امر ثانوی

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



امر واقعی اوّلی کو بجالانا جب مکلف کے لیے ممکن نہ ہو تو اس وقت امر کا تعلق شیء سے قائم ہونا امر ثانوی کہلاتا ہے۔


امر ثانوی کی تعریف

[ترمیم]

امر ثانوی کے مقابلے میں امر اولی آتا ہے۔ امرِ ثانوی سے مراد ثانوی عناوین سے امر کا تعلق قائم ہونا ہے۔ بالفاظِ دیگر جب مکلف حکمِ واقعی سے جاہل ہو، یا مکلف اضطراری حالت ہو، یا اس کو مجبور کیا جائے یا تقیہ کا مورد ہو تو ان سب موارد میں امر کا شیء سے تعلق قائم ہونا امرِ ثانوی کہلائے گا، کیونکہ امر اس صورت میں ثانوی عناوین کے متعلق ہو رہا ہے، مثلا نماز کے لیے وضو کرنا واجب ہو لیکن پانی میسر نہ ہو یا پانی تک رسائی نہ ہو یا پانی ہے لیکن کسی وجہ سے اس کو استعمال نہیں کر سکتے مثلا پانی مکلف کے لیے نقصان دہ ہے تو ان تمام صورتوں میں تیمم کرنا مکلف کا وظیفہ قرار پائے گا اور تیمم کرنا امرِ ثانوی کہلائے گا، جیساکہ قرآن کریم میں ارشادِ رب العزت ہوتا ہے: فَتَیمَّمُوا صَعِیداً طَیباً؛ پس تم پاک مٹی سے تیمم کرو۔

امر ثانوی کی اقسام

[ترمیم]

علماء اصول نے امر ثانوی کی دو قسمیں کی ہیں:
۱. امر ثانوی اضطراری: یہ امر حالتِ اضطراری میں مکلف پر لاگو ہوتا ہے۔
۲. امر ثانوی ظاہری: مکلف جب حکمِ واقعی سے جاہل ہو یا حالتِ شک میں ہو تو اس وقت جو امر لاگو ہوتا ہے وہ امر ثانوی ظاہری کہلاتا ہے۔
[۲] فرہنگ معارف اسلامی، سجادی، جعفر، ج۱، ص۲۹۸۔


مربوط عناوین

[ترمیم]

امر اولی؛ امر ظاہری؛ امر اضطراری۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. نساء/سوره۴، آیت ۴۳۔    
۲. فرہنگ معارف اسلامی، سجادی، جعفر، ج۱، ص۲۹۸۔
۳. فرہنگ تشریحی اصطلاحات اصول، ولائی، عیسی، ص۱۱۸۔    


مأخذ

[ترمیم]

فرہنگ‌نامہ اصول فقہ، تدوین توسط مرکز اطلاعات و مدارک اسلامی، ص۲۵۵، یہ تحریر مقالہ امر ثانوی سے مأخوذ ہے۔    


اس صفحے کے زمرہ جات : اصولی اصطلاحات | اوامر | حکم ثانوی




جعبه ابزار