یزید کی ہلاکت
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
یزید بن
معاویہ بن
ابو سفیان دوسرے اموی بادشاہ کی پیدائش سنہ ۲۲ یا ۲۵ ہجری کو ہوئی۔
اس کی ماں
میسون بنت
بجدل بن انیف کلبی تھی۔
[ترمیم]
معاویہ نے اپنی حکومت کے آخری ایام میں
دھمکیوں اور
لالچ کے بل بوتے پر
مسلمانوں سے یزید کیلئے
خلافت کی بیعت لے لی اور
امام حسنؑ کے ساتھ کیے گئے صلح نامہ کی شرائط کہ جس پر اس کے دستخط تھے؛ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے
بدکار بیٹے کو
اسلامی دنیا کا حاکم مقرر کر دیا۔
یزید سنہ ۶۰ھ میں تخت نشین ہوا اور سنہ ۶۴ھ تک حکومت پر براجمان رہا۔
[ترمیم]
عام مورخین نے یزید کو ایک شراب خور، بندروں سے کھیلنے والا اور اسلامی احکامات کی نسبت بے اعتنا قرار دیا ہے۔
تاریخ میں وارد ہوا ہے کہ عبد اللہ بن حنظلہ اور اہل مدینہ کی ایک جماعت نے یزید کے طرز زندگی سے آگاہی کی غرض سے
دمشق کا
سفر کیا۔ انہوں نے
مدینہ واپسی پر یزید کے بارے میں کہا: ہم ایک ایسے شخص کے پاس گئے تھے جو بے دین ہے، شراب خور ہے، تنبور بجاتا ہے، موسیقار اس کے پاس
لہو و
لعب میں مشغول رہتے ہیں اور وہ کتوں کے ساتھ کھیلتا ہے۔۔۔ ۔
عبد اللہ بن حنظلہ نے مزید کہا: خدا کی
قسم! ہم یزید کے پاس سے اس حال میں باہر نکلے کہ ہمیں آسمان سے پتھر برسنے کا خوف تھا۔
مسعودی بھی یزید کے بارے میں لکھتا ہے: اس کی زندگی
فرعون کی مثل تھی بلکہ اس سے بھی بدتر تھی۔
بعض مصنفین کے مطابق یزید دیہات میں اپنی دایہ کے پاس پروان چڑھا اور اس کے ننھیال قبول اسلام سے پہلے
عیسائی تھے اور ابھی تک مسیحی عادات و اطوار ان میں باقی تھیں۔ لہٰذا یزید کی تربیت عیسائیوں کے طریقے پر ہوئی تھی۔
[ترمیم]
یزید نے اپنے تین چار سالہ دور حکومت میں انتہائی بھیانک جرائم کا ارتکاب کیا۔
یزید کا سب سے بڑا جرم
امام حسینؑ اور آپؑ کے ۷۲ باوفا ساتھیوں کو شہید کرنا ہے۔ تاریخوں میں منقول ہے: یزید نے اپنی حکومت کے آغاز میں مدینے کے والی عتبہ کو ایک خط لکھا اور اسے حکم دیا کہ امام حسینؑ اور دیگر شخصیات سے
بیعت لے۔ یزید نے اس خط میں حکم دیا کہ اگر یہ لوگ بیعت نہ کریں تو ان کے سر قلم کر کے میرے پاس بھیجو۔
مدینہ شہر پر حملے اور
قتل و غارت کو واقعہ
حرہ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔
اس سال یزید نے پانچ ہزار شامیوں کو مسلم بن عقبہ کی قیادت میں مدینہ روانہ کیا۔ مسلم نے مدینہ پر حملہ کر کے واقعہ حرہ کا ارتکاب کیا۔ اس سانحے میں بہت سے لوگ قتل کر دئیے گئے۔ اس نے اپنے آدمیوں کو تین دن کیلئے کھلی چھٹی دے دی کہ وہ مدینہ میں جو مرضی کریں۔
دینوری لکھتے ہیں: واقعہ حرہ میں اسی کے لگ بھگ
صحابہ کرامؓ کو قتل کیا گیا۔
مہاجرین و
انصار میں سے ۷۰۰ اور باقی مسلمانوں میں سے دس ہزار افراد کام آئے۔
اس کا ایک اور جرم مکہ شہر پر حملہ اور
کعبہ پر سنگ باری ہے۔
مسلم بن عقبہ واقعہ حرہ کے بعد
ابن زبیر کے ساتھ لڑائی کی غرض سے مکہ کی طرف روانہ ہوا مگر راستے میں ہی ہلاک ہو گیا۔ اس کے بعد حصین بن نمیر کو لشکر یزید کا سپہ سالار مقرر کیا گیا۔
شام کے سپاہیوں نے
مکہ کا محاصرہ کیا اور
منجنیق سے اس شہر پر حملہ کیا۔
حرم کو آگ لگا دی۔ اس واقعے میں خانہ کعبہ منہدم ہو گیا اور لوگوں کے بہت سے گھر نذر آتش ہو گئے اور سنہ ۶۴ھ میں یزید کی ہلاکت کی خبر مشہور ہونے کے بعد سپاہی شام واپس آ گئے۔
[ترمیم]
شیخ عباس قمی نقل کرتے ہیں: چودہ
ربیع الاول سنہ ۶۴ھ کو اس کی ہلاکت کا دن ہے۔
طبری لکھتے ہیں: یزید ۱۵ ربیع الاول سنہ ۶۴ھ کو
جمعرات کے دن مرا۔
سہیل طقوش لکھتا ہے: یزید حوران کے اطراف میں تین سال آٹھ ماہ اور چودہ دن کی حکمرانی کے بعد ہلاک ہو گیا۔
اس کی موت کی علت کے بارے میں نقل ہوا ہے کہ وہ ایک بیماری کے باعث حوران میں ہلاک ہوا۔
شیخ عباس قمی لکھتے ہیں:
شیخ صدوق نے
روایت کیا ہے کہ وہ ناگہانی موت کا شکار ہوا۔
رات کو مستی کی حالت میں سویا تو صبح مردہ پایا گیا اور اس کی لاش خراب ہو چکی تھی۔
اس حوالے سے دیگر اقوال بھی نقل ہوئے ہیں جو زیادہ اہم نہیں ہیں۔ شیخ عباس قمی لکھتے ہیں: اس کا مقام دفن حواریین نامی مقام پر واقع ہے۔
ایک اور مقام پر منقول ہے کہ اس کا جنازہ
دمشق میں لایا گیا اور اسے باب صغیر میں دفن کیا گیا اور اس کی قبر اس وقت کوڑے کے ڈھیر میں بدل چکی ہے۔
تاریخی منابع میں ہلاکت کے وقت اس کی عمر ۳۷،
۳۹ اور ۳۵ سال ذکر کی گئی ہے۔
[ترمیم]
[ترمیم]
سائٹ پژوھہ، ماخوذ از مقالہ «ہلاکت یزید بن معاویہ»، نظر ثانی ۹۵/۰۱/۱۷۔