کلی طبیعی

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



کلی طبیعی علم منطق اور علم فلسفہ کی اصطلاحات میں سے ایک اصطلاح ہے جس کا معنی وہ ماہیات ہیں جن کے افراد بالفعل یا بالقوۃ متعدد ہوتے ہیں۔


کلی سے مراد

[ترمیم]

لفظ کلی لفظِ مشترک ہے جس کا اطلاق تین معانی پر ہوتا ہے:
[۲] قطب‌الدین رازی، محمد بن‌ محمد، تحریر القواعد المنطقیۃ فی شرح رسالۃ الشمسیۃ، ص۶۱۔
[۵] شیرازی، قطب‌الدین، درة التاج (منطق)، ص۲۵-۲۶۔
[۶] مجتہد خراسانی (شہابی)، محمود، رہبر خرد، ص۱۱۱-۱۱۳۔


← پہلا معنی


کلی منطقی: اس مفہوم میں شرکت کے واقع ہونے کی قابلیت ہونی چاہیے، جیسے خود مفہوم کلی ۔ بالفاظ دیگر اس سے مراد وہ مفہومِ کلی ہے جس میں اس پہلو کو مدنظر رکھا جاتا ہے کہ یہ مفہوم متعدد افراد اور مصادیق پر صدق کرنے کی قابلیت رکھتا ہے۔ یقینا کثیر پر صدق کرنے کے پہلو کو مدنظر رکھنا ایک ذہنی اور عقلی امر ہے، مثلا انسان، حجر، شجر وغیرہ کہ ان مفاہیم ہر شیء سے قطعِ نظر کرتے ہوئے اس اعتبار سے دیکھیں کہ یہ کثیر پر صدق کر رہے ہیں کلی منطقی کہلائیں گے۔

← دوسرا معنی


کلی طبیعی: اس سے مراد ماہیات کا وہ مجموعہ ہے جو کلیت کے وصف کے ساتھ متصف ہوتا ہے، مثلا انسان اور عالم دو مفہوم ہیں جوکہ مشارکت کو قبول کرنے کی قید کے ساتھ مقید ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح مشارکت قبول نہ کرنے کی قید کے ساتھ بھی مقید ہو سکتے ہیں، مثلا انسان اور عالم کا جزئی ہونا۔ بالفاظِ دیگر ماہیتِ انسان اور ماہیتِ عالم آپس میں مشارکت اور مقارنت کے لیے شائستہ اور سازگار ہیں، یہ تب ہو گا جب انسان اور عالم دونوں کلی ہوں یا ان دو چیزوں کے درمیان مشارکت اور مقارنت کی سازگاری نہیں پائی جاتی، مثلا یہ انسان اور یہ عالم، کیونکہ اس میں انسان اور عالم جزئی ہیں۔ یہ ماہیات جو محلِ تقابل ہے کو کلی طبیعی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ واضح ہے کہ اس صورت میں محمول یعنی انسان اور عالم کو کلی ہونا چاہیے تاکہ وہ جزئی (یہ انساان اور عالم) پر بھی حمل ہو اور کلی پر بھی۔

علامہ طباطبائی نے تصریح کی ہے کہ ماہیت لا بشرطِ مقسمی کو کلی طبیعی کہتے ہیں جو خارج میں افراد کے ضمن میں پائی جاتی ہے۔ علامہ کی نظر میں کلی طبیعی ماہیتِ بشرطِ شیء یعنی ماہیت مخلوطہ، ماہیت بشرط لا یعنی ماہیت مجردہ اور ماہیت لا بشرطِ قسمی یعنی ماہیتِ مطلقہ کے مقابلے میں ہے۔ کلی طبیعی کے مورد میں اختلاف وارد ہوا ہے کہ آیا ماہیت لا بشرط قسمی اور لا بشرط مقسمی میں کوئی فرق ہے یا نہیں؟

← تیسرا معنی


کلی عقلی: اس سے مراد وہ مفہوم کلی ہے جو متعدد مصادیق پر صدق کی قابلیت رکھتا ہے جس میں خصوصیت کے ساتھ متعدد امور پر صدق کی قابلیت کی قید کو ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ بالفاظِ دیگر یہ پہلی اور دوسری قسم کے مرکب ہونے سے تشکیل پاتا ہے۔ جب وصف اور موصوف کے مجموعے کو باہمی طور پر ملحوظ رکھا جائے اور موصوف کا صفت کے ساتھ متصف ہونے کو مدنظر رکھا جائے تو اس کو کلی عقلی سے تعبیر کرتے ہیں۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ پہلی اور دوسری قسم کو مرکب صورت میں ملاحظہ کریں اور دونوں کے اتصاف اور ربط کو مدنظر رکھیں تو کلی عقلی تشکیل پاتی ہے جوکہ فقط ذہنی اور عقلی امر ہے۔
[۱۶] گرامی، محمدعلی، منطق مقارن، ص۷۹۔


کلی سے خاص ہونی کی نفی

[ترمیم]

اس طرف توجہ رہے کہ یہ تین اقسام (منطقی، طبیعی اور عقلی) مفہومِ کلی کے ساتھ مختص نہیں بلکہ جنس، فصل، نوع اور خاصہ اور عرضِ عام اور ان کے علاوہ دیگر موارد میں بھی موجود ہے۔ ان تین اقسام کو کلی کے ساتھ خاص قرار دینا مِن باب مثال ہے نہ کہ باب اختصاص و انحصار میں سے ہے۔ .

اقسام کلی کا مبدأ

[ترمیم]

ان تین قسموں کو اس قضیہ سے حاصل کیا جاتا ہے: الانسان کلی؛ انسان کلی ہے۔ جب اس قضیہ کا تجزیہ تحلیل کرتے ہیں اور انسان کو کلی سے جدا طور اور کلی کو انسان سے جدا طور پر اور پھر ان کو آپس میں مرکب طور پر ملاحظہ کریں تو یہ تین قسمیں ہمارے سامنے آتی ہیں:
۱. انسان: اس کو ہر صفت اور وصف سے قطع نظر کرتے ہوئے فقط اس کی ذات اور طبیعتِ شیء کو ملاحظہ کریں تو یہ لحاظ ماہیتِ انسان کہلائے گا۔ یعنی نہ اس کے کلی و جزئی ہونے کو ملاحظہ کریں اور نہ اس کے موجود ہونے اور معدوم ہونے کو۔ اس صورت میں ہماری توجہ فقط ذات اور ماہیت و طبیعتِ شیء پر مرکوز ہو جائے گی۔
۲. کلی: یہ وہ وصف یا محمول ہے جس کو قضیہ سے جدا کر کے فقط اس کے کلی ہونے اور کثیر پر صدق کرنے کے پہلو کو ملاحظہ کیا گیا ہے۔
۳. مرکب صورت میں: اس اعتبار سے وصف یعنی کلی ہونا موصوف یعنی انسان پر صدق کر رہا ہے۔ بالفاظ دیگر قضیہ اور اجزاء قضیہ کے باہمی ربط کو ملاظہ کریں اور وصف و محمول کو موصوف یا موضوع پر حمل کرتے ہوئے اس کو دیکھیں۔ قضیہ میں کلی محمول یا عارض کہلائے گا اور انسان معروض یا موضوع۔

ان تین قسموں میں پہلی میں چونکہ طبیعتِ شیء جو خارج میں اپنے افراد کے ضمن میں موجود ہے سامنے آ جاتی ہے اس لیے کو کلیِ طبیعی سے تعبیر کرتے ہیں۔ جبکہ دوسری قسم میں اہل منطق کی مراد فقط کلیت کو مدنظر رکھنا اور کثیر پر صدق کرنا ملحوظ ہے اس لیے اس کو کلیِ منطقی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ جبکہ آخری قسم میں قضیہ کو مرکب صورت میں اور موصوف کو کلیت کے وصف کے ہمراہ مدنظر رکھتے ہیں جس کو عقل درک کرتی ہے اور ذہن میں یہ حمل قرار پاتا ہے اس لیے اس کو کلی عقلی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ پس کلی عقلی میں چونکہ حمل کا ظرف اور موطن ذہن ہے اس لیے یہ خارج میں موجود نہیں ہو سکتی ۔

کلی طبیعی کی اقسام

[ترمیم]

خصوصِ کلیِ موجود کو کثرت اور دو ضدّوں سے مقایسہ کرنے کے اعتبار سے تین قسمیں سامنے آتی ہیں:
۱. کلی طبیعی جو کثرت سے پہلے ہو؛
۲. کلی طبیعی جو کثرت کے بعد ہو؛
۳. کلی طبیعی جو کثرت سے ملی ہوئی ہو۔
[۱۸] فرصت شیرازی، میرزا محمد، اشکال ‌المیزان، ص۳۸۔
[۱۹] تفتازانی، عبد الله بن شہاب‌ الدين، الحاشیۃ علی تہذیب المنطق، ص۴۹۔
[۲۰] ابن‌ سینا، حسین بن عبدالله، الشفا (منطق)، ج۱، ص۶۵۔


حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. خواجہ نصیر الدین طوسی، محمد بن محمد، اساس الاقتباس، ص ۲۰۔    
۲. قطب‌الدین رازی، محمد بن‌ محمد، تحریر القواعد المنطقیۃ فی شرح رسالۃ الشمسیۃ، ص۶۱۔
۳. سبحانی، جعفر، تہذیب الاصول (تقریر بحث سید روح الله خمینی)، ج۱، ۳۴۳۔    
۴. سبحانی تبریزی، جعفر، تہذیب الاصول (تقریر بحث سید روح الله خمینی)، ج۱، ص۳۴۹۔    
۵. شیرازی، قطب‌الدین، درة التاج (منطق)، ص۲۵-۲۶۔
۶. مجتہد خراسانی (شہابی)، محمود، رہبر خرد، ص۱۱۱-۱۱۳۔
۷. سبزواری، ملا ہادی، شرح المنظومۃ، ص۱۳۰-۱۴۹۔    
۸. آخوند خراسانی، محمد علی، فوائد الاصول، ج۱، ص۵۷۱۔    
۹. مظفر، شیخ محمد رضا، المنطق، ص ۸۵۔    
۱۰. علامہ طباطبائی، سید محمد حسین، نہایۃ الحکمۃ، ص ۹۳۔    
۱۱. مظفر، شیخ محمد رضا، المنطق، ص ۸۵۔    
۱۲. خوئی، سید ابو القاسم، اجود التقریرات، ج۲، ص۳۹۱۔    
۱۳. فیّاض، محمد اسحاق، محاضرات فی اصول الفقہ، ج۳، ص ۱۹۲۔    
۱۴. فیّاض، محمد اسحاق، محاضرات فی اصول الفقہ، ج۳، ص ۳۶۵۔    
۱۵. فیّاض، محمد اسحاق، محاضرات فی اصول الفقہ، ج ۴، ص۵۱۴۔    
۱۶. گرامی، محمدعلی، منطق مقارن، ص۷۹۔
۱۷. مشکوة الدینی، عبد المحسن، منطق نوین مشتمل بر اللمعات المشرقیۃ فی الفنون المنطقیه، ص۲۱۲۔    
۱۸. فرصت شیرازی، میرزا محمد، اشکال ‌المیزان، ص۳۸۔
۱۹. تفتازانی، عبد الله بن شہاب‌ الدين، الحاشیۃ علی تہذیب المنطق، ص۴۹۔
۲۰. ابن‌ سینا، حسین بن عبدالله، الشفا (منطق)، ج۱، ص۶۵۔
۲۱. شیخ جعفر سبحانی، جلالی مازندرانی، محمود، المحصول فی علم الاصول، ج۲، ص۱۰۴-۱۰۵۔    
۲۲. شیخ جعفر سبحانی، جلالی مازندرانی، محمود، المحصول فی علم الاصول، ج۲، ص۵۹۷-۵۹۸۔    


مأخذ

[ترمیم]

پایگاه مدیریت اطلاعات علوم اسلامی، مقالہِ کلی طبیعی سے یہ تحریر لی گئی ہے، سایٹ مشاہدہ کرنے کی تاریخ:۱۳۹۶/۴/۷۔    
بعض مطالب اور حوالہ جات محققینِ ویکی فقہ اردو کی جانب سے اضافہ کیے گئے ہیں۔






جعبه ابزار