بیع کلی

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



بیعِ کلی بیع شخصی کے مقابلے میں ہے جس سے مراد کلی اشیاء کا لین دین ہے۔ اشیاء کی ایسی خرید و فروخت جو ایک معین صفت کی حامل ہوتی ہے لیکن خارج میں کلی ہوتی ہے جوکہ متعدد افراد پر صدق کرنے کی قابلیت رکھتی ہے۔ اس عنوان سے بابِ تجارت یا باب متاجر و باب مکاسب میں بحث کی جاتی ہے۔


بیع کلی کی تعریف

[ترمیم]

بیع کلّی کے مقابلے میں بیعِ شخصی آتی ہے۔ اشیاء کی خرید و فروخت کو اس وقت بیعِ کلی سے تعبیر کرتے ہیں جب اشیاء ایک معین وصف کی مالک ہوں اور ان کے اوصاف مشخص ہوں لیکن خارج میں وہ متعدد افراد پر صدق کرنے کی قابلیت کی حامل ہوتی ہے جسے کلی کہا جاتا ہے، مثلا آٹے کے انبار سے سو (۱۰۰) کلو آٹے کی خرید و فروخت کی جائے۔ فروخت شدہ چیز کے بدلے میں ثمن یا قیمت کا کلی یا جزئی ہونا بیعِ کلی کے عنوان پر کسی قسم کا اثر نہیں رکھتا اس لیے اگر ثمن کلی ہو یا جزئی ہر دو صورت میں بیعِ کلی متحقق ہو سکتی ہے۔ بیعِ کلی میں کلیت کا عنوان کبھی بیع کی صفت بنتا ہے اور کبھی مبیع یعنی فروخت کی جانے والی شیء کا، ہر دو صورتوں میں بیعِ کلی کا ایک معنی ہے۔

کلّی کی اقسام

[ترمیم]

خرید و فروخت اور بیع سے متعلق مباحث میں بیعِ کلی کو درج اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے:
۱۔ یا تو کلی فی الذمۃ ہے
۲۔ یا کلی در خارج ہے
اگر کلی در خارج ہو تو وہ یا تو کلیِ معین ہے یا کلیِ مُشاع۔ کلی فی الذمۃ مثلا کوئی شخص سو (۱۰۰) کلو گندم کسی کو فروخت کرتا ہے یا ایک شیء کے تمام مشخصات کے ساتھ نقدی یا ایڈونس ادائیگی کی صورت میں معاملہ کرتا ہے۔ اسی طرح کلی در خارج ہے جوکہ یا تو کلی در معین ہے، مثلا انبار میں موجود چاول جن کے اوصاف مشخص ہیں میں سے ۱۰۰ کلو چاول کو فروخت کرنا، یا کلیِ مشاع ہے، مثلا خارج میں موجود چاولوں کے ڈھیر میں سے ایک سوم حصہ فروخت کرنا۔

← کلّی فی الذمۃ


فقہاء کے نزدیک بیعِ کلی فی الذمۃ بلا شک و شبہ جائز ہے، جیسے بیع سلف مسلمہ طور مشروعیت رکھتی ہے اور جائز ہے۔ البتہ اگر شیء اور اس کے بدلے میں دی جانے والی مالیت ہر دو کلی فی الذمۃ اور مدت دار ہو تو یہ بیع الدَیۡن بالدَیۡن کا مصداق کہلائے گی اور ایسی بیع باطل ہے۔ اسی طرح ایک خرید و فروخت مدت دار ہو اور بغیر قرض کے ہو تو ایسی خرید و فروخت کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔

← کلّی در معیّن


ایک شیء جس کے اجزاء متساوی ہیں کی ایک معین مقدار کو کلی طور خرید و فروخت کلی در معین کہلاتی ہے، مثلا انبار میں ۳۰۰ کلو گندم موجود ہے، بیچنے والا اگر اس ڈھیر میں سے ۱۰ کلو گندم جدا کیے بغیر کلی طور پر فروخت کرے یا کسی شخص کے پاس ایک جنس، ایک رنگ کے کپڑے کا تھان ہے جس میں سے وہ جدا کیے بغیر معین قیمت پر ۱۵ میٹر کپڑا فروخت کرتا ہے۔ مشہور کے نزدیک کلی فی المعین کی بیع جائز ہے۔
[۶] نجفی جواہری، محمد حسن، جواہر الکلام، ج۲۳، ص۲۲۲۔
قرض کے مورد میں مال کا عین ہونا ضروری ہے، اگر مال خود قرض ہو یا منفعت ہو تو یہ قرض صحیح نہیں ۔ البتہ کلی فی المعین کی صورت میں قرض دینا صحیح ہے، مثلا خارج میں موجود دو درہموں میں ایک درہم کو بطور قرض دینا۔

← کلّی مشاع


بیعِ کلی مشاع طور پر صحیح ہے۔ کلی مشاع پر عین کا عنوان صدق کرتا ہے۔

← کلی مشاع اور بیع کلی فی المعین میں فرق


کلیِ مشاع اور بیعِ کلی فی المعین میں فرق یہ ہے کہ کہ بیع کلی فی المعین میں گاہگ موجود تمام اشیاء میں خریدار کا شریک نہیں ہوتا بلکہ اس کا حق گذشتہ بیان کردہ مثال کے مطابق ۱۰۰ کلو چاول ہے جوکہ موجود چاول میں ہر سو کلو بر منطبق ہوتے ہیں اور اس کے متعین کرنے کا اختیار خریدار کو حاصل ہے۔ اس بناء پر خریدار تمام چاولوں کو بیچ سکتا ہے سوائے ۱۰۰ کلو کے، کیونکہ ۱۰۰ کلو چاول کے علاوہ جتنے چاول ہیں وہ خرچ ہو جائیں مے اور اس خریدار سے ۱۰۰ کلو چاول بچ جائیں گے اور اس کا حصہ خرچ نہیں ہو گا۔ لیکن کلیِ مشاع میں بیچنے والا موجود تمام اشیاء میں خریدار کا شریک ہے اور خریدار اس کی اجازت کے بغیر اس چیز کو بیچ نہیں سکتا۔

دوران میان کلّی در معیّن و کلّی مشاع

[ترمیم]

اگر کلی طور پر بیع واقع ہو لیکن مبیع کے بارے میں معلوم نہیں ہےکہ خرید و فروخت میں کلی فی المعین کے اعتبار سے معاملہ ہے یا مشاع کے طور پر تو بیع کو ان دونوں میں سے کس پر حمل کیا جائے گا ؟ اس پر اختلاف بایا جاتا ہے۔ فقہاء میں معروف یہ ہے کہ اس صورت میں کلی فی المعین پر حمل کیا جائے گا۔

بیعِ کلی میں خیارات کا جاری ہونا

[ترمیم]

خیار حیوان اور خیار تاخیر کے مورد میں آیا بیع کلی فی الذمۃ جاری ہوتی ہے یا نہیں؟ اس میں فقہاء میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ البتہ یہ کلی فی المعین اور کلیِ مشاع میں جاری ہو سکتا ہے۔ خیار رؤیت بیعِ کلی فی الذمۃ میں جاری نہیں ہوتا۔
[۲۰] سبزواری، سید عبد الاعلی، مہذب الاحکام، ج۱۷، ص۱۷۷۔

بیع کلی فی الذمۃ کے مورد میں اگر گاہگ خریدار کو ایک عیب دار ناقص چیز بیچ دے تو کیا اس مورد میں خیار عیب ثابت ہے؟ اس بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ عدمِ ثبوتِ خیار عیب کی رائے کے مطابق گاہگ کے لیے ضروری ہے کہ وہ صحیح و سالم شیء خریدار کو پکڑائے۔
[۲۲] سبزواری، سید عبد الاعلی، مہذب الاحکام، ج۱۷، ص۱۸۴-۱۸۶۔
یہ خیار دیگر دو انواع یعنی کلی فی المعین اور کلیِ مشاع میں بھی اس وقت جاری ہوتا ہے جب چیزیں عیب دار ظاہر ہوں۔ اگر ان میں سے بعض عیب دار ہوں تو اس مورد کا کلی فی الذمہ میں جاری ہونے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔
[۲۳] طباطبائی یزدی، سید محمد کاظم، حاشیۃ المکاسب، ج۲، ص۷۰۔


حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. نجفی جواہری، محد حسن، جواہر الکلام، ج۲۲، ص۲۰۸۔    
۲. خوئی، سید ابو القاسم، مصباح الفقاہۃ، ج۴، ص۲۸۰۔    
۳. نجفی جواہری، محد حسن، جواہر الکلام، ج۲۳، ص۱۴۷۔    
۴. ابن ادریس حلی، محمد بن احمد، السرائر الحاوی لتحریر الفتاوی، ج۲، ص۵۵۔    
۵. نجفی جواہری، محمد حسن، جواہر الکلام، ج۲۴، ص۳۴۴-۳۴۵۔    
۶. نجفی جواہری، محمد حسن، جواہر الکلام، ج۲۳، ص۲۲۲۔
۷. شیخ انصاری، مرتضی، کتاب المکاسب، ج۴، ص۲۵۳-۲۵۶۔    
۸. خوئی، سید ابو القاسم، منہاج الصالحین، ج۲، ص۱۶۹۔    
۹. شیخ انصاری، مرتضی، کتاب المکاسب، ج۴، ص۲۴۷۔    
۱۰. خوئی، سید ابو القاسم، مصباح الفقاہۃ، ج۵، ص۳۵۲-۳۵۸۔    
۱۱. شیخ انصاری، مرتضی، کتاب المکاسب، ج۴، ص۲۵۹-۲۶۰۔    
۱۲. شیخ انصاری، مرتضی، کتاب المکاسب، ج۴، ص۲۵۷-۲۵۹۔    
۱۳. جواہری نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام، ج۲۳، ص۲۲۷۔    
۱۴. خوئی، سید ابو القاسم، مصباح الفقاہۃ، ج۵، ص۳۷۴۔    
۱۵. شیخ انصاری، مرتضی، کتاب المکاسب، ج۵، ص۸۳-۸۴۔    
۱۶. خوئی، سید ابو القاسم، مصباح الفقاہۃ، ج۶، ص۱۷۴-۱۷۶۔    
۱۷. شیخ انصاری، مرتضی، کتاب المکاسب، ج۵، ص۲۲۳-۲۲۷۔    
۱۸. خوئی، سید ابو القاسم، مصباح الفقاہۃ، ج۷، ص۱۹-۲۳۔    
۱۹. خوئی، سید ابو القاسم، مصباح الفقاہۃ، ج۷، ص۶۰-۶۱۔    
۲۰. سبزواری، سید عبد الاعلی، مہذب الاحکام، ج۱۷، ص۱۷۷۔
۲۱. طباطبائی یزدی، سید محمد کاظم، حاشیۃ المکاسب، ج۱، ص۵۔    
۲۲. سبزواری، سید عبد الاعلی، مہذب الاحکام، ج۱۷، ص۱۸۴-۱۸۶۔
۲۳. طباطبائی یزدی، سید محمد کاظم، حاشیۃ المکاسب، ج۲، ص۷۰۔


مأخذ

[ترمیم]

فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت علیہم السلام، ج۲، ص۱۹۰-۱۹۱۔    


اس صفحے کے زمرہ جات : بیع | بیع کی اقسام | معاملات




جعبه ابزار