زیارت امام حسینؑ (سیرت معصومینؑ)

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



امام حسینؑ، شیعہ امامیہ کے بارہ آئمہؑ اور چودہ معصومینؑ میں سے ایک ہیں۔ معصومینؑ کی سیرت اور متعدد روایات میں امام حسینؑ کی زیارت پر بہت تاکید کی گئی ہے۔ اس تحریر میں امام حسینؑ کی زیارت کے حوالے سے معصومینؑ کی سیرت اور ان سے منقول زیارات پر بحث کی گئی ہے۔

فہرست مندرجات

۱ - مقدمہ
۲ - پیغمبر اکرمؐ کی سیرت
۳ - امیر المؤمنین کی سیرت
۴ - حضرت فاطمہؑ کی سیرت
       ۴.۱ - پہلی روایت
       ۴.۲ - دوسری روایت
۵ - امام حسنؑ کی سیرت
۶ - امام حسینؑ کی سیرت
       ۶.۱ - پہلی روایت
       ۶.۲ - دوسری روایت
۷ - امام سجادؑ کی سیرت
۸ - امام باقرؑ کی سیرت
       ۸.۱ - پہلی روایت
       ۸.۲ - دوسری روایت
       ۸.۳ - تیسری روایت
۹ - امام صادقؑ کی سیرت
       ۹.۱ - پہلی روایت
       ۹.۲ - دوسری روایت
       ۹.۳ - زیارتِ اربعین پر تیسری روایت
       ۹.۴ - چوتھی روایت
       ۹.۵ - پانچویں روایت
       ۹.۶ - چھٹی روایت
       ۹.۷ - ساتویں روایت
       ۹.۸ - آٹھویں روایت
       ۹.۹ - نویں روایت
       ۹.۱۰ - دسویں روایت
       ۹.۱۱ - گیارہویں روایت
       ۹.۱۲ - بارہویں روایت
       ۹.۱۳ - تیرہویں روایت
       ۹.۱۴ - چودہویں روایت
       ۹.۱۵ - پندرہویں روایت
       ۹.۱۶ - سولہویں روایت
       ۹.۱۷ - سترہویں روایت
       ۹.۱۸ - اٹھارہویں روایت
       ۹.۱۹ - انیسویں روایت
       ۹.۲۰ - بیسویں روایت
       ۹.۲۱ - اکیسویں روایت
۱۰ - امام کاظمؑ کی سیرت
       ۱۰.۱ - پہلی روایت
       ۱۰.۲ - دوسری روایت
۱۱ - امام‌ رضاؑ کی سیرت
       ۱۱.۱ - پہلی روایت
       ۱۱.۲ - دوسری روایت
۱۲ - امام‌ ہادیؑ کی سیرت
۱۳ - امام حسن عسکریؑ کی سیرت
۱۴ - امام زمانہؑ کی سیرت
۱۵ - نتیجہ
۱۶ - حوالہ جات
۱۷ - ماخذ

مقدمہ

[ترمیم]

امام حسینؑ کی زیارت ان امور میں سے ہے کہ جن پر روایات کے اندر بہت تاکید کی گئی ہے۔ اس بارے میں اہل بیتؑ نے لوگوں کو صرف زبانی تلقین و تشویق کرنے پر اکتفا نہیں کیا ہے بلکہ جب بھی حالات سازگار ہوتے تو حضرتؑ کی زیارت کیلئے بذات خود جایا کرتے تھے اور عملی طور پر بھی حضرت امام حسینؑ کی زیارت کا طریقہ لوگوں کیلئے بیان کرتے تھے کہ اس باب میں روایات بہت عالی مضامین کے ساتھ نقل ہوئی ہیں یہاں تک کہ ان ذوات مقدسہ میں سے بعض اپنی بیماری کی شفا کیلئے کسی کو حضرت ابا عبد اللہ کی قبر پر بھیجتے تھے تاکہ وہاں پر ان کیلئے دعا کی جائے۔ اسی طرح بعض آئمہؑ نے حضرت امام حسینؑ کی زیارت کے بارے میں اس انداز سے بات کی ہے کہ بزرگ شیعہ علما نے اس سے حضرتؑ کی زیارت کے وجوب کا استنباط کیا ہے۔
امام حسینؑ کی زیارت کے بارے میں اہل بیتؑ سے منقول روایات ایک جیسی نہیں ہیں اور حالات کے پیش نظر مختلف ہیں۔ شیعہ حدیثی کتب کی طرف رجوع کیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ بعض معصومینؑ سے اس باب میں متعدد روایات منقول ہیں جبکہ بعض سے کم نقل ہوئی ہیں مگر یہ مسئلہ اس باب میں روایات کے کم ہونے کا موجب نہیں ہے کیونکہ اس باب میں موجود روایات کی تعداد بہت زیادہ ہے اور جرات سے کہا جا سکتا ہے کہ حد تواتر سے بھی زیادہ ہیں۔
اس مقالے میں سعی کی گئی ہے کہ حضرت امام حسینؑ کی زیارت کا معصومینؑ کی سیرت و اقوال کے اعتبار سے مختصر جائزہ لیا جائے۔

پیغمبر اکرمؐ کی سیرت

[ترمیم]

شیعہ حدیث کی کتب میں امام حسینؑ کی زیارت کے بارے میں بعض روایات پیغمبر اکرمؐ سے منقول ہیں۔ ان روایات سے حضرت امام حسینؑ کی زیارت کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے۔
حَدَّثَنِی اَبُو الْحَسَنِ عَلِیُّ بْنُ الْحُسَیْنِ قَالَ حَدَّثَنِی اَبُو مُحَمَّدٍ هَارُونُ بْنُ مُوسَی التَّلَّعُکْبَرِیُّ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ زَکَرِیَّا الْعَدَوِیُّ النَّصْرِیُّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ اِبْرَاهِیمَ بْنِ الْمُنْذِرِ الْمَکِّیِّ عَنِ الْحُسَیْنِ بْنِ سَعِیدٍ الْهَیْثَمِ قَالَ حَدَّثَنِی الْاَجْلَحُ الْکِنْدِیُّ قَالَ حَدَّثَنِی اَفْلَحُ بْنُ سَعِیدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ کَعْبٍ عَنْ طَاوُسٍ الْیَمَانِیِّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْعَبَّاسِ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَی النَّبِیِّ (صلی‌الله‌علیه‌واله‌وسلم)وَ الْحَسَنُ عَلَی عَاتِقِهِ وَ الْحُسَیْنُ عَلَی فَخِذِهِ یَلْثِمُهُمَا وَ یُقَبِّلُهُمَا وَ یَقُولُ اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالاهُمَا وَ عَادِ مَا(مَنْ‌) عَادَاهُمَا ثُمَّ قَالَ یَا ابن‌عَبَّاسٍ کَاَنِّی بِهِ وَ قَدْ خُضِبَتْ شَیْبَتُهُ مِنْ دَمِهِ یَدْعُو فَلَا یُجَابُ وَ یَسْتَنْصِرُ فَلَا یُنْصَرُ قُلْتُ مَنْ یَفْعَلُ ذَلِکَ یَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ شِرَارُ اُمَّتِی مَا لَهُمْ لَا اَنَالَهُمُ اللَّهُ شَفَاعَتِی ثُمَّ قَالَ یَا ابن‌عَبَّاسٍ مَنْ زَارَهُ عَارِفاً بِحَقِّهِ کُتِبَ لَهُ ثَوَابُ اَلْفِ حَجَّةٍ وَ اَلْفِ عُمْرَةٍ اَلَا وَ مَنْ زَارَهُ فَکَاَنَّمَا زَارَنِی وَ مَنْ زَارَنِی فَکَاَنَّمَا زَارَ اللَّهَ وَ حَقُّ الزَّائِرِ عَلَی اللَّهِ اَنْ لَا یُعَذِّبَهُ‌ بِالنَّار.
عبداللّه بن عباس کہتے ہیں: میں نبی کریمؐ کی خدمت میں حاضر ہوا، اس وقت حسنؑ آپؐ کے شانے پر اور حسینؑ زانو پر تھے، آپؐ انہیں بوسے دے رہے تھے اور فرما رہے تھے: پروردگارا! اس کو دوست رکھ جو انہیں دوست رکھے اور جو ان سے دشمنی کرے تو بھی ان کے ساتھ دشمنی رکھ۔ پھر فرمایا: اے ابن عباس! گویا میں دیکھ رہا ہوں (مقصود امام حسینؑ ہیں) کہ ان کے محاسن خون سے رنگین ہیں اور وہ لوگوں کو بلا رہے ہیں مگر کوئی جواب نہیں دے رہا، ان سے نصرت طلب کر رہے ہیں مگر کوئی نصرت نہیں کر رہا؛ میں نے عرض کیا: کون لوگ حضرتؑ کی نصرت نہیں کریں گے؟! فرمایا: میری امت کے اشرار (وبدکار)، انہیں کیا ہو گیا ہے؟! خدا انہیں میری شفاعت نصیب نہ فرمائے، اے ابن عباس! جو بھی ان کے حق کی معرفت رکھتے ہوئے ان کی زیارت کرے گا اس کیلئے ہزار حج اور ہزار عمرے کا ثواب لکھا جاتا ہے، جو ان کی زیارت کرے، گویا اس نے میری زیارت کی ہے اور جو میری زیارت کرے گویا اس نے خدا کی زیارت کی ہے اور خدا پر زائر کا حق یہ ہے کہ اسے آگ کا عذاب نہ دے۔

امیر المؤمنین کی سیرت

[ترمیم]

امیر المومنینؑ سے امام حسینؑ کی زیارت کے بارے میں ایک بہت ہی جالب روایت منقول ہے کہ امام حسینؑ کی زیارت پر نہ جانے کو جفا سے تعبیر کرتے ہیں اور یہ امر حضرت امام حسینؑ کی زیارت کی اہمیت پر دلالت کرتا ہے۔
حَدَّثَنِی مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ الصَّفَّارِ عَنْ اَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِیسَی عَنْ اَحْمَدَ بْنِ اَبِی دَاوُدَ عَنْ سَعْدٍ عَنْ اَبِی عُمَرَ الْجَلَّابِ عَنِ الْحَرْثِ(الْحَارِثِ‌) الْاَعْوَرِ قَالَ قَالَ عَلِیٌّ (علیه‌السلام)‌ بِاَبِی وَ اُمِّی الْحُسَیْنَ الْمَقْتُولَ‌ بِظَهْرِ الْکُوفَةِ وَ اللَّهِ لَکَاَنِّی اَنْظُرُ اِلَی الْوَحْشِ مَادَّةً اَعْنَاقَهَا عَلَی قَبْرِهِ مِنْ اَنْوَاعِ الْوَحْشِ یَبْکُونَهُ وَ یَرْثُونَهُ لَیْلًا حَتَّی الصَّبَاحِ فَاِذَا کَانَ ذَلِکَ فَاِیَّاکُمْ وَ الْجَفَاءَ.
حضرت علیؑ نے فرمایا: حسینؑ کوفہ کی پشت میں قتل ہوں گے، خدا کی قسم! گویا دیکھ رہا ہوں صحرائی جانور اپنی گردنوں کو اس کی قبر پر رکھے ہوئے، اس پر گریہ کر رہے ہیں اور رات سے صبح تک مرثیہ پڑھ رہے ہیں۔ جب صحرائی جانوروں کا یہ حال ہے تو تم انسان اس پر جفا سے خبردار رہو۔

حضرت فاطمہؑ کی سیرت

[ترمیم]

حضرت صدیقہ کبریؑ کی نگاہ میں امام حسینؑ کی زیارت اس قدر حائز اہمیت ہے کہ بی بی دو عالمؑ خود امام حسینؑ کی قبر پر حاضر ہوتی ہیں اور حضرتؑ کے زائرین کیلئے استغفار فرماتی ہیں۔ بعض اہل سنت منابع میں منقول ہے کہ آپ نے عالم خواب میں بعض اہل سنت علما کو حکم فرمایا کہ کسی مرثیہ خوان کو امام حسینؑ کی مصیبت میں مخصوص نوحہ پڑھنے کا کہیں۔ مذکورہ بالا دونوں موضوعات میں سے ہر ایک کی مناسبت سے ایک ایک روایت پر اکتفا کریں گے۔

← پہلی روایت


حَدَّثَنِی حَکِیمُ بْنُ دَاوُدَ عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْخَطَّابِ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِیٍّ الْوَشَّاءِ عَمَّنْ ذَکَرَهُ عَنْ دَاوُدَ بْنِ کَثِیرٍ عَنْ اَبِی عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: اِنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ (صلی‌الله‌علیه‌واله‌وسلم)تَحْضُرُ لِزُوَّارِ قَبْرِ ابْنِهَا الْحُسَیْنِ (علیه‌السّلام) فَتَسْتَغْفِرُ لَهُمْ ذُنُوبَهُمْ.
امام صادقؑ نے فرمایا: حضرت فاطمہؑ بنت محمدؐ اپنے بیٹے حسین بن علیؑ کی قبر کے زائرین کیلئے بذات خود حاضر ہوتی ہیں اور ان کے گناہوں کی بخشش کیلئے مغفرت کی دعا کرتی ہیں۔

← دوسری روایت


اہل سنت کے منابع میں صحیح سند کے ساتھ منقول ہے کہ حضرت زہراؑ نے ایک اہل سنت عالم کو بذریعہ خواب یہ پیغام دیا کہ: کربلا جاؤ اور۔۔۔ :

انبانا احمد بن ازهر بن السباک قال اخبرنا ابو بکر محمد بن عبد الباقی الانصاری فی کتابه عن ابی القاسم علی بن المحسن التنوخی عن ابیه ابی علی قال حدثنی ابی قال خرج الینا ابو الحسن الکرخی یوما فقال تعرفون ببغداد رجلا یقال له ابن‌اصدق فلم یعرفه من اهل المجلس غیری وقلت اعرفه فکیف سالت عنه قال‌ای شیء یعمل قالت ینوح علی ابن‌علی (علیهما‌السّلام) قال فبکی ابو الحسن وقال عندی عجوز تزیننی من اهل کرخ جدان یغلب علی لسانها النبطیة ولا یمکنها ان تقیم کلمة عربیة فضلا عن ان تحفظ شعرا وهی من صوالح النساء وتکثر من الصلاة والصوم والتهجد وانتبهت البارحة فی جوف اللیل ومنامها قریب من منامی فصاحت ابو الحسن ابو الحسن قلت ما لک قالت الحقنی فجئتها ووجدتها ترعد وقلت ما اصابک قالت رایت فی منامی وقد صلیت وردی ونمت کانی فی درب من دروب الکرخ فیه حجرة محمرة بالساج مبیضة بالاسفیداج مفتوحة الباب وعلیه نساء وقوف فقلت لهم ما الخبر فاشاروا الی داخل الدار واذا امراة شابة حسناء بارعة الجمال والکمال وعلیها ثیاب بیاض مرویة من فوقها ازار شدید البیاض قد التفت به وفی حجرها راس یشخب دما ففزعت وقالت لا علیک انا فاطمة بنت رسول الله صلی الله علیه وسلم وهذا راس الحسین صلوات الله علی الجماعة فقولی لابن‌اصدق حتی ینوح لم امرضه فاسلو لا ولا کان مریضا وانتبهت مذعورة قال ابوالحسن و قالت العجوز (امرظه) بالظاء لانها لا تتمکن من اقامة الضاد فسکنت منها الی ان عاودت نومها وقال ابو القاسم ثم قال لی مع معرفتک بالرجل فقد حملتک الامانة فی هذه الرسالة فقلت سمعا وطاعة لامر سیدة النساء رضوان الله تعالی علیها قال وکان هذا فی شعبان والناس فی اذ ذاک یلقون اذی شدیدا وجهدا جهیدا من الحنابلة واذا ارادوا زیارة المشهد بالحائر خرجوا علی استتار ومخافة فلم ازل اتلطف فی الخروج حتی تمکنت منه وحصلت فی الحائر لیلة النصف من شعبان وسالت عن اصدق فدللت علیه ودعوته وحضرنی فقلت له ان فاطمة (علیهاالسّلام) تامرک ان تنوح بالقصیدة التی فیها: ’’لم امرضه فاسلوا لا ولا کان مریضا‘‘ فانزعج من ذلک وقصصت علیه وعلی من کان معه عندی الحدیث فاجهشوا بالبکاء وناح بذلک طول لیلته واول القصیدة ایها العینان فیضا واستهلا لا تغیضا.
میرے والد نے نقل کیا ہے کہ ایک دن ابو الحسن کاتب کرخی ہمارے پاس آیا اور کہا: کیا بغداد میں ابن اصدق نام کے آدمی کو پہچانتے ہو؟ اس محفل میں میرے علاوہ کوئی اسے نہیں پہچانتا تھا، میں نے کہا: میں اسے پہچانتا ہوں، کیا بات ہے کہ اس کے بارے میں سوال کر رہے ہو؟! ابو الحسن نے کہا: ابن اصدق کیا کام کرتا ہے؟! میں نے کہا: امام حسینؑ کیلئے نوحہ خوانی کرتا ہے۔ اس وقت ابو الحسن کرخی نے رونا شروع کر دیا اور کہنے لگا: میرے ساتھ ایک بوڑھی خاتون رہتی ہیں جو بچپن میں میری کفالت کی ذمہ داری ادا کرتی رہی ہیں۔ وہ ’’کرخ جدان‘‘ کی رہنے والی ہے، عربی میں بات کرنے سے قاصر ہے اور ایک عربی کلمہ بھی درست طور پر نہیں بول سکتی؛ کہاں یہ کہ ایک عربی شعر روایت کر دے ۔۔۔ ہوا یوں کہ ایک مرتبہ آدھی رات کو بیدار ہو گئی، اس کے سونے کی جگہ میرے سے نزدیک ہے، اس نے پکار کر کہا: اے ابو الحسن! میرے پاس آؤ! میں نے کہا: کیا ہوا ہے؟! میں اس کے پاس گیا اور دیکھا کہ لرز رہی ہے، میں نے کہا: تمہیں کیا ہوا ہے؟! کہنے لگی: میں نے خواب میں دیکھا ہے گویا کرخ کے ایک دروازے کے سامنے ہوں، پھر ایک صاف ستھرا کمرہ دیکھا کہ جس کی دیواریں سفید اور کچھ سرخ تھیں، اس کا دروازہ کھلا تھا اور خواتین دروازے پر کھڑی تھیں، میں نے ان سے پوچھا کہ کس کا انتقال ہو گیا ہے؟ کیا ہوا ہے؟ انہوں نے کمرے کی اندرونی فضا کی طرف اشارہ کیا، میں داخل ہو گئی تو دیکھا کہ کمرہ انتہائی خوبصورت ہے اور اس کے وسط میں ایک جوان خاتون ہیں جن سے زیادہ نیک اور صاحب جمال میں نے کسی کو نہیں دیکھا تھا، ایک سفید رنگ کا خوبصورت اور دراز لباس انہوں نے زیب تن کر رکھا تھا، اس کے اوپر ایک روپوش جو غیر معمولی طور پر سفید تھا؛ بھی پہن رکھا تھا۔ ان کے دامن میں ایک کٹا ہوا سر تھا جس سے خون نکل رہا تھا۔ میں نے عرض کیا: آپ کون ہیں؟! فرمایا: مجھے تم سے کوئی کام نہیں ہے، میں فاطمہ بنت رسول اللہ ہوں اور یہ میرے فرزند حسینؑ کا سر ہے؛ میری طرف سے ابن اصدق سے کہو کہ مرثیے کا یہ شعر میرے حسینؑ کے غم میں کہے:
لــــم أمــــرضــــــه فــاســـــلوا
لا ولا كــــــــان مــريــضـــــــاً
یعنی میرا بیٹا مریض نہیں تھا (بیماری کے باعث دنیا سے نہیں گیا) یہ بات پوچھ لو اور اس سے پہلے بھی مریض نہیں تھا۔
ابو الحسن نے مجھے کہا: اب تو نے ابن اصدق کو پہچان لیا ہے تو یہ امانت اس تک پہنچا دو؛ میں نے کہا: سیدہ نساء العالمین کے امر کی اطاعت کروں گا۔ ابو القاسم تنوخی اپنے والد کی زبانی مزید کہتے ہیں: یہ واقعہ ماہ شعبان میں ہوا، لوگ جب امام حسینؑ کی زیارت کو جاتے تھے تو حنبلی انہیں بہت تکلیف دیتے تھے، بڑی تگ و دو کے بعد مخفیانہ طور پر نیمہ شعبان کی شب کو میں حائر حسینی تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔ پھر میں نے ابن اصدق کے بارے میں سوال کیا، یہاں تک کہ اس سے ملاقات ہو گئی۔ میں نے اسے کہا: حضرت فاطمہؑ نے تجھے حکم دیا ہے کہ اس شعر:
لــــم أمــــرضــــــه فــاســـــلوا
لا ولا كــــــــان مــريــضـــــــاً
پر مشتمل امام حسینؑ کا نوحہ پڑھو!
ابن اصدق کی حالت متغیر ہو گئی۔ میں نے خواب والا واقعہ اس کیلئے اور مجلس میں موجود تمام حاضرین کے سامنے مکمل طور پر نقل کیا۔ سب نے بہت گریہ کیا اور ساری رات یہ نوحہ پڑھتے رہے۔ اس نوحے کا آغاز اس شعر سے ہوتا ہے:
أيها العينان فيضا
واستهلا لا تغيضا
اے دونوں آنکھو! آنسو بہاؤ اور بہت زیادہ گریہ کرو اور خشک نہ ہو۔
ابن‌العدیم لکھتے ہیں: ابوالحسن کرخی کا شمار امام ابوحنیفہ کے بڑے ساتھیوں میں سے ہوتا ہے۔
یافعی ابو القاسم تنوخی کے بارے میں لکھتے ہیں:
ابو القاسم علی بن محمد تنوخی، حنفی مذہب کے قضات اور دنیا کے ذہین ترین افراد میں سے تھے، یہ اشعار کے راوی تھے، علم کلام اور علم نحو پر مسلط تھے اور صاحبِ دیوان شاعر بھی تھے۔

امام حسنؑ کی سیرت

[ترمیم]

بعض روایات میں امام حسنؑ کی جانب سے امام حسینؑ کی زیارت کو خصوصی اہمیت دینے کی طرف اشارہ ملتا ہے۔
وَ بِالْاِسْنَادِ عَنِ الْاَعْمَشِ قَالَ: کُنْتُ نَازِلًا بِالْکُوفَةِ وَ کَانَ لِی جَارٌ کَثِیراً مَا کُنْتُ اَقْعُدُ اِلَیْهِ وَ کَانَ لَیْلَةُ الْجُمُعَةِ فَقُلْتُ لَهُ: مَا تَقُولُ فِی زِیَارَةِ الْحُسَیْنِ، فَقَالَ لِی: بِدْعَةٌ وَ کُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَ کُلُّ ضَلَالَةٍ فِی النَّارِ، فَقُمْتُ مِنْ بَیْنِ یَدَیْهِ وَ اَنَا مُمْتَلِئٌ غَیْظاًوَ قُلْتُ: اِذَا کَانَ السَّحَرُ اَتَیْتُهُ فَحَدَّثْتُهُ مِنْ فَضَائِلِ اَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ مَا یَشْحَنُ‌اللَّهُ بِهِ عَیْنَیْهِ قَالَ: فَاَتَیْتُهُ وَ قَرَعْتُ عَلَیْهِ الْبَابَ، فَاِذَا اَنَا بِصَوْتٍ مِنْ وَرَاءِ الْبَابِ اِنَّهُ قَدْ قَصَدَ الزِّیَارَةَ فِی اَوَّلِ اللَّیْلِ، فَخَرَجْتُ مُسْرِعاً فَاَتَیْتُ الْحَیْرَ، فَاِذَا اَنَا بِالشَّیْخِ سَاجِدٌ لَا یَمَلُّ مِنَ السُّجُودِ وَ الرُّکُوعِ، فَقُلْتُ لَهُ: بِالْاَمْسِ تَقُولُ لِی بِدْعَةٌ وَ کُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَ کُلُّ ضَلَالَةٍ فِی النَّارِ وَ الْیَوْمَ تَزُورُهُ، فَقَالَ لِی: یَا سُلَیْمَانُ لَا تَلُمْنِی فَاِنِّی مَا کُنْتُ اُثْبِتُ لِاَهْلِ هَذَا الْبَیْتِ اِمَامَةً حَتَّی کَانَتْ لَیْلَتِی هَذِهِ فَرَاَیْتُ رُؤْیَا اَرْعَبَتْنِی فَقُلْتُ: مَا رَاَیْتَ! اَیُّهَا الشَّیْخُ. قَالَ: رَاَیْتُ رَجُلًا لَا بِالطَّوِیلِ الشَّاهِقِ وَ لَا بِالْقَصِیرِ اللَّاصِقِ، لَا اُحْسِنُ اَصِفُهُ مِنْ حُسْنِهِ وَ بَهَائِهِ، مَعَهُ اَقْوَامٌ یَحُفُّونَ بِهِ حَفِیفاً وَ یَزِفُّونَهُ زَفّاً، بَیْنَ یَدَیْهِ فَارِسٌ عَلَی فَرَسٍ لَهُ ذَنُوبٌ، عَلَی رَاْسِهِ تَاجٌ، لِلتَّاجِ اَرْبَعَةُ اَرْکَانٍ، فِی کُلِّ رُکْنٍ جَوْهَرَةٌ تُضِی‌ءُ مَسِیرَةَ ثَلَاثَةِ اَیَّامٍ، فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا، فَقَالُوا: مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ (صلی‌الله‌علیه‌واله‌وسلم)، فَقُلْتُ: وَ الْآخَرُ، فَقَالُوا: وَصِیُّهُ عَلِیُّ بْنُ اَبِی طَالِبٍ (علیه‌السلام)، ثُمَّ مَدَدْتُ عَیْنِی فَاِذَا اَنَا بِنَاقَةٍ مِنْ نُورٍ عَلَیْهَا هَوْدَجٌ مِنْ نُورٍ تَطِیرُ بَیْنَ السَّمَاءِ وَ الْاَرْضِ، فَقُلْتُ: لِمَنِ النَّاقَةُ، قَالُوا: لِخَدِیجَةَ بِنْتِ خُوَیْلِدٍ وَ فَاطِمَةَ بِنْتِ مُحَمَّدٍ، قُلْتُ: وَ الْغُلَامُ، قَالُوا: الْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ، قُلْتُ: فَاَیْنَ یُرِیدُونَ، قَالُوا: یَمْضُونَ بِاَجْمَعِهِمْ اِلَی زِیَارَةِ الْمَقْتُولِ ظُلْماً الشَّهِیدِ بِکَرْبَلَاءَ الْحُسَیْنِبْنِ عَلِیٍّ، ثُمَّ قَصَدْتُ الْهَوْدَجَ وَ اِذَا اَنَا بِرِقَاعٍ تَسَاقَطُ مِنَ السَّمَاءِ اَمَاناً مِنَ اللَّهِ جَلَّ ذِکْرُهُ لِزُوَّارِ الْحُسَیْنِ بْنِ عَلِیٍّ لَیْلَةَ الْجُمُعَةِ، ثُمَّ هَتَفَ بِنَا هَاتِفٌ: اَلَا اِنَّنَا وَ شِیعَتَنَا فِی الدَّرَجَةِ الْعُلْیَا مِنَ الْجَنَّةِ، وَ اللَّهِ یَا سُلَیْمَانُ لَا اُفَارِقُ هَذَا الْمَکَانَ حَتَّی یُفَارِقَ رُوحِی جَسَدِی.
سلیمان اعمش کہتا ہے: میں کوفہ میں تھا۔ میرا ایک ہمسایہ تھا جس کے ساتھ میری نشست و برخاست تھی۔ ایک شب جمعہ کو میں اس کے پاس گیا اور کہا: تم امام حسینؑ کی زیارت کے بارے میں کیا عقیدہ رکھتے ہو؟! اس نے کہا: بدعت ہے، ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہ شخص اہل جہنم ممیں سے ہو گا۔
اعمش کہتا ہے: میں غصے میں اس کے پاس سے اٹھ کھڑا ہوا اور خود سے کہا کہ کل سحر کے وقت اس کے پاس جاؤں گا اور امام حسینؑ کے کچھ فضائل و مناقب اس کے سامنے بیان کروں گا۔ اگر دیکھا کہ اپنے کینے اور عناد پر مصر ہے تو اسے قتل کر دوں گا۔ جب سحری کا وقت ہوا تو اس ہمسائے کا دروازہ کھٹکھٹایا اور اسے آواز دی۔ اس کی بیوی نے کہا: میرا شوہر کل رات سے امام حسینؑ کی زیارت کیلئے گیا ہوا ہے، میں جب اس کے پیچھے امام حسینؑ کی قبر اقدس پر پہنچا تو دیکھا: وہ سجدے ، دعا ، گریہ و زاری اور استغفار میں مشغول ہے! پھر اس نے اپنا سر اٹھایا اور مجھے اپنے نزدیک پایا۔ میں نے اسے کہا: اے عظیم انسان! تم کل کہہ رہے تھے کہ زیارتِ حسینؑ بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہ شخص دوزخ میں جائے گا۔ مگر آج آ کر زیارت کر رہے ہو؟! اس نے کہا: اے سلیمان! مجھے ملامت نہ کرو کیونکہ میں اہل بیتؑ کی امامت کا عقیدہ نہیں رکھتا تھا یہاں تک کہ کل رات میں نے ایک خوب دیکھا جس سے مجھ پر خوف و ہراس طاری ہو گیا۔ میں نے کہا: تم نے کیا خواب دیکھا ہے؟! کہنے لگا: میں نے ایک جلیل القدر ہستی کو دیکھا جو نہ زیادہ بلند قامت تھے اور نہ کوتاہ قامت۔ میرے میں یہ تاب نہیں ہے کہ ان کی عظمت، جلال، جمال اور کمال بیان کروں۔ وہ ایک جماعت کے ہمراہ تھے جو ان کے اردگرد تھے اور تیزی سے انہیں لایا جا رہا تھا۔ آگے آگے ایک گھڑ سوار تھا کہ جس کے سر پر تاج تھا۔ اس تاج کے چار پائے تھے، ہر ہائے میں ایک گوہر تھا جو تین دن کی مسافت کو نورانی کر رہا تھا۔ میں نے ان کے ایک خادم سے کہا: یہ کون ہیں؟! اس نے کہا: حضرت محمد مصطفیؐ ہیں، پھر کہا: وہ دوسری شخصیت کون ہیں؟! اس نے کہا: علی مرتضیؑ ہیں جو ان کے وصی ہیں۔ پھر میں نے دقت سے غور کیا تو ایک نورانی سواری دیکھی جس کی پشت پر نور کا محمل تھا۔ اس محمل کے اندر دو خواتین تھیں۔ وہ محمل آسمان و زمین کے درمیان پرواز کر رہا تھا۔ میں نے کہا: یہ سواری کس کی ہے؟! کہنے لگے: خدیجہ کبریٰ اور فاطمہ زہراؑ ہیں۔ میں نے پوچھا: یہ بچہ کون ہے؟! کہا: حسن بن علیؑ ہیں۔ میں نے کہا: یہ سب کہاں جا رہے ہیں؟ کہا: حسین بن علیؑ کی زیارت کیلئے کہ جنہیں کربلا میں شہید کیا گیا تھا۔ پھر میں فاطمہ زہراؑ کے محمل کی طرف متوجہ ہوا۔۔۔ اچانک دیکھا کہ کچھ کاغذ کے ٹکڑے آسمان سے گر رہے ہیں۔ میں نے پوچھا: یہ کاغذ کیا ہیں؟! کہنے لگا: یہ کاغذ دوزخ کی آگ سے بچنے کے امان نامے ہیں جو شب جمعہ امام حسینؑ کی زیارت کرنے والوں کیلئے ہیں۔ جب میں نے ان میں سے ایک کاغذ مانگا تو مجھے کہنے لگا: تم کہتے ہو کہ قبر حسینؑ کی زیارت بدعت ہے، تجھے یہ کاغذ نہیں دیا جائے گا جب تک حسینؑ کی زیارت نہ کر لو اور ان کی فضیلت و شرافت کا عقیدہ نہ رکھو۔ میں مضطرب و پریشان حالت میں نیند سے اٹھا اور اسی وقت امام حسینؑ کی زیارت کے قصد سے روانہ ہو گیا۔ میں نے توبہ کی ہے، اے سلیمان! میں حسینؑ کی قبر سے اس وقت تک جدا نہ ہوں گا کہ جب تک روح میرے بدن سے جدا نہ ہو جائے۔

امام حسینؑ کی سیرت

[ترمیم]

امام حسینؑ سے بھی نہایت جالب اور زیبا مضامین کی متعدد روایات منقول ہیں کہ حضرتؑ نے بہت زیبا تعبیرات کے ساتھ آتش جہنم سے رہائی کو اپنی زیارت کے ثمرات میں سے شمار کیا ہے۔ اس حصے میں بعنوان نمونہ دو روایات کو قارئین محترم کے سامنے پیش کریں گے۔

← پہلی روایت


رَوَیْنَاهُ بِاِسْنَادِنَا اِلَی مُحَمَّدِ بْنِ اَحْمَدَ بْنِ دَاوُدَ الْقُمِّیِّ، مِنْ کِتَابِ الزِّیَارَاتِ تَصْنِیفِهِ، بِاِسْنَادِهِ اِلَی مُحَمَّدِ بْنِ دَاوُدَ بْنِ عُقْبَةَ قَالَ: کَانَ لَنَا جَارٌ یُعْرَفُ بِعَلِیِّ بْنِ مُحَمَّدٍ قَالَ: کُنْتُ اَزُورُ الْحُسَیْنَ (علیه‌السلام) فِی کُلِّ شَهْرٍ، قَالَ: ثُمَّ عَلَتْ سِنِّی وَ ضَعُفَ جِسْمِی وَ انْقَطَعَتْ عَنْهُ مُدَّةٌ، ثُمَّ وَقَعَ اِلَیَّ اَنَّهَا آخِرُ سِنِی عُمُرِی، فَحَمَلْتُ عَلَی نَفْسِی وَ خَرَجْتُ مَاشِیاً، فَوَصَلْتُ فِی اَیَّامٍ، فَسَلَّمْتُ وَ صَلَّیْتُ رَکْعَتَیِ الزِّیَارَةِ وَ نِمْتُ، فَرَاَیْتُ الْحُسَیْنَ (علیه‌السّلام) قَدْ خَرَجَ مِنَ الْقَبْرِ. فَقَالَ لِی: «یَا عَلِیُّ، لِمَ جَفَوْتَنِی وَ کُنْتَ بِی بَرّاً؟» فَقُلْتُ: یَا سَیِّدِی، ضَعُفَ جِسْمِی وَ قَصُرَتْ خُطَایَ، وَ وَقَعَ لِی اَنَّهَا آخِرُ سِنِی عُمُرِی فَاَتَیْتُکَ فِی اَیَّامٍ، وَ قَدْ رُوِیَ عَنْکَ شَیْ‌ءٌ اُحِبُّ اَنْ اَسْمَعَهُ مِنْکَ. فَقَالَ: «قُلْ». قَالَ: قُلْتُ: رُوِیَ عَنْکَ «مَنْ زَارَنِی فِی حَیَاتِهِ زُرْتُهُ بَعْدَ وَفَاتِهِ». قَالَ: «نَعَمْ». قُلْتُ: فَاَرْوِیهِ عَنْکَ «مَنْ زَارَنِی فِی حَیَاتِهِ زُرْتُهُ بَعْدَ وَفَاتِهِ». قَالَ: «نَعَمْ ارْوِ عَنِّی‌: مَنْ زَارَنِی فِی حَیَاتِهِ زُرْتُهُ بَعْدَ وَفَاتِهِ، وَ اِنْ وَجَدْتُهُ فِی النَّارِ اَخْرَجْتُهُ.
داؤد بن عقبہ کہتے ہیں: میرا ایک ہمسایہ محمد بن علی کے نام سے معروف تھا، محمد بن علی کہتا ہے: میں ہر ماہ امام حسینؑ کی زیارت کو جاتا تھا مگر جب میری عمر زیادہ ہو گئی اور میرا جسم ضعیف ہو گیا تو پھر کچھ مدت تک آپؑ کی زیارت کو نہ جا سکا یہاں تک کہ محسوس کیا، میری زندگی ختم ہونے والی ہے۔ پس بڑی مشقت کے ساتھ پیدل حضرتؑ کی زیارت کو گیا اور چند دنوں میں کربلا پہنچ گیا۔ میں نے سلام عرض کیا، دو رکعت نماز پڑھی اور سو گیا۔ خواب میں حضرتؑ کو دیکھا کہ اپنی قبر سے باہر تشریف لائے اور مجھ سے فرمایا: اے علی! تم میرے ساتھ نیکی کرتے تھے، اب کیوں مجھ پر جفا کر رہے ہو؟! میں نے عرض کیا: اے میرے آقا! میرا جسم ضعیف ہو چکا ہے اور میرے پاؤں ناتوان ہیں، میں نے محسوس کیا کہ یہ زندگی کا آخری سال ہے پس چند دن کا سفر طے کر کے آپ کی زیارت کو آیا ہوں، آپؑ کی طرف سے میں نے ایک روایت سنی ہے جو میں خود آپؑ سے سننا چاہتا ہوں، امامؑ نے فرمایا: وہ روایت بیان کرو؛ میں نے کہا: آپؑ سے منقول ہے کہ جو میری زیارت کو آئے گا میں وفات کے بعد اس سے ملاقات کیلئے آؤں گا، امامؑ نے فرمایا: درست ہے، میں نے عرض کیا: کیا اس روایت کو نقل کروں؟! امامؑ نے فرمایا: ہاں، اس روایت کو میری طرف سے نقل کرو: جو میری زیارت کو آئے گا میں بھی وفات کے بعد اس کی زیارت کو آؤں گا حتی اگر اسے آگ میں دیکھوں تو نجات دلا دوں گا۔

← دوسری روایت


حَدَّثَنِی مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَی بْنِ الْمُتَوَکِّلِ قَالَ حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ الْحُسَیْنِ السَّعْدَآبَادِیُّ عَنْ اَحْمَدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْبَرْقِیِّ عَنْ اَبِیهِ عَنِ ابن‌مُسْکَانَ عَنْ هَارُونَ بْنِ خَارِجَةَ عَنْ اَبِی عَبْدِ اللَّهِ (علیه‌السّلام) قَالَ قَالَ الْحُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ علیهما السلام اَنَا قَتِیلُ الْعَبْرَةِ قُتِلْتُ مَکْرُوباً وَ حَقِیقٌ‌ عَلَی‌ اللَّهِ‌ اَنْ لَا یَاْتِیَنِی مَکْرُوبٌ اِلَّا اَرُدَّهُ وَ اَقْلِبَهُ اِلَی اَهْلِهِ مَسْرُوراً.
میں اشکوں کا مقتول ہوں (یعنی جب بھی میری شہادت کا ذکر ہو گا تو آنسو جاری ہوں گے) مجھے اندوہناک حال میں قتل کیا جائے گا اور اللہ کیلئے سزاوار ہے کہ میری زیارت پر جو غمگین شخص آئے، اللہ اسے اپنے گھر والوں کی طرف مسرور و شادمان حالت میں پلٹائے۔

امام سجادؑ کی سیرت

[ترمیم]

امام سجادؑ، کربلا میں موجود تھے۔ آپؑ نے عملی طور پر امام حسینؑ کی زیارت کی اہمیت کو بیان فرمایا اور خود اپنے پدر بزرگوار کی زیارت کیلئے تشریف لے جاتے تھے۔
عَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ صَالِحِ بْنِ اَبِی حَمَّادٍ عَنْ عَلِیِّ بْنِ الْحَکَمِ عَنْ مَالِکِ بْنِ عَطِیَّةَ عَنْ اَبِی حَمْزَةَ قَالَ: اِنَّ اَوَّلَ مَا عَرَفْتُ عَلِیَّ بْنَ الْحُسَیْنِ (علیهما‌السّلام) اَنِّی رَاَیْتُ رَجُلًا دَخَلَ مِنْ بَابِ الْفِیلِ فَصَلَّی اَرْبَعَ رَکَعَاتٍ‌فَتَبِعْتُهُ حَتَّی اَتَی بِئْرَ الزَّکَاةِ وَ هِیَ عِنْدَ دَارِ صَالِحِ بْنِ عَلِیٍّ وَ اِذَا بِنَاقَتَیْنِ مَعْقُولَتَیْنِ وَ مَعَهُمَا غُلَامٌ اَسْوَدُ فَقُلْتُ لَهُ مَنْ هَذَا فَقَالَ هَذَا عَلِیُّ بْنُ الْحُسَیْنِ (علیه‌السّلام) فَدَنَوْتُ اِلَیْهِ فَسَلَّمْتُ عَلَیْهِ وَ قُلْتُ لَهُ مَا اَقْدَمَکَ بِلَاداً قُتِلَ فِیهَا اَبُوکَ وَ جَدُّکَفَقَالَ زُرْتُ‌ اَبِی‌ وَ صَلَّیْتُ فِی هَذَا الْمَسْجِدِ ثُمَّ قَالَ هَا هُوَ ذَا وَجْهِی صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ‌واله وسلم.
ابوحمزہ کہتے ہیں: میں نے پہلی مرتبہ علی بن الحسینؑ کو اس دن پہچانا جب دیکھا کہ ایک نورانی ہستی باب الفیل سے مسجد کوفہ میں وارد ہوئی اور چار رکعت نماز ادا کی، میں نے ان کا تعاقب کیا یہاں تک کہ وہ صالح بن علی کے گھر کے پاس واقع بئر الزکاۃ تک پہنچ گئے، وہاں پر میں نے دو اونٹوں کو بیٹھے دیکھا کہ جن کے پاس ایک سیاہ غلام بھی تھا۔ میں نے غلام سے پوچھا کہ یہ شخصیت کون ہیں؟! کہنے لگا: علی بن الحسینؑ ہیں۔
پس میں حضرتؑ کی خدمت میں پہنچا، انہیں سلام کیا اور عرض کیا: آپؑ کس وجہ سے اس شہر میں آئے ہیں، یہ شہر آپؑ کے پدر اور جد کا قاتل ہے؟! فرمایا: میں اپنے پدر بزرگوار کی زیارت کو آیا ہوں، مسجد میں نماز ادا کی ہے اور اب مدینہ کی طرف جا رہا ہوں۔

امام باقرؑ کی سیرت

[ترمیم]

امام باقرؑ، نے امام حسینؑ کی زیارت کا ثواب بیان کر کے بھی لوگوں کو تشویق کی اور بعض روایات میں بصورت صریح امام حسینؑ کی زیارت کا حکم دیا کہ اگر ہم اس نوعیت کی روایات کی وجوب پر دلالت کے قائل نہ بھی ہوں تب بھی استحباب مؤکد پر ان کی دلالت ثابت ہے۔

← پہلی روایت


حَدَّثَنِی اَبِی رَحِمَهُ اللَّهُ عَنْ سَعْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ وَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ الْحِمْیَرِیِّ عَنْ اَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ الْبَرْقِیِّ عَنْ اَبِیهِ عَنْ عَبْدِ الْعَظِیمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَسَنِ عَنِ الْحُسَیْنِ بْنِ الْحَکَمِ النَّخَعِیِّ عَنْ اَبِی حَمَّادٍ الْاَعْرَابِیِّ عَنْ سَدِیرٍ الصَّیْرَفِیِّ قَالَ: کُنَّا عِنْدَ اَبِی جَعْفَرٍ (علیه‌السّلام) فَذَکَرَ فَتًی‌ قَبْرَ الْحُسَیْنِ‌ (علیه‌السّلام) فَقَالَ لَهُ اَبُو جَعْفَرٍ (علیه‌السّلام) مَا اَتَاهُ عَبْدٌ فَخَطَا خُطْوَةً اِلَّا کَتَبَ اللَّهُ لَهُ حَسَنَةً وَ حَطَّ عَنْهُ سَیِّئَة.
سدیر صیرفی کہتے ہیں: میں امام محمد باقرؑ کی خدمت میں حاضر تھا کہ ایک جوان نے امام حسینؑ کی قبر کا ذکر کیا۔ حضرت امام محمد باقرؑ نے اسے فرمایا: کوئی حضرتؑ کی زیارت کو نہیں جاتا اور اس راستے میں قدم نہیں اٹھاتا مگر یہ کہ حق تعالیٰ اس کیلئے ایک حسنہ لکھ دیتا ہے اور اسے گناہوں سے پاک کر دیتا ہے۔

← دوسری روایت


حَدَّثَنِی اَبِی رَحِمَهُ اللَّهُ وَ جَمَاعَةُ مَشَایِخِی عَنْ سَعْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ وَ مُحَمَّدِ بْنِ یَحْیَی الْعَطَّارِ وَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ الْحِمْیَرِیِّ جَمِیعاً عَنْ اَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِیسَی عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ اِسْمَاعِیلَ بْنِ بَزِیعٍ عَنْ اَبِی اَیُّوبَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ اَبِی جَعْفَرٍ (علیه‌السّلام) قَالَ: مُرُوا شِیعَتَنَا بِزِیَارَةِ قَبْرِ الْحُسَیْنِ (علیه‌السّلام) فَاِنَّ اِتْیَانَهُ یَزِیدُ فِی الرِّزْقِ وَ یَمُدُّ فِی الْعُمُرِ وَ یَدْفَعُ مَدَافِعَ السَّوْءِ وَ اِتْیَانَهُ مُفْتَرَضٌ عَلَی کُلِّ مُؤْمِنٍ یُقِرُّ لِلْحُسَیْنِ بِالْاِمَامَةِ مِنَ اللَّهِ.
امام محمد باقرؑ نے فرمایا: ہمارے شیعوں کو حکم دو کہ حضرت حسین بن علیؑ کی زیارت کو جایا کریں چونکہ حضرتؑ کی زیارت رزق و روزی میں اضافہ کرتی ہے، عمر کو طولانی کرتی ہے اور جو امور شر اور بدی کو جلب کرتے ہیں، انہیں دفع کرتی ہے۔ حضرتؑ کی زیارت ہر مومن پر جو آپؑ کی امامت کا اقرار کرتا ہے، حق تعالیٰ کی طرف سے واجب و لازم ہے۔

← تیسری روایت


وَ بِاِسْنَادِهِ عَنْ سَیْفِ بْنِ عَمِیرَةَ عَنْ اَبِی بَکْرٍ الْحَضْرَمِیِّ عَنْ اَبِی جَعْفَرٍ (علیه‌السّلام) قَالَ سَمِعْتُهُ یَقُولُ‌ مَنْ اَرَادَ اَنْ یَعْلَمَ اَنَّهُ مِنْ اَهْلِ الْجَنَّةِ فَیَعْرِضُ حُبَّنَا عَلَی قَلْبِهِ فَاِنْ قَبِلَهُ فَهُوَ مُؤْمِنٌ وَ مَنْ کَانَ لَنَا مُحِبّاً فَلْیَرْغَبْ فِی زِیَارَةِ قَبْرِ الْحُسَیْنِ (علیه‌السّلام) فَمَنْ کَانَ لِلْحُسَیْنِ (علیه‌السّلام) زَوَّاراً عَرَفْنَاهُ بِالْحُبِّ لَنَا اَهْلَ الْبَیْتِ وَ کَانَ مِنْ اَهْلِ الْجَنَّةِ وَ مَنْ لَمْ یَکُنْ لِلْحُسَیْنِ زَوَّاراً کَانَ نَاقِصَ الْاِیمَانِ.
امام محمد باقرؑ نے فرمایا: اگر کوئی یہ معلوم کرنا چاہتا ہے کہ وہ اہل بہشت میں سے ہے یا نہیں تو ہماری دوستی کو اپنے قلب پر پیش کرے اگر اس کے دل نے قبول کر لیا تو مومن ہے، اگر کوئی ہمارا محب اور دوست ہو تو ضروری ہے کہ امام حسینؑ کی زیارت کی رغبت رکھتا ہو، اس بنا پر جو شخص امام حسینؑ کی کا زائر ہو ہم اسے اپنا محب سمجھتے ہیں، وہ اہل بہشت میں سے ہو گا اور جو امام حسینؑ کی زیارت کو نہیں جاتا وہ ناقص الایمان ہے۔

امام صادقؑ کی سیرت

[ترمیم]

حضرت امام حسینؑ کی زیارت کے باب میں امام صادقؑ سے منقول روایات بہت زیادہ ہیں کہ جن میں امام حسینؑ کی زیارت پر عام تاکید کے علاوہ اربعین کی زیارت پر بالخصوص تاکید کی گئی ہے اور زیارت کا ثواب بیان کیا گیا ہے۔

← پہلی روایت


حَدَّثَنِی اَبِی وَ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ رَحِمَهُمُ اللَّهُ جَمِیعاً عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مَتِّیلٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِیٍّ الْکُوفِیِّ عَنْ عَلِیِّ بْنِ حَسَّانَ الْهَاشِمِیِّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ کَثِیرٍ مَوْلَی اَبِی جَعْفَرٍ (علیه‌السّلام) عَنْ اَبِی عَبْدِ اللَّهِ (علیه‌السّلام) قَالَ: لَوْ اَنَّ اَحَدَکُمْ حَجَ‌ دَهْرَهُ‌ ثُمَّ لَمْ یَزُرِ الْحُسَیْنَ بْنَ عَلِیٍّ علیهما السلاملَکَانَ تَارِکاً حَقّاً مِنْ حُقُوقِ اللَّهِ وَ حُقُوقِ رَسُولِ اللَّهِ (صلی‌الله‌علیه‌واله‌وسلم)لِاَنَّ حَقَّ الْحُسَیْنِ (علیه‌السّلام) فَرِیضَةٌ مِنَ اللَّهِ وَاجِبَةٌ عَلَی کُلِّ مُسْلِم.
حضرت امام صادقؑ نے فرمایا: اگر تم میں سے کوئی اپنی زندگی میں حج کو گیا ہو مگر حسین بن علیؑ کی زیارت کو نہ جائے تو حتما اس نے خدا و رسولؐ کے حقوق میں سے ایک حق کو ترک کر دیا ہے کیونکہ حسینؑ کا حق ایک فرض اور تکلیف ہے جو خدا کی طرف سے ہر مسلمان پر واجب ہے۔

← دوسری روایت


حَدَّثَنِی اَبِی وَ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ رَحِمَهُمُ اللَّهُ جَمِیعاً عَنِ الْحُسَیْنِ بْنِ سَعِیدٍ قَالَ حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنِ السُّحْتِ الْخَزَّازِ قَالَ حَدَّثَنَا حَفْصٌ الْمُزَنِیُّ عَنْ عُمَرَ بْنِ بَیَاضٍ عَنْ اَبَانِ بْنِ تَغْلِبَ قَالَ: قَالَ لِی جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ یَا اَبَانُ مَتَی عَهْدُکَ بِقَبْرِ الْحُسَیْنِ (علیه‌السّلام) قُلْتُ لَا وَ اللَّهِ یَا ابن‌رَسُولِ اللَّهِ مَا لِی بِهِ عَهْدٌ مُنْذُحِینٍ فَقَالَ سُبْحَانَ اللَّهِ الْعَظِیمِ وَ اَنْتَ مِنْ رُؤَسَاءِ الشِّیعَةِ تَتْرُکُ‌ زِیَارَةَ الْحُسَیْنِ‌ (علیه‌السّلام) لَا تَزُورُهُ- مَنْ زَارَ الْحُسَیْنَ (علیه‌السّلام) کَتَبَ اللَّهُ لَهُ بِکُلِّ خُطْوَةٍ حَسَنَةً وَ مَحَا عَنْهُ بِکُلِّ خُطْوَةٍ سَیِّئَةً وَ غَفَرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَ مَا تَاَخَّرَ یَا اَبَانُ لَقَدْ قُتِلَ الْحُسَیْنُ (علیه‌السّلام) فَهَبَطَ عَلَی قَبْرِهِ سَبْعُونَ اَلْفَ مَلَکٍ شُعْثٌ غُبْرٌ یَبْکُونَ عَلَیْهِ وَ یَنُوحُونَ عَلَیْهِ اِلَی یَوْمِ الْقِیَامَةِ.
ابان بن تغلب کہتے ہیں: حضرت جعفر بن محمدؑ نے مجھ سے فرمایا: اے ابان! تم نے حسینؑ کی قبر کی کب زیارت کی تھی؟! میں نے عرض کیا: خدا کی قسم! یا بن رسول اللہ، ابھی تک میں زیارت پر نہیں جا سکا۔ حضرتؑ نے فرمایا: سبحان اللہ، تم شیعہ کے بزرگوں میں سے ہو لیکن امام حسینؑ کی زیارت کو ترک کر رہے ہو، ان کی زیارت کو نہیں جاتے؟! جو حسینؑ کی زیارت کرے خدا ہر قدم کے بدلے اس کیلئے ایک حسنہ لکھتا ہے اور ہر قدم کے بدلے اس کا ایک گناہ محو فرماتا ہے اور اس کے اگلے پچھلے گناہ معاف کر دیتا ہے، اے ابان! جب حسینؑ کو قتل کیا گیا تو ستر ہزار فرشتے پراگندہ اور غبار آلود حالت میں ان کی قبر پر اترے اور اس دن سے ظہور قیامت تک ان پر گریہ کر رہے ہیں اور مرثیہ خوانی کر رہے ہیں۔

← زیارتِ اربعین پر تیسری روایت


اَخْبَرَنَا جَمَاعَةٌ مِنْ اَصْحَابِنَا عَنْ اَبِی مُحَمَّدٍ هَارُونَ بْنِ مُوسَی بْنِ اَحْمَدَ التَّلَّعُکْبَرِیِّ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ مَعْمَرٍ قَالَ حَدَّثَنِی اَبُو الْحَسَنِ عَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مَسْعَدَةَ وَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ فَضَّالٍ عَنْ سَعْدَانَ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ مِهْرَانَ الْجَمَّالِ قَالَ: قَالَ لِی مَوْلَایَ الصَّادِقُ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَیْهِ فِی زِیَارَةِ الْاَرْبَعِینَ‌ تَزُورُ عِنْدَ ارْتِفَاعِ النَّهَارِ وَ تَقُولُ- السَّلَامُ عَلَی وَلِیِّ اللَّهِ وَ حَبِیبِهِ السَّلَامُ عَلَی خَلِیلِ اللَّهِ وَ نَجِیبِهِ السَّلَامُ عَلَی صَفِیِّ اللَّهِ وَ ابن‌صَفِیِّهِ السَّلَامُ عَلَی الْحُسَیْنِ الْمَظْلُومِ الشَّهِیدِ السَّلَامُ عَلَی اَسِیرِ الْکُرُبَاتِ وَ قَتِیلِ الْعَبَرَاتِ اللَّهُمَّ اِنِّی اَشْهَدُ اَنَّهُ وَلِیُّکَ وَ ابن‌وَلِیِّکَ وَ صَفِیُّکَ وَ ابن‌صَفِیِّکَ الْفَائِزُ بِکَرَامَتِکَ اَکْرَمْتَهُ بِالشَّهَادَةِ وَ حَبَوْتَهُ بِالسَّعَادَةِ وَ اجْتَبَیْتَهُ بِطِیبِ الْوِلَادَةِ وَ جَعَلْتَهُ سَیِّداً مِنَ السَّادَةِ وَ قَائِداً مِنَ الْقَادَةِ وَ ذَائِداً مِنَ الذَّادَةِ وَ اَعْطَیْتَهُ مَوَارِیثَ الْاَنْبِیَاءِ وَ جَعَلْتَهُ حُجَّةً عَلَی خَلْقِکَ مِنَ الْاَوْصِیَاءِ فَاَعْذَرَ فِی الدُّعَاءِ وَ مَنَحَ النُّصْحَ وَ بَذَلَ مُهْجَتَهُ فِیکَ لِیَسْتَنْقِذَ عِبَادَکَ مِنَ الْجَهَالَةِ وَ حَیْرَةِ الضَّلَالَةِ وَ قَدْ تَوَازَرَ عَلَیْهِ مَنْ غَرَّتْهُ الدُّنْیَا وَ بَاعَ حَظَّهُ بِالْاَرْذَلِ الْاَدْنَی وَ شَرَی آخِرَتَهُ بِالثَّمَنِ الْاَوْکَسِ وَ تَغَطْرَسَ وَ تَرَدَّی فِی هَوَاهُ وَ اَسْخَطَ نَبِیَّکَ وَ اَطَاعَ مِنْ عِبَادِکَ اَهْلَ الشِّقَاقِ وَ النِّفَاقِ وَ حَمَلَةَ الْاَوْزَارِ الْمُسْتَوْجِبِینَ النَّارَ فَجَاهَدَهُمْ فِیکَ صَابِراً مُحْتَسِباً حَتَّی سُفِکَ فِی طَاعَتِکَ دَمُهُ وَ اسْتُبِیحَ حَرِیمُهُ اللَّهُمَّ فَالْعَنْهُمْ لَعْناً وَبِیلًا وَ عَذِّبْهُمْ عَذَاباً اَلِیماً السَّلَامُ عَلَیْکَ یَا ابن‌رَسُولِ اللَّهِ السَّلَامُ عَلَیْکَ یَا ابن‌سَیِّدِ الْاَوْصِیَاءِ اَشْهَدُ اَنَّکَ اَمِینُ اللَّهِ وَ ابن‌اَمِینِهِ عِشْتَ سَعِیداً وَ مَضَیْتَ حَمِیداً وَ مِتَّ فَقِیداً مَظْلُوماً شَهِیداً وَ اَشْهَدُ اَنَّ اللَّهَ مُنْجِزٌ مَا وَعَدَکَ وَ مُهْلِکٌ مَنْ خَذَلَکَ وَ مُعَذِّبٌ مَنْ قَتَلَکَ-وَ اَشْهَدُ اَنَّکَ وَفَیْتَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَ جَاهَدْتَ فِی سَبِیلِهِ حَتَّی اَتَاکَ الْیَقِینُ فَلَعَنَ اللَّهُ مَنْ قَتَلَکَ وَ لَعَنَ اللَّهُ مَنْ ظَلَمَکَ وَ لَعَنَ اللَّهُ اُمَّةً سَمِعَتْ بِذَلِکَ فَرَضِیَتْ بِهِ اللَّهُمَّ اِنِّی اُشْهِدُکَ اَنِّی وَلِیٌّ لِمَنْ وَالاهُ وَ عَدُوٌّ لِمَنْ عَادَاهُ بِاَبِی اَنْتَ وَ اُمِّی یَا ابن‌رَسُولِ اللَّهِ اَشْهَدُ اَنَّکَ کُنْتَ نُوراً فِی الْاَصْلَابِ الشَّامِخَةِ وَ الْاَرْحَامِ الطَّاهِرَةِ لَمْ تُنَجِّسْکَ الْجَاهِلِیَّةُ بِاَنْجَاسِهَا وَ لَمْ تُلْبِسْکَ الْمُدْلَهِمَّاتُ مِنْ ثِیَابِهَا وَ اَشْهَدُ اَنَّکَ مِنْ دَعَائِمِ الدِّینِ وَ اَرْکَانِ الْمُسْلِمِینَ وَ مَعْقِلِ الْمُؤْمِنِینَ وَ اَشْهَدُ اَنَّکَ الْاِمَامُ الْبَرُّ التَّقِیُّ الرَّضِیُّ الزَّکِیُّ الْهَادِی الْمَهْدِیُّ وَ اَشْهَدُ اَنَّ الْاَئِمَّةَ مِنْ وُلْدِکَ کَلِمَةُ التَّقْوَی وَ اَعْلَامُ الْهُدَی وَ الْعُرْوَةُ الْوُثْقَی وَ الْحُجَّةُ عَلَی اَهْلِ الدُّنْیَا وَ اَشْهَدُ اَنِّی بِکُمْ مُؤْمِنٌ وَ بِاِیَابِکُمْ مُوقِنٌ بِشَرَائِعِ دِینِی وَ خَوَاتِیمِ عَمَلِی وَ قَلْبِی لِقَلْبِکُمْ سِلْمٌ وَ اَمْرِی لِاَمْرِکُمْ مُتَّبِعٌ وَ نُصْرَتِی لَکُمْ مُعَدَّةٌ حَتَّی یَاْذَنَ اللَّهُ لَکُمْ فَمَعَکُمْ مَعَکُمْ لَا مَعَ عَدُوِّکُمْ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَیْکُمْ وَ عَلَی اَرْوَاحِکُمْ وَ اَجْسَادِکُمْ وَ شَاهِدِکُمْ وَ غَائِبِکُمْ وَ ظَاهِرِکُمْ وَ بَاطِنِکُمْ آمِینَ رَبَّ الْعَالَمِینَ وَ تُصَلِّی رَکْعَتَیْنِ وَ تَدْعُو بِمَا اَحْبَبْتَ وَ تَنْصَرِفُ.
صفوان کہتے ہیں: میرے مولا امام صادقؑ نے اربعین کی زیارت کے بارے میں مجھے کہا: جب سورج کچھ بلند ہو جائے تو یہ پڑھو:
سلام ہو خدا کے دوست اور اس کے پیارے پر! سلام ہو خدا کے سچے دوست اور چنے ہوئے پر! سلام ہو خدا کے پسندیدہ اور اس کے پسندیدہ کے فرزند پر! سلام ہو حسینؑ پر جو ستم دیدہ شہید ہیں! سلام ہو حسین پر جو مشکلوں میں پڑے اور ان کی شہادت پر آنسو بہے! اے معبود! میں گواہ ہوں کہ وہ تیرے ولی اور تیرے ولی کے فرزند تیرے پسندیدہ اور تیرے پسندیدہ کے فرزند ہیں جنہوں نے تجھ سے عزت پائی تو نے انہیں شہادت کی عزت دی ان کو خوش بختی نصیب کی اور انہیں پاک گھرانے میں پیدا کیا، تونے قرار دیا انہیں سرداروں میں سردار، پیشواؤں میں پیشوا، مجاہدوں میں مجاہد اور انہیں نبیوں کے ورثے عنایت کیے، تو نے قرار دیا ان کو اوصیا میں سے اپنی مخلوقات پر حجت، پس انہوں نے تبلیغ کا حق ادا کیا، بہترین خیر خواہی کی اور تیری خاطر اپنی جان قربان کی تاکہ تیرے بندوں کو نجات دلائیں نادانی اور گمراہی کی پریشانیوں سے جبکہ ان کے خلاف جرائم کا ارتکاب ان لوگوں نے کیا جنہیں دنیا نے دھوکہ دیا، انہوں نے اپنی جانیں معمولی چیز کے بدلے بیچ دیں اور اپنی آخرت کے لیے گھاٹے کا سودا خریدا انہوں نے سرکشی کی اور لالچ کے پیچھے چل پڑے انہوں نے تجھے غضب ناک کیا اور تیرے نبی کو ناراض کیا، انہوں نے تیرے بندوں میں سے ان کی مانی جو ضدی اور بے ایمان تھے، اپنے گناہوں کا بوجھ لے کر جہنم کی طرف چلے گئے پس حسینؑ نے ان کے خلاف تیرے لیے جہاد کیا جم کر ہوشمندی کے ساتھ یہاں تک کہ تیری فرمانبرداری کرنے پر ان کا خون بہایا گیا اور ان کے اہل حرم کو لوٹا گیا؛ اے معبود! لعنت کر ان ظالموں پر سختی کے ساتھ اور عذاب دے ان کو درد ناک عذاب! سلام ہو آپ پر اے رسول خدا کے فرزند! سلام ہو آپ پر اے سردار اوصیاء کے فرزند! میں گواہ ہوں کہ آپ خدا کے امین اور اس کے امین کے فرزند ہیں آپ نیک بختی میں زندہ رہے قابل تعریف حالات سے گزرے اور وفات پائی وطن سے دور کہ آپ ستم رسیدہ شہید ہیں! میں گواہ ہوں کہ خدا آپ کو جزا دے گا جس کا اس نے وعدہ کیا، تباہ ہوگا وہ جس نے آپ کا ساتھ چھوڑا اور عذاب ہوگا اسے جس نے آپ کو قتل کیا، میں گواہ ہوں کہ آپ نے خدا کی دی ہوئی ذمہ داری نبھائی، آپ نے اس کی راہ میں جہاد کیا حتٰی کہ آپ شہید ہو گئے پس خدا لعنت کرے آپ کو قتل کرنے والوں پر! خدا لعنت کرے آپ پر ظلم کرنے والوں پر اور خدا لعنت کرے اس قوم پر جس نے یہ واقعہ شہادت سنا تو اس پر خوشی ظاہر کی! اے معبود! میں تجھے گواہ بناتا ہوں کہ ان کے دوست کا دوست اور ان کے دشمن کا دشمن ہوں، میرے ماں باپ قربان آپ پر اے فرزند رسول خداؐ! میں گواہ ہوں کہ آپ رہے نور کی شکل میں عزت دار پشتوں اور پاکیزہ رحموں میں کہ جاہلیت کی نجاستوں نے آپ کو آلودہ نہیں کیا اور نہ ہی اس نے اپنے بے ہنگم لباس آپ کو پہنائے ہیں، میں گواہ ہوں کہ آپ پایہ ہائے دین میں سے ہیں، مسلمانوں کے سرداروں میں سے ہیں اور مومنوں کی پناہ گاہ ہیں؛ میں گواہ ہوں کہ آپ امام ہیں نیک، پرہیزگار، پسندیدہ، پاک رہبر، راہ یافتہ اور میں گواہ ہوں کہ جو امام آپ کی اولاد میں سے ہوئے ہیں وہ پرہیز گاری کے ترجمان، ہدایت کے نشان، محکم تر سلسلہ اور دنیا والوں پر خدا کی دلیل و حجت ہیں؛ میں گواہ ہوں کہ آپ کا اور آپ کے بزرگوں کا ماننے والا ہوں، اپنے دینی احکام اور عمل کی جزا پر یقین رکھنے والا ہوں، میرا دل آپ کے دل ساتھ پیوستہ ہے، میرا معاملہ آپ کے معاملے کے تابع اور میری مدد آپ کے لیے حاضر ہے حتٰی کہ خدا آپ کو اذن قیام دے پس آپ کے ساتھ ہوں آپ کے ساتھ، نہ آپ کے دشمن کے ساتھ، خدا کی رحمتیں ہوں آپ پر! آپ کی پاک روحوں پر! آپ کے جسموں پر! آپ کے حاضر پر! آپ کے غائب پر آپ کے ظاہر اور آپ کے باطن پر ہماری دعا قبول فرما اے جہانوں کے پروردگار!
اس کے بعد دو رکعت نماز پڑھے اپنی حاجات طلب کرے اور پھر وہاں سے چلا آئے۔

← چوتھی روایت


بِالْاِسْنَادِ عَنِ الشَّرِیفِ اَبِی عَلِیٍّ قَالَ حَدَّثَنَا اَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَعِیدٍ قَالَ حَدَّثَنَا عُبَیْدُ بْنُ بَهْرَامَ الضَّرِیرُ الرَّازِیُّ قَالَ حَدَّثَنِی حُسَیْنُ بْنُ اَبِی الْعَیْفَاءِ الطَّائِیُّ قَالَ سَمِعْتُ اَبِی ذَکَرَ اَنَّ جَعْفَرَ بْنَ مُحَمَّدٍ (علیه‌السلام) مَضَی اِلَی الْحِیرَةِ وَ مَعَهُ غُلَامٌ لَهُ عَلَی‌ رَاحِلَتَیْنِ‌ وَ ذَاعَ الْخَبَرُ بِالْکُوفَةِ فَلَمَّا کَانَ الْیَوْمُ الثَّانِی قُلْتُ لِغُلَامٍ لِی اذْهَبْ فَاقْعُدْ لِی فِی مَوْضِعِ کَذَا وَ کَذَا مِنَ الطَّرِیقِ فَاِذَا رَاَیْتَ غُلَامَیْنِ عَلَی‌ رَاحِلَتَیْنِ‌ فَتَعَالَ اِلَیَّ فَلَمَّا اَصْبَحْنَا جَاءَنِی فَقَالَ قَدْ اَقْبَلَا فَقُمْتُ اِلَی بَارِیَّةٍ فَطَرَحْتُهَا عَلَی قَارِعَةِ الطَّرِیقِ وَ اِلَی وِسَادَةٍ وَ صُفْرِیَّةٍ جَدِیدَةٍ وَ قُلَّتَیْنِ فَعَلَّقْتُهُمَا فِی النَّخْلَةِ وَ عِنْدَهَا طَبَقٌ مِنَ الرُّطَبِ وَ کَانَتِ النَّخْلَةُ صَرَفَانَةً فَلَمَّا اَقْبَلَ تَلَقَّیْتُهُ وَ اِذَا الْغُلَامُ مَعَهُ فَسَلَّمْتُ عَلَیْهِ فَرَحَّبَ بِی ثُمَّ قُلْتُ یَا سَیِّدِی‌ یَا ابن‌رَسُولِ اللَّهِ رَجُلٌ مِنْ مَوَالِیکَ تَنْزِلُ عِنْدِی سَاعَةً وَ تَشْرَبُ شَرْبَةَ مَاءٍ بَارِدٍ فَثَنَی رِجْلَهُ فَنَزَلَ وَ اتَّکَاَ عَلَی الْوِسَادَةِ ثُمَّ رَفَعَ رَاْسَهُ اِلَی النَّخْلَةِ فَنَظَرَ اِلَیْهَا وَ قَالَ یَا شَیْخُ مَا تُسَمُّونَ هَذِهِ النَّخْلَةَ عِنْدَکُمْ قُلْتُ یَا ابن‌رَسُولِ اللَّهُ صَرَفَانَةً فَقَالَ وَیْحَکَ هَذِهِ وَ اللَّهِ الْعَجْوَةُ نَخْلَةُ مَرْیَمَ الْقُطْ لَنَا مِنْهَا فَلَقَطْتُ فَوَضَعْتُهُ فِی الطَّبَقِ الَّذِی فِیهِ الرُّطَبُ فَاَکَلَ مِنْهَا فَاَکْثَرَ فَقُلْتُ لَهُ جُعِلْتُ فِدَاکَ بِاَبِی وَ اُمِّی هَذَا الْقَبْرُ الَّذِی اَقْبَلْتَ مِنْهُ قَبْرُ الْحُسَیْنِ قَالَ اِی وَ اللَّهِیَا شَیْخُ حَقّاً وَ لَوْ اَنَّهُ عِنْدَنَا لَحَجَجْنَا اِلَیْهِ قُلْتُ فَهَذَا الَّذِی عِنْدَنَا فِی الظَّهْرِ اَ هُوَ قَبْرُ اَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ (علیه‌السّلام) قَالَ اِی وَ اللَّهِ یَا شَیْخُ حَقّاً وَ لَوْ اَنَّهُ عِنْدَنَا لَحَجَجْنَا اِلَیْهِ ثُمَّ رَکِبَ رَاحِلَتَهُ وَ مَضی.
۔۔۔حسین بن ابی‌ العیفاء کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد کو یہ کہتے سنا: امام جعفر صادقؑ حیرہ تشریف لے گئے ہیں اور حضرتؑ کے ساتھ ایک جوان ہے اور دونوں سواری پر ہیں۔ یہ خبر کوفہ میں پھیل گئی۔ جب دوسرا دن ہوا تو میں نے اپنے غلام سے کہا کہ جا کر فلاں جگہ راستے پر بیٹھ جاؤ، جب دو سوار پہنچیں تو مجھے آ کر خبر دو۔ جب صبح ہوئی تو غلام خبر لایا کہ وہ دو جوان آ گئے ہیں۔ میں اٹھا اور ایک بوریا ساتھ لے گیا اور حضرتؑ کے راستے میں بچھا دیا، ایک تکیہ چٹائی پر رکھ دیا، اس مقام پر کھجور کا ایک درخت بھی تھا۔ میں نے اس درخت پر دو کوزے آب آویزاں کر دئیے اور کھجوروں کا ایک طبق وہاں رکھ دیا، اس کھجور کے درخت کا نام ’’صرفانہ‘‘ تھا، جب حضرتؑ پہنچے تو میں نے ان کا استقبال کیا اور سلام کیا۔ انہوں نے جواب ارشاد فرمایا اور میری تکریم کی۔ میں نے عرض کیا: اے میرے مولا و آقا! یا بن رسول اللہ! میں آپ کے شیعوں میں سے ہوں اور التماس کرتا ہوں کہ میرے پاس کچھ دیر کیلئے قیام فرمائیں اور ٹھنڈا پانی نوش فرمائیں، حضرتؑ زین سے اتر آئے اور تکیے کے سہارے تشریف فرما ہوئے۔ حضرتؑ نے کھجور کے درخت کو دیکھا اور فرمایا: اے شیخ! اس خرما کے درخت کا کیا نام ہے؟! میں نے عرض کیا: یا بن رسول اللہ! اس درخت کا نام صرفانہ ہے۔ حضرتؑ نے فرمایا: خدا تجھ پر رحمت کرے، بخدا اس درخت کا نام عجوہ ہے؛ یہ وہ کھجور کا درخت ہے جس کے نیچے حضرت عیسیؑ متولد ہوئے تھے اور حضرت مریمؑ نے اس درخت کے خرما کو تناول فرمایا تھا۔ پھر فرمایا کہ اس درخت سے ہمارے لیے کھجوریں اتارو۔ میں نے کھجوریں اتار کر طبق میں رکھ دیں اور حضرتؑ کے پاس لے آیا۔ آپؑ نے خوب تناول فرمائیں۔ میں نے کہا: میں آپؑ کے ماں باپ پر قربان! یہ قبر جہاں سے آپؑ واپس آ رہے ہیں، امام حسینؑ کی ہے؟! فرمایا: ہاں، خدا کی قسم! اے شیخ، اگر یہ قبر مدینہ میں ہوتی تو ضرور اس کی زیارت کرتے۔ میں نے عرض کیا: یہ قبر جو کوفہ کی پشت پر ہے، امیر المومنینؑ کی ہے؟! فرمایا: ہاں اے شیخ، اگر یہ قبر مدینہ کے مضافات میں ہوتی تو ضرور اس کی زیارت کرتے۔

← پانچویں روایت


حَدَّثَنِی الْحَسَنُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ اَبِیهِ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ صَبَّاحٍ الْحَذَّاءِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مَرْوَانَ عَنْ اَبِی عَبْدِ اللَّهِ (علیه‌السّلام) قَالَ سَمِعْتُهُ یَقُولُ‌ زُورُوا الْحُسَیْنَ (علیه‌السّلام) وَ لَوْ کُلَّ سَنَةٍ فَاِنَّ کُلَّ مَنْ اَتَاهُ عَارِفاً بِحَقِّهِ غَیْرَ جَاحِدٍ لَمْ یَکُنْ لَهُ عِوَضٌ غَیْرُ الْجَنَّةِ وَ رُزِقَ رِزْقاً وَاسِعاً وَ آتَاهُ اللَّهُ مَنْ قِبَلَهُ بِفَرَحٍ(بِفَرَجٍ‌) عَاجِلٍ وَ ذَکَرَ الْحَدِیثَ.
حضرت امام صادقؑ نے فرمایا: حسینؑ کی زیارت کرو خواہ ہر سال کرو کیونکہ جو لوگ ان کے حق کی معرفت رکھتے ہوئے اور ان کا انکار نہ کرتے ہوئے ان کی زیارت کریں گے تو ان کی پاداش بہشت اور فراوان روزی ہے، خداوند منان دنیا میں انہیں خوشحالی نصیب کرے گا۔ حق تبارک و تعالیٰ نے چار ہزار فرشتے حسین بن علی کی قبر پر موکل فرمائے ہیں کہ ان پر گریہ کرتے ہیں اور حضرتؑ کے زائرین کی مشایعت کرتے ہیں یہاں تک کہ وہ اپنے گھروں کو لوٹ جائیں، اگر مریض ہوں تو ان کی عیادت کرتے ہیں اور جب ان کی وفات ہوتی ہے تو ان کے جنازے پر حاضر ہو کر ان کیلئے مغفرت و رحمت کی دعا کرتے ہیں۔

← چھٹی روایت


مُحَمَّدُ بْنُ یَحْیَی عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْخَطَّابِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْخَطَّابِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ سِنَانٍ عَنْ مِسْمَعٍ عَنْ یُونُسَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ حَنَانٍ عَنْ اَبِیهِ قَالَ قَالَ اَبُو عَبْدِ اللَّهِ (علیه‌السلام)یَا سَدِیرُ تَزُورُ قَبْرَ الْحُسَیْنِ (علیه‌السّلام) فِی کُلِّ یَوْمٍ قُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاکَ لَاقَالَ فَمَا اَجْفَاکُمْ قَالَ فَتَزُورُونَهُ فِی کُلِّ جُمْعَةٍ قُلْتُ لَا قَالَ فَتَزُورُونَهُ فِی کُلِّ شَهْرٍ قُلْتُ لَا قَالَ فَتَزُورُونَهُ فِی کُلِّ سَنَةٍ قُلْتُ قَدْ یَکُونُ ذَلِکَ قَالَ یَا سَدِیرُ مَا اَجْفَاکُمْ‌ لِلْحُسَیْنِ (علیه‌السّلام) امَا عَلِمْتَ اَنَّ لِلَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ اَلْفَیْ اَلْفِ مَلَکٍ شُعْثٌ غُبْرٌ یَبْکُونَ وَ یَزُورُونَ لَا یَفْتُرُونَ وَ مَا عَلَیْکَ یَا سَدِیرُ اَنْ تَزُورَ قَبْرَ الْحُسَیْنِ (علیه‌السّلام) فِی کُلِّ جُمْعَةٍ خَمْسَ مَرَّاتٍ وَ فِی کُلِّ یَوْمٍ مَرَّةً قُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاکَ اِنَّ بَیْنَنَا وَ بَیْنَهُ فَرَاسِخَ کَثِیرَةً فَقَالَ لِی اصْعَدْ فَوْقَ سَطْحِکَ ثُمَّ تَلْتَفِتُ یَمْنَةً وَ یَسْرَةً ثُمَّ تَرْفَعُ رَاْسَکَ اِلَی السَّمَاءِ ثُمَّ انْحُ نَحْوَ الْقَبْرِ وَ تَقُولُ- السَّلَامُ عَلَیْکَ یَا اَبَا عَبْدِ اللَّهِ السَّلَامُ عَلَیْکَ وَ رَحْمَةُ اللَّهِ وَ بَرَکَاتُهُ تُکْتَبُ لَکَ زَوْرَةٌ وَ الزَّوْرَةُ حَجَّةٌ وَ عُمْرَةٌ قَالَ سَدِیرٌ فَرُبَّمَا فَعَلْتُ فِی الشَّهْرِ اَکْثَرَ مِنْ عِشْرِینَ مَرَّةً.
سدیر کہتے ہیں کہ امام صادقؑ نے فرمایا: تم روزانہ قبر حسینؑ کی زیارت کرتے ہو؟! میں نے کہا: میں آپ پر قربان! نہیں، فرمایا: تم کتنے جفا کار ہو! فرمایا: ہفتے میں ایک مرتبہ ان کی زیارت کرتے ہو؟! میں نے کہا: نہیں۔ فرمایا: ہر مہینے؟ میں نے کہا نہیں: فرمایا: ہر سال؟ میں نے کہا: بعض اوقات ایسا کرتا ہوں۔ فرمایا: اے سدیر! تم کس قدر حسینؑ پر جفا کرتے ہو! کیا تم نہیں جانتے کہ خدائے عزوجل کے دو ہزار پراگندہ اور غبار آلود فرشتے ہیں جو گریہ کرتے ہیں اور زیارت کرتے ہیں اور تھکن محسوس نہیں کرتے۔ کیا فرق پڑتا ہے کہ تم حسینؑ کی قبر کی ہر ہفتے میں پانچ مرتبہ اور ہر دن میں ایک مرتبہ زیارت کرو؟! میں نے کہا: میں آپ پر قربان! ہمارے اور ان کے درمیان کئی فرسخ کا فاصلہ ہے۔ امامؑ نے مجھے فرمایا: چھت پر جاؤ اور دائیں بائیں توجہ کر کے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھاؤ اور قبر حسینؑ کی طرف رخ کر کے کہو: السَّلامُ عَلَیکَ یا ابا عَبدِ اللّهِ، السَّلامُ عَلَیکَ و رَحمَةُ اللّهِ و بَرَکاتُهُ؛
اے ابا عبد اللہ! آپ پر خدا کی رحمت، برکت اور سلام ہو! ایسا کرنے کی صورت میں تمہارے لیے ایک حج اور ایک عمرے کے برابر ثواب لکھا جائے گا۔ راوی کہتا ہے کہ اس کے بعد میں بعض اوقات ایک مہینے میں بیس مرتبہ تک اسے انجام دیتا تھا۔

← ساتویں روایت


حَدَّثَنِی حَکِیمُ بْنُ دَاوُدَ بْنِ حَکِیمٍ عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْخَطَّابِ عَنْ اِبْرَاهِیمَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَلِیِّ بْنِ الْمُعَلَّی عَنْ اِسْحَاقَ بْنِ زِیَادٍ(یَزْدَادَ) قَالَ: اَتَی رَجُلٌ اَبَا عَبْدِ اللَّهِ (علیه‌السلام)فَقَالَ اِنِّی قَدْ ضَرَبْتُ عَلَی کُلِّ شَیْ‌ءٍ لِی ذَهَباً وَ فِضَّةً وَ بِعْتُ ضِیَاعِی فَقُلْتُ اَنْزِلُ مَکَّةَ فَقَالَ لَا تَفْعَلْ فَاِنَّ اَهْلَ مَکَّةَ یَکْفُرُونَ بِاللَّهِ جَهْرَةً قَالَ فَفِی حَرَمِ رَسُولِ اللَّهِ (صلی‌الله‌علیه‌واله‌وسلم) قَالَ هُمْ شَرٌّ مِنْهُمْ قَالَ فَاَیْنَ اَنْزِلُقَالَ عَلَیْکَ بِالْعِرَاقِ الْکُوفَةِ فَاِنَّ الْبَرَکَةَ مِنْهَا عَلَی اثْنَیْ عَشَرَ مِیلًا هَکَذَا وَ هَکَذَا- وَ اِلَی جَانِبِهَا قَبْرٌ مَا اَتَاهُ مَکْرُوبٌ قَطُّ وَ لَا مَلْهُوفٌ اِلَّا فَرَّجَ اللَّهُ عَنْهُ.

← آٹھویں روایت


حَدَّثَنِی الْحَسَنُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ اَبِیهِ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ صَبَّاحٍ الْحَذَّاءِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مَرْوَانَ عَنْ اَبِی عَبْدِ اللَّهِ (علیه‌السّلام) قَالَ سَمِعْتُهُ یَقُولُ‌ زُورُوا الْحُسَیْنَ(علیه‌السلام) وَ لَوْ کُلَّ سَنَةٍ فَاِنَّ کُلَّ مَنْ اَتَاهُ عَارِفاً بِحَقِّهِ غَیْرَ جَاحِدٍ لَمْ یَکُنْ لَهُ عِوَضٌ غَیْرُ الْجَنَّةِ وَ رُزِقَ رِزْقاً وَاسِعاً وَ آتَاهُ اللَّهُ مَنْ قِبَلَهُ بِفَرَحٍ(بِفَرَجٍ‌) عَاجِلٍ وَ ذَکَرَ الْحَدِیث.

← نویں روایت


حَدَّثَنِی اَبِی وَ جَمَاعَةُ مَشَایِخِی عَنْ سَعْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ وَ مُحَمَّدِ بْنِ یَحْیَی وَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ الْحِمْیَرِیِّ وَ اَحْمَدَ بْنِ اِدْرِیسَ جَمِیعاً عَنِ الْحُسَیْنِ بْنِ عُبَیْدِ اللَّهِ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِیِّ بْنِ اَبِی عُثْمَانَ عَنْ عَبْدِ الْجَبَّارِ النَّهَاوَنْدِیِّ عَنْ اَبِی سَعِیدٍ عَنِ الْحُسَیْنِ بْنِ ثُوَیْرِ بْنِ اَبِی فَاخِتَةَ قَالَ قَالَ اَبُو عَبْدِ اللَّهِ (علیه‌السلام)‌یَا حُسَیْنُ مَنْ خَرَجَ مِنْ مَنْزِلِهِ یُرِیدُ زِیَارَةَ قَبْرِ الْحُسَیْنِ بْنِ عَلِیٍّ (علیهما‌السّلام) اِنْ کَانَ مَاشِیاً کَتَبَ اللَّهُ لَهُ بِکُلِّ خُطْوَةٍ حَسَنَةً وَ مَحَی عَنْهُ سَیِّئَةً حَتَّی اِذَا صَارَ فِی الْحَائِرِ کَتَبَهُ اللَّهُ مِنَ الْمُصْلِحِینَ الْمُنْتَجَبِینَ(الْمُفْلِحینَ‌ الْمُنْجِحِینَ‌) حَتَّی اِذَا قَضَی مَنَاسِکَهُ کَتَبَهُ اللَّهُ مِنَ الْفَائِزِینَ حَتَّی اِذَا اَرَادَ الِانْصِرَافَ اَتَاهُ مَلَکٌ فَقَالَ اِنَّ رَسُولَ اللَّهِ (صلی‌الله‌علیه‌واله‌وسلم)یُقْرِؤُکَ السَّلَامَ وَ یَقُولُ لَکَ اسْتَاْنِفِ الْعَمَلَ فَقَدْ غُفِرَ لَکَ مَا مَضَی.

← دسویں روایت


حَدَّثَنِی اَبِی رَحِمَهُ اللَّهُ عَنِ الْحُسَیْنِ بْنِ الْحَسَنِ بْنِ اَبَانٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ اُورَمَةَ عَمَّنْ حَدَّثَهُ عَنْ عَلِیِّ بْنِ مَیْمُونٍ الصَّائِغِ عَنْ اَبِی عَبْدِ اللَّهِ (علیه‌السّلام) قَالَ: یَا عَلِیُّ زُرِ الْحُسَیْنَ‌ وَ لَا تَدَعْهُ قَالَ قُلْتُ مَا لِمَنْ اَتَاهُ مِنَ الثَّوَابِ قَالَ مَنْ اَتَاهُ مَاشِیاً کَتَبَ اللَّهُ لَهُ بِکُلِّ خُطْوَةٍ حَسَنَةً وَ مَحَی عَنْهُ سَیِّئَةً وَ رَفَعَ لَهُ دَرَجَةً فَاِذَا اَتَاهُ وَکَّلَ اللَّهُ بِهِ مَلَکَیْنِ یَکْتُبَانِ مَا خَرَجَ مِنْ فِیهِ مِنْ خَیْرٍ وَ لَا یَکْتُبَانِ مَا یَخْرُجُ مِنْ فِیهِ مِنْ شَرٍّ وَ لَا غَیْرَ ذَلِکَ فَاِذَا انْصَرَفَ وَدَّعُوهُ وَ قَالُوا یَا وَلِیَّ اللَّهِ مَغْفُوراً لَکَ اَنْتَ مِنْ حِزْبِ اللَّهِ وَ حِزْبِ رَسُولِهِ وَ حِزْبِ اَهْلِ بَیْتِ رَسُولِهِ وَ اللَّهِ لَا تَرَی النَّارَ بِعَیْنِکَ اَبَداً وَ لَا تَرَاکَ وَ لَا تَطْعَمُکَ اَبَداً.

← گیارہویں روایت


حدَّثَنِی اَبِی ره وَ جَمَاعَةُ مَشَایِخِی ره عَنْ سَعْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ اَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِیسَی عَنْ اَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ اَبِی نَصْرٍ عَنْ بَعْضِ اَصْحَابِنَا عَنْ اَبَانٍ عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ الْخَثْعَمِیِّ عَنْ اَبِی عَبْدِ اللَّهِ (علیه‌السّلام) قَالَ: قَالَ لِی یَا عَبْدَ الْمَلِکِ لَا تَدَعْ زِیَارَةَ الْحُسَیْنِ بْنِ عَلِیٍّ (علیهما‌السّلام) وَ مُرْ اَصْحَابَکَ بِذَلِکَ یَمُدُّ اللَّهُ فِی عُمُرِکَ وَ یَزِیدُ اللَّهُ فِی رِزْقِکَ وَ یُحْیِیکَ اللَّهُ سَعِیداً وَ لَا تَمُوتُ اِلَّا سَعِیداً(شَهِیداً) وَ یَکْتُبُکَ سَعِیداً.
عبد الملک خثعمی کہتا ہے کہ حضرت امام صادقؑ نے فرمایا: اے عبد الملک! حسین بن علیؑ کی زیارت کو ترک نہ کرو اور اصحاب و مددگاروں کو اس کا امر کرو؛ کیونکہ حق تعالیٰ اس کے واسطہ سے تیری عمر کو طولانی کرے گا اور تیری روزی و رزق کو زیادہ کرے گا، زندگی میں تمہیں سعادت مند کرے گا اور تم اس وقت تک نہیں مرو گے جب تک تمہیں سعادت مندوں میں نہ لکھ دیا جائے۔

← بارہویں روایت


حَدَّثَنِی اَبِی رَحِمَهُ اللَّهُ وَ عَلِیُّ بْنُ الْحُسَیْنِ عَنْ سَعْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ اَحْمَدَ بْنِ حَمْدَانَ الْقَلَانِسِیِّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحُسَیْنِ الْمُحَارِبِیِّ عَنْ اَحْمَدَ بْنِ مِیثَمٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَاصِمٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ النَّجَّارِ قَالَ: قَالَ لِی اَبُو عَبْدِ اللَّهِ (علیه‌السلام) تَزُورُونَ الْحُسَیْنَ (علیه‌السّلام) وَ تَرْکَبُونَ السُّفُنَ فَقُلْتُ نَعَمْ قَالَ ا مَا عَلِمْتَ اَنَّهَا اِذَا انْکَفَتْ بِکُمْ نُودِیتُمْ اَلَا طِبْتُمْ وَ طَابَتْ لَکُمُ الْجَنَّةُ.
عبد اللّہ بن نجّار کہتے ہیں: حضرت امام صادقؑ نے مجھ سے فرمایا: کیا تم امام حسینؑ کی زیارت کو جاتے ہو؟! اور کیا کشتی پر سوار ہوتے ہو کر حضرتؑ کی زیارت پر جاتے ہو؟! میں نے عرض کیا: جی ہاں، حضرتؑ نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو اگر تمہاری کشتی دریا میں الٹ جائے تو ایک منادی ندا دیتا ہے کہ آگاہ ہو جاؤ تم خوش نصیب ہو، جنت کا لطف اٹھاؤ!

← تیرہویں روایت


وَ رَوَی صَالِحٌ الصَّیْرَفِیُّ عَنْ عِمْرَانَ الْمِیثَمِیِّ عَنْ صَالِحِ بْنِ مِیثَمٍ عَنْ اَبِی عَبْدِ اللَّهِ (علیه‌السّلام) قَالَ: مَنْ سَرَّهُ اَنْ یَکُونَ عَلَی مَوَائِدِ النُّورِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ- فَلْیَکُنْ مِنْ زُوَّارِ الْحُسَیْنِ بْنِ عَلِیٍّ (علیه‌السلام).
امام صادقؑ نے فرمایا: جو چاہتا ہے کہ قیامت کے دن نورانی دسترخوانوں پر بیٹھے تو اسے چاہئیے کہ حضرت حسین بن علیؑ کے زائرین میں شامل ہو جائے۔

← چودہویں روایت


حَدَّثَنِی عَلِیُّ بْنُ الْحُسَیْنِ وَ عَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ قُولَوَیْهِ ره عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ یَحْیَی الْعَطَّارِ وَ عَلِیِّ بْنِ‌ اِبْرَاهِیمَ بْنِ هَاشِمٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِیسَی بْنِ عُبَیْدِ بْنِ یَقْطِینٍ الْیَقْطِینِیِّ عَمَّنْ حَدَّثَهُ عَنْ اَبِی خَالِدٍ ذِی الشَّامَةِ قَالَ حَدَّثَنِی اَبُو اُسَامَةَ قَالَ سَمِعْتُ اَبَا عَبْدِ اللَّهِ (علیه‌السلام)یَقُولُ‌ مَنْ اَرَادَ اَنْ یَکُونَ فِی جِوَارِ نَبِیِّهِ (صلی‌الله‌علیه‌واله‌وسلم) وَ جِوَارِ عَلِیٍّ وَ فَاطِمَةَ فَلَا یَدَعْ زِیَارَةَ الْحُسَیْنِ بْنِ عَلِیٍّ (علیه‌السلام).
امام صادقؑ نے فرمایا: جو رسول خداؐ، امیر المومنینؑ اور حضرت فاطمہ زہراؑ کی ہمسائیگی میں رہنا چاہتا ہے تو وہ امام حسینؑ کی زیارت کو ترک نہ کرے۔

← پندرہویں روایت


وَ بِاِسْنَادِهِ عَنْ اَبِی بَصِیرٍ قَالَ سَمِعْتُ اَبَا عَبْدِ اللَّهِ (علیه‌السّلام) وَ(اَوْ) اَبَا جَعْفَرٍ (علیه‌السّلام) یَقُولُ‌ مَنْ اَحَبَّ اَنْ یَکُونَ مَسْکَنُهُ الْجَنَّةَ وَ مَاْوَاهُ الْجَنَّةَ فَلَا یَدَعْ زِیَارَةَ الْمَظْلُومِ قُلْتُ مَنْ هُوَ قَالَ الْحُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ صَاحِبُ کَرْبَلَاءَ مَنْ اَتَاهُ شَوْقاً اِلَیْهِ وَ حُبّاً لِرَسُولِ اللَّهِ وَ حُبّاً لِفَاطِمَةَ وَ حُبّاً لِاَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ (علیه‌السّلام) اَقْعَدَهُ اللَّهُ عَلَی مَوَائِدِ الْجَنَّةِ یَاْکُلُ مَعَهُمْ وَ النَّاسُ فِی الْحِسَابِ.
امام صادقؑ نے فرمایا: جو یہ چاہتا ہے کہ اس کی منزل بہشت میں ہو تو وہ امام مظلومؑ کی زیارت کو ترک نہ کرے۔ میں نے عرض کیا: مظلوم کون ہے؟! حضرتؑ نے فرمایا: مظلوم حسین بن علیؑ ہیں جو کربلا کے صاحب ہیں، جو حضرتؑ کے اشتیاق اور رسول خداؐ، حضرت فاطمہؑ اور امیر المومنینؑ کی محبت میں حضرتؑ کی زیارت کرے تو خدا اسے بہشتی دسترخوان پر جگہ دے گا اور وہ ان ذوات کے ساتھ روزی پائے گا جبکہ دوسرے لوگ ابھی حساب کتاب دے رہے ہوں گے۔

← سولہویں روایت


حَدَّثَنِی اَبُو الْعَبَّاسِ الْکُوفِیُّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحُسَیْنِ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ رَجُلٍ عَنْ اَبَانٍ الْاَزْرَقِ عَنْ رَجُلٍ عَنْ اَبِی عَبْدِ اللَّهِ (علیه‌السلام)قَالَ: مِنْ اَحَبِّ الْاَعْمَالِ اِلَی اللَّهِ تَعَالَی زِیَارَةُ قَبْرِ الْحُسَیْنِ(علیه‌السلام)وَ اَفْضَلُ الْاَعْمَالِ عِنْدَ اللَّهِ اِدْخَالُ السُّرُورِ عَلَی الْمُؤْمِنِ وَ اَقْرَبُ مَا یَکُونُ الْعَبْدُ اِلَی اللَّهِ تَعَالَی وَ هُوَ سَاجِدٌ بَاکٍ.
امام صادقؑ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک محبوب ترین عمل امام حسینؑ کی قبر کی زیارت ہے اور اس کے نزدیک برترین عمل مومنین کے قلوب پر سرور و شادی داخل کرنا ہے اور خدا کے نزدیک ترین بندہ وہ ہے جو خدا کے حضور سجدہ ریز ہو کر گریہ زاری کرے۔

← سترہویں روایت


حَدَّثَنِی مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحُسَیْنِ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِیِّ بْنِ اَبِی عُثْمَانَ عَنْ اِسْمَاعِیلَ بْنِ عَبَّادٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِیٍّ عَنْ اَبِی سَعِیدٍ الْمَدَائِنِ یِّقَالَ: دَخَلْتُ عَلَی اَبِی عَبْدِ اللَّهِ (علیه‌السّلام) فَقُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاکَ آتِی قَبْرَ الْحُسَیْنِ قَالَ نَعَمْ یَا اَبَا سَعِیدٍ ائْتِ قَبْرَ ابن‌رَسُولِ اللَّهِ (صلی‌الله‌علیه‌واله‌وسلم)اَطْیَبِ الطَّیِّبِینَ- وَ اَطْهَرِ الطَّاهِرِینَ وَ اَبَرِّ الْاَبْرَارِ فَاِذَا زُرْتَهُ کُتِبَ لَکَ اثْنَتَانِ وَ عِشْرُونَ عُمْرَةً.
ابو سعید کہتے ہیں: میں امام صادقؑ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: میں آپ پر قربان! کیا حضرت امام حسینؑ کی قبر کی زیارت پر جاؤں؟! حضرتؑ نے فرمایا: ہاں، اے ابا سعد! رسول خداؐ کے فرزند کی قبر کی زیارت کو جاؤ کیونکہ وہ سب سے زیادہ پاک و پاکیزہ اور نیک ہیں۔ جب بھی تو ان کی زیارت کرے گا تو تمہارے لیے بائیس عمروں کا ثواب لکھا جائے گا۔

← اٹھارہویں روایت


حَدَّثَنِی مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ الْقُرَشِیُّ الْکُوفِیُّ الرَّزَّازُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحُسَیْنِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ اِسْمَاعِیلَ بْنِ بَزِیعٍ عَنْ صَالِحِ بْنِ عُقْبَةَ عَنْ یَزِیدَ بْنِ عَبْدِ الْمَلِکِ قَالَ: کُنْتُ مَعَ اَبِی عَبْدِ اللَّهِ (علیه‌السلام)‌ فَمَرَّ قَوْمٌ عَلَی حَمِیرٍ فَقَالَ اَیْنَ یُرِیدُونَ هَؤُلَاءِ قُلْتُ قُبُورَ الشُّهَدَاءِ قَالَ فَمَا یَمْنَعُهُمْ مِنْ زِیَارَةِ الشَّهِیدِ الْغَرِیبِ قَالَفَقَالَ لَهُ رَجُلٌ مِنْ اَهْلِ الْعِرَاقِ زِیَارَتُهُ وَاجِبَةٌ قَالَ زِیَارَتُهُ خَیْرٌ مِنْ حِجَّةٍ وَ عُمْرَةٍ حَتَّی عَدَّ عِشْرِینَ حِجَّةً وَ عُمْرَةً ثُمَّ قَالَ مَبْرُورَاتٍ مُتَقَبَّلَاتٍ- قَالَ فَوَ اللَّهِ مَا قُمْتُ مِنْ عِنْدِهِ حَتَّی اَتَاهُ رَجُلٌ فَقَالَ لَهُ اِنِّی قَدْ حَجَجْتُ تِسْعَةَ عَشَرَ حِجَّةً- فَادْعُ اللَّهَ لِی اَنْ یَرْزُقَنِی تَمَامَ الْعِشْرِینَ قَالَ فَهَلْ زُرْتَ قَبْرَ الْحُسَیْنِ(علیه‌السلام) قَالَ لَا قَالَ اِنَّ زِیَارَتَهُ خَیْرٌ مِنْ عِشْرِینَ حِجَّةً.

← انیسویں روایت


رُوِیَ عَنِ الصَّادِقِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ علیهالسلام اَنَّهُ قَالَ‌زِیَارَةُ الْحُسَیْنِ بْنِ عَلِیٍّ(علیه‌السلام)وَاجِبَةٌ عَلَی کُلِّ مَنْ یُقِرُّ لِلْحُسَیْنِ‌بِالْاِمَامَةِ مِنَ اللَّهِ عَزَّ وَ جَل‌.
حضرت امام صادقؑ نے فرمایا: امام حسینؑ کی زیارت ہر اس شخص پر واجب ہے جو آپؑ کی امامت کو قبول رکھتا ہو۔

← بیسویں روایت


حَدَّثَنِی اَبُو الْعَبَّاسِ الرَّزَّازُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحُسَیْنِ بْنِ اَبِی الْخَطَّابِ عَنْ اَبِی دَاوُدَ الْمُسْتَرِقِّ عَنْ اُمِّ سَعِیدٍ الْاَحْمَسِیَّةِ قَالَتْ‌ کُنْتُ عِنْدَ اَبِی عَبْدِ اللَّهِ (علیه‌السّلام) وَ قَدْ بَعَثْتُ مَنْ یَکْتَرِی لِی حِمَاراً اِلَی قُبُورِ الشُّهَدَاءِفَقَالَ مَا یَمْنَعُکِ مِنْ زِیَارَةِ سَیِّدِ الشُّهَدَاءِ قَالَتْ‌ قُلْتُ وَ مَنْ هُوَ قَالَ الْحُسَیْنُ (علیه‌السّلام) قَالَتْ قُلْتُ وَ مَا لِمَنْ زَارَهُ قَالَ حِجَّةٌ وَ عُمْرَةٌ مَبْرُورَةٌ وَ مِنَ الْخَیْرِ کَذَا وَ کَذَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ بِیَدِهِ.

← اکیسویں روایت


حَدَّثَنِی اَبِی رَحِمَهُ اللَّهُ عَنِ الْحُسَیْنِ بْنِ الْحَسَنِ بْنِ اَبَانٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ اُورَمَةَ عَنْ اَبِی عَبْدِ اللَّهِ الْمُؤْمِنِ عَنِ ابن‌مُسْکَانَ عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ خَالِدٍ قَالَ سَمِعْتُ اَبَا عَبْدِ اللَّهِ (علیه‌السلام)یَقُولُ‌ عَجَباً لِاَقْوَامٍ یَزْعُمُونَ اَنَّهُمْ شِیعَةٌ لَنَا وَ یُقَالُ اِنَّ اَحَدَهُمْ یَمُرُّ بِهِ دَهْرَهُ وَ لَا یَاْتِی قَبْرَ الْحُسَیْنِ (علیه‌السّلام) جَفَاءً مِنْهُ و تَهَاوُناً وَ عَجْزاً وَ کَسَلًاتَهَاوَنَ وَ عَجَزَ وَ کَسِلَ اَمَا وَ اللَّهِ لَوْ یَعْلَمُ مَا فِیهِ مِنَ الْفَضْلِ مَا تَهَاوَنَ وَ لَا کَسِلَ قُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاکَ وَ مَا فِیهِ مِنَ الْفَضْلِ قَالَ فَضْلٌ وَ خَیْرٌ کَثِیرٌ اَمَا اَوَّلُ مَا یُصِیبُهُ اَنْ یُغْفَرَ لَهُ مَا مَضَی مِنْ ذُنُوبِهِ وَ یُقَالَ لَهُ اسْتَاْنِفِ الْعَمَلَ.

امام کاظمؑ کی سیرت

[ترمیم]

بعض روایات میں امام کاظمؑ نے گناہوں کی مغفرت کو امام حسینؑ کی زیارت کے ثمرات میں سے شمار فرمایا ہے۔

← پہلی روایت


حَدَّثَنِی اَبِی رَحِمَهُ اللَّهُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ الْحِمْیَرِیِّ وَ حَدَّثَنِی مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ الْحِمْیَرِیُّ عَنْ اَبِیهِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ عَلِیِّ بْنِ اِسْمَاعِیلَ الْقُمِّیِّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو الزَّیَّاتِ عَنْ قائد(فَائِدٍ) الْحَنَّاطِ عَنْ اَبِی الْحَسَنِ الْمَاضِی (علیه‌السّلام) قَالَ: مَنْ زَارَ الْحُسَیْنَ (علیه‌السّلام) عَارِفاً بِحَقِّهِ‌ غَفَرَ اللَّهُ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَ مَا تَاَخَّرَ.

← دوسری روایت


مُحَمَّدُ بْنُ یَحْیَی عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحُسَیْنِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ اِسْمَاعِیلَ عَنِ الْخَیْبَرِیِ عَنِ الْحُسَیْنِ بْنِ مُحَمَّدٍ قَالَ قَالَ اَبُو الْحَسَنِ مُوسَی علیهالسلام اَدْنَی مَا یُثَابُ‌ بِهِ زَائِرُ اَبِی عَبْدِ اللَّهِ (علیه‌السّلام) بِشَطِّ الْفُرَاتِ اِذَا عَرَفَ حَقَّهُ وَ حُرْمَتَهُ وَ وَلَایَتَهُ اَنْ یُغْفَرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَ مَا تَاَخَّرَ.

امام‌ رضاؑ کی سیرت

[ترمیم]

امام رضاؑ بھی امام حسینؑ کی زیارت کو بڑی اہمیت دیتے تھے اور زیارت کا ثواب بیان کر کے لوگوں کو اس کی تشویق فرماتے تھے۔

← پہلی روایت


حَدَّثَنِی اَبِی وَ جَمَاعَةُ مَشَایِخِی عَنْ سَعْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ حَدَّثَنِی اَحْمَدُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ عُبَیْدٍ الْجُعْفِیُّ قَالَ حَدَّثَنِی مُحَمَّدُ بْنُ اَبِی جَرِیرٍ الْقُمِّیُّ قَالَ: سَمِعْتُ اَبَا الْحَسَنِ الرِّضَا (علیه‌السّلام) یَقُولُ لِاَبِی مَنْ زَارَ الْحُسَیْنَ بْنَ عَلِیٍّ (علیه‌السّلام) عَارِفاً بِحَقِّهِ کَانَ مِنْ مُحَدِّثِی‌ اللَّهِ‌ فَوْقَ عَرْشِهِ ثُمَّ قَرَاَ اِنَّ الْمُتَّقِینَ فِی جَنَّاتٍ وَ نَهَرٍ. فِی مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِیکٍ مُقْتَدِر.

← دوسری روایت


وَ حَدَّثَنِی مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ الرَّزَّازُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحُسَیْنِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ اِسْمَاعِیلَ بْنِ بَزِیعٍ عَنِ الْخَیْبَرِیِّ عَنِ الْحُسَیْنِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْقُمِّیِّ قَالَ: قَالَ لِیَ الرِّضَا علیهالسلام مَنْ زَارَ قَبْرَ اَبِی‌ بِبَغْدَادَ کَانَ کَمَنْ زَارَ رَسُولَ اللَّهِ (صلی‌الله‌علیه‌واله‌وسلم) وَ اَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ اِلَّا اَنَّ لِرَسُولِ اللَّهِ (صلی‌الله‌علیه‌واله‌وسلم)وَ اَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ فَضْلَهُمَا قَالَ ثُمَّ قَالَ لِی مَنْ زَارَ قَبْرَ اَبِی عَبْدِ اللَّهِ بِشَطِّ الْفُرَاتِ کَانَ کَمَنْ زَارَ اللَّهَ فَوْقَ کُرْسِیِّهِ(فِی عَرْشِهِ‌).

امام‌ ہادیؑ کی سیرت

[ترمیم]

ایک انتہائی جالب روایت میں حضرت امام ہادیؑ اپنی بیماری کی شفا کیلئے کسی شخص کو حضرت امام حسینؑ کی قبر کی زیارت کیلئے روانہ فرماتے ہیں کہ وہاں پر جا کر آپؑ کیلئے دعا کرے۔
اس روایت سے بخوبی اہل بیتؑ کے نزدیک امام حسینؑ کی زیارت کی اہمیت کا ادراک ہوتا ہے۔
قَالَ اَبُو مُحَمَّدٍ الْوَهْوِرْدِیُّ حَدَّثَنِی اَبُو عَلِیٍّ مُحَمَّدُ بْنُ هَمَّامٍ ره قَالَ حَدَّثَنِی مُحَمَّدٌ الْحِمْیَرِیُّ قَالَ حَدَّثَنِی اَبُو هَاشِمٍ الْجَعْفَرِیُّ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَی اَبِی الْحَسَنِ عَلِیِّ بْنِ مُحَمَّدٍ (علیه‌السّلام) وَ هُوَ مَحْمُومٌ عَلِیلٌ فَقَالَ لِییَا اَبَا هَاشِمٍ ابْعَثْ رَجُلًا مِنْ مَوَالِینَا اِلَی الْحَائِرِ یَدْعُو اللَّهَ لِی فَخَرَجْتُ مِنْ عِنْدِهِ فَاسْتَقْبَلَنِی عَلِیُّ بْنُ بِلَالٍ فَاَعْلَمْتُهُ مَا قَالَ لِی وَ سَاَلْتُهُ اَنْ یَکُونَ الرَّجُلَ الَّذِی یَخْرُجُ فَقَالَ السَّمْعَ وَ الطَّاعَةَ وَ لَکِنَّنِی اَقُولُ- اِنَّهُ اَفْضَلُ مِنَ الْحَائِرِ اِذْ کَانَ بِمَنْزِلَةِ مَنْ فِی الْحَائِرِ وَ دُعَاؤُهُ لِنَفْسِهِ اَفْضَلُ مِنْ دُعَائِی لَهُ بِالْحَائِرِ فَاَعْلَمْتُهُ (علیه‌السّلام) مَا قَالَ فَقَالَ لِی قُلْ لَهُ کَانَ رَسُولُ اللَّهِ (صلی‌الله‌علیه‌واله‌وسلم)اَفْضَلَ مِنَ الْبَیْتِ وَ الْحَجَرِ وَ کَانَ یَطُوفُ بِالْبَیْتِ وَ یَسْتَلِمُ الْحَجَرَ وَ اِنَّ لِلَّهِ تَعَالَی بِقَاعاً یُحِبُّ اَنْ یُدْعَی فِیهَا فَیَسْتَجِیبَ لِمَنْ دَعَاهُ وَ الْحَائِرُ مِنْهَا.

امام حسن عسکریؑ کی سیرت

[ترمیم]

امام حسن عسکریؑ بھی ایک روایت کے مطابق امام حسینؑ کی زیارت کو مومن کی علامات میں سے شمار کرتے ہیں:
رُوِیَ عَنْ اَبِی مُحَمَّدٍ الْحَسَنِ بْنِ عَلِیٍّ الْعَسْکَرِیِّ (علیه‌السلام)اَنَّهُ قَالَ‌ عَلَامَاتُ الْمُؤْمِنِ خَمْسٌ صَلَاةُ الْاِحْدَی وَ الْخَمْسِینَ وَ زِیَارَةُ الْاَرْبَعِینَ وَ التَّخَتُّمُ فِی الْیَمِینِ وَ تَعْفِیرُ الْجَبِینِ وَ الْجَهْرُ بسم الله الرحمن الرحیم.
مؤمن کی پانچ علامات ہیں: ۱ ـ اکاون رکعت نماز؛ ۲ ـ زیارت اربعین؛ ۳ ـ دائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہننا؛ ۴ ـ خاک پر سجدہ کرنا؛ ۵ ـ بسم الله الرحمن الرحیم کو بلند آواز سے کہنا۔

امام زمانہؑ کی سیرت

[ترمیم]

امام زمانہؑ کی زیارت سے مشرف ہونے والے حاج علی بغدادی کی معروف حکایت میں منقول ہے کہ حضرتؑ حاج علی بغدادی کے ہمراہ امام حسینؑ کی زیارت کو جاتے ہیں جو آپؑ کی زیارت کے انتہائی اہم ہونے کی دلیل ہے۔
یہ حکایت تفصیل کے ساتھ مرحوم نوری کی کتاب النجم الثاقب میں منقول ہوئی ہے کہ جسے ہم مختصر طور پر نقل کریں گے۔

الحکایة الحادیة و الثلاثون: قضیة الصالح الصفی التقی الحاج علی البغدادی الموجود حالیاً فی وقت تالیف هذا الکتاب وفّقه الله، وهی تناسب الحکایة السابقة، ولو لم یکن فی هذا الکتاب الشریف الّا هذه الحکایة المتقنة الصحیحة التی فیها فوائد کثیرة، وقد حدثت فی وقت قریب، لکفت فی شرفه ونفاسته. فی شهر رجب السنة الماضیة کنت مشغولا بتالیف رسالة جنّة الماوی فعزمت علی السفر الی النجف الاشرف لزیارة المبعث، فجئت الکاظمین ووصلت بخدمة جناب العالم العامل والفقیه الکامل السید السند والحبر المعتمد الآقا السید محمد ابن‌العالم الاوحد السید احمد ابن‌العالم الجلیل والدوحة النبیل السید حیدر الکاظمینی ایّده الله وهو من تلامذة خاتم المجتهدین وفخر الاسلام والمسلمین الاستاذ الاعظم الشیخ مرتضی اعلی الله تعالی مقامه، ومن اتقیاء علماء تلک البلدة الشریفة، ومن صلحاء ائمة جماعة الصحن والحرم الشریف، وکان ملاذاً للطلاب والغرباء والزوار، وابوه وجدّه من العلماء المعروفین، وما زالت تصانیف جدّه سید حیدر فی الاصول والفقه وغیرهما موجودة. فسالته اذا کان رای او سمع حکایة صحیحة فی هذا الباب ان ینقلها، فنقل هذه القضیة، وکنت قد سبقتها سابقاً ولکنّی لم اضبط اصلها وسندها فطلبت منه ان یکتبها بخطّ یده. فقال: سمعتها من مدّة واخاف ان ازید فیها او انقص، فعلیَّ ان التقی به واسئله ومن ثمّ اکتبها، ولکن اللقاء به والاخذ منه صعب فانّه من حین وقوع هذه القضیة قلّ اُنسه بالناس وسکناه فی بغداد وعندما یاتی للتشرّف بالزیارة فانّه لا یذهب الی مکان ویرجع بعد ان یقضی وطراً من الزیارة، فیتفق ان لا اراه فی السنة الّا مرّة او مرّتین فی الطریق، وعلی ذلک فانّ مبناه علی الکتمان الّا علی بعض الخواص ممن یامن منه الافشاء والاذاعة خوف استهزاء المخالفین المجاورین المنکرین ولادة المهدی (علیه‌السّلام) وغیبته، وخوفاً من ان ینسبه العوام الی الفخر وتنزیه النفس. قلت: انّی اطلب منک ان تراه مهما کان وتساله عن هذه القضیة الی حین رجوعی من النجف، فالحاجة کبیرة والوقت ضیق. ففارقته لساعتین او ثلاث ثمّ رجع الیّ وقال: من اعجب القضایا انّی عندما ذهبت الی منزلی جائنی شخص مباشرة وقال جاؤوا بجنازة من بغداد ووضعوها فی الصحن الشریف وینتظرونک للصلاة علیها. فقمت وذهبت وصلّیت فرایت الحاج المذکور بین المشیّعین فاخذته جانباً، وبعد امتناعه سمعت هذه القضیة، فشکرت الله علی هذه النعمة السنیة، فکتبت القصة بکاملها وثبّتها فی جنّة الماوی. اجتمع فی ذمّتی ثمانون توماناً من مال الامام (علیه‌السّلام) فذهبت الی النجف الاشرف فاعطیت عشرین توماناً منه لجناب علم الهدی والتقی الشیخ مرتضی اعلی الله مقامه وعشرین توماناً الی جناب الشیخ محمد حسین المجتهد الکاظمینی وعشرین توماناً لجناب الشیخ محمد حسن الشروقی وبقی فی ذمّتی عشرون توماناً، کان فی قصدی ان اعطیها الی جناب الشیخ محمد حسن الکاظمینی آل یاسینی ایده الله عند رجوعی. فعندما رجعت الی بغداد کنت راغباً فی التعجیل باداء ما بقی فی ذمّتی، فتشرّفت فی یوم الخمیس بزیارة الامامین الهمامین الکاظمین وبعد ذلک ذهبت الی خدمة جناب الشیخ سلّمه الله واعطیته مقداراً من العشرین توماناً وواعدته بانی سوف اعطی الباقی بعد ما ابیع بعض الاشیاء تدریجیاً، وان یجیزنی ان اوصله الی اهله، وعزمت علی الرجوع الی بغداد فی عصر ذلک الیوم، وطلب جناب الشیخ منّی ان اتاخر فاعتذرت بان علیّ ان اوفی عمّال النسیج اجورهم، فانّه کان من المرسوم ان اسلّم اجرة الاسبوع عصر الخمیس، فرجعت وبعد ان قطعت ثلث الطریق تقریباً رایت سیداً جلیلا قادماً من بغداد من امامی، فعندما قرب منّی سلّم علیّ واخذ بیدی مصافحاً ومعانقاً وقال: اهلا وسهلا وضمنی الی صدره وعانقنی وقبّلنی وقبّلته، وکانت علی راسه عمامة خضراء مضیئة مزهرة، وفی خدّه المبارک خال اسود کبیر، فوقف وقال: حاج علی علی خیر، علی خیر، این تذهب؟ قلت: زرت الکاظمین (علیهما‌السّلام) وارجع الی بغداد. قال: هذه اللیلة لیلة الجمعة فارجع. قلت: یا سیدی لا اتمکّن. فقال: فی وسعک ذلک، فارجع حتی اشهد لک بانّک من موالی جدّی امیرالمؤمنین (علیه‌السّلام) ومن موالینا، ویشهد لک الشیخ کذلک، فقد قال تعالی: {واستشهدوا شهیدین} وکان ذلک منه اشارة الی مطلب کان فی ذهنی ان التمس من جناب الشیخ ان یکتب لی شهادة بانّی من موالی اهل البیت (علیه‌السّلام) لاضعها فی کفنی. فقلت: ‌ای شیء تعرفه، وکیف تشهد لی؟ قال: من یوصل حقّه الیه، کیف لا یعرف من اوصله؟ قلت: ایُّ حق؟ قال: ذلک الذی اوصلته الی وکیلی. قلت: من هو وکیلک. قال: الشیخ محمد حسن. قلت: وکیلک؟ قال: وکیلی. وکان قد قال لجناب الآقا السید محمد، وکان قد خطر فی ذهنی ان هذا السید الجلیل یدعونی باسمی مع انّی لا اعرفه، فقلت فی نفسی لعلّه یعرفنی وانا نسیته. ثمّ قلت فی نفسی ایضاً: انّ هذا السید یرید منّی شیئاً من حقّ السادة، واحببت ان اُوصل الیه شیئاً من مال الامام (علیه‌السّلام) الذی عندی. فقلت: یا سید بقی عندی شیءٌ من حقّکم فرجعت فی امره الی جناب الشیخ محمد حسن لاؤدّی حقّکم یعنی السادات باذنه. فتبسّم فی وجهی وقال: نعم قد اوصلت بعضاً من حقّنا الی وکلائنا فی النجف الاشرف. فقلت: هل قبل ذلک الذی ادّیته؟ فقال: نعم. خطر فی ذهنی ان هذا السید یقول بالنسبة الی العلماء الاعلام (وکلائنا) فاستعظمت ذلک، فقلت: العلماء وکلاء فی قبض حقوق السادات وغفلت. ثم قال: ارجع زُر جدّی. فرجعت وکانت یده الیمنی بیدی الیسری فعندما سرنا رایت فی جانبنا الایمن نهراً ماؤه ابیض صاف جار، واشجار اللیمون والنارنج والرمان والعنب وغیرها کلّها مثمرة فی وقت واحد مع انّه لم یکن موسمها، وقد تدلت فوق رؤوسنا. قلت: ما هذا النهر وما هذه الاشجار؟ قال: انها تکون مع کل من یزورنا ویزور جدّنا من موالینا الی ان قالالحاج علی البغدادی: قال لی ذالک السید: هل تزور جدّی الحسین (علیه‌السلام)؟ قلت: نعم ازوره فهذه لیلة الجمعة. فقرا زیارة وارث، وقد فرغ المؤذنون من اذان المغرب، فقال لی: صلِّ والتحق بالجماعة، فجاء الی المسجد الذی یقع خلف الحرم المطهّر وکانت الجماعة قد انعقدت هناک، ووقف هو منفرداً فی الجانب الایمن لامام الجماعة محاذیاً له، ودخلت انا فی الصفّ الاول حیث وجدت مکاناً لی هناک فعندما انتهیت لم اجده.
محدث نوری فرماتے ہیں:
اکتیسویں حکایت ایک صالح، پاک اور متقی مومن حاج علی بغدادی کے بارے میں ہے کہ جو اس وقت کتاب کی تالیف کے دوران زندہ ہیں۔ اگر اس کتاب میں زمانہ قریب کی بے شمار فوائد پر مشتمل اس صحیح حکایت کے سوا کچھ نہ ہو تو بھی اس کتاب کی شرافت و نفاست کیلئے کافی ہے۔
گزشتہ سال ماہ رجب میں کتاب جنۃ الماویٰ کی تالیف میں مشغول تھا کہ میں نے ارادہ کیا کہ نجف اشرف میں مبعث کی زیارت کیلئے جاؤں۔ پس میں کاظمین آیا اور شیخ اعظم کے شاگرد عالم با عمل اور ثقہ شخصیت سید محمد کاظمینی کی خدمت میں حاضر ہوا۔ یہ عالم شہر کے متقی ترین اشخاص میں سے تھے۔ آپ صحن اور حرم شریف کے صالح ترین امام جماعت تھے اور ہمیشہ طلاب، مسافروں اور زائرین کے ہمراہ ہوتے تھے۔ آپ کے والد اور جد بھی معروف علما میں سے ہیں۔ ہمیشہ آپ کے جد کی علم اصول اور علم فقہ میں تالیف کردہ کتب موجود رہی ہیں۔
پس میں نے سید محمد کاظمینی سے پوچھا: اگر امام زمانہؑ کے دیدار کے بارے میں آپ نے ایک صحیح حکایت سنی ہو تو ہمارے لیے نقل کیجئے۔ انہوں نے حاج علی بغدادی کی حکایت کو نقل کیا اگرچہ میں اس حکایت کو سن رکھا تھا مگر چونکہ اسے لکھا نہیں تھا اس لیے سید کاظمینی سے درخواست کی کہ وہ بذات خود اپنے قلم سے اس حکایت کو لکھ دیں۔ سید محمد کاظمینی نے کہا: میں نے یہ داستان بہت عرصہ قبل سنی تھی اور مجھے خوف ہے کہ اس میں کوئی کمی یا زیادتی کر بیٹھوں، اس لیے ضروری ہے کہ حاج علی بغدادی سے ملاقات کر کے اس سے پوچھا جائے اور پھر حکایت کو لکھا جائے، دوسری جانب حاج علی بغدادی سے ملاقات بھی ایک دشوار عمل تھا چونکہ جب سے یہ واقعہ ان کے ساتھ پیش آیا تھا وہ لوگوں میں اور بغداد میں کم نظر آتے تھے، جب زیارت کیلئے آتے ہیں تو کسی جگہ نہیں جاتے اور زیارت کے بعد واپس چلے جاتے ہیں، لہٰذا سال میں انہیں ایک دو مرتبہ سے زیادہ نہیں دیکھتا ہوں، حاج علی بغدادی بعض خواص کے سوا ہمیشہ اس حکایت کو کتمان کرتے ہیں کیونکہ انہیں ڈر ہوتا ہے کہ مخالفین اس حکایت کو سن کر ان کا مذاق اڑائیں گے یا ڈرتے ہیں کہ کچھ عوام الناس اس کی طرف یہ نسبت دینا شروع کر دیں کہ یہ فخر فروشی کرنا چاہتا ہے اور خود کو پاک و پاکیزہ بنا کر پیش کرنا چاہتا ہے۔
محدث نوری کہتے ہیں: میں نے سید سے عرض کیا کہ میری آپ سے درخواست ہے کہ جس طرح بھی ہو سکے حاج علی بغدادی سے ملاقات کریں اور اس حکایت کے بارے میں میری نجف سے واپسی سے پہلے تک ان سے سوال کریں؛ کیونکہ مجھے اس داستان کی ضرورت ہے اور وقت کم ہے۔ دو گھنٹے کے بعد سید محمد کاظمینی سے جدا ہوا اور پھر سید محمد کاظمینی میرے پاس آئے اور کہا: عجیب بات یہ ہوئی ہے کہ جب میں گھر واپس چلا گیا تو ایک شخص آیا اور کہنے لگا: بغداد سے ایک جنازہ آیا ہے اور اسے صحن شریف میں رکھا گیا ہے اور لوگ یہ چاہتے ہیں کہ آپ اس پر نماز پڑھیں۔ پس میں نے جا کر میت پر نماز ادا کی اور وہیں پر میں نے حاج علی بغدادی کو دیکھا، انہیں میں ایک طرف لے گیا اور یہ داستان ان کی زبانی لکھ لایا ہوں۔
پھر محدث نوری کہتے ہیں کہ میں نے یہ داستان کتاب جنۃ الماویٰ میں نقل کی ہے:
حاج علی بغدادی کہ خدا ان کی تائید کرے انہوں نے ذکر کیا ہے کہ میرے ذمے اسی [۴۰]     تومان(ایک ایرانی سکہ) مال امام تھا، میں نجف اشرف گیا اور اسی [۴۱]     تومان میں سے بیس [۴۲]     تومان علم الہدٰی شیخ مرتضٰی اعلٰی اللہ مقامہ، کی خدمت میں، بیس [۴۳]     تومان شیخ محمد حسین مجتہد کاظمینی اور بیس [۴۴]     تومان شیخ محمد حسن شروقی کی خدمت میں پیش کیے اور بقایا بیس [۴۵]     تومان جو میرے ذمہ رہ گئے ان کے بارے میں یہ خیال تھا کہ بغداد واپس پہنچ کر یہ رقم شیخ محمد حسن کاظمینی آل یاسین کی خدمت میں پیش کروں گا اور میری خواہش تھی کہ اس کام میں ہر ممکن عجلت سے کام لوں۔ پھر جمعرات کے روز میں نے امامین کاظمینؑ کی زیارت کا قصد کیا اور زیارت سے مشرف ہونے کے بعد میں جناب شیخؒ کے پاس گیا اور ان بیس [۴۶]     تومان سے کچھ ان کی خدمت میں پیش کیے اور جو باقی رہ گئے ان کے بارے میں عرض کی کہ یہ میری حوالگی میں رہنے دیں یہ میں بعض اجناس کی فروخت کے بعد آپ کی ہدایت کے مطابق حقداروں تک پہنچا دوں گا۔ ان کے ہاں سے فارغ ہو کر میں نے اسی روز عصر کے وقت بغداد واپس جانے کا ارادہ ظاہر کیا تو شیخ موصوف نے فرمایا کہ آج یہیں قیام کریں: میں نے عرض کی آج جا کر مجھے کارخانے کے مزدوروں کی اجرت ادا کرنا ہے کیونکہ ہمارے ہاں ہفتہ بھر کی مزدوری جمعرات کی عصر کے وقت ادا کی جاتی تھی پس میں وہاں سے چل پڑا اور ابھی میں نے ایک تہائی سفر طے کیا ہوگا کہ میری نظر ایک سید جلیل پر پڑی جو بغداد سے آرہے تھے۔ جب وہ میرے قریب پہنچے تو سلام کیا اور مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا خوش آمدید کہا اور مجھے سینے سے لگا کر معانقہ کیا، پھر ہم نے رواج عرب کے مطابق ایک دوسرے کا بوسہ لیا، ان کے سرمبارک پر سبز عمامہ تھا اور رخسار پر بڑا سا سیاہ تل تھا، انہوں نے فرمایا: حاج علی: آپ کا کیا حال ہے اور آپ کہاں جا رہے ہیں؟ میں نے عرض کی: کاظمین کی زیارت کرکے واپس بغداد جا رہا ہوں۔ انہوں نے فرمایا کہ آج شب جمعہ ہے واپس چلیں، میں نے عرض کی کہ میں ایسا نہیں کر سکتا، انہوں نے فرمایا کہ نہیں آپ ایسا کر سکتے ہیں، واپس چلیں تاکہ میں گواہ بنوں کہ آپ میرے جد بزرگوار امیرالمومنینؑ کے موالیوں اور میرے دوستداروں میں سے ہیں نیز شیخ بھی اس بات کے گواہ ہوں کیونکہ حق تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اپنے لیے گواہ و شاہد بناؤ۔ ان کی اس بات میں دراصل ایک اشارہ اس خیال کی طرف کہ جو میرے دل میں تھا اور وہ یہ کہ شیخ مکرم و محترم سے درخواست کروں کہ وہ مجھے ایک تحریر لکھ دیں جس میں یہ ذکر ہو کہ میں امیر المومنینؑ کے دوستداروں میں سے ہوں اور پھر اس تحریر کو کفن میں اپنے ساتھ رکھوں۔ میں نے کہا کہ آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا اور آپ میرے لیے کس طرح کی شہادت دیں گے؟! انہوں نے فرمایا کہ جو شخص کسی کا حق اس تک پہنچاتا ہے تو حق وصول کرنے والے کو اس کے متعلق کیوں علم نہ ہوگا، میں نے عرض کی: کونسا حق؟ انہوں نے فرمایا: وہ جو آپ نے میرے وکیل کو دیا ہے۔ میں نے کہا: آپ کے کون سے وکیل کو؟! انہوں نے فرمایا: وہی شیخ محمد حسن کو، میں نے کہا کہ وہ آپ کے وکیل ہیں؟! تو انہوں نے فرمایا: ہاں، وہ میرے وکیل ہیں اور آقا سید محمد بھی میرے وکیل ہیں، میرے دل میں یہ بات آئی کہ ان سید جلیل نے مجھے نام سے پکارا ہے حالانکہ وہ مجھے پہچانتے نہ تھے، پھر خیال آیا کہ وہ مجھے جانتے ہوں گے لیکن مجھے اس کی خبر نہ ہوئی ہو گی۔ پھر مجھے خیال آیا: شاید یہ سید بزرگوار مجھ سے حق سادات میں سے کچھ لینا چاہتے ہیں! میں نے چاہا کہ انہیں مال امامؑ میں سے کچھ دے دوں پس میں نے عرض کی کہ اے بزرگوار! آپ کیلئے میرے پاس کچھ سہم امامؑ موجود ہے اور میں نے آقا شیخ محمد حسن سے اجازت بھی لی ہوئی ہے تو کیا وہ آپ کو دے دوں؟! انہوں نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ آپ نے ہمارے حق میں سے کچھ نجف اشرف میں میرے وکیلوں کو دے دیا ہے۔ میں نے عرض کی کہ جو کچھ میں ادا کر چکا ہوں آیا وہ قبول ہے؟! انہوں نے کہا: ہاں، قبول ہے۔ میرے دل میں آیا کہ یہ بزرگوار علمائے کرام کو اپنا وکیل بتا رہے ہیں اور یہ بات مجھے کچھ اچھی معلوم نہ ہوئی تب میں نے پوچھا کہ کیا علمائے کرام سہم سادات وصول کرنے میں وکیل ہوسکتے ہیں؟! اس کے بعد مجھ پر غفلت سی طاری ہوگئی اور میں اس سوال کا جواب دریافت نہ کر سکا۔
اسی اثناء میں انہوں نے فرمایا کہ میرے جد بزرگوار کی زیارت کے لیے واپس چلیں پس میں زیارت کے لیے ان کے ساتھ واپس پلٹا اور وہ میرا ہاتھ اپنے دائیں [۴۷]     ہاتھ میں لے کر چل پڑے، میں نے راہ چلتے دیکھا کہ ایک نہر ہے جس میں صاف و شفاف پانی جاری ہے اور لیموں، نارنگی اور انگور کے درخت اور بیلیں موجود ہیں جن کا موسم نہیں ہے، میں نے ان سے پوچھا کہ یہ نہر اور درخت کیسے ہیں؟! انہوں نے فرمایا کہ ہمارے دوستوں میں سے جو شخص ہمارے جد بزرگوار کی اور ہماری زیارت کرے یہ ان کے لیے ہیں۔ اس پر میں نے عرض کی کہ میں کچھ پوچھنا چاہتا ہوں، انہوں نے فرمایا کہ ہاں پوچھیں۔ میں نے کہا کہ شیخ عبدالرزاق مرحوم ایک عالم اور مدرس تھے ایک دن میں ان کے پاس گیا تو سنا کہ فرمارہے تھے: جو شخص زندگی بھر راتوں کو عبادت کرتا رہے اور دنوں میں روزے رکھے، چالیس [۴۸]     حج و عمرہ بجالائے اور صفا و مروہ کے درمیان فوت ہوجائے لیکن اگر وہ امیر المومنینؑ کے دوستداروں میں سے نہ ہو تو اسے اپنی ان عبادتوں کا کچھ بھی اجر نہیں ملے گا۔ آپ نے فرمایا کہ ہاں قسم بخدا اسے کچھ نہیں ملے گا، پھر میں نے اپنے عزیزوں میں سے ایک کے بارے میں پوچھا کہ آیا وہ امیر المومنینؑ کے دوستداروں میں سے تھے؟! آپ نے فرمایا: ہاں اور وہ بھی جو آپ کے متعلقین میں سے ہیں، میں نے کہا کہ میرے سردار ایک مسئلہ پوچھتا ہوں! آپ نے فرمایا: پوچھیں۔ تب میں نے عرض کی کہ امام حسینؑ کے مصائب خوان بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص سلیمان اعمش کے پاس آیا اور اس نے امام حسینؑ کی زیارت کے متعلق پوچھا تو اس نے جواب دیا کہ یہ بدعت ہے۔ اس نے خواب میں زمین و آسمان کے درمیان ایک ہودج کو دیکھا تو پوچھا کہ اس میں کون ہے؟! اسے بتایا گیا کہ اس میں بی بی فاطمہ زہراؑ اور بی بی خدیجةالکبرٰیؑ ہیں، اس نے پوچھا کہ یہ کہاں جارہی ہیں؟ جواب ملا کہ آج شب جمعہ ہے تو یہ اپنے فرزند امام حسینؑ کی زیارت کرنے جارہی ہیں، پھر اس نے دیکھا کہ ہودج میں سے بہت سے کاغذ گر رہے ہیں جن پر تحریر ہے کہ شب جمعہ کو امام حسینؑ کی زیارت کرنے والے کے لیے قیامت کے روز آگ سے امان ہے تو کیا یہ روایت صحیح ہے؟! انہوں نے فرمایا: ہاں یہ بالکل صحیح ہے۔ میں نے عرض کی: سیدی کیا یہ صحیح ہے کہ جو شخص شب جمعہ میں امام حسینؑ کی زیارت کرے اس کے لیے آگ سے امان ہے؟! انہوں نے فرمایا: ہاں قسم بخدا یہ بالکل صحیح ہے، میں نے دیکھا کہ اس وقت ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں اور وہ گریہ کررہے ہیں، میں نے کہا: مجھے کچھ اور بھی پوچھنا ہے تو انہوں نے فرمایا: ہاں پوچھیں، میں نے کہا کہ ہم نے ۱۲۶۹ ھ میں امام علی رضاؑ کی زیارت کی تو مقام درود پر ایک عرب سے ہماری ملاقات ہوئی جو نجف اشرف کے مشرقی مضافات کا ایک دیہاتی تھا۔ ہم نے اسے اپنا مہمان بنایا اور دوران گفتگو اس سے پوچھا کہ امام علی رضاؑ کا ملک کیسا ہے؟! اس نے کہا کہ یہ تو جنت ہے۔ مجھے یہاں رہتے ہوئے آج پندرہ دن ہو رہے ہیں اور میں حضرتؑ کے مہمان خانے سے کھانا کھا رہا ہوں تو منکر نکیر کی کیا جرات ہے کہ وہ میری قبر میں آئیں جب کہ میرا گوشت پوست امام علی رضاؑ کے مہمان خانے کے کھانے سے بن چکا ہے۔ کیا یہ صحیح ہے کہ امام علی رضاؑ اس کے پاس قبر میں تشریف لا کر اس کو منکر نکیر سے چھڑا لیں گے؟! انہوں نے فرمایا: ہاں قسم بخدا کہ میرے جد اس شخص کے ضامن ہیں، میں نے کہا: ایک چھوٹا سا سوال اور بھی ہے، انہوں نے کہا کہ پوچھیں۔ میں نے عرض کی کہ میری وہ زیارت امام علی رضاؑ کو قبول ہے تو فرمایا کہ قبول ہے انشاء اللہ۔ میں نے کہا: اے میرے آقا! ایک اور سوال ہے تو فرمایا بسم اللہ پوچھیں، میں نے عرض کی کہ حاجی محمد حسین بزاز باشی ولد حاجی احمد بزاز باشی مرحوم جو اس زیارت میں میرے ہمراہی اور ہم خرچ تھے آیا ان کی زیارت قبول ہے یا نہیں؟ انہوں نے فرمایا: ہاں، اس بندہ نیکوکار کی زیارت بھی قبول ہے۔ میں نے پھر پوچھا کہ بغداد کا فلاں شخص جو ہمارا ہم سفر تھا آیا اس کی زیارت قبول ہے یا نہیں تو وہ خاموش ہو گئے۔ میں نے دوبارہ پوچھا کہ اس کی زیارت قبول ہے یا نہیں تو بھی انہوں نے کچھ جواب نہ دیا۔ حاج علی بغدادی کا بیان ہے کہ وہ شخص بغداد کا ایک مالدار شخص تھا جو سفر زیارت کے دوران کھیل اور تفریح جیسے امور میں مشغول رہا اور میں نے جس کے بارے میں سوال کیا تھا اس نے اپنی ماں کو بھی قتل کیا ہوا تھا۔ اس کے بعد ہم ایک کھلی سڑک پر پہنچ گئے جس کے دونوں طرف باغات ہیں اور یہ کاظمین کے قریب وہ جگہ ہے جہاں بغداد کے باغات ان باغوں کے ساتھ ملے ہوئے ہیں، وہ جگہ ایک یتیم سید کی تھی جس کو حکومت نے سڑک میں شامل کر لیا تھا اور کاظمین کے متقی و پرہیزگار لوگ سڑک کے اس حصے پر نہیں چلتے تھے۔ لیکن میں نے دیکھا کہ وہ بزرگ اسی جگہ پر چل رہے تھے۔ میں نے عرض کی کہ اے میرے آقا! یہ ایک یتیم سید کی جگہ ہے جسے استعمال کرنا درست نہیں ہے تو انہوں نے فرمایا کہ یہ جگہ میرے جد امیرالمومنینؑ کی، ان کی اولاد اور ہماری اولاد کی ہے۔ لہٰذا ہمارے دوستداروں کے لیے اس کا استعمال حلال ہے۔ اس جگہ کے نزدیک حاج میرزا ہادی کا ایک باغ تھا جو بغداد کے مشہور مالدار آدمی تھے، میں نے کہا: اس باغ کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ امام موسٰی کاظمؑ کا ہے، کیا یہ درست ہے؟ انہوں نے فرمایا: آپ کو اس سے کیا غرض اور اس بارے میں مزید کچھ نہیں کہا، اتنے میں ہم دجلہ کے اس مقام پر پہنچ گئے جہاں سے باغوں اور کھیتوں کے لیے پانی لیا جاتا ہے۔ وہاں سے دو راستے شہر کاظمین کو جاتے ہیں کہ ایک سلطانی اور دوسرا سادات کے نام سے مشہور ہے، انہوں نے سادات کے راستے پر چلنا شروع کیا تو میں نے کہا: سلطانی راستے سے چلیں اس پر انہوں نے فرمایا کہ ہم اسی راستے سے جائیں گے، تھوڑا سا راستہ ہی چلے تھے کہ ہم صحن مبارک میں کفشداری کہ جہاں جوتے اتارے جاتے ہیں اس کے پاس پہنچ گئے جب کہ ہم کسی کوچہ و بازار سے بھی نہ گزرے تھے۔ ہم مشرق کی جانب واقع باب المراد سے ایوان مبارک میں داخل ہوئے، وہ بزرگ رواق میں نہیں ٹھیرے اور اذن دخول بھی نہیں پڑھا بلکہ سیدھے حرم میں داخل ہو گئے اور مجھ سے فرمایا کہ زیارت پڑھیں میں نے عرض کی کہ میں پڑھا ہوا نہیں تو انہوں نے فرمایا کہ میں آپ کو زیارت پڑھاؤں؟! میں نے کہا ہاں پڑھائیے تب آپ نے فرمایا:
أَأَدْخُلُ يااللهُ السَّلامُ عَلَيْكَ يارَسُولَ الله السَّلامُ عَلَيْكَ ياأَمِيرَ المُؤْمِنِينَ
کیا میں داخل ہوجاؤں اے اللہ! سلام ہو آپ پر اے خدا کے رسول! سلام ہو آپ پر اے امیر المومنین!
اسی طرح انہوں نے آئمہؑ میں سے ہر امام کا نام لے کر انہیں سلام کیا یہاں تک کہ امام حسن عسکری کی نوبت آئی تو فرمایا:
السَّلامُ عَلَيكَ ياأَبا مُحَمَّدٍ الحَسَنَ العَسْكَرِي
سلام ہو آپ پر اے ابو محمد حسن العسکری!
پھر مجھ سے کہا کہ آیا آپ اپنے زمانے کے امام کو پہچانتے ہو؟! میں نے کہا کیوں نہ پہچانوں گا انہوں نے فرمایا: امام زمانؑ کو سلام پیش کریں چنانچہ میں نے کہا:
السَّلامُ عَلَيْكَ ياحُجَّةَ الله ياصاحِبَ الزَّمانِ يابْنَ الحَسَنِ
سلام ہو آپ پر اے حجت خدا! اے صاحب زمان! اے حسن کے فرزند!
اس پر وہ بزرگ مسکرائے اور فرمایا: عَلَيْكَ السَّلامُ وَرَحمَةُ الله وَبَرَكاتُهُ
تم پر بھی سلام ہو خدا کی رحمت ہو اور اس کی برکات!
اس کے بعد ہم حرم مطہر میں داخل ہو گئے، ضریح مقدس کو سینے سے لگایا اور اس پر بوسہ دیا، ان بزرگ نے مجھ سے کہا کہ زیارت پڑھیں۔ میں نے کہا: میں پڑھا ہوا نہیں ہوں، انہوں نے فرمایا کہ میں آپ کو زیارت پڑھاؤں؟! میں نے عرض کی ہاں: انہوں نے فرمایا کہ آپ کون سی زیارت پڑھنا چاہتے ہیں؟! میں نے کہا کہ جو زیارت افضل ہے مجھے وہی پڑھائیں، انہوں نے فرمایا کہ زیارت امین اللہ افضل ہے اور پھر زیارت پڑھنے میں مشغول ہوگئے اور فرمایا:
السَّلام عَلَيْكُما ياأَمِينَي الله فِي أَرْضِهِ وَحُجَّتَيْهِ عَلى عِبادِهِ… تا آخر زیارت امین اللہ پڑھی اور عین اسی وقت حرم شریف کے چراغ جلائے گئے میں دیکھ رہا تھا کہ شمعیں روشن ہیں۔ لیکن حرم مطہر کسی اور نور سے جگمگا رہا تھا۔ جو سورج کی روشنی کی مانند تھا کہ جو شمعیں جل رہی تھیں وہ یوں لگتی تھیں جیسے سورج کے سامنے چراغ جلایا گیا ہو، لیکن مجھ پر اتنی غفلت چھائی ہوئی تھی کہ میں ان علامات کی طرف متوجہ نہیں ہو رہا تھا۔ جب وہ بزرگ زیارت سے فارغ ہوئے تو پائنتی کی جانب مشرق کی سمت آکھڑے ہوئے اور فرمایا کہ آپ جد بزرگوار امام حسینؑ کی زیارت کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے کہا: شب جمعہ ہے لہذا میں حضرت کی زیارت کرنا چاہتا ہوں تب آپ نے زیارت وارث پڑھی اور اسی اثنا میں مؤذن مغرب کی آذان دے چکے تھے، آپ نے مجھ سے فرمایا کہ جائیں اور جماعت کے ساتھ نماز مغرب ادا کریں، وہ اس وقت اس مسجد میں آئے جو روضہ مبارک کے سرہانے کی طرف ہے وہاں جماعت ہورہی تھی اور انہوں نے امام کے دائیں پہلو ہوکر فرادیٰ نماز پڑھی۔ میں پہلی صف میں جماعت کے ساتھ شامل ہوگیا جب میں نماز سے فارغ ہوا تو ان کو وہاں نہیں دیکھا، میں مسجد سے نکلا اور حرم مبارک میں انہیں ڈھونڈنے لگا لیکن انہیں نہ پایا جبکہ میرا خیال تھا کہ ان سے مل کر انہیں کچھ رقم دوں اور رات کو انہیں اپنے پاس ٹھہراؤں تاہم اس وقت میری آنکھوں سے غفلت کا پردہ ہٹا اور میں ان بزرگوار کے سبھی معجزوں کی طرف توجہ کرنے لگا کہ کیسے میں ان کی اطاعت کرتے ہوئے اپنا کام چھوڑ کر بغداد سے واپس آیا، ان کا مجھے نام لے کر پکارنا، اپنے دوستداروں کی شہادت دینا، اس نہر اور درختوں پر بے موسم کے میووں کا دیکھا جانا وغیرہ کہ جن کے باعث مجھے یقین ہوگیا کہ وہ میرے امام مہدیؑ تھے۔ پھر اذن دخول میں امام حسن عسکریؑ کے بعد ان کا مجھ سے پوچھنا کہ اپنے زمانے کے امام کو جانتے ہو؟! اور یہ فرمانا کہ ان کو سلام کرو اور میرے سلام پیش کرنے کے بعد ان کا مسکرانا اور جواب میں وعلیک السلام کہنا وغیرہ۔ یہ تمام علامات میرے امام صاحب الزمانؑ ہی کی تھیں۔ میں جوتے رکھنے کی جگہ پر آیا اور ان لوگوں سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ وہ باہر چلے گئے ہیں اور پوچھا کہ آیا وہ بزرگوار سید آپ کے ہمراہی تھے؟! میں نے کہا: ہاں۔ اس کے بعد میں نے وہ شب اپنے سابق میزبان کے ہاں آکر گزاری اور صبح ہوئی تو میں شیخ محمد حسن قبلہ کی خدمت میں پہنچا اور کل جو واقعات گزرے تھے وہ ان کے گوش گزار کیے تو انہوں نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر مجھے اس قصہ اور اس راز کو ظاہر کرنے سے منع فرمایا اور کہا کہ خدا آپ کو توفیق دے۔ چنانچہ اس واقعے کے ایک ماہ بعد تک میں نے کسی کو مطلع نہیں کیا تھا لیکن ایک دن جب میں حرم کاظمین میں دوبارہ گیا تو وہاں پر ایک سید بزرگوار کو دیکھا اور انہوں نے مجھ سے دریافت فرمایا کہ فلاں دن کیا واقعہ ہوا تھا؟! میں نے عرض کیا کہ میں نے تو اس روز کوئی چیز نہیں دیکھی تھی، انہوں نے پھر پوچھا تو بھی میں نے واضح طور پر انکار کیا تب وہ میری نگاہوں سے اوجھل ہوگئے اور اس کے بعد میں نے انہیں کہیں نہیں دیکھا۔

نتیجہ

[ترمیم]

حضرت ابا عبد اللہؑ کی زیارت کی فضیلت میں روایات کی کثرت اور اہل بیتؑ کی جانب سے اس امر کی طرف خصوصی توجہ سے بخوبی سمجھا جا سکتا ہے کہ امام حسینؑ کی زیارت اگر واجب نہ ہو تو بلاشک مستحب مؤکد ہے، اسی طرح اس باب میں روایات کی کثرت ہمیں سندی ابحاث سے بے نیاز کر دیتی ہے۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. خزاز رازی، علی بن محمد، الوفاة:القرن الرابع، کفایة الاثر فی النصّ علی الائمة الاثنی عشر، ص۲۴۔    
۲. ابن‌قولویه، جعفر بن محمد، الوفاة:۳۶۷، کامل الزیارات، ج۱، ص۲۹۱، محقق:امینی، عبد الحسین‌، چاپ اول‌، ناشر:دار المرتضویة، ۱۳۵۶ ش۔    
۳. ابن‌قولویه، جعفر بن محمد، الوفاة:۳۶۷، کامل الزیارات، ج۱، ص۱۱۸، محقق:امینی، عبد الحسین‌، چاپ اول‌، ناشر:دار المرتضویة، ۱۳۵۶ شمسی۔    
۴. کمال الدین عمر بن احمد بن ابی جرادة الوفاة:۶۶۰، بغیة الطلب فی تاریخ حلب، ج۶، ص۲۶۵۵، دار النشر:دار الفکر، تحقیق:د. سهیل زکار۔    
۵. ابن‌مشهدی، محمد بن جعفر، الوفاة:۶۱۰ ق‌، المزار الکبیر، ج۱، ص۳۳۰، محقق:قیومی اصفهانی، جواد، چاپ اول‌، ناشر:دفتر انتشارات اسلامی وابسته به جامعه مدرسین حوزه علمیه قم‌، ۱۴۱۹ ق‌۔    
۶. ابن‌طاووس، علی بن موسی‌، الوفاة:۶۶۴ ق‌، الدروع الواقیة، ج۱، ص۷۵، چاپ اول، ناشر:مؤسسة آل البیت (علیهم‌السلام)‌۱۴۱۵ ق/ ۱۹۹۵۔    
۷. ابن‌بابویه، محمد بن علی، الوفاة:۳۸۱ ق، ‌ثواب الاعمال و عقاب الاعمال، ج۱، ص۹۸، ‌چاپ دوم، ناشر:دار الشریف الرضی للنشر۱۴۰۶ ق‌۔    
۸. کلینی، محمد بن یعقوب بن اسحاق، الوفاة:۳۲۹ ق‌، الکافی، ج۸، ص۲۵۵، محقق:غفاری علی اکبر و آخوندی، محمد، چاپ چهارم، ‌ناشر:دار الکتب الاسلامیة۱۴۰۷ ق۔    
۹. ابن‌قولویه، جعفر بن محمد، الوفاة:۳۶۷، کامل الزیارات، ج۱، ص۱۳۴، محقق:امینی، عبد الحسین‌، چاپ اول‌، ناشر:دار المرتضویة، ۱۳۵۶ شمسی۔    
۱۰. ابن‌قولویه، جعفر بن محمد، الوفاة:۳۶۷، کامل الزیارات، ج۱، ص۱۵۱، محقق:امینی، عبد الحسین‌، چاپ اول‌، ناشر:دار المرتضویة، ۱۳۵۶ شمسی۔    
۱۱. ابن‌قولویه، جعفر بن محمد، الوفاة:۳۶۷، کامل الزیارات، ج۱، ص۱۹۳، محقق:امینی، عبد الحسین‌، چاپ اول‌، ناشر:دار المرتضویة، ۱۳۵۶ شمسی۔    
۱۲. ابن‌قولویه، جعفر بن محمد، الوفاة:۳۶۷، کامل الزیارات، ج۱، ص۱۲۲، محقق:امینی، عبد الحسین‌، چاپ اول‌، ناشر:دار المرتضویة، ۱۳۵۶ ش۔    
۱۳. ابن‌قولویه، جعفر بن محمد، الوفاة:۳۶۷، کامل الزیارات، ج۱، ص۳۳۱، محقق:امینی، عبد الحسین‌، چاپ اول‌، ناشر:دار المرتضویة، ۱۳۵۶ شمسی۔    
۱۴. الطوسی، محمد بن الحسن، الوفاة:‌۴۶۰ ق، ‌تهذیب الاحکام، ج۶، ص۱۱۳، ‌محقق:خرسان، حسن الموسوی، ‌چاپ چهارم، ‌ناشر:دار الکتب الاسلامیه‌۱۴۰۷ ق‌۔    
۱۵. ابن‌طاوس، عبدالکریم بن احمد، الوفاة:۶۹۳ ق، ‌فرحة الغری فی تعیین قبر امیرالمؤمنین علیّ بن ابی طالب (علیه‌السّلام) فی النجف‌، ج۱، ص۸۹، ناشر:منشورات الرضی‌،(بی تا)۔    
۱۶. ابن‌قولویه، جعفر بن محمد، الوفاة:۳۶۷، کامل الزیارات، ج۱، ص۱۵۱، محقق:امینی، عبد الحسین‌، چاپ اول‌، ناشر:دار المرتضویة، ۱۳۵۶ ش۔    
۱۷. کلینی، محمد بن یعقوب بن اسحاق، ‌ الوفاة:۳۲۹ ق‌، الکافی (ط- الاسلامیة)، ج‌۴، ص۵۸۹، محقق:غفاری علی اکبر و آخوندی، محمد، ناشر:دار الکتب الاسلامیة۱۴۰۷ ق‌۔    
۱۸. ابن‌قولویه، جعفر بن محمد، الوفاة:۳۶۷، کامل الزیارات، ج۱، ص۱۶۹، محقق:امینی، عبد الحسین‌، چاپ اول‌، ناشر:دار المرتضویة، ۱۳۵۶ ش۔    
۱۹. ابن‌قولویه، جعفر بن محمد، الوفاة:۳۶۷، کامل الزیارات، ج۱، ص۱۵۱، محقق:امینی، عبد الحسین‌، چاپ اول‌، ناشر:دار المرتضویة، ۱۳۵۶ ش۔    
۲۰. ابن‌قولویه، جعفر بن محمد، الوفاة:۳۶۷، کامل الزیارات، ج۱، ص۱۳۲، محقق:امینی، عبد الحسین‌، چاپ اول‌، ناشر:دار المرتضویة، ۱۳۵۶ شمسی۔    
۲۱. ابن‌قولویه، جعفر بن محمد، الوفاة:۳۶۷، کامل الزیارات، ج۱، ص۱۳۳، محقق:امینی، عبد الحسین‌، چاپ اول‌، ناشر:دار المرتضویة، ۱۳۵۶ ش‌۔    
۲۲. ابن‌قولویه، جعفر بن محمد، الوفاة:۳۶۷، کامل الزیارات، ج۱، ص۱۵۲، محقق:امینی، عبد الحسین‌، چاپ اول‌، ناشر:دار المرتضویة، ۱۳۵۶ شمسی۔    
۲۳. ابن‌قولویه، جعفر بن محمد، الوفاة:۳۶۷، کامل الزیارات، ج۱، ص۱۳۵، محقق:امینی، عبد الحسین‌، چاپ اول‌، ناشر:دار المرتضویة، ۱۳۵۶ شمسی۔    
۲۴. ابن‌قولویه، جعفر بن محمد، الوفاة:۳۶۷، کامل الزیارات، ج۱، ص۱۳۵، محقق:امینی، عبد الحسین‌، چاپ اول‌، ناشر:دار المرتضویة، ۱۳۵۶ شمسی۔    
۲۵. ابن‌قولویه، جعفر بن محمد، الوفاة:۳۶۷، کامل الزیارات، ج۱، ص۱۳۷، محقق:امینی، عبد الحسین‌، چاپ اول‌، ناشر:دار المرتضویة، ۱۳۵۶ شمسی۔    
۲۶. ابن‌قولویه، جعفر بن محمد، الوفاة:۳۶۷، کامل الزیارات، ج۱، ص۱۳۷، محقق:امینی، عبد الحسین‌، چاپ اول‌، ناشر:دار المرتضویة، ۱۳۵۶ ش۔    
۲۷. ابن‌قولویه، جعفر بن محمد، الوفاة:۳۶۷، کامل الزیارات، ج۱، ص۱۴۶، محقق:امینی، عبد الحسین‌، چاپ اول‌، ناشر:دار المرتضویة، ۱۳۵۶ ش۔    
۲۸. ابن‌قولویه، جعفر بن محمد، الوفاة:۳۶۷، کامل الزیارات، ج۱، ص۱۵۴، محقق:امینی، عبد الحسین‌، چاپ اول‌، ناشر:دار المرتضویة، ۱۳۵۶ ش۔    
۲۹. ابن‌قولویه، جعفر بن محمد، الوفاة:۳۶۷، کامل الزیارات، ج۱، ص۱۶۰، محقق:امینی، عبد الحسین‌، چاپ اول‌، ناشر:دار المرتضویة، ۱۳۵۶ ش۔    
۳۰. مفید، محمد بن محمد، الوفاة:۴۱۳ ق، الارشاد، ج۲، ص۱۳۳، فی معرفة حجج الله علی العباد، محقق:مؤسسة آل البیت (علیهم‌السلام)‌، چاپ اول‌، الناشر:کنگره شیخ مفید، ۱۴۱۳ ق‌۔    
۳۱. ابن‌قولویه، جعفر بن محمد، الوفاة:۳۶۷، کامل الزیارات، ج۱، ص۱۰۹، محقق:امینی، عبد الحسین‌، چاپ اول‌، ناشر:دار المرتضویة، ۱۳۵۶ ش۔    
۳۲. ابن‌قولویه، جعفر بن محمد، الوفاة:۳۶۷، کامل الزیارات، ج۱، ص۲۹۲، محقق:امینی، عبد الحسین‌، چاپ اول‌، ناشر:دار المرتضویة، ۱۳۵۶ ش۔    
۳۳. ابن‌قولویه، جعفر بن محمد، الوفاة:۳۶۷، کامل الزیارات، ج۱، ص۱۳۸، محقق:امینی، عبد الحسین‌، چاپ اول‌، ناشر:دار المرتضویة، ۱۳۵۶ ش۔    
۳۴. کلینی، محمد بن یعقوب بن اسحاق، الوفاة:۳۲۹ ق‌، الکافی، ج۴، ص۵۸۲، محقق:غفاری علی اکبر و آخوندی، محمد، چاپ چهارم، ‌ناشر:دار الکتب الاسلامیة۱۴۰۷ ق۔    
۳۵. ابن‌قولویه، جعفر بن محمد، الوفاة:۳۶۷، کامل الزیارات، ج۱، ص۱۴۱، محقق:امینی، عبد الحسین‌، چاپ اول‌، ناشر:دار المرتضویة، ۱۳۵۶ ش۔    
۳۶. ابن‌قولویه، جعفر بن محمد، الوفاة:۳۶۷، کامل الزیارات، ج۱، ص۱۴۸، محقق:امینی، عبد الحسین‌، چاپ اول‌، ناشر:دار المرتضویة، ۱۳۵۶ ش۔    
۳۷. ابن‌قولویه، جعفر بن محمد، الوفاة:۳۶۷، کامل الزیارات، ج۱، ص۲۷۴، محقق:امینی، عبد الحسین‌، چاپ اول‌، ناشر:دار المرتضویة، ۱۳۵۶ ش۔    
۳۸. الشیخ المفید، الوفاة:۴۱۳ ق، ‌المزار- مناسک المزار (للمفید)، ج۱، ص۵۳(۱)، محقق:ابطحی، محمد باقر، چاپ اول‌، ناشر:کنگره جهانی هزاره شیخ مفید(رحمة‌الله‌علیه) ‌ سال چاپ:۱۴۱۳ ق۔    
۳۹. میرزا حسین النوری الطبرسی، الوفاة:۱۳۲۰، النجم الثاقب، ج۲، ص۱۵۰۔    


ماخذ

[ترمیم]

مؤسسہ ولی ‌عصر، ماخوذ از مقالہ «زیارت امام حسینؑ در سیره معصومان علیهم السلام»۔    






جعبه ابزار