عرضہ حدیث بر امام ہادیؑ
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
امام ہادیؑ کے دور میں
شیعہ کے
آئمہؑ پر ایک مرتبہ پھر گھٹن کا ماحول طاری کر دیا گیا تھا۔
امام رضاؑ اور
امام جوادؑ کی نسبت
مامون اور
معتصم کی ظاہر داری ختم ہو جاتی ہے اور
متوکل عباسی خلافت کا حقیقی چہرہ آشکار کرتا ہے۔
[ترمیم]
یہ مطلب، امام ہادیؑ (صاحب العسکر) اور
امام حسن عسکریؑ کے القاب سے روشن ہے۔ ان حالات کی وجہ سے بہت سی روایات اور احکام خط و کتاب کی صورت میں منتقل ہوتے رہے۔ اس کٹھن جدوجہد کا نمایاں نمونہ ابراہیم بن محمد ہمدانی ہے۔ انہیں چند آئمہؑ کے
اصحاب میں سے شمار کیا گیا ہے اور انہوں نے اپنے بعض خطوط میں فقہی
احکام کے بارے میں سوال کیا ہے اور بعض اوقات
حکم پر مشتمل روایت کو اس کی
تشریح میں اختلاف کے باعث امامؑ کے سامنے پیش کرتے ہیں اور اس کا درست معنی پوچھتے ہیں۔
اس کے علاوہ متعارض روایات پیش کر کے امامؑ سے ان کے موقف سے متعلق استفسار کرتے تھے۔
شیخ طوسیؒ نے کچھ روایت اس انداز سے نقل کی ہیں:
اوّل: ابراهیم بن محمد الهمدانی قال: اختلفت الروایات فی الفطرة، فکتبت الی ابی الحسن صاحب العسکر (علیهالسّلام) اساله عن ذلک.
فکتب: ان الفطرة صاع من قوت بلدک.۔
ابراہیم بن محمد ہمدانی کہتے ہیں: فطرانے کے بارے میں وارد ہونے والی روایات میں اختلاف ہے، میں نے ابو الحسن صاحب العسکرؑ کے نام خط لکھا اور یہ مسئلہ پوچھا۔ امامؑ نے جواب میں لکھا: تحقیق فطرانہ تیرے شہر کی عام غذا میں سے ایک
صاع (یعنی تین کلو) ہے ۔ (پھر امامؑ مثالیں ذکر کرتے ہیں اور
فطرانے کے دیگر احکام بیان کرتے ہیں)
دوّم: من کتاب «مسائل الرجال» لمولانا ابی الحسن الهادی ـ ع ـ، قال محمد بن الحسن، قال محمد بن هارون الجلاب: قلت: روینا عن آبائک انه یاتی علی الناس زمان، لایکون شیء اعز من اخ انیس او کسب درهم من حلال.
فقال لی: یا ابا محمد، ان العزیز موجود و لکنک فی زمان لیس شیء اعسر من درهم حلال و اخ فی الله عز وجل۔
کتاب
مسائل الرجال (امام ہادیؑ سے چند مسائل پوچھے گئے اور
احمد بن اسحاق اشعری نے انہیں اس کتاب میں جمع کیا ہے)
میں مذکور ہے کہ محمد بن ہارون نے امام ہادیؑ سے عرض کیا: آپؑ کے آبا و اجداد سے ہم تک یہ پہنچا ہے کہ لوگوں پر ایک ایسا وقت آئے گا کہ غم خوار
بھائی یا
حلال درہم سے زیادہ کوئی چیز کمیاب نہیں ہو گی۔ حضرت ہادیؑ فرماتے ہیں: اے ابا محمد! ہر کمیاب چیز مل سکتی ہے مگر تو ایک ایسے زمانے میں زندگی بسر کر رہا ہے کہ کوئی چیز حلال
درہم اور
خدا کی خاطر بھائی چارے سے زیادہ مشکل نہیں ہے۔
سوم: حفص جوہری ایک اور راوی ہے جس نے امام ہادیؑ کے سامنے چند مسائل پیش کیے۔ اس میں جالب توجہ نکتہ یہ ہے کہ سابق آئمہؑ کے قول نہیں بلکہ
فعل کو پیش کیا گیا۔ وہ
سجدہ شکر کا وقت ہے، وہ دیکھتا ہے کہ امام ہادیؑ
نماز مغرب کے فوری بعد سجدہ نہیں کرتے ہیں بلکہ مغرب کے
نوافل کی چار رکعات مکمل ہونے کے بعد سجدہ شکر کرتے ہیں۔ لہٰذا کہتا ہے:
قلت له: کان آباؤک یسجدون بعد الثلاثة.
فقال (ابوالحسن علی بن محمد (علیهالسّلام)): ما کان احد من آبائی یسجد الا بعد السبعة۔
امامؑ سے میں نے عرض کیا: آپؑ کے آبا و اجداد نماز مغرب کی تین
رکعات کے بعد سجدہ شکر کرتے تھے۔ امام ہادیؑ نے فرمایا: میرے آبا و اجداد میں سے کوئی بھی اس وقت تک سجدہ شکر نہیں کرتا تھا جب تک سات رکعات مکمل نہ ہو جاتیں (تین رکعت مغرب اور چار رکعت اس کے نوافل)
اس روایت سے متعارض روایت کو شیخ طوسیؒ نے اس کے بعد بیان کیا ہے؛
تاہم اس کی
تشریح کی کیفیت اور وجہ جمع کو
استبصار میں بیان کیا ہے۔
چار: محمد بن الریان: کتبت الی العسکری (علیهالسّلام) : جعلت فداک، روی لنا ان لیس لرسول الله صلیاللهعلیهوآلهوسلّم من الدنیا الا الخمس.
فجاء الجواب: ان الدنیا وما علیها لرسول الله۔
محمد بن ریان (محمد بن الریان امام ہادیؑ کے اصحاب میں سے ہے اور امام جوادؑ سے بھی روایت کرتا ہے)
) کہتا ہے: میں نے
امام عسکریؑ کو لکھا: میں آپ پر قربان! ہمارے لیے روایت کیا گیا ہے کہ
پیغمبرؐ کا دنیا میں سے
خمس کے سوا کوئی حصہ نہیں ہے۔ جواب آیا:
دنیا اور جو کچھ اس میں ہے، رسول خدا کیلئے ہے۔
پانچ: امام ہادیؑ کے سامنے کچھ حدیثی مجموعوں کو بھی پیش کرنے کی روایت ملتی ہے۔ سہل بن یعقوب بن اسحاق کہ جن کی کنیت ابو السری اور لقب ابو نؤاس ہے اور شیخ طوسیؒ نے انہیں امام ہادیؑ کے اصحاب میں سے شمار کیا ہے،
کو ایام کے
نحس و سعد ہونے سے متعلق احادیث کا مجموعہ ملتا ہے۔ اگرچہ انہوں نے یہ مجموعہ راویوں (مشائخ و شاگردان) کے توسط سے اخذ کیا ہے، مگر اسے امامؑ کی خدمت میں لے جاتے ہیں اور کہتے ہیں:
یا سیدی، قد وقع لی اختیارات الایام عن سیدنا الصادق (علیهالسّلام) مما حدثنی به الحسن بن عبدالله بن مطهر عن محمد بن سلیمان عن ابیه عن سیدنا الصادق (علیهالسّلام) فی کل شهر، فاعرضه علیک؟ فقال لی: افعل.
فلما عرضته علیه و صححته، قلت له: یا سیدی فی اکثر هذه الایام قواطع عن المقاصد، لما ذکر فیها من التحذیر والمخاوف..۔
اے میرے آقا! حسن بن عبد اللہ بن مطہر نے محمد بن سلیمان سے، انہوں نے محمد بن سلیمان سے، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے امام صادقؑ سے ہر مہینے کے ’’اچھے دنوں‘‘ کا حال نقل کیا ہے، یہ مجموعہ مجھے ملا ہے، کیا آپؑ کے سامنے پیش کروں؟! امامؑ نے فرمایا: پیش کرو۔ جب میں نے پیش کر دیا اور امامؑ نے اسے صحیح قرار دیا تو میں نے کہا: اے میرے آقا و سردار! ان میں سے اکثر ایام سے اس قدر خبردار کیا گیا ہے اور ڈرایا گیا ہے کہ انسان اپنی منزل مقصود تک جانے سے باز رہتا ہے۔۔۔ حدیث اس سے آگے بھی ہے اور امامؑ
اہل بیتؑ کی مخلصانہ ولایت کو راہ حل قرار دیتے ہیں۔
یہ مجموعہ، دیگر دو طریق سے بھی روایت ہوا ہے کہ
حر عاملی نے دونوں کو
وسائل الشیعہ میں نقل کیا ہے۔
ان دو میں سے ایک کے آخر میں شیخ حر عاملیؒ کا قول اس مجموعہ کی عظمت کی علامت ہے کہ جسے
سید بن طاؤس نے
الدروع الواقیۃ میں نقل کیا ہے۔ابن طاووس، رضی الدین علی، الدروع الواقیة، ص۴۷۔
کتاب «
یوم ولیلة» کو بھی امام ہادیؑ کے سامنے پیش کیا گیا ہے۔ ہادیؑ عرضه شده است.
[ترمیم]
عرضہ حدیث بر آئمہؑ؛
عرضہ حدیث بر امام علیؑ؛
عرضہ حدیث بر امام حسنؑ؛
عرضہ حدیث بر امام حسینؑ؛
عرضہ حدیث بر امام سجادؑ؛
عرضہ حدیث بر امام باقرؑ؛
عرضہ حدیث بر امام صادقؑ؛
عرضہ حدیث بر امام کاظمؑ؛
عرضہ حدیث بر امام رضاؑ؛
عرضہ حدیث بر امام جوادؑ؛
عرضہ حدیث بر امام عسکریؑ؛
عرضہ حدیث بر امام مہدیؑ.
[ترمیم]
[ترمیم]
سایت اندیشه قم، ماخوذ از مقالہ «عرضه حدیث بر امام هادی»، تاریخ نظر ثانی ۹۵/۰۱/۱۷۔