ہفہاف بن مہند راسبی

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



ہفہاف بن مہند راسبی شہدائے کربلا میں سے ایک ہیں کہ امام حسینؑ کے بعد شہادت پر فائز ہوئے۔


شہادت کی کیفیت

[ترمیم]

ہفہاف بن مہند بصرہ کے رہنے والے تھے، جب امام حسینؑ کے قیام سے مطلع ہوئے تو بصرہ سے آپ کی مدد کیلئے روانہ ہو گئے۔ جب کربلا پہنچے تو امام ؑ شہید ہو چکے تھے۔ اس لیے عمر سعد کی فوج میں داخل ہو کر تلوار نیام سے نکالی اور کہا:
«یا ایُّهاالجُندُ المُجَنّد، أنَا الهَفهافُ بنُ المُهَنّد، أبغی عِیالَ مِحمّد»
اے آمادہ سپاہیو! میں ہفہاف بن مہند ہوں، محمدؐ کے خاندان کی جستجو میں ہوں!
پھر ان پر حملہ کر دیا اور بہادری سے جنگ کی اور بہت سے افراد کو مار ڈالا یہاں تک کہ دشمن کی فوج نے ان کا محاصرہ کر لیا۔ بہادری کے ساتھ جنگ لڑنے کے بعد آخر کار پانچ افراد نے آپ کا محاصرہ کر لیا اور آپ کو شہید کر دیا۔
[۲] صنعانی، حمید بن احمد، الحدائق الوردیة، ج۱، ص۱۰۵۔


امام سجادؑ کی تعریف

[ترمیم]

ایک روایت کے مطابق امام علی بن الحسینؑ نے ہفہاف کی عاشور کے دن شجاعت کی تعریف کی ہے۔ آپ کی شجاعت اور جنگ ایسی تھی کہ امام سجادؑ نے فرمایا: پیغمبر اکرمؐ کی بعثت سے اب تک لوگوں نے علیؑ کے بعد اس جیسا مرد میدان نہیں دیکھا۔
[۴] صنعانی، حمید بن احمد، الحدائق الوردیة، ج۱، ص۱۰۵۔


امام علیؑ کا ہمرکاب

[ترمیم]

تنقیح المقال کے مؤلف نے سند ذکر کیے بغیر نقل کیا ہے کہ ہفہاف امام علیؑ کے شجاع اور مخلص شیعہ تھے اور حضرتؑ کی جنگوں میں شریک تھے۔
جنگ صفین میں امام نے انہیں بصرہ کے ازدیوں کا سربراہ بنایا۔ امیر المومنینؑ کی شہادت کے ہفہاف امام حسنؑ کے صحابی رہے اور پھر امام حسینؑ کے ساتھ ملحق ہو گئے، یہاں تک کہ عاشور کے دن سید الشہدا کی نصرت میں شہادت کے بلند مقام پر فائز ہوئے۔
[۵] مامقانی، عبد الله، تنقیح المقال، ج۱، ص۳۰۳-۳۰۴۔
[۷] موسوی زنجانی، وسیلة الدارین، ج۱، ص۲۰۳-۲۰۴۔
[۸] حائری مازندرانی، معالی السبطین، ج۱، ص۴۰۰- ۴۰۲۔
[۹] محلاتی، ذبیح‌الله، فرسان الهیجاء، ج۲، ص۱۴۴-۱۴۵۔


حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. کوفی، فضیل، تسمیة مَن قُتل مع الحسین علیه‌السلام من ولده وإخوته وأهل بیته وشیعته، ص۳۰-۳۱۔    
۲. صنعانی، حمید بن احمد، الحدائق الوردیة، ج۱، ص۱۰۵۔
۳. کوفی، فضیل، تسمیة مَن قُتل مع الحسین علیه‌السلام من ولده وإخوته وأهل بیته وشیعته، ص۳۰-۳۱۔    
۴. صنعانی، حمید بن احمد، الحدائق الوردیة، ج۱، ص۱۰۵۔
۵. مامقانی، عبد الله، تنقیح المقال، ج۱، ص۳۰۳-۳۰۴۔
۶. جمعی از نویسندگان، ذخیرة الدارین، ج۱، ص۴۵۷۔    
۷. موسوی زنجانی، وسیلة الدارین، ج۱، ص۲۰۳-۲۰۴۔
۸. حائری مازندرانی، معالی السبطین، ج۱، ص۴۰۰- ۴۰۲۔
۹. محلاتی، ذبیح‌الله، فرسان الهیجاء، ج۲، ص۱۴۴-۱۴۵۔


ماخذ

[ترمیم]
پژوهشی پیرامون شہدائے کربلا، جمعی از نویسندگان، ص۳۸۸-۳۸۹۔    
پیشوایی، مهدی، مقتل جامع سیدالشهداء، ج۱، ص۸۷۸۔






جعبه ابزار