جاہل مقصر

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



جاہل مقصر اس جاہل کو کہتے ہیں جو حکم شرعی کو جاننے اور اس کو معلوم کرنے کی قدرت رکھتا ہو۔


جاہل مقصر کی تعریف

[ترمیم]

جاہل مقصر کے مقابلے میں جاہل قاصر آتا ہے۔ اس سے مراد وہ مکلف ہے جو احکامِ شرعیہ تک رسائی حاصل کرنے کی قدرت و توان رکھتا ہے لیکن کوتاہی کی وجہ سے وہ اسے حاصل نہیں کر سکا اور اس وجہ سے حکم شرعی معلوم کرنے سے جاہل رہ گیا۔

← شیخ مظفر کی تعریف


شیخ رضا مظفر نے اپنی کتاب میں اصول الفقہ میں اس طرح سے جاہل مقصر کی تعریف بیان کی ہے: الجاهل القاصر من لم یتمکن من الفحص أو فحص فلم یعثر، ویقابله المقصر وهو بعکسه؛ جاہل قاصر اس شخص کو کہتے ہیں جو حکم شرعی کی تلاش و جستجو کی قدرت نہیں رکھتا یا جستجو کی قدرت رکھتا ہے لیکن اسے کچھ معلوم نہیں ہو پایا، اس کے مقابلے میں جاہل مقصر ہے جوکہ جاہل قاصر کا برعکس ہے۔

جاہل مقصر اصولیوں کی نظر میں

[ترمیم]

علم اصول میں جاہلِ مقصر سے درج ذیل موضوعات کے تحت بحث کی جاتی ہے:
- آیا جاہل مقصر مستحقِ عقاب ہے یا نہیں؟
- جاہل مقصر جو عمل انجام دیتا ہے آیا وہ صحیح یا صحیح نہیں؟

جاہل مقصر کو عقاب دینے کے اعتبار سے مختلف نظریات

[ترمیم]

جاہل مقصر مولی کی جانب سے عقاب کا مستحق ہے یا نہیں؟ اس بارے میں مختلف نظریات وارد ہوئے ہیں:
۱ ـ مشہور قائل ہیں کہ جاہل مقصر نے چونکہ تکلیف واقعی کو ترک کیا ہے اس لیے وہ مستحق عقاب ہے، نہ کہ اس وجہ سے مستحق عقاب ہے کہ اس نے حکم شرعی کی تعلیم و تعلم کو ترک کیا ہے۔
۲ ـ بعض علماء قائل ہیں کہ جاہل مقصر نے چونکہ احکام شرعیہ کو جان بوجھ کر نہیں سیکھا اس لیے وہ مستحق عقاب ہے۔ یہ نظریہ محقق اردبیلی اور صاحب مدارک محمد بن علی عاملی کا ہے۔
۳ ـ بعض علماء معتقد ہیں کہ جاہل مقصر اس لیے مستحق عقاب ہے کیونکہ اس نے جان بوجھ کر حکم شرعی کو نہیں جانا جس کی وجہ سے وہ واقع سے بے خبر رہا اور واقع میں موجود حکم شرعی تک رسائی حاصل نہیں کر سکا۔ یہ نظریہ محقق نائینی کا ہے۔
۴ ـ دیگر علماء قائل ہیں کہ تکالیف مطلقہ اور تکالیف مشروطہ و موقتہ میں فرق ہے جس کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ پہلی قسم (تکالیفِ مطلقہ) میں جاہل مقصر اس لیے مستحقِ عقاب ہے کیونکہ اس نے واقع کو ترک کیا ہے، دوسری قسم (تکالیفِ مشروطہ) میں جاہل مقصر اس لیے مستحق عقاب ہے کیونکہ اس نے حکم شرعی کا سیکھنا اور تعلّم کرنا ترک کیا ہے جیساکہ کفایہ میں آخوند خراسانی کے کلمات سے ظاہر ہوتا ہے۔
جاہل مقصر کے اعمال کی صحت اور عدمِ صحت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اگر جاہل مقصر نے مأمور بہ کو قصد قربت کے ہمراہ اس کے تمام اجزاء و شرائط کے ساتھ انجام دیا ہے اور تمام موانع کو ترک کیا ہے تو اس کا یہ عمل صحیح شمار ہو گا۔

جاہل مقصر کے عمل کا صحیح یا غیر صحیح ہونا

[ترمیم]

مشہور فقہاء قائل ہیں کہ جاہل مقصر کا عمل اگر واقع کے مطابق نہ بھی ہو تب بھی دو مقامات پر صحیح ہے اگرچے ان دونوں مقام پر وہ مستحق عقاب قرار پائے گا لیکن اس کا عمل صحیح ہے:
۱ ـ وہ مورد جہاں مکلف کا وظیفہ قصر نماز تھی لیکن اس نے نماز مکمل پڑھی۔
۲ ـ وہ جگہ جہاں مکلف کا وظیفہ اخفات یعنی آہستہ نماز پڑھنا تھا لیکن وہ نے نماز جہر یعنی موٹی آواز میں پڑھی۔ اگرچے بعض فقہاء کی جانب سے ان دو استثنائی موارد پر اعتراضات کیے گئے ہیں اور ان کو قبول نہیں نہیں کیا گیا۔
[۴] مبانى حقوق اسلامى مختلف الاصول ، بروجردی ، محمد ، ص ۲۲۰-۲۳۳۔


حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. اصول الفقہ، مظفر، محمد رضا، ج ۱، ص ۲۲۹۔    
۲. انوار الاصول، مکارم شیرازی، ناصر، ج ۳، ص۲۳۵۔    
۳. انوار الاصول، مکارم شیرازی، ناصر، ج ۳، ص۲۲۸۔    
۴. مبانى حقوق اسلامى مختلف الاصول ، بروجردی ، محمد ، ص ۲۲۰-۲۳۳۔


مأخذ

[ترمیم]

فرہنگ نامہ اصول فقہ، تدوین توسط مرکز اطلاعات و مدارک اسلامی، ص۳۷۳، مقالہِ جاہل مقصر سے یہ تحریر لی گئی ہے۔    






جعبه ابزار