حدیث پر عمل کرنے کے مبانی
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
عربی لغت کے لحاظ سے،
حدیث قدیم کی ضد ہے جس کے معنی جدید اور نئی چیز کے ہیں،
چاہے وہ فعل ہو یا قول ہو؛ اور
علم حدیث کی اصطلاح میں حدیث اس کلام کو کہا جاتاہے جو قول، فعل یا تقریرِ
معصومؑ کو حکایت کرے جس کو
خبر،سنت اور روایت سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔
شیخ بہائیؒ کے بقول
شیعوں کے نزدیک،ان چیزوں پر بھی
حدیث کا اطلاق کرناجائز ہے جو غیر
معصومؑ سے نقل کی گئی ہوں
۔
اہل سنّت کے نزدیک،
حدیث اورسنّت ایک ہی مفہوم پر دلالت کرتے ہیں کیونکہ دونوں کے معنی،قول یافعل یاتقریر یا (جسمانی اوراخلاقی) صفت کی رسولِ خداؐ کی طرف نسبت دینے کے ہیں ۔بعض نے
حدیث میں،(نئی اور جدیدچیز) کے معنی کو مدّنظر رکھا ہےاور اسے قدیم کے مدِّ مقابل قرار دیا ہے۔ان کے نزدیک قدیم سے مراد،
کتاب ِخدا ہے اور جدید سے مراد وہ چیزیں ہیں جن کی نسبت
رسولِ خداؐ کی طرف دی جاتی ہے
عربی لغت کے لحاظ سے
سنت متعدد معانی میں استعمال ہوتی ہےجیسے طریقہ، عادت،رواج اور قانون وغیرہ۔علم حدیث کی اصطلاح میں، سنّت ہر اس دینی اور پسندیدہ طریقہ کو کہا جاتا ہے جو رسولِ خداؐ (اہل سنت کے نزدیک) اور دیگر
معصومینؑ(اہل تشیّع کے نزدیک)میں سے کسی ایک کے قول یا فعل یا تقریر کے ذریعے ثابت ہو۔قول وفعل اور تقریر کے معنی یہ ہیں کہ معصومینؑ میں سے کسی ایک نے کوئی کام انجام دیا ہو یا کسی عمل کے انجام دنے کا حکم دیا ہو یا کسی کو کوئی کام انجام دیتے ہوئے دیکھا ہو اور انہوں نے تائید کی ہو یا کم از کم اس کام سے منع نہ کیا ہو بشرطیکہ منع کرنے میں کوئی رکاوٹ بھی نہ ہو۔
اس بحث میں ہم فقط
حدیث پر عمل کرنے کی بنیاد اور اساس کو بیان کریں گے ؛تاکہ ہمیں ان شرائط سے آشنائی حاصل ہوجائے جنہیں
شیعہ اورسنی خبر میں ضروری سمجھتےہیں ۔
[ترمیم]
سنّت اور حدیث کو، فقط دو چیزوں کے ذریعے اثبات کیا جاسکتاہے:
خبرمتواتر اور خبرواحد۔
خبرمتواتر ،اس خبر کو کہا جاتاہےجس میں روایوں کی تعداد اس قدر ہو کہ جن کا جھوٹ پر اتفاق اور سازباز کرنا معمولاً محال ہو اور یہ حالت تمام طبقات میں موجود ہو۔اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ متواتر خبر کو نقل کرنے والوں میں عدالت شرط نہیں ہے؛اسی طرح شیعہ اور اکثر اہل سنّت علماء کے نزدیک، خبر متواتر میں روایوں کی کوئی خاص تعداد بھی مقرر نہیں ہے؛ البتہ بعض اہل سنّت علماءنے ،
تواتر میں ایک خاص عدد کا تعین کیا ہے؛لہذا قاضی ابو بکر کے نزدیک کم سے کم تعداد پانچ اور اصطخری کے نزدیک کم از کم دس ہونا ضروری ہے ؛اور بعض نے بارہ افراد(نقباء بنی اسرائیل کی تعداد)،کچھ نے کم از بیس افراد، بعضوں نے چالیس افراد،بعض نے ستر اور چند ایک علماء نےکم ازکم ۳۱۳ (اصحابِ بدرکی تعداد) کی شرط لگائی ہے۔شہید ثانیؒ نے اپنی کتاب
البدایۃ میں مذکورہ تمام اقوال کو باطل قرار دیا ہے
و
اسی طرح ابن حجر عسقلانی نے
شرح نخبہ میں، تواتر میں عدد کے تعین کو بے معنی قرار دیا ہے
بلکہ تواتر میں اہم نکتہ یہ ہے کہ اسے ہمیں، روایوں کا جھوٹ پر متفق نہ ہونے کا یقین حاصل ہوجائے ؛یعنی اس طرح ہو کہ اگر کوئی معتدل شخص اس کے بارے میں مطلع ہوجائے تو اس کو
سنّت اور حدیث کے بارے میں قطع حاصل ہوجائے۔
خبرواحد کے اصطلاحی معنی یہ ہیں کہ وہ
تواتر کی حد نہ پہنچے، اگر چہ اس کو نقل کرنے والے ایک سے زیادہ ہو؛کیونکہ
خبرواحد میں واحد متعدد کے مقابلے میں نہیں ہے بلکہ واحد سے مراد، عدمِ تواتر ہے۔بالفاظِ دیگر، متواتر بشرط شئی ہے یعنی بشرطِ
تواتر ہے؛ اور
واحد بشرطِ لا ہے یعنی بشرطِ عدم تواتر، اور
خبر لابشرط ہے؛ یعنی نہ اس میں تواتر مأخوذ ہے اور نہ عدمِ تواتر۔اسی بناء پر کہا جاتا ہے کہ خبر مستفیض اور خبر مشہور ، کیونکہ یہ دونوں خبر واحد کی اقسام میں سے ہیں
شیخ بہائیؒ اپنی کتاب
الوجیزہ میں لکھتے ہیں:اگر روایوں کی تعدد ہر طبقہ میں اس قدر ہو کہ ان کا جھوٹ پر اتفاق اور سازباز کرنے کا خوف نہ ہو، تو یہ
متواتر حدیث کہلائے گی ؛ یعنی ایسی خبر جو بذات خود قطع اور یقین کا فائدہ دےبصورت دیگر وہ
خبرآحاد شمار ہوگی کہ جو فقط ظن اور گمان کا فائدہ دیتی ہے۔اگر ہر طبقہ میں روایوں کی تعداد تین سے زیادہ (اور یقین کا فائدہ نہ دے) تو خبر مستفیض، اور اگر تین سے کم ہو تو غریب کہلائے گی۔»
مشہور اس
روایت کو کہا جاتا ہے جو زبان زدِ عام وخاص ہو اور کتابوں میں مشہور ہوگئی ہو اگرچہ اس کو نقل کرنے والا ایک شخص ہو۔
[ترمیم]
ہر وہ
خبر جس کے صدورکا علم،داخلی یا خارجی قرائن کی رو سے ثابت ہو، وہ بلا شک وشبہ حجّت اور معتبر ہے اور اس پر عمل کیا جائے گا۔لیکن اس کا معتبر ہونا، شہرت ، استفاضہ یا
تواتر کی وجہ سے نہیں ،بلکہ اس کے صدور کے بارے میں علم اور یقین کی بناء پر ہے؛کیونکہ علم اور یقین کی حجیّت ذاتی ہے ۔علماء اس ضمن میں «انما الاعمال بالنیات ولكل امری ما نوی» کی مثال دیتے ہیں۔
اس طرح یہ بات واضح ہوجاتی ہےکہ
خبر متواتر اور خبر مقرون بالقرینہ، دونوں قطع اور یقین کا فائدہ دیتی ہیں اور سب علماءکے نزدیک ،ایسی اخبار مقبول اور قابلِ اعتماد ہیں۔لیکن وہ
خبر جو
تواتر کی حد تک نہ پہنچےاور اس کے صدور کا علم بھی حاصل نہ ہو، اس کے بارے میں مختلف پہلوؤں سے بحث وتحقیق ہوتی ہے جن میں اہم ترین پہلو، اس خبر کی اسناد اور اس کے صدور کا علم ہے جس کی بدولت،
حدیث کو اس کے قائل یعنی
پیغمبرؐ یا
امامؑ کی طرف نسبت دی جاتی ہے؛ کیونکہ اسناد ہی کسی
حدیث کی بنیاد اور اساس ہوتی ہے۔
[ترمیم]
شیخ بہائیؓ،حدیث کو سند کے اعتبار سے، مندرجہ ذیل چھ قسموں میں تقسیم کرتے ہیں:
۱-
صحیح:اس
حدیث کو کہا جاتا ہےجس کی سند،
امامی اور ان روایوں پر مشتمل ہو جن کی تعدیل کے ذریعے مدح کی گئی ہو۔تعدیل کے ذریعے مدح کے معنی یہ ہیں کہ کسی عادل شخص کی جانب سے ان کے لئے ثقہ، حجّت اور عینٌ جیسے الفاظ استعمال کئے گئے ہوں۔
۲-
حسن:وہ حدیث جس کی سند میں ایک روای شاذ ہو اور باقی سب یا بعض کی تعدیل وتوثیق ہوئی ہو، حسن کہلاتی ہے۔
۳-
قوی: وہ
حدیث ہے جس کے راوی مسکوت عنہ ہوں ۔یعنی ان کے بارے میں کسی قسم کی جرح یا تعدیل وارد نہ ہوئی ہو۔
۴-
موثق:اس حدیث کو کہا جاتا ہے جس کی سندکے سب یا بعض راوی
غیر امامی ہوں ۔
۵-
ضعیف: جس حدیث میں مذکورہ چار قسموں کی خصوصیات موجود نہ ہوں ضعیف کہلاتی ہے۔
۶-
مقبول: مقبول وہی حدیثِ ضیعف ہے اس فرق کے ساتھ کہ اس کے مضمون پر عمل کرنا مشہور ہوچکا ہو
[ترمیم]
شیعہ علماء میں سے بعض نے راوی حدیث کا امامی ہونا، شرط قرار دیا ہے ؛لیکن جیساکہ
شیخ بہائی اور دیگر شیعہ محققین کی تقسیم بندی سے یہ بات واضح ہےکہ کسی بھی
حدیث پر عمل کرنے میں بنیادی شرط ، اس کے راوی کی سچائی کے بارے میں وثوق اور اطیمنان کا حصول ہے، چاہے وہ
امامی ہو یا
غیر امامی ہو۔
علاّمہ حلی نے
الخلاصہ میں اور
قمی نے
قوانین الاصول کے پہلے جزء میں اس مطلب کو صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے؛قمی میں تحریر کرتےہیں:
ایسے افراد جو شیعہ نہیں ہیں لیکن ان کی توثیق ہوئی ہو ،کی
روایات قابل قبول ہیں؛کیونکہ کسی بھی روایت کی صحت اس کے راوی کے بارے میں تحقیق سے ثابت ہوتی ہے۔پس جب یہ بات معلوم ہوجائے کہ فلاں راوی ، روایات کو نقل کرنے میں جھوٹ نہیں بولتا تو اس کی روایت مسلّم طور پر ثابت ہے»
مامقانی نے اپنی کتاب
تنقیح المقال میں تحریر کیا ہے:
امام سے منقول روایت میں اس بات کی صراحت موجود ہے کہ ہم مخالفین کے
روایات کو قبول کریں اور ان کی آراء ونظریات کو ترک کریں ؛پس ضروری ہے کہ موثق روای(غیر امامی) کی روایت پر عمل کیا جائے»
شیخ انصاریرسائل میں لکھتےہیں:
امام صادقؑ سے روایت ہے : «خذوا ما رووا،وذروا ما رأوا» یعنی جو وہ (مخالفین ) روایت کرتے ہیں انہیں قبول کرو اور ان کے آراء کو ترک کرو۔
اس کے بعد
شیخ انصاری کہتے ہیں:
ان روایات کو قبول کرنا جن کے صدور کے بارے میں اطمینان حاصل ہوتا ہے،
متواتر روایات سے ثابت ہے»
سید محمد تقی حکیم اپنی کتاب
الاصول العامہ میں یوں تحریر کرتے ہیں:
شیعوں کے نزدیک،ان لوگوں کی
اخبار جو عقیدے میں ان کے مخالف ہیں،[[حجّت اور معتبر ہیں بشرطیکہ ان کی روایت سے وثوق اور اطمینان حاصل ہو؛اور ایسے روایوں کی
اخبار کو
موثّقات سے تعبیر کیا جاتا ہے۔یہ روایات دیگر اخبار کی طرح حجّت ہیں اور
شیعہ کتب اس قسم کی روایات سے بھری پڑی ہیں»
۔
امام خمینیؓ اس بارے میں دوسروں سے بڑھ کر، ان
سنّی روایوں کی توثیق کو بھی ترجیح دیتے ہیں جن کے بارے میں کوئی خاص توثیق وارد نہیں ہوئی ہے جیسے سکونی اور نوفلی کہ جو
امام صادقؑ کے اصحاب میں سے تھے.
۔
مذکورہ نظریے کا عملی نمونہ یہ ہے کہ شیعوں کے بزرگ علماء نے موثّق سنی روایوں کی اخبار کو اپنی کتب کثرت سے نقل کیا ہے ؛جیسے
کتاب تفسیر الصافی، محجّۃ البیضاء فیض کاشانی، جامع السعادات نراقی،
السوق فی الدولۃ الاسلامیہ علامہ سید جعفر مرتضی عاملی،تفسیر ابو الفتوح رازی، تفسیر مجمع البیان، تفسیر منہج الصادقین،شرح اللّمعۃ ، منیۃ المرید اور مسکّن الفؤاد شہید ثانی وغیرہ۔شیخ زین الدین، جو کہ شہید ثانی کے لقب سے مشہور ہیں کی ولادت ۹۱۱ق میں ہوئی؛ آپ نے شیعہ اور سنّی دونوں کے اساتید سے کسبِ فیض کیا اور آپ نے بعلبک کے مدرسہ نوریہ میں پانچ سال پنچگانہ مذاہب کی تدریس کی
«
علامہ محمد حسین طبا طبائی صحابہ کی احادیث کے بارےمیں یوں تحریر کرتے ہیں:
وہ
احادیث جو صحابہ سے نقل ہوتی ہیں،اگر
رسولِ خداؐ کے قول یا فعل پر مشتمل ہوں اور
اہل بیتؑ کی حدیث کے برخلاف نہ ہوں ،قابل قبول ہیں؛اور اگران میں
صحابی کی رائے کا بیان ہوتو وہ حجّت نہیں ہے ؛اور
صحابہ کے آراء ونظریات کا حکم دیگر
مسلمانوں کی طرح ہے،اور صحابہ خود بھی ایک دوسرے کے ساتھ(قول وفعل کو قبول کرنے میں) عام مسلمانوں کی طرح سلوک کرتے تھے»
[ترمیم]
اہل سنّت کے بعض متعصب افراد نے حدیث کے راوی میں یہ شرط لگأئی ہے کہ اس سے تشیّع کی بو بھی نہیں آنی چاہیے
لیکن
اہل سنّت کے اکثر علماء اور محققین کا شیعہ روایوں کے بارے میں وہی نظریہ ہے جو
بزرگ شیعہ علماء نے
سنیّ روایوں کے بارے میں اپنایا ہے ۔ مثلاً فخررازی کہتے ہیں:کیا اس
مسلمان کی روایت جو عقیدے کے لحاظ سے ہمارا مخالف ہو،مثلاً ان لوگوں کی روایت جو
خدا کو جسم مانتے ہیں اور اسی وجہ سے ہم انہیں کافر قرار دیتے ہیں ، قابل قبول ہے یا نہیں؟۔درست بات یہ ہے کہ اگر ایسے لوگوں کے
مذہب میں جھوٹ جائز ہو تو ان کی روایت قبول نہیں ہے؛ لیکن اگر
ان کا مذہب جھوٹ کو حرام قرار دیتا ہے تو اس صورت میں ان کی روایت قابل قبول ہےاور یہ ابو الحسن بصری کا قول ہے»
طوفی حنبلی کہتے ہیں:اگر
محدّث نقدِحدیث میں مہارت رکھتا ہو تو وہ ان اہل بدعت روایوں سے بھی روایات نقل کرسکتا ہے جو اپنے بدعت کی وجہ سے فاسق کہلاتے ہیں جیسے عباد بن یعقوب جو شیعوں کے درمیان غلو میں مشہور ہے اور حریز بن عثمان جو حضرت علیؑ سے بغض رکھتا تھا»
اہلِ اصول اور
احمد بن حنبل وشافعی اس سلسلے میں قائل ہیں کہ روای کی جرح وتعدیل اس صورت میں قابل قبول ہے کہ اس کا سبب بیان نہ کیا گیا ہو؛اور عدالت کا استصحاب کرتے ہوئے، تعدیل میں سبب کو بیان کرنا شرط نہیں ہے، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ
مسلمان کی حالت کو
عدالتِ اسلامی پر حمل کیا جائے گا
۔
[ترمیم]
[ترمیم]
اندیشہ قم ویب سائٹ