ادہم بن امیہ

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



ادہم بصرہ کے شیعہ تھے اور شہدائے کربلا میں سے شمار ہوتے ہیں۔


ادهم کے والد

[ترمیم]

ادْهَم بن امیة بن (عبدی بصری) کے والد ابو عبد الله رسول خداؐ کے اصحاب میں سے تھے اور آنحضرتؐ سے حدیث کے ناقل تھے۔ انہوں نے بصرہ میں رہائش اختیار کی اور وہاں پر چند بیٹے یادگار چھوڑے۔

امام حسینؑ کے ساتھ شمولیت

[ترمیم]

امام باقرؑ سے منقول ہے کہ وہ بصرہ کے شیعہ تھے اور شیعہ خاتون ماریہ بنت منقذ (سعید) (کہ جن کے گھر میں شیعہ بزرگان اجتماع اور تبادلہ خیال کرتے تھے) کے گھر منعقد ہونے والی نشستوں میں شرکت کرتے تھے۔ ابن زیاد کو اہل عراق کی امام حسینؑ کے ساتھ خط و کتابت اور حضرتؑ کی کوفہ کی طرف حرکت کا پتہ چلا تو اس نے بصرہ کے راستوں کی نگرانی کا حکم صادر کیا؛ تاکہ کوئی امام حسینؑ کی مدد کیلئے بصرہ سے خارج نہ ہو۔ اس وقت یزید بن ثَبِیطْ (ثُبیط) نے بصرہ سے نکل کر کاروان حسینی کے ساتھ شامل ہونے کا قصد کیا۔ انہوں نے اپنے دس کے دس بیٹوں سے کہا کہ اس سفر میں ان کی ہمراہی کریں۔ ان میں سے دو بیٹوں عبد الله اور عبید الله نے والد کی دعوت کو قبول کیا۔
ادهم بن امیہ بھی ان کے ساتھ بصرہ سے نکلے اور مکہ کے نزدیک «ابْطَحْ»، نامی جگہ پر کچھ دیر آرام کرنے کے بعد حضرتؑ کے ساتھ ملحق ہو گئے اور امامؑ کے ہمراہ کربلا پہنچے
[۱۰] محلی، حمید بن احمد، الحدائق الوردیه فی مناقب الائمة الزیدیه، ج۱، ص۲۱۰، صنعاء، مکتبة بدر، چاپ اول، ۱۴۲۳۔
اور شہید ہو گئے۔
[۱۳] محلی، حمید بن احمد، الحدائق الوردیه فی مناقب الائمة الزیدیه، ج۱، ص۱۰۴، صنعاء، مکتبة بدر، چاپ اول، ۱۴۲۳۔
ایک قول کی بنا پر ان کی شہادت پہلے حملے کی شدت کے دوران امام حسینؑ کے دیگر اصحاب کے ہمراہ ہوئی۔
[۱۷] جمعی ازنویسندگان، وسیلة الدارین، ص۹۹۔
[۱۸] محلی، حمید بن احمد، الحدائق الوردیه فی مناقب الائمة الزیدیه، ج۱، ص۲۱۱، صنعاء، مکتبة بدر، چاپ اول، ۱۴۲۳۔

بعض مصادر میں ان کی شہادت پہلے حملے کے دوران منقول ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ رسول خداؐ کے صحابی تھے۔
[۲۱] نمازی شاهرودی، علی، مستدرکات علم رجال الحدیث، ج۱، ص۵۳۳، تهران، ابن المؤلف، چاپ اول۔


حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. مامقانی، عبدالله، تنقیح المقال، ج۸، ص۳۶۱۔    
۲. طوسی، محمد بن حسن، الرجال، ص۲۵۔    
۳. طبرانی، معجم الکبیر، ج۱، ص۲۹۱۔    
۴. ابن عبدالبر، الاستیعاب فی معرفة الاصحاب، ج۱، ص۱۰۷۔    
۵. ابن اثیر، اسدالغابه، ج۱، ص۱۲۰-۱۲۱۔    
۶. عسقلانی، ابن حجر، الاصابه فی تمییز الصحابة، ج۱، ص۲۶۹۔    
۷. مامقانی، عبدالله، تنقیح المقال، ج۸، ص۳۶۱۔    
۸. امین، محسن، اعیان الشیعه، ج۳، ص۲۳۲۔    
۹. محلاتی، زبیح‌الله، فرسان الهیجاء، ج۱، ص۴۹۔    
۱۰. محلی، حمید بن احمد، الحدائق الوردیه فی مناقب الائمة الزیدیه، ج۱، ص۲۱۰، صنعاء، مکتبة بدر، چاپ اول، ۱۴۲۳۔
۱۱. سماوی، محمد، ابصار العین فی انصار الحسین (علیه‌السّلام)، تحقیق محمد جعفر الطبسی، ص۱۹۲، مرکز الدرسات الاسلامیه لممثلی الولی الفقیه فی حرس الثورة الاسلامیه، چاپ اول۔    
۱۲. حسینی جلالی، محمدرضا، تسمیة من قتل مع الحسین علیه‌السلام من ولده وإخوته وأهل بیته وشیعته، ص۲۷۔    
۱۳. محلی، حمید بن احمد، الحدائق الوردیه فی مناقب الائمة الزیدیه، ج۱، ص۱۰۴، صنعاء، مکتبة بدر، چاپ اول، ۱۴۲۳۔
۱۴. امین، محسن، اعیان الشیعه، ج۱، ص۶۰۵۔    
۱۵. مامقانی، عبدالله، تنقیح المقال، ج۸، ص۳۶۲۔    
۱۶. جمعی از نویسندگان، ابصار العین فی انصار الحسین علیه‌السلام، ص۱۶۶۔    
۱۷. جمعی ازنویسندگان، وسیلة الدارین، ص۹۹۔
۱۸. محلی، حمید بن احمد، الحدائق الوردیه فی مناقب الائمة الزیدیه، ج۱، ص۲۱۱، صنعاء، مکتبة بدر، چاپ اول، ۱۴۲۳۔
۱۹. سماوی، محمد، ابصار العین فی انصار الحسین (علیه‌السّلام)، تحقیق محمد جعفر الطبسی، ص۱۹۲، مرکز الدرسات الاسلامیه لممثلی الولی الفقیه فی حرس الثورة الاسلامیه، چاپ اول۔    
۲۰. امین، محسن، اعیان الشیعه، تحقیق حسن الامین، ج۳، ص۲۳۳، بیروت، دارالتعارف۔    
۲۱. نمازی شاهرودی، علی، مستدرکات علم رجال الحدیث، ج۱، ص۵۳۳، تهران، ابن المؤلف، چاپ اول۔


ماخذ

[ترمیم]
جمعی از نویسندگان، پژوهشی پیرامون شہدائے کربلا، ۹۲۔    
سایت پژوهه، ماخوذ از مقالہ «یاران امام حسین (علیه‌السلام)»، تاریخ نظر ثانی ۱۳۹۵/۳/۳۱۔    






جعبه ابزار