یوم عاشور کا روزہ
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
یوم عاشور کے روزے کو عصر حاضر میں
وہابیت کی جانب سے ہوا دی گئی ہے۔ یہ روزہ
بنو امیہ نے
حضرت سید الشہداء کی شہادت پر شکرانے کے طور پر شروع کیا تھا اور ان کے پیروکاروں نے بھی خوشی اور اظہار مسرت کی غرض سے یہ روزہ رکھنا شروع کر دیا۔
[ترمیم]
امام صادقؑ ایک روایت میں فرماتے ہیں:
ان آل امیة علیهم لعنة الله ومن اعانهم علی قتل الحسین من اهل الشام، نذروا نذرا ان قتل الحسینؑ وسلم من خرج الی الحسینؑ وصارت الخلافة فی آل ابی سفیان، ان یتخذوا ذلک الیوم عیدا لهم، وان یصوموا فیه شکرا بنو امیہ اور جن شامیوں نے
امام حسینؑ کے قتل میں ان کی معاونت کی؛ یہ منت مانی کہ اگر حسین قتل ہو جائیں اور
خلافت ابو سفیان کی اولاد کو مل جائے تو
عاشور کے دن کو اپنے لیے عید قرار دیں گے اور اس دن شکرانے کا
روزہ رکھیں گے۔
[ترمیم]
ہم پہلے وہابی علما اور بعض
اہل سنت علما کا نظریہ ذکر کریں گے اور پھر اس کا تنقیدی جائزہ لیں گے۔
یوم عاشور کے روزے کی پیغمبرؐ کی مکہ سے ہجرت کے ہم زمان ہونے کی وجہ سے ترغیب:
سعودی عرب کے مفتی اعظم اور مرکز تحقیقات و فتاویٰ کے سربراہ
شیخ عبد العزیز بن عبد الله آل شیخ، نے ایک بیان میں یوم عاشور کا روزہ رکھنے کی ترغیب دلائی ہے:
الریاض وکالة الانباء السعودیة: وجّه سماحة الشیخ عبد العزیز بن عبد الله آل الشیخ مفتی عام المملکة رئیس هیئة کبار العلماء وادارة البحوث العلمیة والافتاء، الکلمة التالیة فی الترغیب فی صوم یوم عاشوراء: الحمد لله والصلاة والسلام علی رسول الله، وعلی آله واصحابه ومن اهتدی بهداه. .؛ اما بعد: فقد ثبت عن النبی انه کان یصوم یوم عاشوراء، ویرغب الناس فی صیامه، لانه یوم نجی الله فیه موسیؑ وقومه، واهلک فیه فرعون وقومه، فیستحب لکل مسلم ومسلمة صیام هذا الیوم شکرا لله عز وجل! وهو الیوم العاشر من المحرم. ویستحب ان یصوم قبله یوما او بعده یوما... ونظرا الی ان یوم الاثنین هو الیوم الاول من محرم هذا العام ۱۴۲۲ هـ لان الاصل هو کمال ذی الحجة، فان الافضل للمؤمن فی هذا العام ان یصوم یومی الثلاثاء والاربعاء التاسع والعاشر من محرم، او یومی الاربعاء والخمیس العاشر والحادی عشر من محرم. واسال الله ان یوفقنا وجمیع المسلمین لما یرضیه وان یجعلنا جمیعا من المسارعین الی کل خیر. انه جواد کریم. وصلی الله علی نبینا محمد وآله وصحبه...
مفتی عام المملکة العربیة السعودیة ورئیس هیئة کبار العلماء وادارة البحوث العلمیة والافتاء عبد العزیز بن عبد الله بن محمد آل الشیخ سعودی خبر رساں ایجنسی نے ایک بیان میں عبد العزیز بن عبد الله بن محمد آل الشیخ کی طرف سے کہا:
... اما بعد،
پیغمبرؐ سے روایت ہے کہ حضرتؐ عاشور کے دن
روزہ رکھتے تھے اور لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کی ترغیب دیتے تھے؛ کیونکہ عاشورا کے دن خدا نے
موسیؑ اور ان کی قوم کو نجات دی اور
فرعون اور اس کی قوم کو ہلاک کیا۔ اس لیے ہر مسلمان مرد و زن کیلئے
مستحب ہے کہ خدا کے شکرانے کے طور پر دس
محرم کو روزہ رکھیں اور بہتر یہ ہے کہ اس سے پہلے اور بعد بھی روزہ رکھیں اور اس مرتبہ سنہ ۱۴۲۲ ہجری کو
ذی الحج کا مہینہ مکمل تیس دنوں کا ہے؛ لہٰذا سوموار کے دن یکم محرم ہے۔ پس بہتر ہے کہ امسال دسویں اور گیارہویں محرم کو روزہ رکھیں ۔۔۔ ۔
حوزہ علمیہ اہل سنت، زاہدان کی سائٹ نے ایک مقالے میں ابو خالد نامی ایک اہل سنت عالم سے یہ نقل کیا ہے:
یوم عاشور کی فضیلت کو دیکھتے ہوئے
پیغمبر اکرمؐ کی سنت میں اس دن کے روزے پر بہت تاکید کی گئی ہے اور حضرتؐ امت کو اس دن روزہ رکھنے کی تشویق دلاتے تھے۔ حضرت
عبد الله بن عباس سے
بخاری میں ایک روایت منقول ہے کہ: رسول اللّهؐ
مدینہ تشریف لائے تو
یہود کو دیکھا کہ عاشورا کے دن روزہ رکھ رہے ہیں۔ آنحضرتؐ نے فرمایا:
[
اس عمل کا فلسفہ کیا ہے؟!
]
[
یہودیوں
]
نے کہا: یہ ایک مبارک دن ہے، اس دن
خدائے متعال نے
بنی اسرائیل کو دشمنوں سے نجات دی اور
حضرت موسیؑؑ اس دن روزہ رکھتے تھے۔ حضرتؐ نے فرمایا: میں تم سے زیادہ موسیؑؑ کے قریب ہوں۔ لہٰذا آنحضرتؐ نے بھی اس دن روزہ رکھ لیا اور حکم دیا کہ اس دن روزہ رکھیں۔
ابن عباسؓ سے ایک اور روایت منقول ہے کہ پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا:
صوموا یوم عاشورا و خالفوا فیه الیهود، صوموا قبله یوماً و بعده یوماً عاشور کے دن روزہ رکھو اور یہودیوں کی مخالفت کرو (اس صورت) کہ اس سے ایک دن پہلے اور بعد میں روزہ رکھو۔
یوم عاشور کے دن روزہ رکھنے کے بارے میں اختلاف رائے ہے۔ بعض قائل ہیں: یوم عاشور کا روزہ
رمضان کے روزے واجب ہونے سے پہلے واجب تھا؛ تاہم ماہ رمضان کا روزہ واجب ہونے کے بعد عاشورا کا روزہ
منسوخ ہو گیا ہے؛ اور اس کے بعد بعض کے نزدیک اس کا
استحباب باقی ہے اور بعض کے نزدیک
مکروہ ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس روزے کا اختیار امت کے سپرد کر گیا ہے، جو چاہے روزہ رکھ سکتا ہے۔
[ترمیم]
ہم اس موضوع کا تین مرحلوں میں جائزہ لیں گے:
پہلا مرحلہ:
اہل بیتؑ کی روایات جن میں عاشور کے روزے سے منع کیا گیا ہے؛
دوسرا مرحلہ: اس مسئلے میں شیعہ علما کے اقوال؛
تیسرا مرحلہ: اہل سنت علما کے نزدیک عاشور کا روزہ؛
اہل بیتؑ کی جانب سے عاشور کا روزہ رکھنے کی نہی پر مشتمل روایات:
شیعہ کتب و منابع میں بہت سی ایسی روایات موجود ہیں جن سے اس مطلب کا پتہ چلتا ہے کہ ماہ رمضان کا روزہ واجب ہونے سے اس دن کا روزہ واجب نہیں رہا اور اس روزے کو ترک کرنا زیادہ سزاوار ہے۔
اس مطلب کی زیادہ وضاحت اور
آئمہ معصومینؑ کے نقطہ نظر سے عاشورا کے روزے کی حیثیت کا تعین کرنے کیلئے ہم آئمہؑ کی چند روایات کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور تفصیل کے خواہاں حضرات احادیث
کی کتب کی طرف رجوع کریں:
محمد بن مسلم اور
زرارة بن اعین،
اباجعفر امام باقرؑ سے عاشورا کے روزے سے متعلق سوال کرتے ہیں تو حضرتؑ جواب میں فرماتے ہیں:
کان صومه قبل شهر رمضان، فلما نزل شهر رمضان ترک ماہ رمضان کا روزہ واجب ہونے سے قبل اس دن کا روزہ تھا؛ مگر ماہ رمضان کے روزے کا وجوب نازل ہونے کے بعد عاشورا کا روزہ ترک کر دیا گیا۔
ایک اور روایت میں راوی کہتا ہے: میں نے امام باقرؑ سے عاشور کے روزے سے متعلق سوال کیا؛ حضرتؑ نے فرمایا:
صوم متروک بنزول شهر رمضان، والمتروک بدعة یہ روزہ ماہ رمضان کے روزے واجب ہونے کے بعد متروک قرار پایا اور متروک (پر عمل)
بدعت ہے۔
ایک روایت میں کوئی شخص
امام صادقؑ سے عاشور کے دن روزہ رکھنے کے بارے میں سوال کرتا ہے تو حضرتؑ فرماتے ہیں:
ذاک یوم قتل فیه الحسین علیه السلام، فان کنت شامتا فصم. ثم قال: ان آل امیة علیهم لعنة الله ومن اعانهم علی قتل الحسین من اهل الشام، نذروا نذرا ان قتل الحسینؑ وسلم من خرج الی الحسینؑ وصارت الخلافة فی آل ابی سفیان، ان یتخذوا ذلک الیوم عیدا لهم، وان یصوموا فیه شکرا، ویفرحون اولادهم، فصارت فی آل ابی سفیان سنّة الی الیوم فی الناس، واقتدی بهم الناس جمیعا، فلذلک یصومونه ویدخلون علی عیالاتهم واهالیهم الفرح ذلک الیوم. ثم قال: ان الصوم لا یکون للمصیبة، ولا یکون الا شکرا للسلامة، وان الحسینؑ اصیب، فان کنت ممن اصبت به فلا تصم، وان کنت شامتا ممن سرک سلامة بنی امیة فصم شکرا لله تعالی روز عاشور امام حسینؑ کی شہادت کا دن ہے۔ اگر چاہتے ہو کہ حسینؑ پر شماتت کرو (ان پر آنے والی مصیبت پر خوشی کا اظہار کرو) تو عاشور کے دن کا روزہ رکھو۔ بنو امیہ (لعنة اللَّه علیهم) اور وہ شامی افراد جنہوں نے قتل حسینؑ پر معاونت کی؛ نے
نذر کی: اگر حسینؑ قتل ہو جائیں اور ان کے خلاف خروج کرنے والے افراد بچ جائیں اور خلافت ابوسفیان کی اولاد کو نصیب ہو جائے تو عاشور کے دن کو اپنے لیے عید قرار دیں گے اور اس دن شکرگزاری کا روزہ رکھیں گے۔ لہٰذا یہ مسئلہ آج تک لوگوں میں رائج ہو گیا اور لوگوں نے بالعموم اس کی اقتدا کی۔ ہاں! یہ سبب ہے کہ عاشور کے دن روزہ رکھتے ہیں اور اس دن اپنے اہل و عیال کو خوش کرتے ہیں۔ پھر حضرتؑ نے فرمایا: ہاں! اس دن کا روزہ
مصیبت کیلئے نہیں ہے؛ چونکہ فقط بنو امیہ کی سلامتی کے شکرانے میں ہے۔ حسینؑ نے اس دن مصیبت کا سامنا کیا ہے، اگر تم بھی مصیبت زدہ ہو تو اس دن کا روزہ مت رکھو اور اگر ان میں سے ہو جو اہل بیتؑ کی شماتت اور بنو امیہ کی سلامتی کا قصد رکھتے تھے تو اس دن کا روزہ رکھو۔
ایک اور روایت میں
زید نرسی،
زرارہ سے یہ نقل کرتے ہیں:
عن زید النرسی قال: سمعت عبید بن زرارة یسال ابا عبد اللهؑ عن صوم یوم عاشورا فقال: من صامه کان حظه من صیام ذلک الیوم حظ ابن مرجانة وآل زیاد. قال: قلت: وما کان حظهم من ذلک الیوم؟ قال: النار اعاذنا الله من النار ومن عمل یقرب من النار زید نرسی کہتے ہیں: میں نے عبید بن زرارہ سے سنا کہ انہوں نے ابا عبد اللہ سے
عاشور کے روزے سے متعلق سوال کیا۔ حضرت نے فرمایا: جو اس دن کا روزہ رکھے تو ان کا نصیب و حصہ اس دن سے وہی ہو گا؛ جو
ابن مرجانہ اور
آل زیادہ کا اس دن سے نصیب تھا؛ وہ عرض کرتا ہے کہ ان کا اس دن نصیب و حصہ کیا تھا؟! فرمایا:
جہنم کی آگ! اور میں خدا کی پناہ مانگتا ہوں ایسے عمل سے کہ جس کا نتیجہ آگ ہو!
محمد بن یعقوب عن الحسین بن علی الهاشمی عن محمد بن الحسین عن محمد بن سنان (عن ابان عن عبد الملک) قال: سالت ابا عبد اللهؑ عن صوم تاسوعاء وعاشوراء من شهر المحرم؟ فقال: ... ما هو یوم صوم. وما هو الا یوم حزن ومصیبة دخلت علی اهل السماء واهل الارض وجمیع المؤمنین. ویوم فرح وسرور لابن مرجانة وآل زیاد واهل الشام. غضب الله علیهم وعلی ذریاتهم... ابا عبد اللہ امام صادقؑ سے
تاسوعا اور
عاشورا کے روزے سے متعلق سوال کیا؟!
حضرتؑ نے فرمایا: ۔۔۔ یہ دن روزے کے نہیں ہیں، کیونکہ یہ دن اہل آسمان و اہل زمین اور تمام
مومنین کے حزن و مصیبت کے ہیں اور یہ دن ابن مرجانہ، آل زیاد اور اہل شام کی خوشی و مسرت کا ہے کہ خدا کا غضب ہو ان پر اور ان کی اولاد پر۔
اس کے علاوہ بہت سی روایات ہیں کہ جن کی یہاں گنجائش نہیں ہے اور ہم اسی مقدار پر اکتفا کریں گے۔
شیعہ علما کے اقوال:
عاشور کے روزے کے بارے میں شیعہ علما کے اقوال متعدد ہیں: بعض علمائے شیعہ نے عاشورا کے روزے کی حرمت کا فتویٰ دیا ہے، جیسے:
وجزم بعض متاخری المتاخرین بالحرمة ترجیحا للنصوص الناهیة وحملا لما دل علی الاستحباب علی التقیة. والظاهر ان هذا اقرب بعض متاخر شیعہ علما نے روز عاشور میں روزے کی نہی پر مشتمل روایات کو ترجیح دی ہے اور اس دن کے روزے کے استحباب سے متعلق روایات کو
تقیہ پر حمل کیا ہے اور در نتیجہ حرمت کو سمجھا ہے، بظاہر یہ نظریہ زیادہ قریب ہے۔
وبالجملة فان دلالة هذه الاخبار علی التحریم مطلقا اظهر ظاهر بالجملہ (یوم عاشور کے روزے کی حاکی) روایات کی مطلق تحریم پر دلالت، اظہر من الظاھر ہے۔
فالحق: حرمة صومه من هذه الجهة. فانه بدعة عند آل محمد متروکة صحیح نظریہ: اس دن کے روزے کی حرمت ہے، چونکہ یہ روزہ آل محمد کے نزدیک بدعت اور متروک ہے۔
اگرچہ متاخرین کی موجودہ اکثریت، جیسے
عروه کے مصنف
سید یزدیؒ ،مرحوم
بروجردی ،
حکیم ،
امام خمینی اور عروة الوثقی کے غالب شارحین، یا معاصرین نے کراہت کے قول کو اختیار کیا ہے۔
بعض علما نے حزن اندوہ کی نیت سے نہ کہ بنو امیہ کی طرح تبرک کی خاطر؛ عصر تک فاقہ کرنے اور غروب سے قبل (ترجیحا
سید الشہدا کی تربت کے ساتھ) افطار کرنے کو مستحب قرار دیا ہے اور اسے عاشور کے روزے کے استحباب اور نہی پر مشتمل روایات کے مابین جمع کا طریقہ قرار دیا ہے، جیسے شیخ نے
استبصار میں اس روایت سے استفادہ کرتے ہوئے کیا ہے:
عبد الله بن سنان عن الصادقؑ قال: دخلت علیه یوم عاشورا فالفیته کاسف اللون ظاهر الحزن و دموعه تنحدر کاللؤلؤ المتساقط، فقلت: یا ابن رسول الله مم بکاؤک لا ابکی الله عینیک فقال لی: او فی غفلة انت؛ اما علمت ان الحسینؑ اصیب فی مثل هذا الیوم فقلت: یا سیدی فما قولک فی صومه قال لی: صمه من غیر تبییت وافطره من غیر تشمیت ولا تجعل صوم یوم کملا ولیکن افطارک بعد صلاة العصر بساعة علی شربة من ماء فانه فی ذلک الوقت من ذلک الیوم تجلت الهیجاء عن آل رسول الله وانکشفت الملحمة عنهم عبد الله بن سنان ، امام صادقؑ سے روایت کرتے ہیں: عاشور کے دن میں حضرتؑ کی خدمت میں حاضر تھا اور حضرتؑ کو اس حال میں دیکھا کہ رنگ زرد، چہرہ پریشان اور موتیوں کی مانند آنسو آنکھوں سے جاری تھے؛ میں نے عرض کیا: یا بن رسول اللہ! خدا آپ کی آنکھوں کو نہ رلائے! آپ کیوں رو رہے ہیں؟! حضرتؑ نے فرمایا: کیا غفلت میں ہو اور نہیں جانتے کہ اسی دن حسینؑ مصائب میں مبتلا ہوئے؟! میں نے عرض کیا: اے میرے سید و آقا! آج کے دن روزہ رکھنے کے بارے میں آپ کا کیا نقطہ نظر ہے؟! حضرتؑ نے فرمایا: آج کے دن کھانے پینے سے پرہیز کرو مگر روزے کی نیت کے بغیر؛ اور افطار کرو مگر (یہ اہل بیتؑ کی مصیبت پر) خوشی کے عنوان سے نہ ہو؛ اسے پورا روزہ نہ قرار دو، تمہارا افطار نماز عصر کے ایک گھنٹے بعد پانی کے گھونٹ سے ہو!
لہٰذا شیعہ فقہا نے اہل بیتؑ کی روایات سے الہام لیتے ہوئے اس دن ہر اس عمل سے بشدت منع کیا ہے جو اس دن کے سوگ سے منافات رکھتا ہو؛ کیونکہ اہل بیتؑ نے اس دن کو حزن و اندوہ اور حضرت ابا عبد اللہ الحسینؑ کی مصیبت پر عزا کا دن قرار دیا ہے، اس لیے مومنین کو تلقین کی جاتی ہے کہ اس دن روز مرہ کے کام نہ کریں اور اس دن کو مصیبت و حزن اور آہ و بکا میں مشغول رہیں۔
بطور نمونہ
امام رضاؑ ایک روایت میں فرماتے ہیں:
من کان یوم عاشوراء یوم مصیبته وحزنه وبکائه یجعل الله (عزّوجلّ) یوم القیامة یوم فرحه وسروره وقرت بنا فی الجنان عینه جو عاشور کے دن مصیبت اور حزن و اندوہ میں مشغول ہو،
خدا تعالیٰ قیامت کے دن کو اس کیلئے خوشی اور مسرت کا دن قرار دے گا اور اس کی آنکھیں
بہشت میں ہمارے دیدار سے روشن ہوں گی۔
مذکورہ بالا روایت میں روز عاشور کو مصیبت اور غم و اندوہ کا دن قرار دیا گیا ہے، لہٰذا ہر ایسے عمل کو مشیت خدا اور اہل بیتؑ کی منشا کے خلاف سمجھا جائے گا کہ جس میں امام حسینؑ کے مصائب سے غفلت یا دنیوی امور میں مشغولیت کا شائبہ بھی ہو۔
اہل سنت علما اور عوام کے نزدیک یوم عاشور کے روزے سے متعلق شدید تناقضات ہیں۔
اہل سنت کی
صحاح ستہ میں عاشور کے روزے کے بارے میں متناقض روایات دیکھنے کو ملتی ہیں کہ بہت سے موارد میں ان کے مابین جمع ناممکن ہے۔
صحیح بخاری میں منقول ایک روایت جس کی بنیاد پر بعض اہل سنت علما نے عاشورا کا روزہ مستحب ہونے کا فتویٰ دیا ہے، ذیل کی روایت ہے:
عَنْ عَائِشَةَ رضی الله عنها قَالَتْ: کَانَ یَوْمُ عَاشُورَاءَ تَصُومُهُ قُرَیْشٌ فِی الْجَاهِلِیَّةِ، وَکَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلی الله علیه وسلم یَصُومُهُ، فَلَمَّا قَدِمَ الْمَدِینَةَ صَامَهُ، وَاَمَرَ بِصِیَامِهِ، فَلَمَّا فُرِضَ رَمَضَانُ تَرَکَ یَوْمَ عَاشُورَاءَ، فَمَنْ شَاءَ صَامَهُ، وَمَنْ شَاءَ تَرَکَهُ عائشہ کہتی ہیں:
قریش جاہلیت کے دوران عاشورا کے دن روزہ رکھتے تھے اور رسول خداؐ بھی اس دن کا روزہ رکھتے تھے۔ جب حضرتؐ مدینہ آئے تو اسی طرح اس دن کا روزہ رکھتے رہے اور دوسروں کو بھی اس کا امر فرماتے تھے یہاں تک کہ ماہ رمضان کا روزہ واجب ہو گیا کہ جس کے بعد حضرتؑ نے یوم عاشور کا روزہ ترک کر دیا اور حکم دیا جو چاہے تو اس دن کا روزہ رکھ لے اور جو چاہے نہ رکھے!
اولا: یہ روایت
ہشام بن عروہ کے سلسلہ سند میں موجود ہونے کی وجہ سے سندی اشکال و مناقشہ رکھتی ہے؛ کیونکہ
ابن قطان نے اس کے بارے میں کہا ہے:
انّه اختلط و تغیّر، (اس نے صحیح غلط کو مخلوط کر کے حقائق کو تبدیل کر دیا ہے) اور
ذہبی اس کے بارے میں کہتے ہیں:
انّه نسی بعض محفوظه او وهم، (وہ اپنی بعض یاد داشتیں بھول جاتا تھا یا ان میں شک کرتا تھا) جبکہ
ابن خراش نے اس کے بارے میں کہا ہے کہ:
کان مالک لا یرضاه نقم علیه حدیثه لاهل العراق، (مالک اس سے راضی نہیں تھے اور اس کی اہل عراق کیلئے نقل کردہ روایات پر تنقید کرتے تھے۔
ثانیا: یہ روایت ذیل کی روایات سے تضاد رکھتی ہے:
صحیح بخاری میں منقول دیگر روایات جو مذکورہ بالا روایت کے ساتھ متعارض ہیں؛ میں سے ایک روایت یہ ہے:
حَدَّثَنَا اَبُو مَعْمَرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ حَدَّثَنَا اَیُّوبُ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ عَنْ اَبِیهِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ - رضی الله عنهما - قَالَ قَدِمَ النَّبِیُّ - صلی الله علیه وسلم - الْمَدِینَةَ. فَرَاَی الْیَهُودَ تَصُومُ یَوْمَ عَاشُورَاءَ. فَقَالَ مَا هَذَا. قَالُوا هَذَا یَوْمٌ صَالِحٌ. هَذَایَوْمٌ نَجَّی اللَّهُ بَنِی اِسْرَائِیلَ مِنْ عَدُوِّهِمْ. فَصَامَهُ موسیؑ. قَالَ فَاَنَا اَحَقُّ بِمُوسَی مِنْکُمْ. فَصَامَهُ وَاَمَرَ بِصِیَامِهِ نبی اکرمؐ مدینہ تشریف لائے اور
یہودیوں کو عاشوراء کے دن روزہ رکھتے دیکھا تو فرمایا: یہ کام کس لیے ہے؟! کہنے لگے: یہ خوشی کا دن ہے کہ جب بنی اسرائیل کو خدا نے دشمنوں سے نجات عطا کی؛ لہٰذا موسیؑ اور ان کے پیروکار اس دن کا روزہ رکھتے تھے۔ حضرتؐ نے فرمایا: میں موسیٰؑ کی نسبت اولیٰ ہوں، لہٰذا حضرتؐ نے اس دن کا روزہ رکھ لیا اور حکم فرمایا کہ اس دن کا روزہ رکھا جائے۔
پہلی روایت کہتی ہے کہ رسول خداؐ اور قریش زمانہ جاہلیت سے یہ روزہ رکھتے تھے اور
اسلام کے بعد بھی تیرہ سالہ مکی زندگی کے دوران یہ روزہ پوری قوت سے باقی رہا اور
مدینہ ہجرت کے بعد ماہ رمضان کا روزہ فرض ہوا، اس کے بعد روز عاشور کے روزے کے بارے میں اختیار دے دیا گیا کہ جو چاہے روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے۔
مگر دوسری روایت کہتی ہے کہ: رسول خداؐ نے جب مدینہ ہجرت کی تو نہ صرف اس دن کا روزہ نہیں رکھتے تھے کیونکہ انہیں اس دن کے روزے کی خبر بھی نہیں تھی، جب یہودیوں کو اس دن کا روزہ رکھتے دیکھا تو تعجب کے ساتھ اس کام کی علت کے بارے میں سوال کیا اور آپؐ کو یہ جواب ملا کہ یہودی حضرت موسیٰؑ کی اس دن نجات کی وجہ سے روزہ رکھتے ہیں؛ اس لیے رسول خدا صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم نے فرمایا کہ اگر ایسا ہے تو میں کفار مکہ کے ہاتھوں نجات کے سبب موسیؑ سے زیادہ سزاوار ہوں کہ اس دن کا روزہ رکھوں۔ اس کے بعد حضرتؐ نہ صرف خود اس دن کا روزہ رکھتے تھے بلکہ دوسروں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیتے تھے۔
[ترمیم]
بخاری کی صحیح میں نقل کردہ ایک اور روایت مذکورہ بالا روایات سے متناقض ہے، توجہ کیجئے:
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی الله عنهما قَالَ: صَامَ النَّبِیُّ صلی الله علیه وسلم عَاشُورَاءَ، وَاَمَرَ بِصِیَامِهِ، فَلَمَّا فُرِضَ رَمَضَانُ تُرِکَ. وَکَانَ عَبْدُ اللَّهِ لاَ یَصُومُهُ، اِلاَّ اَنْ یُوَافِقَ صَوْمَهُ رسول خداؐ عاشورا کا روزہ رکھتے تھے اور دوسروں کو بھی یہ روزہ رکھنے کا امر فرماتے تھے یہاں تک کہ ماہ رمضان کے روزے فرض ہو گئے، اس کے بعد وہ روزہ متروک ہو گیا اور
عبد اللہ بن عمر بھی اس دن کا روزہ نہیں رکھتے تھے مگر اس وقت کہ عاشورا اسی دن آ جاتا کہ جس دن کا روزہ وہ حسب معمول رکھا کرتے (مثلا جمعے کے دن) پس یہ روایت دوسری روایت کے ساتھ موافق ہے ماہ رمضان کے وجوب سے پہلے عاشورا کا روزہ رکھے جانے میں اور عاشورا کے روزے کے اختیاری یا اجباری ہونے میں اس کی مخالف ہے۔
[ترمیم]
ان روایات پر ایک اور اشکال وہ مطلب ہے جو
ہیثمی کی
مجمع الزوائد میں منقول روایت سے پیدا ہوتا ہے:
ہیثمی ،مجمعالزوائد میں
ابوسعید خدری سے روایت کرتے ہیں:
ان رسول الله صلی الله علیه وسلم امر بصوم عاشوراء وکان لا یصومه رسول خداؐ، عاشوراء کے روزے کا امر فرماتے تھے جبکہ خود وہ روزہ نہیں رکھتے تھے۔
یعنی ہیثمی کی اس روایت کے بقول عاشوراء کے روزے کی روایت میں واضح و جلی اشکال یہ ہے کہ کس طرح ممکن ہے کہ رسول خداؐ کسی نیک کام کا امر فرمائیں جبکہ خود اس کو انجام نہ دیں؟!!
[ترمیم]
صحیح بخاری میں منقول ایک اور روایت جو مذکورہ بالا روایات سے بطور کامل متعارض ہے؛ رسول خداؐ کو کچھ امور میں حکم خدا نازل نہ ہونے کی صورت میں یہودیوں اور اجنبیوں کے دین کی تابع اور مطیع قرار دیتی ہے!!
بخاری نے اپنی صحیح میں
ابن عباس سے یہ روایت نقل کی ہے:
وَکَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلی الله علیه وسلم یُحِبُّ مُوَافَقَةَ اَهْلِ الْکِتَابِ فِیمَا لَمْ یُؤْمَرْ فِیهِ بِشَیْ ءٍ.... رسول خداؐ ان امور میں اہل کتاب کی موافقت کو پسند کرتے تھے کہ جن میں انہیں کوئی حکم نہیں دیا جاتا تھا۔
نیز بزرگ اہل سنت عالم
ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں:
و قد کان یحبّ موافقة اهل الکتاب فیما لم یؤمر فیه بشی ء و لا سیّما اذا کان فیما یخالف فیه اهل الاوثان رسول خداؐ ان امور میں اہل کتاب کی موافقت کو پسند کرتے تھے کہ جن میں انہیں کوئی امر نہ کیا گیا ہو اور بالخصوص ان امور میں کہ جہاں بت پرستوں کی مخالفت ہوتی تھی!
زینالدین بن
رجب بن
عبدالرحمن حنبلی متوفی سنہ ۷۹۵ ہجری اپنی کتاب میں رسول خداؐ کے روزے کو چار حالتوں میں تقسیم کرنے کے بعد کہتے ہیں:
الحالة الثانیة انّ النبی لمّا قدم المدینة و رای صیام اهل الکتاب له وتعظیمهم له وکان یحبّ موافقتهم! فیما لم یؤمر به صامه، وامر النّاس بصیامه، واکّد الامر بصیامه و الحثّ علیه حتی کانوا یصوِّمونه اطفالهم دوسری حالت یہ ہے کہ نبی اکرمؐ نے جب مدینہ ہجرت فرمائی اور اہل کتاب کی جانب سے اس دن کے روزے اور تعظیم کو دیکھا؛ جبکہ آپؐ ان (اہل کتاب) کی ان امور میں موافقت کو پسند کرتے تھے، تو آپؐ نے لوگوں کو اس دن کے روزے کا امر فرمایا اور اس روزے کی اس قدر تاکید اور ترغیب دلائی کہ لوگ اپنے بچوں کو بھی روزہ رکھواتے تھے!!!
[ترمیم]
اگلے حصے میں اس مطلب کا جائزہ لیں گے تاکہ مشخص ہو جائے کہ آیا رسول خداؐ احکام الہٰی میں یہود و نصاریٰ کی موافقت کو پسند کرتے تھے؟!
کیا پیغمبرؐ یہود کی تبعیت کو پسند کرتے تھے؟!
یہ قول بہت تعجب انگیز ہے کہ رسول خداؐ نے یہودی کی پیروی میں عاشوراء کا روزہ رکھنے کا امر فرمایا ہے!!!
بعض شیعہ سنی علما کا یہ عقیدہ ہے کہ رسول خداؐ حتی
بعثت سے قبل بھی اپنی
عبادات میں دوسرے ادیان کی پیروی نہیں کرتے تھے اور یہود و نصاریٰ کی شریعت پر نہیں چلتے تھے، اس حوالے سے ذیل کے مطالب پر توجہ کیجئے:
بزرگ اہل سنت عالم
فخر رازی کہتے ہیں:
... الاحتمال الثانی وهو حقیقة المسالة فیدل علی بطلانه وجوه:
الاول: لو کان متعبدا بشرع احد لوجب ان یرجع فی احکام الحوادث الی شرعه وان لا یتوقف الی نزول الوحی لکنه لم یفعل ذلک لوجهین:
الاول: انه لو فعل لاشتهر. والثانی: ان عمر رضی الله عنه طالع ورقة من التوراة فغضب رسول الله علیه الصلاة والسلام وقال لو کان موسیؑ حیا لما وسعه الا اتباعی ولما لم یکن کذلک علمنا انه لم یکن متعبدا بشرع احد الحجة الثانیة: انهؑ لو کان متعبدا بشرع من قبله لوجب علی علماء الاعصار ان یرجعوا فی الوقائع الی شرع من قبله ضرورة ان التاسی به واجب وحیث لم یفعلوا ذلک البتة علمنا بطلان ذلک.
الحجة الثالثة: انه علیه الصلاة والسلام صوب معاذا فی حکمه باجتهاد نفسه اذا عدم حکم الحادثة فی الکتاب والسنة ولو کان متعبدا بحکم التوراة کما تعبد بحکم الکتاب لم یکن له العمل باجتهاد نفسه حتی ینظر فی التوراة والانجیل دوسرا احتمال جو اصل مسئلہ ہے؛ باطل ہونے پر کئی دلائل ہیں:
پہلی دلیل: اگر آنحضرتؐ بعثت سے قبل حضرت موسیؑ یا
حضرت عیسیؑ کی شریعت پر کاربند تھے تو ضروری تھا کہ بعثت کے بعد اپنے لیے پیش آمدہ حالات و واقعات میں سابقہ شریعت کے احکام کی طرف رجوع کرتے اور
نزول وحی کے منتظر نہ رہتے: مگر دو وجوہات سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ حضرتؐ نے یہ کام نہیں کیا:
اول: اگر ایسا کرتے تو حتما مشہور ہو جاتے؛
دوم:
عمر نے
تورات کے ایک ورق کا مطالعہ کیا تو اس وجہ سے رسول خداؐ غضبناک ہوئے اور فرمایا: اگر موسیٰؑ زندہ ہوتے تو میری پیروی کے سوا ان کے پاس کوئی راستہ نہ ہوتا اور جب ہم یہ چیز دیکھتے ہیں تو یقین حاصل کر لیتے ہیں کہ آنحضرتؐ سابقہ شریعتوں کے پابند نہیں تھے؛
دوسری دلیل: اگر آنحضرتؐ سابقہ شریعتوں کے پابند ہوتے تو علمائے متقدمین و متاخرین پر لازم تھا کہ شریعت کے مسائل میں سابقہ شریعت پر عمل کرتے کیونکہ ان پر اقتدا اور مراجعہ واجب ہو جاتا جبکہ ہم دیکھتے ہیں ایسا مراجعہ کبھی نہیں کیا گیا تو اس سے اس نظریے کے بطلان کا یقین ہو جاتا ہے۔
تیسری دلیل: آنحضرتؐ نے
معاذ کی ایک حکم میں تائید کی کہ جسے انہوں نے کتاب و سنت میں نہیں پایا اور اپنی طرف سے
اجتہاد کر لیا۔ اگر اصول یہ ہوتا کہ آنحضرتؐ
تورات کے حکم کے پابند ہوتے تو معاذ تورات و
انجیل کی طرف رجوع کیے بغیر ذاتی اجتہاد نہیں کر سکتے تھے۔
ابو الحسین بصری کہتے ہیں:
... ان نبینا لم یکن متعبدا قبل النبوة ولا بعدها بشریعة من تقدم لا هو ولا امته... ... ہمارے پیغمبرؐ اور ان کی امت نے دوسرے ادیان و شرائع میں سے کسی کی پیروی نہیں کی ہے۔
ابن عابدین رد المحتار کے حاشیے میں کہتے ہیں:
هل کان قبل البعثة متعبدا بشرع احد؟ ان المختار عندنا عدمه وهو قول الجمهور کیا آپؐ بعثت سے قبل کسی کی شریعت کے پیروکار تھے؟! کتاب صلاۃ کی ابتدا میں کہا گیا ہے کہ ہمارے نزدیک مختار قول یہ ہے کہ آنحضرتؐ نے کسی دوسری شریعت پر عمل نہیں کیا اور جمہور علما کا بھی یہی نظریہ ہے۔
ثانیا: اہل سنت مصادر میں متعدد روایات ہیں جو حکایت کرتی ہیں کہ رسول خداؐ دوسروں کو یہودیوں کی پیروی سے منع فرماتے تھے۔
رسول خداؐ سے روایت ہے کہ:
لیس منا من تشبه بغیرنا لا تشبهوا بالیهود ولا بالنصاری وہ ہم میں سے نہیں ہے جو غیروں کی مشابہت اختیار کرتا ہے؛ نہ یہود کی مشابہت اختیار کرو اور نہ ہی نصاریٰ کی؛
ایک اور روایت میں رسول خداؐ سے منقول ہے:
لا تشبهوا بالیهود و النصاری یہود و نصاریٰ سے مشابہت اختیار نہ کرو!
پیغمبرؐ کی اس روایت میں ارشاد ہے:
قال رسول الله صلوا فی نعالکم وخالفوا الیهود اپنے جوتوں کے ساتھ نماز پڑھو تاکہ یہود کی مخالفت ہو۔
اب اہل سنت مصادر میں منقول ان روایات کے پیش نظر کس طرح پیغمبرؐ کو یوم عاشور کے روزے میں یہود کا پیروکار سمجھا جا سکتا ہے؟!
[ترمیم]
اہل سنت نے عاشور کے روزے کی حکمت اور فلسفے سے متعلق جو روایات نقل کی ہیں؛ ان پر متعدد اشکال ہیں کہ جن میں سے بعض کی طرف اشارہ کریں گے:
روایات کا ایک مجموعہ اس مضمون پر دلالت کرتا ہے کہ رسول خداؐ یہودیوں کی مخالفت کی غرض سے اس دن کا روزہ رکھتے تھے جبکہ گزشتہ روایات اس امر کی حکایت کر رہی تھیں کہ رسول خداؐ نے یہودیوں کی پیروی میں یہ روزہ شروع کیا تھا؛ پس یوں ان روایات کا باہمی تناقض اور ٹکراؤ شدید تر ہو جاتا ہے۔
عن النبی : صوموا عاشوراء وخالفوا فیه الیهود عاشوراء کا روزہ رکھو اور اس کام میں یہودیوں کی مخالفت کرو!
تاریخ اور محققین کے اقوال سے یہ پتہ چلتا ہے کہ یہودیوں کے نزدیک نئے سال کا دارو مدار قمری سال پر نہیں تھا کہ ان میں ایسی سنت رائج ہو کہ ہر سال عاشوراء کے دن روزہ رکھیں اور پیغمبر اکرمؐ (مذکورہ بالا روایات کے مطابق) ان کے طریقے کی مخالفت یا متابعت میں عاشور کے روزے کا حکم دیں یا اس سے نہی فرمائیں؛ کیونکہ یہود کا روزہ ’’تشرین الاول‘‘ کی دسویں جو شمسی مہینے آبان اور عیسوی مہینے اکتوبر کے مطابق ہے اور اسے روز کیپور "kipur" یعنی: روز ’’کافر‘‘ یا روز ’’کفّاره‘‘ کہا جاتا ہے اور یہی وہ دن ہے جب اسرائیلی اپنے دین کی دوسری لوح سے آشنا ہوئے تھے۔
پس مذکورہ بالا مطلب کے پیش نظر یہ جو کہا جاتا ہے کہ یہود ہر سال عاشوراء کے دن روزہ رکھتے ہیں؛ کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اس کے علاوہ رسول خداؐ کی مدینہ آمد بارہ
ربیع الاول بروز سوموار کو ہوئی تھی نہ ماہ محرم میں
اب ان تفصیلات کے پیش نظر کیسے ممکن ہے کہ رسول خداؐ کی آمد یہود کے روزہ رکھنے کی سنت کے ہم زمان ہو اور لوگوں کو کفار مکہ سے نجات کی وجہ سے اس دن کا روزہ رکھنے کا امر کیا ہو؟!
پس معلوم ہوا کہ یہودیوں کا سال شمسی ہے، یعنی تقریبا ہر ۳۶ سال کے بعد ایک مرتبہ روز عاشور یہودیوں کے مورد نظر روزے کے مقارن ہوتا ہے۔ پس یہ عجیب بات ہے کہ وہ عاشورا کے دن اور محرم کے مہینے میں موسیؑ کی
فرعون کے چنگل سے نجات کے شکرانے میں روزہ رکھنے کو اپنی سنت بنا لیں!
[ترمیم]
روزہ عاشورا کی روایات پر ایک اور بنیادی اشکال یہ ہے کہ یہود کے روزے کا دورانیہ
مسلمانوں کے روزے سے مختلف ہے۔ یعنی وہ
صبح سے مغرب کی بجائے ایک دن کے غروب آفتاب سے دوسرے دن کے غروب آفتاب تک روزہ رکھتے ہیں؛ چنانچہ ڈاکٹر جواد علی نے نقل کیا ہے:
و یقصدون بصوم الیهود یوم عاشوراء ما یقال له: یوم الکفّارة و هو یوم صوم و انقطاع و یقع قبل عید المظال بخمسة ایّامای فی یوم عشرة تشری و هو یوم الکبور kipur، و یکون الصوم فیه من غروب الشمس الی غروبها فی الیوم التالی، و له حرمة کحرمة السبت، و فیه یدخل الکاهن الاعظم قدس الاقداس لاداء الفروض الدینیّة المفروضة فی ذلک الیوم عاشوراء کے دن یہود کے روزے سے مقصود وہ دن ہے کہ جسے ’’روزہ کفارہ‘‘ کہا جاتا ہے اور یہ وہ دن ہے کہ جس دن روزہ رکھا جاتا ہے اور اسے ’’یوم انقطاع‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور یہ عید مظال سے پانچ دن قبل ماہ تشرین کی دس تاریخ کو ہوتا ہے کہ جسے یوم (کیپور) کہتے ہیں، اس کا روزہ غروب آفتاب سے اگلے دن کے غروب آفتاب تک ہے، وہ لوگ اس کا ہفتے کے دن کی طرح احترام کرتے ہیں اور اس دن کاہن اعظم دینی فرائض کی ادائیگی کیلئے قدس الاقداس میں داخل ہوتا ہے۔
مذکورہ بالا متن کے اس حصے کی طرف توجہ کریں:
... یوم الکبور kipur، و یکون الصوم فیه من غروب الشمس الی غروبها فی الیوم التالی...... روز kipur، (کیپور) میں روزہ غروب آفتاب سے اگلے دن کے غروب آفتاب تک ہے ۔۔۔۔ ۔
اس فن کا ماہر سقّاف کہتا ہے:
فی واقعنا الحاضر لانجد ایّ یهودیّ یصوم فی العاشر من محرّم او یعدّه عیداً، و لم یوجد فی السجلاّت التاریخیّة ما یشیر الی انّهم صاموا فی العاشر من محرّم او عدوّه عیداً، بل الیهود یصومون یوم العاشر من شهر تشرین و هو الشهر الاوّل من سنتهم فی تقویمهم و تاریخهم الاّ انّهم لا یسمّونه یوم عاشوراء، بل یوم او عید کیپور ہمارے زمانے میں کوئی یہودی نہیں ملتا جو دس محرم کو روزہ رکھے یا اس دن کو عید قرار دے اور تاریخی مکتوبات میں بھی کوئی ایسی چیز ثبت نہیں ہوئی ہے کہ انہوں نے دس محرم کو روزہ رکھا ہو یا اس دن کو عید شمار کیا ہو بلکہ یہودی تشرین ماہ کی دس تاریخ کو روزہ رکھتے ہیں؛ یہ مہینہ ان کے سال اور تاریخ کا پہلا مہینہ ہے اور وہ اسے یوم عاشور کا نام نہیں دیتے بلکہ ’’یوم کیپور‘‘ یا ’’عید کیپور‘‘ کہتے ہیں۔
[ترمیم]
شیعہ سنی مصادر سے عاشورا کے روزے کے رد میں متعدد روایات بیان کی گئیں۔ ان کا مطالعہ کرنے کے بعد روزے کی ترغیب پر مبنی روایات کے رسول خداؐ سے صدور پر کس قسم کا اعتماد باقی نہیں رہتا اور یہ احتمال تقویت پکڑتا ہے کہ یہ روایات
بنو امیہ کی مجعولات اور موضوعات میں سے ہیں کہ جنہوں نے سانحہ کربلا برپا کیا اور ایسے ہتھکنڈوں کے ذریعے وہ یوم عاشور کی اسلامی معاشرے میں اہمیت کو کم رنگ کر کے مسلمانوں کو دوسرے امور میں الجھانا چاہتے تھے تاکہ شاید اس طرح قتل حسینؑ کی وجہ سے ان پر پڑنے والی لعنت و ملامت کچھ کم ہو سکے اور وہ اس دائمی ننگ و عار سے نکل سکیں جس میں انہوں نے خود کو ہمیشہ کیلئے گرفتار کر لیا تھا۔
[ترمیم]
[ترمیم]
موسسه ولی عصر، ماخوذ از مقالہ ’’روزه روز عاشورا‘‘۔