تبلیغی جماعت

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



تبلیغی جماعت عصر حاضر کی ایک مؤثر اسلامی تحریک ہے کہ جس کی بنیاد سنہ ۱۳۰۵شمسی میں مولانا محمد الیاس (متوفی ۱۳۲۳شمسی/۱۹۴۴ء) نے رکھی۔ اس تحریک نے تبلیغِ اسلام کی غرض سے دہلی کے قریب میوات نامی علاقے سے اپنے کام کا آغاز کیا اور آہستہ آہستہ پورے ہندوستان اور پھر برصغیر حتی دیگر ممالک میں بھی پھیل گئی، یہاں تک کہ آج یہ دنیا بھر میں معروف ہے۔
[۱] محمد خالد مسعود، ایمن، ایدئولوژی و مشروعیت، در مسافران در ایمان، لیدن: بریل، ۲۰۰۰ ب۲۰۰۰، ص۳-۳۱۔
[۲] مارک گابوریو، تحول جدول به یک جنبش فراملی، در مسافران در ایمان، لیدن: بریل، ۲۰۰۰، ص۱۲۱-۱۳۸۔
[۳] پیتر ماندویل، سیاست مسلمانان فراملی: مجددا به امار، لندن ۲۰۰۱، ص۱۶۔

زیرنظر تحریر میں اس اہل سنت تبلیغی گروہ کی روش اور طریقہ کار کی اہمیت کے پیش نظر پہلے تفصیل سے اس جماعت کے بانی، کام کے اصولوں اور بنیادی ڈھانچے کا ذکر کیا گیا ہے اور آخر میں اس سوال کا جواب دیا جائے گا کہ آیا یہ گروہ وہابیت کے تبلیغی اہداف کے ماتحت ہے یا اس کی جڑیں برطانوی استعمار کے دور میں اٹھنے والی بہت سی مسلمان تحریکوں کی مانند شاہ ولی اللہ دہلوی کی مصلحانہ اور بیداری کی تحریک میں ہیں کہ جس کا آغاز ہندوستان میں مسلمانوں کی سیاسی قوت کے سقوط کے ساتھ ہی ہو گیا تھا۔
[۴] عزیز احمد، تاریخ تفکر اسلامی در هند، ترجمه نقی لطفی و محمد جعفر یا حقی، تهران ۱۳۶۷ش، ص۱۵-۱۶۔
[۵] موثقی، احمد، جنبش‌های اسلامی معاصر، تهران ۱۳۷۸ش، ص۱۹۲-۱۹۳۔

شاہ ولی اللہ کی تحریک سے متاثر ہندوستانی عوام کے قیام کو انگریزوں کی جانب سے (سنہ ۱۲۷۳شمسی۔۱۸۵۷ء میں) کچلے جانے کے بعد
[۶] موثقی، احمد، جنبش‌های اسلامی معاصر، تهران ۱۳۷۸ش، ص۱۸۹ـ ۲۱۴۔
زیادہ تر مسلمانوں نے استعمار کے خلاف براہ راست جدوجہد کو ترک کر دیا اور اندرونی خامیاں برطرف کرنے میں مشغول ہو گئے؛ منجملہ محمد قاسم نانوتوی نے دیوبند کے مذہبی مکتب کی سنہ ۱۲۸۴ شمسی میں بنیاد رکھی اور اس کے بعد اس مکتب کے علما کے زیر نظر مذہبی مدارس کا ایک جال ہندوستان کے بہت سے علاقوں میں بچھا دیا گیا۔
[۷] عزیز احمد، تاریخ تفکر اسلامی در هند، ترجمه نقی لطفی و محمد جعفر یا حقی، تهران ۱۳۶۷ش، ص۲۰۔
[۸] عاشق الهی بُلندشهری ، چه باتین، راولپندی : تحسین پبلشرز، (بی تا)،



تأسیس

[ترمیم]

تبلیغی جماعت پہلی جنگ عظیم کے بعد ہندوستانی مسلمانوں کی ابتر سیاسی و معاشرتی حالت کے دوران ظاہر ہوئی۔ اس زمانے میں ہندوستان کے مسلمانوں کی مذہبی و سیاسی قیادت تفرقے کا شکار تھی۔ ان حالات میں مولانا محمد الیاس نے دین سے دوری کو مسلمانوں کی ہر قسم کی بدبختی کا عامل قرار دیا۔ ان کا خیال تھا کہ پوری قوت سے دین کی تبلیغ کی جائے اور جب تک مسلمانوں میں دینداری رائج نہ ہو، ہر قسم کی دوسری سرگرمیوں منجملہ سیاسی فعالیت سے اجتناب کیا جائے۔ اس اعتبار سے انہوں نے تبلیغی جماعت کی بنیاد رکھنے کا اہتمام کیا۔
[۹] ابوالحسن علی ندوی، حضرت مولانا محمد الیاس اوران کی دینی دعوت، کراچی: مجلس نشریات اسلام، بی تا، ص۲۴۹ـ۲۵۰۔

ان کا خیال تھا کہ حکومت کو ہاتھ میں لینے کے بعد اصلاح و ترقی پیغمبرؐ کی سیرت میں نہیں ہے بلکہ پیغمبر نے انفرادی اصلاح کی روش سے استفادہ کیا۔ انہوں نے اسی روش کو تبلیغی جماعت کا بنیادی اصول قرار دیا۔
[۱۰] محمد خالد مسعود، ایمن، ایدئولوژی و مشروعیت، در مسافران در ایمان، لیدن: بریل، ۲۰۰۰ ب، ص۸۶-۸۷۔

اسی طرح وہ تبلیغی جماعت کے سرگرم ارکان کو فرقہ واریت سے دور رہنے کا انتباہ کرتے تھے۔ انہوں نے تبلیغ دین کا جو طریقہ کار اختیار کیا اس میں مبلغین کی ذمہ داری تھی کہ اپنے سامعین کے ساتھ ہر قسم کی بحث اور جھگڑے سے پرہیز کریں اور توہین و دشنام کو برداشت کرتے ہوئے اپنی دعوت اور تبلیغ کو جاری رکھیں۔ یوں انہوں نے تبلیغ کی خاص روش اور مفہوم بیان کرتے ہوئے اپنے کام کا آغاز کیا اور بہت سی کامیابیاں حاصل کیں۔
[۱۱] ابوالحسن علی ندوی، حضرت مولانا محمد الیاس اوران کی دینی دعوت، کراچی: مجلس نشریات اسلام، بی تا، ص۲۳۵-۲۴۱۔

ان کا خیال تھا کہ تبلیغ پیغمبر اکرمؐ کے زمانے کی طرح انفرادی شکل میں ہونی چاہئے اور جدید ذرائع ابلاغ کو تبلیغ کا ذریعہ قرار نہ دیا جائے۔
[۱۲] ب رامان، جهاد اسلامی و ایالات متحده، جنوب آسیا گروه تجزیه و تحلیل، ۲۰۰۱ الف۔


آغاز اور طریقہ کار

[ترمیم]

الیاس نے اسلام کے بنیادی اصولوں کی تبلیغ کا آغاز اپنے آبائی علاقے میوات ہندوستان میں کیا اور کچھ مدت کے بعد انہی لوگوں میں سے کچھ جماعتوں کی تشکیل کی اور انہیں تبلیغِ دین کی غرض سے میوات کے اندرونی اور بیرونی علاقوں کی طرف روانہ کیا۔
اس کام میں دس دس افراد پر مشتمل اکائیوں کو منظم کیا گیا اور پھر انہیں جماعت کا نام دیا گیا گیا اور انہیں کسی طے شدہ پروگرام کے تحت تبلیغِ دین کیلئے مختلف علاقوں کی طرف روانہ کیا گیا۔
[۱۳] تبلیغ جماعت، در موسی خان جلال زی، درگیری سنی شیعه در پاکستان، لاهور ۱۹۹۸، ص۱۷۳۔

ہر جماعت اپنی منزل تک پہنچنے کے بعد وہاں کی کسی مسجد میں قیام پذیر ہو جاتی اور ایک سادہ پروگرام کے قالب میں تبلیغ کا آغاز کر دیتی تھی۔ یہ پروگرام پندرہ نکتوں پر مشتمل تھا جسے بعد میں چھ اصولوں میں خلاصہ کر دیا گیا۔

چھ اصول

[ترمیم]

تبلیغی جماعت کے چھ اصول یہ ہیں:

← کلمہ طیبہ


کلمہ طیبہ کے اصول کی رو سے (شھادتین: لااله الاالله، محمد رسول الله)، ہر مسلمان کیلئے درست پڑھنا ضروری ہے اور اسی طرح اس کے معنی و مفہوم سے آگاہی حاصل کرے اور اپنی عملی زندگی میں اس کے لوازم کی رعایت کرے۔
[۱۴] عاشق الهی بُلندشهری، چه باتین، راولپندی : تحسین پبلشرز، (بی تا)، ص۱۲-۳۷۔
[۱۵] محمد خالد مسعود، ایمن، ایدئولوژی و مشروعیت، در مسافران در ایمان، لیدن: بریل، ب۲۰۰۰، ص۲۱-۲۴۔


← نماز


ضروری ہے کہ مسلمان نماز کو مکمل درست سیکھے اور اس واجب کو اسلام کے احکام کی رو سے بجا لائیں۔
[۱۶] عاشق الهی بُلندشهری، چه باتین، راولپندی : تحسین پبلشرز، (بی تا)، ص۱۶-۲۰۔
[۱۷] محمد خالد مسعود، ایمن، ایدئولوژی و مشروعیت، در مسافران در ایمان، لیدن: بریل، ۲۰۰۰ ب، ص۲۱-۲۲۔


← علم و ذکر


ضروری ہے کہ مسلمان اسلامی احکام کو سیکھے۔ اسی طرح اس کی زبان پر ہمیشہ ذکر خدا جاری ہو اور اس کی بہترین صورت یہ ہے کہ بندے کی توجہ ہر حال میں خدا کی طرف ہو۔
[۱۸] عاشق الهی بُلندشهری، چه باتین، راولپندی : تحسین پبلشرز، (بی تا)، ص۲۰-۲۶۔
[۱۹] محمد خالد مسعود، ایمن، ایدئولوژی و مشروعیت، در مسافران در ایمان، لیدن: بریل، ۲۰۰۰ ب، ص۲۲۔


← مسلمان کا احترام


تبلیغی جماعت کے چھ اصولوں میں ’’مسلمانوں کے احترام‘‘ کا خاص مقام ہے اور عام زندگی کے علاوہ تبلیغی سفر کے دوران اس اصول کی رعایت خاص اہمیت کی حامل ہے۔ اس کا ایک طرف سے ہم سفروں کے حقوق کے احترام پر گہرا اثر ہوتا ہے اور دوسری طرف سے اس اصول کی رعایت کرنے سے مبلغین ہر قسم کی توہین اور بداخلاقی کا سامنا کرنے کیلئے تیار رہتے ہیں۔ یہ اصول ایک معاشرتی جنبے کا حامل ہے، تاہم باقی پانچ اصول فردی جنبہ رکھتے ہیں۔ جماعت کے بڑوں کے نقطہ نظر کی رو سے اگر تبلیغ میں اس اصول کی رعایت نہ ہو تو ممکن ہے کہ ہزار ہا فتنے ایجاد ہو جائیں۔
[۲۰] عاشق الهی بُلندشهری، چه باتین، راولپندی : تحسین پبلشرز، (بی تا)، ص۲۶-۳۰۔
[۲۱] محمد خالد مسعود، ایمن، ایدئولوژی و مشروعیت، در مسافران در ایمان، لیدن: بریل، ۲۰۰۰ ب، ص۲۲-۲۳۔


← خلوصِ نیت


مسلمان کا فریضہ ہے کہ ہر قسم کا عمل انجام دینے میں صرف خدا کی رضامندی کو مدنظر رکھتے ہوں اور ہر قسم کے دنیوی فائدے سے پرہیز کریں۔
[۲۲] عاشق الهی بُلندشهری، چه باتین، راولپندی : تحسین پبلشرز، (بی تا)، ص۳۰-۳۴۔
[۲۳] محمد خالد مسعود، ایمن، ایدئولوژی و مشروعیت، در مسافران در ایمان، لیدن: بریل، ۲۰۰۰ ب، ص۲۳۔


← دعوت و تبلیغ


ضروری ہے کہ ہر مسلمان اپنے وقت کا کچھ حصہ دینی احکام اور دوسروں کی تعلیم و تربیت کیلئے مختص کرے۔ دین کی تبلیغ فراغت کے وقت عملی ہوتی ہے کہ جس کا لازمہ ’’خروج‘‘ ہے۔ یعنی گھر سے نکلنا اور کسی جماعت میں شمولیت اختیار کرنا تاکہ دوسرے علاقوں میں تبلیغ کیلئے روانہ ہوں۔
[۲۴] عاشق الهی بُلندشهری ، چه باتین، راولپندی : تحسین پبلشرز، (بی تا)، ص۳۴-۳۷۔
[۲۵] محمد خالد مسعود، ایمن، ایدئولوژی و مشروعیت، در مسافران در ایمان، لیدن: بریل، ۲۰۰۰ ب، ص۲۳-۲۴۔
جماعت کے بزرگ نے دیگر نکات از قبیل امیر جماعت کی اطاعت اور سفر، کھانے پینے اور سونے کے آداب بجا لانے کی تاکید کی ہے۔

جماعت کی حیات کا استمرار اور توسیع

[ترمیم]

مولانا محمد الیاس کی وفات کے بعد ان کے اکلوتے بیٹے مولانا محمد یوسف کو امیرِ جماعت مقرر کر دیا گیا۔ ان کی وفات کے بعد مولانا انعام الحسن جماعت کے تیسرے امیر منتخب ہوئے۔ انعام الحسن کی امارت کے تیس سالہ دور میں ان کی کوششوں سے تبلیغی جماعت ایک عالمی تحریک کی شکل اختیار کر گئی۔ انعام الحسن کی ۱۳۷۴شمسی کو دہلی میں وفات کے بعد جماعت کا کوئی امیر مقرر نہیں کیا گیا اور جماعت کے امور کو شوریٰ کے سپرد کر دیا گیا۔

چلے کیلئے خروج

[ترمیم]

جماعت کے مبلغین کی ایک بنیادی ذمہ داری سامعین کو نکلنے پر آمادہ کرنا ہے۔ باہر نکلنے کی مدت نسبتا اختیاری ہے اور ممکنہ صورت میں کوئی شخص ہفتے میں تین دن، سال میں چالیس دن یا حد اقل پوری زندگی میں چار ماہ تبلیغ کیلئے نکلے۔
[۲۶] محمد رضا حافظ‌نیا، وضعیت ژئوپلیتیکی پنجاب در پاکستان ، تهران ۱۳۷۹ ش، ص۲۳۸ـ۲۳۹۔

باہر نکلنے کو تبلیغی جماعت کا بنیادی منشور سمجھا جا سکتا ہے۔ اسی طرح جماعتوں کے کام کا جائزہ لینے کا اصل معیار ان افراد کی تعداد ہے کہ جو ’’خروج‘‘ کی دعوت پر لبیک کہتے ہیں۔
[۲۷] محمد خالد مسعود، ایمن، ایدئولوژی و مشروعیت، در مسافران در ایمان، لیدن: بریل، ۲۰۰۰ ب، ص۱۰۶۔
[۲۸] گیل کوپل، ایمان و عمل، ص۱۹۸-۱۹۳۔

الیاس کے نزدیک خروج پر مبنی تبلیغ کی روش، فرد کو سختیوں کے تحمل اور اخلاقی و روحانی خصوصیات کی تقویت پر آمادہ کرتی ہے۔
[۲۹] ابوالحسن علی ندوی، حضرت مولانا محمد الیاس اوران کی دینی دعوت، کراچی: مجلس نشریات اسلام، بی تا، ص۲۵۲۔

تبلیغی جماعت کی وسعت اور کام میں تسلسل کے حوالے سے اس روش کا بنیادی کردار ہے۔
[۳۰] محمد خالد مسعود، ایمن، ایدئولوژی و مشروعیت، در مسافران در ایمان، لیدن: بریل، ۲۰۰۰ ب، ص۲۷۔


مرد و زن مبلغ

[ترمیم]

تبلیغی جماعت کے قائدین نے جماعت اور تبلیغ دین کی سرگرمیوں کیلئے چھ اصولوں کے علاوہ کسی چیز سے آشنائی کی شرط عائد نہیں کی ہے۔ لہٰذا عام لوگ بھی حتی بہت کم آگاہی کے باوجود مبلغ بن سکتے ہیں اور لازمی نہیں ہے کہ روانگی سے پہلے مخصوص تعلیم حاصل کریں۔ مخاطب کے انتخاب میں بھی جماعت کسی خاص اصول کی پابند نہیں ہے۔
خواتین کی سرگرمیوں کیلئے جماعت کا کوئی مشخص پروگرام نہیں ہے، اس کے باوجود خواتین بھی بعض سرگرمیوں بالخصوص تبلیغی اجتماعات اور شوہروں یا خاندان کے افراد کے ساتھ خروج میں شرکت کر سکتی ہیں۔

مبلغین کا لباس

[ترمیم]

تبلیغی جماعت کے قائدین تاکید کرتے ہیں کہ مسلمان اپنے ظاہر کو پیغمبر اکرمؐ اور صحابہ کے ظاہر کے ساتھ ہم آہنگ اور مشابہہ کریں۔ لہٰذا جماعت کے مبلغین کے ظاہر کی اس طرح تصویر کشی کی جا سکتی ہے: بہت سادہ لباس عام طور پر سفید رنگ کا، لمبا اور کھلا کرتا، کھلی شلوار کہ جس کے پائنچے ٹخنوں سے اوپر ہوتے ہیں، سر پر ٹوپی یا مخصوص عمامہ، لمبی داڑھی اور عام طور پر تراشی ہوئی مونچھیں، کندھوں پر بستر کا سامان اور ہاتھ میں کھانا پکانے کے سامان کا تھیلا۔
[۳۱] وحید‌الدین خان، جنبش تابلو، TR. فریدا خانام، دهلی نو ۱۹۹۹، ص۵ـ۶۔


بعض دیگر اصول

[ترمیم]

بعض دیگر اصول کہ جن پر جماعت کے رہنما تاکید کرتے ہیں، یہ ہیں:
۱. سیاست میں مداخلت کی نفی؛
۲. تبلیغ کے مقدمے کی حیثیت سے ریاضت کے ذریعے خودسازی؛
۳. انفرادی طور پر وعظ کی روش کے تحت دوسروں کی تربیت ؛
۴. ایمان کے کردار کو قبول کرنا؛
۵. اسلامی فرقوں میں اختلاف کی نفی اور فرقہ وارانہ مسائل کی نفی؛
۶. جماعت کے پروگراموں میں تمام اسلامی فرقوں کو شرکت کی آزادی ؛
۷. کفار کی سرنوشت کی نسبت ذمہ داری کا احساس؛
۸. عیش پرستی سے پرہیز؛
۹. جدید ذرائع ابلاغ اور میڈیا سے استفادے کی نفی؛
[۳۲] محمد رضا حافظ‌نیا، وضعیت ژئوپلیتیکی پنجاب در پاکستان ، تهران ۱۳۷۹ ش، ص۲۲۹ـ ۲۳۰۔


امیر کی تقرری

[ترمیم]

تبلیغی جماعت کی ایک اہم خصوصیت جو اسے دیگر سیاسی و مذہبی گروہوں سے ممتاز کرتی ہے، اس جماعت کیلئے کسی قسم کے مکتوب قواعد و ضوابط کا فقدان ہے۔
[۳۳] دایره المعارف آکسفورد دنیای اسلام مدرن، اد۔

اسی طرح یہ جماعت اپنی سرگرمیوں کی بڑے پیمانے پر توسیع کے باوجود دعویدار ہے کہ اس نے کسی قسم کی باقاعدہ تنظیم سازی نہیں کی ہے۔ البتہ اہم امور کو چلانے کیلئے جماعت کے بزرگ مشاوت کے ساتھ مرکزی امیر کو تا حیات متعین کرتے ہیں اور وہ بھی ضروری موارد میں مشاورت کیلئے ایک شوریٰ کا انتخاب کرتا ہے۔ ہر ملک کیلئے ایک امیر کو متعین کیا جاتا ہے اور امیر جماعت ہی یہ کام انجام دیتا ہے۔ جو جماعت تبلیغ کیلئے روانہ ہوتی ہے وہ بھی اپنے اندر ایک امیر کو منتخب کر لیتی ہے۔
[۳۴] دایره المعارف آکسفورد دنیای اسلام مدرن، اد۔
[۳۵] محمد خالد مسعود، ایمن، ایدئولوژی و مشروعیت، در مسافران در ایمان، لیدن: بریل، ۲۰۰۰ ب، ص۲۸ـ ۳۰۔


دفتر

[ترمیم]

تبلیغی جماعت کے قائدین مختلف علاقوں میں دفاتر کے قیام سے اجتناب کرتے ہیں۔ وہ مسجد کو اپنی سرگرمیوں کے مرکز کی حیثیت سے جانتے ہیں۔ ان مساجد میں کسی قسم کا تنظیمی ڈھانچہ موجود نہیں ہوتا اور ہر شخص جماعت کا عضو بن سکتا ہے اور جب چاہے جماعت کو ترک کر سکتا ہے۔

نشریات

[ترمیم]

مولانا الیاس امرِ تبلیغ میں ہر قسم کی تحریر کے مخالف تھے اور ان کا خیال تھا کہ مؤثر انداز سے عملی زندگی ذہنوں میں تبدیلی ایجاد کر سکتی ہے۔ اس کے باوجود وہ بعض لوگوں کی تحریروں کی تائید کرتے ہوئے ان سے استفادہ کرتے ہیں، جیسے حیات المسلمین مؤلفہ مولانا اشرف علی تھانوی ، تعلیم الاسلام تالیف مفتی کفایت الله اور مولانا محمد زکریا کی تالیفات۔
[۳۶] محمد خالد مسعود، ایمن، ایدئولوژی و مشروعیت، در مسافران در ایمان، لیدن: بریل، ۲۰۰۰ ب، ص۸۰۔

ذرائع ابلاغ بھی تبلیغی جماعت کے لاکھوں کی تعداد پر مشتمل اجتماعات کے انعقاد میں کسی قسم کی فعالیت نہیں کرتے۔
[۳۷] محمدرضا حافظ نیا، وضعیت ژئوپلیتیکی پنجاب در پاکستان ، تهران ۱۳۷۹ ش، ص۲۳۳ـ ۲۳۴۔

حتی ان اجتماعات میں لوگوں کو شرکت کی دعوت دینے کیلئے اعلانات بھی شائع نہیں کرتے بلکہ زبانی روش سے استفادہ کرتے ہیں۔
[۳۸] وحید‌الدین خان، جنبش تابلو، TR. فریدا خانام، دهلی نو ۱۹۹۹، ص۶۲۔


اصلی مراکز

[ترمیم]

آج ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش، تبلیغی جماعت کے اصل مراکز ہیں۔ یہاں تک کہ دنیا میں اس جماعت کا تعارف برصغیر کی تبلیغی تحریک کے عنوان سے ہے۔ جماعت کے بڑے اجتماعات بھی انہی تین ممالک میں منعقد ہوتے ہیں۔ زیادہ تر تبلیغی جماعتیں انہی تین ممالک سے دنیا بھر کے دوسرے ممالک میں روانہ ہوتی ہیں اور ان ممالک میں بھی تبلیغی جماعت میں بنیادی کردار انہی تین ممالک کے مہاجرین ادا کرتے ہیں۔
[۳۹] ممتاز احمد، محمد ایلیاس، اسلام ۱۰۱، ۲۰۰۱، ص۱۷۳۔


بین الاقوامی اور سالانہ اجتماع

[ترمیم]

جماعت کا ایک اہم پروگرام بڑے اجتماعات کا انعقاد ہے۔ اس قسم کے اجتماعات میں چھ اصولوں کی یاد دہانی کے علاوہ آئندہ کی تبلیغی سرگرمیوں کی انجام دہی کیلئے پروگرام ترتیب دیا جاتا ہے۔ ان اجتماعات میں شرکت کی خاص اہمیت ہے اور اکثر اوقات اعلیٰ حکومتی اور سیاسی و مذہبی شخصیات آخری مناجات کے پروگرام میں شرکت کرتی ہیں۔ بنگلہ دیش میں شرکا کی تعداد فروری ۲۰۰۰ء کے اوائل میں تین ملین تک جا پہنچی تھی۔ تبلیغی جماعت کا پہلا اجتماع سنہ۱۹۴۱ء کو ۲۵۰۰۰ افراد کی شرکت کے ساتھ میوات میں منعقد ہوا تھا۔
[۴۰] وحید‌الدین خان، جنبش تابلو، TR. فریدا خانام، دهلی نو ۱۹۹۹، ص۱۷۔


پاکستان میں رائیونڈ کا اجتماع

[ترمیم]

پاکستان کے قیام کے بعد یہاں بھی تبلیغی مرکز لاہور شہر کے مشرق میں تیس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع علاقے رائیونڈ میں قائم کیا گیا۔ اس مرکز میں ۱۹۴۹ء کو پاکستان کی آزادی کے دو سال بعد مختلف اجتماعات کے علاوہ تبلیغی جماعت پاکستان کا سالانہ اجتماع بھی منعقد ہوا۔
[۴۱] محمدرضا حافظ نیا، وضعیت ژئوپلیتیکی پنجاب در پاکستان ، تهران ۱۳۷۹ ش، ص۲۲۰ـ ۲۲۶۔

رائیونڈ کے سالانہ اجتماع میں پوری دنیا سے شرکا کی تعداد عام طور پر ایک ملین سے زیادہ ہوتی ہے۔ یہ تقریب حج کے بعد اہل سنت کا دوسرا بڑا اجتماع شمار ہوتی ہے۔
[۴۲] ب رامان، جهاد اسلامی و ایالات متحده، جنوب آسیا گروه تجزیه و تحلیل، ۲۰۰۱ الف۔


بنگلہ دیش کا اجتماع

[ترمیم]

بنگلہ دیش میں تبلیغی جماعت کا مرکز پہلے ڈھاکہ کی ایک مسجد میں تھا۔
[۴۳] مارک گابوریو، تحول جدول به یک جنبش فراملی، در مسافران در ایمان، لیدن: بریل، ۲۰۰۰، ص۱۲۷۔

ابتدائی اجتماعات اسی مسجد میں منعقد ہوتے تھے، تاہم سنہ ۱۹۶۷ء میں ڈھاکہ سے تیس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع صنعتی شہر تونگی میں ۱۵۰ ایکڑ کا رقبہ تبلیغی مرکز کیلئے مخصوص کیا گیا۔
فروری ۲۰۰۰ء تک اس مرکز کے سالانہ اجتماع میں کہ جسے بنگلہ دیشی زبان میں بشوا اجتماع (بین الاقوامی اجتماع) کہا جاتا ہے؛ شرکا کی تعداد دو ملین تک پہنچ گئی کہ جن میں سے کئی ہزار افراد دنیا بھر کے اسی ممالک سے شریک ہوتے تھے۔ تبلیغی اجتماع کا اختتام دنیا بھر میں صلح کی دعا کے ساتھ اختتام پذیر ہوتا ہے۔ بشّوا اجتماع سنہ ۲۰۰۰ء کو بھی اسی کیفیت کے ساتھ منعقد ہوا اور اس اجتماع کے اختتام پر تقریبا ایک ہزار جماعتیں (ہر جماعت میں کم از کم دس افراد) دنیا بھر کے مختلف ممالک میں تبلیغ کی غرض سے (خروج) کیلئے آمادہ ہو گئیں۔
اس اجتماع کی ایک خصوصیت اجتماعی شادیوں کی تقریب ہے جو جہیز، حق مہر وغیرہ کی بھاری شرائط کے بغیر انجام ہوتی ہیں۔ حالیہ سالوں میں ان اجتماعی شادیوں کی تعداد نوے تک پہنچ گئی ہے۔

جماعت کی ایران اور دیگر براعظموں میں فعالیت

[ترمیم]

ایران کے اہل سنت علاقوں میں بھی اس جماعت کے سرگرم کارکن بہت زیادہ ہیں اور وہ پاکستان کے رائیونڈ تبلیغی مرکز میں آمد و رفت رکھتے ہیں۔ سنہ ۱۳۷۳شمسی کے رائیونڈ اجتماع میں ایران سے پانچ سو افراد نے شرکت کی۔
[۴۴] محمدرضا حافظ نیا، وضعیت ژئوپلیتیکی پنجاب در پاکستان ، تهران ۱۳۷۹ ش، ص۲۴۳۔

براعظم افریقہ کے بہت سے مسلمان بھی نماز جماعت میں شرکت کرتے ہیں۔
[۴۵] ابراهیم موسی، جهان از هم جدا و: برگه در آفریقای جنوبی تحت آپارتاید، ۱۹۶۳-۱۹۹۳، در مسافران در ایمان، لیدن: بریل، ۲۰۰۰، ص۲۰۶ـ ۲۲۱۔

اسلامی ممالک میں سے یہ جماعت مشرق وسطیٰ میں سب سے کم اثر و رسوخ رکھتی ہے اور عربوں نے اس کا بہت کم استقبال کیا ہے۔ یورپ اور امریکہ میں بھی جماعت اپنے چھ اصولوں کے تحت دین کے ساتھ تسلسل کے ساتھ رابطہ رکھنے کی ترغیب کرتی ہے۔ انگلستان میں جماعت کے سرگرم اراکین منظم حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ یورپ اور امریکہ میں جماعت کے اجتماع میں ان علاقوں کے مسلمانوں کی اکثریت جمع ہوتی ہے۔
[۴۶] ب رامان، جهاد اسلامی و ایالات متحده، جنوب آسیا گروه تجزیه و تحلیل، ۲۰۰۱ الف، ص۱۲۱ـ۲۳۹۔
[۴۷] محمد شهید رضا، اسلام در بریتانیا ، ترجمة مجید روئین تن ، (تهران) ۱۳۷۱ ش، ص۲۹ـ۳۰۔


عقیدہ و مذہب

[ترمیم]

جماعت کا دعویٰ ہے کہ کسی مذہب یا خاص اسلامی عقیدے کی تبلیغ نہیں کرتے اور ان کے چھ اصول اسلامی مذاہب کے مشترکات پر مشتمل ہیں۔ یہ دعویٰ شاہ ولی اللہ کے مذاہب اسلامی کی تلفیق پر مشتمل تفکر کے ساتھ بہت مشابہت رکھتا ہے، تاہم جماعت کے سرگرم ارکان عقیدے کے اعتبار سے مکتبِ دیوبند کی پیروی کرتے ہیں اور دیوبندیوں کی طرح اولیا کی تکریم اور زیارت گاہوں پر جانے کے مخالف ہیں۔ بریلوی سنی تبلیغی جماعت کے نمایاں مخالف ہیں
[۴۸] دایره المعارف آکسفورد دنیای اسلام مدرن، اد۔
اور ان کے نزدیک یہ جماعت دیوبندی اور وہابی عقیدہ کی ترویج کر رہی ہے۔

تشیع کے خلاف جماعت کا موقف

[ترمیم]

شاہ ولی اللہ دہلوی کی تحریک تشیع کی نسبت دشمنی پر مبنی تھی، تاہم تبلیغی جماعت نے اس مذہب کے بارے میں کھل کر دشمنی کا اظہار نہیں کیا ہے، اس کے باوجود بہت سے افراد اور گروہ کہ جن کی فکر شیعہ مخالف ہے، جیسے جمیعت علمائے اسلام پاکستان ان کا جماعت سے مسلسل رابطہ ہے اور جماعت کے سرگرم اراکین بھی پاکستان میں عام طور پر اسی پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں۔
[۴۹] دایره المعارف آکسفورد دنیای اسلام مدرن، اد۔


قابل تنقید موارد

[ترمیم]

اس گروہ کے قابل تنقید موارد یہ ہیں:
۱. جماعت کی روش تبلیغ؛
۲. مولانا الیاس کا پیغمبر جیسا احترام؛
۳. فرقہ وارانہ رجحانات؛
۴. مشکوک مالیاتی نظام؛
۵. سیاسی و جہادی امور میں عدم شرکت اور خواتین کے معاشرے میں محدود کردار کا خیال؛
۶. اسی طرح یہ کہ جماعت نے قرآن و حدیث کی بجائے چھ اصولوں کو تبلیغی کام کی بنیاد قرار دیا ہے اور ایک طرح سے دین کو ان اصول میں محدود کر دیا ہے؛
۷. علما و مذہبی مدارس کو کم اہمیت ظاہر کرنا؛
۸. ان کی تبلیغی روش کم معلومات رکھنے والے مبلغین اور ضعیف احادیث کی بنیاد پر ہے۔ یہ لوگ انہی ضعیف احادیث کی بنیاد پر اپنی روش کا جواز تراشتے ہیں؛
۹. جماعت کا نصب العین سیاست سے دوری پر مبنی ہے جسے اسلام دشمنوں کی خواہش سے ہم آہنگ سمجھا جاتا ہے۔
[۵۰] م. امیر علی، رویای نیروهای ضد اسلام، موسسه اطلاعات و آموزش اسلامی، ص۵ـ۷۔


مشہور سیاستدان

[ترمیم]

جماعت نے تاسیس کے آغاز سے ہی خود کو سیاسی امور سے دور رکھا اور اس کا دعویٰ ہے کہ ابھی تک اسی روش پر قائم ہے۔
[۵۱] پیتر ماندویل، سیاست مسلمانان فراملی: مجددا به امار، لندن ۲۰۰۱، ص۱۷، ۱۱۶، ۱۳۰۔
[۵۲] تاج‌الاسلام هاشمی، اسلام در سیاست بنگلادش، مسلمانان، مسلمانان، دولت مدرن: مطالعات موردی مسلمانان در سیزده کشور، اد. هاوسن مولالب و تاج‌الاسلام هاشمی، نیویورک: مطبوعات سنت مارتین، ۱۹۹۴، ص۱۰۴۔

اس کے باوجود جماعت کے بعض سرگرم ارکان اہم حکومتی عہدوں پر فائز رہے ہیں، مثلا:
۱. ہندوستان کے سابق صدر ذاکر حسین (۱۹۶۷ـ ۱۹۶۹ء) جماعت کے سرگرم ارکان میں سے تھے اور لندن میں پہلی تبلیغی فعالیت ان کی قیادت میں سرانجام پائی۔
[۵۳] ارشد قادری، تبلیغی جماعت لاهور ۲۰۰۰، ص۱۵۰۔
[۵۴] مارک گابوریو، تحول جدول به یک جنبش فراملی، در مسافران در ایمان، لیدن: بریل، ۲۰۰۰، ص۱۲۸۔

۲. پاکستان میں تبلیغی جماعت غیر سیاسی ہونے کی وجہ سے مسلح افواج کے درمیان فعالیت کرنے سے آزاد ہے۔
بالخصوص ضیاء الحق کے زمانے میں جماعت نے تبلیغی سرگرمیوں کے ذریعے فوجیوں میں بہت اثر و رسوخ پیدا کر لیا تھا۔ فوج کے بعض سینئر آفیسرز جو جماعت کے سرگرم اراکین شمار ہوتے ہیں؛ بعض اہم حکومتی مناصب پر فائز رہے ۔
[۵۵] ب رامان، جهاد اسلامی و ایالات متحده، جنوب آسیا گروه تجزیه و تحلیل، ۲۰۰۱ الف۔

۳. پاکستان کے سابق وزیراعظم نواز شریف کے والد محمد شریف، بھی جماعت کے اہم سرگرم رکن رہے ہیں۔
۴. نواز شریف اپنی وزارت عظمیٰ (۱۹۹۷ـ ۱۹۹۹ء) کے دوران بعض اوقات حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں کیلئے تبلیغی نشستیں منعقد کرتا تھا۔
۵. سابق صدر پاکستان محمد رفیق تارڑ، بھی جماعت کا قدیمی رکن تھا جو نواز شریف کی مدد سے اس منصب تک پہنچا۔
۶. دیگر ممالک میں بھی ایسے موارد کم و بیش دیکھے جا سکتے ہیں؛ مثلا ایسے شواہد موجود ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ چیچنیا کے اعلیٰ سیاسی عہدیدار جماعت کی سرگرمیوں میں شریک ہوتے ہیں۔
[۵۶] ب رامان، جهاد اسلامی و ایالات متحده، جنوب آسیا گروه تجزیه و تحلیل، ۲۰۰۱ الف۔

ان موارد کی بنا پر یہ نقطہ نظر موجود ہے کہ اگرچہ تبلیغی جماعت براہ راست سیاسی امور میں مداخلت نہیں کرتی لیکن بالواسطہ طور پر اپنے منتخب اراکین کو سیاسی مناصب پر فائز کرنے کیلئے ان کی حمایت کرتی ہے۔

مالی وسائل

[ترمیم]

تبلیغی جماعت کے مالی وسائل کے بارے میں بھی بہت سے سوالات نے جنم لیا ہے،
[۵۷] ارشد قادری، تبلیغی جماعت لاهور ۲۰۰۰، ص۱۰۵-۱۱۱۔

کیونکہ ایک طرف سے وسیع فعالیت اور ملین اجتماعات بڑے پیمانے پر مالی وسائل کی ضرورت کو ظاہر کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف سے جماعت کا دعویٰ ہے کہ جماعت کے کارکن تمام اخراجات اٹھاتے ہیں۔
[۵۸] ارشد قادری، تبلیغی جماعت لاهور ۲۰۰۰، ص۱۱۰۔


تبلیغی جماعت کا وہابیت سے ارتباط

[ترمیم]

دار العلوم دیوبند اور وہابی فرقے کے درمیان روابط کا تاریخی پس منظر یہ ہے کہ سرزمین وحی پر وہابیوں کی طرف سے مقدس مقامات کے انہدام کے بعد اس دار العلوم کی طرف سے شدید رد عمل سامنے آیا۔ یہ احتجاج اس قدر آگے بڑھا کہ اکثر علمائے دیوبند نے ان دنوں حج کی حرمت کا فتویٰ دے دیا۔
سعودی حکام کی طرف سے دیوبند کے ساتھ قرابت بڑھانے کی غرض سے وہابیوں کے اعمال کا جواز فراہم کرنے کیلئے منعقدہ مکہ اجلاس بھی بے ثمر رہا اور علمائے دیوبند کو قائل کرنے میں ناکام رہا۔ اگرچہ سعودی عہدیداروں اور بڑے وہابی علما کے دیوبندی مکتبہ فکر سے جنم لینے والی تبلیغی جماعت کے ساتھ سالہا سال تک تعلقات کشیدہ رہے، اسی طرح حالیہ برسوں میں بھی جماعت کے مبلغین کی سعودی عرب میں تبلیغ کی راہ میں بڑی رکاوٹیں ہیں لیکن بہت سے ایسے شواہد ہیں جن سے ان کے مابین ہم آہنگی کا پتہ چلتا ہے۔
اس ہم آہنگی میں سے منجملہ علمائے دیوبند کی طرف سے وہابیت کی جانب سے عرصہ دراز سے جاری تشیع کی غیر علمی انداز میں تکفیر کی مخالفت نہ کرنا ہے۔
دیوبند کے ۱۶ رکنی علما کا بیان کہ جس میں شیعوں کو روافض اور باطل عقائد کا حامل قرار دیا گیا ہے اور شیعہ اثنا عشریہ کی تکفیر اور ان سے قطع تعلقی کو واجب قرار دیا گیا ہے، بذات خود دیوبندی مکتبہ فکر کے مخاصمت آمیز موقف کی حکایت کرتا ہے۔
بلاتردید حالیہ سالوں میں وہابیت یعنی دیوبندیوں کا گزشتہ سالوں میں درجہ اول کا دشمن آج ان کا ایک شریک اور ساتھی بن چکا ہے اور دیوبند کے اخراجات کو پورا کرنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ اسی طرح ان کے مابین بڑے پیمانے پر علمی تعاون جاری ہے۔ تبلیغی جماعت بھی دیوبند کے ہمزاد کے عنوان سے ان جدید تعلقات میں پوری طرح سے اپنا کردار ادا کر رہی ہے اور ان کا دو طرفہ تعاون اس حد تک زیادہ ہے کہ بہت سے ہندوستانی مسلمان اس جماعت اور وہابیوں میں کسی فرق کے قائل نہیں ہیں۔

منابع کی فہرست

[ترمیم]

(۱) عاشق الهی بلند شهری، چه باتین، راولپندی: تحسین پبلشرز بی تا۔
(۲) محمد رضا حافظ نا، وضعیت ژئوپلتیکی پنجاب در پاکستان، تهران ۱۳۷۹شمسی۔
(۳) محمد شهید، اسلام، در بریتانیا، ترجمه مجید روئین تن، تهران ۱۳۷۱ شمسی۔
(۴) عزیز احمد، تاریخ تفکر اسلامی در هند، ترجمه نقی لطفی و محمد جعفر یا حقی، تهران ۱۳۶۷شمسی۔
(۵) ارشد قادری، تبلیغی جماعت لاهور ۲۰۰۰۔
(۶) احمد موثقی، جنبش‌های اسلامی معاصر، تهران ۱۳۷۸شمسی۔
(۷) ابوالحسن علی ندوی، حضرت مولانا محمد الیاس اوران کی دینی دعوت، کراچی: مجلس نشریات اسلام، بی تا۔
(۸) پیتر‌هاردی، مسلمانان هند بریتانیا، ترجمه حسن لاهوتی، مشهد ۱۳۶۹شمسی۔
(۹) محمد خالد مسعود، ایمن، ایدئولوژی و مشروعیت، در مسافران در ایمان، لیدن: بریل، ۲۰۰۰ ب۔
(۱۰) تاج‌الاسلام هاشمی، اسلام در سیاست بنگلادش، مسلمانان، مسلمانان، دولت مدرن: مطالعات موردی مسلمانان در سیزده کشور، اد. هاوسن مولالب و تاج‌الاسلام هاشمی، نیویورک: مطبوعات سنت مارتین، ۱۹۹۴۔
(۱۱) م. امیر علی، رویای نیروهای ضد اسلام، موسسه اطلاعات و آموزش اسلامی۔
(۱۲) ابراهیم موسی، جهان، از هم جدا و: برگه |âgh |âJama | UAT در آفریقای جنوبی تحت آپارتاید، ۱۹۶۳-۱۹۹۳، در مسافران در ایمان، لیدن: بریل، ۲۰۰۰۔
(۱۳) مارک گابوریو، تحول جدول به یک جنبش فراملی، در مسافران در ایمان، لیدن: بریل، ۲۰۰۰۔
(۱۴) وحید‌الدین خان، جنبش تابلو، TR. فریدا خانام، دهلی نو ۱۹۹۹۔
(۱۵) پیتر ماندویل، سیاست مسلمانان فراملی: مجددا به امار، لندن ۲۰۰۱۔
(۱۶) باربارا متکالف، "اسلام و زنان: در مورد تبلیغ جاما در"، دانشگاه استنفورد، فوریه ۲۷ ۱۹۹۶۔
(۱۷) ممتاز احمد، محمد ایلیاس، اسلام ۱۰۱، ۲۰۰۱۔
(۱۸) ممتاز احمد، تبلیغ جماعت "، در موسی خان جلال زی، درگیری سنی شیعه در پاکستان، لاهور ۱۹۹۸۔
(۱۹) دایره المعارف آکسفورد دنیای اسلام مدرن، اد۔
(۲۰) ب رامان، "جهاد اسلامی و ایالات متحده"، جنوب آسیا گروه تجزیه و تحلیل۔
(۲۱) گیل کوپل، ایمان و عمل۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. محمد خالد مسعود، ایمن، ایدئولوژی و مشروعیت، در مسافران در ایمان، لیدن: بریل، ۲۰۰۰ ب۲۰۰۰، ص۳-۳۱۔
۲. مارک گابوریو، تحول جدول به یک جنبش فراملی، در مسافران در ایمان، لیدن: بریل، ۲۰۰۰، ص۱۲۱-۱۳۸۔
۳. پیتر ماندویل، سیاست مسلمانان فراملی: مجددا به امار، لندن ۲۰۰۱، ص۱۶۔
۴. عزیز احمد، تاریخ تفکر اسلامی در هند، ترجمه نقی لطفی و محمد جعفر یا حقی، تهران ۱۳۶۷ش، ص۱۵-۱۶۔
۵. موثقی، احمد، جنبش‌های اسلامی معاصر، تهران ۱۳۷۸ش، ص۱۹۲-۱۹۳۔
۶. موثقی، احمد، جنبش‌های اسلامی معاصر، تهران ۱۳۷۸ش، ص۱۸۹ـ ۲۱۴۔
۷. عزیز احمد، تاریخ تفکر اسلامی در هند، ترجمه نقی لطفی و محمد جعفر یا حقی، تهران ۱۳۶۷ش، ص۲۰۔
۸. عاشق الهی بُلندشهری ، چه باتین، راولپندی : تحسین پبلشرز، (بی تا)،
۹. ابوالحسن علی ندوی، حضرت مولانا محمد الیاس اوران کی دینی دعوت، کراچی: مجلس نشریات اسلام، بی تا، ص۲۴۹ـ۲۵۰۔
۱۰. محمد خالد مسعود، ایمن، ایدئولوژی و مشروعیت، در مسافران در ایمان، لیدن: بریل، ۲۰۰۰ ب، ص۸۶-۸۷۔
۱۱. ابوالحسن علی ندوی، حضرت مولانا محمد الیاس اوران کی دینی دعوت، کراچی: مجلس نشریات اسلام، بی تا، ص۲۳۵-۲۴۱۔
۱۲. ب رامان، جهاد اسلامی و ایالات متحده، جنوب آسیا گروه تجزیه و تحلیل، ۲۰۰۱ الف۔
۱۳. تبلیغ جماعت، در موسی خان جلال زی، درگیری سنی شیعه در پاکستان، لاهور ۱۹۹۸، ص۱۷۳۔
۱۴. عاشق الهی بُلندشهری، چه باتین، راولپندی : تحسین پبلشرز، (بی تا)، ص۱۲-۳۷۔
۱۵. محمد خالد مسعود، ایمن، ایدئولوژی و مشروعیت، در مسافران در ایمان، لیدن: بریل، ب۲۰۰۰، ص۲۱-۲۴۔
۱۶. عاشق الهی بُلندشهری، چه باتین، راولپندی : تحسین پبلشرز، (بی تا)، ص۱۶-۲۰۔
۱۷. محمد خالد مسعود، ایمن، ایدئولوژی و مشروعیت، در مسافران در ایمان، لیدن: بریل، ۲۰۰۰ ب، ص۲۱-۲۲۔
۱۸. عاشق الهی بُلندشهری، چه باتین، راولپندی : تحسین پبلشرز، (بی تا)، ص۲۰-۲۶۔
۱۹. محمد خالد مسعود، ایمن، ایدئولوژی و مشروعیت، در مسافران در ایمان، لیدن: بریل، ۲۰۰۰ ب، ص۲۲۔
۲۰. عاشق الهی بُلندشهری، چه باتین، راولپندی : تحسین پبلشرز، (بی تا)، ص۲۶-۳۰۔
۲۱. محمد خالد مسعود، ایمن، ایدئولوژی و مشروعیت، در مسافران در ایمان، لیدن: بریل، ۲۰۰۰ ب، ص۲۲-۲۳۔
۲۲. عاشق الهی بُلندشهری، چه باتین، راولپندی : تحسین پبلشرز، (بی تا)، ص۳۰-۳۴۔
۲۳. محمد خالد مسعود، ایمن، ایدئولوژی و مشروعیت، در مسافران در ایمان، لیدن: بریل، ۲۰۰۰ ب، ص۲۳۔
۲۴. عاشق الهی بُلندشهری ، چه باتین، راولپندی : تحسین پبلشرز، (بی تا)، ص۳۴-۳۷۔
۲۵. محمد خالد مسعود، ایمن، ایدئولوژی و مشروعیت، در مسافران در ایمان، لیدن: بریل، ۲۰۰۰ ب، ص۲۳-۲۴۔
۲۶. محمد رضا حافظ‌نیا، وضعیت ژئوپلیتیکی پنجاب در پاکستان ، تهران ۱۳۷۹ ش، ص۲۳۸ـ۲۳۹۔
۲۷. محمد خالد مسعود، ایمن، ایدئولوژی و مشروعیت، در مسافران در ایمان، لیدن: بریل، ۲۰۰۰ ب، ص۱۰۶۔
۲۸. گیل کوپل، ایمان و عمل، ص۱۹۸-۱۹۳۔
۲۹. ابوالحسن علی ندوی، حضرت مولانا محمد الیاس اوران کی دینی دعوت، کراچی: مجلس نشریات اسلام، بی تا، ص۲۵۲۔
۳۰. محمد خالد مسعود، ایمن، ایدئولوژی و مشروعیت، در مسافران در ایمان، لیدن: بریل، ۲۰۰۰ ب، ص۲۷۔
۳۱. وحید‌الدین خان، جنبش تابلو، TR. فریدا خانام، دهلی نو ۱۹۹۹، ص۵ـ۶۔
۳۲. محمد رضا حافظ‌نیا، وضعیت ژئوپلیتیکی پنجاب در پاکستان ، تهران ۱۳۷۹ ش، ص۲۲۹ـ ۲۳۰۔
۳۳. دایره المعارف آکسفورد دنیای اسلام مدرن، اد۔
۳۴. دایره المعارف آکسفورد دنیای اسلام مدرن، اد۔
۳۵. محمد خالد مسعود، ایمن، ایدئولوژی و مشروعیت، در مسافران در ایمان، لیدن: بریل، ۲۰۰۰ ب، ص۲۸ـ ۳۰۔
۳۶. محمد خالد مسعود، ایمن، ایدئولوژی و مشروعیت، در مسافران در ایمان، لیدن: بریل، ۲۰۰۰ ب، ص۸۰۔
۳۷. محمدرضا حافظ نیا، وضعیت ژئوپلیتیکی پنجاب در پاکستان ، تهران ۱۳۷۹ ش، ص۲۳۳ـ ۲۳۴۔
۳۸. وحید‌الدین خان، جنبش تابلو، TR. فریدا خانام، دهلی نو ۱۹۹۹، ص۶۲۔
۳۹. ممتاز احمد، محمد ایلیاس، اسلام ۱۰۱، ۲۰۰۱، ص۱۷۳۔
۴۰. وحید‌الدین خان، جنبش تابلو، TR. فریدا خانام، دهلی نو ۱۹۹۹، ص۱۷۔
۴۱. محمدرضا حافظ نیا، وضعیت ژئوپلیتیکی پنجاب در پاکستان ، تهران ۱۳۷۹ ش، ص۲۲۰ـ ۲۲۶۔
۴۲. ب رامان، جهاد اسلامی و ایالات متحده، جنوب آسیا گروه تجزیه و تحلیل، ۲۰۰۱ الف۔
۴۳. مارک گابوریو، تحول جدول به یک جنبش فراملی، در مسافران در ایمان، لیدن: بریل، ۲۰۰۰، ص۱۲۷۔
۴۴. محمدرضا حافظ نیا، وضعیت ژئوپلیتیکی پنجاب در پاکستان ، تهران ۱۳۷۹ ش، ص۲۴۳۔
۴۵. ابراهیم موسی، جهان از هم جدا و: برگه در آفریقای جنوبی تحت آپارتاید، ۱۹۶۳-۱۹۹۳، در مسافران در ایمان، لیدن: بریل، ۲۰۰۰، ص۲۰۶ـ ۲۲۱۔
۴۶. ب رامان، جهاد اسلامی و ایالات متحده، جنوب آسیا گروه تجزیه و تحلیل، ۲۰۰۱ الف، ص۱۲۱ـ۲۳۹۔
۴۷. محمد شهید رضا، اسلام در بریتانیا ، ترجمة مجید روئین تن ، (تهران) ۱۳۷۱ ش، ص۲۹ـ۳۰۔
۴۸. دایره المعارف آکسفورد دنیای اسلام مدرن، اد۔
۴۹. دایره المعارف آکسفورد دنیای اسلام مدرن، اد۔
۵۰. م. امیر علی، رویای نیروهای ضد اسلام، موسسه اطلاعات و آموزش اسلامی، ص۵ـ۷۔
۵۱. پیتر ماندویل، سیاست مسلمانان فراملی: مجددا به امار، لندن ۲۰۰۱، ص۱۷، ۱۱۶، ۱۳۰۔
۵۲. تاج‌الاسلام هاشمی، اسلام در سیاست بنگلادش، مسلمانان، مسلمانان، دولت مدرن: مطالعات موردی مسلمانان در سیزده کشور، اد. هاوسن مولالب و تاج‌الاسلام هاشمی، نیویورک: مطبوعات سنت مارتین، ۱۹۹۴، ص۱۰۴۔
۵۳. ارشد قادری، تبلیغی جماعت لاهور ۲۰۰۰، ص۱۵۰۔
۵۴. مارک گابوریو، تحول جدول به یک جنبش فراملی، در مسافران در ایمان، لیدن: بریل، ۲۰۰۰، ص۱۲۸۔
۵۵. ب رامان، جهاد اسلامی و ایالات متحده، جنوب آسیا گروه تجزیه و تحلیل، ۲۰۰۱ الف۔
۵۶. ب رامان، جهاد اسلامی و ایالات متحده، جنوب آسیا گروه تجزیه و تحلیل، ۲۰۰۱ الف۔
۵۷. ارشد قادری، تبلیغی جماعت لاهور ۲۰۰۰، ص۱۰۵-۱۱۱۔
۵۸. ارشد قادری، تبلیغی جماعت لاهور ۲۰۰۰، ص۱۱۰۔


ماخذ

[ترمیم]
پایگاه تخصصی وهابیت پژوهی و جریان‌های سلفی، ماخوذ از «جماعت تبلیغ» تاریخ نظر ثانی بر لنک ۱۳۹۹/۱۲/۱۹۔    






جعبه ابزار