حضرت یونس
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
حضرت یونس علیہ السلام
بنی اسرائیل كے انبیاء مىں سے ایك نبی ہیں۔ آپ
حضرت سلیمان علیہ السلام كے بعد بنى اسرائیل میں تشریف لائے۔ بعض محققین نے آپ كو
حضرت ابراہیم علیہ السلام كے پوتوں میں شمار كیا ہے۔ قرآن كریم میں آپ كے دو لقب ذو النّون اور صاحب الحوت بیان ہوئے ہیں جس كى وجہ آپ كا
مچھلی كے پیٹ میں رہنے كی مصیبت سے دوچار ہونا ہے۔
[ترمیم]
حضرت یونسؑ کا شمار اللہ تعالى کے برگزیدہ انبیاء میں ہوتا ہے۔ جن کا تذکرہ قرآن کریم میں متعدد آیات میں وارد ہوا ہے، جیساکہ اشادِ باری تعالی ہوتا ہے:
وَ إِنَّ يُونُسَ لَمِنَ الْمُرْسَلين؛ اور بے شک یونس رسولوں میں سے ہیں۔
آپؑ كا نام مبارك
قرآن کریم مىں چار مرتبہ آیا ہے
۔ قرآن كریم كى دسویں سورت آپؑ ہى كے نام پر ہے۔ آپؑ
حضرت سلیمان ؑ كے بعد قومِ بنی اسرائیل میں تشریف لائے۔
کتب میں آپ کا نام یونس بن متّی وراد ہوا ہے۔ اہل یہود نے آپ کا نام يونہ بن اميتای ذکر کیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ آپ فارس کے بادشاہوں کے زمانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ کا نام یونس مختلف طریقوں سے پڑھا گیا ہے جس میں معروف قراءت نام کے آغاز میں یاء پر ضمہ (پیش) کے ساتھ پڑھنا ہے۔
جہاں تک آپؑ کے القاب کا تعلق ہے تو قرآن كریم میں آپؑ كو مچھلى كے پیٹ میں كچھ دن رہنے كى وجہ سے ذو النون اور صاحب الحوت كے لقب سے نوازا گىا ہے۔
آپؑ کے نسب کے بارے میں معلومات کتب میں مذکور نہیں ہیں۔ یقینی طور پر آپ کے نسب کی کڑی کو بیان نہیں کیا جا سکتا۔ بعض علماء نے بیان كیا ہے كہ آپؑ کا تعلق جضرت ابراہیمؑ کی نسل سے ہے جبکہ بعض نے اشارہ کیا ہے کہ آپؑ والد كى جانب سے
حضرت ہود علیہ السلام كے پوتوں اور
والدہ كى جانب سے بنى اسرائیل سے تعلق ركھتے ہیں۔
حضرت یونسؑ كے والد
مَتّی ہیں جن كا شمار اپنے دور كے پاکیزہ لوگوں میں ہوتا تھا۔ بعض نے متّی آپ کی والدہ کے نام کے طور پر ذکر کیا ہے اور کہا کہ جناب
عیسی بن مریم ؑ اور آپؑ کے علاوہ کوئی ایسا نبی نہیں گزرا جس کا نسب والدہ سے پہچانا گیا ہو۔ البتہ صحیح یہی ہے کہ متّی آپ کے والد کا نام تھا۔
بعض روایات میں وارد ہوا ہے کہ ایک دن
حضرت داؤد ؑ نے
اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا کہ میں اس شخص سے ملاقات کرنا چاہتا ہے جو جنت میں میرے ساتھ میرے محل میں ہو گا۔
اللہ تعالی نے آپؑ پر
وحی نازل کی کہ
بہشت مىں تمہارا ہمسایہ یونسؑ کے والد مَتّی ہیں۔ جناب داؤدؑ نے اللہ تعالی کی بارگاہ میں متّی سے ملاقات کی اجازت طلب کی اور اللہ تعالی نے ملاقات کی اجازت دے دی۔ جناب داؤدؑ اپنے بیٹے
سلیمان ؑ کے ہمراہ متّی كى
زیارت كے لىے تشرىف لے گئے۔ جب منزل تک پہنچے تو دیکھا ان کا گھر کھجور کی ٹہنیوں کا ہے جس میں فقیرانہ طور پر وہ رہتے تھے۔ اہل خانہ نے بتایا کہ متّی لکڑیاں کاٹنے گئے ہوئے ہیں اور انہیں لکڑیوں کو بیچ کر وہ اپنا گزر بسر کرتے تھے۔ واقعہ کے اختتام پر وارد ہوا کہ جناب داؤدؑ نے جناب متَّی کی بارگاہِ الہی میں تواضع، بندگی اور کثرت سے شکر گزاری حیرت انگیز حد تک پایا۔ چنانچہ آپؑ نے جناب سلیمانؑ سے فرمایا: اے بیٹا! اس طرح کے شکر گزار بندے کا حق بنتا ہے کہ وہ جنّت میں اس قدر عظیم الشان منزلت کا مالک ہو، میں نے اپنی زندگی میں اس سے زیادہ شکر ادا کرنے والا نہیں دیکھا۔
[ترمیم]
وارد ہوا ہے کہ جناب یونسؑ میلاد سے ۸۲۵ سال قبل سر زمىن
نینوا مىں پىدا ہوئے۔ نىنوا
موصل كا اىك شہر ہے۔
دنىا كے موجودہ نقشے اور اس میں ممالك كى تقسىم كے مطابق موصل عراق كا اىك شہر ہے جو
کربلا كى جانب
کوفہ كے آگے کی طرف ہے۔ ابھى بھى كوفہ كے جوار میں كنارِ
شطّ اىك قبر ہے جو حضرت ىونسؑ كے مرقد كے عنوان سے معروف ہے۔ شہر نىنوا كى وقت آبادى اىك لاكھ سے زائد تھى جىساكہ قرآن کریم مىں ارشاد ہوتا ہے:
وَأَرْسَلْنَاهُ إِلَى مِئَةِ أَلْفٍ أَوْ يَزِيدُونَ؛ اور ہم نے ان (ىونس) كو اىك لاكھ ىا اس سے زىادہ آبادى كى طرف بھىجا۔
بعض اقوال کے مطابق حضرت یونسؑ کو جس بستی کی طرف بھیجا گیا وہ نینوا ہے۔ نینوا کی سرزمین دو حصوں میں تقسیم ہوتی ہے: ایک جگہ وہ ہے جہاں
امام حسین علیہ السلام قتل ہوئے اور دوسری جگہ موصل کہلاتی ہے جہاں جناب یونسؑ کو مبعوث کیا گیا۔
نىنوا كے لوگ
بت پرست اور طرح طرح کی اخلاقی امراض میں جکڑے ہوئے تھے۔ انہىں
ہدایت و رہنمائى كے لىے اىك الہى رہبر كى ضرورت تھى تاكہ اس كے ذريعے ان پر
حجت تمام کی جائے اور الہى رہبر اس گمراہ معاشرے كو اللہ تعالى كى وحدانىت كى طرف دعوت دىتے ہوئے
سعادت سے ہمكنار كرے۔ چنانچہ نىنوا كى كثىر آبادى كى طرف اللہ تعالى نے حضرت یونسؑ كو نبى بنا كر بھىجا۔ آپ نے اپنى قوم مىں صدائے حق بلند كى، انہىں اللہ تعالى كى وحدانىت كى دعوت دى، منكرات اور اخلاقى فساد سے اجتناب كى نصىحت فرمائى اور معاشرے كو صالح و پاكىزہ كرنے كے لىے مختلف قسم كى تدابىر اور اسلوب اختیار کیے۔
جناب ىونسؑ نے جب دعوتِ توحید کو سرعام بیان کرنا شروع کیا اور بت پرستى كے فاسد نظرىے كى كھل كر مخالفت كى تو پورا معاشرہ آپؑ كے شدید مخالف ہو گىا۔ آپؑ نے باطل كے خلاف مبارزہ جارى ركھا اور اس گمراہ ظالم قوم كے ساتھ ایک شفیق و دلسوز باپ کی مانند بہترین اخلاق، نرمی اور محبت كا برتاؤ کیا۔ لىكن اس حكىمانہ روش اور مہربانى و محبت كے سلوك كے صلے میں قوم سے طعنہ تشنىع، تکذیب، تمسخر اور استہزاء کے علاوہ کچھ نہ ملا۔ بت پرست آپؑ كو كہا كرتے تھے کہ ہم كس دلىل كى بنىاد پر اپنے دىن اور آئىن سے رخ پھیر لیں جبکہ ہم سالہا سال سے اس دىن كی پیروی کر رہے ہیں۔ اب کیا ہم اس كو ترك كر كے آپ كے اىجاد كردہ نئے دىن اور اعتقادات كى پيروى كرنے لگ جائیں؟!! جناب یونسؑ ان کے خود ساختہ استدلال کے مقابلے میں حیکمانہ انداز سے ٹھوس دلیلیں پیش کیں اور انہیں باور کرانے کی کوشش کی کہ بے جان بت اىسے بے شعور اجسام ہىں جو نہ نفع پہنچا سكتے ہىں اور نہ كوئى ضرر، ان سے تو كوئى خیر صادر نہیں ہو سكتا۔ جناب یونسؑ کے اسی تبلیغ و دعوت اور معاشرے کی خرافات افکار و عادات سے مبارزہ کرتے ہوئے زندگی کے تیس سال بیت گئے لیكن انہوں نے آپ كى كسى بات پر كان نہ دھرے۔
جناب یونسؑ نے ۳۰ سال كى عمر مىں نینوا كى طرف رختِ سفر باندھا اور وہاں پہنچ كر اپنى دعوتِ حق كا آغاز كىا۔ دن گزرتے گئے اور آپ کمال خلوص کے ساتھ اپنى قوم مىں پرچم توحید بلند كرنے كى كاوشوں مىں مصروفِ عمل رہے۔ اسى طرح مزىد ۳۰ سال گزر گئے۔ لىكن گنتى كے چند افراد كے علاوہ كوئى آپ پر
ایمان نہ لاىا۔ انہى چند افراد مىں سے اىك شخص آپ كا پرانا دوست روبىل تھا جو علم و حکمت سے بہرہ مند اور خاندانِ
نبوّت سے تعلق رکھتا تھا۔ روبیل اپنا گزر بسر بکریاں چرا کر کیا کرتے تھا۔ دوسرا شخص آپؑ کی قوم کا ایک کمزور و لاغر جسم رکھنے والا عابد زاہد تھا جس کا زیادہ تر وقت عبادات و دعا میں گزرتا تھا اور علم و حکمت سے عاری تھا، اس کا نام تنوخا تھا۔ وہ اپنا گزر بسر لکڑیاں کاٹ کر اور انہیں بیچ کر کیا کرتا تھا۔
بعض جگہوں میں اس عابد کا نام ملیخا وارد ہوا ہے۔
جناب یونسؑ اور قوم کے درمیان خلیج بڑھتی چلی گئی اور معاشرے نے اصلاح کی بجائے اپنی قوم کے نبی سے دشمنی مول لی اور انہیں علاقے نکالنے اور قتل کرنے کی منصوبہ بندی کرنے لگے۔ قوم کی اس حالت دیکھ کر جناب یونسؑ بہت دلبرداشتہ ہوئے اور ان کی شکایت بارگاہِ الہی میں کی اور ان پر عذاب نازل کرنے کا تقاضا کیا۔ بعض روایات کے مطابق آپؑ نے ان الفاظ میں اللہ تعالی کے حضور دعا کی: اے میرے ربّ! تو نے مجھے جب اس قوم میں مبعوث کیا تو میری عمر تیس (۳۰) تھی، ان کے درمیان میں زندگی بسر کرتا رہا اور تینتیس (۳۳) سال مسلسل تجھ پر ایمان کی دعوت دیتا رہا اور اپنی رسالت اور تعلیمات کی تصدیق کروانے کی کوشش میں لگا رہا، انہیں تیرے عذاب سے خوفزدہ کیا اور تیری نقمت و ہلاکت سے ڈرایا، لیکن انہوں ںے میری نبّوت کا جانتے بوجھتے ہوئے انکار کیا، میری بیان کردہ تعلیمات کو حقیر و پست سمجھا، اب وہ مجھے دھمکیاں دیتے ہیں اور مجھے ڈر ہے کہ وہ مجھے قتل کر دیں گے، پس تو ان پر اپنا عذاب نازل فرما، کیونکہ یہ وہ قوم ہے جو ایمان لانے والی نہیں ہے۔
روایات کے مطابق اللہ تعالی نے جناب یونسؑ کی طرف
وحی کی اور فرمایا: اس قوم میں چھوٹے چھوٹے بچے ہیں، کئی خواتین حاملہ ہیں، بوڑھے ضعیف مرد و زن ہیں، میں ان پر مہربانی و نرمی کو پسند کرتا ہوں اور ان کی توبہ کا منتظر ہوں، میں عدل و انصاف سے فیصلہ کرنے والا ہوں، میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے، میں تیری قوم کے بڑوں کے گناہوں کی وجہ سے چھوٹوں کو عذاب میں مبتلا نہیں کرنا چاہتا، اے یونس! یہ میری بندے ہیں، میری مخلوق اور میرے علاقوں میں میری خلقت ہے، اے یونس اس بستی میں ایک لاکھ سے اوپر میری مخلوق ہے جنہوں نے میرے شہروں کو آباد رکھا ہے، وہ میرے بندے پیدا کرتے ہیں، اپنے علمِ سابق کی بناء پر میں چاہتا ہوں کہ میں تجھ سے اور ان سے عجلت و جلدبازی کی بجائے مہربانی و نرمی کا سلوک کروں۔
جناب یونسؑ نے بارگاہِ الہی میں عرض کی: اے میرے ربّ! میں تیری خاطر ان پر غضبناک ہوا اور جب یہ تیری معصیت کرتے تھے تو میں ان کو تیری طرف بلاتا تھا، تیری عزت کی قسم میں کبھی ان سے رأفت و مہربانی کا سلوک نہیں کروں گا اور ان کے کفر کرنے، مجھے جھٹلانے اور میری نبوت کا انکار کرنے کے بعد مشفقانہ نصیحتوں کے ساتھ ان سے برتاؤ نہیں کروں گا، پس (اے رب) تو ان پر اپنا عذاب نازل فرما، یہ کبھی ایمان نہیں لائیں گے۔
وارد ہوا ہے کہ اللہ تعالی نے فرمایا: اے یونس ! ان پر عذاب نازل کرنے کا جو تقاضا تو نے مجھ سے کیا ہے میں اس کو پورا کرتا ہوں، اے یونس میرے نزدیک تجھ سے بڑھ کر کسی کا مقام نہیں ہے اور کسی کی شان و منزلت تجھ سے زیبا اور بلند تر نہیں، شوال کے وسط میں بروز بدھ سورج نکلنے کے بعد ان پر عذاب آئے گا، پس جاؤ اور اس کی خبر ان کو دے دو۔
اللہ تعالی نے جناب یونسؑ کے شدید اصرار پر عذاب کے نازل ہونے کا دن مقرر فرما دیا اور جناب یونسؑ کو حکم دیا کہ اپنی قوم کو اس کی خبر دے دو۔ بعض روایات میں وارد ہوا ہے کہ جب اللہ تعالی نے جناب یونسؑ کی دعا قبول کی تو وہ خوشی و مسّرت کے ساتھ اپنی قوم میں لوٹے اور کسی قسم کا افسوس و ملال محسوس نہ کیا اور روزِ عذاب کا انتظار کرنے لگے۔ عذاب کا نزول شوال کے وسط میں بروز بدھ سورج نکلنے کے بعد قرار پایا۔ چنانچہ آپؑ اس کی اطلاع دینے اپنی قوم میں تشریف لے گئے۔
جناب یونسؑ نے سب سے پہلی اپنی قوم کے اس عابد کو اطلاع دی جس کا نام تنوخا یا ملیخا تھا۔ تنوخا ایک مومن شخص تھا لیکن علم و حکمت سے عاری تھا۔ جناب یونسؑ نے اس کو کہا کہ جاؤ پوری قوم کو عذاب کے دن کی خبر دے دو۔ وہ کہنے لگا کہ اے یونسؑ ان کو گمراہیوں اور معصیتوں کی دلدل میں دھنسے رہنے دیں یہاں تک کہ اللہ کا عذاب ان پر آ جائے۔ تنوخا نے جناب یونسؑ کو قوم کے خلاف مزید بھڑکایا اور بد دعا کرنے پر ان کی حوصلہ افزائی کی اور قوم سے کرختگی اور سختی کا رویہ اختیار کرنے کا مشورہ دیا۔ حضرت یونسؑ نے اس کا مشورہ سنا اور کہا کہ روبیل کے پاس چلتے ہیں اور اس سے بھی مشورہ لیتے ہیں۔
روبیل جناب یونسؑ پر ایمان لانے والا وہ شخص تھا جو عالم فاضل، حکیم ہونے کے ساتھ ساتھ اہل بیتِ نبوّت سے تعلق رکھتا تھا۔ جناب یونسؑ تنوخا کے ہمراہ روبیل کے پاس تشریف لے گئے اور اس کو شوال کے وسط میں بدھ والے دن سورج نکلنے کے بعد آنے والے عذاب کی خبر دی۔ جناب یونسؑ نے فرمایا: اس بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟ چلو ہمارے ساتھ ہم قوم کو عذاب کی خبر سنائیں۔ روبیل نے یہ سُن کر کہا: اے یونسؑ آپ ایک حکیم و کریم نبی کی طرح اپنے ربّ کے پاس دوبارہ تشریف لے جائیں اور عذاب کے ٹلنے کا مطالبہ کریں، اللہ تعالی تو ان کے عذاب سے غنی و بے نیاز ہے اور وہ اپنے بندوں پر بہت مہربان و شفیق ہے، نہ اس سے آپ کو اللہ کے نزدیک کوئی ضرر پہنچے گا اور نہ آپ کی منزلت میں اس کے نزدیک کوئی کمی آئے گی، پھر ممکن ہے کہ آپ کی قوم شاید کسی دن آپ پر ایمان لے آئے، پس آپ ان کے کفر و تکذیب پر صبر کریں اور مہربانی و شفقت سے پیش آئيں۔
جب تنوخا نے دیکھا کہ روبیل عذاب کو ٹالنے اور حضرت یونسؑ کو منصرف کرنے کی کوشش کر رہا ہے تو جذباتی انداز میں کہنے لگا: تمہارا برا ہو کتنی بڑی بات تم نے کہہ دی، کیا تم نبی مرسل کو خبر دے رہے ہو؟! اللہ نے ان پر عذاب نازل کرنے کی وحی کی ہے اور تم اللہ کے قول کو ٹھکرا رہے ہو!! کیا تم اللہ اور اس کے رسول کے قول میں شک کر رہے ہو؟! جاؤ تمہارے سارے اعمال حبط کر لیے گئے ہیں۔ روبیل نے تنوخا کو جوابًا کہا: خاموش ہو جاؤ، تم ایک عبادت گزار شخص ہو جو حکمت و دانائی سے عاری ہے۔
روبیل بھر سے جناب یونسؑ کی طرف بڑھے اور کہا: اے یونسؑ اگر اللہ نے آپ کی قوم پر عذاب نازل فرمایا تو کیا یہ سب کے سب ہلاک ہو جائیں گے یا بعض ہلاک ہوں گے اور بعض بچ جائیں گے؟ یونسؑ نے فرمایا: سب کے سب ہلاک ہو جائیں گے۔ روبیل کے اس سوال نے جناب یونسؑ کے دل میں نرم گوشہ بیدا کر دیا اور وہ اللہ سے اپنی قوم کی معافی اور عذاب کی روک تھام کا سوچنے لگے۔ روبیل نے مزید کہا: اے یونسؑ شاید ایسا ہو جائے کہ لوگوں کو اللہ کے عذاب نازل ہونے کا احساس ہو تو وہ توبہ و استغفار کرنے لگ جائیں اور پلٹ آئیں اور اللہ تعالی ان پر رحم فرمائے بے شک وہ بہت ارحم الراحمین ہے، اور کیا معلوم اللہ عذاب کی خبر دینے کے بعد عذاب کو ان سے ٹال دے؟
جناب یونسؑ نے روبیل کا مشورہ قبول کرنے سے انکار کر دیا اور اس کے پاس سے چلے گئے اور تنوخا ان کے پیچھے پیچھے ہو اور دونوں بستی کو اس کے حال پر چھوڑ کر نکل کھڑے ہوئے۔ جناب یونسؑ ابھی کچھ دور ہی نکلے تھے کہ دوبارہ واپس لوٹے اور بستی والوں کو عذابِ الہی کی خبر دیتے ہوئے فرمایا کہ اللہ نے وحی نازل کی ہے کہ شوال کے وسط میں روزِ بدھ سورج نکلنے کے بعد تم لوگوں پر عذاب آئے گا، یہ سننا تھا کہ لوگوں نے آپؑ کی مزید تکذیب شروع کر دی اور ان کو بُرے طریقے سے علاقے سے باہر نکال دیا۔ جناب یونسؑ اور تنوخا بستی سے نکل گئے اور ان سے کچھ دور پہنچنے کے بعد انہوں نے ایک جگہ قیام کیا اور بستی والوں پر عذابِ الہی کا انتظار کرنے لگے۔ جبکہ روبیل بستی ہی میں مقیم رہا۔
جناب یونسؑ اور تنوخا کے چلے جانے کے بعد بستی والوں میں تنہا روبیل ان کے ہمراہ رہ گیا۔ جب ماہِ شوال آیا تو روبیل ایک پہاڑ کی بلندی پر چڑھا اور قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا: میں روبیل ہوں، تم پر نہایت شفیق و رحیم ہوں، تم لوگوں نے عذابِ الہی کا انکار کیا لیکن اب تو شوال آ گیا ہے اور تمہارے نبی یونس اور تمہارے رب کے رسول نے تمہیں خبر دی ہے کہ اللہ نے وحی نازل کی ہے کہ وہ تم پر اسی مہینے کے وسط میں بدھ والے دن سورج نکلنے کے بعد عذاب نازل کرے گا، اللہ ہر گز وعدہ خلافی نہیں کرتا۔۔ ذرا سوچو تو، عذاب گیا تو تم لوگ کیا کرو گے، روبیل نے اپنے کلام سے انہیں ڈرایا اور ان کے قلوب میں عذاب کے نازل ہونے کا خوف بٹھایا۔ لوگ تیزی سے روبیل کی طرف بڑھے اور کہنے لگے: (اے روبیل) تم حکمت سے آشنا عالم ہو اور ہمیں جناب یونسؑ نے اطلاع دی تھی لیکن تم بتاؤ اب ہم کیا کریں ؟ روبیل نے کہا میرا مشورہ یہ ہے کہ تم لوگ انتظار کرو اور جب اس مہینے کے وسط میں بدھ کی رات آئے تو سورج نکلنے سے پہلے تم سب چھوٹے چھوٹے بچوں، ضعیف بوڑھوں، مردوں و خواتین اور تمام مویشیوں اور ان کے بچوں کو لے کر پہاڑ کے نیچے نالوں کے راستے میں جمع ہو جاؤ، بچوں کو ماؤں سے جدا کر دو اور اسی طرح مویشیوں کے بچوں کو ان سے جدا کر دو، جب تم لوگ دیکھو کہ مشرق کی جانب سے زرد ہوائیں آ رہی ہیں تو اونچی اونچی چیخ پکار کرو اور اللہ کے سامنے تضرع کرو اور گڑگڑا کر توبہ و استغفار کرو اور اپنے سروں کو آسمان کی طرف اوپر کر لو اور بارگاہ الہی میں کہو: اے ہمارے ربّ ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اپنے نبی کو جھٹلایا، ہم اپنے ان گناہوں سے تیرے سامنے توبہ کرتے ہیں اور اگر تو نے ہماری مغفرت نہ کی اور ہم پر رحم نہ فرمایا تو ہم خسارہ و عذاب اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے، پس ہماری توبہ قبول فرما یا ارحم الراحمین۔ پھر اس آہ و بکاء و گریہ و فریاد سے بوریت و تھکاوٹ کا احساس نہ کرنا اور اسی طرح اللہ کی بارگاہ میں تضرع و آہ و زاری کرتے رہنا یہاں تک یا تو سورج حجاب میں چھپ جائے یا اس سے پہلے اللہ تمہارے اوپر سے عذاب کو ٹال دے۔
روبیل نے جیسا کہا تھا بستی والوں نے ویسا ہی کیا اور بدھ کر رات اپنی بستی سے باہر نکل کر پہاڑ کے نیچے نالوں کے راستوں پر آ گئے۔ جبکہ روبیل اس رات بستی چھوڑ کر دور چلا گیا کہ کہیں عذاب اس کو گھیر نہ لے۔ لیکن اتنی دور گیا کہ لوگوں کی آہ و بکاء اور نالہ و فریاد سن رہا تھا، پس جیسے ہی فجر کا وقت داخل ہوا لوگوں نے چیخ چلا کر اور نالہ و فریاد کرتے ہوئے توبہ و استغفار شروع کر دی۔ اتنے میں تیز ہوا کے جھکڑ چلنے لگے جو زرد اور سیاہ تھے اور انتہائی تیز رفتار، خوفناک اونچی آوازیں نکالتے ہوئے عذاب کی آمد کی خبر دے رہے تھے۔ جب لوگوں نے یہ دیکھا تو ان کی چیخ و پکار اور بلند ہو گئی اور بچے بوڑھے، پیر و جوان، مرد و زن اللہ کی بارگاہ میں توبہ اور استغفار کرنے لگے، بچے روتے ہوئے اپنی ماؤں کو پکار رہے تھے، مویشیوں کے بچے بھوک سے بلبلا رہے تھے، دیگر مویشی اپنے چارہ کو طلب کر رہے تھے۔ جناب یونسؑ اور تنوخا دور بستی میں لوگوں کی فریادوں کو سن رہے تھے اور دونوں مزید سخت عذاب کے نازل ہونے کی دعا کرنے لگے۔ جبکہ دوسری طرف روبیل ان کی چیخ و پکار پر عذاب کے ٹلنے اور لوگوں کی معاف کی دعا کر رہا تھا۔ یہاں تک سورج نکل آیا اور غضبِ الہی میں ٹھہراؤ پیدا ہوا اور آسمان کے دروازے کھول دیئے گئے۔ اللہ تعالی نے بستی والوں کی توبہ و استغفار کو قبول کر لیا اور ان سے عذاب کو ٹال دیا۔
قرآن کریم نے قوم یونسؑ کے ایمان لانے اور ان پر عذاب کے ٹل جانے کو اس طرح بیان کیا ہے:
فَلَوْ لا كانَتْ قَرْيَةٌ آمَنَتْ فَنَفَعَها إيمانُها إِلاَّ قَوْمَ يُونُسَ لَمَّا آمَنُوا كَشَفْنا عَنْهُمْ عَذابَ الْخِزْيِ فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَ مَتَّعْناهُمْ إِلى حين؛ پس ایسی بستی کیوں نہیں جو ایمان لاتی تو ان کا ایمان ان کو فائدہ پہنچاتا سوائے قومِ یونس کے، جب وہ ایمان لائے تو ہم نے حیاتِ دنیاوی میں پستی و ذلت کے عذاب سے انہیں چھٹکارا دے دیا اور ایک مدت تک انہیں زندگی سے لطف اندوز ہونے کا موقع دیا۔
[ترمیم]
اللہ تعالی کے عذاب سے کئی قومیں ہلاکت و تباہی کا شکار ہوئیں لیکن قوم یونسؑ کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ عین وقت پر ان کے ایمان نے ان کو فائدہ پہنچایا جیساکہ سورہ یونس آیت ۹۸ میں ذکر ہوا ہے کہ اللہ تعالی نے قومِ یونس پر عذاب چھا جانے کے بعد ان کی توبہ کو قبول کر لی اور ان سے عذاب کو ٹال دیا اور زندگی کی نعمات سے بہرہ مند کیا اور ایک معین مدت کے لیے انہیں دنیا میں نعمات کے ہمراہ باقی رکھا۔ یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ اللہ تعالی نے فرعون کے ایمان کے دعوؤں کو قبول نہیں کیا اور نہ ہی موت کے وقت کسی کی فریاد کو قبول کرنے کا کہا ہے جیساکہ قرآن کریم میں بیان ہوا ہے۔
پس اللہ تعالی نے عذاب کا دن معین کرنے کے بعد ان کی توبہ کیوں قبول کر لی ؟!
یہی سوال اصحاب آئمہؑ کا ہوتا تھا جیساکہ سماعہ یہی سوال لے کر امام صادقؑ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے اس بارے میں دریافت کیا۔ امام صادقؑ نے فرمایا: کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس پر عذاب چھا گیا ہو اور پھر اللہ نے عذاب کو ٹال دیا ہو سوائے قومِ یونسؑ کے۔ سماعہ نے پوچھا: کیا ان پر عذاب چھا گیا تھا؟ امامؑ نے فرمایا: بالکل، یہاں تک کہ انہوں نے اپنے ہتھیلیوں کو بلند کر کے نالہ و فریاد کی ۔ میں نے پوچھا: ایسا کیوں ہوا؟ آپؑ نے فرمایا: اللہ عز و جل کا وہ علم جو ثابت غیر متغیر ہے جس سے اللہ نے کسی کو باخبر نہیں کیا اس میں پہلے سے یہ موجود تھا کہ وہ ان سے عذاب کو ٹال دے گا۔ ایک اور روایت میں ابو بصیر نے یہی سوال امام صادقؑ سے پوچھا تو آپؑ نے فرمایا: اللہ عز و جل کے علم میں تھا کہ وہ ان لوگوں کی توبہ کرنے کی وجہ سے ان سے عذاب کو ٹال دے گا اور یونسؑ کو (اس کے برعکس) عذاب نازل ہونے کی خبر اس لیے دی تاکہ انہیں مچھلی کے پیٹ میں اللہ کی عبادت کرنے کی فراغت عطا ہو، اور یہ ان کے ثواب اور کرامت کا سبب بنے۔
[ترمیم]
روایات کے مطابق جب جناب یونسؑ نے محسوس کیا کہ لوگوں کی چیخ و پکار اور نالہ و فریاد ختم ہو گیا ہے اور سورج نکل آیا ہے تو وہ عذاب سے ہلاک و برباد قوم کا انجام دیکھنے کے لیے واپس بستی کی طرف پلٹے۔ لیکن انہوں نے عجیب منظر دیکھا کہ عذاب ٹل چکا ہے اور لوگ معمول کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ یہ منظر دیکھ کر تنوخا بستی میں واپس چلا گیا اور جناب یونسؑ نے سوچا کہ میں اگر واپس گیا تو لوگ مزید تکذیب کریں گے اور اب تو ان طعنوں کا اضافہ ہو جائے گا کہ عذاب کے دعوے کہاں گئے!! لہذا قوم پر عذاب نازل نہ ہونے کی وجہ سے وہ حالتِ غضب میں آ گئے اور اسی غضب کی حالت میں بستی سے واپس پلٹ گئے۔ پستی نے نکلنے کے بعد چلتے چلتے ساحلِ سمندر پہنچ گئے جہاں مسافروں سے بھری کشتی نکلنے کے لیے آمادہ تھی۔ آپؑ ان سے لے دے کر کشتی میں سوار ہو گئے۔ قرآن کریم نے اس طرف اس طرح سے اشارہ کیا ہے:
وَ ذَا النُّونِ إِذْ ذَهَبَ مُغاضِباً فَظَنَّ أَنْ لَنْ نَقْدِرَ عَلَيْهِ؛ اور ذو النون کو بھی رحمت سے نوازا جب وہ حالت غضب میں چل دیئے اور یہ گمان کر رہے تھے کہ ہم اس (قوم کو عذاب دینے) کی قدرت نہیں رکھتے۔
جب آپؑ کشتی میں سوار ہوئے اور کشتی ابھی کچھ ہی دیر چلی ہو گی کہ ایک دیو ہیکل مچھلی نے اس پر حملہ کر دیا جو کسی نہ کسی شخص کو کھانے کی کوشش میں تھی۔ کشتی والے جانتے تھے کہ اس مچھلی کا نوالہ ایک نہ ایک شخص کو تو بننا ہے ورنہ یہ دیوہیکل مچھلی پوری کشتی کو تباہ کر دے گی۔ کشتی والے سمجھ گئے کوئی ایسا فرد کشتی میں سوار ہوا ہے جس کی وجہ سے یہ آفت آن پڑی، لہذا ایسے شخص کو تلاش کرنے لگے۔ مچھلی کے لیے شخص کا انتخاب کرنے کے لیے انہوں نے قرعہ اندازی کا طریقہ اختیار کیا اور جب نام ڈالتے تو صرف جناب یونسؑ کا نام نکلتا۔ چار ناچار انہیں آپؑ کو مچھلی کے سپرد کرنا پڑا اور مچھلی فورا آپ کو ہڑپ کر گئی۔ قرآن کریم نے اس کی طرف اشارہ ان الفاظ میں کیا ہے:
إِذْ أَبَقَ إِلَى الْفُلْكِ الْمَشْحُون فَساهَمَ فَكانَ مِنَ الْمُدْحَضِين فَالْتَقَمَهُ الْحُوتُ وَ هُوَ مُليم؛ جب وہ بھری کشتی کی طرف بھاگے، تو انہوں نے آپس میں قرعہ ڈالا تو وہ مات کھانے والوں میں سے قرار پائے، پس مچھلی نے ان کو نگل لیا جبکہ وہ اپنے آپ کو ملامت کر رہے تھے۔
جناب یونسؑ مچھلی کے شکم میں کتنے دن رہے اس بارے میں مختلف اقوال ہیں۔ بعض کے مطابق ۳ دن اور بعض کے مطابق ۴ یا ۴۰ دن رہے اور کئی گھنٹے مسلسل عبادت و تسبیح میں مصروف رہے۔ امام رضاؑ سے تفسیر عیاشی میں روایت منقول ہے جس کے مطابق مچھلی آپؑ کو سات سمندروں میں لے کر گھومتی رہی اور تین دن تک آپؑ مچھلی کے پیٹ میں رہے۔
جب مچھلی نے جناب یونسؑ کو نگل لیا تو انہوں نے اللہ تعالی کی عبادت کی طرف پوری توجہ مبذول کر دی۔ دورانِ عبادت اللہ تعالی کی تسبیح کرتے رہے اور اللہ تعالی کو پکارتے رہے۔ یہاں تک کہ مچھلی کے شکم کی تاریکیوں میں شدید غم و اندوہ کا شکار ہو گئے اور اس مصیبت سے نجات کے لیے اللہ تعالی کو پکارنے لگے۔ قرآن کریم نے اس بارے میں ارشاد فرمایا ہے:
إِذْ نادى وَ هُوَ مَكْظُوم؛ اس وقت جب انہوں نے حالت غم و حزن میں (اپنے ربّ کو) پکارا۔
اس غم و اندوہ میں جناب یونسؑ کے جو کلمات تھے وہ قرآن کریم نے نقل کیے ہیں:
فَنادى فِي الظُّلُماتِ أَنْ لا إِلهَ إِلاَّ أَنْتَ سُبْحانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمينَ؛ پس انہوں نے اندھیروں میں پکارا کہ تیرے سوا کوئی الہ نہیں تو پاک و منزہ ہے بے شک میں ظالمین میں سے ہوں۔
اس آیت کریمہ میں موجود ذکر کو اہل سیر و سلوک ذکرِ یونسیہ سے تعبیر کرتے ہیں اور سالک کے لیے اس کا مخصوص تعداد میں پڑھنا ابتدائی وظیفہ قرار دیتے ہیں۔ روایات میں اس ذکر کو غم و اندوہ کا مداوی اور مشکلات و مصائب سے نکلنے کا حل قرار دیتے ہوئے تاکیدی طور پر پڑھنے کا حکم وارد ہوا ہے۔
اللہ تعالی نے جنابِ یونسؑ کی التجا سنی، ان کی دعا اور استغفار کو قبول فرمایا اور انہیں مچھلی کے شکم سے نجات عنایت فرمائی، جیساکہ ارشادِ باری تعالی ہوتا ہے:
فَاسْتَجَبْنا لَهُ وَنَجَّيْناهُ مِنَ الْغَمِّ وَ كَذلِكَ نُنْجِي الْمُؤْمِنين؛ پس ہم نے ان (کی دعا) مستجاب فرمائی اور ہم نے ان کو غم سے نجات دی اور اسی طرح ہم مومنین کو نجات دیتے ہیں۔
جب وہ مچھلی کے پیٹ سے باہر آئے تو انتہائی ضعیف، ناتوان اور کمزور ہو چکے تھے اور نقاہت کی وجہ سے نہ أٹھ سکتے تھے اور نہ چل سکتے۔ اس کا تذکرہ قرآن کریم نے اس طرح سے کیا ہے:
فَنَبَذْناهُ بِالْعَراءِ وَ هُوَ سَقِيم وَ أَنْبَتْنا عَلَيْهِ شَجَرَةً مِنْ يَقْطِين؛ پھر ہم نے بیمار کمزور حالت میں انہیں بے آب و گیاہ چٹیل زمین پر لا پھینکا اور ان پر کدو کادرخت اگا دیا (تاکہ وہ ان پر سایہ کرے)۔
ساحل پر اللہ تعالی نے درخت اگا دیا جس پر کدو کی بیل چڑھائی گئی تاکہ اس کے بڑے بڑے پتوں کے سایے میں آپؑ رہیں۔ اس کو چوس کر آپؑ اپنی خوراک کا اہتمام کرتے اور اس کے بڑے پتوں کے ذریعے سورج کی تپش سے محفوظ رہتے۔ مچھلی کے شکم میں رہنے کی وجہ سے آپؑ کے بال جھڑ گئے تھے اور جلد انتہائی نازک باریک ہو گئی تھی۔ آپؑ ساحل پر اسی حالت میں چند دن پڑے رہے اور دن رات اللہ تعالی کی عبادت و تسبیح میں مشغول رہے۔ یہاں تک کہ آپ کے بدن میں قوت لوٹ آئی اور جلد و بدن قوی ہونے لگا۔
امالی میں روایت وارد ہوئی ہے جس کے مطابق جناب یونسؑ کو مچھلی کے پیٹ سے نجات ذی العقدۃ کے مہینے میں عنایت ہوئی۔
اس کے مقابلے میں ایک قول یہ ہے کہ روز عاشور آپؑ کو نجات حاصل ہوئی اور اسی دن قومِ یونسؑ سے عذاب ٹلا۔
لیکن یہ بات اس لیے قابل قبول نہیں ہے کیونکہ یہ مسلم ہے کہ جناب یونسؑ ایک سال قوم سے غائب نہیں رہے، پس یہ دونوں واقعات ایک دن رونما نہیں ہو سکتے۔ نیز بعض روایات میں وارد ہوا ہے کہ اللہ تعالی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کے طفیل جس طرح آدمؑ کو نجات دی اسی طرح ان کے وسیلے سے جناب یونسؑ کو مچھلی کے پیٹ سے نجات دی۔
قرآن کریم کے مطابق اگر جناب یونسؑ اپنی زندگی مں اہل تسبیح و مناجات نہ ہوتے تو تا قیامت مچھلی کے پیٹ میں رہتے۔ آپؑ کا پاکیزہ زندگی بسر کرنا اور اہل عبادت و اطاعت میں سے ہونا خصوصا جب آزمائش میں گرفتار ہوئے اس وقت اپنے آپ کو عبادات کے لیے خاص قرار دینے کی وجہ سے اللہ تعالی نے آپؑ کی دعا کو مستجاب فرمایا۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:
فَلَوْ لا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِين لَلَبِثَ فِي بَطْنِهِ إِلى يَوْمِ يُبْعَثُون؛ پس اگر وہ تسبیح کرنے والوں میں سے نہ ہوتے تو مبعوث کیے جانے والے دن تک اس (مچھلی) کے شکم میں ٹھہرے رہتے۔
ان آیت کریمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مچھلی کے شکم سے نجات کا سبب ان کی عبادت اور تسبیح تھا۔ پس اگر وہ تمام خلقت سے رُخ پھیر کر اللہ تعالی کی طرف رجوع نہ کرتے تو جس طرح تا قیامت تک مردے قبر میں پڑے رہتے اسی طرح جناب یونسؑ مچھلی کے پیٹ میں مقیم رہتے۔
خصال میں
شیخ صدوق نے روایت نقل کی ہے جس میں آپؑ کے لیے مچھلی کا پیٹ چلتی پھرتی قبر قرار دیا گیا ہے۔
مچھلی کے پیٹ سے باہر آنے کے بعد دو طرح کی زندگی متصور تھی : ایک زندگی قابل مذمت اور دوسری قابل عزت و رفعت۔ اللہ تعالی نے انہیں قابل عزت و رفعت اور نبوت کے وظائف کے ہمراہ دوبارہ زندگی عنایت فرمائی اور اپنی نعمت کے ذریعے گذشتہ مسائل کا تدارک اور جبران فرمایا۔ سورہ قلم میں ارشاد ہوتا ہے:
لَوْ لا أَنْ تَدارَكَهُ نِعْمَةٌ مِنْ رَبِّهِ لَنُبِذَ بِالْعَراءِ وَ هُوَ مَذْمُوم؛ اگر اس کے ربّ کی نعمت (توبہ) اس کا تدارک و سدباب نہ کرتی تو وہ اس کو قابل مذمت حالت میں چٹیل میدان میں پھینک دیتا۔
لیکن انہوں نے عبادات و توبہ و استغفار کی جس کی وجہ سے اللہ تعالی نے ان پر رحمت و نعمت عنایت فرمائی اور ان کو غیر مذموم حالت میں مچھلی کے پیٹ سے نکالا۔ گویا اللہ تعالی نے مچھلی کے پیٹ سے نکال کر تدارک اور جبران کیا کہ اگر یہ تدارک اور جبران نہ ہوتا تو وہ قابل مذمت حالت میں گرفتار رہتے، جیساکہ سورہ صافات آیت ۱۴۴ سے معلوم ہوتا ہے۔ جب نعمت سے تدارک کر دیا گیا تو اللہ تعالی نے انہیں چن لیا اور انہیں اپنی قوم میں واپس اسی عظمت و شان و رفعت اور نبوت کی بلندیوں کے ساتھ پلٹا دیا، جیساکہ ارشادِ باری تعالی ہوتا ہے:
فَاجْتَباهُ رَبُّهُ فَجَعَلَهُ مِنَ الصَّالِحِين؛ پس ان کے ربّ نے ان کو چن لیا پھر ان کو صالحین میں سے قرار دیا
۔
[ترمیم]
جناب یونسؑ کو مچھلی کے پیٹ میں رکھا جانا اور تضرع و فریاد کرنے کی بناء پر وہاں سے نجات کا ملنا کسی گناہ یا معصیت کی بناء پر نہیں تھا۔ انبیاء علیہم السلام پر اس طرح کی آزمائشیں یا بارگاہ الہی میں اپنے آپ کو گناہ گار و معصیت کار سمجھنا ان کی عصمت کے منافی نہیں ہے۔ اگر کلامی نکتہ نظر سے بات کریں تو کہا جا سکتا ہے کہ یہ آزمائشیں ترکِ اولی کی بناء پر تھیں کہ زیادہ بہتر اور اولی یہ تھا کہ جناب یونسؑ اس حالتِ غضب میں بستی سے نہ جاتے۔ ترکِ اولی کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اولی اور بہتر عمل کو ترک کر دیا جائے۔ اگرچے ترکِ اولی گناہ و معصیت نہیں ہے لیکن اس کے باوجود اللہ تعالی نے ترکِ اولی کی بناء پر پکڑ کی ہے۔
پس جناب یونسؑ سے کوئی گناہ سرزد نہیں ہوا کیونکہ روایات کے مطابق اللہ تعالی نے عذاب نازل ہونے کی وحی کی تھی اور کوئی خصوصی حکم جناب یونسؑ کے لیے تجویز نہیں کیا تھا۔ لہذا جناب یونسؑ حکمِ الہی کا انتظار کیے بغیر بستی کو ترک کر کے چلے گئے۔ ان کا بستی سے چلے جانا گناہ نہیں تھا کیونکہ قرآن کریم اور روایات میں ان کے لیے ایسی کوئی نہی یا ممانعت وارد نہیں ہوئی جس کی مخالفت انہوں نے کی ہو اور ان کو معاذ اللہ معصیت کار قرار دیا جا سکے۔
بعض اوقات آیات سے چند شبہات کو ایجاد کیا جاتا ہے، مثلا آیت کریمہ میں ہے:
وَ ذَا النُّونِ إِذْ ذَهَبَ مُغاضِباً فَظَنَّ أَنْ لَنْ نَقْدِرَ عَلَيْهِ؛
اس آیت میں یہ شبہ پیدا کیا جاتا ہے کہ جناب یونسؑ نے یہ سمجھا کہ اللہ تعالی اصلا عذاب دینے کی قدرت اور طاقت نہیں رکھتا !! سید مرتضی علم الہدی اس شبہ کا جواب دیتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ یہاں قدر کے معنی قدرت نہیں بلکہ شیء کو تنگ کرنا کے ہیں جیساکہ قرآن کریم کی بعض آیات میں قدر بمعنی تنگی کے وارد ہوا ہے:
اللَّهُ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشاءُ وَ يَقْدِر؛ اللہ اپنی مشیت کے تحت جس کے لیے چاہتا ہے رزق کو وسیع کر دیتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے۔
اس موضوع کی آیات متعدد ہیں جن میں یقدر حرفِ جر
عَلَی اور بدونِ حرف جر رزق تنگی کے معنی میں آیا ہے۔ پس یہاں بھی یہی معنی مراد لیا جائے گا۔ لہذا اللہ تعالی نے ان کو مچھلی کے پیٹ میں مقید کر کے رزق ان پر تنگ کر دیا۔
آئمہ اہل بیتؑ سے وارد ہونے والی روایات میں بھی اسی طرح دو قسم کی تفسیر وارد ہوئی ہے جو ان کی عصمت کو بیان کرتی ہے:
۱۔ ظن اور قدر سے مراد جناب یونسؑ کا یہ سمجھنا تھا کہ ان کا بستی سے حالتِ غضب میں چلے جانے پر اللہ تعالی ان کی پکڑ نہیں کرے گا، جیساکہ امام باقرؑ سے روایت یہ مطلب وارد ہوا ہے۔
۲۔ جناب یونسؑ نے یہ گمان کیا کہ اللہ تعالی ان پر رزق کو تنگ نہیں کرے گا، جیساکہ امام رضاؑ سے امالی شیخ صدوق میں نقل ہوا ہے۔
پس ان معتبر کتب میں وارد ہونے والی روایات سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ جناب یونسؑ اپنی قوم پر غضبناک ہوئے اور وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ اللہ تعالی ان پر رزق تنگ نہیں کرے گا۔ یہ نکات چونکہ
لغت عربی، قرآن کریم میں لفظ قدر کے استعمال اور روایات کے مضامین کے عین مطابق ہیں اس لیے اگر کسی جگہ اس مطلب کے برخلاف معنی مذکور ہو تو وہ قبول نہیں کیا جائے گا۔
اسی طرح جناب یونسؑ اللہ تعالی پر غضبناک نہیں ہوئے بلکہ ان کا غصہ و غضب بستی والوں پر ان کے برے سلوک، طعنہ تشنیع، تکذیب و استہزاء اور آپؑ سے دشمنی کرتے ہوئے قتل و غارت کی سازشوں کی وجہ سے تھا۔ انہوں نے جب دیکھا کہ بستی والوں پر عذاب نازل نہیں ہوا اور ان کی معمول کی زندگی دیکھ کر انہیں بستی والوں کی تکذیب و تذلیل اور برا سلوک یاد آ گیا اور انہیں محسوس ہوا کہ اب وہ بستی والوں کا سامنا کریں گے تو پہلے سے زیادہ شدید طریقے سے وہ آپؑ سے ناروا برتاؤ کریں گے۔ اس سوچ نے جناب یونسؑ کو غصہ و غضب کا شکار کر دیا اور آپ اسی حالت میں بستی سے رخ پھیر کر پلٹ گئے۔ پس ان کا غصہ و غضب اپنی قوم پر تھا نہ کہ رب العالمین پر۔
تفسیر عیاشی میں ایسی تعبیر استعمال ہوئی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے ربّ کی وجہ سے قوم پر غضبناک ہوئے۔
پس اللہ تعالی کی محبت اور اطاعت کی وجہ سے انہوں نے اپنی قوم کی نافرمانیوں اور سرکشی و بغاوت پر غصہ کیا اور بستی سے چلے گے۔ اس عمل کو اللہ تعالی نے ناپسند جانا لہذا اس کو ترکِ اولی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
اس جگہ ہم ان روایات سے بھی استفادہ کر سکتے ہیں جو بتاتی ہیں کہ اللہ تعالی کی تدبیر یہ تھی کہ جناب یونسؑ اللہ تعالی کی عبادت کے لیے کچھ عرصہ اپنی قوم سے کامل دور رہیں اور صرف عبادات و مناجات و تسبیح و ذکر میں مشغول رہیں۔ چنانچہ وہ اللہ تعالی کی تدبیر کے مطابق بستی سے نکلے اور اس وقت وہ قوم کی سرکشی اور شرک و فسق کی بناء پر غضبناک تھے۔
امام جعفر صادقؑ سے ایک روایت میں وارد ہوا ہے کہ اللہ تعالی نے حضرت یونسؑ کو قوم پر عذاب کے ٹل جانے کی خبر اس لیے نہیں دی تاکہ انہیں مچھلی کے شکم میں اپنی عبادت کے لیے فراغت عنابت فرمائے اور یہ عمل ان کے شرف و کرامت میں مزید اضافہ کا سبب قرار پائے۔
عقلی براہین کے علاوہ ان سب شواہد اور دلیلوں سے واضح ہوا کہ جناب یونسؑ نے کسی قسم کا گناہ نہیں کیا اور اللہ کی خاطر قوم کی بغاوت و سرکشی پر غضبناک ہوئے۔ عربی زبان کے قواعد اور روایات کی تصریح سے وہ تمام شبہات دور ہو جاتے ہیں جو جناب یونسؑ کی عصمت کو مخدوش کرنے کے لیے اٹھائے جاتے ہیں۔ نیز ان شواہد اور ادلہ سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ اگر کوئی روایت یا قول ایسا آئے جو انہی آیات سے جناب یونسؑ کی عصمت کی نفی کر رہی ہو تو وہ معتبر روایات، قواعدِ عربی کی رعایت اور الفاظ کے قرآنی استعمال کی روشنی کی بناء پر قابل قبول نہیں جیساکہ الکافی
میں
یعصی اللہ کے الفاظ وارد ہوئے ہیں جن کی شرح میں علامہ مجلسی نے ترک اولی اور افضل کو چھوڑنا مراد لیا ہے جس کو مجازًا عصیان سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
چنانچہ اس طریقے سے ایسے شواہد جو مندرجہ بالا معانی سے ٹکراتے ہیں کو غور و فکر کر کے قرآن اور معتبر احادیث کے مطالب کے ساتھ قابل جمع کرنا چاہیے ۔
بعض ایسی روایات مثلا بصائر الدرجات
مي، وارد ہوا ہے کہ اللہ تعالی نے اس لیے یونسؑ کو مچھلی کے شکم میں محبوس کیا کیونکہ انہوں نے امیر المؤمنینؑ کی ولایت کا انکار کیا، تو ان کی جہاں سند ضعیف ہونے کی وجہ سے روایت قابل قبول نہیں ہے وہاں وہاں دلالتِ معنی کے اعتبار سے بھی قابل اعتراض ہے۔ کیونکہ یہ روایت معتبر احادیث اور قرآن کریم کی واضح آیات سے ٹکراتی ہے اور آئمہؑ سے صحیح احادیث میں وارد ہوا کہ حدیث کو جانچنے کے لیے انہیں قرآن بر پیش کرو کیونکہ دشمنانِ اہل بیتؑ نے بہت سی روایات کو گھڑ کر معاشرے میں پھیلا دیا اس لیے اس معیار کو اختیار کرنا ضروری ہے۔
قرآن کریم نے صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے کہ اللہ تعالی نے جناب یونسؑ کو نبی مرسل قرار دیا اور انہیں فضیلت عنایت فرمائی۔ رسول اللہؐ کے دور میں بعض آپؐ کو جناب یونسؑ سے برتری دیتے تو آپؐ نے ایسا کرنے سے منع فرما دیا۔ بلاشک و شبہ اللہ تعالی نے رسول اللہؐ کو سید المرسلین وخاتم النبیین قرار دیا اور تمام خلقت پر فضیلت دی لیکن آپؐ ہمیشہ تواضع کا اظہار فرماتے اور اس توہم کو بھی دور فرماتے کہ انبیاءؑ میں کسی کو معاذ اللہ حقیر و پست خیال نہ کیا جائے۔ شيعہ و سنی دونوں کتب میں آنحضرتؐ سے روایت نقل ہوئی ہے کہ امام جعفر صادقؑ فرماتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا:
مَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ أَنْ يَقُولَ أَنَا خَيْرٌ مِنْ يُونُسَ بْنِ مَتَّى؛ کسی کو یہ نہیں کہنا چاہیے کہ میں یونس بن متَّی سے بہتر ہوں۔
اس کی تائید قرآن کریم کی ان آیات سے بھی ہوتی ہے جن میں وارد ہوا ہے کہ نبوت و رسالت کی ذمہ داریوں کے اعتبار سے کسی نبی کا دوسرے نبی سے کوئی فرق نہیں ہے۔ اگرچے انبیاء و رسلؑ کے درجات مختلف ہیں اور بعض دیگر بعض سے ان مقامات و منازل میں بلند تر اور افضل ہیں لیکن ذمہ داری اور مسئولیت کی ادائیگی کے اعتبار سے کسی نبی کا دوسرے کے ساتھ کوئی فرق نہیں ہے۔ نیز اللہ تعالی دیگر انبیاءؑ کی طرح جناب یونسؑ کو بھی تمام خلقت پر فضیلت دی ہے۔ چنانچہ قرآن کریم نے نام لے کر جناب یونسؑ کی فضیلت کو ذکر کیا ہے، جیساکہ ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:
وَ إِسْماعيلَ وَ الْيَسَعَ وَ يُونُسَ وَ لُوطاً وَ كلاًّ فَضَّلْنا عَلَى الْعالَمين؛ اور اسماعیل و یسع و یونس و لوط اور ان میں ہر ایک کو ہم نے عالمین پر فضیلت دی ہے۔
[ترمیم]
اہل تشیع اور اہل تسنن ہر دو کتب میں وارد ہوا کہ رسول اللہؐ اس دعا کو پڑھا کرتے تھے:
اَللّهُمَّ لا تَكِلْنِی اِلی نَفْسی طَرْفَة عَینٍ اَبَداً؛ بارِ الہا! آنکھ جھپکنے کی مقدار تک بھی مجھے کبھی اپنی نفس کے حوالے نہ کرنا۔
اس کی وجہ روایات اس طرح وارد ہوئی ہے کہ اللہ تعالی نے ایک لحظہ کے لیے جناب یونسؑ کو ان کے نفس کے حوالے کیا تھا پھر جو ہوا سو ہو گیا اس لیے رسول اللہؐ اور آئمہؑ کثرت سے یہ دعا مانگا کرتے تھے۔ امام صادقؑ سے روایت میں وارد ہوا ہے کہ جناب ام سلمہؓ بیان کرتی ہیں کہ میں نے ایک دن رسول اللہؐ کی دعاؤں میں اس دعا کو سنا تو اس بارے میں پوچھا، آپؐ نے فرمایا: میں کیسے اپنے آپ کو محفوظ سمجھو جبکہ اللہ نے یونس بن متّی کو ایک لحظہ کے لیے ان کے نفس پر چھوڑا تھا پھر جو ہونا تھا وہ ہو گیا۔
الکافی میں روایت وارد ہوئی ہے جس میں اسی دعا کے ذیل میں امام صادقؑ نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے ایک لحظہ سے بھی کم مدت کے لیے جناب یونسؑ کو ان کے نفس پر چھوڑ اور یہ حادثہ وقوع پذیر ہو گیا، راوی نے پوچھا کیا انہوں نے (معاذ اللہ) کفر کیا ؟ امامؑ نے فرمایا: اللہ تیری اصلاح فرمائے، نہیں، انہوں نے کفر نہیں کیا، لیکن اگر اسی حالت میں موت ہو جاتی تو ہلاکت برپا ہو جاتی۔
[ترمیم]
[ترمیم]
ویکی فقہ اردو کی طرف سے اکثر و بیشتر حصہ ایجاد کیا گیا ہے۔
سایت اندیشہ قم، ماخوذ از مقالہ زندگی حضرت یونس (علیہ السلام) و قوم او، تاریخ لنک ۱۳۹۶/۲/۱۶۔