شہرت روائی
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
شہرت روائی سے مراد وہ روایت ہے جس کو نقل کرنے والے راوی وافر اور کثیر ہوں لیکن راوی زیادہ ہونے کے باوجود
تواتر کی حد تک نہ پہنچے ہوں۔ ہر وہ روایت جو راویوں اور محدثین کے درمیان شہرت رکھتی ہے اس کو شہرتِ روائی کہا جاتا ہے۔ شہرت کی اصطلاح
اہل حدیث میں پائی جاتی ہے۔
[ترمیم]
شہرت روائی سے مراد کتبِ احادیث میں وارد ہونے والی وہ حدیث ہے جس کو راویوں کی ایک بڑی تعداد نے نقل کیا ہو اور وہ تعداد تواتر کی حد تک نہ پہنچی ہو۔ ایک روایت اس لیے شہرت پا جاتی ہے کیونکہ متعدد راویوں نے اس کو نقل کیا ہے اور اپنی کتبِ احادیث میں ثبت کیا۔ روایتِ مشہور کو
مستفیض بھی کہتے ہیں۔ بالفاظ دیگر اگر ایک روایت
متن کے اعتبار سے شہرت رکھتی ہو، یعنی وہ روایت جسے بہت سے راویوں نے ذکر کیا اور اسے کتبِ احادیث میں خود ثبت کیا ہے کو شہرتِ روائی کہتے ہیں۔
[ترمیم]
مشہور علماءِ اصول مثل
اخوند خراسانی معتقد ہیں کہ اخبار و احادیث میں
تعارض کی صورت میں شہرت روائی
مرجحات میں سے شمار ہو گی۔ پس باب تعارض میں ذکر کیے مرجحات میں سے ایک شہرتِ روائی ہے۔
بعض اصولی قائل ہیں کہ وہ شہرت روائی اور
شہرت عملی ہر دو کا شمار اس نوعِ شہرت میں سے ہے جس سے
قطع حاصل ہو جاتا ہے کہ یہ روایت متکلم سے صادر ہوئی ہے۔
بعض دیگر اصولی علماء قائل ہیں کہ حجت کو غیر حجت سے شہرتِ روائی کے ذریعے تمیز دی جا سکتی ہے۔ لہذا شہرتِ روائی ممیزات میں سے ہے نہ کہ باب تعارض کے مرجحات میں سے۔
[ترمیم]
بعض علماءِ اصول نے شہرتِ روائی کی اس طرح تعریف کی ہے:
ونعنی بالشهرة الروائیة اشتهار روایتها بین اصحاب الائمۃ علیھم السلام؛ ہماری شہرتِ روائی سے مراد اصحابِ آئمہ علیہم السلام میں شہرت پانے والی روایت ہے۔
یعنی اصحابِ آئمہؑ کے درمیان روایت کا
مشہور ہونا اور شہرت پانا شہرتِ روائی کا ملاک و معیار ہے اور اس روایت کی سند کے جبران کا سبب بنتا ہے۔
[ترمیم]
وہ خبر جو کثیر راویوں نے نقل کی ہو بشرطیکہ راویوں کی کثرت حدِ تواتر تک نہ پہنچی ہو کو خبرِ مشہور اور خبرِ مستفیض کہتے ہیں۔ اگر دو خبروں میں تعارض ہو جائے تو شہرتِ روائی کی بناء پر ایک کو ترجیح دی جا سکتی ہے کیونکہ شہرتِ روائی کا شمار مرجحات میں سے ہوتا ہے۔
[ترمیم]
اگر دو روایات معنی اور مدلول کے اعتبار سے ایک دوسرے ٹکرائیں اور ان دونوں میں سے ایک شہرتِ روائی رکھتی ہو اور بیشتر روایوں نے اس کو نقل کیا ہو تو اس روایت کو دوسری روایت پر ترجیح دے دی جائے گی۔ ترجیح دینے کی دلیل یہ ہے کہ بذاتِ خود شہرت اس
حدیث کے صادر ہونے کے وثوق اور اطمینان کا باعث بنتی ہے۔
نیز بعض روایات مثل
مقبولہ عمر بن حنظلہ میں صراحت کے ساتھ وارد ہوا ہے کہ ایک شخص نے
امام جعفر صادقؑ سے سوال کیا کہ اگر راویوں میں سے دو راوی حدیث کو نقل کریں اور یہ دونوں راوی
ثقہ، موردِ اعتماد و اطمینان ہوں اور دونوں کی حدیث میں ٹکراؤ ہو تو ایسی صورت میں کیا کیا جائے؟ امامؑ نے بعض مرجحات جن کے ذریعے سے ایک روایت کو دوسری پر ترجیح دی جا سکتی ہے کو ذکر کرنے کے بعد فرمایا:
ینظر الى ما کان من روایتهم عنّا فى ذلک الّذى حکما به المجمع علیه من اصحابک فیؤخذ به من حکمنا و یترک الشاذّ الّذى لیس بمشهور عند أصحابک؛ ایسی صورت میں دیکھا جائے گا کہ اس مورد میں ان دونوں نے جس کا حکم لگایا ہے وہ تمہارے اصحاب کے درمیان اجماعی و اتفاقی مسئلہ ہے تو ہمارے حکم میں سے اسی کو لے لیا جائے گا اور اس شاذ حکم کو ترک کر دیا جائے جو تمہارے اصحاب کے درمیان شہرت نہیں رکھتا۔
پس اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اصحابِ آئمہؑ میں جس حکم اور جس مضمون کو شہرت حاصل ہو اور اس پر ان اصحاب کا اتفاق ہو اس کو اس حکم پر ترجیح دی جائے گی جو مشہور کے خلاف ہے۔
[ترمیم]
بعض اہل سنت کتب میں شہرتِ روائی کو بیان کرنے کے لیے پہلے خبر کی تین قسمیں کی گئی ہیں:
۱۔
خبر متواتر۲۔ خبر مشہور
۳۔
خبر واحداس کے بعد خبرِ مشہور کو خبرِ واحد پر مقدم قرار دیا گیا۔ یعنی راویوں اور محدثین کی زبانوں پر رائج حدیث کو مشہور قرار دیتے ہوئے اس خبر پر مقدم قرار دیا گیا جو غیر مشہور اور خبر واحد ہے۔ کیونکہ
محدثین اور راویوں میں شہرت پانی والی حدیث اطمینان بخش ہے۔
بعض اہل سنت علماء نے شہرت کی بعض اقسام کو مرجحات میں سے قرار دیا ہے، مثلا راوی کا مشہور ہونا یعنی
شہرتِ راوی۔ البتہ شہرتِ راوی اور شہرتِ روائی میں فرق ہے۔ انہوں نے شہرتِ روائی کی بجائے شہرتِ راوی کو مرجحات میں سے شمار کیا ہے۔ علماء کا یہ گروہ کہتا ہے کہ اگر ایک راوی ایک
حدیث بیان کرے اور اور اس کے مقابلے میں دوسرا راوی متعارض حدیث بیان کرے تو جس راوی کو شہرت حاصل ہے اس کی حدیث کو دوسری حدیث پر مقدم کیا جائے گا۔ شہرتِ راوی کی کئی صورتیں بنتی ہیں جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:
۱۔
راوی کا شمار کبارِ صحابہ میں ہوتا ہو؛ کیونکہ راوی کا عالی اور بلند منصب پر فائز ہونا اسے
جھوٹ اور کذب سے دور رکھے گا۔
۲۔ ایک صورت یہ بنتی ہے ایک نام رکھنے والا راوی دو نام رکھنے والے راوی پر ترجیح رکھتا ہے۔
۳۔ وہ راوی جو معروف النسب ہے مجہول النسب راوی پر مقدم شمار کیا جائے گا۔
۴۔ راویوں میں وہ راوی حضرات جن کے نام
ضعیف راویوں سے مشابہ اور ملتے جلتے نہیں ہیں کو ان راویوں پر ترجیح حاصل ہے جن کے نام ضعیف راویوں سے مشابہ ہیں۔
اسی طرح وہ راوی جو حافظہ اور مطالب کو ذہن میں
ضبط کرنے میں شہرت رکھتا ہے یا وہ راوی جو فقط ثقہ اور عادل راویوں سے احادیث نقل کرتا ہے اس کو مقدم کیا جائے گا۔
[ترمیم]
[ترمیم]
فرہنگنامہ اصول فقہ، تدوین توسط مرکز اطلاعات و مدارک اسلامی، ص۵۲۸، برگرفتہ از مقالہ شہرت روائی۔ آیت اللہ مکارم شیرازی، دائرة المعارف فقہ مقارن، ج۱۔