پیغمبر اعظمؐ کی جوانی کے حالات

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



پیغمبر اعظمؐ کی جوانی کے اہم ترین واقعات میں سے حلف الفضول میں شرکت، بھیڑ بکریوں کی نگرانی، کاروانِ تجارت میں شرکت، حضرت خدیجہؑ کے ساتھ ازدواج، امیر المومنینؑ کی ولادت اور حجر الاسود کو نصب کرنے کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔


حلف الفضول میں شرکت

[ترمیم]

حلف الفضول زمانہ جاہلیت میں عربوں کا بہت شاندار معاہدہ تھا جو بعثت سے قبل اور حرب فجار کے کچھ عرصے کے بعد سامنے آیا۔ سب سے پہلے اس کی تجویز پیغمبر اکرمؐ کے چچا زبیر بن عبد المطلب نے دی۔ یہ معاہدہ عبد اللہ بن جدعان نامی شخص کے گھر پر انجام پایا؛ یہ عمر رسیدہ شخص اشرافِ مکہ میں سے تھا اور بالکل شراب نوشی نہیں کرتا تھا۔
[۶] مسعودی، علی بن حسین، مروج الذهب، ج۴، ص۱۲۴.

نبی کریمؐ نے بیس سال کے تھے کہ جب اس پیمان میں شریک ہوئے۔ اس معاہدے میں یہ عزم ظاہر کیا گیا تھا کہ ہمیشہ حق کا دفاع کریں گے، مظلوم کا ساتھ دیں گے اور زندگی کے معاملات میں اس کی مدد کریں گے۔ رسول خداؐ سے روایت ہے کہ ہجرتِ مدینہ کے بعد فرمایا: لقد شهدت خلفا فی دار عبدالله بن جدعان لو دعیت الی مثله لاجبت و ما زاده الاسلام الا تشدیدا؛ میں نے عبد اللہ بن جدعان کے گھر میں ایک ایسے عہد و پیمان میں شرکت کی کہ اگر اسلام میں بھی ایسے معاہدے کی دعوت دی جاتی تو اسے قبول کر لیتا اور اسلام نے اسے مستحکم کرنے کے سوا اس میں کسی چیز کا اضافہ نہیں کیا۔
[۱۴] مسعودی، علی بن حسین، مروج الذهب، ج۱، ص۲۷۱.

پیغمبر اعظمؐ اس پیمان کا تذکرہ مسرت کے ساتھ فرماتے تھے: ما سرّنی بحلف شهدته فی دار‌ عـبد‌ اللّه بـن جدعان حمر النعم؛ عبد اللہ بن جدعان کے گھر میں ہونے والے پیمان میں شرکت سے مجھے جو خوشی ملی وہ سرخ اونٹوں سے بھی نہ ہوئی۔ ایک اور روایت میں فرماتے ہیں: شهدته و ما احبّ انّ لی به حمر النـعم؛ میں اس پیمان میں شریک تھا اور اس کے بدلے سرخ اونٹ لینا بھی مجھے پسند نہیں ہے۔
[۱۹] دحلان، احمد زینی، السیره النبویه، ج۱، ص۱۰۳.

حلف الفضول بنو امیہ اور عمرو عاص کے والد عاص بن وائل سہمی کے خلاف تھا لہٰذا ابوسفیان اور بنو امیہ کے دیگر افراد شریک نہیں تھے۔

نبی کریمؐ اور گلہ بانی

[ترمیم]

اہل سنت کے اکثر حدیثی و تاریخی منابع میں اس امر پر مبنی روایات منقول ہیں کہ رسول خداؐ اپنی جوانی کے دوران کچھ عرصے تک گلہ بانی کرتے رہے۔ مثلا بخاری نے اپنی صحیح میں ابو ہریرہ سے روایت نقل کی ہے کہ رسول خداؐ نے فرمایا: ما بعث الله نبیا الا راعی الغنم، قال له اصحابه و انت یا رسول الله؟ قال: نعم، و انا رعیتها لاهل مکه علی قراریط؛ خدا نے کوئی پیغمبرؐ نہیں بھیجا مگر یہ کہ اس نے گلہ بانی کی۔ اصحاب نے عرض کیا: کیا آپؐ نے بھی یہ کام کیا تھا؟! فرمایا: جی ہاں! میں بھی اہل مکہ کیلئے چند قیراط کے بدلے بھیڑ بکریاں چراتا رہا۔ اس روایت کی نظیر حدیث و سیرت کی دیگر کتب میں بھی نقل ہوئی ہے؛ چونکہ یہ روایات بہت سے اہل سنت کے نزدیک مقبول ہیں اور وہ ان کی سند یا متن میں کوئی تردید پیدا نہیں کر سکے تو انہوں نے اصل بات کو قبول کر لیا مگر اس کی عارفانہ اور فلسفیانہ تاویلات پیش کرنا شروع کر دیں۔ شیعہ منابع میں بھی اس سے ملتی جلتی روایات موجود ہیں، تاہم ان کی سند اور متن پر معمولی نوعیت کی تنقید بھی ملتی ہے۔
ایک جھوٹی روایت جو ’’مکیان‘‘ کیلئے پیغمبرؐ کی گلہ بانی پر دلالت کرتی ہے؛ یہ تاریخ طبری میں منقول توہین آمیز داستان ہے جو عصمت پیغمبرؐ سے متصادم ہے اور اسے گھڑنے کا مقصد دراصل پیغمبرؐ کی شخصیت کو داغدار کرنا ہے۔ اس جعلی روایت میں پیغمبرؐ کہتے ہیں: میں نے زمانہ جاہلیت کے کاموں میں سے کسی کام کو انجام دینے کا ارادہ نہیں کیا مگر دو بار اور پھر اس کے بعد کسی برے کام کا ارادہ نہیں کیا؛ یہاں تک کہ خدائے عزوجل نے مجھے رسالت کا افتخار نصیب فرمایا۔ یہ داستان یوں ہے کہ ایک رات میں نے قریش کے ایک لڑکے کو کہ جو مکہ کے بالائی حصے میں میرے ساتھ بکریاں چرا رہا تھا؛ کہا: کتنا اچھا ہو اگر تو میری بکریوں کی نگرانی کرے اور میں مکہ جاؤں اور مکہ کے جوانوں کی طرح ایک رات شب بیداری اور قصہ گوئی میں گزاروں! ۔۔۔۔ اس رات میں نے دف اور بانسری کی آواز سنی اور انہیں دیکھنے بیٹھ گیا مگر خدا نے میرے کان کو بند کر دیا اور مجھے نیند آ گئی۔ خدا کی قسم! سورج کی گرمائش کے سوا مجھے کسی چیز نے بیدار نہیں کیا۔
پیغمبرؐ کا معاذ اللہ ساز کو سننا اور رقص اور گانے بجانے کو دیکھنا، صحیح بخاری کی مختلف احادیث میں حتی بعثت کے بعد بھی منقول ہے؛ جیسے عائشہ کی روایت اور حبشیوں کی پیغمبرؐ کے سامنے رقص کی روایت حالانکہ قرآن کریم اور متعدد روایات میں لہو و لعب اور گانے بجانے کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ اس قسم کی احادیث کا من گھڑت اور جعلی ہونا، شیعہ کے نزدیک واضح اور مسلم ہے۔

کاروان تجارت میں پیغمبرؐ کی شرکت

[ترمیم]

حضرت خدیجہ بنت خویلد بن اسد بن عبد العزی بن قصی بن کلاب عام الفیل سے ۱۵ سال پہلے پیدا ہوئیں۔ لہٰذا حضرت خدیجہؑ کی جزیرۃ العرب میں ولادت پیغمبرؐ کی ولادت سے ۱۵ سال پہلے ہوئی۔.
بچپن اور نوجوانی سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے تک اور حتی اس کے بعد بھی آپؑ کے بارے میں کم معلومات دستیاب ہیں؛ نیز آپؑ کے حالات پر مبنی تاریخی روایات میں تحریف اور قصہ گو راویوں کی دخل اندازی بھی دکھائی دیتی ہے اور ان میں اسرائیلیات کی آمیزش ہے۔
حضرت خدیجہؑ اپنے سرمائے کے ساتھ تجارت میں حصہ لیتی تھی۔ تجارت کیلئے آپؑ خود سفر نہیں کرتی تھیں بلکہ کچھ لوگوں کو اجرت پر مقرر کرتی تھیں تاکہ اس زمانے کی بڑی منڈیوں میں جا کر تجارتی سامان کی خرید و فروخت کریں ۔ رسول خداؐ نے بھی جناب خدیجہؑ کی درخواست پر اس کام کیلئے رخت سفر باندھا۔ یوں پیغمبر اکرمؐ کی حضرت خدیجہؑ سے آشنائی کا پہلا عامل تجارتی معاملات تھے۔ بعض کے نزدیک حضرت ابو طالبؑ کی تلقین پر آنحضورؐ اور حضرت خدیجہؑ کے مابین تجارتی شراکت داری قائم ہوئی تھی۔ تاہم ابن اسحاق سے منقول ایک روایت میں ہے کہ جناب خدیجہؑ نے حضرت محمدؐ کی امانتداری اور دیانت داری کے بارے میں سن رکھا تھا، اس لیے انہوں نے یہ عزم کیا کہ بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کریں جس کیلئے انہوں نے آنحضورؐ سے درخواست کی کہ ان کے کاروان کے ساتھ ملحق ہو جائیں اور دوسروں سے زیادہ اجرت حاصل کریں۔
[۴۱] طبری، احمد بن عبداللّه، السَّمط الثَّمین فی مناقب اُمّهات المؤمنین، ج۱، ص۱۱ـ۱۲.
ان معاہدوں میں پیغمبر اکرمؐ کی اجرت دوسروں کی نسبت دوگنا زیادہ مقرر ہوئی؛ انا اعطیک‌ ضعف‌ ما‌ اعطی قومک یا دو مادہ اونٹ (قد استاجرته خدیجة علی‌ ان‌ تـعطیه بـکرین یا جُرَش کے علاقے میں ہر بار سفر کے بدلے ایک جوان اونٹ کا معاوضہ طے پایا ۔استاجرت خدیجة رسـول اللّه (صـلی الله علیه وآله) سفرتین الی جرش، کلّ سفرة بقلوص‌.

تجارت‌ کے مقامات

[ترمیم]

پیغمبر اکرمؐ کے تجارتی سفروں کے حالات سے متعلق تاریخی و روائی منابع میں ان علاقوں کا نام ذکر کیا گیا ہے کہ جہاں پیغمبرؐ حضرت خدیجہؑ کے مال کیساتھ تجارت اور لین دین کی غرض سے تشریف لے گئے تھے۔ حضرت محمدؐ نے جناب خدیجہؑ کیلئے زیادہ سے زیادہ پانچ تجارتی سفر؛ چار یمن کی طرف اور ایک شام کی طرف انجام دئیے۔
یہ علاقے درج ذیل ہیں:

← حُباشَہ


تاریخی منابع کی رو سے آنحضرتؐ کی سربراہی میں حضرت خدیجہؑ کے پہلے تجارتی قافلے کے تھامہ کی جانب سفر کی پہلی منزل یمن کا بازارِ حباشہ تھی۔
[۵۲] طبری، احمد بن عبداللّه، السَّمط الثَّمین فی مناقب اُمّهات المؤمنین، ج۱، ص۱۲.
حُباشہ زمانہ جاہلیت میں عربوں کا ایک بازار تھا۔ استاجرته‌ خدیجة‌ بنت خویلد الی سوق حباشه و هو سوق بـتهامه؛ خدیجہ بنت خویلد نے رسول خداؐ کی خدمات حاصل کیں تاکہ تھامہ کے علاقے میں واقع بازار حباشہ کی طرف روانہ ہوں۔ نبی کریمؐ اپنے تجارتی شریک سائب بن ابی سائب، صیفی بن عابد اور حضرت خدیجہؑ کے غلام میسرہ کے ہمراہ حباشہ کے بازار کی طرف روانہ ہوئے اور کامیابی سے واپس آئے۔
ایک روایت میں نبی کریمؐ فرماتے ہیں: لمّا رجعنا من سوق حباشة قلت لصاحبی: انطق بـنا نـتحدّث عـند‌ خدیجه؛
رسول خداؐ نے فرمایا: جب ہم حباشہ کے بازار سے واپس آئے تو میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ آؤ، خدیجہ کے پاس جائیں اور اس کے ساتھ تبادلہ خیال کریں۔

← شـام


پیغمبر اکرمؐ کا جناب خدیجہؑ کیلئے اہم ترین تجارتی سفر شام کا تھا جس کے بعد آپؐ ان کے ساتھ رشتہ تزویج میں منسلک ہو گئے۔ اس کی اہمیت کے پیش نظر اکثر منابع نے صرف اس سفر کے ذکر پر اکتفا کیا ہے اور اسے آنحضرتؐ کے جناب خدیجہؑ کے ساتھ تعاون کی ابتدا قرار دیا۔ بظاہر آنحضرتؐ کا پہلا سفر تھامہ کے بازارِ حُباشہ میں تھا
[۶۳] طبری، احمد بن عبداللّه، السَّمط الثَّمین فی مناقب اُمّهات المؤمنین، ج۱، ص۱۲.
اور شام کا سفر دوسرا یا تیسرا تھا؛ چونکہ حضرتؐ نے یمن کے علاقے جُوَش کا سفر بھی کیا تھا۔
ابن شہر آشوب مناقب میں لکھتے ہیں: و کان النبی قد استاجرته خدیجة علی ان‌ تعطیه بکرین و یسیر مع غـلامها میسرة الی الشام؛ جناب خدیجہؑ نے رسول خداؐ کی خدمات حاصل کیں تاکہ ان کے خادم میسرہ کے ساتھ تجارت کی غرض سے شام کا سفر کریں اور اس کے بدلے دو اونٹ اجرت کے طور پر حاصل کیے اور ایک دوسرے مقام پر کہتے ہیں: و خرج الی الشام فی تجارته لخدیجة و له خمس و عشرون سـنة؛ رسول خداؐ پچیس سال کے سن میں خدیجہ کے مال کیساتھ شام کے سفر پر تشریف لے گئے۔ دیگر منابع میں آیا ہے: بعثت الیه فعوضت‌ علیه‌ ان یخـرج فی مالها تاجراً الی الشام؛ جناب خدیجہؑ نے رسول خداؐ کے پاس کسی کو بھیجا اور ان سے درخواست کی کہ ان کے سرمائے کیساتھ تجارت کیلئے شام کا سفر کریں۔ اس سفر کے بعد جناب خدیجہؑ آنحضورؐ کی معترف ہو گئیں۔

← بُصری


بعض منابع میں پیغمبرؐ کے تجارتی قافلے کی منزل بصری شام کے نزدیک واقع ایک مقام بتایا گیا ہے۔ فخرج مع غلامها میسرة و جعل عمومته یوصون به اهل العیر حتی قد مـا‌ بـصری‌ من الشام؛ پیغمبرؐ جناب خدیجہؑ کے خادم میسرہ کے ہمراہ شام پہنچ گئے۔ روانگی سے قبل آپ کے چچاؤں نے اہل کاروان کو آپؐ کا خیال رکھنے کی تلقین کی تھی۔ ابن سعد طبقات الکبریٰ میں لکھتے ہیں: وخرج الی سوق بصری‌ فباع‌ سـلعته التـی اخرج و اشتری غیرها؛ پیغمبرؐ بصری کے بازار میں تشریف لے گئے اور اپنا سامان تجارت فروخت کر دیا اور نیا سامان خرید لیا۔

← جُرَش


جرش یمن میں واقع شہر کا نام ہے جو مکہ کی طرف سے یمن کی آبادی کا حصہ شمار ہوتا تھا۔ ایک دوسری روایت میں منقول ہے کہ خدیجہؑ نے رسول خداؐ کی خدمات دو مرتبہ حاصل کیں کہ وہ جُرَش کی طرف سفر کریں اور ہر سفر کے بدلے آپؐ کو ایک جوان اونٹ بطور معاوضہ دیا۔استاجرت خدیجة رسول اللّه سـفرتین الی جـرش، کل سـفرة بقلوص؛ خدیجہؑ نے دو مرتبہ رسول خداؐ کی خدمات حاصل کیں تاکہ جرش کے علاقے کی طرف سفر کریں اور ہر سفر کے بدلے ایک جوان اونٹ اجرت کے طور پر دیا۔

تجارتی سفر کے واقعات

[ترمیم]

پیغمبرؐ نے جناب خدیجہؑ کے سرمائے سے جو تجارتی سفر انجام دئیے، اس کے دوران کچھ ایسے واقعات رونما ہوئے جنہیں تاریخ و سیرت کی کتابوں میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔
ابن شہر آشوب نے ایک مرسل خبر میں بیان کیا ہے: خدیجہ، نے پیغمبرؐ کی اس شرط پر خدمات حاصل کیں کہ وہ ان کے خادم میسرہ کے ساتھ شام کے سفر پر جائیں اور اس کے معاوضے میں وہ دو جوان اونٹ دیں گی۔
جب وہ سفر پر روانہ ہوئے تو رسول خداؐ ایک درخت تلے تشریف فرما ہوئے اور نسطور نامی راھب آپؐ کے استقبال کیلئے آیا اور آپ کے ہاتھ پاؤں چومنے لگا اور کہا: اشهد‌ ان لا اله الاّ اللّه و اشهد انّ محمّداً رسول اللّه... پھر اس نے میسرہ کو دیکھ کر کہا: ان کے اوامر و نواہی کی پیروی کرو کیونکہ وہ پیغمبرؐ ہیں ۔۔۔ اور عیسیؑ نے انہی کی بشارت دی ہے ۔۔۔۔ میسرہ خدیجہ کے پاس آئے اور انہیں پیغمبرؐ کے حالات سے باخبر کیا اور کہا: جب میں اور وہ کھانا کھاتے تھے تو سیر ہو جاتے تھے مگر کھانا اسی طرح باقی رہتا! اسی طرح میں نے دیکھا کہ نصف النھار میں دو فرشتے ان پر سایہ کیے ہوئے تھے۔ دیگر منابع میں بھی یہ داستان معمولی فرق کے ساتھ مذکور ہے۔ قطب راوندی نے تجارتی سفر میں پیش آنے والے واقعات بیان کرتے ہوئے راھب کا نام ’’بحیرا‘‘ لکھا ہے۔
شیخ صدوقؒ سے منقول ایک دوسری روایت میں پیغمبر اکرمؐ کے بصری کی طرف سفر کا ماجرا بیان کیا گیا ہے۔ اس روایت کے مطابق ابو المویھب نامی راہب نے آنحضرتؐ کے ساتھ کاروان میں آنے والے اشخاص عبد مناۃ اور نوفل سے آپؐ کے بارے میں دریافت کیا۔ انہوں نے جواب میں کہا: ہم نے پیغمبرؐ کو بصری کے بازار میں چھوڑا تھا، اتنے میں رسول خداؐ واپس آ گئے اور ابو المویھب نے کہا: یہ وہی ہیں اور کچھ دیر تک آنحضرتؐ کے ساتھ علیٰحدگی میں ملاقات اور گفتگو کی۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. ابن‌کثیر دمشقی، اسماعیل بن عمر، البدایه و النهایه، ج۲، ص۳۵۵۔    
۲. ابن ‌ابی‌الحدید، ابوحامد عبد‌الحمید، شرح نهج‌ البلاغه، ج۱۵، ص۲۰۴۔    
۳. بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ج۲، ص۱۱۔    
۴. یعقوبی، احمد بن اسحاق، تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۱۷۔    
۵. ابن‌کثیر دمشقی، اسماعیل بن عمر، البدایه و النهایه، ج۲، ص۳۵۵۔    
۶. مسعودی، علی بن حسین، مروج الذهب، ج۴، ص۱۲۴.
۷. ابن سعد بغدادی، محمد بن سعد، طبقات الکبری، ج۱، ص۱۰۳۔    
۸. یعقوبی، احمد بن اسحاق، تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۱۷۔    
۹. یعقوبی، احمد بن اسحاق، تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۱۷۔    
۱۰. ابن سعد بغدادی، محمد بن سعد، طبقات الکبری، ج۱، ص۱۰۳۔    
۱۱. یعقوبی، احمد بن اسحاق، تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۱۷۔    
۱۲. یعقوبی، احمد بن اسحاق، تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۱۷۔    
۱۳. مسعودی، علی بن حسین، التنبیه و الاشراف، ص۱۸۰۔    
۱۴. مسعودی، علی بن حسین، مروج الذهب، ج۱، ص۲۷۱.
۱۵. یعقوبی، احمد بن اسحاق، تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۱۸۔    
۱۶. بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ج۲، ص۱۲۔    
۱۷. ابن ‌ابی‌الحدید، ابوحامد عبد‌الحمید، شرح نهج‌ البلاغه، ج۱۴، ص۱۳۰۔    
۱۸. امین عاملی، سید محسن، اعیان الشیعه، ‌ج۱، ص۲۱۵۔    
۱۹. دحلان، احمد زینی، السیره النبویه، ج۱، ص۱۰۳.
۲۰. ابن اثیر، ابوالحسن علی بن ابی الکرم، الکامل فی التاریخ، ج۲، ص۴۱۔    
۲۱. ابن هشام حمیری، عبدالملک بن هشام، السیره النبویه، ‌ج۱، ص۱۳۴۔    
۲۲. یعقوبی، احمد بن اسحاق، تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۱۷۔    
۲۳. ابن ‌ابی‌الحدید، ابوحامد عبد‌الحمید، شرح نهج‌ البلاغه، ج۱۵، ص۲۰۳۔    
۲۴. بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح بخاری، ج۳، ص۸۸۔    
۲۵. علامه مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۱۱، ص۶۵۔    
۲۶. شیخ صدوق، محمد بن علی، علل الشرائع، ج۱، ص۳۲۔    
۲۷. طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، ج۲، ص۳۴۔    
۲۸. بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح بخاری، ج۵، ص۶۷۔    
۲۹. بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح بخاری، ج۴، ص۳۸۔    
۳۰. لقمان/سوره۳۱، آیه۶۔    
۳۱. ابن هشام حمیری، عبدالملک بن هشام، السیره النبویه، ج۱، ص۱۸۹۔    
۳۲. ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، الاصابه فی تمییز الصحابه، ج۸، ص۹۹۔    
۳۳. ابن سعد بغدادی، محمد بن سعد، طبقات الکبری، ج۱، ص۱۰۶۔    
۳۴. بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ج۱، ص۹۸۔    
۳۵. مقدسی، مطهر بن طاهر، البدء و التاریخ، ج۵، ص۱۰۔    
۳۶. ابن سعد بغدادی، محمد بن سعد، طبقات الکبری، ج۱، ص۱۰۴۔    
۳۷. بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ج۱، ص۹۷۔    
۳۸. ابن اسحاق مطلبی، محمد ابن اسحاق، السیر و المغازی، ج۱، ص۸۱-۸۲۔    
۳۹. ابن سعد بغدادی، محمد بن سعد، طبقات الکبری، ج۱، ص۱۰۴۔    
۴۰. ابن هشام حمیری، عبدالملک بن هشام، السیره النبویه، ج۱، ص۱۸۷-۱۸۸۔    
۴۱. طبری، احمد بن عبداللّه، السَّمط الثَّمین فی مناقب اُمّهات المؤمنین، ج۱، ص۱۱ـ۱۲.
۴۲. ابن سعد بغدادی، محمد بن سعد، طبقات الکبری، ج۸، ص۱۵۔    
۴۳. ابن عساکر، علی بن حسن، تاریخ مدینه الدمشق، ج۳، ص۱۵۔    
۴۴. نورالدین حلبی، علی بن ابراهیم، السیره الحلبیه، ج۱، ص۱۹۳۔    
۴۵. یوسفی، محمد‌هادی، موسوعة التاریخ الاسلامی، ج۱، ص۳۲۷۔    
۴۶. علامه مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۱۶، ص۴۔    
۴۷. حلی، علی بن یوسف، العدد القویه، ج۱، ص۱۴۲۔    
۴۸. ابن شهرآشوب، محمد بن علی‌، مناقب آل ابی‌طالب (علیهم‌السّلام)، ج۱، ص۳۸۔    
۴۹. حاکم نیشابوری، محمد بن عبدالله، المستدرک علی الصحیحین، ج۳، ص۲۰۰۔    
۵۰. نورالدین حلبی، علی بن ابراهیم، السیره الحلبیه، ج۱، ص۱۹۷۔    
۵۱. نورالدین حلبی، علی بن ابراهیم، السیره الحلبیه، ج۱، ص۱۹۷۔    
۵۲. طبری، احمد بن عبداللّه، السَّمط الثَّمین فی مناقب اُمّهات المؤمنین، ج۱، ص۱۲.
۵۳. ابن سید الناس، محمد بن محمد، عیون الاثر، ج۱، ص۶۴۔    
۵۴. یاقوت حموی، یاقوت بن عبدالله، معجم البلدان، ج۱، ص۱۰۔    
۵۵. یوسفی، محمد‌هادی، موسوعه التاریخ الاسلامی، ج۱، ص۳۲۷۔    
۵۶. علامه مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۱۶، ص۹۔    
۵۷. ابوبکر بیهقی، احمد بن حسین، دلائل النبوه، ج۱، ص۸۵۔    
۵۸. تقی‌الدین مقریزی، احمد بن علی، امتاع الاسماع، ج۱، ص۱۱۰۔    
۵۹. نورالدین حلبی، علی بن ابراهیم، السیره الحلبیه، ج۱، ص۱۹۸۔    
۶۰. علی، جواد، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ج۱۴، ص۹۵۔    
۶۱. دولابی رازی، محمد بن احمد، الذریه الطاهره النبویه، ج۱، ص۴۹۔    
۶۲. ابوبکر بیهقی، احمد بن حسین، دلائل النبوه، ج۱، ص۹۰۔    
۶۳. طبری، احمد بن عبداللّه، السَّمط الثَّمین فی مناقب اُمّهات المؤمنین، ج۱، ص۱۲.
۶۴. ابن سید الناس، محمد بن محمد، عیون الاثر، ج۱، ص۶۴۔    
۶۵. نورالدین حلبی، علی بن ابراهیم، السیره الحلبیه، ج۱، ص۱۹۷۔    
۶۶. ابن شهرآشوب، محمد بن علی‌، مناقب آل ابی‌طالب (علیهم‌السّلام)، ج۱، ص۳۸۔    
۶۷. ابن شهرآشوب، محمد بن علی‌، مناقب آل ابی‌طالب (علیهم‌السّلام)، ج۱، ص۱۴۹۔    
۶۸. دولابی رازی، محمد بن احمد، الذریه الطاهره النبویه، ج۱، ص۴۷۔    
۶۹. ابن هشام حمیری، عبدالملک بن هشام، السیره النبویه، ج۱، ص۱۸۷۔    
۷۰. ابن سعد بغدادی، محمد بن سعد، طبقات الکبری، ج۱، ص۱۰۵۔    
۷۱. ابن اثیر، ابوالحسن علی بن ابی الکرم، اسد الغابه فی معرفه الصحابه، ج۵، ص۴۳۵۔    
۷۲. ابن سعد بغدادی، محمد بن سعد، طبقات الکبری، ج۱، ص۱۲۴‌۔    
۷۳. ابن سعد بغدادی، محمد بن سعد، طبقات الکبری، ج۱، ص۱۰۴‌۔    
۷۴. ابن سعد بغدادی، محمد بن سعد، طبقات الکبری، ج۱، ص۱۲۴۔    
۷۵. یاقوت حموی، یاقوت بن عبدالله، معجم البلدان، ج۲، ص۱۲۶۔    
۷۶. حاکم نیشابوری، محمد بن عبدالله، المستدرک علی الصحیحین، ج۳، ص۲۰۰۔    
۷۷. نورالدین حلبی، علی بن ابراهیم، السیره الحلبیه، ج۱، ص۱۹۷۔    
۷۸. ابن شهرآشوب، محمد بن علی‌، مناقب آل ابی‌طالب (علیهم‌السّلام)، ج۱، ص۳۹۔    
۷۹. ابن اسحاق مطلبی، محمد ابن اسحاق، السیر و المغازی، ج۱، ص۸۱‌۔    
۸۰. ابن سعد بغدادی، محمد بن سعد، طبقات الکبری، ج۱، ص۱۲۴۔    
۸۱. قطب الدین راوندی، سعید بن هبة الله، الخرائج و الجرائح، ج۱، ص۱۴۰۔    
۸۲. شیخ صدوق، محمد بن علی، کمال الدّین وتمام النّعمه، ج۱، ص۱۹۰۔    


ماخذ

[ترمیم]







جعبه ابزار