سلمان رشدی پر فتوائے ارتداد کے مبانی
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
سلمان رشدی متولد ۱۹ جون ۱۹۴۷ء بمطابق ۱۳۶۶ شمسی ہندوستانی باشندہ اور
برطانوی شہری ہے۔
سلمان رشدی نے
کتاب آیات شیطانی لکھ کر مسلمانوں کے مقدسات کی
توہین کی اور اس کے بعد مختلف اسلامی ممالک بالخصوص
پاکستان اور
ہندوستان میں اس کے خلاف مظاہرے کیے گئے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے بانی
امام خمینی نے
سلمان رشدی کے قتل کا فتویٰ صادر کیا اور اس حکم پر عالمی رد عمل پیدا ہوا۔ اس تحقیق میں امام خمینیؒ کے حکم کے فقہی مبانی پیش کیے جائیں گے۔
[ترمیم]
قرارداد نمبر ۵۹۸ کی منظوری کو زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا کہ سلمان رشدی نے کتاب شیطانی آیات لکھ کر اسلام کے مقدسات کی توہین کر ڈالی۔ اس کتاب کی اشاعت کے ساتھ ہی بڑے پیمانے پر پراپیگنڈا شروع کر دیا گیا۔ اس کے مقابلے میں وسیع پیمانے پر مظاہرے ہوئے اور رد عمل آیا اور کچھ مسلمان
شہید ہو گئے اور
عالم اسلام ہل کر رہ گیا۔
بہرحال ایسی صورتحال میں امام خمینی نے سلمان رشدی کے ارتداد کے بارے میں ایک تاریخی فتویٰ صادر کر دیا اور مغرب کی طرف سے اس فتوے کے خلاف مزاحمت کے باوجود مسلمان اقوام اور بہت سی حکومتوں نے اس فتوے کی حمایت کی اور
اسلامی کانفرنس نے بھی اپنے اٹھارہویں سالانہ اجلاس میں اس کی تائید کر دی۔ یہ فتویٰ نہ صرف یہ کہ اسلامی تحریکوں کے وقتی طور پر خاموش ہو جانے کا باعث نہیں بنا بلکہ اس نے مسلمانوں کے استعماری طاقتوں کے ہاتھوں ہونے والے استحصال، استعمار اور تحقیر کے رد عمل کو شعلہ ور کر دیا۔ اس سے مغرب کا عیار چہرہ بے نقاب ہو گیا اور جیسا کہ امام خمینیؒ بیان کرتے ہیں:
یہ ایک نمونہ ہے کہ مشیت
خدا کے بموجب عصر حاضر میں آیات شیطانی نامی کفریہ کتاب کی اشاعت سے عالمی استعمار اور استکبار کا حقیقی چہرہ اور ان کی
اسلام کے ساتھ دیرینہ دشمنی برملا ہو جائے تاکہ ہم سادہ لوحی سے باہر نکل کر اپنے پورے وجود سے یہ سمجھ جائیں کہ ہماری کوئی خطا نہیں ہے بلکہ دنیا کو نگلنے والے اسلام و مسلمین کی نابودی چاہتے ہیں ورنہ تنہا سلمان رشدی کا مسئلہ ان کیلئے اتنا اہم نہیں ہے کہ ساری صیہونیت اور استکبار اس کے پیچھے کھڑے ہو جائیں۔
رشدی کی کتاب نے مجموعی طور پر مسلمانوں کی ہتک حرمت کی ہے جو ان کیلئے ناقابل برداشت ہے اور مزید برآں یہ کہ
تاریخ اسلام کے بنیادی واقعات جو پیغمبر کے ظہور کے ساتھ رونما ہوئے اور امام خمینیؒ کے دور تک جاری رہے؛ کی توہین و تحقیر کا ارتکاب کیا۔
بہرحال رشدی کی کتاب غیر مسلموں کے نزدیک ان واقعات کو ایک دوسرے کے ساتھ مربوط کرنے کی کوشش ہے جو مختلف ادوار میں رونما ہوئے ہیں اور ان واقعات کا مفہوم ان کیلئے روشن نہیں ہے بلکہ وہ حیرت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس کے برعکس تاریخ اسلام سے آشنا مسلمان ایک ایک منظر کو مقدس اقدار کی سخت بے احترامی قرار دیتے ہیں۔
[ترمیم]
سلمان رشدی کی کتاب شائع ہونے کے بعد مختلف اسلامی ممالک بالخصوص پاکستان اور ہندوستان میں اس کے خلاف وسیع پیمانے پر مظاہرے ہوئے؛ مگر امام خمینیؒ کے فتویٰ سے زیادہ کسی چیز کا عالمی رد عمل نہیں دیکھا گیا۔ امام خمینیؒ نے کتاب کے مضمون کی نسبت مختلف معلومات اور ضروری آگاہی حاصل کرنے کے بعد ایک مختصر اعلان جاری کر کے اپنی حتمی رائے کو اہل دنیا کے سامنے پیش کیا:
انا لله و انا الیه راجعون
دنیا بھر کے غیور مسلمانوں کو مطلع کرتا ہوں کہ کتاب ’’آیات شیطانی‘‘جو اسلام ، پیغمبرؐ اور
قرآن کے خلاف تالیف اور شائع ہوئی ہے؛ کا مؤلف اور اسی طرح اس کے متن سے مطلع ناشرین کا حکم سزائے موت ہے۔ میں غیور مسلمانوں سے چاہتا ہوں کہ جہاں انہیں پائیں تو فوری انہیں سزائے موت دے دیں تاکہ آئندہ کوئی جرات نہ کرے کہ مسلمانوں کے مقدسات کی توہین کرے اور جو اس راہ میں قتل ہو جائے،
شہید ہے۔ ان شاء اللہ۔ در ضمن اگر کسی کی کتاب کے مؤلف تک رسائی ہے مگر وہ اسے سزائے موت دینے کی طاقت نہیں رکھتا تو اس کے بارے میں لوگوں کو بتائے تاکہ وہ اپنے کرتوتوں کی سزا کو پہنچے۔
والسلام علیکم و رحمة الله و برکاته۔
روحالله الموسوی الخمینی ـ ۱۳۶۷/۱۱/۲۵ بمطابق ۱۹۸۹/۱۴/۲
[ترمیم]
معلوم ہوتا ہے کہ امام خمینیؒ نے مکتبِ اسلام کے پروردہ فقیہ اور فقہی موضوعات پر متعدد تالیفات کے مصنف ہونے کے عنوان سے کتاب شیطانی آیات اور اس کے مؤلف کے ارتداد کا جائزہ لیا ہے۔ یہ فتویٰ آپ کے فقہی مبانی سے ماخوذ ہے۔ لہٰذا اس باب میں امامؒ کے فقہی مبانی کی وضاحت ضروری ہے۔
شیعہ فقہا مرتد کو دو قسموں
مرتد ملی اور
مرتد فطری میں تقسیم کرتے ہیں اور امام خمینیؒ نے بھی اسی بنیاد پر یہ حکم کیا ہے کہ:
مرتد؛ یعنی وہ جو اسلام سے خارج ہو چکا ہے اور
کفر اختیار کر چکا ہے؛ اس کی دو قسمیں ہیں: فطری اور ملی۔
مرتد فطری وہ ہے جس کے ماں باپ میں سے کوئی ایک انعقاد
نطفہ کے وقت مسلمان ہو، پھر اپنے بلوغ کے بعد اسلام کا اظہار کرے اور پھر کافر ہو جائے جبکہ مرتد ملی وہ ہے جس کے ماں باپ انعقاد نطفہ کے وقت
کافر ہوں؛ پھر بلوغ کے بعد کفر کا اظہار کرے، پس حقیقی کافر ہو جائے، اس کے بعد اسلام قبول کرے پھر کفر کی طرف پلٹ جائے؛ جیسے کوئی حقیقی
عیسائی جو اسلام قبول کرے پھر عیسائیت کی طرف پلٹ جائے۔ پس مرتد فطری اگر مرد ہو تو اس کی زوجہ اس سے جدا ہو جائے گی اور اس کا نکاح طلاق کے بغیر فسخ ہو جائے گا اور وہ عدت وفات رکھے گی ۔۔۔ اس کی موت کا انتظار نہیں کیا جائے گا اور توبہ اور اسلام کی طرف رجوع ، زوجہ اور مال کے پلٹنے کی نسبت فائدہ مند نہیں ہو گا ۔۔۔ اگر مرتد فطری عورت ہو تو اس کا مال اپنے ملک پر باقی رہتا ہے اور ورثہ کو نہیں ملتا سوائے یہ کہ وہ مر جائے۔
یوں امام کے نقطہ نظر سے اس نکتے کا احصا ہوتا ہے کہ مرتد فطری کو قتل کیا جائے گا اور اس کی
توبہ بھی بے ثمر ہو گی اور اس باب کے دیگر احکام بھی اس کو شامل نہیں ہوں گے۔
امام خمینیؒ اسی کتاب کے ایک دوسرے حصے میں اس موضوع پر تاکید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ: مرتد فطری کا اسلام بظاہر قبول نہیں ہو گا اور اگر وہ مرد ہو تو قتل کر دیا جائے گا اور مرتد عورت خواہ فطری ہی کیوں نہ ہو،
قتل نہیں کی جائے گی بلکہ ہمیشہ کیلئے زندان میں ڈال دی جائے گی اور اس کی توبہ قبول ہو گی۔ پس اگر وہ توبہ کر لے تو زندان سے آزاد کر دی جائے گی اور مرد مرتد ملی کو توبہ کا موقع دیا جائے گا۔
امام خمینیؒ نے ارتداد کے باب میں چار شرائط:
بلوغ،
عقل،
اختیار اور قصد کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ: ارتداد کے حکم میں بلوغ، اختیار اور قصد معتبر ہیں۔ پس بچے کا ارتداد (اگرچہ بلوغ کے نزدیک ہو) اور اسی طرح
دیوانے خواہ اسے دیوانگی کے دورے پڑتے ہوں؛ کا دیوانگی کی حالت میں ارتداد اور اسی طرح جو کچھ غیر ارادی طور پر واقع ہو جیسے غیر سنجیدہ بات کرنے والے یا بھول جانے والے یا غافل اور بے ہوش کی بات اور اگر ایسے غصے کے غلبے کی حالت میں صادر ہو کہ جس کے بعد اس کا نفس اس کے اختیار میں نہ رہے تو ارتداد کا حکم نہیں لگایا جائے گا۔۔
اس کے بعد امام خمینیؒ نے بیان کیا ہے کہ: اگر ارتداد کا مرتد ملی سے تکرار ہو تو بعض نے کہا ہے کہ تیسری مرتبہ اسے قتل کر دیا جائے گا اور بعض نے کہا ہے کہ چوتھی مرتبہ قتل کیا جائے گا اور یہ احوط ہے۔
اور اسی طرح مزید کہا ہے کہ: ارتداد دو عادل کی
شہادت اور اقرار کرنے سے ثابت ہوتا ہے؛ احوط دو مرتبہ اقرار کرنا اور خواتین کی شہادت سے خواہ وہ الگ سے ہو یا ضمیمہ کی جائے؛ ثابت نہیں ہوتا ہے۔
[ترمیم]
امام خمینیؒ کے فقہی مبانی سلمان رشدی کے ارتداد پر فتویٰ صادر کرنے میں بہت زیادہ موثر ہیں۔ درحققیت یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ فتویٰ ان مبانی کی بنیاد پر صادر ہوا ہے۔ امام خمینیؒ ایک فقیہ ، اسلامی علوم کے عالم ، مرجعیت اور نیابت امام عصرؑ کے منصب پر فائز اور اسلامی حکومت کے حاکم کے عنوان سے یہ فتویٰ صادر کرتے ہیں۔
کوئی عقل سلیم یہ قبول نہیں کر سکتی کہ آسانی سے ایک کتاب میں تقریبا ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی مقدس ترین شخصیات کے بارے میں انتہائی توہین آمیز عبارات شامل کر دی جائیں اور شاید اسلام میں اس سزا کے تعین کی وجہ یہ ہو کہ اولا، کوئی آسانی سے مقدسات کی توہین نہ کر سکے اور ثانیا، ان مقدسات کی توہین ان کی توہین ہے جو ان مقدسات کیلئے خاص احترام کے قائل ہیں اور ثالثا انسانوں کے انسانی، اخلاقی اور عرفی تقاضوں کی رو سے دوسرے کو مخاطب قرار دیتے وقت ادب و
احترام کی رعایت ضروری ہے۔ سلمان رشدی نے ان تمام تقاضوں کو پامال کیا اور مسلمانوں کے عقائد کیساتھ کھلواڑ کھیلا؛ ایسے شخص کی سزا کیا ہو سکتی ہے؟! اسلام میں دیگر پیغمبروں کی توہین کا بھی یہی حکم ہے۔
[ترمیم]
ایک اور مبنیٰ جس کا سلمان رشدی پر ارتداد کے فتویٰ کے ضمن میں ذکر کیا جا سکتا ہے؛ امام کی بین الاقوامی تعلقات کی تشکیل پر خصوصی نگاہ ہے۔ دنیا بھر کے ممالک سے تعلق رکھنے والے مشہور سیاستدانوں اور مروجہ سیاست کے برخلاف امام خمینیؒ نے
سیاست کی تشریح ہدایت کے پیراڈائم میں کی ہے۔
امام نے سیاست کی تشریح کرتے ہوئے کہا: سیاست یہ ہے کہ معاشرے کی ہدایت کرے، اسے راستہ دکھائے اور معاشرے کی تمام مصلحتوں کو پیش نظر رکھے اور معاشرے کی اس چیز کی طرف ہدایت کرے جس میں ان کی بھلائی ہے، قوم کی بھلائی ہے، افراد کی بھلائی ہے۔ یہ
انیباء سے مخصوص ہے۔ دوسرے لوگ اس سیاست کو نہیں چلا سکتے اور یہ انبیاء و اولیاء سے مخصوص ہے اور ان کے بعد اسلام کے بیدار علما سے مخصوص ہے۔
اس نقطہ نظر کے نتیجے میں دو طرح کی آئیڈیالوجی سامنے آتی ہے؛ کیونکہ ایک طرف
حق ، اسلام اور مستضعف ہیں اور دوسری طرف
باطل ،
کفر اور مستکبر مستقر ہیں اور امام خمینیؒ بھی مروجہ بین الاقوامی تعلقات کے برخلاف نقطہ نظر رکھتے تھے؛ ان دو طرح کے نقطہ نظر کا انسانی اور غیر انسانی قطب میں خلاصہ کیا جا سکتا ہے۔
دو طرفہ احترام، تمام غیر ملکیوں کے ساتھ تعلقات میں ظلم کرنے اور ظلم سہنے کی نفی،
تجارتی لین دین میں طرفین کی رضامندی ،
دنیا بھر کی اقوام اور حکومتوں کے ساتھ اچھے تعلقات اور دوستی برقرار کرنا
اور سب حکومتوں اور ملتوں کی سرنوشت میں مداخلت نہ کرنا
انسانی قطب کی خصوصیات کے اصول ہیں۔ اثر ورسوخ،
ثقافت و ادب پر حملے ،
مداخلت،
قبضے،
ملکوں پر حملے،
وسائل کی لوٹ مار اور ملتوں کے مفادات کو پامال کرنا ،
براہ راست اور بالواسطہ تسلط ،
قید و بند ،
اور مختلف پہلوؤں سے کسی ملک کی خود انحصاری کا خاتمہ
بین الاقوامی تعلقات کے میدان میں غیر انسانی معیارات ہیں۔
[ترمیم]
سلمان رشدی کے فتوائے ارتداد میں امام کے طرز عمل سے اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ امام خمینیؒ اپنے فیصلوں میں کچھ اصول و ضوابط کے پابند تھے اور اس فصل میں امام خمینیؒ کے فیصلوں پر اثرانداز ہونے والے اصول و ضوابط کو بیان کیا جائے گا۔
امام خمینیؒ بطور عمیق اس اصول کے معتقد اور پابند تھے اور عقیدہ و بیان کی آزادی پر تاکید کرتے تھے۔ آپ نے انقلاب سے کچھ پہلے اوریانا فالاچی کے ساتھ ایک انٹرویو میں یہ کہا: لوگوں کی رائے آزاد ہے؛ کوئی انہیں پابند نہیں کرتا کہ تم ضرور یہ رائے رکھو؛ کوئی تمہیں پابند نہیں کرے گا کہ ضرور اس راہ پر چلو؛ کوئی تمہیں پابند نہیں کرے گا کہ ضرور اس کا انتخاب کرو۔
معلوم ہوتا ہے کہ امام خمینیؒ کے افکار میں مختلف موضوعات میں آزادی جیسے عقیدہ و بیان کی آزادی ، مطبوعات و اخبارات کی آزادی اور ۔۔۔ کا اصول تسلیم کیا گیا ہے اور پھر اس آزادی کیلئے کچھ حدود و قیود وضع کیے گئے ہیں اور اس نکتے کا ذکر ضروری ہے کہ آزادی کے باب میں خواہ مفکرین کے افکار ہوں یا مدون قوانین ؛ مطلق آزادی کا کوئی معنی نہیں ہے اور اسی طرح
استاد مطہری لکھتے ہیں: فکر کی آزادی اور منافقت و سازش کی آزادی کو ایک دوسرے سے خلط ملط نہیں کرنا چاہئے۔
آزادی کی اسلام میں حدود و قیود ہیں۔ امام خمینیؒ آزادی کی ایک حد کو اس عنوان سے ذکر کرتے ہیں: ہر شخص آزاد ہے کہ اپنی رائے دے لیکن سازش کرنے کیلئے آزاد نہیں ہے۔
امام کے نقطہ نظر سے آزادی کی ایک اور حد یہ ہے کہ اس سے اسلام کے قوانین کے دائرے میں رہ کر استفادہ کیا جائے۔ امام خمینیؒ اس بارے میں اظہار فرماتے ہیں: پس آزادی کا معنی یہ نہیں ہے کہ لوگ آزاد ہیں کہ جو چاہیں کریں ۔۔۔ آزادی
قانون کی حدود میں ہونی چاہئیے۔ اسلام کے قوانین کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے؛ اسلام کے قوانین کے دائرے میں رہ کر
آئین کے دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے بیان کی آزادی ہے اور بحث کی آزادی ہے۔
امام خمینیؒ کے کلام کا خلاصہ اس نکتے میں پنہان ہے کہ جس طرح اسلام نے آزادی کے اصول پر تاکید کی ہے؛ اس کی حدود و قیود کو بھی متعین کیا ہے اور ہمارا آئین بھی اسلام سے ماخوذ ہے؛ لہٰذا آزادی کیلئے کچھ تمہیدات کا قائل ہے اور جیسا کہ ہم نے کہا، یہ تمہیدات اسلام سے مخصوص نہیں ہیں۔ امامؒ اس بارے میں فرماتے ہیں: ہماری مملکت میں فکر کی آزادی ہے، قلم کی آزادی ہے، بیان کی آزادی ہے مگر سازش و فساد کی آزادی نہیں ہے۔ آپ کو اگر توقع ہے کہ آپ ہمارے خلاف سازش کریں اور ہماری مملکت میں ہرج مرج پیدا کریں، فساد پھیلائیں اور آپ کا مقصود یہ والی آزادی ہے تو دنیا میں کسی بھی جگہ ایسی آزادی نہیں ہے۔
اس بنا پر امام نے اپنے افکار میں آزادی کے اصول کیلئے حدود و قیود کو مشخص کیا ہے اور شاید سلمان رشدی پر ارتداد کے فتویٰ کے باب میں آپ کے طرز عمل پر حکمفرما ایک اصول یہ مسئلہ ہو کہ سلمان رشدی نے اس اصول کو توڑا ہے اور اس نے بیان کی آزادی کی جگہ آزادی سے توہین کرنا چاہی ہے اور ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے عقائد کی توہین کی ہے۔
امام خمینیؒ کی عملی سیرت پر حکمفرما ایک اصول یہ ہے کہ امامؒ تمام وادیوں میں اسلام کی محوریت کا عقیدہ رکھتے تھے۔ جیسا کہ ہم نے کہا: امام خمینیؒ نے سیاست کو ہدایت کے پیرا ڈائم میں پیش کیا اور اس پیرا ڈائم میں قومی مفادات کا مطلب اہل مغرب والا نہیں ہے کہ جنہیں وہ ہر چیز کا محور قرار دیتے ہیں بلکہ اس پیراڈائم میں اسلام اور اس کا نفاذ محور و مدار ہے؛ کیونکہ اس کا نفاذ حقیقی سعادت تک پہنچنے کی راہ میں انسانوں کے
کمال و ترقی کا موجب ہے۔ لہٰذا اسلام کی حفاظت، ترقی اور سربلندی کیلئے ضروری ہے کہ کسی قربانی سے دریغ نہ کیا جائے؛ امام خمینیؒ اس بارے میں فرماتے ہیں: یہ ایسا فریضہ ہے کہ ہم سب کیلئے اہم ترین فرض ہے اسلام کی حفاظت؛ یعنی اسلام کی حفاظت اسلام کے احکام کی حفاظت سے بالاتر ہے۔ اسلام کی اساس اول ہے، اس کے بعد اسلامی احکام کی اساس ہے اور ہم سب پر اور آپ سب پر جس قدر طاقت رکھتے ہوں، جس قدر توانائی رکھتے ہوں؛ واجب ہے کہ سنجیدگی سے کام کریں۔
اور جیسا کہ ہم نے کہا کہ سیاست اور ہدایت کے پیرا ڈائم میں انبیاء ، آئمہ اطہار اور اولیا و علما کی سیاست ایک طرف ہے اور تینوں کا ایک ہدف ہے یعنی حقیقی سعادت جو اسلام کے دائرہ کار میں حاصل ہوتی ہے۔ اس بنا پر جس طرح پیغمبر اور آئمہؑ اس راہ پر گامزن ہیں، علما بھی اس راستے پر گامزن ہوں۔ امام خمینیؒ اس بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہتے ہیں: اسلام اس سے زیادہ عزیز ہے جو ہمارے تصور میں ہے۔ اسلام یہ ہے کہ رسول خدا نے اس کیلئے کیسی زحمتیں اٹھائی ہیں اور کتنی مصیبتیں برداشت کیں، کتنے جوان قربان کیے اور کتنے معزز اشخاص کو فدا کر دیا۔ اسلام اتنا عزیز ہے کہ پیغمبر کی اولادوں نے اپنی جانوں کو اسلام پر فدا کر دیا۔
حضرت سید الشہداء نے ان جوانوں اور ان اصحاب کے ہمراہ اسلام کیلئے جنگ کی اور جان دی اور اسلام کو زندہ کر دیا۔
اس بنا پر اسلام کی حفاظت کیلئے اپنی جان کو قربان کیا جا سکتا ہے اور فداکاری کی جا سکتی ہے۔ اس منطق میں مادی اسباب و علل کی زیادہ تاثیر نہیں ہے اور جس طرح امام خمینیؒ فرماتے ہیں: اگر دنیا کو نگلنے والے یہ چاہیں کہ ہمارے
دین کے خلاف کھڑے ہوں تو ہم دوسری طرف ان کی پوری دنیا کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہو جائیں گے۔
یہ بات اس نکتے کی تائید کرتی ہے کہ ہمارے بس میں جو بھی ہے؛ اس کے ساتھ اسلام عزیز کا دفاع کریں اور کسی کے خوف کی پرواہ نہ کریں؛ اس نقطہ نظر کی بنیاد پر آیات شیطانی کتاب کے مؤلف نے مغرب کے ساتھ مل کر ایسے حالات میں اسلام کو نشانہ بنایا تھا کہ جن میں مروجہ مصلحت اندیشی اور ڈپلومیسی جائز نہیں تھی اور اس موضوع سے چشم پوشی اسلام کو خطرے میں ڈال سکتی تھی۔ سب سے اہم مسئلہ اسلام اور اس کے احکام کی حفاظت ہے اور اسے اولویت حاصل ہے۔
اس بنا پر دین کے مخالفین اور دین کی بنیاد کو نشانہ بنانے والوں کے سامنے کسی مناسبت کا خیال رکھنے کی ضرورت نہیں ہے اور اپنے مادی مفادات کو قربان کر دینا چاہئے؛ کیونکہ بنیاد، رہنما اور ہدف اسلام کی حفاظت اور اس کا تمام شعبوں میں اجرا ہے؛ سلمان رشدی کا ماجرا اس حوالے سے بھی واضح ہوتا ہے کہ اس نے دین کی بنیاد کو نشانہ بنایا تھا۔ لہٰذا امامؒ نے اپنے فتویٰ کے ساتھ اس اساس کا دفاع کیا اور دوست و دشمن کی سرزنش اور دھمکیوں سے مرعوب نہیں ہوئے اور جن حالات میں مغرب کی کوشش تھی کہ حقائق میں تحریف کر کے مسلمانوں کو اسلام کی روحانی اقدار سے دور کریں، امامؒ کے فتویٰ نے اس سازش کا دندان شکن جواب دیا اور اسلامی تحریک کی بیداری اور اس میں جوش و خروش کا باعث بنا۔
امام خمینیؒ کی عملی سیرت میں ایک اور قابل استنتاج اصول مسلمانوں کی غیر ملکی سازشوں کے خلاف بیداری اور ہوشیاری ہے۔
ہم نے کہا کہ امام کی بین الاقوامی سطح پر دو طرح کی نگاہ تھی کہ ایک طرف غیر انسانی قطب ہے اپنی تمام طاقت اور مادی وسائل کے ساتھ میدان میں ہے اور دوسری طرف انسانی قطب ہے، ثابت قدمی اور انسان کی کرامت و آزادی پر ایمان کے اعتقاد کے ساتھ جو جبر و غلبے کی نفی کرتا ہے۔ اس نقطہ نظر کی بنا پر غیر انسانی قطب طول تاریخ میں دیگر اقوام پر تسلط کی سیاست کو لے کر چلتا رہا ہے اور اسی وجہ سے امام خمینیؒ بین الاقوامی سطح پر ’’نفی سبیل‘‘ کی حکمت عملی کو اختیار کرتے ہیں اور دو جنبوں سے اسے حائز اہمیت قرار دیتے ہیں؛ اس اصول کے سلبی جنبے کا مطلب غیر ملکیوں کے تسلط کی نفی اور ان کی مداخلت کا ناجائز ہونا ہے اور اس کے ایجابی جنبے کا مفہوم یہ ہے کہ ایسی مضبوط بنیادیں متعین کی جائیں کہ جن کے تحت اسلامی حکومت مختلف طریقوں سے غیر ملکی مداخلت کا راستہ بند کر دے۔
اس نقطہ نظر کی بنیاد پر غیر ملکی طاقتیں دیگر اقوام کے مفادات و اہداف کو نشانہ بنانے کیلئے ہر فرصت سے فائدہ اٹھاتے ہیں، اسی لیے ان کی چالوں کے خلاف بیداری و ہوشیاری انسانی قطب کے حاکم کیلئے لازمی و ضروری ہے۔ امام خمینیؒ نے اپنے الہی و سیاسی وصیت نامے میں لکھا: اسلام اور اسلامی ممالک کے مخالفین جو وہی بین الاقوامی سپر پاور اور غارت گر ہیں؛ بتدریج ظرافت کے ساتھ ہمارے ملک اور دیگر اسلامی ممالک کے درمیان رخنہ پیدا کرتے ہیں اور ملتوں کے افراد کے ہاتھوں ان ممالک کو استثمار کی نذر کر دیتے ہیں۔ ضروری ہے کہ ہوشیاری کے ساتھ خیال رکھیں۔
ان چالوں کے مقابلے میں ہوشیاری نہ رکھنے کا انجام اپنے ہاتھوں سے خود کو ہلاکت میں ڈالنا ہے۔ لہٰذا امام غیر ملکی سازشوں کے مقابلے میں آمادگی اور ہوشیاری پر تاکید کرتے تھے اور کتاب آیات شیطانی کے بارے میں واضح فرماتے ہیں: یہ مسئلہ
عرب و
عجم اور
فارس و
ایران کا نہیں ہے بلکہ صدر اسلام سے آج تک کے اور ہمیشہ کے اسلامی مقدسات کی توہین کا ہے کہ اگر ہم نے غفلت کی تو یہ ابتدا ہے اور استعمار کی آستین میں ایسے بے شمار خطرناک سانپ اور بکے ہوئے قلم رکھے ہوئے ہیں۔
معلوم ہوتا ہے کہ امام خمینیؒ کتاب آیات شیطانی کے مؤلف کے واقعے میں اس نتیجے تک پہنچے کہ پہلے سے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کام شروع کیا گیا ہے اور جیسا کہ پہلے بیان بھی کیا گیا کہ اس پر بہت سے شواہد و دلائل موجود تھے اور ان کے نزدیک یہ واقعہ ان کا ایک بہت بڑا حیلہ ہے کہ جس کے تحت وہ اسلام کی روحانی اقدار کے خلاف جنگ کر رہے ہیں تاکہ مسلمان اپنے مقدسات کی نسبت ضعف کا شکار ہو جائیں۔
لہٰذا وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ اس سازش پر رد عمل دکھایا جائے ۔ شواہد و اسناد بھی امام کی ہوشیاری و بیداری اور تیز بینی پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہیں۔ لہٰذا امام نے یہ تاریخی فتویٰ صادر کیا اور مغربی ممالک کے دباؤ کا سامنا کیا اور ایسا کام کیا کہ خائنین کے ہاتھ قطع ہو گئے اور پھر وہ اپنا کام جاری نہ رکھ سکے اور قطعا اگر یہ حکم صادر نہ ہوتا تو مختلف شکلوں میں یہ کام جاری رہتا۔
امام کا فتویٰ اجنبیوں کی سازشوں کے مقابلے میں مسلمانوں کیلئے ایک چراغ فروزاں ہے اور مسلمان قوموں نے یہ درک کر لیا کہ کس طرح سازشوں کو ناکام کیا جاتا ہے۔
شاید امام خمینیؒ کی عملی سیرت پر حکمفرما دیگر اصولوں کے باب میں یہ نکتہ بیان کیا جا سکتا ہے کہ اسلام دشمنوں کے ہمہ جانبہ حملوں کے مقابلے میں اسلام اپنے اندر ہمیشہ ایسے طاقتور وسائل رکھتا ہے کہ جن میں سے ایک مراجع کرام کا فتویٰ ہے۔ اس وسیلے سے استفادہ کرتے ہوئے سب سے پہلے
مرزائے شیرازی نے
استعمار و
استبداد کو پیچھے دھکیلا اور پھر امام خمینیؒ نے بھی اس واقعے میں اس وسیلے سے استفادہ کیا ورنہ اس واقعے کا سامنا کرنے کے دیگر راستوں کا تصور بھی کیا جا سکتا تھا لیکن امامؒ نے اس نقطہ نظر کو ترجیح دی۔
امام خمینیؒ اس فتویٰ کو جاری کرنے کے باب میں دنیا بھر کے مسلمانوں کیلئے انقلاب کا اصل تشخص واضح کرنا چاہتے تھے تاکہ اسلام ناب اور امریکی اسلام کے مابین لکیر کھینچ دی جائے اور لوگ یہ درک کر لیں کہ
اسلامی انقلاب بنیادی طور پر تمام اسلامی ممالک کی حکومتوں سے مختلف ہے۔ البتہ یہ اصول اور طرز عمل امام کے سیاسی فیصلوں میں ان کیلئے ہمیشہ مشعل راہ رہا ہے۔ سلمان رشدی کے مسئلے میں اس اصول پر اعتماد انقلاب کے اس پہلو کی برجستگی کا موجب بنا۔ بالفاظ دیگر امام کا فتویٰ صادر ہونے کے بعد مسلمانوں نے اسلامی انقلاب اور اسلام کی دعویدار حکومتوں کے مابین فرق کو درک کر لیا۔
کتاب آیات شیطانی کے مؤلف کے ارتداد کے باب میں امام خمینیؒ کا فتویٰ بہت سے نتائج کا حامل تھا۔ بہت سے تجزیہ نگاروں نے اس کے خارجہ پالیسی اور قومی مفادات پر سنگین نوعیت کے منفی اثرات کا جائزہ لیا ہے اور ان کے نزدیک اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت جلد از جلد اس بھاری بوجھ سے نجات حاصل کرے؛ لیکن جیسا کہ ہم نے کہا کہ اس فتوے کا داخلی سطح پر جائزہ لیا جائے اور اس بنا پر اس کے مثبت ثمرات و نتائج کا بین الاقوامی سطح پر جائزہ لیا جا سکتا ہے۔
بین الاقوامی سطح پر اس کے درج ذیل مثبت نتائج تھے:
اسلام کی مضبوط طاقت اور مختلف مسلمان فرقوں میں وحدت کا عملی مظاہرہ؛
اسلامی انقلاب کے حقیقی افکار کی یاد دہانی؛
دنیا بھر کے مسلمانوں کی امام خمینیؒ کی مضبوط قیادت کی طرف توجہ؛
مسلمانوں کے روحانی عقائد کو کمزور کرنے کیلئے مغرب کی مذہبی تحریفات کا مقابلہ اور مغرب کے جھوٹے نعروں اور دبدبے کے بت کو گرانا؛
اسلامی ممالک کے سازشی سربراہوں کی حقیقت کو بے نقاب کرنا اور اسلام ناب اور امریکی اسلام کے مابین لکیر کھینچنا؛
تعلیمی و تربیتی سرحدوں کی حفاظت اور دفاع؛
ملکی سطح پر بھی اس کے مثبت نتائج سامنے آئے:
اسلامی انقلاب کی حقیقت کا عیاں ہونا اور رہبر کی جانب سے انقلاب کے اصولوں اور امنگوں کی پاسداری؛
عوام میں آگہی کہ جنگ کے اختتام کے باوجود سازشیں چلتی رہیں گی؛
اس فتوے کی حمایت میں داخلی وحدت میں استحکام؛
قرار داد منظور کیے جانے کے بعد ایران کے قومی وقار کا احیا؛
بہرحال مسلمان اقوام نے یہ درک کر لیا کہ اسلامی انقلاب کا اصل شاخص اسلام مخالفین کے مقابلے میں ایک حقیقی اور طاقتور تحریک کے عنوان سے امام خمینیؒ کی عملی و نظری سیرت ہے اور کتاب شیطانی آیات کے مؤلف سلمان رشدی کیلئے سزائے موت کا فتویٰ اسی سیرت کا ایک پہلو ہے۔
[ترمیم]
[ترمیم]
درویشی سهتلانی، فرهاد، سیره عملی امام خمینی در اداره امور کشور، (۱۳۶۸-۱۳۵۷)، چاپ و نشر عروج، ۱۳۸۵، ص۵۹۳-۶۷۶ (با تلخیص)، ماخوذ از مقالہ «مبانی تصمیمگیری امام خمینی در مورد فتوای ارتداد سلمان رشدی»، تاریخ نظرثانی ۱۳۹۹/۱۰/۲۰۔