حقوق زوجیت
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
دینِ
اسلام میں مرد اور عورت کے حقوق زوج اور زوجہ کے اعتبار سے معین کیے گئے ہیں۔ مرد کو اگر شوہر کی حیثیت سے دیکھیں تو اسلام کی نظر میں شوہر پر زوجہ کے حقوق پورے کرنا
واجب ہے۔ اسی طرح سے عورت پر زوجہ ہونے کے اعتبار سے شوہر کے حقوق پورے کرنا لازم ہے۔ اسلام نے شوہر اور بیوی کے جو حقوق بیان کیے ہیں انہیں حقوقِ زوجیت کہتے ہیں۔ ان سطور میں ہم
قرآن کریم کی آیات اور
آئمہ اہل بیتؑ کی احادیث کی روشنی میں زوج و زوجہ کے حقوق کا جائزہ لیں گے۔
[ترمیم]
مرد اور عورت ہر دو پر شادی کے بعد چند فرائض عائد ہو جاتے ہیں، يعنی شوہر پر اپنی زوجہ کی نسبت چند فرائض ہیں جو زوجہ کے حقوق بنتے ہیں اور زوجہ کے بھی اپںے شوہر کی نسبت چند فرائض ہیں جو شوہر کے حقوق بنتے ہیں۔
قرآن کریم میں ان حقوق کو بہت خوبصورت و جامع
تعبیر کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے:
وَلَهُنَّ مِثلُ الّذی عَلیهِنَّ بِالمَعروفِ۔
اسلام کے دستورات کے مطابق عورتوں پر مردوں کے لیے اسی طرح حقوق ہیں جیسے مردوں پر عورتوں کے لیے حقوق عائد ہوتے ہیں۔
آلوسی نے اس آیت مجیدہ کی لطافت کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ لکھا ہے کہ
آیت کے ہر دو طرف سے عورتوں اور مردوں کے حقوق کو بیان کرتے ہوۓ
ضمائر سے استفادہ کیا گیا ہے۔ گویا اس حقوق متقابل کے عمیق پیوند کو سمجھایا جا رہا ہے اور جس کی طرف ہدایت دی جا رہی ہے يعنی بتایا جا رہا ہے کہ جس طرح سے مردوں کے بطور شوہر حقوق ہیں بالکل اسی طرح سے بیویوں کے بھی حقوق ہیں جن کو پائمال نہیں کیا جاسکتا۔
میاں بیوی معاشرے کا ایک اہم ترین عضو ہیں۔ ایک معاشرہ ان دو کی بغیر مکمل نہیں ہو سکتا۔ پس ضروری ہے ان میں سے ہر ایک کے ایک جیسے
حقوق ہوں کیونکہ دونوں ہی معاشرے کی بقاء کے لیے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ معاشرے کے لحاظ سے اگرچہ يہ دو نفر ہیں لیکن گھر کے ماحول میں يہ دو اس طرح سے ایک شمار ہوتے ہیں کہ اگر ایک ہو اور ان میں سے دوسرا نہ ہو تو بات نہیں بنتی۔ قرآن کریم میں زوج اور زوجہ کو ایک دوسرے کے لیے مُکمِل قرار دیا گیا ہے:
هُنَّ لِباسٌ لَکم و اَنتُم لِباسٌ لَهُنَّ؛ وہ تمہارے لیے پردہ ہیں اور تم ان کے لیے پردہ ہو۔
يعنی میاں بیوی ایک دوسرے کے بغیر کامل نہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے ضرورت ہیں۔ اس
ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ ورنہ معاشرے کا يہ اہم ترین عضو ناکارہ ہو کر معاشرے کو فاسد کر سکتا ہے۔
کوئی بھی
نظام چلانا ہو اس کے لیے ایک مدیر و مسؤول کا ہونا ضروری ہوتا ہے جو اس نظام کو جانتا ہو اور اس کی ضروریات کو پورا کرسکتا ہو۔ اگر وہ حکومتی نظام ہے تو اس کے لیے ایک مدبر
سیاستدان کی ضرورت ہے، اگر ملک کے دفاع کے لیے نظام تشکیل دیا گیا ہے تو اس کے لیے ایک بہادر سپاہ سالار کی ضرورت ہے وغیرہ۔
اسی طرح زندگی کے مختلف شعبوں میں مختلف نظاموں کے کے مسؤول درکار ہیں يہاں تک کہ گھریلو نظام کو چلانے کے لیے بھی ایک مدیر و مسؤول کی ضرورت ہے۔ دین اسلام نے گھر کی تمام ذمہ داریاں، اس کا نظم و نسق اور مختلف امور کی دیکھ بھال مرد کے ذمہ عائد کی ہیں۔
قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:
ولِلرِّجالِ عَلیهِنّ دَرجَةً...۔
ایک اور جگہ پر
اللہ تعالی کا قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:
اَلرِّجالُ قَوّمونَ عَلیالنِّساءِ؛ مرد حضرات گھر میں عورتوں پر نگہبان ہیں۔
اس
آیت کی مفسرین نے مختلف تفاسیر بیان کی ہیں۔ البتہ ان سب تفاسیر میں قدرِ مسلم يہ ہے کہ گھر کے تمام اخراجات اور زوجہ کے مخارج زندگی کو پورا کرنا شوہر پر ضروری ہے۔ آيت مجیدہ کے اگلے حصے میں ہے:
وبِما اَنفِقوا مِن اَمولِهِم؛ اور اس لیے کہ مردوں نے اپںا مال خرچ کیا ہے۔ مرد کی عورت پر نگہبانی سے مراد يہ نہیں کہ مرد گھر پر حاکمِ مطلق ہے بلکہ گھر کی سربراہی سے مراد يہ ہے کہ اس پر ذمہ داریاں زیادہ عائد ہیں۔ اگر مرد کو گھر کا سربراہ بنایا گیا ہے تو اس کے ساتھ ساتھ اس پر وہ ذمہ داریاں بھی عائد کی گئی ہیں جو عورت پر نہیں، مثلا
حق مہر ادا کرنا،
نان نفقہ یعنی گھر کے تمام افراد کی ضروریات کو پورا کرنا، اگر ماں اور باپ زندہ ہیں تو ان کے مخارج زندگی پورا کرنا بھی مرد پر ضروری ہیں۔ پس معلوم ہوا کہ جہاں مرد گھر کا سربراہ ہے گھر کی تمام ضروریات پورا کرنا، گھر کی حفاظت، مال و جان کا تحفظ بھی مرد کے ذمہ ہے۔ پس مرد کا سربراہ ہونا عورت پر
ظلم نہیں بلکہ اس طرح سے مرد کو گھر کا ذمہ دار بنایا گیا ہے اور عورت پر سے وہ سب اٹھا لیا گیا ہے جس کو پورا کرنے سے وہ عاجز ہے۔ عورت کی
فطرت تقاضا کرتی ہے کہ اس پر بھاری ذمہ داریاں عائد نہ کی جائیں۔
قرآن مجید میں اللہ تعالی کا ارشاد فرمانا ہے کہ ہم نے بعض انسانوں کو بعض دیگر پر سرپرست بنایا۔ قرآن کریم نے يہ نہیں کہا کہ مردوں کو عورتوں پر کوئی برتری دے دی گئی ہے۔ در اصل انسانی معاشرہ ایک انسانی جسم کی مانند ہے جس کے مختلف اعضاء ہیں اور ہر عضو کی اپنی اہمیت اور اپنا وظیفہ ہے۔ اگر يہ سب اعضاء مل کر اپنی ذمہ داریوں کو پورا کریں تو پھر جا کر انسان کا يہ جسم
رشد و کمال کی طرف بڑھ سکتا ہے۔ مرد اور عورت بھی اسی طرح سے ہیں کسی کو مرد ہونے کی وجہ سے
فضیلت یا برتری حاصل نہیں یا کسی کو عورت ہونے کی وجہ سے کسی دیگر پر برتری حاصل نہیں۔
فطری طور پر
اللہ تعالی نے مرد کو مضبوط اور قوی بنایا ہے اس لیے مشکل کام مرد کے ذمہ لگاۓ ہیں اس کے برعکس عورت صنفِ نازک ہے اپنی جسمانی خصوصیات کی بنا پر کوئی بھی ایسا کام اللہ تعالی نے عورت کے ذمہ نہیں لگایا جو اس کے لیے مشقت کا باعث بنے۔
دین اسلام نے زوجہ کے حقوق کو پورا کرنے کے لیے مرد کو بہت زیادہ تاکید کی ہے کيونکہ عورت اپنی جسمانی خصوصیات کی وجہ سے کمزور ہے اس لیے اگر اس کے حقوق بھی پامال ہوں تو يہ اس کے لیے بہت ضرر رساں ہے۔ عورتوں کے حقوق پر زور دیتے ہوۓ
سوره نساء میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:
وَ اِنۡ خِفۡتُمۡ اَلَّا تُقۡسِطُوۡا فِی الۡیَتٰمٰی فَانۡکِحُوۡا مَا طَابَ لَکُمۡ مِّنَ النِّسَآءِ مَثۡنٰی وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ ۚ فَاِنۡ خِفۡتُمۡ اَلَّا تَعۡدِلُوۡا فَوَاحِدَۃ اَوۡ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ ذٰلِکَ اَدۡنٰۤی اَلَّا تَعُوۡلُوۡا؛ اور اگر تم لوگ اس بات سے خائف ہو کہ یتیم (لڑکیوں) کے بارے میں انصاف نہ کر سکو گے تو جو دوسری عورتیں تمہیں پسند آئیں ان میں سے دو دو، تین تین یا چار چار سے نکاح کر لو، اگر تمہیں خوف ہو کہ ان میں عدل نہ کر سکو گے تو ایک ہی عورت یا لونڈی جس کے تم مالک ہو (کافی ہے)، یہ ناانصافی سے بچنے کی قریب ترین صورت ہے۔
اسلام کی آمد سے پہلے
عرب معاشرے میں معمول تھا کہ یتیم بچیوں کو کفالت میں لے لیا کرتے اور بعد میں ان سے شادی کر کے ان کے اموال کو ضبط کر لیا کرتے تھے۔
قرآن کریم نے حکم دیا کہ تم لوگ یتیم بچیوں کے مابین عدالت سے کام نہیں لیتے اور اس طرح ان کے حقوق کو پائمال کرتے ہو پس ضروری ہے کہ ان سے ازدواج کرنے سے پرہیز کرو اور دیگر خواتین کو زوجہ بناؤ۔
[ترمیم]
خانوادہ کے حقوق کو بنیادی طور پر تین قسموں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
دین اسلام کی آمد سے پہلے عرب معاشرے میں عورتوں کو ان کے بنیادی ترین حقوق سے بھی محروم رکھا جاتا تھا لیکن
رسول اللہ ﷺ کے مبعوث ہو جانے کے بعد آپﷺ نے عورتوں کے حقوق بیان کیے اور معاشرے میں ان کی اہمیت کو واضح کیا يہی وجہ تھی کہ معاشروں میں عورتوں کے حقوق پر سوالات اٹھنے لگے، آپﷺ کے اصحاب بھی عورتوں کے حقوق کے بارے میں بہت سوال کیا کرتے تھے اس کی ایک وجہ يہ تھی کہ اسلام سے پہلے عورت انسان ہی نہیں سمجھی جاتی تھی بلکہ عورت کو مال و میراث سمجھا جاتا۔
قرآن کریم میں اللہ تعالی کا ارشاد فرمانا ہے: ‘‘کہہ دیجیے! عورتوں کے بارے میں جو کچھ تمہیں کہا جاتا ہے وہ خود میری طرف سے نہیں ہے بلکہ خدا کا فتوی ہے’’۔
:
ویستَفتونَک فِیالنِّساءِ قُلِ اللّهُ یفتیکم فیهِنّ۔
شادی سے پہلے عورت کو حق حاصل ہے کہ اپنا حق مہر معین کرے، حتی اگر شادی سے پہلے حق مہر معین نہ کیا گیا ہو تو تب بھی مسلم ہے کہ حق مہر ساقط نہیں ہے بلکہ عورت
مہر المثل کا مطالبہ کر سکتی ہے یعنی اس دور کی عورتیں جو اس کی مانند ہیں جتنا حق مہر لیتی ہیں وہ اپنے شوہر سے مطالبہ کر سکتی ہے۔
سوره بقره میں فرمانِ الہٰی سے اس مطلب کو باخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔ زمانہ
جاہلیت میں ایک رسم تھی کہ ایک مرد جس کے گھر میں تسلط ہوتا تھا اپنی بیٹی یا بہن کو اس شرط پر دوسرے مرد کے نکاح میں دے دیتا تھا کہ وہ مرد بھی اپنی بہن یا بیٹی کو اس کے نکاح میں قرار دے اور ان دونوں کا حق مہر در اصل وہی ازدواج قرار پاتا جو دوسری لڑکی اس کے باپ یا بھائی کے نکاح میں آتی۔ يعنی حق مہر یہی ہے کہ آپ کے بھائی یا باپ کی شادی کروائی جا رہی ہے۔ اس کو اصطلاح میں
نکاح شغار بھی کہتے ہیں۔ نکاح شغار کا مطلب يہ کہ مرد ہر دو طرف سے بہرہ مند ہو رہا ہے ایک تو مفت میں رشتہ بھی لے رہا ہے اور حق مہر جو عورت کا حق ہے وہ بھی مرد کو نہیں دینا پڑ رہا بلکہ ایک طرح سے مرد کو ہی نفع پہنچا رہا ہے۔ اگر محروم ہے تو عورت ہر دو طرف سے محروم ہے۔
اسلام نے اس رسم کو منسوخ کر دیا، قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:
وءاتُوا النِّساءَ صَدُقتِهِنُّ نِحلَة...؛ اور عورتوں کو ان کے مہر خوشی سے دیا کرو۔ ۔
قرآن کریم اس مختصر سے جملے میں تین اساسی نکات کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہے:
۱. اس آيت میں حق مہر کو
صدقہ قرار دیا گیا ہے جو مادہ
صِدۡقٌ سے ہے۔ يعنی اس کے ذریعے سے
نکاح کے پیوند کو سچ کی بنیاد پر کھڑا کرنے اور مرد کا اپنی زوجہ سے اچھے تعلقات قائم کرنے کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے۔
۲. ضمیر
هنّ کے ذریعے حق مہر کو عورت کا حق قرار دیا ہے۔
۳. کلمہ
نحلة کے ذریعے اس امر کی تصریح کی جا رہی ہے کہ حق مہر عورت کا حق ہے۔ يہ اجرت کے طور پر نہیں کہ عورت آپ کے گھر کی مزدور بن گئی ہے اور جو کام بھی اس سے نکلوانا ہے نکلوا سکتے ہیں۔ دین اسلام نے شوہر کو يہ حق نہیں دیا کہ وہ زوجہ کے مال میں تصرف کرے۔
اسلام نے تو خواتین کے حقوق کے لیے اس حد تک کہا ہے کہ اگر خاتون اپنے شوہر کے بچوں کو دودھ پلاتی ہے تو اس کی بھی اجرت لے سکتی ہے۔
ہو سکتا ہے يہاں پر کوئی اعتراض کرے کہ حق مہر کو قرآن کریم میں اجر کی تعبیر کے ساتھ استعمال کیا گیا ہے۔ تو اس کا جواب يہ دیا جاۓ گا کہ اس کی وجہ يہ ہے کہ چونکہ مرد اپنی زوجہ سے جنسی استفادہ کرتا ہے اس لیے يہ حق اسے عطا کرتا ہے۔
حق مہر ہر دور میں عوام الناس میں رائج رہا ہے اس کو دیگر ادیان یا دین اسلام کے ساتھ مختص نہیں کیا جا سکتا۔ بلکہ مختلف تہذیبوں میں عورت کو شادی کے وقت کچھ مال دینا رائج رہا ہے۔
قرآن کریم میں حق مہر کو
فریضہ کی تعبیر سے بھی ذکر کیا گیا ہے۔
قنطار۔
اسلام نے مرد پر لازم قرار دیا ہے کہ وہ اپنی زوجہ کے مخارج زندگی کو پورا کرے، يعنی زوجہ کی خوراک، اس کے لباس اور رہنے کے لیے جگہ کا اہتمام کرنا مرد پر ضروری قرار دیا گیا ہے۔ البتہ اگر زوجہ اس سے زیادہ پر یا اپنی حد سے زیادہ کا تقاضا کرے تو وہ شوہر پر پورا کرنا ضروری نہیں۔ شوہر کا اپںی زوجہ پر خرچ کرنا اس طرح سے نہیں کہ از روۓ ترحم اپنی بیوی پر خرچ کر رہا ہے جیسے انسان کسی فقیر کو
صدقہ دیتا ہے بلکہ اگر زوجہ ثروتمند ہو اور شوہر متوسط طبقے سے ہو، تب بھی زوجہ کا نفقہ شوہر پر ہے۔
قرآن کریم میں شوہر پر اپنی زوجہ کے لیے خوراک و پوشاک کے اہتمام کے بارے وارد ہوا ہے:
...وعَلیالمَولودِ لَه رِزقُهُنَّ و کسوَتُهُنَّ بِالمَعروفِ لاتُکلَّفُ نَفسٌ اِلاّ وُسعَها۔
اور بچے والے کے ذمہ دودھ پلانے والی ماؤں کا روٹی کپڑا معمول کے مطابق ہو گا، کسی پر اس کی گنجائش سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا جاتا۔ دیگر
آیات میں
نفقہ کے بارے حکم آیا ہے: مثلا آیت۳۴
سوره نساء اور ۷-۶
سوره طلاقعورت طلاق کے بعد اور شوہر کی وفات کے بعد بھی نفقہ لے گی۔ سوره طلاق آیت ۶
میں آیا ہے کہ وہ عورتیں جن کو تم نے
طلاق دی ہے ان کو کسی ایسی جگہ پر ٹھہراؤ جو ان کے لیے مناسب ہو، جیساکہ ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:
اَسکنوهُنَّ مِن حَیثُ سَکنتُم مِن وُجدِکم۔ پس ضروری ہے کہ اپنی حیثیت کے مطابق ان کا خیال رکھو۔ ظاہر ہے جہاں ان کے رہنے سہنے کا انتظام ان کے شوہر پر ضروری ہے وہاں بقیہ نفقات بھی اس پر ہی عائد ہوں گے۔ اس کے بعد بیان ہوا کہ ان کو نقصان مت پہنچاؤ کہ وہ مشکل میں پڑ جائیں اور مجبور ہو جائیں کہ نقل مکان کر جائیں يا تم سے نفقہ لینا ترک کر دیں، اگر وہ حاملہ ہیں تو جب تک بچہ پیدا نہیں ہو جاتا ان کو نفقہ دیتے رہو، جدا ہو جانے کے بعد اگر تمہارے بچے کو دودھ پلانے پر بھی تیار ہو جائیں تو دودھ پلانے کی اجرت بھی دو۔
قرآن کریم نے ایسی خواتین کے بارے میں کہ جن کے شوہر وفات پا جائیں فرمایا ہے کہ وہ ایک سال تک ورثاء کے گھر میں رہنے کا حق رکھتی ہیں۔ شوہر کے ورثاء اسے گھر سے نکال نہیں نکال سکتے مگر يہ کہ وہ ایک سال گزرنے سے پہلے خود ہی کسی اور جگہ شادی کر لے اور گھر سے چلی جائے۔:
وَصِیةً لاَِزوجِهم مَتعًا اِلَی الحَولِ غَیرَ اِخراج۔
بعض نے لکھا ہے کہ
آیت اسی سورت کی آیت نمبر ۲۳ کے ذریعے منسوخ ہوئی ہے جس میں
وفات کی عدت کو چار ماہ اور دس دن قرار دیا گیا ہے ۔]]
لیکن اس بات کو
محقّق اردبیلی نے رد کیا ہے اور لکھا ہے: ان دو آیات کا آپس میں ٹکراؤ نہیں ہے کیونکہ دوسری آيت میں عدت کے زمانے کی مقدار کو معین کیا گیا ہے جو کہ چار ماہ اور دس دن ہے، نا کہ ایک سال۔ اور پہلی آيت میں اس امر کو بیان کیا گیا کہ شوہر کی وفات کے بعد اس کی زوجہ اس کے گھر اس کے نفقہ سے کب تک بہرہ مند ہو سکتی ہے اور مدت ایک سال ہے۔ يعنی شوہر کے مر جانے کے بعد شوہر کے ورثاء پر ذمہ داری ہے کہ اس
بیوہ خاتون کو ایک سال تک اس کے مرحوم شوہر کے اموال سے نفقہ فراہم کریں، پس اگر اس قول کو قبول کر لیا جاۓ تو آيت کے منسوخ ہو جانے کا قول رد ہو جاۓ گا۔
زوجہ پر بچوں کی دیکھ بھال کرنا، ان کا خیال کرنا اور دودھ پلانا شرعی طور پر
واجب نہیں ہے لیکن اگر اپنی خوشی سے ان امور کو انجام دے تو اس کے لیے اجر ہے۔
چنانچہ آيت مجیدہ کے الفاظ
... لِمَن اَرادَ اَن یتِمَّ الرَّضاعَةَ... فَاِن اَرادا فِصالاً عَن تَراض مِنهُما و تَشاوُر...۔
اسی امر کی تصریح کر رہے ہیں۔ البتہ
حقوق مادری کے تحت دو چیزیں خاتون کا حق ہیں۔ بطور ماں ایک خاتون سے دو سال تک اس کا بچہ اس سے جدا نہیں کیا جا سکتا چاہے اس کے شوہر نے اسے طلاق ہی کیوں نہ دے دی ہو۔
اسی طرح اگر بچہ لڑکی ہے تو سات سال تک ماں کو حق حضانت حاصل ہے، اور بچے کو دودھ پلانے میں بھی اس کی اپںی ماں کو بقیہ خواتین پر فوقیت حاصل ہے۔.
قرآن کریم نے ان دو حقوق کی طرف اشارہ کیا ہے:
:
لاتُضارَّ ولِدةٌ بِوَلَدِها.؛ بچے کی وجہ سے ماں کو کسی تکلیف میں نہ ڈالا جاۓ۔ ماں کو اس کے بچے کو دودھ نہ پلانے دینا یا اس کا حق حضانت غصب کرنا ایک قسم کی تکلیف ہے جس کی طرف قرآن کریم نے اشارہ کیا ہے کہ کوئی بھی شخص کسی ماں کو يہ تکلیف نہ پہنچاۓ۔
مرد کسی بھی صورت میں زوجہ کے ساتھ جنسی مقاربت کو ترک نہیں کر سکتا یا کسی بھی وجہ سے زوجہ کے ساتھ ہمبستری کرنے سے منع نہیں کر سکتا، مرد پر چار مہینے میں ایک مرتبہ زوجہ سے مقاربت کرنا ضروری ہے۔ آيت مجیدہ
ایلاءمیں اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جس شخص نے قسم کھائی ہو کہ وہ اپنی زوجہ کے ساتھ مقاربت نہیں کرے گا چار ماہ کے بعد واضح کرے کہ وہ اپنی زوجہ کو طلاق دینا چاہتا ہے یعنی اس کے ساتھ رہنا بھی چاہتا ہے یا اس سے جدا ہونا چاہتا ہے۔ کہا گیا ہے کہ اس آيت میں چار ماہ کی مدت معین کرنا اس جہت سے ہے کہ مرد پر شرعی طور پر واجب ہے کہ وہ چار ماہ میں کم از کم ایک بار ضرور اپنی زوجہ سے ہمبستری کرے۔
بعض دیگر آیات میں زوجہ کے ساتھ مشترکہ زندگی اور اس کو نکاح میں رکھنے کے حوالے سے وارد ہوا ہے: «فَاِمساک بِمَعروف»
یا «فاَمسِکوهُنَّ بِمَعروف»
،
ولاتُمسِکوهُنَّ ضِرارا؛ ۔
مفسرین نے بیان کیا ہے کہ اگرچہ يہ آیات بعد از طلاق زوجہ کی طرف رجوع کرنے کے متعلق ہیں لیکن کلمہ
معروف کہ جس کے معنی اپنی زوجہ کے ساتھ شائستہ زندگی گزارنے کے ہیں اور يہ کہ مرد ہر حال میں اپنی زوجہ کے ساتھ بطور تسلسل شائستہ زندگی گزارے۔ يہاں پر بعض فقہاء کرام اس کلمہ سے استفادہ کرتے ہیں کہ اس سے شاید میاں بیوی کے جنسی مسائل مراد ہوں۔ انہیں فقہاء کرام میں سے
شیخطوسی ہیں جو لکھتے ہیں: اگر ثابت ہو جاۓ کہ مرد «عنین» ہے یعنی اسے ایک ایسی بیماری ہے جس سے وہ زوجہ سے مقاربت کرنے سے قاصر ہے تو اس کی زوجہ کو
نکاح فسخ کرنے کا حق حاصل ہے۔ اس مطلب پر
دلیل اسی آیت مجیدہ کو قرار دیا گیا ہے۔
اسلام نے زوجہ پر شوہر کے حقوق کا تعین کیا ہے۔ ان حقوق کی طرف اجمالی طور پر اشارہ کیا جاتا ہے:
بنیادی طور پر طلاق دینے کا حق مرد کو حاصل ہے البتہ يہ بھی ممکن ہے کہ اس حق کو بعض مواقع پر وکالت کے ذریعے عورت کی طرف منتقل کر دیا جاۓ یا
حاکم شرع مصلحت کو دیکھتے ہوۓ مرد کی جانب سے اس کی زوجہ کو طلاق دے چاہے خود مرد اسے طلاق نہ دینا چاہتا ہو۔
آج کل اس کا رواج پڑتا جا رہا ہے کہ
عقد نکاح یا عقد خارج لازم کے موقع پر
زوج اپنی
زوجہ کو حقِ
وکالت بلاعزل با
حقّ توکیل دیتا ہے اس کا مطلب يہ ہے کہ وہ اپنا طلاق دینے کا حق اپنی زوجہ کو عطا کر دیتا ہے اور اس طرح اگر بعد میں کوئی مشکل پڑتی ہے تو زوجہ قاضی کو شکایت کرنے کے بعد خود کو اپںے شوہر کی عطا کردہ وکالت کے ذریعے مطلقہ قرار دے دیتی ہے۔ وہ موارد جن میں زوجہ حاکم شرع سے رجوع کر کے خود کو شوہر کے عقد سے خارج کر سکتی ہے، ان میں سے بعض مورد يہ ہیں:
۱. شوہر نان نفقہ یا دیگر حقوق زوجہ پورا نہ کرے۔
۲. زوجہ کے ساتھ اس حد تک بد رفتاری کرے کہ اس کے ساتھ رہنا نا قابل تحمل ہو جاۓ۔
۳. شوہر کسی ایسی بیماری میں مبتلا ہو جاۓ جس کا علاج ممکن نہ ہو یا بہت مشکل ہو مثلا جنون، نشہ میں پڑ جانا یا شوہر کا عقیم ہونا یعنی کسی ایسی بیماری میں مبتلا ہو جس سے وہ کبھی صاحب اولاد نہ ہو سکتا ہو وغیرہ،
۴. شوہر کسی ایسے کام کا ارتکاب کرتا ہو جو گھر کی مصلحت کے برخلاف ہو، شوہر کا کسی جرم کے ارتکاب کے بعد پانچ سال یا اس سے زائد کے لیے اسیر ہو جانا، شوہر پر حد تعزیر جاری ہو جاۓ۔
۵. شوہر بغیر کسی شرعی یا عقلی عذر کے گھر چھوڑ کر چلا جاۓ۔
قرآن کریم میں
طلاق کے متعلق بہت سی آیات نازل ہوئی ہیں۔
شرعی طور پر شوہر کو
حق حاصل ہے کہ وہ جب بھی چاہے اپنی زوجہ سے جنسی استفادہ حاصل کر سکتا ہے لیکن اگر زوجہ کسی
مانعِ شرعی مثلا (
حیض،
احرام،
اعتکاف،
روزه و...) کی حالت میں ہے تو ہمبستری جائز نہیں۔ عورت پر بھی ضروری ہے کہ ہر وہ رکاوٹ دور کرے جو اس کے شوہر کو اس کے ساتھ مقاربت کرنے میں مانع بنے۔
قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:
نِساؤُکم حَرثٌ لَکم فَأْتوا حَرثَکم اَنّی شِئتم۔
شوہر کے
حقوق میں سے ایک اہم ترین حق يہ ہے کہ زوجہ اس کی
اطاعت کرے۔
البتہ واضح رہے کہ
حرام امور میں شوہر کی اطاعت
جائز نہیں، مثلا اگر شوہر اپنی بیوی کو کسی حرام فعل کے ارتکاب کا حکم دے تو اس امر میں شوہر کی اطاعت جائز نہیں۔ ایک
روایت میں
رسول اللہ ﷺ نقل ہوا ہے:
لا طاعة لمخلوق فی معصیة الخالق۔
البتہ عورت پر تمام امور میں بھی شوہر کی اطاعت واجب نہیں فقط بعض موارد ایسے ہیں جہاں پر عورت اپنے شوہر کو منع نہیں کرسکتی مثلا جب شوہر آمیزش کے لیے طلب کرے، یا گھر سے باہر آنے جانے کے امور میں شوہر کی اطاعت ضروری ہے، مطلب کلی طور پر شوہر کی اطاعت واجب نہیں فقط مندرجہ بالا امور میں شوہر کی اطاعت واجب ہے۔
قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے: پس اگر وہ تمہاری اطاعت کرتی ہیں تو تمہیں بھی چاہیے کہ ان کو آزاز نہ پہنچاؤ،
فَاِن اَطَعنَکم فَلاتَبغوا عَلَیهِنَّ سَبیلا۔
شوہر کے حقوق میں سے ایک حق يہ ہے کہ زوجہ اس کے لیے زینت اختیار کرے۔ قرآن کریم میں وارد ہوا ہے:
..ولایبدینَ زینَتَهُنَّ اِلاّ لِبُعولَتِهِنَّ...۔
سورہ احزاب میں کلمہ
لَکُمۡ اور
عَلَیۡهِنّ سے معلوم ہوتا ہے کہ شوہر کی
وفات کے بعد یا شوہر سے طلاق لینے کے بعد عورت کو چاہیے کہ عدت کی مدت کو پورا کرے گویا يہ
عدت پورا کرنا شوہر کے حقوق میں سے ہے۔ کیونکہ اس آيت میں ذکر ہوا ہے کہ اگر ہمبستری کرنے سے پہلے عورت کو طلاق دے تو عورت پر عدت نہیں۔
فَمالَکم عَلَیهِنَّ مِن عِدَّة تَعتَدّونَها۔ اور اگر ہمبستری کر لی ہے اور اس کے بعد طلاق ہو تو عورت پر عدت کے ایام کا گزارنا ضروری ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر ہمبستری سے نطفہ ٹھہر گیا ہو اور عورت عدت گزارے بغیر ہی دوسری شادی کر لے تو پیدا ہونے والے بچہ مشخص نہیں ہو سکے گا عین ممکن ہے کہ مرد کا حق ضائع ہو جاۓ۔ جبکہ ہمبستری سے پہلے طلاق ہو جانے کی صورت میں عدت کے نہ ہونے کا حکم واضح ہے کیونکہ عورت کے حمل سے نہ ہونے کا یقین حاصل ہے اس لیے اس پر عدت نہیں۔ پس عورت شوہر سے طلاق لے کر فورا کسی دوسرے مرد سے شادی کر سکتی ہے۔ عدت کی مدت کو پورا کرنے کا حکم اللہ تعالی نے اس لیے قرار دیا کہ اگر جلدبازی یا نا سمجھی میں شوہر کی جانب سے
طلاق واقع ہوئی ہے تو اس مدت میں فکر کرے اور سوچے اگر اپنے کیے پر پشیمان ہے تو رجوع کر سکتا ہے، رجوع کی صورت میں
طلاق باطل ہو جاۓ گی اور نئے سرے سے نکاح کی بھی ضرورت نہیں ہوگی۔
قرآن کریم میں وارد ہوا ہے: تم ان کو گھروں سے نہ نکالو اور نہ وہ خود ہی نکلیں مگر جب کھلم کھلا کوئی بے حیائی کا کام کریں، اور یہ اللہ کی حدیں ہیں، اور جو اللہ کی حدوں سے بڑھا تو اس نے اپنے نفس پر ظلم کیا، آپ کو کیا معلوم کہ شاید اللہ اس کے بعد اور کوئی نئی بات پیدا کر دے۔
لاتُخرِجوهُنَّ مِن بُیوتِهِنَّ... لاتَدرِی لَعلَّ اللّهَ یحدِثُ بَعدَ ذلک اَمرا۔
اس کے علاوہ متعدد دیگر
آیات میں عدت کے احکام وارد ہوۓ ہیں۔
[ترمیم]
میاں بیوی کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک دوسرے کے
دین پر پابند ہونے اور ایک دوسرے کے ساتھ
اخلاق سے پیش آنے کو اہمیت دیں، يعنی مرد کوشش کرے کہ اس کی زوجہ دین کی پابند رہے اور با اخلاق رہے اس لیے اس پر ضروری ہے کہ ہر مناسب موقع پر اپنی زوجہ کو امر بالمعروف و نہی عن المنکر کرے، اسی طرح سے زوجہ پر بھی ضروری ہے کہ شوہر کو بے دین ہونے سے بچانے کی کوشش کرے۔ اس امر کی دین اسلام میں بہت تاکید وارد ہوئی ہے يہی وجہ ہے کہ مسلمان عورت یا مرد کا مشرکین سے شادی کرنا حرام ہے کیونکہ مشرک یا مشرکہ کے ساتھ رہنا دین کی بربادی کے مترادف ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:
اُولـئِک یدعونَ اِلَی النّار...؛ اور مشرک عورتیں جب تک ایمان نہ لائیں ان سے نکاح نہ کرو، مشرک عورتوں سے ایمان دار لونڈی بہتر ہے گو وہ تمہیں بھلی معلوم ہو، اور مشرک مردوں سے نکاح نہ کرو یہاں تک کہ وہ ایمان لائیں، اور البتہ مومن غلام مشرک سے بہتر ہے اگرچہ وہ تمہیں اچھا ہی لگے، یہ لوگ دوزخ کی طرف بلاتے ہیں۔
ایک اور جگہ پر ارشاد ہوتا ہے کہ گھر میں سب افراد ایک دوسرے کے دین کے لیے اہتمام کریں اور دین کے امور میں ایک دوسرے کو امر کریں: «وامُر اَهلَک بِالصّلوةِ واصطَبِر عَلَیها...».
‘‘اور اپنے گھر والوں کو
نماز کا حکم کر اور خود بھی اس پر قائم رہ، ہم تجھ سے روزی نہیں مانگتے، ہم تجھے روزی دیتے ہیں، اور
تقوی کا انجام اچھا ہے’’۔
روایات میں بھی تاکید سے وارد ہوا ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کو
دین پر عمل کرنے کی تلقين كرتے رہیں اور نیک اعمال کرنے پر ایک دوسرے کو ابھاریں۔ ایک روایت میں وارد ہوا ہے کہ اللہ تعالی ان مردوں یا عورتوں پر
رحمت کا نزول فرماتا ہے جو رات کو اپنے شریک حیات کو
نماز شب کے لیے اٹھاتے ہیں۔
ایک اور جگہ پر اللہ تعالی نے مومنین کو حکم دیتے ہوۓ فرمایا:
یـاَیهَا الَّذینَ ءَامَنوا قُوا اَنفُسَکم و اَهلیکم نارًا وَقودُهَا النّاسُ والحِجارَة عَلَيْـهَا مَلَآئِكَـةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا يَعْصُوْنَ اللّـٰهَ مَآ اَمَرَهُـمْ وَيَفْعَلُوْنَ مَا يُؤْمَرُوْنَ؛ اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو دوزخ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں (اور) اس پر فرشتے سخت دل قوی ہیکل مقرر ہیں وہ اللہ کی نافرمانی نہیں کرتے جو وہ انہیں حکم دے اور وہی کرتے ہیں جو انہیں حکم دیا جاتا ہے۔
ایک اور آيت میں تمام مردوں اور عورتوں کو اس جہت سے کہ وہ سب ایک دوسرے کے معاون و دوست ہیں، حکم دیا گیا ہے کہ وہ باہمی طور پر ایک دوسرے کو
امر بالمعروف و
نہی عن المنکر کیا کریں،
والمُؤمِنونَ والمُؤمِنـتُ بَعضُهُم اَولیاءُ بَعض یأمُرونَ بِالمعروفِ وینهَونَ عَنالمُنکرِ؛ اور ایمان والے مرد اور ایمان والی عورتیں ایک دوسرے کے مددگار ہیں، نیکی کا حکم کرتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرتے ہیں، یہی لوگ ہیں جن پر اللہ رحم کرے گا، بے شک اللہ زبردست حکمت والا ہے۔
دین اسلام میں میاں اور بیوی کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ پیار محبت کے ساتھ رہیں اور ایک دوسرے کی اخلاقی برائیوں کو برداشت کریں۔
قرآن کریم میں وارد ہوا ہے:
وَمِنْ اٰيَاتِهٓ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُـوٓا اِلَيْـهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَّّرَحْـمَةً ۚ اِنَّ فِىْ ذٰلِكَ لَاٰيَاتٍ لِّـقَوْمٍ يَّتَفَكَّـرُوْنَ؛ اور اس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ تمہارے لیے تمہیں میں سے بیویاں پیدا کیں تاکہ ان کے پاس چین سے رہو اور تمہارے درمیان محبت اور مہربانی پیدا کر دی، جو لوگ غور کرتے ہیں ان کے لیے اس میں نشانیاں ہیں۔
دینی تعلیمات کے مطابق مرد کو گھر میں ایک طرح کی حاکمیت حاصل ہے اس لیے مرد کو زیادہ تاکید کی گئی ہے کہ وہ اس برتری کا ناجائز فائدہ نہ اٹھاۓ اور اپنی زوجہ کا احترام بجا لاۓ۔ قرآن کریم میں
طلاق کے بعد رجوع کے متعلق مرد کو حکم دیا ہے:
...فَاِمساک بِمَعروف...؛ طلاق دو مرتبہ ہے، پھر بھلائی کے ساتھ روک لینا ہے یا نیکی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے، اور تمہارے لیے اس میں سے کچھ بھی لینا جائز نہیں جو تم نے انہیں دیا ہے۔
البتہ حسنِ معاشرت یعنی خواتین کے ساتھ نیکی سے پیش آنے کا حکم ہر دو صورتوں کے لیے ہے چاہے مرد اس عورت کے ساتھ ازدواج کر کے اس کے ساتھ رہنا چاہتا ہو یا طلاق دینا چاہتا ہو۔ اس مطلب کو مختلف
آیات مثلا
سوره بقره اور
سوره طلاق سے سمجھا جا سکتا ہے۔
سوره نساءمیں بھی عورتوں سے
حسن معاشرت سے پیش آنے کو
وعاشِروهُنَّبِالمَعروفِ کے کلمات کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔
قرآن کریم میں
میراث کے احکام کے ذیل میں وارد ہوا ہے کہ مرد اپنی زوجہ کا وارث قرار پاتا ہے اور زوجہ بھی اپںے شوہر کی وارث قرار پاتی ہے۔ مرد اپنی زوجہ کے آدھے اموال کا وارث قرار پاۓ گا البتہ يہ اس صورت میں ہے کہ جب اس کی زوجہ کے بچے نہ ہوں، اگرچہ يہ بچے دوسرے شوہر سے ہی کیوں نہ ہوں۔ يعنی اگر زوجہ کے بچے ہیں تو شوہر کو کل وراثت میں سے آدھا مال نہیں بلکہ ایک چوتھائی حصہ ملے گا، جیسا کہ قرآن کریم وارد ہوا ہے:
ولَکم نِصفُ ما تَرَک اَزوجُکم اِن لَم یکن لَهُنَّ وَلَدٌ فَاِن کانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَکمُ الرُّبُعُ مِمّا تَرَکن...؛ جو
مال تمہاری عورتیں چھوڑ مریں اس میں سے تمہارا آدھا حصہ ہے بشرطیکہ ان کی اولاد نہ ہو، پھر اگر ان کی اولاد ہو تو اس میں سے ایک چوتھائی حصہ تمہارا ہے جو وہ چھوڑ جائیں۔
البتہ يہ تقسیم زوجہ کے تمام قرض ادا کر لینے اور واجبات ادا کر لینے کے بعد کی ہے۔ پہلے زوجہ کے تمام مالی واجبات ادا کیے جائیں گے اور پھر اس کے مال میں سے شوہر کو وارث قرار دے کر آدھا یا ایک چوتھائی مال عطا کیا جاۓ گا۔
عورت اپنے شوہر کی وفات کے بعد اس کے ایک چوتھائی مال کی وارث ہے۔ لیکن اگر شوہر کے بچے ہوں تو آٹھویں حصے کی وارث قرار پاۓ گی، جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہوا ہے:
ولَهُنَّ الرُّبُعُ مِمّا تَرَکتُم اِن لَم یکن لَکم ولدٌ فاِن کانَ لَکم وَلدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمّا تَرَکتُم مِن بَعدِ وَصیة تُوصونَ بِها اَو دَین؛ اور عورتوں کے لیے چوتھائی مال ہے اس میں سے جو تم چھوڑ کر مرو بشرطیکہ تمہاری اولاد نہ ہو، پس اگر تمہاری اولاد ہو تو جو تم نے چھوڑا اس میں ان کا آٹھواں حصہ ہے۔
اگر مرد کی متعدد بیویاں ہوں تو يہ تقسیم کسی ایک بیوی کے ساتھ مختص نہیں یعنی کسی ایک بیوی کو ہی چوتھا يا آٹھواں حصہ نہیں مل جاۓ گا بلکہ اسی تقسیم کے تحت تمام بیویوں کے مابین مساوی طور پر مال تقسیم کیا جاۓ گا۔
میاں بیوی کا باہمی حقوق کی رعایت نہ کرنا يعنی
ناشزہ ہونے کے بارے میں قرآن کریم میں متعدد فرامین وارد ہوۓ ہیں۔
نشوز سے مراد يہ ہے کہ مرد یا عورت میں سے کوئی ایک اپنے شریک حیات کی واجب امور میں اطاعت نہ کریں۔ مثلا عورت پر ضروری ہے کہ جب شوہر جنسی ضرورت کے لیے اسے طلب کرے تو وہ اطاعت کرے اور خود کو شوہر کے لیے آمادہ کرے لیکن اگر عورت اس امر میں شوہر کی اطاعت نہ کرے تو وہ ناشزہ کہلاۓ گی۔ یا اسی طرح سے عورت پر ضروری ہے کہ مرد کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر نہ جاۓ۔ اگر اس امر میں عورت مخالفت کرے اور شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر نکلے تو يہ بھی نشوز ہے اور يہ امر بذات خود حرام ہے۔ نشوز کا امر شوہر کی جانب سے بھی انجام پا سکتا ہے مثلا وہ
واجب امور جو شوہر پر شوہر ہونے کے اعتبار سے ضروری ہیں وہ پورا نہ کرے، مثلا بیوی کو
نان نفقہ نہ دے۔ نشوز کا عمل بعض اوقات شوہر کی جانب سے وقوع پذیر ہوتا ہے اور بعض اوقات بیوی کی جانب سے۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ ہر دو ایک دوسرے کے واجب حقوق کو پورا نہ کریں اور دونوں نشوز کے مرتکب ہوں۔
اگر عورت اپنے شوہر کے
واجب حقوق کو پورا نہ کر رہی ہو تو شوہر کیا کرے؟
قرآن کریم میں تفصیل کے ساتھ اور مرحلہ بمرحلہ ذکر ہوا ہے کہ مرد اپنی عورت کے نشوز کے ابتدائی یا آخری مراحل میں کیا کرے۔ وارد ہوا ہے کہ پہلے مرحلے میں شوہر کو چاہیے کہ اپنی بیوی کو
نصیحت کرے اور اسے سمجھانے کی کوشش کرے:
والّـتی تَخافونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظوهُنَّ؛ اور جن عورتوں سے تمہیں سرکشی کا خطرہ ہو تو انہیں سمجھاؤ۔
اگر معاملہ نصیحت اور سمجھانے بجھانے سے گزر چکا ہو اور عورت پر اس کا کوئی اثر نہ ہو رہا ہو تو دوسرے مرحلے میں مرد کو چاہیے کہ سزا کے طور پر اپنا بستر جدا کر لے، جیساکہ ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:
...واهجُروهُنَّ فِیالمَضاجِعِ...؛ اور تم انہیں اپنے بچھونوں سے الگ کر دو۔
اگر بستر جدا کرنے پر بھی زوجہ پر اثر نہ ہو تیسرے مرحلے میں شوہر کے لیے جائز ہے کہ
اعتدال کی حد میں رہتے ہوۓ اور
اصلاح کی خاطر نہ کہ
انتقام کے طور پر، اسے مارے۔ اس کا يہ مطلب نہیں کہ اسے اتنا مارے کہ بدن سرخ یا سیاہ ہو جاۓ بلکہ اس قدر مارے کہ بدن پر کسی قسم کا نشان یا ضرر نہ پہنچے کیونکہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو اتنا مارتا ہے کہ اس کے بدن کا رنگ بدل جاۓ تو اس پر
دیت واجب ہو جاتی ہے۔:
...واضرِبوهُنَّ فاِن اَطَعنَکم فَلاتَبغوا عَلَیهِنَّ سَبیلاً...۔ اگر نشوز شوہر کی جانب سے ہو يعنی وہ اپنی زوجہ کے واجب حقوق کو پورا نہ کر رہا ہو تو پہلے مرحلے میں اس کی بیوی کو چاہیے کہ اسے نصیحت کرے اپنا
حق اس سے طلب کرے۔ اگر نصیحت مؤثر نہ ہو تو
حاکم شرع کی طرف رجوع کرے تاکہ حاکم شرع اسے
حکم دے کہ وہ اپنی زوجہ کے
حقوق کو پورا کرے۔ اگر پھر بھی مؤثر نہ ہو تو حاکم شرع شوہر کے مال میں سے اس کی بیوی کا نان نفقہ ادا کرے گا اور بعض موارد میں اس کو سزا بھی دے سکتا ہے۔
اگر نشوز مرد اور عورت ہر دو طرف سے ہو تو ایک شوہر اور بیوی ہر دو کی جانب سے قاضی مقرر کیے جائیں گے جو ان دو کے درمیان صلح کرنے کی کوشش کریں گے، جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:
واِن خِفتُم شِقاقَ بَینَهِما فَابعَثوا حَکمًا مِن اَهلِه و حَکمًا مِن اَهلِها اِن یریدا اِصلـحًا یوَفِّقِ اللّهُ بَینَهما؛ اور اگر تمہیں کہیں میاں بیوی کے تعلقات بگڑ جانے کا خطرہ ہو تو ایک منصف شخص کو مرد کے خاندان میں سے اور ایک منصف شخص کو عورت کے خاندان میں سے مقرر کرو، اگر یہ دونوں صلح کرنا چاہیں گے تو اللہ ان دونوں میں موافقت کر دے گا، بے شک اللہ سب کچھ جاننے والا خبردار ہے۔
اس کے باوجود اگر کوئی راہ حل یا
اصلاح کی صورت باقی نہ رہے تو آخری مرحلے میں
طلاق کا حکم دیا گیا ہے:
...واِن یتَفَرَّقا یغنِ اللّهُ کلاًّ مِن سَعَتِه...۔
[ترمیم]
[ترمیم]
دانشنامہ موضوعی قرآن۔