عاق والدین

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



عقوق سے مراد والدین کا اپنی اولاد سے لا تعلقی کا اظہار کرنا ہے۔ اسلامی تعلیمات میں والدین کے حقوق اور اخلاقی تربیت کے ذیل میں والدین کا احترام و مقام ذکر کیا گیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ عاق ہونے والی اولاد سے متعلق احکام اور انجام کو بیان کیا گیا ہے۔


عاق کے لغوی معنی

[ترمیم]

عقوق عربی زبان کا لفظ ہے جس کے حروف اصلی ع-ق-ق ہیں۔ اس کے لغوی معنی شق كرنے، چیرنے اور چاک کرنے کے ہیں۔ فیومی نے ذکر کیا ہے کہ اگر یہ باب قَتَلَ یَقۡتُلُ سے ہو تو اس کا مطلب بکری کو ذبح کرنا اور اس سے اسم عَقِیۡقَۃ آتا ہے۔ لیکن اگر ع-ق-ق باب قَعَدَ یَقۡعُدُ قُعُودٌ عَقَّ یَعُقُّ عُقُوقٌ سے ہو تو اس کا معنی نافرمانی کرنا اور کسی کے ساتھ نیکی کرنے کو ترک کرنا ہے۔ روایات کے متون اور فقہا کرام کے کلام میں اکثر اوقات اس لفظ کے ساتھ والدین کا اضافہ کیا جاتا ہے۔ عاق والدین سے مراد وہ شخص ہے جس کو اس کے ماں باپ میں سے کسی ایک نے نافرمانی کی بنا پر خود سے لا تعلق کر دیا ہو۔

والدین کے حقوق کی پامالی

[ترمیم]

امیرالمؤمنینامام علیؑ فرماتے ہیں: من العقوق اضاعة الحقوق؛ حقوق کو ضائع کر دینا عقوق میں سے ہے۔ محقق خوانساری اس حدیث شریفہ کی تشریح میں لکھتے ہیں کہ فقط وہ شخص والدین کا عاق نہیں جو اپنے ماں باپ کے ساتھ بد سلوکی کرے یا انہیں دکھ و تکلیف پہنچاۓ بلکہ وہ شخص بھی عاق شمار ہوتا ہے جو ماں باپ کے حقوق کو پورا نہ کرتا ہو اور ان کی صحیح طرح سے فرمانبرداری اور خدمت انجام نہ دیتا ہو۔
[۵] جمال الدین محمد خوانساری، شرح غرر الحکم و درر الکلم. ج۶، ص۹، ح ۹۲۴۸۔
اس سے فرق نہیں پڑتا کہ والد نے اولاد میں سے کسی کو عاق کیا ہے یا والدہ ہے یا ہر دو نے، ان تمام صورتوں میں اولاد کے لیے ایسا عمل انجام دینا حرام ہے جو ان کے عاق ہونے کا سبب بنے۔ رسول اللہ ﷺ سے منقول ہے کہ آپﷺ فرماتے ہیں: ان الله حرم علیکم عقوق الامهات؛ بے اللہ نے تمہارے پر ماؤں کا عقوق حرام قرار دیا ہے۔
[۶] قپانچی، حسن علی، شرح رسالۃ الحقوق امام سجادؑ، ج۱، ص۵۵۶۔
آیت اللہ جوادی آملی فرماتے ہیں کہ ماں باپ کا عاق ہونا گناہان کبیرہ میں سے ہے، البتہ زوجہ یا بچوں کی جانب سے عاق ہونا شرعی طور پر حرام نہیں ہے بلکہ ماں اور باپ کا عاق ہونا حرام ہے۔
[۷] رادیو قرآن، برنامہ سروش ہدایت، تفسیر آیت‌ الله جوادی آملی، مورخ ۱۰/۱/۷۸، ساعت: ۱۰: ۳۰۔
پس اولاد کو چاہیے کہ ہر اس عمل سے اجتناب کریں جس سے ان کے والدین کو آزار پہنچے۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:إِيَّاكُمْ‌ وَ عُقُوقَ‌ الْوَالِدَيْنِ‌ فَإِنَّ رِيحَ الْجَنَّةِ تُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ أَلْفِ عَامٍ وَ لَايَجِدُهَا عَاق‌؛ ماں باپ کا عاق ہونے سے بچو، کیونکہ جنت کی خوشبو وہ بھی سونگھ لے گا جو جنت سے ایک ہزار سال کے فاصلے پر ہے لیکن والدین کے عاق کردہ جنت کی خوشبو کو نہیں پا سکے گا۔

غضبناک نگاہوں سے والدین کو دیکھنا

[ترمیم]

والدین کو تُند اور غضبناک نگاہوں سے دیکھنا حرام ہے اور يہ عمل عقوق میں سے شمار ہوتا ہے۔ اولاد کو چاہیے کہ ہمیشہ الفت اور پیار بھری نظروں سے ماں باپ کی جانب دیکھیں۔ والدین پر غصے اور غضب کے جذبات سے بھرپور نگاہیں ڈالنا جائز نہیں ہے۔ امام صادقؑ سے منقول ہے کہ آپؑ فرماتے ہیں: وَ مِنَ الْعُقُوقِ أَنْ يَنْظُرَ الرَّجُلُ إِلَى أَبَوَيْهِ يَحِدُّ إِلَيْهِمَا النَّظَر؛ کسی شخص کا اپنے والدین کو غصے بھر نگاہوں سے دیکھنا عاق ہونے میں سے ہے۔اسلامی تعلیمات کے مطابق اگر کسی شخص پر اس کے ماں باپ میں سے کسی نے ظلم کیا ہو تو بھی اولاد کو يہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ والدین پر غضبناک یا میلی نگاہوں سے دیکھیں۔ روایت میں وارد ہوا ہے کہ اگر کوئی شخص غضبناک نظروں سے والدین کی جانب دیکھے تو اس کی نماز قبول نہیں ہو گی۔ حدیث میں وارد ہوا ہے: مَنْ نَظَرَ إِلَى أَبَوَيْهِ نَظَرَ مَاقِتٍ‌ وَ هُمَا ظَالِمَانِ لَهُ لَمْ يَقْبَلِ اللَّهُ لَهُ صَلَاة؛ کسی شخص پر ان کے والدین نے ظلم کیا ہو اور وہ اپنے والدین کی طرف نفرت آمیز نگاہوں سے دیکھے تو اس کی نماز قبول نہیں کی جائے گی۔ يہ بات بھی ذہن نشین ہونا ضروری ہے کہ ماں باپ کے زمان حیات میں ہی فقط ان کی رضایت کا حصول کافی نہیں بلکہ جب وہ اس دنیا سے رخصت ہو جائیں تب بھی ان کے حقوق کو پورا کیا جاۓ، مثلا اگر والدین مقروض تھے تو ان کا قرض ادا کرے۔ اگر ایسا نہ کرے تو عاق والدین شمار ہوگا۔ بے شک ان کی قید حیات میں فرمانبردار اور ان کے حقوق پورا کرتا رہا ہو۔ معاملہ اس کے برعکس بھی ہو سکتا ہے، مثلا ایک شخص جس نے والدین کی زندگی میں ان کو بہت ستایا ان پر ظلم روا رکھا اور ان کے حقوق کو پامال کیا لیکن والدین کی وفات کے بعد نادم و پشیمان ہو کر ان کے حقوق پورے کرتا رہا ہے، مثلا ان کے قرض کو ادا کر دے، ان کے لیے خیرات اور صدقہ دیتا رہا ہو تو يہ شخص اللہ تعالی کی خصوصی عنایت کا مستحق قرار پائے گا اور ماں باپ کا فرمانبردار شمار ہو گا۔ پس حقوق والدین خصوصا ماں کے حقوق کو پورا کرنا ہر انسان پر واجب ہے۔ قرآن کریم اور روایات اہل بیتؑ کی تعلیمات کے مطابق والدین کے حقوق کو پامال کرنا جائز نہیں۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. فیومی، احمد، المصباح المنیر، ج ۱، ص ۲۱۸۔    
۲. طریحی، فخر الدین بن محمد، مجمع البحرین، ج۳،ص۲۲۲۔    
۳. ابن فارس، احمد، معجم مقاییس اللغۃ، ج ۴، ص ۳۔    
۴. تمیمی آمدی، عبد الواحد، غرر الحکم و درر الکلم، ص۶۷۱۔    
۵. جمال الدین محمد خوانساری، شرح غرر الحکم و درر الکلم. ج۶، ص۹، ح ۹۲۴۸۔
۶. قپانچی، حسن علی، شرح رسالۃ الحقوق امام سجادؑ، ج۱، ص۵۵۶۔
۷. رادیو قرآن، برنامہ سروش ہدایت، تفسیر آیت‌ الله جوادی آملی، مورخ ۱۰/۱/۷۸، ساعت: ۱۰: ۳۰۔
۸. مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، ج۱۲، ص۸۰۔    
۹. مجلسی، محمد باقر، مراة العقول فی شرح اخبار آل الرسول ﷺ، ج۸، ص۳۹۳۔    
۱۰. طبرسی، علی، مشکاة الانوار فی غرر الاخبار، ص۲۸۴۔    


مأخذ

[ترمیم]
دانشنامہ موضوعی قرآن، یہ تحریر مقالہ حقوق مادر در قرآن و حدیث سے مأخوذ ہے۔    


اس صفحے کے زمرہ جات : قرآنی موضوعات | والدین




جعبه ابزار