فرعون پر حالت احتضار

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



فرعون نے حالتِ احتضار میں اور موت کی علامات کا مشاہدہ کرنے کے بعد سر تسلیم خم کر لیا۔ لیکن موت کے وقت ایمان فرعون بارگاہِ الہی میں قابل قبول قرار نہیں پایا اور اس کے ایمان کے دعوؤں نے اس کو کسی قسم کا فائدہ نہیں پہنچایا۔


وقت احتضار فرعون کا سرتسلیم خم کرنا

[ترمیم]

حضرت موسیؑ کا پیچھا کرتے ہوئے فرعون اور اس کا لشکر سمندر میں داخل ہو گیا اور اسی جگہ سمندر کی موجوں نے فرعون اور اس کے لشکر کو گرفت میں لے لیا اور سب کے سب ڈوپ کر ہلاک ہو گئے۔ فرعون نے جب موت کے آثار دیکھے اور پانی کی تہہ بہ تہہ موجوں سے بچانے کی سب راہیں بند پائیں تو ایمان و اسلام کا اظہار کرنے لگا۔ حالتِ احتضار میں ایمانِ فرعون نے اس کو کسی قسم کا کوئی فائدہ نہیں پہنچایا۔ سورہ یونس میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے: وَجاوَزْنا بِبَني‌ إِسْرائيلَ الْبَحْرَ فَأَتْبَعَهُمْ فِرْعَوْنُ وَ جُنُودُهُ بَغْياً وَ عَدْواً حَتَّى إِذا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ قالَ آمَنْتُ أَنَّهُ لا إِلهَ إِلاَّ الَّذي آمَنَتْ بِهِ بَنُوا إِسْرائيلَ وَ أَنَا مِنَ الْمُسْلِمين‌؛ اور ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر پار کر دیا، فرعون اور اس کے لشکر بغاوت اور دشمنی کے بل بوتے پر ان کے پیچھے پیچھے آئے یہاں تک کہ ڈوبنے نے اس کو گھیر لیا تو اس نے کہا میں ایمان لاتا ہوں، بے شک کوئی الہ و معبود نہیں ہے سوائے اس کے جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے اور میں مسلمانوں میں سے ہوں۔

حالت احتضار میں توبہ و ایمان قبول نہیں

[ترمیم]

قرآن کریم میں اللہ تعالی نے ضابطہ بیان فرمایا ہے کہ حالتِ احتضار اور موت طاری ہو جانے کے بعد نہ کسی کی توبہ قبول ہے اور نہ ایمان کا دعوی اس کو کوئی فائدہ اور نفع پہنچائے گا۔ قرآن کریم میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: وَ لَيْسَتِ التَّوْبَةُ لِلَّذينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئاتِ حَتَّى إِذا حَضَرَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قالَ إِنِّي تُبْتُ الْآنَ وَ لاَ الَّذينَ يَمُوتُونَ وَ هُمْ كُفَّارٌ أُولئِكَ أَعْتَدْنا لَهُمْ عَذاباً أَليما؛ اور ان لوگوں کے لیے توبہ نہیں ہے جو برائیاں انجام دیتے رہے ہیں یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی ایک کے سامنے موت آ جاتی ہے تو کہہ اٹھتا ہے: اب میں توبہ کرتا ہوں، اور (اسی طرح) نہ ہی ان لوگوں کے لیے توبہ ہے جو حالتِ کفر میں مر گئے ان کے لیے ہم نے دردناک عذاب رکھا ہے۔اس آیت کے ذیل میں امام جعفر صادقؑ سے منقول ہے کہ آپؑ فرماتے ہیں:ذَاكَ إِذَا عَايَنَ أَمْرَ الْآخِرَةِ؛ یہ اس وقت ہے جب وہ شخص آخرت کے امر کا معاینہ و مشاہدہ کر لے۔ اسی طرح ایک اور جگہ ارشادِ باری تعالی ہوتا ہے: يَوْمَ يَأْتي‌ بَعْضُ آياتِ رَبِّكَ لا يَنْفَعُ نَفْساً إيمانُها لَمْ تَكُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ أَوْ كَسَبَتْ في‌ إيمانِها خَيْراً؛ جس دن اس کی بعض نشانیاں (سامنے) آ جائیں گی تو جس نفس نے پہلے ایمان نہیں لایا تو (ایسی صورت میں) کسی نفس کو اس کا ایمان فائدہ نہیں بہنچائے گا، یا اپنے ایمان کے اس نے کسی خیر و بھلائی کو انجام نہیں دیا۔ امام رضاؑ نے اس آیت کریمہ سے استدلال کرتے ہوئے فرعون کے لفظی دعوے کو باطل قرار دیا اور ثابت کیا ہے کہ اللہ تعالی نے اس کے دعوی کو قبول نہیں کیا۔ سورہ غافر میں اللہ تعالی فرماتا ہے: فَلَمَّا رَأَوْا بَأْسَنا قالُوا آمَنَّا بِاللَّهِ وَحْدَهُ وَ كَفَرْنا بِما كُنَّا بِهِ مُشْرِكِينَ فَلَمْ يَكُ يَنْفَعُهُمْ إِيمانُهُمْ لَمَّا رَأَوْا بَأْسَنا؛ پس جب انہوں نے ہماری مصیبت کو دیکھا تو کہنے لگے ہم اللہ وحدہ پر ایمان لاتے ہیں اور اس کا انکار کرتے ہیں جس کا ہم شرک کیا کرتے تھے، لیکن ان کا ایمان انہیں کوئی نفع و فائدہ نہیں دے گا جب انہوں نے عذاب و بلاء کو دیکھ لیا۔اسی طرح فرعون کا بھی انجام ہوا کہ جب اس نے عذاب کی ہولناکی کو دیکھا تو فورا ایمان کا دعوی کرنے لگا۔ فرعون کے جرائم نے اس کو اس حد تک پہنچا دیا کہ قبولیتِ ایمان کا وقت گزار دینے کے بعد حالتِ احتضار اور موت کی حالت میں مجبورا ایمان کے دعوے کرنے لگا۔

فرعون کے ایمان کا بے فائدہ ہونا

[ترمیم]

قرآن کریم کی ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان فرعون نے اس کو کسی قسم کا فائدہ اور نفع نہیں پہنچایا۔ جب فرعون نے کہا کہ آمَنْتُ أَنَّهُ لا إِلهَ إِلاَّ الَّذي آمَنَتْ بِهِ بَنُوا إِسْرائيلَ وَ أَنَا مِنَ الْمُسْلِمين‌؛ میں ایمان لاتا ہوں، بے شک کوئی الہ و معبود نہیں ہے سوائے اس کے جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے اور میں مسلمانوں میں سے ہوں۔ اس پر اس کو جواب دیا گیا: آلْآنَ وَ قَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ وَ كُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدين‌؛ اب تم ایمان لاتے ہو جبکہ اس سے پہلے تم معصیت کار تھے اور تم مفسدین میں سے تھے۔ پس جب فرصت اور وقت مہیا تھا اس وقت فرعون ایمان نہیں لایا تھا اور جب حالتِ احتضار طاری ہو گئی اور موت کا وقت آ پہنچا تو وہ ایمان کے دعوے کرنے لگا۔ پس ایسی صورت میں ایمان فرعون بارگاہ الہی میں قابل قبول نہیں کیا گیا۔

گناہ سلب ایمان کا سبب

[ترمیم]

مصعیت اور فساد و جرائم توفیقات کے سلب ہونے کا باعث بنتے ہیں۔ فرعون کے جرائم اس کی بربادی اور ہلاکت کا باعث بنے۔ یہی معصیت اور فساد تھا جس کی وجہ سے حالتِ احتضار میں اللہ تعالی نے فرعون کا ایمان قبول نہیں کیا جیساکہ قرآن کریم نے واضح بیان کیا ہے کہ فرعون دشمنی اور بغاوت و سرکشی کی وجہ سے سمندر کی موجوں کے حوالے ہوا: سورہ یونس میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے: فَأَتْبَعَهُمْ فِرْعَوْنُ وَ جُنُودُهُ بَغْياً وَ عَدْواً حَتَّى إِذا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ ؛ فرعون اور اس کے لشکر بغاوت اور دشمنی کے بل بوتے پر ان کے پیچھے پیچھے آئے یہاں تک کہ ڈوبنے نے اس کو گھیر لیا۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. یونس/سوره۱۰، آیت ۹۰۔    
۲. نساء/سوره۴، آیت ۱۸۔    
۳. شیخ صدوق، محمد بن علی، من لا یحضرہ الفقیہ، ج ۱، ص ۱۳۳۔    
۴. انعام/سوره۶، آیت ۱۵۸۔    
۵. شیخ صدوق، محمد بن علی، علل الشرائع، ج ۱، ص ۵۹۔    
۶. غافر/سوره۴۰، آیت ۸۴-۸۵.    
۷. شیخ صدوق، محمد بن علی، عیون أخبار الرضاؑ، ج۱، ص ۸۳۔    
۸. یونس/سوره۱۰، آیت ۹۰۔    
۹. یونس/سوره۱۰، آیت ۹۱۔    
۱۰. یونس/سوره۱۰، آیت ۹۰۔    


مأخذ

[ترمیم]
مرکز فرہنگ و معارف قرآن، فرہنگ قرآن، ج۲، ص۳۵۲، برگرفتہ از مقالہ احتضار فرعون۔    
اس مقالہ میں ویکی فقہ اردو کی طرف سے بعض مطالب اضافہ کیے گئے ہیں۔


اس صفحے کے زمرہ جات : احتضار | فرعون | قرآنی موضوعات




جعبه ابزار