عصمت ایک راسخ قوت
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
عصمت ایک راسخ قوت ہے جو واجبات کو ترک کرنے اور
گناہ و اشتباہ او نسیان میں پڑنے سے روک دیتی ہے۔ اس راسخ قوت کو علمی اصطلاح میں
مَلَکہ کہا جاتا ہے۔
[ترمیم]
عصمت کے لغوی معنی منع کرنے اور روک دیئے جانے کے ہیں۔
عصمت کی اصطلاحی تعریف میں ظاہری طور پر اختلاف پایا جاتا ہے لیکن ان سب تعریفوں کا نتیجہ ایک نکلتا ہے اور وہ یہ کہ عصمت کی قوت کے سبب نبی یا امام گناہ کی قدرت و طاقت رکھنے کے باوجود ترکِ واجبات اور ارتکابِ محرمات سے محفوظ رہتا ہے۔
ذیل میں عصمت کی چند تعریفیں ذکر کی جاتی ہیں:
اکثر متکلمینِ امامیہ نے عصمت کو لطفِ الہی سے تعبیر کیا ہے، جیساکہ شیخ مفید اور دیگر علماءِ کلام نے تحریر کیا ہے:
العصمة لطف يفعله الله تعالى بالمكلف بحيث يمتنع منه وقوع المعصية و ترك الطاعة مع قدرته عليهما؛ عصمت لطف ہے جو اللہ تعالی مکلف کو عنایت کرتا ہے، اس کے ذریعے اللہ مکلف کو ارتکابِ معصیت اور ترکِ اطاعت سے روک دیتا ہے جبکہ مکلف ان دونوں کو انجام دینے کی قدرت کا مالک ہوتا ہے۔
عصمت سے مراد نفس میں ایک راسخ قوت و صلاحیت کا عملی طور پر حاصل ہونا ہے جس کے ذریعے واجبات کو ترک کرنے اور محرمات کو انجام دینے سے نفس محفوظ رہتا ہے۔ ملکہ نفسانی ایک اصطلاح ہے جس سے مراد نفس میں راسخ ہونے والی کیفیت ہے۔ اللہ تعالی اپنی حجت کو عصمت کی راسخ قوت سے نوازتا ہے اور اس کے ذریعے برائی اور خطاء و عصیان سے محفوظ رکھتا ہے۔ عصمت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ گناہ یا نسیان و فراموشی کی قدرت و قوت سلب کر لی گئی ہے، کیونکہ عصمت جبری طور پر گناہوں سے روکنے کا نام نہیں ہے۔ عصمت کا تعلق اختیار و ارادہ کے ساتھ ہے جس میں نفس کو حاصل ہونے والے ملَکہِ ربانی کی بدولت گناہوں اور اشتباہات سے محفوظ رہا جاتا ہے۔
عصمت کے بارے میں علمِ کلام اور عقائد کی کتابوں کے علاوہ بعض کتب فقہیہ میں اعتقادات اور حدود کے ابواب کے ذیل میں بحث کی گئی ہے۔
علامہ طباطبائی نے سورہ نساء آیت ۱۱۳ سے استدلال قائم کرتے ہوئے عصمت کی تعریف علم سے کی ہے کہ
عصمت ایک نوعِ علم ہے۔ ایسا علم جو صاحبِ علم کو معصیت اور خطاء میں پڑنے سے روک دیتا ہے۔ بالفاظِ دیگر اللہ تعالی ایسا علم عنایت فرماتا ہے جو گمراہی میں مبتلا ہونے سے مانع بن جاتا ہے، جیساکہ اخلاقیات کے باب میں دیکھتے ہیں، مثلا شجاعت، عفّت، سخاوت وغیرہ، ان میں سے ہر ایک ایسے علم کی صورت میں موجود ہوتی ہے جو مکمل راسخ ہو اور یہ راسخ علم ان اخلاقِ فاضلہ کے ظاہر اور آشکار ہونے کا سبب بنتا ہے اور ان کی ضد مثلا بزدلی، کنجوسی، فحاشی، اشتباہ و عصیان وغیرہ کی انجام دہی سے مانع بن جاتا ہے۔
اہل سنت متکلمین نے عصمت کی تعریف
لطف و توفیق کے عناوین کے ہمراہ ذکر کی ہے۔ اکثر اہل سنت متکلمین نے
عصمت سے مراد اطاعت کی قدرت کا خلق کرنا کیا ہے اور گناہ کی قدرت کا خلق نہ کرنے کو خذلان کا نام دیا ہے۔
اس صورت میں گناہ و معصیت سے بچنا لازمِ عصمت کہلائے گا۔ کیونکہ اللہ تعالی نے اطاعت کرنے کی قدرت و قوت خلق فرماتا ہے جس کا لازمہ یہ نکلتا ہے کہ اس کی نافرمانی و معصیت سے محفوظ رہا جائے۔ پس اللہ کی اطاعت کرنے سے لازم یہ آتا ہے کہ معصیت و گناہ سے محفوظ رہا جائے۔
[ترمیم]
شیعہ اثنا عشری کے نزدیک تمام انبیاء اور ان کے جانشین اوصیاء کی عصمت عقیدہ رکھنا ضروریاتِ دین میں سے ہے۔ اسی طرح بارہ آئمہِ اہل بیتؑ اور
جناب فاطمہ ؑ بھی مقام عصمت پر فائز ہیں۔
قرآن کریم میں آیت تطہیر واضح طور پر ان کی طہارت و عصمت کو بیان کرتی ہے۔
معصوم ہونے سے مراد یہ ہے کہ یہ ہستیاں ہر قسم کے گناہ، معصیت اور اشتباہ سے مبرّا و منزّہ ہیں۔ فرق نہیں پڑتا وہ گناہ صغیرہ ہے یا کبیرہ، وہ تمام گناہ حتی سہو و نسیان اور فراموشی و بھول پن سے بھی پاک و منزہ ہیں۔
انبیاء اور آئمہ علیہم السلام کی عصمت کا عقیدہ رکھنا واجب اور ضروری ہے۔ اگر کوئی شخص انبیاء و آئمہؑ کی عصمت میں شک کرے یا انکار کرے تو وہ تشیع سے خارج ہو جائے گا جیساکہ محمد تقی مجلسی نے لوامع
صاحبقرانی میں تصریح کی ہے اور صاحب جواہر کے کلام سے ظاہر ہوتا ہے۔
[ترمیم]
اجماعِ مکتب امامیہ اور نصوصِ متواتر سے ثابت ہوتا ہے کہ تمام فرشے معصوم ہیں۔
[ترمیم]
[ترمیم]
فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت علیہمالسلام، ج۵، ص۳۹۴، ماخوذ از مقالہ عصمت