حکم وضعی

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



حکم وضعی حکم تکلیفی کے مقابلے میں ہے۔ ان احکام کو احکام وضعی کہا جاتا ہے جو غالبًا حکم تکلیفی کے لیے موضوع واقع ہوتے ہیں۔ حکم وضعی میں مکلف کی شرائطِ تکلیف كا پایا جانا ضروری نہیں ہے ۔ اس کے برخلاف حکمِ تکلیفی شرائطِ تکلیف سے مقید ہے۔ اس اعتبار سے حکم وضعی اس شخص پر بھی جاری ہوتے ہیں جن میں تکلیف کی شرائط نہیں پائی جاتیں۔


حکم وضعی کی تعریف

[ترمیم]

ہر وہ حکم شرعی جو حکم تکلیفی نہ ہو حکم وضعی کہلاتا ہے۔

← حکم وضعی اور حکم تکلیفی میں فرق


حکم وضعی کا حکم تکلیفی سے یہ فرق ہے کہ حکم تکلیفی براہ راست مکلف کے فعل سے مربوط ہوتا ہے، مثلا وجوب نماز، حرمتِ ظلم وغیرہ۔ اس کے برخلاف حکم وضعی مکلف کے فعل سے براہ راست مربوط نہیں ہوتا بلکہ غیر مستقیم تعلق قائم کرتا ہے، مثلا وہ احکام جو زوجیت کے تعلق کو برقرار رکھنے اور اس کو منظم کرنے کا وظیفہ انجام دیتے ہیں۔

اس نوعیت کے احکام زوجین (شوہر اور بیوی) کے درمیان براہ راست خاص قسم کا رابطہ ایجاد کرتے ہیں اور غیر مستقیم طریقے سے ہر دو پر اثر انداز ہوتے ہیں؛ کیونکہ شوہر اور زوجہ جب زوجیت کے بندھن میں بندھ جاتے ہیں اور زوجیت کو قبول کر لیتے ہیں تو ان پر خاص قسم کے اعمال انجام دینا اور معین برتاؤ کرنا لازمی ہو جاتا ہے۔

احکامِ تکلیفی اور احکام وضعی کے درمیان باہمی طور پر بہت قریبی تعلق پایا جاتا ہے؛ کیونکہ ہمارے پاس کوئی ایسا حکم وضعی موجود نہیں ہے جس کے پہلو میں کوئی حکم تکلیفی موجود نہ ہو، مثلا زوجیت حکمِ شرعی وضعی ہے لیکن اس کے پہلو میں متعدد احکامِ تکلیفی موجود ہیں، جیسے شوہر پر نان نفقہ کا وجوب، زوجہ کا جنسی امور کی انجام دہی کے لیے اپنے آپ کو شوہر کے حوالے کرنے کا وجوب، جسے وجوبِ تمکین سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ملکیت حکمِ شرعی وضعی ہے جس کے پہلو میں متعدد احکامِ تکلیفی موجود ہیں، جیسے مالک کی اجازت کے بغیر اس کے مال میں تصرّف کرنے کی حرمت وغیرہ۔

← حکم وضعی کہنے کی وجہ


اس نوعیت کے احکامِ شرعیہ کو اس لیے احکامِ وضعی کہا جاتا ہے کیونکہ بالعموم یہ احکامِ تکلیفی کے لیے موضوع واقع ہوتے ہیں۔ اصول فقہ میں اس عنوان سے بحث کی جاتی ہے جبکہ علم فقہ میں متعدد ابواب جیسے حج، نکاح وغیرہ میں اس عنوان کی تطبیقی مباحث مطرح کی جاتی ہیں۔

حکم وضعی کو آیا مستقل طور پر جعل کیا گیا ہے یا تبعیت میں؟

[ترمیم]

یہاں یہ سوال ابھرتا ہے کہ آیا حکمِ وضعی کو مستقل طور پر جعل و ایجاد کیا گیا ہے یا ایسا نہیں ہے بلکہ اس کو احکامِ تکلیفی سے اخذ کیا گیا ہے جسے اصطلاح میں کہا جاتا ہے کہ حکم وضعی کو حکمِ تکلیفی کی تبع میں جعل کیا گیا ہے؟ یا ہر دو باتیں درست نہیں بلکہ احکامِ وضعی دو قسم کے ہیں؟ پس اس طرح سے ہمارے پاس تین قول آ جاتے ہیں:
۱۔ حکمِ وضعی کو شارع نے مستقل طور پر جعل کیا ہے مثل حکمِ تکلیفی کہ وہ مستقل پر جعل ہوئے ہیں۔
۲۔ حکمِ وضعی کو مستقل طور پر نہیں بلکہ احکامِ تکلیفی کی تبع و اتباع میں جعل کیا گیا ہے، یعنی حکمِ تکلیفی سے حکم وضعی کو اخذ کیا جاتا ہے۔
۳۔ تیسرے قول کے مطابق حکمِ وضعی دو قسم کے ہیں:
- ایک وہ حکمِ وضعی ہیں جنہیں مستقل طور پر جعل کیا گیا ہے اور وہ حکمِ تکلیفی کے لیے موضوع بنتے ہیں، جیسے زوجیت، ملکیت، حجیت، قضاوت، نیابت، حریت اور رقیت یعنی غلامی وغیرہ۔ اس قسم میں حکم وضعی موضوع بنتا ہے جس کی بناء پر حکم تکلیفی جاری ہوتا ہے۔

- دوسرے وہ حکم وضعی ہیں جنہیں حکمِ تکلیفی سے حاصل کیا جاتا ہے، جیسے شرطیت، مانعیت، سببیت، علّیت وغیرہ۔ ان مثالوں پر دقت کریں تو معلوم ہو گا کہ احکامِ تکلیفی یا ان کے متعلق کو جب کسی شیء کے وجود کے ساتھ مقید کیا جاتا ہے یا ان کو کسی شیء کے نہ ہونے کے ساتھ مقید کیا جاتا ہے تو اس وقت یہ عناوین ہمارے سامنے آتے ہیں، مثلا جب حکمِ تکلیفی کو کسی چیز کے وجود کے ساتھ مقید کیا جائے تو اس سے سببیت، علیت، شرطیت وغیرہ اخذ کیے جاتے ہیں، اسی طرح جب حکم تکلیفی کے لیے کسی شیء کے عدم اور نہ ہونے کے ساتھ مشروط قرار دیا جاتا ہے تو اس وقت اس سے مانعیت کے حکم کو اخذ کیا جاتا ہے۔

پس بعض فقہاء قائل ہیں کہ حکمِ وضعی کو مستقل طور پر جعل کیا گیا ہے جیساکہ اوپر مثالیں ذکر کی گئی ہیں۔ ان کے مقابلے میں بعض قائل ہیں کہ حکمِ تکلیفی کی تبعیت میں حکمِ وضعی کو جعل کیا گیا ہے، جیسے شرطیت، جزئیت، مانعیت، تیسرا قول یہ ہے کہ حکمِ وضعی کو نہ مستقل طور پر جعل کیا گیا ہے اور نہ حکمِ تکلیفی کی تبعیت میں بلکہ حکمِ وضعی کو ان کے موضوعات کی اتباع میں تکوینی طور پر جعل کیا گیا ہے، مثلا سببیت مطلقا، حکمِ تکلیفی کی نسبت سے شرطیت و مانعیت وغیرہ۔ پس مکلف بہ کے اعتبار سے تکلیف کے متعلق ہونا ایک اختلافی مسئلہ ہے۔

احکامِ وضعی کی تعداد

[ترمیم]

احکامِ وضعی کی کوئی معین تعداد نہیں بیان کی جا سکتی، بلکہ شارع کی جانب سے یہ مستقل طور پر یا حکمِ تکلیفی کی تبع میں جعل کیے جاتے ہیں اور ان احکامِ وضعی کو پانچ حکمِ تکلیفی میں سے شمار نہیں کیا جاتا۔ اگرچے بعض محققین نے احکامِ وضعی کو شمار کرتے ہوئے سببیت، شرطیت اور مانعیت؛ جبکہ بعض علماء نے علیت اور علامت کا اضافہ کر کے پانچ اور بعض نے صحت، فساد، رخصت و عزیمت کو شمار کر کے نو موارد حکمِ وضعی کے قرار دیئے ہیں۔

حکم وضعی کے متحقق ہونے کی شرائط

[ترمیم]

حکم وضعی حکمِ تکلیفی کی مانند شرائطِ تکلیف سے مقید و مشروط نہیں ہے، اس اعتبار سے حکمِ وضعی اس شخص پر پھی جاری ہو جاتا ہے جو تکلیف کی شرائط سے عاری ہے، مثلا نا بالغ بچے یا کنواری لڑکی کا ولی کے توسط اور اس کی اجازت سے ازدواج کرنا، یا بچے کے اس مال کی ملکیت جو اس بچے کو بخش دیا گیا ہے، اس صورت میں ضامن بننا جب بچہ کسی دوسرے کا نقصان کرے یا بچے یا دیوانے کا جنسی عمل کو انجام دینے کی وجہ سے مجنب ہو جانا وغیرہ۔
[۸] تحریر، المجلّۃ ۲، قسم ۱ ،ص۱۴۱۔
[۹] الإحصار و الصّد ،ص۱۸۵۔
[۱۰] احکام الرضاع، ص۱۵۹۔
[۱۱] براہین الحج، ج۲ ،ص۴ -۵۔


حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. المعالم الجدیدة للأصول، صدر، سید محمد باقر، ج۱،ص۱۰۰۔    
۲. دروس فی اصول فقہ الامامیۃ، فضلی، شیخ عبد الہادی، ص۳۹۷۔    
۳. اصطلاحات الاصول، مشکینی، شیخ علی، ص۱۲۱۔    
۴. الاصول العامۃ للفقہ المقارن، حکیم، سید محمد تقی، ج۱، ص۶۹ تا۷۱۔    
۵. درر الفوائد (آخوند)، محقق خراسانی، محمد کاظم، ص۳۲۵ تا۳۲۹۔    
۶. الاصول العامۃ للفقہ المقارن، حکیم، سید محمد تقی، ج۱، ص۶۸ -۶۹۔    
۷. منتہی الاصول، روحانی، محمد حسین، ج۲،ص۳۹۶۔    
۸. تحریر، المجلّۃ ۲، قسم ۱ ،ص۱۴۱۔
۹. الإحصار و الصّد ،ص۱۸۵۔
۱۰. احکام الرضاع، ص۱۵۹۔
۱۱. براہین الحج، ج۲ ،ص۴ -۵۔


مأخذ

[ترمیم]

فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت علیہم السلام، ج۳، ص۳۶۰ تا ۳۶۲۔    


اس صفحے کے زمرہ جات : حج | حکم شرعی کی اقسام | فقہی اصطلاحات | نکاح




جعبه ابزار