[۶۲] کو کسی بھی
لباس اور کسی بھی عہدے پر اس
غدار حکومت کے ساتھ تعاون سے باز آنا
ضروری ہے.
شیراز، تبریز اور مشہد سمیت دیگر شہروں میں بھی احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ اسی طرح، ملک کے مختلف شہروں کے ۵۰ سے زائد علماء و مجتهدین تہران منتقل ہو ئے تاکہ امام خمینیؒ سمیت دیگر دو مراجع؛ آیت اللہ قمی اور آیت اللہ محلاتی کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کے علاوہ ان کی رہائی اور ان کے خلاف سزائے موت کا متوقع فیصلہ روکنے کے حوالے سے تبادلہ خیال اور مشاورت کریں۔
ان علمائے کرام نے تہران کے علما اور
تاجروں کے ہمراہ، آیت اللہ کمالوند کو اپنا نمائنده بنا کر شاہ کے پاس بھیجا۔ شاہ نے حکومت کے خلاف علماء کے اقدامات پر شکوہ کرتے ہوئے کہا: "ہم خمینی کو قتل نہیں کریں گے تاکہ امامزادے کا مزار تعمیر نہ ہو۔۔
تہران نقل مکانی کرنے والے علماء نے ایک اعلامیہ بھی جاری کیا جس میں چوٹی کے ملکی مجتہدین کی عدالتی استثنا سے متعلق آئینی ترمیم کے آرٹیکل ۲ کا حوالہ دیتے ہوئے، امام خمینی کے بلند علمی مقام اور
مرجعیت کی تائید کی۔
دارالحکومت میں کافی عرصے تک قیام اور اس یقین دہانی کے بعد کہ انہیں
سزائے موت، نہیں دی جائے گی؛ یہ علما اپنے آبائی شہروں کو لوٹ گئے۔ امام خمینی اور دو دیگر زیرحراست افراد کو لگ بھگ دو ماہ کے بعد تہران کے علاقے قیطریہ میں واقع ایک مکان کے اندر نظر بند کر دیا گیا۔
۶جون کی بغاوت کا رد عمل مختلف تھا۔
کابینہ کے رد عمل کے باوجود که جس نے مختلف طریقوں سے اس واقعے کو مسخ کرنے کی کوشش کی. ایران کی
عوامی پارٹی اگرچه اصلاحات کو، امریکیوں کی
سوویت یونین کے خلاف اڈہ بنانے اور کسانوں کی بغاوتوں کو روکنے کے لئے حفاظتی دیوار کی تشکیل کی پالیسی قرار دینے پر غور کر رهی تهی
لیکن اس بغاوت نے نہ صرف یه که اس قیام کو
انجام پانے میں علماء اور عوام کے ساتھ اتحاد قائم نه کیا، بلکہ اسے بڑے بڑے جاگیرداروں کے حق میں ایک رد عملی اقدام کے طور پر دیکھا۔
دانشوروں نے بهی غالباً هر قسم کے تعاون سے انکار کردیا، یہاں تک کہ، آل احمد کے مطابق بعض نے
علماء کو نماینده
ارتجاع کہا، ان کا خیال تھا کہ حضرات، جائیداد یا خواتین کے حجاب (!) کی بحالی کے ارادے سے احتجاج کر رہے هیں.
تاہم، خود ان کا ماننا ہے کہ علماء کا یہ اقدام "
انصاف اور معاشرتی حقوق کے قیام کی طرف" ایک قدم تها۔
ایرانی مسائل کے تجزیہ کار اور مورخین بھی امام خمینی کو شاہ کی پالیسیوں کا مخالف سمجھتے تھے۔
[ترمیم]
پڑوسی ممالک سے بھی ۶ جون کی بغاوت کو ایک وسیع پیمانے پر رسپانس ملا
شیعیان
پاکستان نے امام خمینی کی
حمایت میں مظاہرہے کیے اور
پاکستانی پولیس کا سامنا کیا
الازہر یونیورسٹی آف مصر، کے صدر شیخ محمود شلتوت نے مذہبی رہنماؤں کے خلاف
ایرانی حکومت کی آمرانہ کارروائی کی
مذمت کی۔
مغربی اخباروں نے بھی اس واقعے کی گذارشات کو قلمبند کرتے هوئے اصل وجہ کے بارے میں بتایا. من جمله
پاریس کے روزنامه لی مونڈے اخبار نے اپنی تحلیل میں، اس بغاوت کی وجہ ناانصافی، معاشی
بحران اور حکومتی
کرپشن کو ذکر کیا اور یہ یاد دلایا که لوگوں کی نظر میں شاہ کی اصلاحات امریکه کے زیر اثر تهیں۔
لیکن
شوروی حکومت کے رسمی اخبار ایزوستیا نے شاه کی اصلاحات کی حمایت میں علماء پر اعتراض کیا اور انهیں
مرتجع کها.
سوویت پریس کا اصلاحاتی منصوبوں کا دفاع شاہ کی
خوشحالی کا سبب بنا.
روزنامه
اورشلیم پوسٹ نے ایران میں پیش آنے والے واقعات کے جواب میں اطلاع دی کہ اس کا
[۶۳] کے ساتھ ایران کے تعلقات پر کوئی منفی اثر نہیں پڑے گا اور "ایرانی حکومت اس بات کی
اجازت نہیں دے گی که اس کی خارجہ پالیسی کو لٹیر ے چلائیں۔
دوسری طرف، امام خمینی
[۶۴] ۱۳۴۳ کو قید سے
آزاد هو نے کے بعد
قم واپس آئے اور اپنے پہلے اعلان میں ۶ جون کی
مصیبت کا ذکر کیا اور کہا کہ جب تک قوم زندہ رہے گی ۶ جون کی
مصیبت میں غمگین رہے گی۔
اور پندره خرداد کو عزای عمومی کا اعلان کیا.۔
اس بغاوت کی برسی ہر سال ۶ جون کو قم میں شہداء کی یاد تازه رکهنے اور حکومت شاہ کی امام خمینی کے ساتھ براہ راست محاذ آرائی، کے موقع پر غیر سرکاری اور خفیہ منعقد کی جاتی تهی
انقلاب اسلامی کی فتح کے بعد امام خمینی نے واقعہ کے شہداء اور متاثرین کی یاد میں ۶ جون کی مذہبی بغاوت کو ایک بار پھر عوامی دن قرار دیتے ہوئے کہا اگرچه یه دن
مصیبت تها لیکن چونکہ ملک کے
استقلال و آزادی کا باعث بنا
مبارک هے۔
پہلوی حکومت کے خلاف ۱۵جون کی بغاوت ایرانی قوم کی جدوجہد کا ایک اہم موڑ تھی .جس کے نتیجے میں ۱۹۷۸ کی عام بغاوت اور انقلاب اسلامی کی فتح ہوئی۔
در حقیقت یه
بغاوت ہی تهی که جس نے "اسلامی جمہوریہ کا بیج بویا. اور اگر اس دن ۶ جون کی تحریک اور بغاوت نہ ہوتی تو اس اسلامی تحریک کا حشر ایک مختلف قسم کا ہوتا۔۔
[ترمیم]
(۱) یرواند آبراهامیان، ایران بین دو انقلاب: درآمدی بر جامعه شناسی سیاسی ایران معاصر، ترجمه احمد گل محمدی و محمدابراهیم فتّاحی ولی لایی، تهران ۱۳۷۷شمسی۔
(۲) جلال آل احمد، در خدمت و خیانت روشنفکران، تهران ۱۳۷۴شمسی۔
(۳) اسنادی از جمعیتهای مؤتلفه اسلامی، جاما، حزب ملل اسلامی، تهران: نشر نصر، ۱۳۵۳شمسی۔
(۴) ایران هیأت دولت، متن کامل مذاکرات هیأت دولت طاغوت در پانزده خرداد ۱۳۴۲، تهران.
(۵) مهدی بازرگان، خاطرات بازرگان: شصت سال خدمت و مقاومت، گفتگو با غلامرضا نجاتی، ج ۱، تهران ۱۳۷۵ شمسی۔
(۶) مهدی بازرگان، مدافعات در دادگاه غیرصالح تجدیدنظر نظامی، تهران ۱۳۵۰ شمسی۔
(۷) حماسه ۱۷ خرداد ۱۳۵۴ مدرسه فیضیه، به کوشش علی شیرخانی، تهران: مرکز اسناد انقلاب اسلامی، ۱۳۷۷ شمسی۔
(۸) روح الله خمینی، رهبر انقلاب و بنیانگذار جمهوری اسلامی ایران، صحیفه نور، تهران ۱۳۷۰ شمسی۔
(۹) در مکتب جمعه: مجموعه خطبه های نماز جمعه تهران، تهران: وزارت ارشاد اسلامی، ۱۳۶۴ شمسی۔
(۱۰) علی دوّانی، نهضت روحانیون ایران، تهران ۱۳۷۷ شمسی۔
(۱۱) حمید روحانی، بررسی و تحلیلی از نهضت امام خمینی در ایران، ج ۱، تهران ۱۳۵۸ شمسی۔
(۱۲) عباس زری باف، (خاطرات) سیدعباس زری باف، در خاطرات ۱۵ خرداد، دفتر ۴: بازار، چاپ علی باقری، تهران ۱۳۷۵ شمسی۔
(۱۳) محمدباقر سلطانی طباطبائی، مصاحبه با آیة الله سیدمحمدباقر سلطانی طباطبائی، حوزه، سال ۸، ش ۱ و ۲ (فروردین ـ تیر ۱۳۷۰).
(۱۴) حسین صالحی، (خاطرات) حسین صالحی، در خاطرات ۱۵ خرداد، دفتر ۴: بازار.
(۱۵) احسان طبری، کژراهه: خاطراتی از تاریخ حزب توده، تهران ۱۳۶۷ شمسی۔
(۱۶) مهدی عراقی، ناگفته ها: خاطرات شهید حاج مهدی عراقی، به کوشش محمود مقدسی، مسعود دهشور، و حمیدرضا شیرازی، تهران ۱شمسی۔
(۱۷) محمدفاضل موحدی لنکرانی، مصاحبه با آیة الله محمدفاضل لنکرانی، حوزه، سال ۸، ش ۱ و ۲ (فروردین ـ تیر ۱۳۷۰).
(۱۸) محمدتقی فلسفی، خاطرات و مبارزات حجة الاسلام فلسفی، تهران ۱۳۷۶شمسی۔
(۱۹) قیام ۱۵ خرداد به روایت اسناد ساواک، ج ۱: زمینه ها، تهران: وزارت اطلاعات، مرکز بررسی اسناد تاریخی، ۱۳۷۸شمسی۔
(۲۰) نیکی کدی، ریشه های انقلاب ایران، ترجمه عبدالرحیم گواهی، تهران ۱۳۶۹شمسی۔
(۲۱) غلامرضا کرباسچی، انقلاب اسلامی ایران به روایت خاطره، قسمت ۲، یاد، سال ۴، ش ۱۴ (بهار ۱۳۶۸ الف).
(۲۲) غلامرضا کرباسچی، قسمت ۴، یاد، سال ۵، ش ۱۷ (زمستان ۱۳۶۸ ب).
(۲۳) غلامرضا کرباسچی، زمینه های انقلاب اسلامی به روایت خاطره، یاد، سال ۳، ش ۹ (زمستان ۱۳۶۶).
(۲۴) غلامرضا کرباسچی، موضع احزاب و گروههای سیاسی در مبارزه روحانیت علیه مسئله رفراندم و لوایح شش گانه، یاد، سال ۴، ش ۱۶ (پاییز ۱۳۶۸ ج).
(۲۵) نورالدین کیانوری، خاطرات نورالدّین کیانوری، تهران ۱۳۷۲شمسی۔
(۲۶) محسن لبانی، (خاطرات) محسن لبانی، در خاطرات ۱۵ خرداد، دفتر ۴: بازار.
(۲۷) محمدرضا پهلوی، شاه مخلوع ایران، انقلاب سفید، تهران ۱۳۴۵ شمسی۔
(۲۸) محمدرضا پهلوی، مجموعه تألیفات، نطقها، پیامها، مصاحبهها و بیانات اعلیحضرت همایون محمدرضاشاه پهلوی آریامهر شاهنشاه ایران، تهران ۱۳۴۷.
(۲۹) مرکز اسناد انقلاب اسلامی، اسناد انقلاب اسلامی، تهران، ج ۱، ۱۳۷۴ ش، ج ۵، ۱۳۷۴شمسی۔
(۳۰) مرکز اسناد انقلاب اسلامی . آرشیو، پرونده های اسناد ساواک : قیام پانزده خرداد.
(۳۱) جواد مقصودی، (خاطرات) جواد مقصودی، در خاطرات ۱۵ خرداد، دفتر ۴: بازار.
(۳۲) جواد منصوری، تاریخ قیام پانزده خرداد به روایت اسناد، ج ۱، تهران ۱۳۷۷شمسی۔
(۳۳) نهضت آزادی ایران، صفحاتی از تاریخ معاصر ایران: اسناد نهضت آزادی ایران، ۱۳۴۰ـ۱۳۴۴، ج ۱: بیانیهها و تفسیرهای سیاسی، تهران ۱۳۶۱شمسی۔
(۳۴) رضا نیری، (خاطرات) سیدرضا نیری، در خاطرات ۱۵ خرداد، دفتر ۴: بازار.
(۳۵) اکبر هاشمی رفسنجانی، هاشمی رفسنجانی: دوران مبارزه، چاپ محسن هاشمی، تهران ۱۳۷۶شمسی۔
(۳۶) یادنامه: زندگینامه شهدای انقلاب اسلامی تهران از ۱۵ خرداد ۴۲ تا پایان سال ۵۷، ج ۱، تهران: بنیاد شهید انقلاب اسلامی، ۱۳۷۳ شمسی۔
[ترمیم]
[ترمیم]
دانشنامه جهان اسلام، بنیاد دائرة المعارف اسلامی، برگرفته از مقاله پانزده خرداد، شماره۲۶۴۸ ۔