بریر بن خضیر ہمدانی
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
بُرَیر بن خُضَیر ہمدانی
یمن کے ایک قبیلہ
ہَمۡدَان سے تعلق رکھتے ہیں اور
مِشۡرَق سے منسوب ہیں۔ قبیلہ ہمدان کی ایک شاخ بنی
مشرَق ہے جوکہ
کوفہ میں آباد ہوا جس سے بریر بن خضیر کا تعلق ہے۔ آپ
امام علی اور امام حسین علیہما السلام کے جانثار اصحاب میں سے ہیں جنہوں نے اپنے وجود کو کربلا میں امام حسینؑ پر قربان کر کے شہادت کے عظیم مرتبہ پر فائز ہوئے۔ آپ کے بارے میں وارد ہوا ہے کہ آپ انتہائی
عبادت گزار، متقی و زاہد تھے اور اپنے زمانے کے بڑے قاریوں میں سے تھے یہاں تک آپ کو سید القراء کہا جاتا تھا۔
[ترمیم]
سیرت نگاروں اور تاریخ نویسوں نے آپ کے عنوان کے ذیل میں متعدد نام ذکر کیے ہیں۔ آپ کے ناموں کے ذیل میں بریر بن خضیر،
بریر بن حضیر،
بدیر بن حفیر
اور بریر بن حصین
کے نام وارد ہوئے ہیں۔ بعض کتب میں یزید بن حصین نام بھی ذکر کیا گیا ہے۔
[ترمیم]
بعض کتبِ تاریخ و رجال میں جناب بریر کے والد کا نام حضیر کی بجائے حصین وارد ہوا ہے جوکہ ظاہری طور پر اشتباہ ہے۔ اس کی دلیل جناب بریر کے رجز ہیں جو انہوں نے میدانِ کربلا میں دشمن سے
قتال کے وقت پڑھے اور اس میں ان کے والد گرامی کا نام حضیر ذکر کیا گیا ہے جس کا
قافیہ خیر وارد ہوا ہے۔
[ترمیم]
بریر بن حضیر عابد،
زاہد اور
اللہ کے صالح بندوں میں سے تھے اور شیخ التابعین و سید الناسکین میں سے تھے۔
آپ کا شمار امام علیؑ کے اصحاب اور ان کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا تھا۔ آپ
کوفہ میں سکونت پذیر تھے۔ اہل کوفہ آپ کو کوفہ کے با شرف و با عزت بزرگان میں شمار کرتے تھے۔
آپ کی نمایاں صفات میں سے ایک صفت آپ کا قاریِ
قرآن ہونا ہے۔ کوفہ کی معروف جامع
مسجدِ کوفہ میں آپ
قرآن کریم کی تدریس و تعلیم دیا کرتے اور قراءتِ قرآن میں شہرت رکھتے تھے جس کی وجہ سے آپ کا لقب سید القراء پڑ گیا۔
[ترمیم]
آپ کو سید القرّاء کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔
شیخ صدوق نے آپ کو اپنے زمانے کے معروف اور شہرت یافتہ قراء میں شمار کیا ہے۔
[ترمیم]
بعض علماء رجال نے آپ کی طرف ایک کتاب کی نسبت دی ہے جس کا نام
القضایا و الأحکام ہے۔
معروف رجالی
عبد اللہ مامقانی نے ذکر کیا ہے کہ بریر بن خضیر کی کتاب القضایا والاحکام میں جو مطالب قلمبند کیے گئے ہیں وہ جناب بریر نے امام علیؑ اور
امام حسن مجتبیؑ سے اخذ کیے تھے اور انہی کے فرامین پر یہ کتاب مشتمل تھی۔
مامقانی نے اس کتاب کو مکتبِ تشیع کے اصولِ معتبر میں شمار کیا ہے لیکن ان کے برخلاف
سید محسن الامین اور
شیخ تستری نے مامقانی کے اس قول کا انکار کیا ہے اور یہ دلیل دی ہے کہ اس کتاب اور اس کے نام کا تذکرہ اہم مصادر مثل
رجال النجاشی و فہرست طوسی وغیرہ میں کسی جگہ وارد نہیں ہوا۔
[ترمیم]
بریر بن خضیر
امام حسینؑ کے با وفا اور استقامت کا مظاہرہ کرنے والے اصحاب میں سے ہیں جوکہ کربلا پہنچنے میں کامیاب ہوئے اور آپ نے انتہائی شجاعت و جوانمردی کے ساتھ امام حسینؑ کی نصرت فرمائی۔ امام حسینؑ نے جب
مدینہ سے مکہ کی طرف سفر شروع کیا تو اس کی خبر بریر بن حضیر کو پہنچ گئی۔ آپ نے جیسے یہ خبر سنی اسی وقت تیاری پکڑی اور کوفہ سے
مکہ کی طرف سفر شروع کر دیا یہاں تک کہ آپ
امام حسینؑ کے ساتھ مکہ مکرمہ میں ملحق ہو گئے۔
وارد ہوا ہے کہ کوفہ سے دو مرحلہ باقی رہتے تھے کہ
حر بن یزید ریاحی اور اس کے ایک ہزار گھوڑ سواروں نے امام حسینؑ کو گھیر لیا۔ امام حسینؑ نے لشکرِ حر سے کہا کہ تم ہمارے
حق میں ہو یا ہمارے مخالف؟ حر نے کہا: اے ابا عبد اللہؑ! ہم آپ کے مخالف ہیں۔ امام حسینؑ نے یہ کلمات زبانِ اقدس پر جاری فرمائے:
لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيم۔ پھر امام حسینؑ اور حُر کے درمیان گفتگو ہوتی رہی یہاں تک کہ امام حسینؑ نے فرمایا: جو پیغام تمہارے خطوط نے مجھ تک پہنچایا تھا اور جس پیغام کو لے کر تمہارے نمائندے میرے پاس آئے تھے اگر تم اس کے خلاف ہو تو میں واپس اسی جگہ لوٹ جاتا ہوں جہاں سے آیا ہوں۔ حر اور اس کے لشکر نے امام حسینؑ کو ایسا کرنے سے روک دیا اور حُر نے کہا: اے فرزندِ رسولؑ ایسا راستہ اختیار کریں جو آپ کو نہ کوفہ لے کر جاتا ہو اور نہ
مدینہ تاکہ میں
ابن زیاد کے سامنے جواز پیش کر سکوں کہ آپ میرے مخالف راستے پر
سفر کر رہے تھے۔ امام حسینؑ ایک طرف نکل پڑے اور کوفہ کے قریب ایک جگہ جسے
عُذَیۡبُ الۡہَجَانَات کہا جاتا ہے تک پہنچ گئے۔ اتنے میں ابن زیاد کا خط حر بن یزید کے نام آیا جس میں امام حسینؑ کے معاملے میں اس کو ملامت کی گئی تھی اور ابن زیاد نے حکم دیا کہ امام حسینؑ کے گرد گھیراؤ تنگ کر دیا جائے۔ حر نے اس مکتوب کی وجہ سے امام حسینؑ کا گھیراؤ کر لیا۔ امام حسینؑ نے اس سے فرمایا: کیا تم نے مجھے راستہ تبدیل کرنے کا نہیں کہا تھا؟ اس نے کہا: کیوں نہیں لیکن عبید اللہ بن زیاد کا مکتوب مجھ تک پہنچا جس میں مجھے
حکم دیا ہے کہ میں آپ کا گھیراؤ کر لو، ابن زیاد نے اپنے
جاسوس اور بندے ہمارے درمیان چھوڑے ہوئے ہیں جس کے دباؤ کی وجہ سے مجھے ایسا کرنا پڑ رہا ہے۔
جب امام حسینؑ کا محاصرہ کیا گیا تو امام حسینؑ نے اپنے اصحاب سے ایک خطاب فرمایا جس میں آپؑ نے پڑنے والی
مصیبت کی طرف اشارہ فرمایا اور
دنیا کی بے ثباتی کا تذکرہ کیا اور اصحاب کو ابھارا کہ تم لوگ دیکھ رہے ہو کہ
حق پر عمل نہیں کیا جا رہا اور
باطل سے منع نہیں کیا جا رہا۔ امام حسینؑ نے اپنے اصحاب کے سامنے دوبارہ اپنا موقف واضح کیا کہ میں
موت کو سعادت سمجھتا ہوں اور ظالمین کے ساتھ زندگی کو ہلاکت و بربادی سمجھتا ہوں۔ جب آپؑ نے خطاب ختم کیا تو بعض اصحاب کھڑے ہوئے اور اپنے وفا و استقامت کا اظہار کرتے ہوئے امامؑ کا ساتھ دینے کی یقین دہانی کرانے لگے۔ پہلے جناب
زہبر بن قین کھڑے ہوئے، ان کے بعد
ہلال بن نافع اور ان کے بعد بربر بن خضیر کھڑے ہوئے۔ اس وقت بُریر نے امام حسینؑ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:
وَاللَّهِ يَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ بِكَ عَلَيْنَا أَنْ نُقَاتِلَ بَيْنَ يَدَيْكَ وَتَقَطَّعَ فِيكَ أَعْضَاؤُنَا ثُمَّ يَكُونَ جَدُّكَ شَفِيعَنَا يَوْمَ الْقِيَامَة؛ اے فرزندِ رسول! قسم بخدا
اللہ نے آپ کے ذریعے ہم پر احسان کیا کہ ہم آپ کے سامنے جنگ و
قتال کریں اور آپ کی خاطر ہمارے اعضاء کٹ کٹ کر گریں پھر آپ کے جدّ (صلی اللہ علیہ وآلہ) روزِ
قیامت ہماری
شفاعت کریں۔
میدان کربلا میں جناب بریر بن خضیر کے جو واقعات کتب میں محفوظ ہوئے ہوئے ان میں سے ایک
ابن سعد کے لشکر کے چند افراد کے ساتھ آپ کا مکالمہ ہے۔ وارد ہوا ہے کہ
عمر بن سعد کے لشکر کے گھوڑ سوار امام حسینؑ کی طرف بڑھے، جب وہ قریب آن پہنچے تو امام حسینؑ چند اصحاب کے ہمراہ آگے بڑھے۔ ان اصحاب میں سے ایک بربر بن خضیر تھے۔ امام حسینؑ نے بربر بن خضیر سے فرمایا: جاؤ ان سے بات چیت کرو۔ بریر آگے بڑھے اور ان الفاظ میں انہیں مخاطب ہوئے: اے قوم! تم اللہ کا خوف کھاؤ، تم لوگوں کے درمیان
محمد صلی اللہ علیہ وآلہ کے ثقل (یعنی اہل بیتؑ) ہیں، یہ
رسول اللہؑ کی ذریت اور ان کی
عترت ہیں اور ان کی بیٹیاں اور عزت و ناموس تمہارے درمیان ہیں۔ ان کے بارے میں تمہارے کیا منصوبے ہیں؟ آخر تم ان سے کیا کرنا چاہتے ہو؟! ابن سعد کے لشکر والوں نے کہا: ہم چاہتے ہیں کہ ہم انہیں ابن زیاد کے سپرد کر دیں اور پھر وہ ان کے بارے میں جو کرنا چاہے وہ کرے۔ بریر نے ان سے کہا: کیا تمہیں یہ قبول نہیں ہے کہ یہ جہاں سے آئے ہیں وہیں واپس لوٹ جائیں!! اے اہل کوفہ تمہارے لیے ہلاکت ہو! کیا تم اپنے خطوط اور اپنے ان عہد و پیمان کو بھول گئے ہو جو تم لوگوں نے ان سے باندھے تھے اور ان پر تم نے اللہ کو گواہ بنایا تھا!! تم لوگوں برباد ہو ! کیا تم لوگوں نے اپنے
نبی کے
اہل بیتؑ کو دعوت نہیں دی !! کیا تم نہیں یہ فیصلہ نہیں کیا تھا کہ تم لوگ ان کے ماتحت اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرو گے؟! اب جب یہ آ گئے ہیں تو تم انہیں ابن زیاد کے سپرد کرنے پر تلے ہوئے ہو اور تم لوگوں نے ان پر
فرات کا پانی بند کر دیا ہے !! تم لوگوں نے اپنے
نبیؐ سے ان کی
ذریت کے بارے میں کس قدر بُرا سلوک کیا ہے! تم لوگوں کو کیا ہو گیا ہے!!
روز قیامت اللہ تمہیں سیراب نہ کرے، کس قدر گھٹیا برے لوگ ہو تم۔
یہ سن ابن سعد کے لشکر میں سے ایک فرد آگے بڑھا اور کہا: ہمیں نہیں معلوم تم کیا کہہ رہے ہو ؟! اس پر بُریر نے کہا:
الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي زَادَنِي فِيكُمْ بَصِيرَةً اللَّهُمَّ إِنِّي أَبْرَأُ إِلَيْكَ مِنْ فِعَالِ هَؤُلَاءِ الْقَوْمِ اللَّهُمَّ أَلْقِ بَأْسَهُمْ بَيْنَهُمْ حَتَّى يَلْقَوْكَ وَأَنْتَ عَلَيْهِمْ غَضْبَان؛
حمد و ثناء اس اللہ کے لیے ہے جس نے تم لوگوں کے بارے میں اپنے اندر بصیرت میں اضافہ کیا ہے، بار الہٰا ! میں اس
قوم کی حرکاتوں سے تیری بارگاہ میں
براءت کا اعلان کرتا ہوں، بارالہٰا! ان پر شدید مشکلات میں گرفتار کر دے یہاں تک کہ یہ تجھ سے اس حالت میں ملاقات کریں کہ تم ان پر شدید غضبناک ہو۔ وارد ہوا کہ بریر بن خضیر نے جب یہ
بد دعا کی تو ابن سعد کے لشکر والوں نے بریر پر تیر برسانا شروع کر دیئے اور بریر واپس پلٹ آئے۔
کتب تاریخ میں مؤرخین نے نقل کیا ہے کہ جب پیاس کی شدت بڑھ گئی تو بریر بن خضیر امام حسینؑ کے پاس تشریف لائے اور ان سے اجازت طلب کی کہ وہ جا کر ابن سعد سے
پانی کے مسئلہ پر بات چیت کریں، شاید وہ پانی کھول دے۔ امام حسینؑ نے بریر کو اجازت دے دی۔ بریر کا جب ابن سعد سے آمنا سامنا ہوا تو بریر نے
سلام کیے بغیر گفتگو شروع کر دی جسے ابن سعد نے بہت برا محسوس کیا اور کہنے لگا: اے ہمدانی برادر ! مجھے سلام کرنے سے تجھے کس نے روکا ہے؟ کیا میں اللہ اور اس کے
رسول کو ماننے والا
مسلمان نہیں ہوں؟! جناب بریر نے جواب دیا: اگر تم مسلمان ہوتے تو
رسول اللہؑ کی عترت کے خلاف کیوں نکلتے!! تم انہیں
قتل کرنا چاہتے ہو اور اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہو! پھر یہ
فرات کا پانی آوارہ کتوں اور خنزیروں کی پیاس بجھانے کے لیے کھلا ہے اور یہ حسین بن علیؑ اور ان کے بھائیوں اور ان کے
اہل بیت کی خواتین ہیں جو پیاس سے مر رہے ہیں لیکن تم نے فرات کا پانی ان پر بند کر رکھا ہے تاکہ وہ سیراب نہ ہو سکیں!! کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ تم اللہ اور اس کے رسول کو مانتے ہو؟! یہ سن کر
عمر بن سعد ٹک ٹکی باندھ کر نیچے دیکھنے لگا اور پھر سر اٹھا کر کہا: اے ہمدانی برادر! میں ان کی اذیت اور تکلیف کی حرمت و پاسداری کو جانتا ہوں، لیکن میں مجھے اپنے
نفس میں اس بات کو کوئی جواب نہیں ملتا کہ میں رے کی
حکومت ترک کر کے کسی اور کے حوالے کر دوں! یہ سن کر بریر واپس پلٹ آئے اور امام حسینؑ سے کہنے لگے: اے فرزندِ رسول اللہؑ ! ابن سعد
رے کی حکومت کے
لالچ میں آپ کو قتل کرنا چاہتا ہے۔
ابن جریر طبری اور
ابن کثیر نے نقل کیا ہے کہ
شبِ عاشور امام حسینؑ اور ان کے اصحاب پوری رات
نماز و
استغفار میں مصروف رہے اور اللہ کی بارگاہ میں
دعا و مناجات اور گربہ و بکاء کرتے رہے۔ ضحاک کہتے ہیں کہ ہمارے پاس سے ابن سعد کی فوج کے پہرہ دینے والے گھوڑ سوار آتے جاتے رہتے جوکہ ہمارے اوپر پہرہ دے رہے تھے۔ امام حسینؑ اس
آیت کریمہ کی
تلاوت فرما رہے تھے:
وَلا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّما نُمْلِي لَهُمْ خَيْرٌ لِأَنْفُسِهِمْ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً وَلَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ مَا كانَ اللَّهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلى مَا أَنْتُمْ عَلَيْهِ حَتَّى يَمِيزَ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ؛ اور جنہوں نے
کفر کیا وہ یہ گمان نہ کریں کہ ہم نے انہیں جو ڈھیل دی ہوئی ہے وہ ان کے لیے خیر ہے، ہمارا انہیں ڈھیل دینا تو فقط اس لیے ہے تاکہ وہ اپنے گناہوں میں مزید اضافہ کریں اور ان کے لیے انتہائی پست
عذاب ہے، اللہ مومنین کو اس حالت میں نہیں چھوڑتا جس حالت میں تم ہو یہاں تک کہ وہ
خبیث کو
طیب سے جدا کر لے۔
ابن سعد کی فوج کے پہرہ دینے والے گھوڑ سواروں میں سے ایک نے اس آیت کریمہ کو سنا تو کہنے لگا: ربِّ
کعبہ کی
قسم! ہم طیب و پاکیزہ لوگ ہیں، ہمیں تم سے جدا کیا گیا ہے۔ ضحاک کہتے ہیں میں نے اس شخص کو پہچان لیا اور بُریر بن حضیر سے کہا کہ کیا تم اس کو جانتے ہو؟ اس نے کہا: میں نہیں جانتا۔ میں نے کہا یہ ابو حرب سبیعی عبد اللہ بن شہر ہے جوکہ بہت مزاحیہ اور شجاع و بہادر ہے اور یہ شریف بہادر و دلیر ہے،
سعید بن قیس نے
امام علیؑ کے عہدِ خلافت میں اس کو ایک
جرم کی وجہ سے قید کیا تھا۔ بریر بن حضیر نے یہ سنا تو ابو حرب سبیعی کو پکار کر کہا: اے فاسق! تم کب سے طیب و پاکیزہ ہو گئے ہو؟! ابو حرب نے کہا: تم کون ہو؟ بریر نے کہا: میں بریر بن حضیر ہو۔ ابو حرب نے کہا: بے شک ہم اللہ کی خاطر یہاں آئے ہیں، اللہ کی قسم تم ہلاک و برباد ہو گئے ہو، اے بریر! قسم بخدا میرے لیے بہت مشکل و دشوار ہے کہ میں تم جیسے عظیم انسان کو قتل کروں۔ بریر کہتے ہیں، میں نے اس کو کہا: اے ابو حرب! کیا تمہارے لیے فرصت نہیں کہ تم اپنے بڑے بڑے گناہوں سے
اللہ کی بارگاہ میں
توبہ کر لو؟ اللہ کی قسم ہم طیب و پاکیزہ ہیں اور بلا شک و شبہ تم لوگ خبیث ہو۔ ابو حرب نے کہا: بالکل درست کہا، میں اس بات گواہی دیتا ہوں اور گواہوں میں سے ایک گواہ ہوں۔ بریر نے کہا: تمہارا برا ہو! تمہاری
معرفت کا آخر تمہیں کیا فائدہ ؟! یہ دیکھ کر ان پہرہ داروں کا امیر
عزرۃ بن قیس درمیان میں آ گیا کیونکہ اس کو خطرہ لاحق ہو گیا کہ کہیں ابو حرب امام حسینؑ کے لشکر میں نہ مل جائے اور اس نے آ کر دونوں میں جدائی ڈال دی اور اس طرح بریر واپس آ گئے۔
امام حسینؑ کے اصحاب شہادت کو اس قدر بڑی سعادت سمجھتے تھے کہ شہادت سے ہمکنار ہونے کے لیے اپنے کو انہوں نے مزین کیا اور باطنی طور پر اس قدر مطمئن اور پرسکون تھے کہ بعض اصحاب كے روزِ عاشور ہنسی مذاق کے واقعات کتب میں وارد ہوئے ہیں۔ انہی میں سے ایک واقعہ بریر بن حضیر اور
عبد الرحمن بن عبد ربہ انصاری کے درمیان ہے۔
سید ابن طاووس نے نقل کیا ہے کہ دن کے وقت امام حسینؑ جنگ کے لیے آمادہ ہوئے اور اپنے ناخن اور بالوں کو تراشا۔ بریر اور عبد الرحمن خیمے کے باہر منتظر تھے کہ امام حسینؑ کے بعد وہ خیمہ میں جائیں اور اپنے ناخن و اضافی بالوں کو صاف کریں۔ اس وقت بریر نے عبد الرحمن انصاری کو ہنسانا اور مزاح کرنا شروع کیا۔ عبد الرحمن نے کہا: کیا اس وقت تم مزاح کرتے ہو؟ یہ وقت مزاح اور
باطل لغو کاموں کا نہیں ہے۔ بریر نے کہا: میرا قبیلہ جانتا ہے کہ میں نے نہ بڑھاپے میں کبھی باطل
لغو کام کیے ہیں اور نہ جوانی میں، میں تو اس بشارت کی وجہ سے ایسا کر رہا ہوں جس کی طرف ہم جلد منتقل ہو جائیں گے، قسم بخدا! یہ صرف اس لیے ہے کیونکہ ہم اپنی تلواروں کے ساتھ اس لشکر پر حملہ آور ہوں گے اور کچھ دیر تلواروں سے ان کا علاج کریں گے اور اس کے بعد ہم
حور العین کے ساتھ
معانقہ کریں گے۔
شیخ صدوق نے امالی میں ذکر کیا ہے کہ بریر بن خضیر ہمدانی مبارزہ کے لیے نکلے تو وہ یہ رجَز پڑھ رہے تھے:
أَنَا بُرَيْرٌ وَ أَبِي خُضَيْر لَا خَيْرَ فِيمَنْ لَيْسَ فِيهِ خَيْرمیں بریر ہوں اور میرے والد خضیر ہیں ، جس شخص میں کوئی خیر نہیں اس کے لیے کوئی خیر نہیں۔
ابن شہر آشوب نے المناقب میں جناب بریر کے درج ذیل
رجز نقل کیے ہیں:
أَنَا بُرَيْرٌ وَ أَبِي خُضَيْرٌ لَيْثٌ يَرُوعُ الْأُسْدَ عِنْدَ الزَّئْريَعْرِفُ فِينَا الْخَيْرَ أَهْلُ الْخَيْرِ أَضْرِبُكُمْ وَ لَا أَرَى مِنْ ضَيْرٍكَذَلِكَ فَعَلَ الْخَيْرُ فِي بُرَيْرمیں بریر ہوں اور میرے والد خضیر ہیں میں وہ شیر ہوں جو دھاڑتا ہے تو شیر بھر ڈر جاتے ہیں
اہل خیر ہم کو خیر سے پہچانتے ہیں تمہیں ایسی ضرب لگاؤں گا اور میں اس کو نقصان نہیں سمجھتا
اسی طرح سے بریر میں خیر انجام پاتا ہے۔
مؤرخ طبری نے ذکر کیا ہے کہ ابن سعد کے لشکر میں قبیلہ بنی عمیرۃ بن ربیع میں سے
یزید بن معقل جنگ کے لیے نکلا اور بُریر کو کہا: اے بریر بن حضیر! دیکھا تم نے اللہ نے تمہارے ساتھ کیسا سلوک کیا! بریر نے کہا: اللہ کی قسم! اللہ نے میرے ساتھ خیر انجام دیا ہے لیکن تمہیں اللہ نے
شر میں قرار دیا ہے، ابن معقل نے کہا: تم جھوٹے ہو، آج سے پہلے تم جھوٹے کذّاب نہیں تھے، کیا تمہیں یاد ہے کہ بنی لواذن کے درمیان میں تمہارے ساتھ چل رہا تھا تو تم نے کہا تھا:
عثمان بن عفان اپنے اوپر
ظلم و
اسراف کرنے والا تھا،
معاویہ بن ابی سفیان گمراہ اور گمراہ کرنے والا ہے اور
ہدایت و
حق کے امام علی بن ابی طالبؑ ہیں!! بریر نے اسے جواب دیا: میں گواہی دیتا ہے یہ میری رائے ہے اور اسی کا میں قائل ہوں۔ اس پر یزید بن معقل نے بریر کو کہا: میں گواہی دیتا ہوں تمہارا تعلق گمراہوں لوگوں میں سے ہے۔ بریر بن حضیر نے کہا: کیا تم آمادہ ہو کہ میں تمہارے ساتھ
مباہلہ کروں، ہم اللہ سے
دعا کریں کہ وہ جھوٹے پر
لعنت بھیجے اور باطل راہ پر چلنے والے کو
قتل کرے، پھر تم میرے مقابلے میں نکلنا میں تم سے مبارزہ جنگ لڑوں گا (جو زندہ بچا وہ اہل حق قرار پائے گا)۔
بریر بن خضیر اور یزید بن معقل میدان میں نکلے اور دونوں نے اپنے ہاتھوں کو اللہ کی خاطر بلند کرتے ہوئے اللہ سے دعا کی کہ وہ جھوٹے پر لعنت کرے اور حق پر چلنے والا اہل باطل کو قتل کر دے، یہ کہہ کر دونوں ایک دوسرے سے جنگ کے لیے آمنے سامنے ہو گئے۔ دونوں نے آگے بڑھ کر ایک دوسرے پر حملہ کیا اور تلواروں ایک دوسرے ٹکرانے لگیں، یزید بن معقل کی ایک ضرب بریر کو لگی لیکن وہ ضرب ہلکی اور خفیف تھی جس کی وجہ سے کوئی خاص نقصان نہیں ہوا۔ لیکن بریر بن خضیر نے موقع پا کر ابن معقل کے سر پر ایسی قوی ضرب لگائی کہ تلوار اس کی کھوپڑی کو چیزتی ہوئی اس کے دماغ تک پہنچ گئی اور یزید بن معقل اوندھے منہ اس طرح گرا جیسے لٹکی ہوئی چیز زمین پر گرتی ہے۔ بریر بن حضیر کی تلوار اس کے سر میں گڑ کر رہ گئی۔
بریر نے جب یزید بن معقل کو قتل کر دیا اور
اللہ تعالی نے اس مباہلہ میں حق کو آشکار اور بلند کر دیا تو
رضی بن منقذ عبدی نے آپ پر حملہ کیا۔ بریر بن خضیر کی تلوار یزید کے سر پر گڑی رہ گئی تھی اس لیے رضی بن منقذ سے تلوار سے مقابلہ ممکن نہ تھا۔ چنانچہ بریر نے اس کو دبوچ لیا اور اس کو نیچے گرا کر اس کے سینے پر بیٹھ گئے۔ رضی بن منقذ نے اپنے ساتھیوں کو مدد کے لیے پکارا اور کہا: کہاں ہیں دفاع کرنے والے؟ اس پر
کعب بن جابر ازدی نکلا اور اس نے بریر پر حملہ کر دیا اور بریر کی پشت پر نیزے کی نوک کو گھونپ دیا۔ بریر نے جب نیزے کی تپش کا احساس کیا تو اپنے آپ کو ابن منقذ پر گرا دیا اور اس کی ناک کی ایک طرف کو دانتوں سے چیر ڈالا۔ کعب بن جابر نے پریر کی کمر پر نیزے سے وار کرنے کے بعد تلوار سے حملہ کیا اور حضرت بریر بن خضیر رضی اللہ عنہ کو
شہید کر دیا۔ رضی بن منقذ اپنے عبا اور کبڑوں سے مٹی جھاڑتا ہوا اٹھا اور کعب کو کہا: اے ازدی برارد تم نے مجھ پر ایسی نعمت نچھاور کی ہے جس کو میں کبھی نہیں بھولوں گا۔
کعب بن جابر جب اپنے گھر پلٹا تو اس کی بیوی نے کہا: تو نے
فاطمہؑ کے فرزند کے خلاف مدد کی ہے اور سید القرّاء بریر کو قتل کیا ہے قسم بخدا میں تجھ سے زندگی بھر کلام نہیں کروں گی۔
[ترمیم]
سید ابن طاووس اور
شہید اول نے اپنی کتاب میں ماہِ رجب میں
زیارت رجبیہ کے عنوان سے شہداءِ کربلا کی
زیارت نقل کی ہے جس میں جناب بریر بن خضیر کا نام لے کر ان الفاظ میں سلام بھیجا گیا ہے:
السَّلَامُ عَلَى بُرَيْرِ بْنِ خُضَيْرٍ؛ بریر بن خضیر پر سلام ہو۔
[ترمیم]
[ترمیم]
بنیاد دائرةالمعارف اسلامی، دانشنامہ جہان اسلام، یہ تحریر مقالہ بریر بن خضیر خمدانی مشرقی سے مأخوذ ہے، شماره ۱۱۶۰۔ مؤلفین کی ایک جماعت، پژوہشی پیرامون شہداء کربلا، ص۱۰۶-۱۰۹۔ متعدد حوالہ جات اور مطالب محققینِ ویکی فقہ کی طرف سے اضافہ کیے گئے ہیں۔