قرآن میں یہودیت
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
ادیانِ ابراہیمی میں سے ایک یہودیت ہے جس کے پیغمبر
حضرت موسی علیہ السلام ہیں ۔اس مقالہ میں ہم ، قارئین کی معلومات میں اضافے کیلئے پہلے
یہودیوں کی مختصر تاریخ بیان کریں گے اس کے بعد
قرآنی آیات کی روشنی میں ان کا جائزہ لیں گے۔
[ترمیم]
قرآن اور
تاریخ اس بات پر گواہ ہیں کہ یہودی ، گذشتہ چودہ صدیوں سے اسلام کے سب سے بڑے دشمن رہے ہیں اور جب تک ان میں حبِ جاہ اور قوم پرستی موجود ہو یہ دشمنی بھی جاری رہے گی۔
اور اہلِ ایمان سے ان کی دشمنی کے اسباب میں سے
تکبّر،کفر،خواہشات کی پیروی،اندھی
تقلید،تحقیق وجستجو سے دوری،
انبیاء علیہم السلام کی تکذیب میں سرکشی اور ان سے دشمنی کرنا ،قابلِ ذکر ہیں ؛
خداوند متعال قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:
لتجدن اشد الناس عداوة للذین آمنوا الیهود والذین اشرکوا یقیناً تم یہود اور مشرکین کو ، مؤمنین کی دشمنی میں سب سے شدید پاؤ گے۔
[ترمیم]
بنی اسرائیل (ایک قول کے مطابق کلمہ
اسرائیل حضرت یعقوب علیہ السلام کادوسرا نام ہے اور دوسرے قول کی بناء پر لفظِ اسرائیل ان کا لقب ہے ۔یہ کلمہ اسر اور ایل سے مرکب ہے جس کے معنی بالترتیب بندہ اور خدا کے ہیں )کو اس وجہ سے بنی اسرائیل کہا جاتاہے کیونکہ ان کا سلسلہ نسب اسرائیل
یعقوب نبی پر منتہی ہوتا ہے ؛ اور بنی اسرائیل کو یہود کہنےکی وجہ تسمیہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ چونکہ حضرت یعقوب علیہ السلام کے چوتھے بیٹے کا نام یہودا تھا اسی بناء پر بعد میں نسلِ یعقوبؑ، یہود کے نام سے مشہور ہوئی ۔
[ترمیم]
خداوند متعال نے اس
مظلوم اور ستم رسیدہ قوم کو، کہ جن کی زندگی میں غلامی، قید وبند اور
ذلّت کےسوا کچھ نہ تھا،
حضرت موسی علیہ السلام کے ذریعے ظالم اور جابر فرعونیوں سے
نجات دیکر ان کا وارث بناد یا اور تمام جہانوں پر انہیں فضیلت عطا فرمائی۔
لیکن کیا ان لوگوں نے اس عظیم
نعمت کی قدردانی کی یا
کفر،
ہٹ دہرمی اور
دشمنی کا راستہ اختیار کیا؟
جوبھی اس قوم سے کچھ آشنائی رکھتا ہے وہ بخوبی جانتا ہے کہ وہ تمام عہدوپیماں جو اللہ نے حضرت موسی علیہ السلام کے ذریعے ان سے لیے ہیں ؛ جیسےاللہ وحدہ لا شریک کی
پرستش، والدین ، رشتہ داروں ،
یتیموں اور حاجتمندوں کے ساتھ نیکی، لوگوں کے ساتھ گفتار وکردار میں اچھا سلوک کرنا
نماز اور
زکوۃ ادا کرنا، اذیت اور خونریزی سے دوری اختیار کرنا اور انبیاء الہی کی رسالت کو قبول کرنا
سب کو پاؤں تلے روند ڈالااور خدا کے ساتھ شریک کے قائل ہوگئے
اور خدا کی طرف شرک آلود باتیں منسوب کرنے لگے۔
اخلاقی فسق وفجور اور نابکاری، یہودیوں کی نمایاں ترین کمزوریوں میں شمار ہوتی ہیں یہاں ان کے بعض اہم خامیوں کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے :
جب اللہ تعالی نے بنی اسرائیل کو ،دریائے نیل کو شق کرکے نجات دی اور فرعونیوں کو ان کے سامنے
غرق کیا؛ اور اس عظیم الہی معجزے کو اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا ؛(اس کے باوجود) جب موسی علیہ السلام اللہ کے حکم سے میعاد تشریف لے گئے تو اس قوم نے
گوسالہ پرستی شروع کردی۔
(واضح رہے کہ یہودیوں کی معتبر ترین کتابوں میں اس واقعہ کی نسبت حضرت موسیؑ کے بھائی
حضرت ہارون ؑ کی طرف دی جاتی ہے جو کہ
عصمت انبیاء کے خلاف ہے ؛اس نسبت کو یہودیوں کی اہم ترین تحریفات میں شمار کیا جاسکتا ہے۔
تورات،سفرخروج)اس کے حضرت موسی علیہ السلام کی رہنمائی سے بنی اسرائیل نے
توبہ کی اور خدا نے بھی اپنے فضل وکرم سے ان کی توبہ کو قبول فرمایا ۔لیکن یہ قوم کو اس عظیم جرم کے بعد بھی کوئی حیلے حوالوں سے کام لیتی رہی اور حضرت موسی علیہ السلام سے کہنے لگے : جب تک ہم واضح طور پر اپنی آنکھوں سے خدا کا مشاہدہ نہیں کریں گے تب تک ہم تم پر ایمان نہیں لائیں گے۔
اس قوم کی ہٹ دہرمی اور نافرمانی کی یہ حالت تھی کہ جب حضرت موسی علیہ السلام نے جہاد کی غرض سے انہیں مقدس سرزمین
فلسطین کی جانب روانہ کیا تاکہ اس سرزمین کو بھی
شرک اور
بت پرستی سے پاک کرے ،(لیکن عین اس موقع پر جب) حضرت موسی علیہ السلام نے انہیں دشمن سے لڑنے کیلئے آمادہ ہونے کا حکم دیا تو جواب میں حضرت موسی علیہ السلام سے کہنے لگے:اے موسی: اس سرزمیں میں ظالم اور ستمگر رہتے ہیں جب تک وہ وہاں سے نکل نہ جائیں ہم اس میں ہرگز داخل نہ ہوں گے ، وہ اگر نکل جائیں تو ہم اس میں داخل ہوجائیں گے ۔(لیکن) ان میں سے دو افراد جو خدا سے ڈرتے تھے اور خدا وند متعال نے انہیں (عقل ، ایمان اور شجاعت کی صورت میں ) اپنی نعمت سے نوازا تھا، کہنے لگے :ان کے شہر کے دروازے سے داخل ہوجاؤ جب تم داخل ہوجاؤ تو کامیاب ہوجاؤگے اور خدا پر
توکل کرو اگر ایمان رکھتے ہو۔بنی اسرائیل کہنے لگے :جب تک وہ اس میں ہیں ہم ہرگز وہاں نہیں جائیں گے تو اور تیرا پرورگار جائے اور (ان سے ) جنگ کرے ہم تو یہیں بیٹھیں گے ۔موسیؑ نے کہا : اے پروردگار! میرا تو بس اپنے اور اپنے بھائی پر بس چلتا ہے ، میرے اور اس نافرمان جماعت کے درمیان جدائی ڈال دے ۔خدانے حضرت موسی علیہ السلام سے فرمایا:یہ سرزمین چالیس سال تک ان پر ممنوع ہے (اور یہاں تک نہیں پہنچ سکیں گے) اور ہمیشہ زمین میں سرگرداں رہیں گے اور اس فاسق جماعت (کے انجام) کے بارے میں غمگین نہ ہو۔
اس سرکش اور ہٹ دہرم قوم پر اللہ تعالی نےکئی بار نظرِ کرم فرمایا اور اپنی
رحمت ان کے شامل حال قرار دی ان پر سایہ کیااور ان پر
من و
سلوی نازل فرمایا۔ارشادِ خداوندی ہے:ان پاکیزہ غذاؤں میں سے جو تمہیں روزی کے طور پر دی گئی ہیں کھاؤ (اور حکم خدا کی نافرمانی نہ کرو اور اس کی نعمت کا شکر ادا کرو) لیکن وہ پھر بھی شکر گزاری کے دروازے میں داخل نہ ہوئے اور کفرانِ نعمت کرنے لگے ۔لہذا حضرت موسی علیہ السلام سے کہتے تھے:اے موسی! ہم ہرگز اس کے لئے تیار نہیں کہ ایک ہی قسم کی غذا پر اکتفا کریں اپنے خدا سے دعا کرو کہ ہمارت لئے زمین سے اگنے والی سبزیوں میں سے جیسے ککڑی، لہسن، مسور اور پیاز اگائے ۔موسی علیہ السلام نے ان سے کہا: کیا بہتر غذا کے بدلے پست کا انتخاب کرتے ہو (اب اگر ایسا ہی ہے تو کوشش کرو او راس بیابان سے نکل ) کسی شہر میں داخل ہو جاؤ کیونکہ جو کچھ تم چاہتے ہو وہ تو وہیں میسر ہو سکتا ہے۔ خداوند متعال نے ذلت اور محتاجی کی
مہر ان کی پیشانی پر لگادیا اور نئے سرے سے وہ غضبِ الہی میں متبلا ہوگئے کیونکہ وہ آیات الہی کا انکار کرتے اور انبیاء الہی کو قتل کرتے تھے اور سب کچھ اس لئے تھا کہ وہ گنہگار ، سرکش اور تجاوز کرنے والے تھے۔
سبت یعنی ہفتے کا دن،یہ دن یہودیوں کیلئے متبرک تھا۔ہفتے کے روز یہودیوں کے لئے سیروشکار اور کام کاج کی ممانعت تھی۔یہ دن فقط عبادت کیلئے مخصوص تھا۔ اس دن مچھلی کا شکار ممنوع ہونے کی وجہ سے باقی دنوں کی نسبت اس دن زیادہ تعداد میں مچھلیاں سطح آب پر ظاہر ہوا کرتی تھیں۔ چنانچہ دریا پر بسنے والوں نے مختلف حیلوں بہانوں سے اس دن بھی مچھلی کا شکار کرنا شروع کردیا تو اللہ تعالی نے ان پر لعنت کی اور انہیں ظاہری شکل وصورت اور باطنی عقل وادراک، دونوں طرح سے بندر کی صورت میں مسخ کردیا ؛ یا بعض کے بقول صرف باطنی عقل وادراک کے لحاظ سے خواہش پرست اور عاقبت نااندیش بنادیا۔
[ترمیم]
اسلام سے پہلے یہودی ، باقی تمام اقوام پر برتری اور فضیلت کو اپنا حق تصور کرتے تھے، اپنے آپ کو
اہل کتاب اور دوسری ملتوں کو
امی،ان پڑھ اور وحشی سمجھتے تھے اور اس بات پر
فخر کرتے تھے۔
بالخصوص
مدینہ میں اہل کتاب کے پیروکار یہودیوں کی جماعت معروف تھی اوراپنی دینی کتب کی پیشگوئیوں کے مطابق وہ
بعثتِ النبیﷺ سے پہلے اسی طرح کے ظہور کے منتظر تھے اور دوسروں کو بھی اس کی
بشارت دیتے تھے۔اقتصادی لحاظ سے بھی ان کی حالت اچھی تھی؛اور مجموعی طور پر وہ مدینہ میں بہت اثر ورسوخ رکھتے تھے ۔لیکن ظہورِ
اسلام کے وقت، انہوں نے نہ فقط اسے قبول نہیں کیا بلکہ پوشیدہ اور اعلانیہ طور پر اسلام کے خلاف
قیام کرنے لگے ؛ کیونکہ اسلام ان کے غیر قانونی اور غیر شرعی طریقوں سے حاصل ہونے والے منافع ، استبدادیت اور شہوت پرستی میں رکاوٹ تھا؛ لہذا قرآن کریم نے انہیں اس وجہ سے سخت سرزنش کی۔ارشادِ خداوندی ہے: اور نازل کردہ کتاب پر ایمان لاؤ جو تمہارے پاس موجود کتاب کی تصدیق کرنے والی ہے اور سب سے پہلے تم ہی اس کے منکر مت بنو اور میری آیات کو تھوڑی قیمت پر فروخت نہ کرواور صرف میرے (غضب) سے بچنے کی فکر کرو».
اہل کتاب کے اکثر لوگ ،
اسلام کے آئین کو قبول نہ کرنے پر اکتفا نہیں کرتے تھے بلکہ وہ حسد کی وجہ سے ہمیشہ اس بات کے درپے رہتے تھے کہ مسلمانوں سے بھی یہ نعمت چھین سلب کرلیں ۔ان کی یہ کوشش تھی کہ اگر مسلمان یہودی یا مسیحی نہیں بنتے تو مسلمان بھی نہ رہیں ۔قرآن نے ان کے اس بغض اور حسد کو یوں بیان کیا ہے :(مسلمانو!) اکثر اہل کتاب حق واضح ہوجانے کے باوجود (محض) اپنے بغض اور حسد کی بنا پر یہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح ایمان کے بعد تمہیں دوبارہ کافر بنا دیں، پس آپ درگزر کریں اور انداز کریں یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ بھیج دے بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
یہ بات واضح ہے کہ ان جیسی آیات میں سب یہودیوں کی مذمّت نہیں ہورہی بلکہ وہ افراد مذموم ہیں جو
ہٹ دہرمی اور تمرد کی وجہ سے نہ صرف ایمان نہیں لاتے تھے بلکہ دوسروں کو گمراہ اور
منحرف کرنے کی بھی کوشش کرتے تھے؛ صورت حال یہ تھی کہ یہودیوں میں سے کوئی اگر اسلام کو قبول کرلیتا تو اسے
تہمت اور افترا کا نشانہ بنایا جاتا اور اسے
برائت کا اظہار کرتے ۔لیکن ان میں سے جو شخص حق کی شناخت کی باوجود اسے قبول نہ کرتا ، اس کی نہ صرف مذمّت نہیں کی جاتی تھی بلکہ اس کی حمایت اور حوصلہ افزائی کی جاتی تھی۔
قرآن کریم نے کلی طور پر یہودیوں کی مذمّت نہیں کی اور نہ انہیں نجس قرار دیا بلکہ فقط ان کے اعمال کو مذموم قرار دیا ہے اور یہودیوں میں سے ان افراد کو ،جو حق کے سامنے
تسلیم ہوگئے اور گمراہوں سے جدا ہوگئے ، تعریف وستائش کی ہے۔
قرآن کریم فرماتا ہے: وہ سب برابر نہیں ہیں ، اہل کتاب میں کچھ (لوگ) ایسے بھی ہیں جو (حق وایمان اور حکم خدا ) پر قائم ہیں، رات کے وقت آیات خدا کی تلاوت کرتے ہیں اور سر بسجود ہوتے ہیں۔وہ اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہیں، نیک کاموں کا حکم دیتے ہیں ، برائیوں سے روکتے ہیں اور بھلائی کے کاموں میں جلدی کرتے ہیں اور یہی صالح لوگوں میں سے ہیں۔
مخریق یہودی اور
ابن صوریا کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو یہودیت سے اسلام کی طرف راغب ہوگئے ۔انہوں نے ان معلومات اور علامات کو جو
کتب آسمانی میں
آخری پیغمبر کے بارے میں موجود تھیں ،
حضرت محمد بن عبد اللہﷺ پر منطبق کرکے اسلام کو قبول کیا ۔لیکن ان کے علاوہ کچھ ایسے بھی تھے جن میں معصیت، گناہ اور
دنیا میں غرق ہونے کی وجہ سےحق کی جستجو کا فطری نور بجھ گیا تھا ، انہوں نے نہ صرف یہ کہ اسلام کو قبول نہ کیا بلکہ اپنے ذاتی مفادات کی حفاظت اور اپنے نادان پیروکاروں کو اسلام کی طرف مائل ہونے سے روکنے کیلئے،
آسمانی کتابوں میں تحریف کردی جیساکہ ان کے اسلاف نے
تورات اور
انجیل کے بارے میں اسی عظیم جرم کیا ارتکاب کیا تھا اور ان میں مختلف قسم کی تحریفات اور تغیر وتبدل کیا تھا۔
کتبِ آسمانی میں یہودیوں کی تحریف
تفسیر بالرائے، الفاظ کو حذف کرنے اور یا اپنے مزاج اور مفادات کے مطابق بعض الفاظ کی جگہ بعض دیگر کو رکھنے کی صورت میں انجام پاتی تھی؛ انہی سیاہ کاریوں کی بنا پر وہ اللہ اور
انبیاء الہی علیہم السلام کی
لعنت اور غضب کے مستحق قرار پائیں اور ان پرہمیشہ کے لئے ذلّت ومسکنت کی مہر ثبت کردی گئی۔
[ترمیم]
یہودیوں کی تحریف کے بارے میں نازل شدہ قرآنی آیات سے مجموعی طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہودی آسمانی کتابوں میں مختلف طریقوں سے تحریف کا ارتکاب کرتے تھے ۔کبھی وہ
تحریف معنوی کرتے تھے؛ یعنی جو الفاظ اور کلمات، اللہ کی طرف سے نازل ہوتے تھے انہیں تبدیل کیے بغیر ان کی غلط تفسیر کرتے اور غلط مفہوم اخذ کرتے۔بعض اوقات
تحریف لفظی کرتےتھے اور بجائے یہ کہ وہ سمعنا واطعنا (ہم نے سنا اور ہم نے اطاعت کی) کہتے، مذاق اور مسخرہ کے طور پر وہ سمعنا و عصینا(ہم نے سنا اور ہم نے مخالفت کی) کہتے تھے۔
کبھی کھبار بعض آیاتِ الہی کو چھپاتے ۔جو کچھ ان کی خواہشات کے موافق ہوتا اسے ظاہر کرتے اور جو ان کے مزاج اور مفادات کے برخلاف ہوتا اسے
کتمان کرتے تھے۔یہاں تک کہ بعض اوقات کتابِ آسمانی لوگوں کے سامنے ہوتی لیکن وہ لوگوں کی توجہ کسی مطلب سے ہٹانے کیلئے اس پر ہاتھ رکھ دیتے تاکہ مخاطب معنی کو نہ سمجھ سکے۔
خداوند متعال قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:اے رسول! اس بات سے آپ رنجیدہ خاطر نہ ہوں کہ کچھ لوگ کفر اختیار کرنےمیں بڑی تیزی دکھاتے ہیں وہ خواہ ان لوگوں میں سے ہوں جو منہ سے کہتے ہیں کہ ہم ایمان لا چکے ہیں جبکہ ان کے دل ایمان نہیں لائے اور خواہ ان لوگوں میں سے ہوں جو یہودی بن گئے ہیں ، یہ لوگ
جھوٹ کی نسبت آپ کی طرف دینے کیلئے جاسوسی کرتے ہیں اور ایسے لوگوں کو گمراہ کرنے کیلئے جاسوسی کرتے ہیں جو ابھی آپ کے دیدار کیلئے نہیں آئے، وہ کلام کو صحیح معنوں سے پھیرتے ہیں اور کہتے ہیں:اگر تمہیں یہ حکم ملا تو مانو، نہیں ملا تو بچے رہو، جسے اللہ گمراہ کرنا چاہے تو اسے بچانے کیلئے اللہ نے آپ کو کوئی اختیار نہیں دیا ، یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے پاک کرنا ہی نہیں چاہا، ان کے لئے دینا میں رسوائی ہے اور
آخرت میں عذابِ عظیم ہے۔
[ترمیم]
مذکورہ
جرم میں،یہودی علماء کے ساتھ عوام الناس بھی شامل تھے ؛ کیونکہ وہ فطری طور پر جانتے تھے کہ وہ علماء جو
حرام کھاتے ہیں اور
رشوت لیتے ہیں ،
صادق اور
امین نہیں ہوسکتے۔پس انہیں ایسے علماء سے دوری اختیار کرنی چاہیے تھی ، لیکن انہوں نے ایسا نہ کیا بلکہ گفتار وکردار میں ان کی پیروی کرتے تھے اس طرح ان علماءکی تشویق اور تقویت ہوتی تھی۔
ایک شخص نے
امام صادق علیہ السلام سے یہودی عوام کے(مقام ومرتبہ) کے بارے میں سؤال کیا تو حضرتؑ نے فرمایا:یہودی عوام اپنے علماء کی صورت حال سے آگاہ تھے اور جانتے تھے کہ وہ (علماء یہود)
جھوٹ بولتے ہیں، حرام اور رشوت کھاتے ہیں ،
احکامِ الہی میں ردّ وبدل کرتے ہیں۔وہ فطری طورپر اس حقیقت سے آشنا تھے کہ ایسے افراد فاسد ہوتے ہیں اور خدا کے احکامات کے بارے میں ان کی بات قابلِ قبول نہیں ہے اور نہ ہی انبیاء الہی کے بارے میں ان کی
گواہی قبول کرنا درست ہے۔
[ترمیم]
یہودیوں کے جرائم اور جہالتوں کو مختلف اقسام میں تقسیم کیا جاسکتا ہے :
دنیا دار اور بے دین لوگ ہمیشہ ، دین وایمان سے ناجائز فائدہ اٹھانے،اپنی جانوں کی حفاظت اور اپنے اہداف حاصل کرنے کے لئے
نفاق اور دوغلے پن کا سہارہ لیتے رہے ہیں۔
خداوند عالم قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:جب وہ اہلِ ایمان سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں : ہم ایمان لا چکے ہیں اور جب وہ خلوت میں اپنے ساتھیوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں:جو راز(آخری نبیﷺ کی صفات اور علامات) اللہ نے تمہارے لئے کھولے ہیں وہ تم ان (مسلمانوں)کو کیوں بتاتے ہو؟ کیا تم نہیں سمجھتے کہ وہ (مسلمان)اس بات کو تمہارے ربّ کے حضور تمہارے خلاف دلیل بنائیں گے؟ اس کے بعد خداوند متعال فرماتا ہے: کیا (یہود)نہیں جانتے کہ اللہ سب کچھ جانتا ہے، خواہ وہ چھپائیں یا ظاہر کریں؟!»
علامہ طباطبائیؒ مذکورہ آیت کی
تفسیر میں فرماتے ہیں :اس آیت میں یہودیوں کے دو جرائم اور جہالتوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ایک ان کا نفاق ہے کہ وہ اذیت،
طعن وتشنیع اور
قتل سے بچنے کے لئے بظاہر ایمان کا اظہار کرتے تھےدوسرا یہ کہ وہ اپنی حقیقت اور باطن کو اللہ سے چھپانے کی کوشش کرتے تھے اور یہ خیال کرتے کہ (اپنے جرائم) کو چھپانے کی صورت میں اللہ بھی(العیاذ باللہ) نہیں دیکھ پائے گا!حالانکہ خدا وندمتعال ان کے ظاہر اور باطن سے اچھی طرح آگاہ ہے۔جیساکہ مذکورہ آیت میں ان کی پوشیدہ باتوں سے آگاہی کی طرف متوجہ کیا ہے ۔
آیات کے لب ولہجہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ انتہائی سادہ لوح اور جاہل تھے ۔ جب
مسلمانوں سے ملتے تو خوشی کا اظہار کرتے اور تورات میں آخری نبیﷺ) کے بارے موجودپیشگوئیوں میں سے کچھ مسلمانوں کو بتاتے اور مسلمان انہیں اپنے نبی ﷺ کی نبوت کی تصدیق کیلئے دلیل بناتے۔لیکن ان کے سرکردہ افراد ان کو اس کام سے منع کرتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ تو ایک فتح ہے جسے اللہ نے مسلمانوں کے لئے قرار دی ہےاور ہمیں ان پوشیدہ باتوں(آخری نبیﷺ کے بارے میں پیشگوئیوں) کو ظاہر نہیں کرنا چاہیے ؛کیونکہ وہ(مسلمان) ا نہی پیشگوئیوں کو جو ہماری کتابوں میں موجود ہیں کل اللہ کے حضور ہمارے خلاف دلیل بنائیں گے۔ یعنی درحقیقت یہ کہنا چاہتے تھے : اگر ہم ان پیشگوئیوں کو مسلمانوں سے چھپائیں تو (معاذ اللہ) خدا کو بھی معلوم نہ ہوگأ کہ اس نے موسی علیہ السلام کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ ہمیں آخری نبی حضرت محمدﷺ کی پیروی کا حکم دے اور جب (اللہ ) کو علم (معاذ اللہ ) نہ ہوگا تو وہ ہمارا مؤاخذہ بھی نہیں کرے گا!! ! »
(مذکورہ آیت کی ذیل میں، تفسیر
مجمع البیان میں اسی مضمون کی ایک روایت بھی امام صادق علیہ السلام سے نقل کیا گیا ہے۔
یہودی علماء میں سے کچھ ایسے بھی تھے جو اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے لئے، نفاق اور حسد کی بنا پر بظاہر اسلام کو قبول کرتے تھے اور یہ افراد علماء چونکہ علماء میں سے تھے لہذا بغیر کسی دشواری کے مسلمان
محدّثین اور
راویوں کی صف میں شامل ہوگئے ۔یہ افراد احادیث گھڑتے تھے جن کے ذریعے سے وہ اسلام کو لوگوں کی نظروں میں بے بنیاد اور بے معنی کرنے کی کوشش کرتے تھے ۔اسلام کے دشمن آج بھی انہی احادیث کو مسلمانون کے خلاف
حجّت کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔جس کی تازہ ترین مثال یہ ہے کہ کچھ عرصہ قبل
صہونیزم سے وابستہ کچھ افراد نے ان خودساختہ احادیث کا سہارا لیکر ، سوشل میڈیا پر حضرت محمد مصطفیﷺ کے خلاف زہر پاشی اور آپ ؐ کی شان اقدس میں گستاخی کا ارتکاب کیا ۔
علم حدیث کی اصطلاح میں اس قسم کی احادیث کو
اسرائیلیات سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
منحرف مذاہب کو ایجاد کرنے میں، بعض یہودیوں کا بنیادی کردار رہا ہے۔ جن میں سے چند کے نام بطور نمونہ ذکر کیے جاتے ہیں:
کعب الاحبار،
وہب بن منبّہ الیمانی،
تمیم بن اوس الداریی،
ابن جریح روحی،
عبد اللہ بن سلام،
طاوس بن کیان خولایی اور
حمدانی بالولاء [ترمیم]
یہ سنّتِ الہی ہے کہ کوئی بھی قوم جب
توحید سے شرک طرف راغب ہوجائے، اللہ کے احکامات کے مقابلے میں کفر وسرکشی سے کام لے اور الہی رہبروں کو قتل کرنے کی جسارت کرے تو وہ
ذلیل وخوار اور سرگردان ہوتی ہے۔کیونکہ ایسے لوگوں پر اللہ کی جانب سے ذلتّ وخواری کی مہر ثبت کردی جاتی ہے مگر یہ کہ وہ اللہ کی بارگاہ میں
توبہ کرے۔
خداوند ومتعال قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے :یہ جہاں بھی ہوں گے ذلّت وخواری سے دوچار ہوں گے، مگر یہ کہ اللہ کی پناہ سے اور لوگوں کی پناہ سے متمسک ہوجائیں ؛ اور یہ اللہ کے غضب میں مبتلا رہیں گےاور ان پر محتاجی مسلط کردی گئی ہے، یہ سب اس وجہ سے ہوا کہ واللہ کی آیات کا انکار کرتےتھے اور انبیاء کو ناحق کرتے تھے۔ ان (جرائم کے ارتکاب) کاسبب یہ ہے کہ وہ نافرمانی اور زیادتی کرتے تھے۔
اور
تاریخ بھی ان کی ذلّت پر واضح دلیل ہے جس میں ان کی ذلت ومسکنت کے نمونے بکثرت موجود ہیں۔
(
قومِ یہود کا
نسل پرست اور سرکش مزاج ، کئی بار ان پر دیگر لوگوں کی طرف سے حملوں کا باعث بنا ہے ۔جن افراد نے انہیں ذلیل اور سرکوب کیا ہے ان میں
طالوت، روم کا بادشاہ اور ہٹلر قابل ذکر ہیں۔
جب تک یہودیوں میں حبِّ جاہ، دنیا داری اور تباہ کاری جیسی صفات موجود ہوں گی وہ اسی طرح ذلیل وخوار ہوں گے۔لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ آج اسرائیل ،جو ناقابل شکست ہونے کا نفسیاتی دباء پوری دنیا کے ممالک پر ڈالنا چاہ رہا تھا اور انہیں عالمی اور استکباری طاقتوں کی ہر قسم کی حمایت بھی حاصل ہے، فلسطینی جوانوں کی استقامت اور مزاحمت کے سامنے بے بس نظر آتا ہے یعنی جدید ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی سے لیس صیہونی جماعت پر پتھروں اور غلیلوں سے مزاحمت کرنے والے باایمان جوان غالب ہیں اور غالب رہیں گے انشاء اللہ۔اور یہ ان کی ذلّت ومسکنت کی واضح دلیل ہے ۔
اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سےیہودیوں کی
خشونت،تشدد اور ظاہری وباطنی عداوت اس حد تک ہے کہ قرآن نے انہیں اہل کا شدید ترین دشمن قرار دیا ہے ؛یہودیوں کی یہ دشمنی آج ایک نئے چہرے یعنی صیہونزم کے نام سے عالم کے اسلام کے سامنے آشکار ہے اور اس بات میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ صیہونزم عالم اسلام کیلئے ایک بہت بڑا خطرہ ہے ۔
ہم ان یہودیوں کو موردِ تنقید قرار نہیں دے رہے جو حضرت موسی علیہ السلام کی
شریعت کے حقیقی پیروکار ہیں،کیونکہ ہم حضرت موسی علیہ السلام کی شریعت کو شریعتِ الہی اور حضرت موسی علیہ السلام کو اللہ کے عظیم ، صاحب شریعت اور
اولو العزم انبیاء میں شمار کرتے ہیں؛ بلکہ ہمارا مقصد وہ لوگ ہیں جو صیہونزم کے نام سے ہر قسم کے ظلم وزیادتی، جرائم اور فسادات کے مرتکب ہورہے ہیں اور جنہوں نے یہودیت میں سے صیہونزم کے نام سے ایک مکتب بنا یا ہے جن کے پاس انٹیلی جنس کا مضبوط ترین نظام ہے اور غیر قانونی سرمایوں کی مدد سے دنیا کی سیاست اور سیاستدانوں کو اپنے ہاتھوں میں لینے کے لئے کوشش کررہے ہیں۔
یہ (صیہونی) درحقیقت ان لوگوں کے پیروکاروں میں سے ہیں جنہوں نے خدا کے ساتھ کئے گئے عہدوں کو توڑا؛ جو اللہ کے رسولوں کے سامنے حیلے حوالوں سے کام لیتے رہے ؛ ان کی نافرمانی کرتے تھے ؛ ایک ہی دن میں کئی نبیوں کو قتل کردیتے تھے اور جنہوں نے
آخری نبی آخر الزمان حضرت محمد ﷺ کو قتل کرنے کا قصد کیا تھا؛ خلاصہ یہ کہ انہوں نے اسلام کو نابود کرنے کے لئے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔لہذا آج کے صیہونی بھی اپنے اسلاف کے اہداف کی تکمیل کے لئے سرتوڑ کوشش کررہے ہیں ۔فرق صرف یہ ہے کہ ان کے سلف کے پاس، اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہچانے کے لئے یہ جدید ترین وسائل موجود نہیں تھے جو صیہونیوں کی دسترس میں ہیں اوربلاشک وشبہ آج کے یہ صیہونی، صدرِ اسلام کے اسلام دشمن یہودیوں سے زیادہ خطرناک ہیں۔
قدس کی آزادی اب قریب تر ہوگئی ہے کیونکہ اس کی تحریک میں اللہ کے مخلص ترین بندوں شہید قاسم سلیمانیؓ اور شہید ابو مہندسؓ کا پاکیزہ خون بھی شامل ہوگیا ہے جس کی وجہ سے اس تحریک کی استقامت ومزاحمت اور استحکام میں مزید اضافہ ہواہے ۔
امید کرتے ہیں کہ ان شاء اللہ عالم اسلام بالخصوص اسلامی ممالک کے سرابرہان بیدار ہوں گے؛ اور اللہ پر
توکل،مقاومت واستقامت ،خودارای اور خوداعتمادی کے ذریعے ، سالہاسال سے بیت المقدس پر قابض فساد کےجرثومے(اسرائیل)کو جسے امام خمینیؓ نے عالم اسلام کے قلب میں خنجر سے تعبیر کیا تھا اور جسے کیسنر کا جرثومہ کہا گیا ہے،جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے (إن شاء اللہ)۔
[ترمیم]
دینِ یہودیت[ترمیم]
[ترمیم]
اندیشہ قم ویب سائٹ، مأخوذ از «یہودیت در قرآن»، تاریخ بازیابی ۱۳۹۴/۱۲/۰۴.