آیت اللہ سید ابو القاسم الموسوی الخوئی
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
سید ابو القاسم خوئی (۱۲۷۸-۱۳۷۱ش/ ۱۳۱۷-۱۴۱۳ق)، نمایاں شیعہ مرجع تقلید ،
فقیہ،
اصولی اور معروف رجالی تھے۔ آپ کی
فقہ،
اصول،
رجال اور
قرآنیات میں بہت سی تصنیفات ہیں۔ آپ کے بقول نمایاں ترین اساتذہ جنہوں نے ان کی علمی شخصیت سازی میں مؤثر کردار ادا کیا؛ یہ تھے:
ملا فتح اللّه شریعت اصفہانی،
مہدی مازندرانی،
آقاضیاءالدین عراقی،
محمدحسین غروی اصفہانی کمپانی اور
محمدحسین نائینی ۔
نجف کے بہت سے صف اول کے علما منجملہ مذکورہ علما نے خوئی کے
اجتہاد کی تائید کی اور
آیت اللہ بروجردی کی رحلت کے بعد آپ کی مرجعیت سنجیدگی سے سامنے آئی اور
آیت اللہ حکیم کی رحلت کے بعد آپ کو اعلم مرجع قرار دیا گیا۔
خوئی تحصیل کے ابتدائی سالوں سے ہی تدریس کو بہت اہمیت دیتے تھے اور
حوزہ علمیہ نجف کے عالی مرتبہ
مدرس تھے۔ تقریبا ساٹھ برس تک آپ اس منصب پر فائز رہے اور اس دوران اصول فقہ کے کئی دورے اور فقہی ابواب کا ایک مکمل دورہ تدریس کیا جو ایک نادر امر ہے۔ آپ نے امامیہ کے اصول فقہ کے مبانی میں انقلاب برپا کیا اور اس میدان میں اپنے اساتذہ یا گزشتہ اصولیوں کے نظریات کی وضاحت، تقویت اور توسیع کے علاوہ اپنے ابتکار کے ساتھ جدید نظریات پیش کیے۔ آیت اللہ خوئی کی متعدد تصانیف مختلف موضوعات بالخصوص
فقہ،
اصول،
رجال،
تفسیر اور
قرآنیات میں یادگار ہیں۔
معجم رجال الحدیث،
البیان فی تفسیر القرآن،
منهاج الصالحین،
نفحات الاعجاز،
مستند العروة الوثقی انہی آثار میں سے ہیں۔
آیت اللہ خوئی کی بعض اخلاقی خصوصیات میں سے سادہ و بے عیب زندگی کے ساتھ طالب علمی کے درج ذیل آداب کی رعایت کو شمار کیا گیا ہے:
بردباری ،
تواضع ، سائلین کا احترام، سلام میں سبقت، بزرگ علما بالخصوص اپنے معاصر مراجع تقلید کی تکریم۔ خوئی
تبلیغ دین ، اسلامی علوم کی ترویج اور ضرورت مندوں کی مدد کو بہت اہمیت دیتے تھے؛ اس اعتبار سے آپ کی سماجی خدمات بہت وسیع پیمانے پر تھیں اور آپ نے مختلف ممالک میں خیراتی ادارے قائم کیے۔
آپ
پہلوی حکومت کے علما، مراجع اور عوام مخالف اقدامات پر مذمتی بیان جاری کرتے تھے اور عوام اور مراجع تقلید کی حمایت کا اعلان کرتے تھے۔ انقلاب کی کامیابی کے بعد بھی آپ اسی موقف پر قائم رہے؛ چنانچہ فروردین ۱۳۵۸شمسی میں
اسلامی جمہوریہ ایران کے حق میں ریفرنڈم کیلئے عوام کو اس میں بھرپور شرکت اور اسلامی جمہوریہ کے حق میں ووٹ دینے کی دعوت دی۔ عراق کی ایران کے خلاف جنگ کے دوران بھی
عراقی حکومت کے شدید دباؤ کے باوجود آپ ثابت قدم رہے اور ان کی تھوڑی سی حمایت بھی نہ کی اور ہمیشہ بعثی حکومت کے خلاف ڈٹے رہے۔
[ترمیم]
سید ابو القاسم خوئی، شیعہ مرجع تقلید ، مایہ ناز
فقیہ ،
اصولی اور عصر حاضر کے نمایاں رجالی تھے۔ آپ کی فقہ، اصول، رجال اور قرآنیات کے موضوعات پر متعدد تصانیف ہیں۔ آپ کا کہنا تھا کہ میری ولادت
۱۵
رجب ۱۳۱۷ھ (۱۲۷۸شمسی) کو
خوی کے ایک عالم گھرانے میں ہوئی۔ آپ کا سلسلہ نسب
امام موسی بن جعفرؑ تک پہنچتا ہے؛ اس لیے
معجم رجال الحدیث،
میں خود کو موسوی خوئی کے نام سے متعارف کروایا اور دیگر مقامات پر بھی اسی عنوان سے امضا کیا۔ بعض منابع نے نجفی کا بھی اضافہ کیا ہے۔
آپ کے والد
سید علیاکبر، بن سید ہاشم (اس خاندان کے پہلے فرد تھے کہ جنہوں نے خوی میں قیام کیا) ۱۲۸۵ھ کو خوی میں پیدا ہوئے اور ۱۳۰۷ھ میں دینی تعلیم کی غرض سے
عتبات عالیات عراق تشریف لے گئے۔
آپ نے
نجف میں
محمد بن فضلعلی شرابیانی اور
محمدحسن مامقانی جیسے اساتذہ سے کسب فیض کیا۔ ۱۳۱۵ کو خوی واپس آ گئے۔
مشروطہ کے بعد کے واقعات کی وجہ سے ۱۳۲۸ کو
نجف ہجرت کر گئے اور
سید محمد کاظم طباطبائی یزدی کے ساتھیوں میں شامل ہو گئے۔ سید علیاکبر خوئی ۱۳۴۶ھ میں
ایران واپس آ گئے اور
مسجد جامع گوہر شاد مشہد میں امامت کے فرائض ادا کرنے میں مشغول ہو گئے۔ ۱۳۱۴شمسی میں مشہد کے عوام نے حجاب پر پابندی کے حکومتی فیصلے پر احتجاج شروع کیا تو آپ بھی اس تحریک کے روح رواں تھے، اسی کی پاداش میں انہیں جلا وطن کر دیا گیا۔
رضا شاہ کی برطرفی کے بعد آپ دوبارہ مسجد گوہر شاد کے امام جماعت مقرر ہوئے۔ سید علی اکبر ۱۳۳۱شمسی، میں
زیارت کی غرض سے نجف تشریف لے گئے؛ اسی دوران آپ کا انتقال ہو گیا اور آپ کو وہیں پر سپرد خاک کیا گیا۔ استاد شرابیانی کے درسِ اصول کی تقریرات آپ کے آثار میں سے ہے۔
سید ابو القاسم خوئی کے سب سے مشہور شاگرد جو عالم دین بھی تھے؛ یہ ہیں: سید جمالالدین، سید محمدتقی، سید عبدالمجید اور سید علی۔
[ترمیم]
سید ابو القاسم نے خوی میں ابتدائی دروس کی تعلیم حاصل کی۔ پھر اپنے بھائی سید عبد اللہ (عالم دین اور
کربلا میں مقیم مدرّس) اور خاندان کے دیگر افراد کے ہمراہ ۱۳۳۰ میں نجف تشریف لے گئے۔
نجف میں مقدماتی دروس اور
ادبیات عرب کے بعد فقہ و اصول اور
فلسفہ کی تعلیم بہت سے اساتذہ منجملہ اپنے والد
میرزا علی آقا شیرازی،
اور
عبدالکریم زنجانی سے حاصل کی۔ ۱۳۳۸ میں فقہ و اصول کے
دروس خارج کا آغاز کیا اور نجف کے ممتاز اساتذہ کے دروس میں شرکت کی۔ آپ نے معجم رجال الحدیث میں رقم کردہ اپنی سوانح حیات میں
ملا فتح اللّه شریعت اصفہانی (المعروف شیخ الشریعہ)،
مہدی مازندرانی،
آقا ضیاء الدین عراقی،
محمدحسین اصفہانی (المعروف محقق اصفهانی) اور
محمد حسین نائینی کو درس خارج کے دوران اپنے نمایاں اور مؤثر ترین اساتذہ قرار دیا ہے اور ان میں سے آخری دو علما کے پاس آپ نے سب سے زیادہ کسب فیض کیا اور ان دونوں سے ایک مکمل اصول فقہ کا دورہ اور متعدد فقہی مباحث کی تعلیم حاصل کی ہے۔
خوئی نے فقہ و اصول کے علاوہ دیگر علوم پر بھی دسترس حاصل کی۔ انہوں نے اپنے مذکورہ زندگی نامے میں اپنے فقہ و اصول کے ممتاز اساتذہ کا ذکر کیا ہے لیکن قطعا آپ کے
کلام ،
تفسیر ،
قرآنیات اور
فن مناظرہ کے استاد
محمد جواد بلاغی بھی آپ کیلئے بہت موثر ثابت ہوئے؛ یہاں تک کہ آپ کی دو کتابوں
البیان اور
نفحات الاعجاز کے ایک حصے کو خوئی کی بلاغی سے حاصل کردہ معلومات کا خلاصہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ آپ نے البیان
اور نفحات الاعجاز
میں کئی مرتبہ بلاغی اور ان کی اہم تالیف
الهدی الی دین المصطفی، کا نام لیا ہے۔ آپ کی البیان میں بعض تعبیرات
سے پتہ چلتا ہے کہ آپ بلاغی کے شاگرد رہے ہیں۔ آیت اللہ خوئی کے دیگر اساتذہ یہ ہیں:
سید ابو تراب خوانساری رجال و
درایہ میں؛
سیدحسین بادکوبی حکمت و
فلسفہ میں؛
سید علی قاضی ،
شیخ مرتضی طالقانی اور
سید عبدالغفار مازندرانی اخلاق و
سیر و سلوک میں اور
سید ابوالقاسم خوانساری قدیم ریاضیات میں۔
[ترمیم]
کہا جاتا ہے کہ خوئی کی علم ہندسہ میں صلاحیت غیر معمولی تھی۔
خوئی
کے بقول ان کے پاس
کتب اربعہ اور دیگر حدیثی جوامع سے
اجازہ روایت چند طریق سے ہے کہ جن میں سے ایک طریق ان کے استاد نائینی سے شروع ہوتا ہے۔ دیگر روائی مشایخ میں سے
سیدعبدالحسین شرفالدینِ عاملی ہیں کہ جن کے طریق سے انہوں نے
اہل سنت علما کے آثار کی بھی روایت کی ہے۔
سنہ ۱۳۱۰شمسی تا ۱۳۱۲شمسی کے دوران نجف کے سرفہرست علما منجملہ نائینی، محمدحسین اصفهانی، آقا ضیاء الدین عراقی، محمدجواد بلاغی، میرزا علی شیرازی اور
سیدابوالحسن اصفهانی نے خوئی کے
اجتہاد کی تأیید کی۔
[ترمیم]
خوئی اپنی تعلیم کی ابتدا سے ہی تدریس کو بہت اہمیت دیتے تھے
اور قطعا اپنی زندگی کی چوتھی دہائی میں
حوزہ علمیہ نجف کے عالی مرتبہ مدرس بن چکے تھے اور آپ ساٹھ برس تک اس مسند پر فائز رہے۔ آپ نے اس دوران اصول فقہ کے چند دورے اور فقہی ابواب کے ایک کامل دورے کی تدریس کی جو ایک نادر امر ہے۔
خوئی کے شاگردوں کا تعلق کئی نسلوں سے ہے۔
منابع کے مطابق، خوئی کے خارجِ اصول کے پہلے دورے میں
محمدتقی ایروانی،
سلمان خاقانی،
سیدمحمد روحانی،
علی خاقانی (المعروف صغیر) اور
سید محمد کلانتر شریک تھے۔ اس دورے میں شریک ہونے والے شاگردوں کی تعداد میں اختلاف رائے ہے۔
محمد تقی بہجت بھی خوئی کے قدیم شاگردوں میں سے تھے۔
محمد صغیر کے مطابق
خوئی ۱۳۲۳شمسی، میں کربلا کے عظیم مرجع
حاج آقا حسین قمی، کی دعوت پر تدریس کیلئے کربلا تشریف لے گئے اور تین سال تک وہاں رہے اور قمی کی (۱۳۲۵شمسی) میں وفات کے بعد نجف واپس آ گئے۔جعفری ہمدانی
نے بھی یہ واقعہ کچھ اختلاف کے ساتھ نقل کیا ہے۔
اسی طرح خوئی سنہ ۱۳۱۰شمسی اور ۱۳۲۸شمسی، میں
امام رضاؑ کے مزار کی زیارت کیلئے
ایران گئے اور
قم و
تہران میں بھی قیام کیا۔ قم میں پہلے سفر کے دوران
امام خمینیؒ جو اس زمانے میں قم کے جدید حوزے کے مدرس اور فاضل استاد تھے؛ سے بھی ملاقات کی اور نائینی کے ایک ممتاز شاگرد کے عنوان سے علما نے ان کا خاص اکرام کیا۔
دوسرے سفر کے موقع پر آیت اللہ
بروجردی کی زعامت تھی اور اس بار بھی حوزہ کے علما و فضلا نے آپ کا استقبال کیا اور حوزے کے بزرگان منجملہ آیت اللہ بروجردی اور
محقق داماد سے آپ کی ملاقاتیں بھی ہوئیں۔
بعض اقوال کے مطابق، خوئی نے آیت اللہ بروجردی کے علمی مقام کی تحسین کی ہے۔ خوئی نے بذات خود ان دو سفروں اور سنہ ۱۳۱۳شمسی میں
حج سے مشرف ہونے کا ذکر کیا ہے۔
۱۳۱۵شمسی میں آقائے نائینی اور محقق اصفہانی کی وفات اور ۱۳۲۱شمسی میں آقا ضیا عراقی کی وفات کے بعد آیت اللہ خوئی کا درس حوزہ نجف کے ایک اہم اور بتدریج پر رونق ترین علمی اور درسی حلقے کی شکل اختیار کر گیا۔ یہاں تک کہ
سید عبد الهادی شیرازی،
سید محمود شاهرودی اور
سید محسن حکیم جیسے مراجع کی موجودگی کے باوجود خوئی کے درس کو حوزہ نجف میں محوریت حاصل تھی اور آپ کے درس کی تعطیل یا انعقاد کا حوزہ کے درسی نظام پر اثر ہوتا تھا ۔
پھر خوئی کو «زعیم حوزہ علمیہ» کا لقب ملا اور کہا جاتا ہے کہ آیت اللہ حکیم نے بھی اس کی تائید کی ۔
آیت اللہ خوئی سے منقول ہے کہ انہوں نے تدریس کے وقت پہلے اپنی پوری توجہ
اصول فقہ پر مرکوز کیے رکھی تاکہ ایک اصول کا دورہ کامل و جامع طور پر اپنے درس کے شرکا تک منتقل کر دیں اور پھر
فقہ کو شروع کریں۔
اگر دروس کی مختلف تقریرات کو تحریر اور شائع کرنے کی تاریخ پر غور کیا جائے تو اسی مطلب کی تائید ہوتی ہے۔خوئی
نے اصول کے خارج کے چھ مکمل دوروں کی تدریس کی اور ساتواں دورہ ان کی مرجعیت کے حوالے سے مصروفیات کے باعث صرف ضد کی بحث تک جاری رہا مگر ان کا فقہی درس خارج ساٹھ سال تک مسلسل جاری رہا۔
اصول کے درس خارج کے چھٹے دورے کی مباحث اور آپ کی بہت سی فقہی مباحث کو ریکارڈ بھی کیا گیا ہے۔ آپ کے اصول کا درس خارج
آخوند خراسانی کی کتاب
کفایۃ الاصول کی شرح و تنقید کی منزلت پر تھا۔ آپ پہلے مؤلف کی آرا کا جائزہ لیتے پھر ان علما کی آرا کو دیکھتے کہ جنہیں اس کتاب میں ذکر کیا گیا ہے، منجملہ محمد حسین اصفہانی
صاحب فصول،
محمدتقی اصفهانی صاحب
هدایة المسترشدین،
میرزای قمی صاحب
قوانین الاصول اور
شیخ انصاری؛ پھر آخوند کے نمایاں معاصر شاگردوں اور اپنے اساتذہ منجملہ نائینی، محقق اصفهانی اور آقا ضیاء عراقی کے نظریات کو نقل کرتے اور آخر میں اپنا نظریہ بیان کرتے تھے۔
فقہ کے درس خارج میں آپ نے آغاز میں
شیخ انصاری کی
مکاسب اور
حاج آقارضا ہمدانی کی
مصباح الفقیہ اور اس کے بعد سنہ ۱۳۳۶شمسی سے
سید محمد کاظم طباطبائی یزدی، کی مشہور کتاب
عروة الوثقی پر تدریس کی۔
غروی تبریزی، کے نزدیک
کتاب
عروة الوثقیٰ آقائے خوئی کے درس کا محور اس وجہ سے قرار پائی؛ کیونکہ اہم فروعات اور بہت سے پیش آنے والے مسائل پر مشتمل تھی۔ خوئی فقہ کے درس میں بھی صاحب عروۃ الوثقیٰ سمیت چند قدیم و متاخر فقہا کے نظریات کی تشریح، تنقیح اور وضاحت کے بعد اپنے نظریے پر دلیل قائم کر کے اسے بیان کرتے تھے۔
آیت اللہ خوئی کے درس کا پہلا دورہ
حرم امام علیؑ میں واقع ایک مقبرہ میں منعقد ہوتا تھا؛ مگر کچھ عرصے کے بعد شاگردوں کی تعداد میں اضافہ ہونے کے بعد حرم کے ساتھ
مسجد خضرا ان کی تدریس اور دیگر علمی و سماجی سرگرمیوں کا مرکز قرار پائی۔ آخری سالوں میں ان کے درسِ فقہ کی مجلس مدرسہ دار العلم میں منعقد ہوتی تھی کہ جنہیں آپ نے خود تعمیر کروایا تھا۔
آپ کی روش یہ تھی مکمل درس کہنے کے بعد ایک گھنٹے تک اپنے شاگردوں کے سوالات کا جواب دیتے تھے۔
آیت اللہ خوئیؒ کے شاگردوں نے آپ کی قدرت بیان اور لغوی و ادبی معلومات کی تعریف کی ہے۔ آپ اپنے دروس کی فصیح اور سلیس عربی زبان میں تدریس کرتے تھے۔
آیت اللہ خوئی کے درس کے مطالب منطقی طور پر منظم اور ہم آہنگ ہوتے تھے۔
آپ کو بخوبی معلوم تھا کہ دشوار مسائل اور پیچیدہ قواعد کو کس طرح مختلف زاویوں سے حل کیا جائے اور ان کا جائزہ لیا جائے اور یہ امر خوئی کے فکری نبوغ کے مظاہر میں سے تھا۔
خوئی شاگردوں کو تعلیم دینے کے حوالے سے بہت ماہر اور مسلط تھے۔ تدریس میں اس طرح منظم انداز سے چلتے تھے کہ شاگرد مطالب کو سمجھنے کے علاوہ
استنباط کی روش کو بھی سیکھتے تھے اور اس روش کو اپنی تحلیل میں بروئے کار لا سکتے تھے۔ اس کے علاوہ آپ کی روشِ تدریس سہل الوصول اور پیچیدگی و ملالت سے دور تھی۔
در واقع، خوئی اپنے علمی مباحثات میں مشخص روشِ تحقیق اور مبانی رکھتے تھے؛ چنانچہ آپ کے شاگرد علمی مطالب کو بخوبی سمجھ لیتے تھے اور اسی وجہ سے آیت اللہ خوئی کو باصطلاح ’’صاحب مدرسہ‘‘ شمار کیا جاتا ہے۔
آپ اپنے شاگردوں کو ان کی قابلیت و استعداد کے پیش نظر مختلف
دینی علوم میں کام کرنے کی رہنمائی کرتے تھے۔
آیت اللہ خوئی کے مبانی، درس کا شیوہ اور کیفیت کچھ اس طرح سے تھے کہ آپ کے بہت سے شاگرد بھی ان کی روش کے مطابق تدریس اور تحقیق کے پابند تھے۔
بہت سے ممتاز معاصر فقہا آپ کے حلقہ درس میں پروان چڑھے ہیں اور حوزات نجف و قم میں تدریس کی مسند پر فائز ہو کر آپ کی اجتہادی روش کو گزشتہ چند عشروں سے شیعہ حوزات علمیہ کی ایک مقبول اور مروجہ روش میں تبدیل کرنے کے باعث بنے ہیں۔
آیت اللہ خوئی کے مختلف فقہی و اصولی مشارب اور اسالیب رکھنے والے ممتاز اور متعدد اساتذہ سے استفادے کے باعث آپ کو جہاں ان مشارب و مبانی اور ان کے قواعد و ضوابط سے آشنائی حاصل ہوئی، وہیں پر اصول فقہ میں آپ کی وسعت نظر اور گہرائی و گیرائی میں نمایاں اضافہ ہوا۔
فقہی فروعات میں ان اصولی مبانی کو بروئے کار لانے اور احادیث کی سند و دلالت پر علم رجال و درایہ کے اور متعلقہ علوم کے توسط سے خصوصی توجہ کی بدولت آیت اللہ خوئی کی فقہ کا ایک نمایاں مقام بن گیا اور آپ کے نظریات دقت اور پختگی کے حامل بن گئے۔
آقائے خوئیؒ ممکنہ حد تک اصولی و فقہی مباحث کے ساتھ عقلی و فلسفی مطالب کی آمیزش سے پرہیز کرتے تھے۔
اس بنا پر ان کی فقہ صرف
قرآن و
احادیث جیسی فقہی ادلہ پر معتمد تھی۔ آپ احادیث کی سند اور راویوں کی وثاقت و ضعف پر بہت زیادہ تامل کرتے تھے۔
اسی طرح مطالب کی وضاحت میں اعتدال کا خیال رکھنے تھے اور خلل آور ایجاز (اختصار و تلخیص) اور خستہ کنندہ اطناب (تفصیل) سے پرہیز کرتے تھے، آپ کے اصول کا ایک دورہ چھ سے سات سال میں مکمل ہوتا تھا۔
[ترمیم]
آقائے خوئیؒ کے چند نمایاں شاگرد ہیئت استفتا کا حصہ تھے اور آپ کے ساتھ ہم آہنگی کر کے استفتائات کے جواب معظم لہ کی فقہی آرا کی بنیاد پر مرتب کرتے تھے۔ استفتائات کے جواب مرتب کرنے کے حوالے سے مختلف اوقات میں آپ کے ساتھ یہ علما تعاون کرتے رہے: صدرا بادکوبہ ای،
سیدمحمدباقر صدر،
میرزا جواد تبریزی،
سیدعلی حسینی بہشتی،
سید مرتضی خلخالی،
سید علی سیستانی،
محمد جعفر نائینی اور
مرتضیٰ بروجردیؒ۔
آپ کے دیگر شاگردوں میں سے
حسین وحید خراسانی،
سید علی ہاشمی شاہرودی،
محمد تقی جعفری،
سید محمد حسین فضل اللّه،
بشیر نجفی پاکستانی،
سید موسیٰ صدر،
حاجآقا تقی قمی اور
سید عبد الکریم موسوی اردبیلی کے نام قابل ذکر ہیں (آپ کے شاگردوں کی فہرست ملاحظہ کرنے کیلئے ذیل کے لنک پر کلک کیجئے)
آیت اللہ خوئی کے والد نے بھی ایک مرتبہ ان کے درس میں شرکت کی مگر والد کے احترام میں آپ نے درس کو مزید جاری نہیں رکھا۔
[ترمیم]
آیت اللہ خوئی کی مرجعیت کے آغاز سے متعلق مختلف آرا ہیں
مگر یہ مسلم ہے کہ
آیت اللہ بروجردی کی رحلت کے بعد آیت اللہ خوئی کی مرجعیت سامنے آئی اور
آیت اللہ حکیمؒ کی وفات کے بعد آپ کو اعلم مرجع تسلیم کر لیا گیا۔
انہی دنوں
سید یوسف حکیم نے بھی اپنے والد کے چھوڑے ہوئے شرعی اموال کو آیت اللہ خوئیؒ کے سپرد کر دیا۔
آیت اللہ خوئی کا حافظہ بہت قوی تھا۔
آپ بہت محنتی اور جید نقاد و محقق تھے۔
آپ علمائے اہل سنت اور دیگر ادیان کے علما کے ساتھ اختلافی مسائل پر
مناظرہ بھی کرتے تھے۔
(
محمد جواد مغنیہ کے بقول آیت اللہ خوئی مناظرات و مباحثات میں سقراطی روش رکھتے تھے)۔
[ترمیم]
آیت اللہ خوئی کی بعض اخلاقی خصوصیات میں سے سادہ و بے عیب زندگی کے علاوہ طالب علمی کے درج ذیل آداب کی رعایت کو شمار کیا گیا ہے: بردباری ، تواضع ، سائلین کا احترام، سلام میں سبقت، بزرگ علما بالخصوص اپنے معاصر مراجع تقلید کی تکریم۔ آپ روزانہ نجف کے بزرگان میں سے دو شخصیات کے ساتھ مشاورتی میٹنگ منعقد کرتے تھے۔
امیر المؤمنینؑ اور
امام حسینؑ کی زیارت کو خاص اہمیت دیتے تھے۔
آیت اللہ خوئی
تبلیغِ دین ، اسلامی علوم کی ترویج اور ضرورت مندوں کی امداد پر خصوصی توجہ دیتے تھے اور انہوں نے بہت سے خیراتی ادارے یادگار چھوڑے ہیں منجملہ مدرسہ دار العلم نجف؛
قم میں مدینۃ العلم کے نام سے دینی طلاب کیلئے رہائشی کالونی ؛
اصفہان میں دار العلم اور مجتمع امام زمانؑ ؛
مشہد میں مدرسہ علمیہ بمعہ کتب خانہ ؛ بیروت میں دار الایتام اور ٹیکنیکل کالج ؛ اسی طرح اسلامی ممالک کے طول و عرض میں سینکڑوں مساجد، امام بارگاہیں، مدارس، کتب خانے، ڈسپنسریاں ، ہسپتال ، یتیم خانے اور بعض ممالک میں بڑے بڑے ادارے قائم کیے۔
[ترمیم]
آیت اللہ خوئی جوانی اور ادھیڑ عمر میں سیاسی مسائل کے حوالے سے بہت سرگرم تھے اور بعض اوقات سخت موقف اختیار کرتے تھے،
مگر مرجعیت کے بعد سیاسی مسائل میں زیادہ دخل اندازی نہیں کرتے تھے اور سیاست سے دور ہو گئے تھے۔ نقطہ نظر میں اس نوعیت کے اختلاف کی وجہ یہ تھی کہ خاص طور پر مرجعیت کی جانب سے سیاسی مسائل میں ضروری حد سے زائد مداخلت کو اس منصب کی مصلحت میں نہیں سمجھتے تھے،
یا اس وجہ سے تھا کہ ان کا نقطہ نظر دینی علما کی سیاسی مسائل میں مداخلت کے حوالے سے بدل چکا تھا۔ اس کے باوجود زندگی کے آخری مہینوں میں
عراق کے سیاسی و معاشرتی حالات میں حصہ لینے کا آپ کی علمی اور سماجی زندگی پر ناقابل تردید اثر پڑا۔ آپ مختلف مراحل میں
ایران کے سیاسی حالات کی نسبت حساس تھے۔ تاریخی ریکارڈ کا جائزہ لینے کے بعد
اسلامی انقلاب سے پہلے اور بعد میں آپ کے نقطہ نظر کو تین مراحل میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
حکومت وقت کے اقدامات پر شدید رد عمل اور احتجاج: آپ کا پہلا اہم موقف، شاہ کو ٹیلی گرام کی صورت میں تھا کہ جس میں مہر ۱۳۴۱شمسی کو
ایالتی و ولایتی انجمنوں کی منظوری کی مخالفت کی گئی تھی اور اسے
شریعت اور
آئین کے منافی قرار دیا۔
آپ نے اسی طرح بہمن ۱۳۴۱شمسی کو
آیت اللہ سید محمد بہبہانی کے نام ایک ٹیلی گرام میں ریفرنڈم منعقد کرنے کی مخالفت کی اور اسے شرعی قانون اور آئین کی واضح شقوں کے منافی قرار دیا اور واضح کیا کہ قوم کی آواز کو جبر کے ساتھ زیادہ دیر تک دبایا نہیں جا سکے گا اور عوام فریبی کے پراپیگنڈے سے مشکلات حل نہیں ہوں گی اور اس سے تباہ حال معیشت اور لوگوں کی ناراضگی کا کوئی مداوا نہیں ہو گا۔
سنہ۱۳۴۲شمسی کی ابتدا میں پولیس کے
مدرسہ فیضیہ پر حملے کے بعد انہوں نے
امام خمینیؒ کے نام اپنے ایک ٹیلی گرام کے ذریعے اس سانحے پر سخت غم و غصے کا اظہار کیا
اور شاہ کے نام سخت لہجے میں ایک ٹیلیگرام ارسال کیا کہ جس میں اس وقت کی صورتحال، اسلامی ملک کے انحطاط اور اس کے زمامداروں کے طرز عمل پر شدید افسوس کا اظہار کیا۔
تقریبا ایک ماہ کے بعد بھی کچھ ایرانی علما کے خط کے جواب میں فاسد حکام کی نااہلی کا ذکر کیا،
علما کی ذمہ داری کو سنگین کہا اور خاموشی کو ناجائز قرار دیا۔
۱۵ خرداد سنہ ۱۳۴۲شمسی کے قیام اور عوام کے قتل عام کے بعد آیت اللہ خوئی نے ایک بیان جاری کر کے ایران کی حکومت کو ظالم کہا اور ان کے ساتھ تعاون کو حرام قرار دیا۔ پارلیمنٹ کے اکیسویں انتخابات میں شرکت کو بھی ممنوع کر دیا اور اس پارلیمنٹ کو ناقابل بھروسہ قرار دیا۔
اسی طرح جب امام خمینیؒ کی قید اور عدالتی ٹرائل کی خبر سنی تو اپنے کچھ شاگردوں کے ہمراہ آیت اللہ حکیم کے پاس کوفہ تشریف لے گئے اور مشاورت کے بعد دونوں مراجع نے جداگانہ سخت الفاظ میں امام خمینیؒ کی حمایت میں ٹیلی گرام ایران ارسال کیے۔
حسن علی منصور کی بطور وزیر اعظم تقرری کے بعد سنہ ۱۳۴۲شمسی کو ایک ٹیلی گرام بھیج کر ان سے مطالبہ کیا کہ گزشتہ حکومتوں والی غلطیاں مت دہرائیں،
اسلام مخالف قوانین کو معطل کر دیں اور امام خمینیؒ اور آیت اللہ قمی کو آزاد کریں۔
ہویدا کی وزارت عظمیٰ کے آغاز پر بھی اس کے نام ٹیلی گرام ارسال کر کے صیہونی اثر و نفوذ کو ختم کرنے ، شریعت مخالف قوانین کی معطلی، امام خمینیؒ کی
جلا وطنی کے خاتمے
اور مخالفین کی فوری آزادی کا مطالبہ کیا۔
آپ نے امام خمینیؒ کی مہر ۱۳۴۴شمسی میں عراق آمد سے مطلع ہونے پر فوری اپنے کچھ شاگردوں اور ساتھیوں کو ان کے استقبال کیلئے بھیجا اور بذات خود دو مرتبہ امامؒ سے ملاقات کیلئے تشریف لے گئے
( اس دور میں آپ کے ارسال کردہ مزید خطوط و پیغامات سے مطلع ہونے کیلئے حواشی میں مذکور منابع کی طرف رجوع کریں)
منقول ہے کہ اس دوران آپ کا حکومت کے خلاف موقف اس قدر تند و تیز تھا کہ امام خمینیؒ نے آیت اللہ خوئی سے درخواست کی کہ اس شدت و حدت کو کم کریں۔
یہ دورہ بارہ سے تیرہ سال پر محیط ہے اور امام خمینیؒ کے
نجف میں قیام سے اس کا آغاز ہوا۔ اس دور میں نہ صرف یہ کہ پہلے دور کی طرح کے سخت بیانات والی بات نہیں ہے بلکہ ایران کے مختلف حوادث حتی سنہ ۱۳۵۶ اور ۱۳۵۷ شمسی کے حوادث پر کھلم کھلا احتجاج کی کوئی خبر نہیں ملتی ہے۔ اس موقف پر تنقید بھی ہوئی۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے سکوت کی ایک وجہ احتجاج کا غیر موثر ہونا تھا۔
جب ایران کا اسلامی انقلاب پورے جوبن پر تھا اور امام خمینیؒ کو عراق سے نکال دیا گیا تھا تو اس وقت
محمد رضا پہلوی کی اہلیہ
فرح دیبا نے
پہلوی حکومت کے مقابلے میں ایران کی دینی تحریک کو کمزور کرنے کی غرض سے ۲۸ آبان ۱۳۵۷شمسی (بمطابق
عید غدیر ۱۳۹۸شمسی) کو اچانک اور اجازت لینے کے مروجہ پروٹوکول کے بغیر آیت اللہ خوئی کے ساتھ ان کے گھر میں ملاقات کی۔ اس ملاقات کے بعد آیت اللہ خوئی پر بعض محافل میں تنقید بھی ہوئی مگر انہوں نے بعض علما کے نام ایک یاد داشت میں اس ملاقات کے اچانک اور بادل ناخواستہ ہونے پر زور دیتے ہوئے لکھا کہ اس ملاقات میں فرصت کو غنیمت سمجھتے ہوئے انہوں نے ایرانی ملت کے مطالبات کو اس کے سامنے پیش کیا اور ایران میں ہونے والے ناگوار سانحات اور ظلم و ستم پر شدید احتجاج اور غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔
مذکورہ ملاقات کے چند دنوں کے بعد اور عوامی احتجاج میں شدت کے پیش نظر انہوں نے ایران کے حالات اور شاہ کی حکومت کے جرائم کی مذمت میں مراجع، علما اور ملت کے نام ایک بیان صادر کیا اور لوگوں سے اپیل کی کہ شجاعت کے ساتھ اور شرعی معیارات کا خیال رکھتے ہوئے اپنے اقدامات جاری رکھیں اور تمام مراحل میں مراجع تقلید اور علما کی پیروی کریں۔
انہوں نے انقلاب کی کامیابی کے بعد بھی اسی موقف کو برقرار رکھا جیسا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے بارے میں ریفرنڈم کے موقع پر فروردین سنہ ۱۳۵۸ شمسی میں لوگوں کو ریفرنڈم میں شرکت اور جمہوری اسلامی کے حق میں رائے دینے کی دعوت دی
اور اپنے شاگردوں کو حکم دیا کہ انقلاب کے امور میں شرکت کریں۔
عراق ایران جنگ میں عراقی حکومت کے شدید دباؤ کے باوجود انہوں نے ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا اور بعثی حکومت کی ذرہ بھر حمایت نہیں کی۔
حتی شرعی اموال کو ایرانی مجاہدین کے ساز و سامان کی فراہمی کیلئے خرچ کرنے کے حق میں فتویٰ دیا، اس فتویٰ کی وجہ سے عراقی حکومت کے جبر کی وجہ سے جنگ میں شرکت کرنے والے آپ کے بہت سے مقلدین نے خود کو ایرانی فورسز کے حوالے کر دیا یا ایرانیوں پر فائرنگ نہیں کی۔
آیت اللہ خوئی دیگر اسلامی ممالک کے حالات پر بھی اپنا رد عمل دیتے تھے منجملہ
کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ الحاق کی ممنوعیت پر مبنی فتویٰ،
عراقی پٹرول کے قومیائے جانے کو سراہنا،
عربوں کی اسرائیل کے ساتھ (مهر ۱۳۵۲/ رمضان ۱۳۹۳) میں چوتھی جنگ کے موقع پر بیان اور اسلامی ممالک کی امداد،
اور ھویدا کے نام ٹیلی گرام کہ جس میں فلسطینیوں کی مکمل حمایت کا مطالبہ کیا گیا۔
اسفند ۱۳۶۹/
شعبان ۱۴۱۱ھ میں
کویت کی عراقی فوجوں کے قبضے سے آزادی کے ساتھ شروع ہونی والی عراقی شیعوں کی تحریک آزادی کے بعد آیت اللہ خوئی نے اہم ترین سیاسی فعالیت انجام دی۔ انہوں نے ۱۴ اسفند/ ۱۸ شعبان، کو ایک بیان جاری کیا کہ جس کے ذریعے مجاہدین کو
شرعی احکام کی رعایت اور میانہ روی کی دعوت دی اور اس عوامی تحریک کی رہنمائی کی۔ ۱۷ اسفند/ ۲۱ شعبان، کو آزاد شدہ علاقوں کا نظام چلانے کیلئے ایک نو رکنی کمیٹی مقرر کی۔
بعثی حکومت کے شیعہ شہروں پر حملے اور تحریک آزادی کی شکست کے بعد عراقی فورسز نے ۲۹ اسفند ۱۳۶۹/ ۳
رمضان ۱۴۱۱ ھ کو نجف پر حملہ کیا اور آیت اللہ خوئی کے گھر کا محاصرہ کر لیا۔ پھر دسیوں افراد کو آقا کے گھر کے اطراف میں قتل کرنے کے بعد سینکڑوں علما، طلبہ اور آپ کے اعزا و اقارب کو گرفتار کر لیا۔ اس کے بعد آیت اللہ خوئی اور آپ کے چند ساتھیوں کو صدام کے ساتھ ملاقات کیلئے زبردستی
بغداد لے جایا گیا اور ان پر زور دیا گیا کہ ٹیلی وژن پر جا کر مجاہدین کو ہتھیار ڈالنے کا کہیں۔ اگرچہ آیت اللہ خوئی نے اس بات کو ماننے سے انکار کر دیا پھر بھی صدام کی پراپیگنڈہ مشینری نے ان کے بیان میں تحریف کر کے اسے نشر کر دیا.
آخرکار آیت اللہ خوئی کو
کوفہ میں نظربند کر دیا گیا اور انہیں صدام حکومت کی طرف سے پابندیوں، دباؤ اور توہین کا سامنا کرنا پڑا۔ آپ کے ایک سو سے زائد شاگرد، رشتے دار اور خاندان کے افراد منجملہ آپ کے بیٹے سید ابراہیم اور داماد سید محمود میلانی کو گرفتار کر لیا گیا اور ان میں سے کچھ افراد کو سزائے موت دی گئی۔ مدرسہ دار العلم کو بھی منہدم کر دیا گیا۔
[ترمیم]
آیت اللہ خوئی نے
امامیہ اصول فقہ کے مبانی میں ایک انقلاب برپا کر دیا۔ انہوں نے اس میدان میں اپنے اساتذہ یا سابقہ اصولیوں کے نظریات کی وضاحت، تقویت اور توسیع کے ساتھ اپنے ابتکار کے ذریعے جدید نظریات بھی پیش کیے، جیسے وضع لغوی میں تعہد کا نظریہ، امر اعتباری کے ابراز سے تفسیرِ انشا کا نظریہ،
شبہات حکمیہ میں
استصحاب کے عدم جریان کا نظریہ اور استصحاب کے
امارہ ہونے کا نظریہ (ان موارد اور اصول فقہ کے دیگر جدید نظریات کیلئے ذیل کے حواشی میں مذکور کتب کی طرف رجوع کریں)
آیت اللہ خوئی کے اہم ترین اصولی معیارات کہ جو ان کی بہت سی فقہی آرا کی بنیاد ہیں؛ میں سے ایک
شہرت فتوائی کی مخالفت ہے کہ جس کے اہم نتائج ہیں۔ مشہور اصولیوں کی نظر کے مطابق
فقہا کے مابین کسی
فتویٰ کی شہرت کی صورت میں معتبر روایت جو اس فتویٰ کے ساتھ ناسازگار ہو، حجت نہیں ہے۔ اسی طرح شہرتِ فتوائی اپنے ساتھ سازگار
ضعیف روایت کے اعتبار کی موجب ہوتی ہے۔ اصطلاحا، شہرت ضعفِ سند کی ’’جابر‘‘ اور اعتبارِ سند کی ’’کاسِر‘‘ ہے۔ اسی طرح مشہور کے نزدیک
شہرتِ روائی دو روایات میں تعارض کے وقت
بابِ تعارض کے مرجحات میں سے شمار ہوتی ہے۔
لیکن آیت اللہ خوئی نے شہرتِ روائی کو
باب تعارض کے مرجحات میں سے شمار نہیں کیا ہے۔ اسی طرح ان کے نزدیک
شہرتِ عملی (مقامِ افتا میں روایت کے ساتھ شہرت کا استناد) کسی صورت ضعفِ خبر کا جبران نہیں کرتی؛ نیز صحیح و موثق خبر سے مشہور کا اعراض اس خبر کی عدم حجیت اور ضعف کا موجب نہیں ہے۔
آیت اللہ خوئی کے نزدیک اولا شہرتِ فتوائی فقط ان موارد میں
حجیت کی حامل ہو سکتی ہے کہ جب قدیم فقہا یعنی جو فقہا اصحاب آئمہؑ سے نزدیک تھے؛ سے منسوب ہو جبکہ ہم آئمہؑ کے اصحاب کی آرا یا آثار تک مکمل دسترس نہیں رکھتے۔
ثانیا، شہرتِ فتوائی خود بخود حجت نہیں ہے بلکہ روایت کے ساتھ سازگاری کی صورت میں زیادہ سے زیادہ اس روایت کے امام سے صدور کے ظن کی موجب ہے اور روایت کے ساتھ ناسازگاری کی صورت میں زیادہ سے زیادہ اس روایت کے امام سے صادر نہ ہونے کے ظن کی موجب ہے جبکہ اخبار کی حجیت کیلئے ’’وثوق نوعی‘‘ لازم ہے۔
آیت اللہ بروجردیؒ کی اصولی روش کے برخلاف کہ جو
شیخ مفیدؒ اور
شیخ صدوقؒ جیسے قدیم فقہا کے فتاویٰ پر التزام اور ان کے حصول کی ضرورت بہت تاکید کرتے تھے اور ان فتاویٰ کیلئے احادیث کی مانند حجیت کے قائل تھے؛ آیت اللہ خوئی نہ مشہور کی نظر کے ساتھ ہم آہنگ خبرِ ضعیف کو قبول کرتے تھے اور نہ ہی معتبر دلیل کے ساتھ مستند نہ ہونے والے قدما کے فتوے کو قبول کرتے تھے۔ اسی وجہ سے دوسروں کی آرا میں تتبع آیت اللہ خوئی کیلئے زیادہ اہم نہیں تھا بلکہ ان کے نزدیک دلیل اور سند کا قوت و ضعف اہم تھا نہ کہ شہرتِ عملی یا فتوائی؛
اس اعتبار سے آیت اللہ خوئی اپنی تدریس کے آخری دوروں میں روایات کی سند اور راویوں کی وثاقت پر تحقیق کو بہت اہمیت دیتے تھے۔
آیت اللہ خوئی شہرت کے علاوہ
اجماع (خواہ
اجماع محصل یا
اجماع منقول) کی حجیت کو بھی قبول نہیں کرتے تھے اور یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ حتی قدیم فقہا کے بہت سے اجماعات
اجماعِ مدرکی ہیں (یعنی ادلہ کی بنیاد پر ہیں؛ لہٰذا ان میں حجت ادلہ ہیں نہ اجماع؛ جبکہ ادلہ خدشہ پذیر ہو سکتی ہیں)۔ البتہ وہ
احتیاط کی رعایت کی بنا پر اپنے فتاویٰ میں اجماع کی طرف توجہ کرتے تھے۔ آیت اللہ خوئی کی اصولی روش میں شہرت و اجماع کی طرف کم توجہ کا منطقی نتیجہ
اصول عملیہ کی طرف رجوع یا عام و مطلق فقہی ادلہ پر اعتماد ہے۔ اسی طرح آیت اللہ خوئی
ادبیات اور
عربی زبان سے عمیق آشنائی کے باعث قرآنی و حدیثی متون و نصوص کے مدلولات اور عرفی لوازم سے آشنا تھے اور اکثر و بیشتر
احکام کے
استنباط میں اس توانائی سے بہرہ مند ہوتے تھے۔
آیت اللہ خوئی فتویٰ دینے میں بہت شجاع واقع ہوئے تھے اور بعض اوقات اپنے مبانی کی بنیاد پر مشہور کے فتاویٰ یا غالب فقہی آرا کی مخالفت کر دیتے تھے اور ان سے ہٹ کر فتویٰ دیتے تھے؛ آپ کے جملہ فتاویٰ میں سے درج ذیل ہیں:
عورت کے گھر سے مرد کی اجازت کے بغیر نکلنے کا جواز سوائے اس صورت کہ کوئی خاص شرائط و حالات ہوں؛ اپنی زندگی پر خوف کی صورت میں عورت کیلئے
سقط جنین کا جواز؛
اہل کتاب عورتوں سے
مسلمان کے
دائمی ازدواج کا جواز؛
جہادِ ابتدائی کا
امام معصومؑ کے حضور سے مشروط نہ ہونا؛
قاضی میں
اجتہاد کی شرط کا نہ ہونا؛
غسل کے دوران دھوتے وقت دائیں بائیں کی ترتیب کی رعایت کا
واجب نہ ہونا؛
باپ اور
بیٹے اور میاں بیوی کے مابین
سودی معاملے کا
احتیاطِ واجب کی بنا پر جائز نہ ہونا؛ ان مچھلیوں کو کھانے کا جواز جو پانی کے اندر یا جال میں مر جائیں؛ ان غیر مسلم ممالک سے وارد ہونے والے چمڑے کی
طہارت کہ جن کا
ذبح شرعی مشکوک ہے (مزید معلومات کیلئے آیت اللہ خوئی کے رسائل عملیہ کی طرف رجوع کریں؛ آپ کے جدید فقہی نظریات سے آگاہی کیلئے ذیل کے حواشی میں مندرج کتب کی طرف رجوع کریں۔
آیت اللہ خوئیؒ کے نزدیک رات کے کسی حصے میں مشترک تمام ممالک میں سے کسی ایک میں
رؤیتِ ہلال دیگر کیلئے بھی کافی ہے۔
آیت اللہ خوئی کی فقہ کے دیگر اہم ضوابط میں سے
خبر صحیح پر اعتماد اور
خبر ثقہ کی
حجیت ہے؛ اس اعتبار سے آپ نے
نجف کے سابقہ فقہا کی نسبت
علم رجال کو خاص اہمیت دی۔ انہوں نے ثقہ و ضعیف راویوں کی شناخت، حدیث کے قواعد اور
صحیح حدیث پر اعتماد کے ضوابط کو منقح کرنے کے بعد فقہی احکام کا استنباط کیا ہے۔
آپ کے اصولی و رجالی نظریات بھی مؤثر واقع ہوئے ہیں۔ آپ شہرت اور اجماع منقول کو حجت نہ سمجھنے کے بعد خبر ثقہ (نہ خبر موثوق) کی حجیت پر اعتقاد رکھتے تھے اور حجیت حدیث کا معیار صرف سند کے رجال کی وثاقت کو قرار دیتے تھے۔ آیت اللہ خوئی چونکہ راویوں کی توثیق پر مبنی رجالی نظریات پر بھی بحث و تنقید کرتے تھے، اس لیے وہ روایات کو قبول کرنے کے حوالے سے سخت گیر تھے۔ مثلا ان کے نزدیک عام توثیقات جیسے
امام صادقؑ کے تمام اصحاب کی وثاقت،
رجال طوسی میں مذکور راویوں کی وثاقت، امام معصومؑ کے وکیل کی وثاقت،
مشایخ اجازہ کی وثاقت، امام معصومؑ سے
کثیر الروایۃ راوی کی وثاقت جیسے اقوال کو قبول نہیں کرتے تھے اور ان کے دلائل کو مخدوش سمجھتے تھے۔
دوسری جانب سے آپ
ابن قولویہ کے قول کہ کتاب
کامل الزیارات کی اسناد کے راوی نیز
تفسیر علی بن ابراہیم قمی کے تمام راوی موثق و معتبر ہیں مگر اپنی زندگی کے آخری عشرے میں وہ اس نظریے کو مسترد قرار دیتے تھے۔
اس جدید نظریے کی وجہ سے مذکورہ توثیق کے وسیع استعمال کے پیش نظر آیت اللہ خوئی کے فقہی و استدلالی آثار اور فقہی فتاویٰ میں بنیادی نوعیت کی تغییرات ایجاد ہوئیں۔
فقہ ،
اصول و
رجال کے علاوہ آیت اللہ خوئی کی اہم ترین فعالیت
علم تفسیر اور
قرآنیات میں تھی۔ جب انہوں نے محسوس کیا کہ
حوزہ نجف قرآنیات اور تفسیری مسائل سے دور رہ گیا ہے تو سنہ ۱۳۳۰ شمسی سے حوزہ علمیہ کی تعطیلات کے دوران انہوں نے تفسیر و علوم قرآن کے عنوان سے ایک درس کی بنیاد رکھی جو
البیان فی تفسیر القرآن کی تالیف پر منتہی ہوا۔
آیت اللہ خوئی کے اس اقدام کی بدولت قرآنیات و تفسیر کے مکتب میں جدید روش سامنے آئی اور اس کو آپ نے حوزہ علمیہ نجف میں رائج کیا مگر کچھ وجوہات کے باعث وہ سلسلہ جاری نہ رہ سکا۔ البیان کا زیادہ تر حصہ تفسیر کی مقدماتی مباحث پر مشتمل ہے کہ جس میں تفسیر و قرآنیات کے حوالے سے بہت دقیق علمی نکات موجود ہیں۔ اس مقدمے میں آپ کا اصل نقطہ نظر شبہہ شناسی اور منتقدین کے اشکالات کے جواب پر مشتمل ہے۔ آیت اللہ خوئی نے اس اثر میں
قرآن کے متن اور منزلت کے دفاع میں مفصل تحلیلی دلائل پر مشتمل بحث کے علاوہ
وحی کی عظمت اور تشریعی اعجاز کو بیان کیا ہے۔ آپ نے اس سے قبل بھی اپنی ایک اور کتاب
نفحات الاعجاز میں
اعجاز قرآن کے بارے میں ہونے والے بعض شبہات کا جواب دیا تھا۔ آیت اللہ خوئی کا اس حوالے سے ایک نہایت اہم نظریہ
قرآن کی عدم تحریف نہ بالزیادۃ اور نہ بالنقصان کا ہے۔
آیت اللہ خوئی اسی طرح
نسخ کے اہم موضوع پر بھی خاص انداز سے روشنی ڈالتے ہیں اور متعدد آیات کا جائزہ لینے کے بعد فقط
آیتِ نجویٰ کے منسوخ ہونے کو قبول کرتے ہیں۔ آپ نے
قرائات سبع کو بھی
پیغمبر تک معتبر اسناد کا حامل تسلیم نہیں کیا ہے اگرچہ ان سات قرائات میں سے کسی ایک کی نماز میں قرائت کو
جائز قرار دیا ہے۔ آپ کی اجتہادی اور نقادانہ روش نے بعد میں آپ کے چند مایہ ناز شاگردوں کو متاثر کیا اور انہوں نے اس مکتب کی ترویج میں اہم کردار ادا کیا۔
آیت اللہ خوئی اگرچہ
فلسفہ و
کلام کی وادی میں زیادہ مشہور نہیں تھے مگر ان علوم پر بھی تبحر رکھتے تھے۔
اس کے باوجود، ایک دو رسالوں کے سوا آپ کی کوئی مستقل کلامی تالیف نہیں ہے؛ البتہ اصولی مسائل کے قالب میں کلام پر بھی بحث کرتے ہیں اور امامیہ کے مشہور عقائد پر کاربند اور ان کے ساتھ وفادار تھے۔
آیت اللہ خوئی کو
شعر سے بھی شغف تھا اور بعض اوقات شعر کہتے تھے۔
آپ کو معماری میں بھی صاحبِ ذوق قرار دیا گیا ہے۔
[ترمیم]
آیت اللہ خوئی کی شخصیت نجف کے قدیم حوزہ علمیہ کی حفاظت، اس میں علمی تحریک کی توسیع و استمرار نیز درسی نظام کی اصلاح اور قدیم طریقہ کار میں تبدیلی کے حوالے سے بہت مؤثر ثابت ہوئی۔ آپ کا ایک اہم کام تقریر نویسی کی ترویج تھا۔ شاگردوں کی کثرت اور علمی زعامت سبب بنی کہ نجف کے دوسرے دروس اور دیگر حوزات علمیہ میں بھی یہ طریقہ رائج ہو جائے۔ حوزہ علمیہ کیلئے تعطیلات کی منظوری دی۔ پہلے گرمیوں میں حوزہ نجف کے رسمی دروس جاری رہتے تھے لیکن آیت اللہ خوئی نے گرمیوں کی ۴۵ روزہ تعطیلات کا آغاز کیا جبکہ سال بھر کی باقی چھٹیوں کو کم کر دیا
آیت اللہ خوئی کی مرجعیت کے دوران
عراق کا ایک اہم واقعہ عراق میں مقیم ایرانی علما کا اخراج تھا کہ جسے ۱۳۴۰ شمسی کے آخری عشرے میں باقاعدہ طور پر لاگو کیا گیا۔ اگرچہ آیت اللہ خوئی ان معدودے افراد میں سے تھے جنہیں عراق کو ترک کرنے پر مجبور نہیں کیا گیا تھا لیکن آپ کے بہت سے شاگردوں کو ملک بدر کیے جانے کی وجہ سے آپ کے علمی حلقے کی رونق کم ہو گئی نیز اس غیر انسان اقدام پر آپ کو شدید صدمہ ہوا۔
بہرحال آپ کے بہت سے شاگردوں کی ایران کے حوزات علمیہ میں آمد اس امر کا سبب بنی کہ آپ کے افکار دیکھتے ہی دیکھتے ان حوزات میں سرایت کر جائیں۔ حوزہ علمیہ قم جو بہت حد تک اپنے مؤسس
شیخ عبد الکریم حائری اور
آیت اللہ بروجردی جیسے بزرگان سے متاثر تھا؛ ان شاگردوں کی ایک جماعت کا میزبان بن گیا کہ جن کی فکری و اصولی بنیادیں
میرزا نائینی ،
محقق اصفہانی اور
آقا ضیاء الدین عراقی کے فکری مکاتب میں تھیں۔ کچھ مہاجر اساتذہ نے اس حوالے سے ناقابل تردید اثرات مرتب کیے اور بڑے درسی جلسات کا اہتمام کر کے قم کے فقہی مکتب کو بدل دیا۔
میرزا جواد تبریزی،
میرزا کاظم تبریزی،
سید محمد روحانی،
سید ابو القاسم کوکبی اور
حسین وحید خراسانی جیسے اساتذہ نے اس حوالے سے بنیادی کردار ادا کیا۔ ان کے علاوہ آیت اللہ خوئی کے استدلالات اور نظریات ان اساتذہ کے دروس میں بھی موردِ تحقیق و تنقید قرار پاتے تھے کہ جنہیں نجف میں تحصیل علم کا موقع نہیں ملا تھا؛ ان اساتذہ میں سے
سید محمدرضا گلپایگانی،
حسین علی منتظری اور
محمد فاضل لنکرانی کے نام قابل ذکر ہیں۔
[ترمیم]
آیت اللہ خوئی کے مختلف علوم بالخصوص
فقہ،
اصول،
رجال اور تفسیر و قرآنیات میں بہت سے آثار موجود ہیں کہ جن کی چار اقسام ہیں:
اپنے اساتذہ کی تقریرات؛
اپنے دروس کی تقریرات؛
علمی رسائل اور تالیفات؛
علمی رسائل اور فتوائی آثار؛
منابع میں آپ کی فقہ و اصول میں اپنے دونوں اصلی اساتذہ نائینی اور محمد حسین اصفہانی کی تقریرات کا ذکر ملتا ہے۔
آقا بزرگ تہرانی نے آقا ضیاء عراقی کی تقریرات کا بھی ذکر کیا ہے۔ ان میں سے مشہور ترین نائینی کے اصول کی تقریرات
اجود التقریرات کے نام سے ہیں۔ یہ اثر جو نائینی کے اصول کی آخری تقریرات اور اصولی آرا کا اہم ترین ماخذ شمار ہوتا ہے، پہلی مرتبہ آغا نائینی کی زندگی میں دو جلدوں پر شائع ہوا تھا۔
آیت اللہ خوئی نے بعد میں اسے از سر نو تحریر کیا اور اس پر حواشی بھی تحریر کیے۔
اس کی پہلی جلد سنہ ۱۳۶۸ کو
تہران میں شائع ہوئی۔
شاگردوں کی تقریر نویسی پر تشویق اور آیت اللہ خوئی کے تدریسی سالوں کے طول اور متعدد شاگردوں کی تربیت اس امر کا سبب بنی کہ بہت سے افراد آپ کے دروس کی تدوین کریں۔ ان میں سے بہت سے آثار کا آیت اللہ خوئی نے مطالعہ کیا اور ان پر تقریظ لکھی جو آپ کی زندگی میں ہی شائع ہوئیں۔
آپ کی اصول فقہ میں زیور طبع سے آراستہ ہونے والی اہم ترین تقریرات کہ جن کا آپ نے خود تذکرہ کیا ہے۔
یہ ہیں:
دراسات فی الاصول تالیف
سید علی هاشمی شاهرودی، (خان بابا نے اشتباہا اسے آیت اللہ خوئی کے فرزند کی کتاب قرار دیا ہے)
یہ آیت اللہ خوئی کے تیسرے دورہ اصول کی مکمل تقریرات ہیں کہ جن کی پہلی جلد سنہ ۱۳۷۱شمسی میں اور مکمل دورہ ۱۴۱۹ میں طبع ہوا؛
مصباح الاصول از قلم سید محمد سرور واعظ حسینی بہسودی (طبع اول ۱۳۷۶ در نجف)؛
محاضرات فی اصول الفقه از قلم
محمد اسحاق فیاض کہ جسے آیت اللہ خوئی نے بہت پسند کیا
اور (۱۳۸۲) میں اپنی تقریظ کے ضمن میں اس کی تعریف کی؛
مبانی الاستنباط بقلم سید ابو القاسم کوکبی تبریزی؛
مصابیح الاصول تحریر سید علاء الدین بحر العلوم، جو کہ نصف مباحثِ الفاظ پر مشتمل ہے؛ جواهرالاصول بقلم فخر الدین زنجانی؛ الرأی السدید فی الاجتهاد و التقلید بقلم غلام رضا عرفانیان خراسانی؛ رسالة فی الامر بین الامرین، موضوعِ
جبر و
اختیار تحریر
محمد تقی جعفری جو سنہ ۱۳۷۱ میں
نجف میں طبع ہوئی۔
آیت اللہ خوئی نے اس کلامی ـ فلسفی موضوع کو
کفایۃ الاصول میں
آخوند خراسانی کی پیروی کرتے ہوئے ’’طلب و ارادہ‘‘ کی اصولی بحث میں بیان کیا ہے اور بقول جعفری
انہوں نے آیت اللہ خوئی کے درس پر کچھ مطالب کا اضافہ کیا ہے۔
آپ کے درس فقہ کی مطبوعہ تقاریر یا
شیخ انصاری کی
مکاسب کی ترتیب پر ہے یا
عروۃ الوثقیٰ کے محور پر ہے۔
نوع اول کی تقریرات میں سے درج ذیل ہیں:
مصباح الفقاهة فی المعاملات بقلم
محمدعلی توحیدی (متوفی ۱۳۹۵)، مکاسب کے مکمل دورے پر مشتمل ہے۔ اس کی پہلی جلد پہلے نجف میں سنہ ۱۳۷۴ میں طبع ہوئی۔ آیت اللہ خوئی نے سنہ ۱۳۷۳ میں اپنی تقریظ میں مؤلف کے تتبع، تحقیق و دقت اور روایات کے مصادر سے مؤلف کی وسیع پیمانے پر آگاہی کی تعریف کی ہے؛
التنقیح فی شرح المکاسب بقلم
علی غروی تبریزی؛ محاضرات فی الفقه الجعفری بقلم سید علی ہاشمی شاہرودی، طبع ۱۳۷۳ نجف۔
عروۃ الوثقیٰ پر مبتنی تقریرات یہ ہیں:
التنقیح فی شرح العروة الوثقی تالیف علی غروی تبریزی؛ جو
طہارت و
اجتہاد و تقلید کی مباحث میں ہے؛ آیت اللہ خوئی کی (۱۳۷۷)، میں تحریر کردہ تقریظ میں مؤلف کے مباحث کی دقتوں پر احاطے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے:
المستند فی شرح العروة الوثقی از
مرتضیٰ بروجردی جو کہ
صلات ،
صوم و
اعتکاف،
زکات،
خمس اور
اجارے کی مباحث میں ہے۔
المعتمد فی شرح العروة الوثقیٰ از
سید رضا خلخالی جو
حج کی مباحث پر مشتمل ہے؛ عروۃ الوثقیٰ میں
حج کی بحث کامل نہ ہونے کی وجہ سے آیت اللہ خوئی نے باقی مطالب کی تدریس
مناسکِ حج کے اعتبار سے کی ہے اور تقریرات کے اس حصے کو خلخالی نے ’’المعتمد فی شرح المناسک‘‘ کا نام دیا ہے؛
مبانی العروة الوثقی جو آپ کے فرزند آقائے محمد تقی خوئی نے تحریر کی؛ یہ
مضاربہ،
شرکت،
مزارعہ،
مساقات،
ضمان،
حوالہ،
نکاح اور
وصیت کی مباحث پر مشتمل ہیں؛
تحریر العروة الوثقی تالیف قربان علی کابلی؛
دروس فی فقه الشیعة (مدارک العروة) از سید مہدی خلخالی، طبع ۱۳۷۸ نجف؛
الدرر الغوالی فی فروع العلم الاجمالی تالیف رضا لطفی، طبع ۱۳۶۷ نجف؛
آپ کی دیگر فقہی تقریرات یہ ہیں:
فقه العترة فی زکاة الفطرة از
سید محمد تقی حسینی جلالی؛
رسالة فی احکام الرضاع از محمدتقی ایروانی و سید مہدی خلخالی؛ یہ آیت اللہ خوئی کے
رمضان ۱۳۷۴ و ۱۳۷۵ کے دوران پیش کردہ دروس کا مجموعہ ہے، طبع ۱۴۱۲ نجف؛
رسالة فی حکم أوانی الذّهب از سید مہدی حجازی شهرضایی اور رسالة فی الارث از محمد جواهری؛ یہ آیت اللہ خوئی کے کتاب ارث کے مسائل پر فتاویٰ کی شرح ہے،
منہاج الصالحین (دیگر فقہی و اصولی تقریرات سے آگاہی کیلئے حواشی میں مذکور کتب کی طرف رجوع کریں)
آیت اللہ خوئی نے اپنے زندگی نامے میں
ان آثار کا تذکرہ کیا ہے۔
آپ کے دیگر آثار یہ ہیں:
البیان فی تفسیر القرآن جو قرآنیات کی بعض مباحث کے بارے میں اہم اور مفصل مباحث سے مربوط ہیں، اسی طرح اس میں
سورہ حمد کی تفسیر بھی ہے؛ اشاعت (۱۳۷۵ در
نجف ) اس کتاب کا حوزہ علمیہ اور دانشگاہ دونوں میں استقبال کیا گیا اور اسے درسی نصاب میں شامل کیا گیا۔
محمد صادق نجمی اور ہاشم زاده ہریسی نے اس کتاب کا فارسی ترجمہ ’’بیان در علوم و مسائل کلی قرآن‘‘ کے عنوان سے کیا۔ اس کی
اعجاز کے عنوان سے فصل کا آیت اللہ
جعفر سبحانی نے ’’مرزھای اعجاز‘‘ کے عنوان سے فارسی میں ترجمہ کیا ہے اور یہ کتاب ۱۳۴۹ شمسی میں شائع ہوئی۔(دیگر تراجم کیلئے رجوع کیجئے: البیان فی تفسیر القرآن)؛
رسالة فی نفحات الاعجاز (نجف ۱۳۴۲) یہ کلامی تالیف ہے جو قرآن کی کرامت کے دفاع میں ۲۵ برس کے سن میں کتاب حسن الایجاز فی ابطال الاعجاز (بولاق ۱۹۱۲) کے جواب میں لکھی۔ مذکورہ کتاب نصیر الدین ظافر کے مستعار نام سے لکھی گئی تھی اور اس میں قرآن کو پیغمبر کا معجزہ ثابت کیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ آپ کی انتہائی اہم رجالی تالیف
معجم رجال الحدیث ہے۔
استدلالی روش کے تحت فقہی آثار یہ ہیں:
مبانی تکملة منهاجالصالحین، تکملة منهاج الصالحین کے نام سے رسالہ عملیہ کی استدلالی شرح؛ کہ جس میں میں اپنے فتاویٰ کے مبانی اور دلائل کو بیان کیا ہے۔ یہ کتاب فقہ جزا کی ابحاث میں ہے اور امامیہ کے فقہی متون میں سے اہم ترین اور مضبوط ترین متن شمار ہوتی ہے۔
رسالة فی اللباس المشکوک، جس کے بارے میں اس کی ابتدا میں خود فرماتے ہیں
کہ اسے اس بحث کی تدریس کے موقع پر تحریر کیا تھا اور پہلی مرتبہ یہ سنہ ۱۳۶۲شمسی کو نجف میں شائع ہوئی۔
(انصاری قمی نے اس کے شائع ہونے کی تاریخ ۱۳۶۱ ذکر کی ہے)
البتہ آیت اللہ خوئی کے بعض عمدہ فقہی اور غیر فقہی آثار شائع نہیں ہو سکے ہیں۔
یہ آثار مختلف ناموں سے مستقل یا دوسرے آثار پر حواشی کی صورت میں
عربی یا فارسی میں مختلف استفتائات کے جواب میں مرتب کیے گئے ہیں۔ ان میں سے بعض کا دیگر زبانوں میں ترجمہ بھی ہو چکا ہے۔ ان میں سے بعض کی تلخیص مختلف عناوین سے تدوین کی گئی ہیں، آیت اللہ خوئی کے کچھ فتاویٰ کو دیگر مراجع کی کتب کے ہمراہ بھی شائع کیا گیا ہے۔
ان میں سے ایک آپ کا
عروۃ الوثقیٰ پر حاشیہ ہے۔ آیت اللہ خوئی نے اس کتاب پر ایک حاشیہ تحریر کیا کہ جسے ممتاز شاگردوں کے ساتھ سوال و جواب کی نشستوں میں مرتب کیا گیا تھا مگر عروہ کے مکمل دورے کی تدریس کے بعد ایک مرتبہ پھر اس پر حاشیہ تحریر کیا جو بعض کے بقول کچھ متفاوت تھا۔
آیت اللہ خوئی کے فتاویٰ پر مشتمل سب سے اہم کتاب
منهاج الصالحین ہے۔ آیت اللہ خوئی نے اس کے مقدمے میں لکھا ہے کہ یہ کتاب بعض اہل علم اور مومنین کی درخواست پر لکھی گئی ہے۔ پہلے
سید محسن حکیم کی منھاج الصالحین پر حواشی کی صورت میں اسے مرتب کیا گیا تھا، پھر اپنے حواشی کو آیت اللہ حکیم کے فتاویٰ کی جگہ پر متن میں شامل کیا اور بعض عبارتوں اور مسائل کی ترتیب کو بدل کر آیت اللہ حکیم کی کتاب کو اپنے فتاویٰ کے مطابق از سر نو مرتب کیا۔ یہ کتاب پہلے سنہ ۱۳۹۰ کو نجف میں طبع ہوئی اور پھر اس کے کئی ایڈیشن زیور طبع سے آراستہ ہوئے۔
سید تقی طباطبائی قمی نے آیت اللہ خوئی کی منهاج الصالحین پر
مبانی منهاج الصالحین کے نام سے دس جلدوں پر شرح لکھی ہے۔ آیت اللہ خوئی کے بعد بعض فقہا بالخصوص ان کے شاگردوں نے ان کی روش کے تحت اپنے رسائل عملیہ بھی منہاج الصالحین کے عنوان سے تالیف کیے ہیں۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ
منهاج الصالحین حکیم میں
قضا،
شهادات،
حدود،
قصاص اور
دیات کے ابواب شامل نہیں تھے، آیت اللہ خوئی نے کتاب تکملہ کے مقدمے میں کہا ہے کہ بہت سے سوالات کی وجہ سے ان مباحث میں اپنے نظریات کو فتوائی روش کے تحت مرتب کیا ہے۔ اس بنا پر منھاج الصالحیں اور اس کا تکملہ (طہارت تا دیات) تمام فقہی ابواب کو شامل ہے۔
آیت اللہ خوئی نے
امام علیؑ اور
اہل بیتؑ کے فضائل میں ۱۶۳ اشعار پر مشتمل منظوم کلام کہا ہے۔
محمد مہدی موسوی خرسان نے اس شعری مجموعے کی ’’علیٌ امامُ البَرَرة‘‘ کے عنوان سے شرح لکھی ہے کہ جو سید علی حسینی بہشتی کے مقدمے کیساتھ شائع ہوئی ہے (بیروت ۱۴۲۴/۲۰۰۳)۔ آیت اللہ خوئی نے ایک قصیدہ اپنے داماد سید نصر اللہ مستنبط کے غم میں کہا ہے۔
بہت سے مذکورہ اشعار پچاس جلدوں پر مشتمل
موسوعۃ الامام الخوئی نامی دائرۃ المعارف میں رقم ہیں۔ ان میں سے پہلی ۳۳ جلدیں عروۃ الوثقیٰ کی ترتیب پر آیت اللہ خوئی کے درس فقہ کی تقریرات پر مشتمل ہیں۔ ایک جلد ان کتب کی فہرست کے بارے میں ہے۔ اگلی چھ جلدیں
مکاسب کی ترتیب پر فقہی دروس کے پہلے دورے کی ہیں جن کے نام یہ ہیں: مصباح الفقاهة فی المعاملات (حصہ مکاسب محرّمه، ج ۳۵) التنقیح فی شرح المکاسب (در بیع و خیارات، ج۳۶ تا ۴۰)۔ اس کتاب کی جلد ۴۱ اور ۴۲ آیت اللہ خوئی کی کتاب تکملة المنهاج کے مبانی میں ہے۔ ان ۴۲ جلدوں میں
فقہ استدلالی کا ایک مکمل دورہ شامل ہے۔ جلد نمبر ۴۳ تا ۴۸، میں اصول فقہ کا ایک مکمل دورہ ہے، یعنی محاضرات فی اصول الفقه (ج ۴۳ تا ۴۶) اور مصباح الاصول (ج ۴۷ تا ۴۸)۔
جلد نمبر ۴۹ مجمع الرسائل کے عنوان سے آیت اللہ خوئی کی تقریرات کے تین رسائل (رسالة فی الارث، رسالة فی الامر بین الامرین، و رسالة فی احکام الرضاع)، دو علمی رسائل (رسالة فی اللباس المشکوک و رسالة فی نفحات الاعجاز) اور رسالة فی کلیات علم الرجال کے عنوان سے معجم رجال الحدیث کے مبسوط مقدمے پر مشتمل ہے۔
البیان فی تفسیر القرآن اس دائرۃ المعارف کے آخری حصے میں ہے۔
[ترمیم]
آیت الله الـعظمیٰ خوئیؒ ایک نمایاں اور ممتاز شخصیت تھے۔ آپ نے دسیوں ماندگار خیراتی ادارے یادگار چھوڑے ہیں۔ آپ عالمی سطح پر
اسلام کی تبلیغ کے بہت مشتاق تھے، اسی لیے دنیا بھر کے مختلف ممالک میں اہم اسلامی اور تبلیغی مراکز کی بنیاد رکھی۔ یہ ادارے اسلام اور
تشیع کی اشاعت کے مراکز ہیں۔ یہ مراکز
قم،
مشهد مقدس ،
اصفهان اور
ایران کے دیگر شہروں میں قائم کیے گئے۔ اسی طرح
ہندوستان،
پاکستان،
عراق،
لبنان کے علاوہ
انگلستان اور
امریکا میں دو انتہائی عظیم الشان اور قابل فخر مراکز قائم کیے اور دنیا کی مروجہ زبانوں سے آشنا مبلغین کو مختلف علاقوں میں تبلیغ کیلئے روانہ کیا۔ یہاں پر ہم آپ کی سماجی اور اسلامی خدمات کی ایک مختصر فہرست پیش کریں گے:
۱. مـدیـنۃ العلم
حوزه علمیہ قم؛ اس میں دینی طلبہ کیلئے گھر اور دیگر وسائل منجملہ کتب خانہ وغیرہ فراہم کیے گئے ہیں۔
۲. مشہد میں طالب علموں کیلئے سات منزلہ دینی مدرسہ۔
۳. دارالعلم اصفہان۔
۴. مجتمع امام زمان (عجّلاللهفرجهالشریف)، اصفہان۔
۵.مـرکز تبلیغ و تعلیم لندن؛ یہ ایک مکمل عمارت ہے کہ جس میں مسلمانوں کی تمام ضروریات کو مدنظر رکھا گیا ہے۔
۶. المجتمع الثقافی الخیری بمبئی ـ ہندوستان۔
۷. مبره الامام الخوئی لبنان۔
۸. مدرسہ دارالعلم
نجف اشرف ـ عراق۔
۹. بنکاک (
تھائی لینڈ) اور ڈھاکہ (
بنگلہ دش) میں دینی مدارس کا قیام۔
۱۰. مکتبة الثقافة و النشر للطباعه و الترجمه و التوزیع (پاکستان میں اشاعتی ادارہ)۔
۱۱. مکتبة الامام الخوئی الاسلامی نیویارک ـ امریکا۔
۱۲. مرکز الامام الخوئی (سوانزی)۔
۱۳. مدرسۃ دارالعلم بنکاک (تھائی لینڈ)۔
۱۴. مکتبة الامام الخوئی (عظیم کتب خانہ نجف اشرف ـ عراق)۔
۱۵. مدرسۃ الامام الصادق (لڑکوں کیلئے) لندن ـ انگلستان۔
۱۶. مدرسة الزهرا (لڑکیوں کیلئے) لندن ـ انگلستان۔
۱۷. مرکز اسلامی امام خوئی،
فرانس۔
۱۸.
مسجد و اسلامی مرکز لاس اینجلس ـ امریکا۔
۱۹. مسجد و مرکز اسلامی، ڈیٹرائٹ سٹی، ریاست مشی گن امریکا۔
۲۰.
خلیج فارس میں دسیوں تعلیمی و تربیتی مراکز۔
[ترمیم]
آیت اللہ سید ابو القاسم خوئی کے مشہور بیٹے جو خود بھی عالم تھے، یہ ہیں: سید جمال الدین، سید محمد تقی، سید عبد المجید اور سید علی۔
آیت اللہ خوئی کے بڑے بیٹے سید جمال الدین سنہ ۱۳۳۷ کو نجف میں پیدا ہوئے۔ مقدماتی دروس اور فقہی و اصولی متون کی تعلیم کے بعد
منطق و
فلسفہ محمد باقر زنجانی اور صدرا باد کوبہ ای جیسے اساتذہ سے پڑھا۔ سید جمال الدین نے اس کے بعد اپنے والد کے دروس خارج میں شرکت کی۔ اس کے بعد وہ مختلف متون کی تدریس میں مشغول ہو گئے۔ سید جمال الدین نے اپنا زیادہ تر وقت اپنے والد کی زعامت و مرجعیت کے امور میں صرف کیا۔ انہیں ۱۳۵۹شمسی/ ۱۹۸۰ میں بعثی حکومت کے حکم پر عراق کو ترک کرنا پڑا اور کچھ عرصہ
دمشق میں قیام پذیر رہے۔ اس کے چار سال بعد انہیں کینسر ہو گیا۔ کچھ مدت تک
تہران میں ساکن رہے۔
امام خمینیؒ نے اپنے فرزند
سیداحمد کو ان کی عیادت کیلئے بھیجا۔ آپ سنہ ۱۳۶۳شمسی کو
ایران میں انتقال کر گئے اور
حضرت معصومہؑ کے حرم میں سپرد خاک ہوئے۔
آپ کے آثار یہ ہیں: شرح کفایة الاصول آخوند خراسانی، بحث فی الفلسفة و علم الکلام، توضیح المراد فی شرح تجرید الاعتقاد، شرح
منظومہ تالیف
سبزواری، بحوث فی کتاب شرح نهج البلاغة؛
ابنابیالحدید، تیسیر الدراسة النحویة، شرح دیوان المتنبی، فارسی میں دیوانِ شعر اور کشکول جس میں بہت سی علمی ، ادبی ، فلسفی مباحث و حواشی اور شعری شواہد شامل تھے۔
سید محمدتقی خوئی سنہ ۱۳۳۷شمسی میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے دورہ سطح کے دروس کو
سید عبد الصاحب حکیم جیسے اساتذہ سے پڑھا۔ پھر اپنے والد کے
درس خارج میں شرکت کی۔ سنہ ۱۳۶۸شمسی میں خوئی فاؤنڈیشن کی تاسیس کے بعد سید محمد تقی کو اس کے سیکرٹری جنرل کے عنوان سے منتخب کر لیا گیا۔ شعبان ۱۴۱۱ (۱۳۶۸شمسی) کی انقلابی تحریک کے بعد انہیں آزاد شدہ علاقوں کو چلانے کیلئے اپنے والد کی طرف سے قائم کردہ ہیئت کا رکن منتخب کیا گیا تھا۔
اس تحریک کو کچلنے اور بڑی تعداد میں شیعوں کو قتل عام کیے جانے کے بعد انہیں اپنے والد کے ہمراہ
کوفہ میں اپنے گھر پر نظر بند کر دیا گیا۔ آخرکار ۳۰ تیر ۱۳۷۳شمسی کو
کربلا سے
نجف روانگی کے دوران ایک مشکوک ایکسیڈنٹ میں وفات پا گئے۔ اپنے والد کے درس فقہ کی تقریرات کو لکھنے کے علاوہ کتاب الالتزامات التبعیة فی العقود (بیروت ۱۴۱۴/ ۱۹۹۳) ان کے اہم آثار میں سے ہے۔
آیت اللہ خوئی کے ایک اور فرزند سید عبد المجید ہیں۔ آپ کا بھی ۱۴۱۱ کی تحریک آزادی میں اہم کردار تھا۔ تحریک آزادی کی شکست کے بعد آپ عراق سے ہجرت کر گئے اور لندن چلے گئے۔ سید محمد تقی کی وفات کے بعد وہ الخوئی فاؤنڈیشن کے سربراہ بنے۔ انہوں نے جلا وطن عراقیوں کے ساتھ مل کر بعثی حکومت کے سقوط کیلئے بہت جدوجہد کی۔ عراق پر امریکی حملے اور صدام کے سقوط کے بعد عبد المجید عراق واپس تشریف لے آئے اور عراق کی سیاست میں کردار ادا کرنے کی کوشش کی مگر کچھ ہی عرصے کے بعد نجف میں اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ دہشت گردی کی ایک کاروائی کے دوران شہید ہو گئے۔
[ترمیم]
آیت اللہ العظمیٰ خوئی کو اپنی زعامت کے دوران متعدد مصائب و مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہ عبد الکریم قاسم کے
عراق پر قبضے اور بار بار شب خون کے باعث نجف کے علما اور عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
ایک طرف سے کمیونسٹ وطن پرستوں اور دوسری طرف سے بے رحم بعثیوں نے علما پر زمین تنگ کر دی؛ بالخصوص سنہ ۱۳۸۹ قمری میں بعثیوں کے برسراقتدار آنے کے بعد شدید مشکلات پیدا ہوئیں اور
آیت اللہ حکیم اور ان کے بعد
آیت اللہ خوئی کو سخت حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ آپ کی شجاعت و استقامت کیلئے یہی کافی ہے کہ بعثی ہرگز ان سے اپنے مفاد میں ایک کاغذ بھی دریافت نہیں کر سکے یا ایران کے خلاف مسلط کردہ جنگ میں ان سے کوئی دستخط ہی لے پائے ہوں جبکہ آپ نے ہمیشہ
مرجعیت اور
حوزہ علمیہ نجف کی حفاظت کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں ذرا سا بھی تاوان نہیں دیا اور اس دوران انتہائی ناگوار مشکلات کو برداشت کیا۔ آپ کے نزدیکی ساتھیوں کو آپ کی خدمت اور دینداری کے جرم میں سالہا سال تک قید رکھا گیا اور ان کے انجام کی کوئی خبر نہیں ہے حتی آپ کے ایک بیٹے آقا سید ابراہیم خوئی کو بھی بعثیوں نے اٹھا لیا اور ان کا کوئی نام و نشان نہیں ملا۔ ان مصائب اور بڑھاپے کے باعث آپ شدید بیمار ہو گئے اور دوست و احباب اور بزرگان نے بہت کوشش کی کہ ان کیلئے باہر سے کوئی ڈاکٹر لے آئیں یا انہیں باہر لے جائیں مگر
حزب بعث نے اجازت نہیں دی اور آخرکار
بغداد کے ایک ہسپتال میں داخل کر دئیے گئے اور ایک مشکوک علاج معالجے کے بعد انہیں چھٹی دے دی گئی۔
ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ کس طرح اور کس وجہ سے ان کا انتقال ہوا اور شیعہ مرجعیت کی تاریخ میں یہ مسئلہ تجربے سے ثابت ہوا ہے کہ جس مرجع کو بھی بغداد منتقل کیا گیا وہ مشکوک انداز میں وفات پا گیا۔ آپ اس معاملے کو
شیخ احمد کاشف الغطاء (متوفی ۱۳۴۴) ،
حاج آقا حسین قمی (متوفی ۱۳۶۶) اور آیتالله حکیم (متوفی ۱۳۹۰) وغیرہ کے زندگی ناموں میں ملاحظہ کر سکتے ہیں۔
آیت اللہ خوئی آخرکار ۱۷ مرداد ۱۳۷۱/ ۸ صفر ۱۴۱۳، کو ۹۶ برس کے سن میں وفات پا گئے۔ عراقی سیکیورٹی فورسز اور چند رشتہ داروں اور عزیزوں کی موجودگی میں
آیت اللہ سید علی سیستانی نے نماز جنازہ پڑھائی۔ پھر آپ کے جسد خاکی کو
مسجد خضرا کے پاس واقع آپ کے اپنے تیار کردہ مخصوص مقبرے میں دفن کر دیا گیا۔
آپ کی وفات کی خبر کو کئی گھنٹوں تک مخفی رکھا گیا۔ آخرکار ریڈیو بغداد نے مجبورا اسے نشر کیا۔ آیت اللہ خوئی کی وفات کی خبر نشر ہونے کے بعد نجف اور
کوفہ میں کرفیو لگا دیا گیا اور بغداد اور دیگر شیعہ نشین علاقوں میں فوج کو ہائی الرٹ کر دیا گیا۔
عراقی حکومت نے آیت اللہ خوئیؒ کی مجالس ترحیم پر پابندی عائد کر دی اور حتی مسجد خضرا کی تعمیر کے بہانے بھی ان کے مزار پر جانا ممنوع قرار دیا گیا۔ البتہ ایران اور دیگر اسلامی ممالک میں بہت سی مجالس ترحیم منعقد کی گئیں۔
آیت اللہ خوئی کے بعض قریبیوں نے کچھ قرائن کو ذکر کرتے ہوئے ان کی موت کو مشکوک کہا ہے۔
اس سے قبل سنہ ۱۴۰۰/۱۹۸۰ میں بھی ایک مشکوک حادثے کے نتیجے میں آیت اللہ خوئی کی گاڑی میں کوفہ سے نجف سفر کے دوران دھماکہ ہوا مگر آپ حیرت انگیز طور پر محفوظ رہے۔
[ترمیم]
(۱) آقابزرگ تہرانی، محمدمحسن، الذریعة الی تصانیف الشیعة، چاپ علینقی منزوی و احمد منزوی، بیروت ۱۴۰۳/۱۹۸۳۔
(۲) آقابزرگ تہرانی، محمدمحسن، طبقات اعلام الشیعة: نقباء البشر فی القرن الرابععشر، مشهد، قسم ۱ـ۴، ۱۴۰۴۔
(۳) مرکز اسناد انقلاب اسلامی، اسناد انقلاب اسلامی، ج۱، تهران: ۱۳۷۴ش۔
(۴) امینی، محمدهادی، معجم رجال الفکر و الادب فیالنجف خلالالف عام، نجف ۱۳۸۴/۱۹۶۴۔
(۵) انصاری، مرتضی، زندگانی و شخصیت شیخانصاریقدسسره، قم۱۳۷۳ش۔
(۶) انصاری قمی، ناصرالدین، «نجوم امت: حضرت آیتاللّه العظمی حاج سیدابوالقاسم خوئی (رضواناللّهعلیه)»، نور علم، دوره ۴، ش ۱۱ (مهر و آبان ۱۳۷۱)۔
(۷) ایازی، محمدعلی، «چه کسانی مروج مکتب تفسیری آیتاللّه خوئی شدند؟»، مهرنامه، ش ۱۲ (خرداد ۱۳۹۰)۔
(۸) ایروانی، باقر، «مرجعیة الامام الخوئی (قدسسره) : السمات و المعالم»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۹) ایروانی، محمدتقی و محمدمهدی موسوی خلخالی، رسالة فی احکام الرضاع فی فقه الشیعة، تقریرات درس آیتاللّه ابوالقاسم خوئی ، در موسوعة الامام الخوئی، ج۴۹، قم: مؤسسة احیاء آثار الامام الخوئی، ۱۴۳۰/۲۰۰۹۔
(۱۰) بحرالعلوم، محمد، «الامام الخوئی: و انجازاته العلمیة و مشاریعه العامة»، در یادنامه حضرت آیتاللّه العظمی آقای حاج سیدابوالقاسم خوئی، (قم) : مؤسسه خیریه آیتاللّه العظمیٰ خوئی، ۱۳۷۲ش۔
(۱۱) بروجردی، محمدتقی، نهایة الافکار، تقریرات درس آیتاللّه عراقی، قم: مؤسسة النشر الاسلامی، (۱۳۶۴ش)۔
(۱۲) توحیدی، محمدعلی، مصباحالفقا هة فی المعاملات، تقریرات درس آیتاللّه ابوالقاسم خوئی ، بیروت ۱۴۱۲/۱۹۹۲۔
(۱۳) جعفری، محمدتقی، رسالة فی الامر بین الامرین، تقریرات درس آیتاللّه ابوالقاسم خوئی ، در موسوعة الامام الخوئی، ج۴۹، قم: مؤسسة احیاء آثار الامام الخوئی، ۱۴۳۰/۲۰۰۹۔
(۱۴) جعفری همدانی، غلامحسین، «مصاحبه با آیتاللّه میرزاغلامحسین جعفری همدانی»، حوزه، سال ۹، ش ۴ (مهر و آبان ۱۳۷۱)۔
(۱۵) حسینی میلانی، فاضل، «المرجعیة المتمیزة للامام الخوئی»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۱۶) حسینی همدانی، محمد، «مصاحبه با استاد آیتاللّه حسینی همدانی (نجفی)»، حوزه، سال ۵، ش ۶ (بهمن و اسفند ۱۳۶۷)۔
(۱۷) حکمی، مرتضی، «الامام الخوئی و انطلاقةالعلامة الجعفری الفلسفیة»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۱۸) حکمی، مرتضی، «حضرت آیتاللّه العظمی حاج سیدابوالقاسم خوئی : پیشوای حوزه علمیه و مرجع عظیمالشأن»، مسجد، سال ۱، ش ۵ (شهریور ـ مهر ۱۳۷۱)۔
(۱۹) حباللّه، حیدر، «تأثیرات مکتب اجتهادی آیتاللّه خوئی»، ترجمه عبداللّه امینی، مهرنامه، ش ۱۲ (خرداد ۱۳۹۰)۔
(۲۰) خانمحمدی، یوسف، اندیشه سیاسی شیخعبدالکریم زنجانی، قم ۱۳۸۸ش۔
(۲۱) خوئی ، سید ابوالقاسم، البیان فی تفسیرالقرآن، قم ۱۳۹۴/۱۹۷۴۔
(۲۲) خوئی ، سید ابوالقاسم، «(پاسخ به استفتائی درباره حزب کمونیست)»، الموسم، ش۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۲۳) خوئی ، سید ابوالقاسم، رسالة فی اللباس المشکوک، موسوعة الامام الخوئی، ج۴۹، قم: مؤسسة احیاء آثار الامام الخوئی، ۱۴۳۰/۲۰۰۹۔
(۲۴) خوئی ، سید ابوالقاسم، رسالة فی نفحات الاعجاز فی رد الکتاب المسمی حُسن الایجاز، موسوعة الامام الخوئی، ج۴۹، قم: مؤسسة احیاء آثار الامام الخوئی، ۱۴۳۰/۲۰۰۹۔
(۲۵) خوئی ، سید ابوالقاسم، کتاب اجود التقریرات، تقریرات درس آیتاللّه نائینی، قم: کتابفروشی مصطفوی، (بیتا)۔
(۲۶) خوئی ، سید ابوالقاسم، مبانی تکملة المنهاج، نجف (۱۹۷۵ـ ۱۹۷۶)۔
(۲۷) خوئی ، سید ابوالقاسم، معجم رجال الحدیث، بیروت ۱۴۰۳/ ۱۹۸۳، چاپ افست قم (بیتا)۔
(۲۸) خوئی ، سید ابوالقاسم، منهاج الصالحین، نجف ۱۳۹۷۔
(۲۹) خوئی ، سید ابوالقاسم و جواد تبریزی، صراةالنجاة: استفتاءات لآیتاللّه العظمی الخوئی مع تعلیقة و ملحق لآیتاللّه العظمی التبریزی، قم ۱۴۱۶ـ۱۴۱۸۔
(۳۰) داوری، مسلم، «الامام الخوئی زعیم الحوزة العلمیة»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۳۱) روحانی، حمید، نهضت امام خمینی، ج۲، تهران ۱۳۷۶ش۔
(۳۲) «الساعات الاخیرة فی حیاة الامام الراحل»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۳۳) ساعدی، محمدرضا، «خاطراتی از شیخ محمدرضا ساعدی از اعضای هیأت آیتاللّه خوئی در ماجرای انتفاضه ۱۹۹۱ عراق»، شهروند امروز، سال ۴، ش۳ (۲۵ تیر ۱۳۹۰)۔
(۳۴) سبحانی، جعفر، «مرجعیت در شیعه»، در یادنامه حضرت آیتاللّه العظمی آقای حاج سیدابوالقاسم خوئی، مؤسسه خیریه آیتاللّه العظمیٰ خوئی، ۱۳۷۲ش۔
(۳۵) شریف، سعید، «تلامذة الامام الخوئی»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۳۶) شریف، سعید، «قبس من نور: تلامذة السید الخوئی دامظله»، الموسم، ش ۷ (۱۹۹۰)۔
(۳۷) سودانی، عبدالفلاح، «الامام الخوئی مدرسة فی التفسیر و الحدیث»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۳۸) شاکری، حسین، «الامام السید الخوئی: سیرة و ذکریات»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۳۹) شاکری، حسین، ذکریاتی، قم ۱۴۱۸ـ۱۴۲۴۔
(۴۰) شبیری زنجانی، سید موسی، جرعهای از دریا، قم ۱۳۸۹ش۔
(۴۱) شریف رازی، محمد، آثار الحجة، یا، تاریخ و دائرةالمعارف حوزه علمیه قم، قم ۱۳۳۲ـ (۱۳۳۳ش)۔
(۴۲) شریف رازی، محمد، گنجینه دانشمندان، تهران ۱۳۵۲ـ۱۳۵۴ش۔
(۴۳) شهابی، سعیدمحمد، «رحیل الامام الخوئی: فصل آخر من فصول معاناة العراق»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۴۴) شیرازی، رضی، «مصاحبه با آیتاللّه سیدرضی شیرازی»، حوزه، سال ۹، ش ۲ و ۳ (خرداد ـ شهریور ۱۳۷۱)۔
(۴۵) صدرایی خویی، علی، سیمای خوی، تهران ۱۳۷۳ش۔
(۴۶) صغیر، محمد، اساطین المرجعیّة العُلیا فی النجف الاشرف، بیروت ۱۴۲۴/ ۲۰۰۳۔
(۴۷) حماده، طراد، «فکر الامام الخوئی (قدسسره) فیالتراث الاسلامی الشیعی المعاصر»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۴۸) طریحی، محمد سعید، «الامام الخوئی: سیرة مشرقیة و آثار خالدة»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴الف)۔
(۴۹) طریحی، محمد سعید، «السید جمالالدین الخوئی: ۱۳۳۷ـ۱۴۰۴ه»، الموسم (۱۴۱۴ب)۔
(۵۰) عارفی، محمداکرم، اندیشه سیاسی آیتاللّه خوئی، قم ۱۳۸۶ش۔
(۵۱) جاویدان، شذی، العراق بین الماضی و الحاضر و المستقبل، بیروت: مؤسسة الفکر الاسلامی، (بیتا)۔
(۵۲) علیدوست، ابوالقاسم، «گفتوگو با حجتالاسلام و المسلمین ابوالقاسم علیدوست»، مهرنامه، ش ۱۲ (خرداد ۱۳۹۰)۔
(۵۳) غروی، محمد، الحوزة العلمیة فی النجف الاشرف، بیروت ۱۴۱۴/۱۹۹۴۔
(۵۴) غروی تبریزی، علی، التنقیح فی شرح العروة الوثقی: التقلید، تقریرات درس آیتاللّه ابوالقاسم خوئی ، در موسوعة الامام الخوئی، ج۱، قم: مؤسسة احیاء الآثار الامام الخوئی، ۱۴۳۰الف۔
(۵۵) غروی تبریزی، علی، الطهارة، تقریرات درس آیتاللّه ابوالقاسم خوئی ، در موسوعة الامام الخوئی، ج۲، قم: مؤسسة احیاء آثار الامام الخوئی، ۱۴۳۰ب۔
(۵۶) غروی تبریزی، علی، التنقیح فی شرح المکاسب: البیع، تقریرات درس آیتاللّه ابوالقاسم خوئی ، (ج ۲)، در موسوعة الامام الخوئی، ج۳۷، قم: مؤسسة احیاء آثار الامام الخوئی، ۱۴۳۰ج۔
(۵۷) فضلی، عبدالهادی، «معالم الشخصیة العلمیة عند الامام الخوئی»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۵۸) قائینی، محمد، «گفتوگو با حجتالاسلام و المسلمین محمد قائینی»، مهرنامه، ش ۱۲ (خرداد ۱۳۹۰)۔
(۵۹) قطری، منصور عبدالجلیل، «ادب الاختلاف فی حیاة الامام الخوئی»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۶۰) کاظمی خراسانی، محمدعلی، فوائدالاصول، تقریرات درس آیتاللّه نائینی، قم ۱۴۰۴ـ۱۴۰۹۔
(۶۱) گرجی، ابوالقاسم، «نگاه کوتاهی به احوال و آثار آیتاللّه العظمی خوئی »، تحقیقات اسلامی، سال ۵، ش ۱ و ۲ (۱۳۶۹ش)۔
(۶۲) فیّاض، محمداسحاق، «ابداعات الامام الخوئی فی الابحاث الاصولیة و الفقهیة»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۶۳) فیّاض، محمداسحاق، «نوآوریهای اصولی و فقهی آیتاللّه خوئی »، فقه، ش ۱۷ و ۱۸ (پاییز ـ زمستان ۱۳۷۷)۔
(۶۴) مغنیه، محمدجواد، «زعیم الحوزة العلمیة»، الموسم، ش ۶ (۱۴۱۰)۔
(۶۵) مددی، احمد، «گفتوگو با آیتاللّه سیداحمد مددی»، مهرنامه، ش ۱۲ (خرداد ۱۳۹۰)۔
(۶۶) مدرسی طباطبائی، حسین، مقدمهای بر فقه شیعه: کلیات و کتابشناسی، ترجمه محمد آصف فکرت، مشهد ۱۳۶۸ش۔
(۶۷) مرقاتی، جعفر، «الامام الخوئی»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۶۸) مشار، خانبابا، مؤلفین کتب چاپی فارسی و عربی، تهران ۱۳۴۰ـ ۱۳۴۴ش۔
(۶۹) خباز، منیر، «ملمح فی شخصیة الامام الخوئی (قدسسره) : ملکات فکریة لاتتوفر الا للعباقرة»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۷۰) «مؤسسة الامام الخوئی الخیریة: فکرتها و مشاریعها»، الموسم، ش ۶ (۱۴۱۰)۔
(۷۱) موسوی اصفهانی، حسن، «دروس من اجلال الامام الخوئی (قدسسره) لاساتذته»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۷۲) موسوی خلخالی، محمدمهدی، «السید ابوالقاسم الخوئی: الفقیه و الاصولی»، در الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۷۳) نصیراوی، ابراهیم، «الامام الراحل: مشاهدات و ذکریات»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۷۴) واعظ حسینی، محمدسرور، مصباح الاصول، تقریرات درس آیتاللّه خوئی، (قم) ۱۳۸۰ش۔
(۷۵) یثربی، میرمحمد، «سرانجام مکتب دوگانه علامه وحید بهبهانی و شیخ مرتضی انصاری چه شد؟» (مصاحبه)، مهرنامه، ش ۱۲ (خرداد ۱۳۹۰)۔
[ترمیم]
[ترمیم]
•
دانشنامه جهان اسلام، ماخوذ از مقالہ «خوئی ابوالقاسم »، تاریخ نظر ثانی ۱۴۰۰/۰۱/۶۔ •
«سائٹ اندیشه قم، ماخوذ از مقالہ»، تاریخ نظر ثانی ۱۴۰۰/۰۱/۶۔