عالم الذر
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
کیا اس جہان سے پہلے کوئی ایسا جہان تھا جس کو عالم الذرّ سے تعبیر کیا جاتا ہے؟ یا اس نام سے موسوم کوئی جہان وجود نہیں رکھتا ؟ نیز کیا
قرآن کریم میں اس کا تذکرہ وارد ہوا ہے یا نہیں؟ عالم الذر کے عنوان سے متعدد احادیث مبارکہ وارد ہوئی ہیں، کیا یہ روایات معتبر ہیں یا نہیں؟ نیز ان روایات سے کیا مراد ہے؟ نیز اس بارے میں علماءِ اعلام اور بزرگ علماء کی کیا آراء و نظریات ہیں؟ اس طرح کے متعدد سوالات ہیں جو عالم الذر سے تعلق رکھتے ہیں۔
[ترمیم]
بعض مفسرین کے مطابق قرآن کریم کی سورہ
اعراف آیت ۱۷۲ میں عالم الذر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اس
آیت کریمہ میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:
وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَني آدَمَ مِنْ ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلى أَنْفُسِهِمْ أَ لَسْتُ بِرَبِّكُمْ قالُوا بَلى شَهِدْنا أَنْ تَقُولُوا يَوْمَ الْقِيامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هذا غافِلينَ أَوْ تَقُولُوا إِنَّما أَشْرَكَ آباؤُنا مِنْ قَبْلُ وَ كُنَّا ذُرِّيَّةً مِنْ بَعْدِهِمْ أَ فَتُهْلِكُنا بِما فَعَلَ الْمُبْطِلُون وَ كَذلِكَ نُفَصِّلُ الْآياتِ وَ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُون؛ اور وہ وقت یاد کرو جب آپ کے ربّ نے فرزندانِ آدمؑ سے ان کی پشتوں سے ان کی ذرّیت کو لیا اور انہیں انہی پر شاہد بناتے ہوئے سوال کیا کہ کیا میں تمہارا
رب نہیں ہوں؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں! ہم اس پر شاہد ہیں، کہ کہیں تم لوگ روزِ
قیامت یہ نہ کہو کہ ہم تو اس (عہد و پیمان) سے غافل تھے، یا تم یہ کہنے لگو کہ اس سے پہلے ہمارے آباء و اجداد شرک کیا کرتے تھے اور ہم تو ان کے بعد ان کی ذریت ہیں تو کیا ہمیں ان اہل باطل کی کارستانیوں کی بناء پر ہلاک کر دے گا اور اسی طرح ہم آیات کو تفصیل سے بیان کرتے ہیں اور شاید وہ پلٹ کر لوٹ آئیں۔
۱- عالم الذر میں نوعِ بشر سے اللہ تعالی کا اپنی ربوبیت کا عہد و پیمان لینے کا فلسفہ یہ تھا کہ
روزِ قیامت وہ یہ نہ کہیں کہ ہم تو مسئلہِ توحید سے غافل تھے یا یہ بہانہ نہ کریں کہ ہمارے آباء و اجداد مشرک تھے اور ہم تو ان کی اولاد ہیں جس کی وجہ سے چار ناچار ہم غلط راہ پر چل پڑے۔
۲- آیت کریمہ میں لفظِ ذرّیّت کلمہِ ذرّ سے مشتق ہے۔ ذرّ کا معنی منتشر بکھرے ہوئے ذرّات ہیں، مثلا فضاء میں سورج کی شعاع کے چھوٹے چھوٹے ذرات موجود ہوتے ہیں، ان پر ذرّ کا اطلاق ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ اس قدر چھوٹے ذرات ہوتے ہیں کہ ہوا میں بکھر کر منتشر ہو جاتے ہیں اور صرف اس وقت نمایاں ہوتے ہیں جب سورج چمکتا ہے اور اس سے کرنیں زمین کی طرف سفر کرتی ہیں۔ لیکن اس کے بعد یہ چھوٹے چھوٹے ذرات فضاء ہی میں بکھر کر غائب ہو جاتے ہیں۔ ان کے بہت باریک اور چھوٹأ ہونے کی وجہ سے زمین انہیں جذب نہیں کر پاتی۔ پس ذرّیت ذرّ کے مادہ سے ہے برخلاف قاعدہِ قیاسی، جیسے سُریہ کا مادہ سِر ہے۔
۳- یہ آیت کریمہ ایک مسلمہ حقیقت کی طرف اشارہ کر رہی ہے اور وہ تمام لوگوں کا شاہد اور گواہ پننا ہے۔ پس یہ مسلم ہے کہ انسان کی خلقت کا ایک مرحلہ اس کا اپنے آپ پر ہی گواہ اور شاہد بننا ہے۔ البتہ اس تشریح پر محدثین و حکماء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔
[ترمیم]
متعدد محدثین معتقد ہیں کہ وہ مرحلہِ خلقت جس میں
اللہ تعالی نے انسانوں کو خود ان کے نفوس پر شاہد اور گواہ قرار دیا تھا وہ اجسام و ابدان کو خلق کرنے سے پہلے ارواح کی خلقت کا مرحلہ ہے۔ اللہ تعالی نے انسانوں کے جسموں کو خلق کرنے سے پہلے ان کی روحوں کو خلق کیا اور روحوں کو اپنے اوپر ہی گواہ و شاہد بنایا اور اس کے بعد بدنوں کو خلق فرمایا۔ اس مطلب پر مختلف احادیث ہیں جوکہ روحوں کی بدنوں سے پہلے خلقت پر دلالت کرتی ہیں۔ یہی قول شیخ صدوق نے اختیار کیا ہے اور اپنے قولِ مختار پر متعدد احادیث ذکر کی ہیں:
امیر المؤمنینؑ سے روایت منقول ہے:
إِنَّ اللَّهَ خَلَقَ الْأَرْوَاحَ قَبْلَ الْأَبْدَانِ بِأَلْفَيْ عَام؛ بے شک اللہ نے ارواح کو بدنوں سے دو ہزار سال پہلے خلق فرمایا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سے روایت منقول ہے:
إِنَّ أَوَّلَ مَا أَبْدَعَ اللَّهُ سُبْحَانَهُ وَ تَعَالَى هِيَ النُّفُوسُ الْمُقَدَّسَةُ الْمُطَهَّرَةُ، فَأَنْطَقَهَا بِتَوْحِيدِهِ، ثُمَّ خَلَقَ بَعْدَ ذَلِكَ سَائِرَ خَلْقِه؛ اللہ سبحانہ نے سب سے پہلے نفوسِ مقدسہ مطہرہ کو خلق فرمایا، پھر ان سے اپنی توحید کا اعتراف کروایا پھر اس کے بعد تمام خلقت کو خلق کیا۔
جناب عیاشی نے
زرارہ اور
حمران بن اعین کے طریق سے امام باقر و امام صادق علیہما السلام سے روایت نقل کی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں:
إِنَّ اللَّهَ خَلَقَ الْخَلْقَ وَهِيَأَظِلَّةٌ فَأَرْسَلَ رَسُولَهُ مُحَمَّداً ص فَمِنْهُمْ مَنْ آمَنَ بِهِ وَ مِنْهُمْ مَنْ كَذَّبَهُ ثُمَّ بَعَثَهُ فِي الْخَلْقِ الْآخَرِ فَآمَنَ بِهِ مَنْ كَانَ آمَنَ بِهِ فِي الْأَظِلَّةِ وَ جَحَدَهُ مَنْ جَحَدَ بِهِ يَوْمَئِذٍ فَقَالَ فَما كانُوا لِيُؤْمِنُوا بِما كَذَّبُوا بِهِ مِنْ قَبْل؛ بے شک اللہ نے مخلوق کو خلق کیا تو وہ اظلہ اور سایہ تھیں، پھر اس نے اپنے رسول محمدؐ کو مبعوث کیا، پس ان میں سے بعض آنحضرتؐ پر ایمان لے آئے اور ان میں سے بعض نے ان کی تکذیب کی، پھر اللہ نے انہیں دوسری خلقت میں مبعوث کیا، پس جو اظلہ اور سایہ کی حالت میں ان پر ایمان لایا تھا وہ یہاں ایمان لے آیا اور اس نے آپؐ کا انکار کیا جس نے اس دن آپؐ کا انکار کیا تھا، اللہ تعالی نے فرمایا: اس سے پہلے وہ جس کو جھٹلا چکے ہیں اس پر وہ ایمان لانے والے نہیں تھے
۔
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ جس نے اظلہ کے مرحلہ میں ایمان کا اظہار کیا وہ اس دنیا میں بھی ایمان لائے گا اور جس نے وہاں انکار اور تکذیب کی وہ اس دنیا میں بھی کفر و تکذیب کرے گا۔
[ترمیم]
اکثر و بیشتر محدثین اور حشویہ جوکہ اہل سنت کا ایک فرقہ رہا ہے معتقد ہیں کہ اللہ تعالی نے دنیا کے اختتام تک آنے والے تمام اولادِ آدمؑ کو چھوٹے چھوٹے ذرات کی صورت میں آدمؑ کی پشت سے نکالا جن سے پورا فضاء پُر ہو گئی اور پھر انہیں عقل و شعور اور بولنے کی قدرت دی اور ان سے خطاب کرتے ہوئے اپنی وحدانیت اور ربوبیت کا اقرار و اعتراف لیا۔ اس ضمن میں اہل سنت علماء اور ان کی کتب میں وارد ہونے والی احادیث کے چند نمونے پیش کیے جاتے ہیں:
فخر الدین رازی نے یہ قول قدماءِ اہل تفسیر و اہل حدیث کی طرف منسوب کیا ہے اور اس کے ذیل میں چند احادیث کو ذکر کیا ہے۔ یہ احادیث اہل سنت طرق سے وارد ہوئی ہیں جن سے نظریہِ جبر کی بو آتی ہے۔
جبکہ شیعہ طرق سے وارد ہونے والی احادیث میں جبر کے عقیدہ کی ترجمانی موجود نہیں ہے۔
اہل سنت کتب احادیث و تفاسیر میں صحیح السند طریق سے وارد ہوا ہے کہ خلیفہ دوم
عمر بن خطاب سے سورہ اعراف آیت ۱۷۲ کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا:
سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: إِنَّ اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ، ثُمَّ مَسَحَ ظَهْرَهُ بِيَمِينِهِ، فَاسْتَخْرَجَ مِنْهُ ذُرِّيَّةً فَقَالَ: خَلَقْتُ هَؤُلَاءِ لِلْجَنَّةِ وَبِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ يَعْمَلُونَ، ثُمَّ مَسَحَ ظَهْرَهُ فَاسْتَخْرَجَ مِنْهُ ذُرِّيَّةً فَقَالَ: خَلَقْتُ هَؤُلَاءِ لِلنَّارِ وَبِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ يَعْمَلُونَ، فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَفِيمَ الْعَمَلُ؟ قَالَ: إِنَّ اللَّهَ إِذَا خَلَقَ الْعَبْدَ لِلْجَنَّةِ اسْتَعْمَلَهُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ حَتَّى يَمُوتَ عَلَى عَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَيَدْخُلَ الْجَنَّةَ، وَإِذَا خَلَقَ الْعَبْدَ لِلنَّارِ اسْتَعْمَلَهُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ حَتَّى يَمُوتَ عَلَى عَمَلِ أَهْلِ النَّارِ فَيَدْخُلَ النَّارَ۔ هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ- على شرط البخاري ومسلم؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ (وآلہ) وسلم نے فرمایا: اللہ نے آدمؑ کو خلق کیا، پھر ان کی پشت پر اپنا دایاں ہاتھ پھیرا اور وہاں سے ذریّت کو نکالا اور فرمایا: ان کو میں نے جنّت کے لیے خلق کیا ہے اور یہ اہل جنّت والا عمل انجام دیں گے، پھر اللہ نے
جناب آدمؑ کی پشت پر ہاتھ پھیرا اور وہاں سے ذریّت کو نکالا اور فرمایا: یہ دوزخ کے لیے خلق کیے گئے ہیں اور یہ اہل جہنم والا عمل انجام دیں گے، ایک شخص نے کہا: اے اللہ کے رسولؐ! کس سلسلہ میں یہ عمل ہو؟ آپؐ نے فرمایا: اگر اللہ نے عبد کو جنت کے لیے خلق کیا ہے تو اللہ اس عبد کو اہل جنت کے عمل کے ساتھ مشغول کر دے گا یہاں تک کہ وہ اہل جنّت کے عمل پر مر جائے اور وہ جنت میں داخل ہو جائے، اور اگر اس نے عبد کو دوزخ کے لیے خلق کیا ہے تو وہ اس کو اہل دوزخ کے عمل کے ساتھ مشغول کر دیتا ہے یہاں تک کہ وہ اہل دوزخ کے عمل پر مر جائے اور دوزخ میں داخل ہو جائے۔ یہ حدیث شیخین کی شرط پر صحیح ہے اگرچے انہوں نے اس کی تخریج نہیں کی، (ذہبی) بخاری و مسلم کی شرط پر ہے۔
اہل سنت کی کتب تفسیر میں خلیفہ دوم عمر بن خطاب سے روایت وارد ہوئی ہے جس میں وارد ہوا ہے کہ مدینہ کے ایک شخص نے عمر بن خطاب سے سورہ اعراف آیت ۱۷۲ کے بارے میں سوال کیا، خلیفہ دوم نے کہا: جس طرح تم نے مجھے سے پوچھا ہے اسی طرح میں نے نبی صلی اللہ علیہ (وآلہ) وسلم سے اس کے بارے میں دریافت کیا تھا، آپؐ نے فرمایا:
خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ بِيَدِهِ، وَنَفَخَ فِيهِ مِنْ رُوحِهِ، ثُمَّ أَجْلَسَهُ فَمَسَحَ ظَهْرَهُ بِيَدِهِ الْيُمْنَى، فَأَخْرَجَ ذَرْأً، فَقَالَ: ذَرْءٌ ذَرَأْتُهُمْ لِلْجَنَّةِ، ثُمَّ مَسَحَ ظَهْرَهُ بِيَدِهِ الْأُخْرَى، وَكِلْتَا يَدَيْهِ يَمِينٌ، فَقَالَ: ذَرْءٌ ذَرَأْتُهُمْ لِلنَّارِ، يَعْمَلُونَ فِيمَا شِئْتُ مِنْ عَمَلٍ، ثُمَّ أَخْتِمُ لَهُمْ بِأَسْوَإِ أَعْمَالِهِمْ فَأُدْخِلُهُمُ النَّارَ؛ اللہ نے آدمؑ کو اپنے ہاتھ سے خلق کیا اور ان میں اپنی روح پھونکی، پھر آدمؑ کو بٹھایا اور ان کی پشت پر اپنا دایاں ہاتھ پھیرا اور ایک مخلوق کو نکالا اور فرمایا: یہ وہ ہیں جنہیں میں نے جنت کے خلق کیا ہے، پھر دوسری مرتبہ ان کی پشت پر ہاتھ پھیرا اور دونوں مرتبہ اس کا دایاں ہاتھ ہی تھا اور فرمایا: یہ وہ خلقت ہے جسے میں نے
دوزخ کے لیے خلق کیا ہے، یہ وہ کام انجام دیں گے جو میں ان سے عمل چاہتا ہوں، پھر میں ان کا اختتام ان کے پرے اعمال کے ساتھ کروں گا پھر انہیں دوزخ میں داخل کر دوں گا۔
یہ حدیث اہل سنت کی کتب احادیث میں وارد نہیں ہوئی لیکن تمام کتب تفسیر روائی میں اس کو مفسرین نے نقل کیا ہے۔
اہل سنت کتب عقائد اور تفسیر میں
ابن عباس سے سورہ اعراف آیت ۱۷۲ کے ذیل میں وارد ہوئی ہے جس میں ابن عباس فرماتے ہیں:
إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ ضَرَبَ مَنْكِبَهُ الْأَيْمَنَ، أَيْ آدَمُ، فَخَرَجَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَخْلُوقَةٍ لِلْجَنَّةِ بَيْضَاءَ نَقِيَّةً، فَقَالَ: هَؤُلَاءِ أَهْلُ الْجَنَّةِ، ثُمَّ ضَرَبَ مَنْكِبَهُ الْأَيْسَرَ فَخَرَجَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَخْلُوقَةٍ لِلنَّارِ سَوْدَاءَ، فَقَالَ: هَؤُلَاءِ أَهْلُ النَّارِ؛ اللہ عز و جل نے ان کے یعنی آدمؑ کے دائیں کندھے کو مارا اور ایسی جانیں نکلیں جو جنت کے لیے خلق کی گئیں تھیں سفید پاک صاف تھیں، اس نے فرمایا: وہ اہل جنت ہیں، پھر اس نے آدمؑ کے بائیں کندھے پر مارا اور ایسے نفوس نکلے جو دوزخ کے لیے خلق کیے گئے تھے سیاہ تھے، اس نے فرمایا: وہ اہل دوزخ ہیں۔
اہل سنت طرق سے ایک اور روایت عبد اللہ ابن عباس سے منقول ہے جس میں وہ بیان کرتے ہیں:
لَمَّا خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ، أَخَذَ ذُرِّيَّتَهُ مِنْ ظَهْرِهِ مِثْلَ الذَّرِّ، فَقَبَضَ قَبْضَتَيْنِ، فَقَالَ لِأَصْحَابِ الْيَمِينِ ادْخُلُوا الْجَنَّةَ بِسَلَامٍ، وَقَالَ لِلْآخَرِينَ: ادْخُلُوا النَّارَ وَلَا أُبَالِي؛ جب اللہ نے آدمؑ کو خلق کیا تو آدمؑ کی پشت سے ان کی ذریت کو لیا جو بہت باریک ذرات کی مانند تھے، پھر دو مٹھیوں میں الگ الگ بند کر دیا اور دائیں مٹھی والے اصحاب یمین کو کہا: سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ، اور دوسروں کو کہا: دوزخ میں تم لوگ داخل ہو جائے اور مجھے تمہاری کوئی پرواہ نہیں ہے۔
[ترمیم]
عالم الذر کے بارے میں جس طرح سے اہل سنت کتب میں احادیث آئی ہیں اسی طرح مکتب تشیع میں مختلف طرق سے اس موضوع پر احادیث نقل ہوئی ہیں۔ البتہ مکتب تشیع میں وارد ہونے والی احادیث کی یہ خصوصیات ہے کہ اس میں جبر کے نظریہ کی جھلک روایات سے آشکار نہیں ہوتی۔
زرارۃ نے
امام باقرؑ سے اللہ عز و جل کے فرمان سورہ اعراف آیت ۱۷۲ کے متعلق سوال کیا، امامؑ نے فرمایا:
أَخْرَجَ مِنْ ظَهْرِ آدَمَ ذُرِّيَّتَهُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ فَخَرَجُوا كَالذَّرِّ فَعَرَّفَهُمْ وَ أَرَاهُمْ نَفْسَهُ وَ لَوْ لَا ذَلِكَ لَمْ يَعْرِفْ أَحَدٌ رَبَّه؛ اللہ نے آدمؑ کی پشت سے تا قیامت آنے والی ذریت کو نکالا تو وہ سب باریک باریک ذرات کی صورت میں نکل آئے، پھر اس نے انہیں اپنی پہچان کروائی اور اپنے آپ کو انہیں دکھایا، اگر ایسا نہ ہوتا تو کوئی بھی اپنے ربّ کو نہ پہچان پاتا۔
اسی طرح ایک اور روایت میں امام باقرؑ سے منقول ہے کہ آپؑ فرماتے ہیں:
ثثَبَتَتِ الْمَعْرِفَةُ وَ نَسُوا الْمُوَقَّتَ وَ سَيَذْكُرُونَهُ يَوْماً وَ لَوْ لَا ذَلِكَ لَمْ يَدْرِ أَحَدٌ مَنْ خَالِقُهُ وَ لَا مَنْ رَازِقُه ؛ معرفت ثابت و جاگزین ہو گئی اور انہوں نے اس وقت لیا گیا عہد و پیمان فراموش کر دیا اور وہ ایک دن اس عہد و پیمان کو یاد کریں گے، اگر یہ عہد نہ لیا ہوتا تو کوئی یہ نہ جان پاتا کہ کون ان کا خالق ہے اور کون ان کا رازق ہے۔
امام حسن عسکریؑ سے منقول ہے:
ثَبَتَتِ الْمَعْرِفَةُ وَنَسُوا ذَلِكَ الْمَوْقِفَ وَسَيَذْكُرُونَهُ وَلَوْ لَا ذَلِكَ لَمْ يَدْرِ أَحَدٌ مَنْ خَالِقُهُ وَلَا مَنْ رَازِقُه؛ معرفت ان کے نفوس میں ثبت ہو گئی ہے اور انہوں نے موقف (عہد و پیمان) کو فراموش کر دیا اور وہ اس کو یاد کریں گے، اگر ایسا نہ ہو تو کوئی بھی نہ جان پاتا کہ اس کا خالق کون ہے اور اس کا رازق کون ہے۔
[ترمیم]
علامہ مجلسی عالم الذر سے متعلق روایات کو ذکر کرنے کے بعد علماء اعلام کے مختلف اقوال ذکر کرتے ہیں اور لکھتے ہیں:
اس باب میں جو روایات وارد ہوئی ہیں وہ روایات متشابہات اور مشکل احادیث میں سے ہیں۔ اس بناء پر علماءِ شیعہ کے عالم الذر سے کے بارے میں مختلف اقوال ہیں:
بعض علماءِ اخباری بیان کرتے ہیں: ان روایات کے مضمون پر اجمالی طور پر ایمان لانا چاہیے، اگرچے اس کے معنی کی حقیقت ہمیں معلوم نہیں ہے۔ لہذا اس کا علم انہی روایت کے اہل پر موقوف ہے۔
بعض روایات تقیہ پر حمل کی جائیں گی کیونکہ وہ
عامہ کی روایات سے موافق ہیں۔ چونکہ ان میں سے بعض روایات کا مضمون اختیار و استطاعت اور انسان کو اس دنیا میں اختیار سے عمل انجام دینے پر مشتمل ہے جوکہ مکتبِ اہل بیتؑ کے مخالف نظریہ ہے۔
بعض ان روایات کے مطالب کو اللہ تعالی کے علمِ ازلی سے کنایہ قرار دیتے ہیں۔ ان کی مراد یہ ہے کہ اللہ تعالی نے جب مخلوق کو خلق کیا تھا تو وہ ان کے مستقبل میں پیش آنے واقعات و احوال سے موافق و آشنا تھا۔
بعض ان روایات کو استعارہ،
مجاز اور کنایہ قرار دیتے ہیں اور ان کے اصلی معنی سے گریز کرتے ہیں۔ گویا کہ اللہ تعالی نے ان روایات میں یہ بیان فرمایا ہے کہ انسان مختلف صلاحیتوں اور استعداد کا مالک ہے اور بعض حقیقت میں حق کو طلب کرنے والے، حق کے لیے کوشش کرنے والے ہیں۔ ان کی
فطرت میں توحید رکھ دی گئی ہے۔ جبکہ بعض برے اور برائی کو چاہنے والے ہیں اور توحید کی بڑھنے سے کتراتے ہیں۔
اس کے بعد
علامہ مجلسی بیان کرتے ہیں: بہتر یہ ہے کہ اس طرح کے موضوعات اور مسائل پر بحث نہ کی جائے کیونکہ ہماری عقل ان کو درک کرنے سے عاجز ہے۔ اس کے بعد علامہ مجلسی نے شیخ مفید، سید مرتضی علم الہدی اور فخر الدین رازی کے نظریات کو ذکر کیا ہے۔
[ترمیم]
بعض مفسرین اور حکماء نے عالم الذر کا انکار کیا ہے اور وہ روایات جو عالم الذر پر دلالت کرتی ہیں ان کی حجیت اور دلالت پر متعدد اشکال کیے ہیں۔ ذیل میں منکرینِ عالم الذر کے مختلف دلائل اجمالی طور پر ذکر کیے جاتے ہیں:
سورہ اعراف آیت ۱۷۲ میں اللہ تعالی فرماتا ہے:
وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَني آدَمَ مِنْ ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ، اس میں اللہ تعالی نے بنی آدمؑ کا تذکرہ کیا ہے نہ کہ جناب آدمؑ کا۔ آیت کریمہ کے مطابق بنی آدمؑ کو ان کی پشتوں سے نکالا گیا نہ کہ آدمؑ کی پشت سے ان کی ذریت کو نکالا گیا!! جبکہ روایات بیان کرتی ہیں کہ اللہ تعالی نے جناب آدمؑ کی پشت سے ان کی ذریت کو نکالا۔ یہاں روایات کا مضمون قرآن کریم کے ظاہر سے ٹکرا رہا ہے جس کی وہ سے یہ روایات ہمارے لیے قبول نہیں ہوں گے۔
قرآن کریم کی آیت اور اس باب میں وارد ہونے والی روایات میں تمام ضمائر
ذر کی طرف لوٹ رہی ہیں۔ اگر ہم بالفرض عالم الذر کے ہونے کو قبول بھی کر لیں تب بھی آیت کریمہ کی دلالت عالم الذر پر نہیں ہے اور آیت کا عالم الذر سے کسی قسم کا ربط اور تعلق ثابت نہیں ہوتا۔ چنانچہ
شیخ مفید نے عالم الذر کے ہونے کا احتمال دیتے ہوئے اور اس کو فرض کرتے ہوئے شدت سے اس بات کا انکار کیا ہے کہ اس وقت ذریت سے اقرار کروایا گیا اور اس کو بلوایا گیا، جیساکہ وہ بیان کرتے ہیں:
فأما الأخبار التي جاءت بأن ذرية آدم عليه السلام استنطقوا في الذر فنطقوا، فأخذ عليهم العهد فأقروا، فهي من أخبار التناسخية [۲۶] ، وقد خلطوا فيها ومزجوا الحق بالباطل؛ جہاں تک ان احادیث کا تعلق ہے جو یہ بیان کرتی ہیں کہ آدم علیہ السلام کی ذریت سے عالم الذر میں بلوایا گیا تو وہ بولے اور ان سے
عہد لیا گیا تو انہوں نے اقرار کیا، یہ احادیث اخبارِ تناسخ ہیں (جو نظریہ تناسخ پر دلالت کرتی ہیں) اور اس میں حق کو باطل کے ساتھ انہوں نے خلط کیا ہے اور اس کے ساتھ ملا کر پیش کیا ہے۔
اس آیت کریمہ کا آخری حصہ
أَنْ تَقُولُوا يَوْمَ الْقِيامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هذا غافِلين کا معنی یہ بنتا ہے:
لئلا تقولوا یوم القیامة...۔ آیت کریمہ کے مطابق اللہ تعالی نے یہ اقرار اور عہد و پیمان اس لیے لیا تاکہ روزِ قیامت کوئی یہ نہ کہے کہ ہم تو دنیا میں اس غافل تھے۔ یعنی آیت کریمہ میں عہد و پیمان کے اقرار کی بات قیامت میں بہانے کا ختم کرنا اور
حجت کا تمام کرنا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کسی انسان کو اس دنیا میں عالم الذر میں لیے گئے اقرار اور شہادت کے بارے میں کچھ یاد نہیں ہے !! پس اگر ان روایات کو آیت کریمہ کے ضمن اور ذیل میں قرار دیا جائے تو اس سے لازم آئے گا کہ روایات آیت کریمہ سے ٹکرا رہی ہیں اور اس میں موجود ہدف اور غرض کو نقض کر رہی ہیں۔ کیونکہ روایات کے مطابق سب انسان اس دنیا میں آتے ساتھ عالم الذر میں لیے گئے عہد و پیمان اور اقرار کو بھول گئے اور فراموش کر گئے جبکہ آیت کریمہ کہہ رہی ہے کہ اس لیے عہد و پیمان لیا گیا تاکہ مت بھولو۔ پس آیت نہ بھولنے کا کہہ رہی ہے اور روایت بھول جانے کا کہہ رہی ہے اور یہ دونوں باتیں آپس میں ٹکراؤ رکھتی ہیں۔
اگلی آیت کریمہ
أَوْ تَقُولُوا إِنَّما أَشْرَكَ آباؤُنا مِنْ قَبْلُ وَ كُنَّا ذُرِّيَّةً مِنْ بَعْدِهِمْ أَ فَتُهْلِكُنا بِما فَعَلَ الْمُبْطِلُون؛ یا تم لوگ یہ کہو کہ ہمارے آباء و اجداد اس سے پہلے شرک کیا کرتے تھے اور ہم تو بس ان کی ذریت ہیں، تو کیا (اے ہمارے ربّ) تو ہمیں ان کے اعمال و کرتوت کی وجہ سے ہلاک کرے گا جو اہل باطل انجام دیا کرتے تھے؟!
اور سورہ اعراف آیت ۱۷۲ کی تفسیر عالم الذر سے کرنے میں ٹکراؤ اور منافات پایا جاتا ہے۔ کیونکہ اس آیت کریمہ کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے آباء و اجداد مشرک تھے اور ہم تو ان مشرکین کی اولاد ہیں۔ جبکہ عالم الذر میں ماں باپ کی تعیین موجود نہیں تھی اور ماں باپ کے اعتبار سے افراد کو پیش کرنے کا بیان نہیں پایا جاتا۔ نیز اس سے لازم آتا ہے کہ تاریخ بشریت مشرک اور ٹیڑھے افراد پر مشتمل ہے جبکہ اللہ تعالی نے زمین پر سب سے پہلے اہل ایمان کو بسایا۔ اس لیے نسلِ انسانی کی نسبت مشرکین کی طرف دینا لازم آئے گی اگر ہم ان آیات کی تشریح عالم الذر کو قرار دیں۔
متعدد محققین نے اس آیت کریمہ کو
فطرت میں توحید کے قرار دینے پر حمل کیا ہے اور آیت کریمہ میں موجود اللہ تعالی اور بنی آدمؑ کے درمیان ہونے والی گفتگو کو زبانِ حال قرار دیا ہے۔ یعنی پہلا انسان جسے اللہ تعالی نے وجود دیا اس کو اسی کی شناخت اللہ تعالی نے کروائی اور پھر اپنا اسے تعارف کروایا اور اس کو خدا شناس بنایا۔ اس کی تائید آیتِ فطرت سے بھی ہوتی ہے جس میں ارشادِ باری تعالی ہوتا ہے:
فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْها لا تَبْديلَ لِخَلْقِ اللَّه؛ اللہ کی وہ فطرت جس پر اس نے لوگوں کو خلق کیا ہے، اللہ کی خلقت میں تبدیلی نہیں۔
اسی طرح احادیث مبارک میں بھی فطرت پر خلقت کا بیان آیا ہے جوکہ اسی آیتِ فطرت کی طرف اشارہ کرتی ہیں، جیساکہ
رسول اللہؐ فرماتے ہیں:
كُلُ مَوْلُودٍ يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ يَعْنِي الْمَعْرِفَةَ بِأَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ خَالِقُه؛ ہر مولود جو پیدا ہوتا ہے وہ فطر پر پیدا کیا جاتا ہے، یعنی اس معرفت پر کہ اللہ عز و جل اس کا خالق ہے۔
اگر ہم آیتِ فطرت اور اس کی تائید میں وارد ہونے والی احادیث کو سورہ اعراف کی اس آیت کریمہ میں موجود اس گفتگو سے ملائیں:
أَ لَسْتُ بِرَبِّكُمْ قالُوا بَلى؛ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں۔
تو معلوم ہو گا کہ یہ گفتگو زبانِ حال سے ہے نہ کہ زبانِ مقال و قول۔ قرآن کریم میں زبانِ قال کی بجائے زبانِ حال کی تعبیریں کثرت سے وارد ہوئی ہیں۔ ذیل میں چند نمونے قرآن کریم سے پیش کرتے ہیں:
۱۔ ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:
ثُمَّ اسْتَوى إِلَى السَّماءِ وَ هِيَ دُخانٌ فَقالَ لَها وَ لِلْأَرْضِ ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً قالَتا أَتَيْنا طائِعين؛ پھر وہ آسمان کی طرف مستوی ہوا جبکہ دھواں تھی، پس اس نے آسمان اور زمین کو کہا: دونوں چار ناچار آؤ، ان دونوں نے کہا: ہم اطاعت کرتے ہوئے حاضر ہیں۔
آیت کریمہ میں یہ جملہ
فَقالَ لَها اللہ سبحانہ کا کلام ہے۔ جبکہ آیت کریمہ میں جملہ
قالَتا آسمان و زمین کی زبانِ حال ہے۔ اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ اللہ تعالی نے جب آسمان اور زمین کو خلق کیا تو انہیں کاملا اپنی زیرِ اطاعت قرار دیا جو اس کی نافرمانی کی قوت نہیں کھتیں۔ آسمان و زمین کا کاملا اطاعت گزار ہونے کو زبانِ حال سے اس طرح سے بیان کیا گیا ہے۔
۲۔ سورہ توبہ میں فرمانِ الہی ہوتا ہے:
ما كانَ لِلْمُشْرِكينَ أَنْ يَعْمُرُوا مَساجِدَ اللَّهِ شاهِدينَ عَلى أَنْفُسِهِمْ بِالْكُفْر؛ مشرکین کو حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اللہ کی مساجد تعمیر کریں جبکہ وہ اپنے کفر پر خود شاہد ہیں۔
مشرکین کا اپنے
کفر پر شاہد بننا اور گواہی دینا زبانِ قال سے نہیں بلکہ زبانِ حال سے ہے۔ ان کا حالتِ شرک میں ہونا اور ہدایت کا انکار کرنا ان کے کفر پر دلالت کرتا ہے۔ اس کو زبانِ حال سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
۳۔ اللہ تعالی فرماتا ہے:
وَآتاكُمْ مِنْ كُلِّ ما سَأَلْتُمُوهُ ؛ اور اس نے ہر وہ چیز تمہیں عطا کی ہے جو تم نے اس سے مانگی تھی۔
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے انسان کی ضرورت کی ہر شیء اس کو عنایت کی اور اس کے علاوہ بھی انسان نے جو چاہا وہ اللہ تعالی نے اس کو عنایت کیا ہے۔ اللہ تعالی کی عطا کردہ نعمات، زندگی، علم و عقل، مہلت ، فرصت وغیرہ سب وہ عنایات ہیں جو اللہ تعالی سے انسان نے طلب کی اور اس سے مانگی ہے۔ لیکن انسان کا یہ سب کچھ مانگنا زبانِ حال سے ہے نہ کہ زبانِ مقال سے۔ پس یہاں انسان کا اللہ تعالی سے تقاضا مفہومی یا الفاظ کے ذریعے نہیں ہے بلکہ حال کی زبان سے ہے۔
پس ان آیات سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں زبانِ حال کا اسلوب متعدد جگہوں پر اختیار کیا ہے۔ اسی طرح سے سورہ اعراف آیت ۱۷۲ میں زباںِ حال کا اسلوب استعمال کیا گیا ہے اور اللہ تعالی اور بنی آدمؑ کے درمیان گفتگو زبانِ حال سے ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سورہ اعراف آیت ۱۷۲ انسانی فطرت میں توحید کے وجود کو بیان کر رہی ہے۔ یہ رائے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کے زمانے کے بعد تابعین میں قوت کے ساتھ اختیار کر لی گئی۔
حسن بصری کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو سورہ اعراف آیت ۱۷۲ کو آیتِ فطرت سے تفسیر کرتے ہیں۔ حسن بصری کا کہنا ہے:
إِنَّ الْمُرَادَ بِهَذَا الْإِشْهَادِ إِنَّمَا هُوَ فَطْرهم عَلَى التَّوْحِيدِ؛ آیت میں ذریت کو اپنی جانوں پر شاہد قرار دینے سے مراد اس کا ان کو توحید پر فطرتًا خلق کرنا ہے۔
نيز اس قول كي نسبت ابو ہریرہ، عیاض بن حمار مجاشعی اور اسود بن سریع کی طرف بھی دی گئی ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اکثر تابعین کا یہی قول ہے۔
سید مرتضی علم الہدی سورہ اعراف آیت ۱۷۲ کے بارے میں کہتے ہیں:
وقد ظنّ بعض من لا بصيرة له، و لا فطنة عنده أن تأويل هذه الآية أنّ اللّه تعالى استخرج من ظهر آدم عليه السلام جميع ذريته، و هم فى خلق الذّرّ، فقرّرهم بمعرفته، و أشهدهم على أنفسهم. و هذا التأويل- مع أنّ العقل يبطله و يحيله- مما يشهد ظاهر القرآن بخلافه؛ لأن اللّه تعالى قال: وَ إِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِي آدَمَ، و لم يقل: من آدم، و قال: مِنْ ظُهُورِهِمْ، و لم يقل: من ظهره، و قال: ذُرِّيَّتَهُمْ، و لم يقل: ذرّيته؛ بعض افراد جو بے بصیرت اور ذہانت و فطانت سے عاری ہیں یہ گمان کرتے ہیں کہ اس آیت کی تأویل یہ ہے کہ اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کی پشت سے ان کی تمام ذریت کو نکالا درحالانکہ وہ باریک باریک ذرات میں خلق تھے، پھر اس نے ان سے اپنی معرفت کا اقرار لیا اور ان کو انہی کے نفوس پر شاہد و گواہ ٹھہرایا۔ یہ تأویل جبکہ عقل اس کو باطل قرار دیتی ہے اور اس کو قبول کرنے سے مانع ہے ظاہرِ قرآن کے بھی مخالف ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی نے فرمایا: اور اس وقت کو یاد کرو جب آپ کے ربّ نے بنی آدم سے عہد لیا، اللہ تعالی نے یہ نہیں فرمایا:
من آدم، آدمؑ سے (بلکہ بنی آدمؑ کہا)۔ اور پھر فرمایا:
مِنْ ظُهُورِهِمْ (بنی آدمؑ کی پشتوں سے)، نہ کہ یہ کہا:
مِنْ ظُهُورِه (آدمؑ کی پشت سے)۔ پھر فرمایا:
ذُرِّيَّتَهُمْ (یعنی بنی آدمؑ کی ذریت)، نہ کہ یہ کہا:
ذُرِّيَّتَه (آدمؑ کی پشت سے)۔
شیخ مفید اس بات کو قبول کرتے ہیں کہ جناب آدمؑ کی پشت سے ان کی ذریت کو نکالا گیا لیکن اس بات کو قبول نہیں کرتے کہ وہ امر ربوبیت کے اقرار کی خاطر تھا۔ بلکہ اس لیے آدمؑ کی پشت سے ان کی ذریت کو نکالا تاکہ یہ بتایا جائے کہ جناب آدمؑ کی نسل کس قدر زیادہ ہے۔ نیز آیت کریمہ میں اللہ تعالی کی جو گفتگو نسلِ آدمؑ سے ہوئی وہ زبانِ حال ہے نہ کہ زبانِ مقال۔ اس بارے میں شیخ مفید بیان کرتے ہیں:
والصحیح أنه أخرج الذرية من ظهره كالذر فملأ بهم الأفق و جعل على بعضهم نورا لا يشوبه ظلمة و على بعضهم ظلمة لا يشوبها نور و على بعضهم نورا و ظلمة فلما رآهم آدم ع عجب من كثرتهم و ما عليهم من النور و الظلمة فقال يا رب ما هؤلاء ؟ قال الله عز و جل له: هؤلاء ذريتك يريد تعريفه كثرتهم و امتلاء ...؛ صحیح بات یہ ہے کہ اللہ نے
آدمؑ کی پشت سے ان کی ذریت کو باریک باریک ذرات کی مانند نکالا جن سے افق بھر گیا۔ ان میں سے بعض کو اس نے نور و روشن قرار دیا جن میں تاریکی کا شائبہ نہیں اور بعض کو تاریک قرار دیا جن میں نورانیت کا شائبہ نہیں اور بعض نور اور ظلمت ہر دو سے قرار دیا۔ جب آدمؑ نے ان کو دیکھا تو ان کی کثرت پر تعجب کیا اور جو نور و ظلمت سے تھے ان کے متعلق سوال کیا: اے ربّ یہ کون ہیں؟ الل ہعز و جل نے فرمایا: یہ تیری وہ ذریت ہے جو اپنی کثرت سے پہچانے جاتے ہیں اور ان کے ذریعے سے آفاق بھر گئے ہیں۔۔۔ وہ لوگ جو نور اور ظلمت سے ہیں یہ وہ ہیں جو تیری اولاد میں سے میری اطاعت کریں گے اور میری معصیت بھی کریں گے، پس وہ اپنے برے اعمال کو اپنے اچھے اعمال کے ساتھ مخلوط کر دیں گے۔ اس کے بعد آگے کی سطور میں شیخ مفید بیان کرتے ہیں کہ یہ احادیث جو ذریت آدمؑ کے گویا ہونے اور ان کے عہد و پیمان کے اقرار پر دلالت کرتی ہیں یہ اخبارِ تناسخ ہیں جن میں حق کو باطل کے ساتھ ملا کر پیش کیا گیا ہے۔ یہ آیت کریمہ فقط اس پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالی نے آدمؑ کی ذریت پر حجت تمام کی اور ان کی فطرت میں ان چیزوں کو ودیعت کر دیا اور اس میثاقِ فطرت پر کار بند رہنے کا تقاضا کیا۔ اس لیے اللہ تعالی کی معرفت اور اس کی شناخت کے دلائل واضح اور روشن ہیں۔ پس اس آیت سے ہم ظاہری معنی نہیں مراد لیں گے بلکہ مجاز اور
استعارہ کے باب سے یہ آیت کریمہ ہے۔
شیخ طوسی نے اپنی تفسیر التبیان میں اس سورہ اعراف آیت ۱۷۲ کے ذیل میں تحریر کیا ہے:
فاما ما روی ان اللَّه تعالی اخرج ذریة آدم من ظهره و اشهدهم علی انفسهم و هم کالذر، فان ذالک غیر جائز لان الاطفال فضلاً عمن هو کالذر لا حجة علیهم و لا یحسن خطابهم بما یتعلق بالتکلیف؛ جہاں ان روایات کا تعلق ہے جن میں وارد ہوا ہے کہ اللہ تعالی نے آدمؑ کی ذریت کو ان کی پشت سے نکالا اور ان کو انہی کے نفوس پر شاہد ٹھہرایا جبکہ وہ ذرات کی مانند تھے، تو یہ قابل قبول نہیں کیونکہ ان کا بچے ہونا کجا یہ کہ وہ ذرات کی مانند ہوں اس پر کوئی دلیل نہیں ہے اور نہ ہی تکلیف سے جو متعلق ہے اس کے ذریعے انہیں خطاب کرنا اچھا اور مستحسن امر ہے۔ اس کے بعد شیخ طوسی فرماتے ہیں: نیز آیت کی دلالت اس کے برخلاف ہے جو وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
وَ إِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَني آدَم، اور فرمایا:
مِنْ ظُهُورِهِم، اللہ تعالی نے یہ نہیں فرمایا:
من ظهره، ۔ نیز اللہ تعالی نے یہ فرمایا ہے:
ذُرِّيَّتَهُمْ، یہ نہیں فرمایا:
ذریته۔ نیز اس سے اگلی آیت میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:
أَوْ تَقُولُوا إِنَّما أَشْرَكَ آباؤُنا مِنْ قَبْلُ وَ كُنَّا ذُرِّيَّةً مِنْ بَعْدِهِم؛ حدیث میں وارد ہوا ہے کہ اس ذریت سے پہلے ان کے آباء و اجداد تھے جو باطل پر تھے اور وہ ان کے بعد آئے تھے۔ البتہ اس خبر کا راوی سلیمان بن بشار جہنی اور کہا گیا ہے: مسلم بن بشار نے عمر بن خطاب سے نقل کیا ہے۔ یحیی بن معین نے کہا ہے: سلیمان، یہ وہ ہے جو نہیں جانتا وہ کہاں ہے؟ اور آیت کی تعلیل اس کو فاسد کر دیتی ہے جس کے وہ قائل ہوئے ہیں ، کیونکہ وہ کہتا ہے: میں نے یہ کیا ہے تاکہ روز قیامت وہ یہ نہ کہیں کہ ہم اس سے غافل تھے، اور دارِ دنیام نیے آج عقلاء بھی اس سے غافل ہیں۔
اس کے علاوہ حدیث آیت کریمہ کی مخالفت کر رہی ہے کیونکہ اللہ تعالی نے بنی آدم فرمایا تھا نہ کہ آدمؑ، اور اسی طرح
ظهورهم کہا نہ کہ
ظهره۔ نیز فرمایا:
ذریتهم، نہ کہ
ذریته۔ اگلی آیت میں اس ذریت کے والدین کے مشرک ہونے کی بات کی گئی ہے۔ نیز اسی طرح حدیث میں بھی آیا ہے کہ اس ذریت سے پہلے ان کے آباء و اجداد مشرک تھے جبکہ اس حدیث کا راوی سلیمان علم رجال کے مطابق ضعیف ہے۔ اس کے علاوہ آیت کریمہ میں اقرار اور میثاق کا فلسفہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ روزِ قیامت وہ بہانہ نہ کریں کہ ہم اس سے غافل تھے جبکہ احادیث کے مطابق عقلاء پھی دنیا میں اس سے غافل ہوں گے۔
اسی طرح سے
ابن شہر آشوب اپنی کتاب متشابہات القرآن میں عالم الذر کا شدت سے انکار کرتے ہیں اور سورہ اعراف آیت ۱۷۲ کو فطرتِ توحید پر حمل کرتے ہیں۔
خلاصہ کلام یہ کہ عالم الذر کے منکرین یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالی حکیم ذات ہے جو حکمت اور مصلحت کے تحت امور انجام دیتا ہے۔ جبکہ عالم الذر میں کسی قسم کی حکمت اور اس کے آثار دکھائی نہیں دیتے۔ نیز روایات قرآن کریم کے ظاہر سے ٹکراتی ہیں اور سند کے اعتبار سے بھی ضعیف ہیں۔
[ترمیم]
[ترمیم]
سایت بلاغ، قرآن سے معارف کا بیان، ص ۱۵۴ - ۱۳۹، علم ذرّ۔
بعض حوالہ جات محققین ویکی فقہ اردو کی طرف سے اضافہ کیے گئے ہیں۔