شبہ ابن قبہ

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



شبہِ ابن قبہ کا تعلق مطلق ظنّ پر تعبُّدا عمل پیرا ہونے کے امکان سے ہے۔


تعریف

[ترمیم]

شبہِ ابن قبہ سے مراد ابن قبہ کا وہ اعتراض ہے جو مطلقِ ظن کے ذریعے تعبّد کے ممکن ہونے پر کیا گیا ہے اور مطلق ظنّ کے ذریعے حکم شرعی کو اخذ کرنا محال قرار دیا گیا ہے۔ ابن قبہ کا نام محمد بن عبد الرحمن بن قبہ رازی ہے۔ ابن قبہ مشہور فقہاء و متکلمینِ شیعہ کے برخلاف معتقد ہیں کہ مطلق ظنّ سے تمسک کرنا محال ہے اور اس سے دینی حکم نہ عقائد میں اخذ کر سکتے ہیں اور نہ شریعت میں۔ ابن قبہ کے نظریہ کو مشہور علماءِ امامیہ نے باطل قرار دیا ہے اور اس کو شبہِ ابن قبہ کے عنوان سے زیرِ بحث لایا جاتا ہے۔

← وضاحت


علماءِ اصول نے تفصیلی بحث کی ہے کہ قطع کی حجیت ذاتی ہے جبکہ قطع کے مقابلے میں ظنّ کی حجیت ذاتی نہیں ہے۔ پس ظن کا حجت ہونا ایک دلیل قطعی کا محتاج ہے جو ثابت کرے کہ شارع نے مکلف کے حق میں ظن کو حجت قرار دیا ہے۔ یہاں سے یہ بحث نکلتی ہے کہ کیا ممکن ہے کہ ظن کو بطور تعبّد اختیار کرنا ممکن ہے یا یہ امر محال اور ناممکن ہے ؟

اگر ہم اس بات کے قائل ہو جائیں کہ ظنّ کو بطور تعبّد اختیار کرنا اور اس کو اصول دین یا فروعِ دین میں اختیار کرنا محال ہے تو اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ شارع ظن کو حجت قرار نہیں دے سکتا۔ بالفاظِ دیگر آیا شارع کے لیے ممکن ہے کہ وہ مکلف کے لیے ظن کو حجت قرار دے اور ظن پر عمل پیرا ہونے کا حکم جاری کرے اور مکلف امارہِ ظنی کی بنیاد پر ایک عمل کو انجام دیتے ہوئے اس کی نسبت اللہ تعالی کی طرف اس طرح سے دے: میرے مولی نے یہ حکم اور دستور جاری کیا ہے کہ میں اس کو انجام دوں، پس میں اس عمل کو مولی کا حکم قرار دیتے ہوئے انجام دے رہا ہوں، یا ایسا ممکن نہیں ہے اور ظن کی بناء پر اللہ تعالی کی طرف نسبت نہیں دی جا سکتی؟

ابن قبہ مشہور علماء کے برخلاف معتقد ہے کہ عقل کی رُو سے ظن پر عمل پیرا ہونا محال اور ممتنع ہے، فرق نہیں پڑتا کہ ہمارے پاس ظن پر تعبّدی طور پر عمل پیرا ہونے پر کوئی دلیل موجود ہے یا نہیں۔ اگر شارع ہمیں ظن پر عمل کرنے کا حکم جاری کرے تو اس سے خارج میں مفسدہ اور فساد برپا ہو گا۔

ابن قبہ کی دو عقلی دلیلیں

[ترمیم]

مطلق ظن پر تعبُّدًا عمل کرنے کے محال ہونے پر ابن قبہ نے دو عقلی دلیلیں پیشں کی ہیں:

← ابن قبہ کی پہلی دلیل


پہلی دلیل یہ ہے کہ اگر فروع دین میں خبرِ واحد پر تعبُّدی طور پر عمل کرنا ممکن قرار دیا جائے تو اس سے لازم یہ آئے گا کہ اصول دین میں بھی خبر واحد پر تعبُّدًا عمل کرنا ممکن قرار پائے، مثلا اگر ایک شخص ظاہری طور پر قابل اعتماد اور ثقہ ہے اور وہ دعوی کرتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں اور اس کی طرف سے احکام و شریعت لے کر آیا ہوں تو ہمیں اس کی بات کو قبول کرنا چاہیے۔ پس اس مثال میں لازمہ باطل ہے یعنی اس کی بات کو قبول کرنا باطل ہے تو ملزوم کی اسی کی مانند باطل ہو گا۔

← ابن قبہ کی دوسری دلیل


دوسری دلیل یہ ہے کہ اگر خبرِ واحد یا امارہِ ظنی حجت ہے تو اس سے حلال کا حرام ہونا اور حرام کا حلال ہونا لازم آتا ہے۔ کیونکہ اماراتِ ظنی ہمیشہ واقع تک نہیں پہنچاتے بلکہ ممکن ہے کہ امارہ ایک شیء کے حلال ہونے کو بیان کرے جبکہ واقع میں وہ شیء حرام ہو یا اس کے برعکس امارہ ایک شیء کے حرام ہونے کی نشاندہی کرے جبکہ واقع میں وہ شیء حلال ہو!! بس امارہ پر عمل کا حکم دینا یا اس کو تعبُّدا اختیار کرنا مصلحت کو فوت کرنے اور مکلف کو خود مفسدہ میں ڈالنے کا باعث ہے اور مصلحت کو خود ہی ختم کرنا اور مکلف کو مفسدہ میں ڈالنا ہر دو قبیح امر ہیں جو شارع سے صادر ہونا محال اور ناممکن ہیں۔

شیخ انصاری کی نظر

[ترمیم]

شیخ انصاری نے ابن قبہ کے شبہ کو ردّ کیا ہے۔ آپ اپنی کتاب فرائد الاصول میں بیان کرتے ہیں:
ویظهر من الدلیل المحکی عن ابن قبه، فی استحالة العمل بالخبر الواحد، عموم المنع لمطلق الظن، فانه استدل علی مذهبه بوجهین: الاول انه لو جاز التعبد بخبر الواحد فی الاخبار عن النبی صلی‌ الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم لجاز التعبد به فی الاخبار عن الله تعالی، و التالی باطل اجماعا.
الثانی: ان العمل به موجب لتحلیل الحرام و تحریم الحلال، اذ لا یؤمّن ان یکون ما اخبر بحلیته حراما و بالعکس و هذا الوجه کما تری جار فی مطلق الظن بل فی مطلق الامارة الغیر العلمیة و ان لم یفد الظن
۔
علماءِ اصولی اور شیخ انصاری نے ان دو شبہات یا ابن قبہ کی دونوں دلیلوں کے متعدد اور کامل جواب دیئے ہیں۔

اہم نکتہ

[ترمیم]

یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ مطلقِ ظنّ پر تعبُّدا عمل کرنے کے امکان ہونے میں امکان سے کیا مراد ہے؟ اس بارے میں چند آراء و اقوال موجود ہیں:
۱. امکان سے مراد امکان ذاتی ہے جوکہ امتناع ذاتی کے مقابلے میں آتا ہے۔ یہ دونوں ایک ماہیت کی صفت واقع ہوتے ہیں۔
۲. امکان سے مراد امکان وقوعی ہے۔ یعنی خارج میں ایک شیء کا واقع ہونے کی صورت میں کسی قسم کا مفسدہ یا فساد مترتب نہ ہونا۔
۳. امکان سے مراد امکان احتمالی ہے۔ یعنی ایک شیء کا احتمال دینا اور اس کے وقوع کے جائز ہونے کا احتمال، البتہ اس کے برخلاف صورت کا بھی احتمال پایا جاتا ہے۔
اکثر اور بیشتر اصولی قائل ہیں کہ شبہ ابن قبہ میں امکان سے مراد امکانِ وقوعی ہے۔
[۴] شرح رسائل، محمدی، علی، ج۱، ص۱۶۶ - ۱۶۵۔


حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. تہذیب الاصول، خمینی، روح الله، ج۲، ص۵۹۔    
۲. فرائد الاصول، انصاری، مرتضی بن محمد امین، ج۱، ص۱۰۵ - ۱۰۶۔    
۳. المحصول فی علم الاصول، سبحانی تبریزی، جعفر، ج۳، ص۱۰۷۔    
۴. شرح رسائل، محمدی، علی، ج۱، ص۱۶۶ - ۱۶۵۔
۵. دروس فی علم الاصول، صدر، محمد باقر، ج ۲، ص ۱۶۔    


مأخذ

[ترمیم]

فرہنگ‌ نامہ اصول فقہ، تدوین توسط مرکز اطلاعات و مدارک اسلامی، ص ۴۹۸، مقالہِ شبہ ابن قبہ سے یہ تحریر لی گئی ہے۔    


اس صفحے کے زمرہ جات : اصول فقہ | حجیت خبر واحد | مباحث ظن




جعبه ابزار