حضرت زہراؑ کا خطبہ فدک

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



فدک ایک زرخیز زمین تھی کہ جو اسلام کے عظیم الشان پیشوا نے اپنی بیٹی فاطمہؑ کو عطا کی تھی؛ مگر آنحضرت ؐ کی رحلت کے بعد حضرت زہراؑ (کہ خدا کا بے انتہا درود و سلام ہو آپ پر اور آپ کے پدر پر) اپنے حق سے محروم ہو گئیں اور حکام وقت نے آپؑ سے فدک چھین لیا۔ اس مقام پر مکتبِ وحی میں پرورش پانے والی شجاع خاتون نے سکوت کو جائز نہیں سمجھا اور مہاجرین و انصار کے عظیم اجتماع میں سخت، گرجدار، فصیح و بلیغ اور طولانی خطبہ دیا اور اس دور کے مسلمانوں پر تنقید کرتے ہوئے سب سے مضبوط اور مستند بیانات پیش فرمائے۔


صاحب کشف الغمہ کا موقف

[ترمیم]

شیعہ و سنی محدثین نے یہ خطبہ مختلف اسناد کے ساتھ نقل کیا ہے اور ان میں سے بعض عبارتوں کے اندر کچھ الفاظ مختلف ہیں۔ کتاب کشف الغمہ کے مؤلف لکھتے ہیں: حضرت زہراؑ کا شعلہ انگیز خطاب دلوں کو سب سے زیادہ متاثر کرنے والے خطبات میں سے ہے اور فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے اس میں بہت سی جدتیں ہیں۔ اس خطاب میں نور نبوت کا پرتو اور گلزار رسالت کی کلیاں دیکھنے کو ملتی ہیں اور موافق و مخالف نے اسے نقل کیا ہے۔ پھر وہ لکھتے ہیں: میں نے اس خطاب کو ابوبکر احمد بن عبد العزیز الجوھری کی کتاب السقیفہ سے ایک قدیم نسخے کی بنیاد پر نقل کیا ہے۔ یہ نسخہ مؤلف کے سامنے پڑھا گیا (اور ان کی تائید کا حامل ہے)۔ وہ اپنی روایت کو اپنے مختلف اساتذہ سے نقل کرتے ہیں
[۱] ۱ ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ میں لکھتے ہیں: یہ ابوبکر جوھری، عالم، محدث، ادیب، متقی، ثقہ اور دانا تھے۔
راویوں نے ان کی روایات کی تعریف کی ہے، ان کی تحریروں پر اعتماد کیا ہے اور ان کی احادیث کو قبول کیا ہے۔ پھر ابن ابی الحدید ، اس خطبے کے سلسلہ اسناد کو نقل کرتے ہیں۔
[۲] اس کے ضمن میں کشف الغمہ کے مورد اعتماد نسخے کے ضمن میں کہتے ہیں: یہ نسخہ سنہ ۳۲۲ ہجری کے ربیع الثانی میں مؤلف کیلئے قرائت کیا گیا اور انہوں نے مذکورہ خطاب کو چند طرق سے اپنے اساتذہ سے روایت کیا ہے(مؤلف)۔


روایت خطبہ بحوالہ احتجاج طبرسی

[ترمیم]
تاہم اس مقالے میں ہم نے طبرسی کی گرانقدر کتاب الاحتجاج پر اعتماد کیا ہے اور بعض الفاظ کے اختلاف کی طرف بھی اشارہ کر دیا ہے۔
[۳] خطبے کے فارسی ترجمے میں صرف اصل متن کو ملاک قرار دیا گیا ہے اور لفظی اختلافات کو صرف عربی متن میں نقل کیا گیا ہے(مؤلف)۔
مذکورہ کتاب میں ہم اس طرح پڑھتے ہیں:

← حضرت زہراؑ کی تشریف آوری


عبد اللہ بن الحسین اپنی اسناد کے ساتھ اپنے آباؤ اجداد سے روایت کرتے ہیں: جب ابوبکر نے فدک پر قبضے کا قطعی فیصلہ کر لیا اور اس اقدام کی بنت پیغمبر کو اطلاع ہوئی تو حضرت زہراؑ نے فورا سر پر چادر لی، اپنا کشادہ لباس زیب تن کیا اور اپنی چند قریبی خواتین کی ہمراہی میں مسجد کی طرف روانہ ہو گئیں۔ بڑے وقار و متانت سے چل رہی تھیں اور قدم یوں اٹھا رہی تھیں گویا رسول خدا ؐقدم اٹھا رہے ہوں۔ ابوبکر مہاجرین و انصار اور دوسرے لوگوں کے اجتماع میں بیٹھے تھے کہ پیغمبر اکرم ؐکی لخت جگر ان کے سامنے پہنچ گئیں۔ فاطمہؑ اور ان کے مابین ایک پردہ لٹکا دیا گیا۔ حضرت زہراؑ بیٹھ گئیں۔ پہلے ایسی فریاد کی کہ مجلس لرز اٹھی اور حاضرین رونے لگے۔ اس کے بعد چند لمحے توقف کیا، یہاں تک کہ لوگ خاموش ہو گئے۔ آہ و بکا ختم ہو گئی اور اسلام کے معصوم پیشوا کی اکلوتی یادگار نے اپنی بات شروع کی۔ خدائے مہربان کی بارگاہ میں شکر ادا کیا اور اپنے پدر، رسول اللہ ؐپر درود بھیجا۔ ایک مرتبہ پھر مسلمانوں کے ہجوم کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور حضرت نے ناچار یک لخت سکوت کیا، یہاں تک کہ سب خاموش ہو گئے اور اپنی گفتار کا آغاز فرمایا:

← متنِ خطبہ



اَلْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى مَا أَنْعَمَ وَ لَهُ اَلشُّكْرُ عَلَى مَا أَلْهَمَ وَ اَلثَّنَاءُ بِمَا قَدَّمَ مِنْ عُمُومِ نِعَمٍ اِبْتَدَأَهَا وَ سُبُوغِ آلاَءٍ أَسْدَاهَا وَ تَمَامِ مِنَنٍ أَوْلاَهَا جَمَّ عَنِ اَلْإِحْصَاءِ عَدَدُهَا وَ نَأَى عَنِ اَلْجَزَاءِ [۱]     أَمَدُهَا وَ تَفَاوَتَ عَنِ اَلْإِدْرَاكِ أَبَدُهَا وَ نَدَبَهُمْ لاِسْتِزَادَتِهَا بِالشُّكْرِ لاِتِّصَالِهَا وَ اِسْتَحْمَدَ إِلَى اَلْخَلاَئِقِ بِإِجْزَالِهَا وَ ثَنَّى بِالنَّدْبِ إِلَى أَمْثَالِهَا. وَ أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اَللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ كَلِمَةٌ جُعِلَ اَلْإِخْلاَصُ تَأْوِيلَهَا وَ ضُمِّنَ اَلْقُلُوبُ مَوْصُولَهَا وَ أَنَارَ فِي اَلتَّفَكُّرِ [۲]     مَعْقُولُهَا اَلْمُمْتَنِعُ مِنَ اَلْأَبْصَارِ رُؤْيَتُهُ وَ مِنَ اَلْأَلْسُنِ صِفَتُهُ وَ مِنَ اَلْأَوْهَامِ كَيْفِيَّتُهُ بہ     اِبْتَدَعَ اَلْأَشْيَاءَ لاَ مِنْ شَيْءٍ كَانَ قَبْلَهَا وَ أَنْشَأَهَا بِلاَ اِحْتِذَاءِ أَمْثِلَةٍ اِمْتَثَلَهَا كَوَّنَهَا بِقُدْرَتِهِ وَ ذَرَأَهَا بِمَشِيَّتِهِ مِنْ غَيْرِ حَاجَةٍ مِنْهُ إِلَى تَكْوِينِهَا وَ لاَ فَائِدَةٍ لَهُ فِي تَصْوِيرِهَا إِلاَّ تَثْبِيتاً لِحِكْمَتِهِ وَ تَنْبِيهاً عَلَى طَاعَتِهِ وَ إِظْهَاراً لِقُدْرَتِهِ تَعَبُّداً لِبَرِيَّتِهِ وَ إِعْزَازاً لِدَعْوَتِهِ ثُمَّ جَعَلَ اَلثَّوَابَ عَلَى طَاعَتِهِ وَ وَضَعَ اَلْعِقَابَ عَلَى مَعْصِيَتِهِ ذِيَادَةً لِعِبَادِهِ مِنْ نَقِمَتِهِ وَ حِيَاشَةً لَهُمْ إِلَى جَنَّتِهِ. وَ أَشْهَدُ أَنَّ أَبِي مُحَمَّداً عَبْدُهُ وَ رَسُولُهُ اِخْتَارَهُ قَبْلَ أَنْ أَرْسَلَهُ وَ سَمَّاهُ قَبْلَ أَنِ اِجْتَبَاهُ [۴]     وَ اِصْطَفَاهُ قَبْلَ أَنِ اِبْتَعَثَهُ إِذِ اَلْخَلاَئِقُ بِالْغَيْبِ مَكْنُونَةٌ وَ بِسَتْرِ اَلْأَهَاوِيلِ مَصُونَةٌ وَ بِنِهَايَةِ اَلْعَدَمِ مَقْرُونَةٌ عَلَماً مِنَ اَللَّهِ تَعَالَى بِمَآيِلِ [۵]     اَلْأُمُورِ وَ إِحَاطَةً بِحَوَادِثِ اَلدُّهُورِ وَ مَعْرِفَةً بِمَوَاقِعِ اَلْأُمُورِ اِبْتَعَثَهُ اَللَّهُ إِتْمَاماً لِأَمْرِهِ وَ عَزِيمَةً عَلَى إِمْضَاءِ حُكْمِهِ وَ إِنْفَاذاً لِمَقَادِيرِ رَحْمَتِهِ فَرَأَى اَلْأُمَمَ فِرَقاً فِي أَدْيَانِهَا عُكَّفاً عَلَى نِيرَانِهَا عَابِدَةً لِأَوْثَانِهَا مُنْكِرَةً لِلَّهِ مَعَ عِرْفَانِهَا فَأَنَارَ اَللَّهُ بِأَبِي مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ ظُلَمَهَا وَ كَشَفَ عَنِ اَلْقُلُوبِ بُهَمَهَا وَ جَلَى عَنِ اَلْأَبْصَارِ غُمَمَهَا وَ قَامَ فِي اَلنَّاسِ بِالْهِدَايَةِ فَأَنْقَذَهُمْ مِنَ اَلْغَوَايَةِ وَ بَصَّرَهُمْ مِنَ اَلْعَمَايَةِ وَ هَدَاهُمْ إِلَى اَلدِّينِ اَلْقَوِيمِ وَ دَعَاهُمْ إِلَى اَلصِّراطِ اَلْمُسْتَقِيمِ. ثُمَّ قَبَضَ اَللَّهُ إِلَيْهِ قَبْضَ رَأْفَةٍ وَ اِخْتِيَارٍ وَ رَغْبَةٍ وَ إِيْثَارٍ فَمُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ مِنْ تَعَبِ هَذِهِ اَلدَّارِ فِي رَاحَةٍ قَدْ حُفَّ بِالْمَلاَئِكَةِ اَلْأَبْرَارِ وَ رِضْوَانِ اَلرَّبِّ اَلْغَفَّارِ وَ مُجَاوَرَةِ اَلْمَلِكِ اَلْجَبَّارِ صَلَّى اَللَّهُ عَلَى أَبِي نَبِيِّهِ وَ أَمِينِهِ وَ خِيَرَتِهِ مِنَ اَلْخَلْقِ وَ صَفِيِّهِ وَ اَلسَّلاَمُ عَلَيْهِ وَ رَحْمَةُ اَللَّهِ وَ بَرَكَاتُهُ. ثُمَّ اِلْتَفَتَتْ إِلَى أَهْلِ اَلْمَجْلِسِ فقَالَتْ: أَنْتُمْ عِبَادَ اَللَّهِ نُصْبُ أَمْرِهِ وَ نَهْيِهِ وَ حَمَلَةُ دِينِهِ وَ وَحْيِهِ وَ أُمَنَاءُ اَللَّهِ عَلَى أَنْفُسِكُمْ وَ بُلَغَاؤُهُ إِلَى اَلْأُمَمِ زَعِيمُ حَقٍّ لَهُ فِيكُمْ وَ عَهْدٌ قَدَّمَهُ إِلَيْكُمْ حق لکم للہ فیکم     وَ بَقِيَّةٌ اِسْتَخْلَفَهَا عَلَيْكُمْ كِتَابُ اَللَّهِ اَلنَّاطِقُ وَ اَلْقُرْآنُ اَلصَّادِقُ وَ اَلنُّورُ اَلسَّاطِعُ وَ اَلضِّيَاءُ اَللاَّمِعُ بَيِّنَةٌ بَصَائِرُهُ مُنْكَشِفَةٌ سَرَائِرُهُ مُنْجَلِيَةٌ ظَوَاهِرُهُ مُغْتَبِطَةٌ بِهِ أَشْيَاعُهُ قَائِداً [۷]     إِلَى اَلرِّضْوَانِ أَتْبَاعُهُ مُؤَدٍّ إِلَى اَلنَّجَاةِ اِسْتِمَاعُهُ بِهِ تُنَالُ حُجَجُ اَللَّهِ اَلْمُنَوَّرَةُ وَ عَزَائِمُهُ اَلْمُفَسَّرَةُ وَ مَحَارِمُهُ اَلْمُحَذَّرَةُ وَ بَيِّنَاتُهُ الْجَالِيَةُ وَ بَرَاهِينُهُ [۸]     اَلْكَافِيَةُ وَ فَضَائِلُهُ اَلْمَنْدُوبَةُ وَ رُخَصُهُ اَلْمَوْهُوبَةُ وَ شَرَائِعُهُ اَلْمَكْتُوبَةُ. فَجَعَلَ اَللَّهُ اَلْإِيمَانَ تَطْهِيراً لَكُمْ مِنَ اَلشِّرْكِ وَ اَلصَّلاَةَ تَنْزِيهاً لَكُمْ عَنِ اَلْكِبْرِ وَ اَلزَّكَاةَ تَزْكِيَةً لِلنَّفْسِ وَ نَمَاءً فِي اَلرِّزْقِ وَ اَلصِّيَامَ تَثْبِيتاً لِلْإِخْلاَصِ وَ اَلْحَجَّ تَشْيِيداً لِلدِّينِ وَ اَلْعَدْلَ تَنْسِيقاً لِلْقُلُوبِ وَ طَاعَتَنَا نِظَاماً لِلْمِلَّةِ وَ إِمَامَتَنَا أَمَاناً لِلْفُرْقَةِ وَ اَلْجِهَادَ عِزّاً لِلْإِسْلاَمِ وَ اَلصَّبْرَ مَعُونَةً عَلَى اِسْتِيجَابِ اَلْأَجْرِ وَ اَلْأَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ مَصْلَحَةً لِلْعَامَّةِ وَ بِرَّ اَلْوَالِدَيْنِ وِقَايَةً مِنَ اَلسُّخْطِ وَ صِلَةَ اَلْأَرْحَامِ مَنْسَأَةً فِي اَلْعُمُرِ ] مَنْمَاةً لِلْعَدل [ وَ اَلْقِصَاصَ حَقْناً لِلدِّمَاءِ وَ اَلْوَفَاءَ بِالنَّذْرِ تَعْرِيضاً لِلْمَغْفِرَةِ وَ تَوْفِيَةَ اَلْمَكَايِيلِ وَ اَلْمَوَازِينِ تَغْيِيراً لِلْبَخْسِ وَ اَلنَّهْيَ عَنْ شُرْبِ اَلْخَمْرِ تَنْزِيهاً عَنِ اَلرِّجْسِ وَ اِجْتِنَابَ اَلْقَذْفِ حِجَاباً عَنِ اَللَّعْنَةِ وَ تَرْكَ اَلسَّرِقَةِ إِيجَاباً لِلْعِفَّةِ وَ حَرَّمَ اَللَّهُ اَلشِّرْكَ إِخْلاَصاً لَهُ بِالرُّبُوبِيَّةِ فَ‌ اِتَّقُوا اَللّٰهَ حَقَّ تُقٰاتِهِ وَ لاٰ تَمُوتُنَّ إِلاّٰ وَ أَنْتُمْ مُسْلِمُونَ - وَ أَطِيعُوا اَللَّهَ فِيمَا أَمَرَكُمْ بِهِ وَ نَهَاكُمْ عَنْهُ فَإِنَّهُ إِنَّمٰا يَخْشَى اَللّٰهَ مِنْ عِبٰادِهِ اَلْعُلَمٰاءُ. ثُمَّ قَالَتْ: أَيُّهَا اَلنَّاسُ اِعْلَمُوا أَنِّي فَاطِمَةُ وَ أَبِي مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ أَقُولُ عَوْداً وَ بَدْواً وَ لاَ أَقُولُ مَا أَقُولُ غَلَطاً وَ لاَ أَفْعَلُ مَا أَفْعَلُ شَطَطاً أقول ذلک سرفا ولا شططا     - لَقَدْ جٰاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مٰا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ فَإِنْ تَعْزُوهُ وَ تَعْرِفُوهُ تَجِدُوهُ أَبِي دُونَ نِسَائِكُمْ - وَ أَخَا اِبْنِ عَمِّي دُونَ رِجَالِكُمْ وَ لَنِعْمَ اَلْمَعْزِيُّ إِلَيْهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ فَبَلَّغَ اَلرِّسَالَةَ صَادِعاً بِالنِّذَارَةِ مَائِلاً عَنْ مَدْرَجَةِ ] ناکبا عن سنن مدرجۃ [اَلْمُشْرِكِينَ ضَارِباً ثَبَجَهُمْ آخِذاً بکظمھم [۱۰]     دَاعِياً إِلَى سَبِيلِ رَبِّهِ بِالْحِكْمَةِ وَ اَلْمَوْعِظَةِ اَلْحَسَنَةِ يکسر [۱۱]     اَلْأَصْنَامَ وَ يَنْكُثُ اَلْهَامَ حَتَّى اِنْهَزَمَ [۱۲]     اَلْجَمْعُ وَ وَلَّوُا اَلدُّبُرَ حَتَّى تَفَرَّى اَللَّيْلُ عَنْ صُبْحِهِ وَ أَسْفَرَ اَلْحَقُّ عَنْ مَحْضِهِ وَ نَطَقَ زَعِيمُ اَلدِّينِ وَ خَرِسَتْ شَقَاشِقُ اَلشَّيَاطِينِ وَ طَاحَ وَشِيظُ اَلنِّفَاقِ وَ اِنْحَلَّتْ عُقَدُ اَلْكُفْرِ وَ اَلشِّقَاقِ وَ فُهْتُمْ بِكَلِمَةِ اَلْإِخْلاَصِ فِي نَفَرٍ مِنَ اَلْبِيضِ اَلْخِمَاصِ وَ كُنْتُمْ عَلىٰ شَفٰا حُفْرَةٍ مِنَ اَلنّٰارِ مَذْقَةَ اَلشَّارِبِ وَ نَهْزَةَ اَلطَّامِعِ وَ قَبْسَةَ اَلْعَجْلاَنِ وَ مَوْطِئَ اَلْأَقْدَامِ تَشْرَبُونَ اَلطَّرْقَ وَ تَقْتَاتُونَ اَلْقِدَّ [۱۳]     أَذِلَّةً خَاسِئِينَ [۱۴]     تَخٰافُونَ أَنْ يَتَخَطَّفَكُمُ اَلنّٰاسُ مِنْ حَوْلِكُمْ فَأَنْقَذَكُمُ اَللَّهُ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى بِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ بَعْدَ اَللَّتَيَّا وَ اَلَّتِي وَ بَعْدَ أَنْ [۱۵]     مُنِيَ بِبُهَمِ اَلرِّجَالِ وَ ذُؤْبَانِ اَلْعَرَبِ وَ مَرَدَةِ أَهْلِ اَلْكِتَابِ كُلَّمٰا أَوْقَدُوا نٰاراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اَللّٰهُ أَوْ نَجَمَ قَرْنُ اَلشَّيْطَانِ أَوْ فَغَرَتْ فَاغِرَةٌ مِنَ اَلْمُشْرِكِينَ حشوا نارا للحرب ونجم قرن للضلال وفغرت فاغرۃ من المشرکین     قَذَفَ أَخَاهُ [۱۷]     فِي لَهَوَاتِهَا فَلاَ يَنْكَفِئُ حَتَّى يَطَأَ جَنَاحَهَا بِأَخْمَصِهِ وَ يُخْمِدَ لَهَبَهَا بِسَيْفِهِ [۱۸]     مَكْدُوداً فِي ذَاتِ اَللَّهِ مُجْتَهِداً فِي أَمْرِ اَللَّهِ قَرِيباً مِنْ رَسُولِ اَللَّهِ سَيِّداً فِي أَوْلِيَاءِ اَللَّهِ اولیاء اللہ     مُشَمِّراً نَاصِحاً مُجِدّاً كَادِحاً لاَ تَأْخُذُهُ فِي اَللَّهِ لَوْمَةُ لاَئِمٍ وَ أَنْتُمْ فِي رَفَاهِيَةٍ [۲۰]     مِنَ اَلْعَيْشِ وَادِعُونَ فَاكِهُونَ آمِنُونَ تَتَرَبَّصُونَ بِنَا اَلدَّوَائِرَ وَ تَتَوَكَّفُونَ اَلْأَخْبَارَ وَ تَنْكِصُونَ عِنْدَ اَلنِّزَالِ وَ تَفِرُّونَ مِنَ [۲۱]     اَلْقِتَالِ فَلَمَّا اذا     اِخْتَارَ اَللَّهُ لِنَبِيِّهِ دَارَ أَنْبِيَائِهِ وَ مَأْوَى أَصْفِيَائِهِ ظَهَرَ فِيكُمْ حَسَكَةُ اَلنِّفَاقِ وَ سَمَلَ جِلْبَابُ اَلدِّينِ جلباب الرَّین     وَ نَطَقَ كَاظِمُ اَلْغَاوِينَ وَ نَبَغَ خَامِلُ اَلْأَقَلِّينَ وَ هَدَرَ فَنِيقُ اَلْمُبْطِلِينَ - فَخَطَر [۲۴]     فِي عَرَصَاتِكُمْ وَ أَطْلَعَ اَلشَّيْطَانُ رَأْسَهُ مِنْ مَغْرَزِهِ هَاتِفاً بِكُمْ فَأَلْفَاكُمْ لِدَعْوَتِهِ [۲۵]     مُسْتَجِيبِينَ وَ لِلْعِزَّةِ فِيهِ مُلاَحِظِينَ ثُمَّ اِسْتَنْهَضَكُمْ فَوَجَدَكُمْ خِفَافاً وَ أَحْمَشَكُمْ فَأَلْفَاكُمْ غِضَاباً فَوَسَمْتُمْ غَيْرَ إِبِلِكُمْ وَ وَأَوْرَدْتُمْ [۲۶]     غَيْرَ مَشْرَبِكُمْ هَذَا وَ اَلْعَهْدُ قَرِيبٌ وَ اَلْكَلْمُ رَحِيبٌ وَ اَلْجُرْحُ لَمَّا يَنْدَمِلْ وَ اَلرَّسُولُ لَمَّا يُقْبَرْ اِبْتِدَاراً [۲۷]     زَعَمْتُمْ خَوْفَ اَلْفِتْنَةِ أَلاٰ فِي اَلْفِتْنَةِ سَقَطُوا وَ إِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِيطَةٌ بِالْكٰافِرِينَ فَهَيْهَاتَ مِنْكُمْ وَ كَيْفَ بِكُمْ وَ أَنَّى تُؤْفَكُونَ وَ كِتَابُ اَللَّهِ بَيْنَ أَظْهُرِكُمْ؟ - أُمُورُهُ ظَاهِرَةٌ وَ أَحْكَامُهُ زَاهِرَةٌ وَ أَعْلاَمُهُ بَاهِرَةٌ وَ زَوَاجِرُهُ لاَئِحَةٌ بینۃ وشواھدہ لائحۃ     وَ أَوَامِرُهُ وَاضِحَةٌ وَ قَدْ خَلَّفْتُمُوهُ وَرَاءَ ظُهُورِكُمْ أَ رَغْبَةً عَنْهُ تُرِيدُونَ أَمْ بِغَيْرِهِ تَحْكُمُونَ بِئْسَ لِلظّٰالِمِينَ بَدَلاً وَ مَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ اَلْإِسْلاٰمِ دِيناً فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَ هُوَ فِي اَلْآخِرَةِ مِنَ اَلْخٰاسِرِينَ ثُمَّ لَمْ تَلْبَثُوا إِلاَّ رَيْثَ أَنْ تَسْكُنَ نَفْرَتُهَا وَ يُسْلَسَ قِيَادُهَا ثُمَّ أَخَذْتُمْ تُورُونَ وَقْدَتَهَا وَ تُهَيِّجُونَ جَمْرَتَهَا وَ تَسْتَجِيبُونَ لِهُتَافِ اَلشَّيْطَانِ اَلْغَوِيِّ وَ إِطْفَاءِ نور [۲۹]     اَلدِّينِ اَلْجَلِيِّ وَ إِهْمَالِ سُنَنِ اَلنَّبِيِّ اَلصَّفِيِّ تَشْرَبُونَ حَسْواً فِي اِرْتِغَاءٍ وَتَمْشُونَ لِأَهْلِهِ وَ وُلْدِهِ فِي اَلْخَمْرَةِ وَ اَلضَّرَاءِ وَنَصبِرُ مِنْكُمْ عَلَى مِثْلِ حَزِّ اَلْمُدَى وَ وَخْزِ اَلسِّنَانِ فِي اَلْحَشَی. وَ أَنْتُمُ اَلْآنَ تَزْعُمُونَ أَنْ لاَ إِرْثَ لَنَا أَ فَحُكْمَ اَلْجٰاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ وَ مَنْ أَحْسَنُ مِنَ اَللّٰهِ حُكْماً لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ أَ فَلاَ تَعْلَمُونَ؟ بَلَى قَدْ تَجَلَّى لَكُمْ كَالشَّمْسِ اَلضَّاحِيَةِ أَنِّي اِبْنَتُهُ أَيُّهَا اَلْمُسْلِمُونَ أَ أُغْلَبُ عَلَى إِرْثِي [۳۰]     یا معشر المھاجرۃ أبتَزُّ ارث ابیہ    . يَا اِبْنَ أَبِي قُحَافَةَ أَ فِي كِتَابِ اَللَّهِ تَرِثُ أَبَاكَ وَ لاَ أَرِثُ أَبِي [۳۲]    ؟ لَقَدْ جِئْتَ شَيْئاً فَرِيًّا أَ فَعَلَى عَمْدٍ تَرَكْتُمْ كِتَابَ اَللَّهِ وَ نَبَذْتُمُوهُ وَرَاءَ ظُهُورِكُمْ إِذْ يَقُولُ وَ وَرِثَ سُلَيْمٰانُ دٰاوُدَ وَ قَالَ فِيمَا اِقْتَصَّ مِنْ خَبَرِ يَحْيَى بْنِ زَكَرِيَّا إِذْ قَالَ - فَهَبْ لِي مِنْ لَدُنْكَ وَلِيًّا يَرِثُنِي وَ يَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ وَ قَالَ وَ أُولُوا اَلْأَرْحٰامِ بَعْضُهُمْ أَوْلىٰ بِبَعْضٍ فِي كِتٰابِ اَللّٰهِ وَ قَالَ يُوصِيكُمُ اَللّٰهُ فِي أَوْلاٰدِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ اَلْأُنْثَيَيْنِ وَ قَالَ إِنْ تَرَكَ خَيْراً اَلْوَصِيَّةُ لِلْوٰالِدَيْنِ وَ اَلْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى اَلْمُتَّقِينَ وَ زَعَمْتُمْ أَنْ لاَ حُظْوَةَ لِي وَ لاَ أَرِثَ مِنْ أَبِي وَ لاَ رَحِمَ بَيْنَنَا أَ فَخَصَّكُمُ اَللَّهُ بِآيَةٍ أَخْرَجَ أَبِي مِنْهَا أَمْ هَلْ تَقُولُونَ إِنَّ أَهْلَ مِلَّتَيْنِ لاَ يَتَوَارَثَانِ أَ وَ لَسْتُ أَنَا وَ أَبِي مِنْ أَهْلِ مِلَّةٍ وَاحِدَةٍ أَمْ أَنْتُمْ أَعْلَمُ بِخُصُوصِ اَلْقُرْآنِ وَ عُمُومِهِ مِنْ أَبِي وَ اِبْنِ عَمِّي؟ فَدُونَكَهَا مَخْطُومَةً مَرْحُولَةً تَلْقَاكَ يَوْمَ حَشْرِكَ فَنِعْمَ اَلْحَكَمُ اَللَّهُ وَ اَلزَّعِيمُ مُحَمَّدٌ وَ اَلْمَوْعِدُ اَلْقِيَامَةُ وَ عِنْدَ اَلسَّاعَةِ يَخْسَرُ اَلْمُبْطِلُونَ وَ لاَ يَنْفَعُكُمْ إِذْ تَنْدَمُونَ وَ لِكُلِّ نَبَإٍ مُسْتَقَرٌّ وَ سَوْفَ تَعْلَمُونَ ... مَنْ يَأْتِيهِ عَذٰابٌ يُخْزِيهِ وَ يَحِلُّ عَلَيْهِ عَذٰابٌ مُقِيمٌ. ثُمَّ رَنَتْ [۳۳]     بِطَرْفِهَا نَحْوَ اَلْأَنْصَارِ فَقَالَتْ: يَا مَعْشَرَ الفتنۃ [۳۴]     وَ أَعْضَادَ اَلْمِلَّةِ وَ حَضَنَةَ اَلْإِسْلاَمِ مَا هَذِهِ اَلْغَمِيزَةُ [۳۵]     فِي حَقِّي وَ اَلسِّنَةُ عَنْ ظُلاَمَتِي؟ أَ مَا كَانَ رَسُولُ اَللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ أَبِي يَقُولُ اَلْمَرْءُ يُحْفَظُ فِي وُلْدِهِ سَرْعَانَ مَا أَحْدَثْتُمْ ما اجدبتم فاکدیتم     وَ عَجْلاَنَ ذَا إِهَالَةٍ وَ لَكُمْ طَاقَةٌ بِمَا أُحَاوِلُ وَ قُوَّةٌ عَلَى مَا أَطْلُبُ وَ أُزَاوِلُ أَ تَقُولُونَ مَاتَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ فَخَطْبٌ جَلِيلٌ اِسْتَوْسَعَ وَهْنُهُ [۳۷]     وَ اِسْتَنْهَرَ فَتْقُهُ وَ اِنْفَتَقَ رَتْقُهُ راتقہ     وَ أَظْلَمَتِ اَلْأَرْضُ لِغَيْبَتِهِ واکتأبت خیرۃ اللہ لمصیبتہ وَ كَسَفَتِ اَلشَّمْسُ وَ اَلْقَمَرُ وَ اِنْتَثَرَتِ اَلنُّجُومُ النجوم     لِمُصِيبَتِهِ وَ أَكْدَتِ اَلْآمَالُ وَ خَشَعَتِ اَلْجِبَالُ وَ أُضِيعَ اَلْحَرِيمُ وَ أُزِيلَتِ [۴۰]     اَلْحُرْمَةُ [۴۱]     عِنْدَ مَمَاتِهِ. فَتِلْكَ وَ اَللَّهِ اَلنَّازِلَةُ اَلْكُبْرَى وَ اَلْمُصِيبَةُ اَلْعُظْمَى لاَ مِثْلُهَا نَازِلَةٌ وَ لاَ بَائِقَةٌ عَاجِلَةٌ أَعْلَنَ بِهَا كِتَابُ اَللَّهِ جَلَّ ثَنَاؤُهُ فِي أَفْنِيَتِكُمْ وَ فِي مُمْسَاكُمْ وَ مُصْبَحِكُمْ يَهْتِفُ فِي أَفْنِيَتِكُمْ هُتَافاً وَ صُرَاخاً وَ تِلاَوَةً وَ إِلْحَاناً وَ لَقَبْلَهُ مَا حَلَّ بِأَنْبِيَاءِ اَللَّهِ وَ رُسُلِهِ حُكْمٌ فَصْلٌ وَ قَضَاءٌ حَتْمٌ - وَ مٰا مُحَمَّدٌ إِلاّٰ رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ اَلرُّسُلُ أَ فَإِنْ مٰاتَ أَوْ قُتِلَ اِنْقَلَبْتُمْ عَلىٰ أَعْقٰابِكُمْ وَ مَنْ يَنْقَلِبْ عَلىٰ عَقِبَيْهِ فَلَنْ يَضُرَّ اَللّٰهَ شَيْئاً وَ سَيَجْزِي اَللّٰهُ اَلشّٰاكِرِينَ. أَيهاً بَنِي قَيْلَةَ! أَ أُهْضِمَ تُرَاثُ أَبِي [۴۲]     وَ أَنْتُمْ بِمَرْأًى مِنِّي [۴۳]     وَ مَسْمَعٍ وَ مُنْتَدًى وَ مَجْمَعٍ تَلْبَسُكُمُ اَلدَّعْوَةُ وَ تَشْمَلُكُمُ اَلْخِبْرَةُ الخبر     وَ أَنْتُمْ ذَوُو اَلْعَدَدِ وَ اَلْعُدَّةِ وَ اَلْأَدَاةِ وَ اَلْقُوَّةِ وَ عِنْدَكُمُ اَلسِّلاَحُ وَ اَلْجُنَّةُ تُوَافِيكُمُ اَلدَّعْوَةُ فَلاَ تُجِيبُونَ وَ تَأْتِيكُمُ اَلصَّرْخَةُ فَلاَ تُغِيثُونَ وَ أَنْتُمْ مَوْصُوفُونَ بِالْكِفَاحِ مَعْرُوفُونَ بِالْخَيْرِ وَ اَلصَّلاَحِ وَ اَلنُّخْبَةُ اَلَّتِي اُنْتُخِبَتْ وَ اَلْخِيَرَةُ اَلَّتِي اُخْتِيرَتْ لَنَا أَهْلَ اَلْبَيْتِ. قَاتَلْتُمُ اَلْعَرَبَ العرب وبادھتم الامور     وَ تَحَمَّلْتُمُ اَلْكَدَّ وَ اَلتَّعَبَ وَ نَاطَحْتُمُ اَلْأُمَمَ وَ كَافَحْتُمُ اَلْبُهَمَ لاَ نَبْرَحُ أَوْ تَبْرَحُونَ نَأْمُرُكُمْ فَتَأْتَمِرُونَ حَتَّى إِذَا دَارَتْ بِنَا رَحَى اَلْإِسْلاَمِ وَ دَرَّ حَلَبُ اَلْأَيَّامِ [۴۶]     وَ خَضَعَتْ نعرۃ] ثَغْرَةُ [ اَلشِّرْكِ وَ سَكَنَتْ فَوْرَةُ اَلْإِفْكِ وَ خَمَدَتْ نِيرَانُ اَلْكُفْرِ -أو وخبت- نیران الحرب     وَ هَدَأَتْ دَعْوَةُ اَلْهَرْجِ وَ اِسْتَوْسَقَ نِظَامُ اَلدِّينِ فَأَنَّى حُزْتُمْ بَعْدَ اَلْبَيَانِ وَ أَسْرَرْتُمْ بَعْدَ اَلْإِعْلاَنِ وَ نَكَصْتُمْ بَعْدَ اَلْإِقْدَامِ وَ أَشْرَكْتُمْ بَعْدَ اَلْإِيمَانِ؟ بُؤْساً لِقَوْمٍ نَكَثُوا أَيْمٰانَهُمْ مِنْ بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَ هَمُّوا بِإِخْرٰاجِ اَلرَّسُولِ وَ هُمْ بَدَؤُكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ أَ تَخْشَوْنَهُمْ فَاللّٰهُ أَحَقُّ أَنْ تَخْشَوْهُ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ. أَلاَ وَ قَدْ أَرَى أَنْ قَدْ أَخْلَدْتُمْ إِلَى اَلْخَفْضِ - وَ أَبْعَدْتُمْ مَنْ هُوَ أَحَقُّ بِالْبَسْطِ وَ اَلْقَبْضِ وَ خَلَوْتُمْ بِالدَّعَةِ وَ نَجَوْتُمْ بِالضِّيقِ مِنَ اَلسَّعَةِ فَمَجَجْتُمْ مَا وَعَيْتُمْ وَ دَسَعْتُمُ اَلَّذِي تَسَوَّغْتُمْ فَ‌ إِنْ تَكْفُرُوا أَنْتُمْ وَ مَنْ فِي اَلْأَرْضِ جَمِيعاً فَإِنَّ اَللّٰهَ لَغَنِيٌّ حَمِيدٌ. أَلاَ وَ قَدْ قُلْتُ مَا قُلْتُ هَذَا عَلَى مَعْرِفَةٍ مِنِّي بِالْجِذْلَةِ اَلَّتِي خَامَرَتْكُمْ وَ اَلْغَدْرَةِ اَلَّتِي اِسْتَشْعَرَتْهَا قُلُوبُكُمْ وَ لَكِنَّهَا فَيْضَةُ اَلنَّفْسِ وَ نَفْثَةُ اَلْغَيْظِ وَ خَوَرُ اَلْقَنَاةِ وَ بَثَّةُ اَلصَّدْرِ وَ تَقْدِمَةُ اَلْحُجَّةِ فَدُونَكُمُوهَا فَاحْتَقِبُوهَا دَبِرَةَ اَلظَّهْرِ نَقِبَةَ اَلْخُفِّ بَاقِيَةَ اَلْعَارِ مَوْسُومَةً بِغَضَبِ اَلْجَبَّارِ وَ شَنَارِ اَلْأَبَدِ مَوْصُولَةً بِنَارِ اَللّٰهِ اَلْمُوقَدَةُ `اَلَّتِي تَطَّلِعُ عَلَى اَلْأَفْئِدَةِ فَبِعَيْنِ اَللَّهِ مَا تَفْعَلُونَ وَ سَيَعْلَمُ اَلَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُونَ وَ أَنَا اِبْنَةُ نَذِيرٍ لَكُمْ بَيْنَ يَدَيْ عَذٰابٍ شَدِيدٍ فَاعْمَلُوا إِنّٰا عٰامِلُونَ وَ اِنْتَظِرُوا إِنّٰا مُنْتَظِرُونَ.


← اردو ترجمہ


ہر طرح کی حمد اللہ کیلئے مخصوص ہے کہ اس نے نعمتیں عطا فرمائیں اور ان تمام اشیاء پر اس کا شکر ہے جو اس نے الہام فرمائیں۔ وہ اپنی ان عمومی نعمتوں کی وجہ سے لائق ثناء ہے جن کی اس نے ابتدا کی ان وسیع نعمتوں کی وجہ سے جو اس نے عطا فرمائیں اور ان نعمتوں کے کامل کرنے پر جو اس نے پے در پے عطا کیں۔ ان نعمتوں کا شمار ممکن نہیں ہے اور ان کی مدت اوقات شکر سے کہیں زیادہ ہے۔ جن کی ہمیشگی کا ادراک انسانی بس سے باہر ہے۔ اس نے اپنے بندوں کو شکر کر کے نعمتیں زیادہ کرانے کی طرف رغبت دلائی تاکہ نعمتیں مسلسل نازل ہوں۔ پھر نعمتوں کو قابل قدر بنا کر مخلوق سے حمد کا مطالبہ کیا۔ پھر انہیں دنیوی نعمتوں کی طرح آخرت کی نعمات کا شکر ادا کرنے کی طرف مائل فرمایا۔
اور میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے وہ یکتا ہے اور کوئی اس کا شریک نہیں ہے۔ یہ وہ کلمہ ہے جس کی اصل حقیقت اللہ نے اخلاص کو قرار دیا اور اس کے معنی کو دلوں پر لپیٹ دیا اور اس کلمہ کے حاصل معنی کو دلیل و برہان کے ذریعہ قوت فکریہ کیلئے واضح اور روشن کر دیا۔ ظاہری آنکھوں سے جس کا دیکھنا محال ہے، زبانیں اس کے وصف سے قاصر ہیں اور اوہام اس کی کیفیت سے عاجز ہیں۔ اس نے پہلے سے موجود کسی چیز سے اشیاء کو پیدا نہیں کیا اور کوئی مثال پیش نظر رکھے بغیر عالم کو وجود میں لایا۔
ان چیزوں کو اپنی قدرت سے خلق فرمایا حالانکہ اسے ان چیزوں کے پیدا کرنے کی حاجت نہ تھی اور چیزوں کی تصویر کشی میں اسے کوئی فائدہ نہیں تھا۔
اشیا کو صرف اس لیے پیدا کیا کہ عقل والوں کو اس کی حکمت کا ثبوت ملے اور اس کی اطاعت کی طرف متوجہ ہوں اس نے اپنی قدرت کے اظہار کیلئے یہ سب کچھ کیا تاکہ اس کی مخلوق اس کی بندگی کا اقرار کرے اور اس کی دعوت کو غلبہ حاصل ہو۔ پھر اس نے اپنی اطاعت پر ثواب مقرر کیا اور اپنی نافرمانی پر سزا قرار دی تاکہ اپنے بندوں کو اپنے عذاب سے بچائے اور انہیں گھیر کر جنت کی طرف لے جائے۔
اور میں گواہی دیتی ہوں کہ میرے والد بزرگوار محمد اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں جنہیں اس نے رسول بنا کر بھیجنے سے پہلے مختار اور ممتاز بنایا اور انہیں مبعوث کرنے سے پہلے ہی انبیاء کو ان کے نام سے واقف کر دیا اور انہیں درجہ رسالت پر فائز کرنے سے پہلے ہی اصطفاء کی منزل پر فائز کر دیا تھا۔ اس وقت ساری مخلوق غیب کے حجابوں میں پوشیدہ تھی اور عدم کے ہولناک پردوں میں محفوظ تھی اور انتہائے عدم سے متصل تھی۔ یہ سب اس لیے تھا کہ خداوند عالم کو انجام امور کی خبر تھی اور اس کا علم حوادث زمانہ کا احاطہ کیے ہوئے تھا اور مقداروں کے مواقع کو وہ پہچانتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت کو اپنے امر ہدایت کو تمام کرننے اور اپنے حکم کو جاری کرنے کی مضبوطی اور حتمی اور طے شدہ مقدارت کو نافذ کرننے کیلئے مبعوث فرمایا۔ جب آپ مبعوث ہوئے تو آپ نے امتوں کو مذاہب کی ٹکڑیوں میں بٹا ہوا دیکھا۔ ان میں سے کچھ امتیں آتش پرستی پر مائل تھیں، کچھ امتیں بت پرستی میں مبتلا تھیں اور کچھ لوگ خدا کی ہستی کو پہچان کر اس کا انکار کر رہے تھے۔ پس خداوند عالم نے میرے والد محمد مصطفیٰ کے سبب ان کی تاریکیوں کو روشن کر دیا۔ دلوں سے جہالتوں کو کھول دیا اور آنکھوں سے پردے اٹھا دئیے۔ آپ لوگوں میں ہدایت کے ساتھ کھڑے ہوئے اور انہیں گمراہی سے نکالا۔ وہ اندھے تھے، آپ نے انہیں آنکھیں عطا کیں، انہیں دین قیم کی طرف رہبری کی اور انہیں صراط مستقیم کی طرف دعوت دی۔
پھر اللہ نے اپنی مہربانی سے ان کو ان کے اختیار اور رغبت اور ایثار کے ساتھ اپنی طرف بلا لیا۔ چنانچہ محمد مصطفیٰ اس دنیا کی زحمتوں سے چھوٹ کر آرام اور راحت میں پہنچ گئے۔ انہیں ملائکہ ابرار گھیرے رہتے ہیں اور رب غفار کی رضا نہیں اپنی آغوش میں لیے ہوئے ہے اور وہ جبار بادشاہ کی ہمسائگی سے بہرہ اندوز ہیں۔ خداوند عالم درود نازل کرے میرے پدر بزگوار پر جو اس کے پیغمبر اور اس کی وحی پر اس کے امین تھے اور اس کی مخلوقات میں اس کے برگزیدہ، منتخب اور پسندیدہ تھے۔ ان پر خدا کا سلام اور اس کی رحمت اور برکتیں نازل ہوں۔
پھر آپ اہل مجلس کی طرف ملتفت ہوئیں اور فرمایا:
اے بندگان خدا! تم تو خدا کے امر و نہی کے بجا لانے کیلئے منصوب و مقرر ہو، اس نے دین اور وحی کے حامل ہو، اپنے نفوس کے اوپر اس کے امین ہو، دوسری امتوں کی طرف خدا کی طرف سے مبلغ ہو اور تم اس عہد حق کے دوسری امتوں میں ضامن اور کفیل ہو جو خدا نے تم سے کیا ہے اور تم اس بقیہ کے ضامن ہو جن کو تم پر رسول کے بعد ذمہ دار قرار دیا گیا ہے اور وہ حاور بقیہ خدا کی ناطق کتاب اور سچا قرآن ہے۔ قرآن نور ساطع اور چمکتی ہوئی روشنی ہے۔
اس کی بصیرت کے امور واضح اور اس کے اسرار و رموز منکشف اور آشکار ہیں۔ اس کے ظاہر ہویدا اور جلی ہیں، اس کا اتباع کرنے والے قابل رشک ہیں، اس کی پیروی رضوان خدا تک پہنچانے والی ہے اور اس کو توجہ سے سنننا نجات تک کھینچ کے لے جاتا ہے۔ اس قرآن کے ذریعہ خدا کی منور حجتیں پائی جاتی ہیں، بیان کیے ہوئے واجبات معلوم ہوتے ہیں، ان محرمات کی اطلاع ہوتی ہے جن سے خوف دلایا گیا ہے۔ اس سے واضح دلائل اور براہین کافیہ اور ایسے مستحب فضائل ہعلوم ہوتے ہیں جن کی طرف رغبت دلائی گئی ہے اور ان مباح باتوں کا پتہ چلتا ہے جنہیں خدا نے بندوں کیلئے حلال کیا ہے اور اس سے خدا کی مقرر کردہ باتوں کا پتہ چلتا ہے۔
پس اللہ نے تمہارے لیے ایمان کو شرف سے پاک ہونے کا وسیلہ بنایا اور خدا نے نماز فرض کی تاکہ تکبر سے بچ سکو، زکوٰۃ کو نفس کی پاکیزگی اور رزق کی زیادتی کا ذریعہ بنایا اور روزوں کو اخلاص کی مضبوطی کا ذریعہ بنایا۔
اور حج کو دین کی مضبوطی کا وسیلہ بنایا اور عدل و انصاف کو واجب کر کے دلوں کو ایک دوسرے سے جوڑا اور ہماری اطاعت کو ملت اسلام کا نظام بنایا اور ہماری امامت کو تفرقہ سے بچنے کیلئے امان قرار دیا اور جہاد کو اسلام کی عزت بنایا اور مصیبت میں صبر کو تحصیل اجر میں مددگار بنایا اور امر بالمعروف میں عوام الناس کی مصلحت کو قرار دیا۔ والدین کےساتھ نیکی کو اس لیے واجب کیا کہ غضب خدا سے محفوظ رہا جائے اور صلہ رحم اس لیے مقرر کیا تاکہ عمر میں اضافہ ہو اور تعداد بڑھے اور قصاص اس لیے واجب کیا کہ خون ریزی رک جائے اور نذر و وفا کی راہ اس لیے نکالی کہ بندوں کی مغفرت مقصود تھی اور پیمانہ اور وزن پورا کرنے کا حکم اس لیے دیا کہ نقصان سے بچاؤ ممکن ہو اور شراب سے اس لیے ممانعت فرمائی کہ بندے برے اخلاق سے پاک رہیں اور زنا کا بے جا الزام لگانا اس لیے حرام کیا کہ لعنت کے سامنے ایک حجاب اور رکاوٹ پیدا ہو اور چوری کو اس لیے ممنوع قرار دیا کہ دوسروں کے مال میں بے اجازت تصرف کرنے سے لوگ باز رہیں اور خدا نے شرک کو اس لیے حرام کیا کہ اس کی ربوبیت کا اقرار خالص رہے۔
لہٰذا خدا سے ڈرو جو ڈرنے کا حق ہے اور جب مرو تو مسلمان ہی مرو۔
[۴] سورہ آل عمران، آیت ۱۰۲۔
اور اوامر میں خدا کی اطاعت کرو اور جن امور سے منع کیا ہے۔ ان سے باز رہو۔ بے شک خدا کے بندوں میں سے اہل علم ہی اس سے ڈرتے ہیں۔
[۵] سورہ توبہ، آیت ۲۸۔

لوگو! جان لو کہ میں فاطمہ ہوں اور میرے والد محمد مصطفیٰ ہیں۔ جو بات میں تم سے ابتدا میں کہہ رہی ہوں، وہی آخر تک کہتی رہوں گی اور میں غلط بات نہیں کہتی اور اپنے فعل میں حد سے تجاوز نہیں کرتی۔ یقینا تمہارے پاس خدا کا وہ رسول آیا ہے جو تم میں سے ہے۔ تمہارا تکلیف میں پڑنا اس پر شاق ہے۔ وہ تمہاری بھلائی کیلئے حریص ہے جو مومنین پر شفیق اور مہربان ہے۔
[۶] سورہ توبہ، آیت ۱۲۸۔
پس اگر تم ان کی طرف کسی کو نسبت دو اور ان کا تعارف کرواؤ تو تم ان کو میرا باپ پاؤ گے نہ کہ اپنی عورتوں کا اور انہیں میرے ابن عم (علیؑ ) کا بھائی پاؤ گے نہ کہ اپنے مردوں میں سے کسی کا۔ آنحضرت بہترین شخص ہیں جن کی طرف نسبت کی جائے۔ پس آنحضرت نے خدا کا پیغام بہت اچھی اور پوری طرح پہنچا دیا اس طرح کہ خدا کے ڈرانے میں پوری وضاحت سے کام لیا اور آپ مشرکین کے مسلک کی ممتاز چیزوں پر ضرب کاری لگاتے رہے اور آپ نے ان کا ناطقہ بند کیے رکھا اور اپنے پروردگار کے راستے کی طرف حکمت اور موعظہ حسنہ کے ساتھ دعوت دیتے رہے۔ آپ بتوں کو توڑتے رہے تھے اور اہل شرک کے سرداروں کو سرنگوں کیے رہے؛ یہاں تک کہ گروہ مشرکین کو شکست ہوئی اور پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ جہالت کی رات ختم ہوئی صبح نے جلوہ دکھایا اور حق اپنی خالص شکل میں نمودار ہوا۔ دین کا ڈنکا بولنے لگا اور شیطانوں کے ناطقے بند ہو گئے۔ نفاق پرور کمینے ہلاک ہوئے، کفر اور نافرمانی کی گرہیں کھل گئیں اور تم نے چند روشن نسب اور گرسنہ (روزہ دار لوگ) یعنی اہل بیت رسول کے درمیان زبان پر کلمہ اخلاص جاری کیا۔ تم دوزخ کے کنارے پر کھڑے تھے اور ایسے بے مقدار تھے جیسے پینے والے کا ایک گھونٹ اور طمع کرنے والے کا ایک چلو اور عجلت کرنے والے کی ایک چنگاری اور ایسے ذلیل تھے جیسے پیروں تلے خاک ۔ تم گندہ پانی پیتے تھے اور بے دباغت کی ہوئی کھال چباتے تھے۔ ذلیل تھے اور دھتکارے ہوئے تھے اور تم ڈر رہے تھے کہ تمہارے گرد و پیش کے لوگ تمہیں اچک نہ لیں۔ ایسے وقت پر خداوند عالم نے محمد مصطفیٰ کے ذریعہ سے تمہیں ان فکروں سے نجات دی اور چھوٹی بڑی بلاؤں کے بعد ایسا ممکن ہوا۔ مگر عرب کے لوگوں نے ان واقعات پر خاموشی اختیار نہیں کی تھی، آنحضرت کو بہادر کافروں کے ذریعہ سے آزمایا گیا اور عرب کے ڈاکوؤں اور اہل کتاب کے سرکش افراد سے ان کو پالا پڑا البتہ جب کبھی انہوں نے جنگ کی آگ بھڑکائی تو خدا نے اسے بجھا دیا یا جب کبھی شیطان نے سر اٹھایا اور مشرکین کی شرارت کے اژدہے نے منہ کھولا تو آنحضرت نے اپنے بھائی علی کو ہی اس بلا کے منہ میں بھیجا۔ پس اس بہادر علی کی شان یہ تھی کہ وہ اس وقت تک نہ پلٹتے تھے جب تک اپنے پیروں تلے ان بلاؤں کے سر کچل نہ دیتے اور فتنہ کی آگ کو اپنی تلوار سے نہ بجھا دیتے۔ وہ خدا کے بارے میں مشقت برداشت کرنے والے ہیں۔ امر خدا میں کوشش کرنے والے ہیں اور ہر بات میں رسول خدا سے قریب ہیں اور وہ اولیائے خدا کے سردار ہیں۔ اس عرصے میں میرے شوہر ہدایت پر کمر بستہ، بندگان خدا کے خیر خواہ، کوشش اور سعی بلیغ کرنے والے تھے۔ اس دوران تمہاری حالت یہ تھی کہ تم زندگی کی خوش گوار حالت میں پڑے ہوئے تھے۔ اطمینان اور خوش طبعی کی حالت میں بے خوف زندگی بسر کر رہے تھے اور ہم پر مصائب نازل ہونے کی آرزو کرتے تھے اور ہمارے لیے فتنوں اور مصیبتوں کی امید کرتے تھے تم لوگ جنگ کے مواقع پر پسپا ہو جاتے تھے اور میدان جنگ سے بھاگ جاتے تھے۔ پس جب خداوند عالم نے اپنے پیغمبر کیلئے اپنے انبیاء اور اپنے اصفیاء کے مسکن کو پسند کیا تو تم لوگوں میں نفاق ظاہر ہوا، دین کی چادر بوسیدہ ہو گئی، گمراہوں کی زبان کھل گئی، ظالم اور گمنام لوگ ابھر کر سامنے آ گئے، باطل پرستی کا اونٹ بولنے لگا اور اس نے تمہارے گھروں میں دم ہلانی شروع کر دی۔ پس شیطان نے اپنے گوشے سے سر نکالا۔ اس نے تمہیں بلانے کیلئے آواز دی تو تمہیں اپنی آواز پر لبیک کہتا ہوا پایا اور اپنے فریب کی طرف تمہیں نگران دیکھ لیا۔ پھر اس نے تمہیں اپنی فرمانبرداری کیلئے اٹھنے کا حکم دیا تو تمہیں فورا تیار ہونے والا پایا۔ اس نے تمہیں بھڑکایا تو اپنی مدد میں تمہیں غضب ناک اور تند پایا۔ پس تم نے اپنے اونٹ کے بدلے دوسرے کے اونٹ کو داغا اور اپنا گھاٹ چھوڑ کر دوسرے کے گھاٹ پر پانی پلایا؛ حالانکہ تم سے رسول خدا کے عہد و پیمان کا وقت قریب تھا اور ان کی جدائی کا زخم ابھی تازہ تھا اور زخم مندمل نہیں ہوا تھا اور رسول خدا ابھی دفن بھی نہیں ہوتے تھے کہ تم نے شیطانی کاموں کی طرف سبقت کی یہ گمان کر کے کہ فتنہ کا خوف پیدا ہو گیا تھا حالانکہ یہ گمان غلط تھا۔ آگاہ رہو! منافقین فتنہ میں جا گرے ہیں اور دوزخ کافروں کو گھیرے ہوئے ہے۔
[۷] سورہ توبہ کی آیت ۴۹ کی طرف اشارہ۔
مجھے تم سے سخت تعجب ہے اور تمہیں کیا ہو گیا ہے اور تمن حق سے منہ موڑ کر کہاں جا رہے ہو؟! جبکہ اللہ کی کتاب تمہارے درمیان موجود ہے۔ اس کے امور ظاہر ہیں اور اس کے احکام روشن ہیں اور اس کی نشانیاں واضح ہیں اور اس کی تنبیہات صاف اور واضح ہیں اور اس کے اوامر آشکار ہیں اور ایسی کتاب کو تم نے پس پشت ڈال دیا ہے۔ کیا اس سے نفرت کرتے ہو، پیٹھ پھیرتے ہو یا قرآن کے علاوہ احکام جاری کرنے پر تل گئے ہو؟! اور ظالموں کیلئے ان کے ظلم کا برا بدلہ ہے اور جو کوئی اسلام کے علاوہ اپنے لیے کوئی اور دین تلاش کرے گا تو وہ اس سے ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان پانے والوں میں سے ہو گا۔
[۸] سورہ آل عمران، آیت ۸۵۔

پھر تم نے اتنی تاخیر نہ کی کہ نفرت ذرا کم ہو جاتی اور اس پر قابو پانا آسان ہو جاتا۔ پھر تم نے اس آگ کے شعلوں کو بھڑکانا شروع کر دیا اور اس کی چنگاریاں تیز کرنے لگے اور تمم شیطان گمراہ کی آواز پر لبیک کہنے اور خدا کے روشن دین کے بجھانے اور برگزیدہ پیغمبر کی سنتوں کو مٹانے پر کمر بستہ ہو گئے۔ تم جھاگ کے بہانے خاموشی سے دودھ پینے لگے اور رسول خدا کے اہلبیت اور اولاد کے خلاف گنجان درختوں اور جھاڑیوں میں چھپ کر چال چلنے لگے اور ہم لوگ تمہارے افعال پر یوں صبر کرنے لگے جیسے کوئی چھری کی کاٹ پر اور نیزے کے سینے میں پیوست ہونے پر صبر کرتا ہے۔
اب تم یہ گمان کرنے لگے ہو کہ ہمارے لیے میراث نہیں ہے۔ کیا وہ جاہلیت کا فیصلہ پسند کرتے ہیں اور یقین رکھنے والی قوم کیلئے خدا سے بہتر فیصلہ کرنے والا کون ہو سکتا ہے؟!
[۹] سورہ مائدہ، آیت ۵۰۔
کیا تمہیں علم نہیں؟! کیوں نہیں بے شک تم جانتے ہو اور تمہارے لیے یہ امر آفتاب نصف النہار کی طرح واضح ہے کہ میں پیغمبر کی بیٹی ہوں۔ اے مسلمانو! کیا تم اس بات پر راضی ہو کہ میری میراث مجھ سے چھین لی جائے؟!
اے فرزند ابو قحافہ ! کیا اللہ کی کتاب میں یہ ہے کہ تو اپنے باپ کی میراث پائے اور میں اپنے باپ کی میراث نہ پاؤں؟! تو نے یہ کیا ہی بری بات پیش کی ہے۔ کیا تم نے جان بوجھ کر اللہ کی کتاب کو چھوڑ دیا ہے اور اسے پس پشت ڈال دیا ہے؟! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: سلیمان داؤد کے وارث بنے
[۱۰] سورہ نمل، آیت ۱۶۔
اور اللہ تعالیٰ نے زکریاؑ کا قصہ بیان کرتے ہوئے ان کی دعا نقل کی۔ زکریا نے عرض کی تھی: خدایا! مجھے اپنے پاس سے وارث عطا فرما جو میری میراث پائے اور آل یعقوب کا ورثہ پائے۔
[۱۱] سورہ مریم، آیت ۶۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اللہ کی کتاب میں رشتہ دار ایک دوسرے کی میراث کے زیادہ حقدار ہیں؛
[۱۲] سورہ انفال، آیت ۷۵۔
اللہ تعالیٰ تمہیں تمہاری اوﻻد کے بارے میں حکم کرتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے؛
[۱۳] سورہ نساء، آیت ۱۰۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: اگر کوئی مرنے والا مال چھوڑ جائے تو وہ والدین اور قریبی رشتہ داروں کیلئے اچھائی کے ساتھ وصیت کرے، یہ پرہیزگاروں کی گردن پر ایک حق ہے؛
[۱۴] سورہ بقرہ، آیت ۱۸۰۔
اور تم نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ میراث میں میرا کوئی حق نہیں ہے اور میں اپنے باپ کی کوئی وراثت حاصل نہیں کر سکتی تو کیا اللہ نے میراث کے متعلق تم کو کسی آیت کے ساتھ مخصوص کیا ہے جس سے میرے والد کو مستثنیٰ کیا ہے؟!َ یا تمہارا خیال یہ ہے کہ ملت والے ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوتے۔ تو کیا میں اور میرے والد ایک ہی ملت پر نہیں ہیں؟! یا پھر تم لوگ قرآن کے عموم و خصوص کو میرے والد اور میرے ابن عم سے زیادہ جانتے ہو؟!
اچھا! آج تم فدک اس طرح قبضہ میں لے لو جس طرح مہار اور پالان بندھا ناقہ قبضے میں کیا جاتا ہے اس کے نتائج کا علم تمہیں قیامت میں ہو گا جب خدا فیصلہ کرنے والا ہو گا اور محمدؐ ہمارے ضامن و وکیل ہوں گے۔ میری اور تمہاری وعدہ گاہ قیامت ہے۔ قیامت میں باطل پرست گھاٹے میں رہیں گے۔ اس وقت کی ندامت تمہیں کوئی فائدہ نہ دے گی۔ ہر امر کیلئے ایک وقت مقرر ہے اور عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ کس پر عذاب نازل ہو کر اسے رسوا کرے گا اور اس کے لیے دائمی عذاب مقرر ہو گا۔
[۱۵] سورہ انعام، آیت ۶۷۔

پھر حضرت سیدہؑ نے مسجد میں موجود انصار کی طرف نگاہ دوڑائی اور انہیں مخاطب کر کے فرمایا:
اے گروہ نقیبان اور اے ملت کے دست و بازو اور اے اسلام کی حفاظت کرنے والو! میرے حق میں یہ سستی کیسی اور میری فریاد سے یہ چشم پوشی کس لیے ہے؟! کیا میرے والد رسول خداؐ یہ نہیں فرماتے تھے: کسی شخص کی حفاظت اس کی اولاد کی حفاظت کر کے ہوتی ہے۔ کتنی جلدی تم نے دین میں بدعت پیدا کر دی اور قبل از وقت تم نے اس کا ارتکاب کیا ہے جبکہ تمہیں اس بات کی طاقت حاصل ہے جس کی میں کوشش کر رہی ہوں۔ کیا تم کہتے ہو: ’’محمدؐ نے انتقال فرمایا‘‘ ہاں یہ بات صحیح ہے۔ یہ بہت بری مصیبت ہے جس کا رخنہ وسیع ہے جس کا شگاف بہت زیادہ ہےاور اس کا اتصال انفصال سے بدل چکا ہے۔ زمین ان کی غیبت سے تاریک ہو گئی اور ان کی مصیبت کی وجہ سے ستاروں کو گہن لگ گیا اور امیدیں منقطع ہو گئیں اور پہاڑوں کے دل بھی آب آب ہو رہے ہیں۔ حرمت رسول ؐضائع کر دی گئی اور ان کی وفات سے حریم رسول کی عظمت لوگوں کے دلوں سے اٹھ گئی۔ خدا کی قسم! یہ بہت بڑی بلا اور عظیم مصیبت ہے۔ اس کی مثل کوئی بلا نہیں ہے اور نہ اس سے زیادہ ہلاک کرنے والی کوئی تیز مصیبت ہے اور اس بلا کی خبر خدائے برتر کی کتاب میں خود تمہارے گھروں میں ہایت خوش الحانی اور بلند آواز کے ساتھ پہنچا دی گئی تھی اور آنحضرت سے پہلے خدا کے پیغمبروں اور رسولوں پر جو مصیبتیں نازل ہوئیں وہ امر واقعی اور قضائے حتمی تھیں؛ چنانچہ خدا فرماتا ہے: محمد فقط خدا کے رسول ہیں، ان سے پہلے بھی بہت سے رسول گزر چکے ہیں۔ پس اگر محمد موت کی آغوش میں چلے جائیں یا قتل ہو جائیں تو تم لوگ اپنے پچھلے پیروں پر پلٹ جاؤ گے؟! اور جو شخص بھی اپنے پچھلے پیروں پر پلٹے گا وہ اللہ کو ہرگز نقصان نہ پہنچا سکے گا اور خدا عنقریب شکر کرنے والوں کو جزا دے گا۔
[۱۶] سورہ آل عمران، آیت ۱۴۸۔

اے بنی قیلہ!
[۱۷] قَیْلہ ایک خاتون کا نام ہے کہ انصار (قبیلہ اوس و خزرج) جس کی نسل سے تھے۔
تو کیا میرے باپ کی میراث یوں ہی ہضم کر لی جائے گی؟! حالانکہ تم میری آنکھوں کے سامنے موجود ہو اور میری آواز سن رہے ہو اور میں اور تم ایک ہی محفل اور مجمع میں موجود ہیں۔ میری دعوت تم تک پہنچ رہی ہے اور میرے حالات کی خبر تم تک آ رہی ہے جبکہ تم سب جتھے والے، تیاری والے اور ہتھار اور قوت رکھنے والے لوگ ہو اور تمہارے پاس ہتھیار اور سپریں موجود ہیں۔ تم تک میری پکار پہنچ رہی ہے مگر تم لبیک نہیں کہتے۔ تمہارے پاس میری مظلومیت کی فریاد آ رہی ہے اور تم فریاد رسی نہیں کرتے حالانکہ تم دشمنوں سے مقابلہ کرنے کی طاقت رکھتے ہو اور تم خیر و صلاح کیلئے مشہور و معروف ہو۔ تم تو چنے ہوئے منتخب افراد ہو اور تمہیں تو ہماری نصرت کیلئے چنا گیا تھا۔ تم نے عرب سے جنگ کی اور تھکان اور مشقت برداشت کی۔ تم نے دوسری امتوں سے جنگ کی اور بہادروں کا مقابلہ کیا اور اس سے قبل جب تک ہم نہ رکتے تھے اس وقت تک تم بھی نہ رکتے تھے اور ہم حکم کرتے تھے اور تم تعمیل کیا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ جب ہمارے ذریعے سے اسلام کی چکی نے گردش شروع کی، زمانہ کا نفع بڑھنا شروع ہوا، شرک کی آواز دب گئی، جھوٹ کا زور تھم گیا، کفر کی آگ بجھ گئی، فتنہ و فساد کی آواز بند ہو گئی اور دین کا انتظام درست ہو گیا تو اب حق کے واضح ہونے کے بعد تم سرگرداں کیسے ہو گئے اور اعلان حق کے بعد تم اسے کیوں چھپا رہے ہو اور آگے بڑھنے کے بعد تم سپا کیوں ہو رہے ہو اور ایمان کے بعد شرک کیوں کر رہے ہو؟!
تم ان لوگوں سے جنگ کیوں نہیں کرتے جنہوں نے اپنی قسموں کو توڑا اور رسول کو نکالنے پر آمادہ ہوئے اور عہد شکنی کی ابتدا بھی ان کی طرف سے ہو چکی ہے تو کیا تم ان سے ڈرتے ہو حالانکہ خدا زیادہ حقدار ہے کہ تم اس سے ڈرو اگر تم صاحبان ایمان ہو۔
[۱۸] سورہ توبہ، آیت ۱۳۔

خبردار! میں دیکھ رہی ہوں کہ تم مسلسل پستی کی طرف جھکے جا رہے ہو اور جو دین کے حل و عقد کا صحیح حقدار تھا تم نے اس کو دور کر دیا ہے۔ تم آرام طلبی پر مائل ہو چکے ہو اور تم زندگی کی تنگی سے نکل کر فراخی میں آ چکے ہو۔ جو کچھ تم نے یاد کیا تھا، اسے تم نے اگل دیا ہے اور جس پانی کو شیریں سمجھ کر پیا تھا، اسے تم نے پھینک دیا ہے۔ پس اگر تم اور روئے زمین کے تمام رہنے والے کفر اختیار کر لیں تو بھی یقینا خدا بے پرواہ اور قابل حمد ہے۔
[۱۹] سورہ ابراہیم، آیت ۸۔

آگاہ ہو جاؤ! میں نے جو کچھ کہا ہے وہ اس ترک نصرت کو دیکھ کر کہا ہے جو تمہارے مزاج میں داخل ہو چکی ہے اور اس غداری کو دیکھ کر کہا ہے جس کو تمہارے دلوں نے اپنے اندر چھپا رکھا ہے ( میں جانتی ہوں کہ تم میری مدد نہ کرو گے) لیکن اس کے باوجود جو کچھ میں نے کہا وہ غم کا اظہار ہے، کھولتے ہوئے دل کی آہ ہے۔ یہ دل کا پھپھولا ہے، یہ سینے کا ایک درد ہے اور یہ اتمام حجت ہے۔ اب یہ ناقہ (حکومت) تمہارے سامنے ہے۔ اس پر پالان باندھو۔ مگر یاد رہے کہ اس کی پشت زخمی ہے اور اس کے پاؤں پھٹے ہوئے ہیں۔ اس کا عیب باقی رہنے والا ہے جس پر خدا کے غضب اور دائمی رسوائی کا نشان ہے، جو خدا کی آگ سے متصل ہے ، جو بھڑک رہی ہے، جو دلوں پر وارد ہو گی۔ تم جو کچھ بھی کر رہے ہو خدا کی نظر کے سامنے ہے اور ظلم کرنے والوں کو عنقریب معلوم ہو جائے گا کہ ان کی بازگشت کتنی بری ہے۔
[۲۰] سورہ شعراء، آیت ۲۲۷۔
میں اس پیغمبرؐ کی بیٹی ہوں جو تمہیں آگے کے سخت عذاب سے ڈرایا کرتا تھا۔ پس تم اپنا کام کرو اور ہم بھی اپنا عمل کرتے ہیں۔ تم بھی انتظار کرو اور ہم بھی انتظار کرتے ہیں۔
[۲۱] حضرت زہراؑ کے خطبے کا اردو ترجمہ کتاب بیت الاحزان مترجمہ محمد حسن جعفری سے ماخوذ ہے۔


←← ابوبکر کا جواب


ابوبکر بات کرتے ہیں:
اے بنت رسول خداؐ! آپ کے پدر مومنین کی نسبت مہربان تھے، ان کو احترام دیتے تھے اور مہربانی و شفقت کے ساتھ ان کے ساتھ سلوک کرتے تھے اور اس کے مقابلے میں کافروں کیلئے دردناک عذاب اور سخت عقوبت شمار ہوتے تھے۔ ہاں، اگر ہم خاندانی نسب کاجائزہ لیں تو خواتین میں سے انہیں صرف آپ کے والد اور مردوں میں سے صرف آپ کے ہمسر علی کا بھائی پائیں گے؛ علی کے بارے میں کہوں گا کہ رسول اللہ انہیں اپنے تمام ساتھیوں اور مددگاروں پر برتری دیتے تھے اور وہ بھی مشکل ترین معاملات میں آنحضرت کی آگے بڑھ کر نصرت کرتے تھے۔ آپ سے نیک سیرت انسانوں کے سوا کوئی محبت نہیں کرتا اور بد فطرت لوگوں کے سوا کوئی آپ سے دشمنی نہیں کرتا۔ آپ پیغمبر کا پاک خاندان اور منتخب نیک ہستیاں ہیں، ہماری اچھائیوں کی طرف رہنمائی کرتے ہیں اور بہشت برین تک پہنچنے کا راستہ ہمارے سامنے کھولتے ہیں۔
اے ممتاز خاتون اور اللہ کے سب سے عظیم رسول کی دختر! آپ سچ کہتی ہیں اور عقل میں ہم سب پر سبقت رکھتی ہیں؛ مگر آپ کا حق نہیں چھینا گیا اور کسی نے آپ کو جھوٹا نہیں کہا ہے۔ خدا کی قسم! میں نے آپ کے والد کی رائے سے دوری نہیں کی ہے اور ان کے اذن و رضا کے بغیر اقدام نہیں کیا ہے۔ کسی بھی گروہ کے پیشقدم کیلئے سزاوار نہیں ہے کہ اپنے ساتھیوں کو فریب دے اور ان سے جھوٹ بولے۔ اب میں گواہی دیتا ہوں (اور خدا گواہ ہونے کیلئے کافی ہے) کہ آپ کے پدر بزرگوار سے سنا ہے کہ فرمایا: ہم گروہ انبیاء، سونا چاندی، گھر اور باغ نہیں چھوڑ کر جاتے۔ یقینا ہماری یادگار کتاب و حکمت، علم اور پیغمبری رہتے ہیں اور ہم سے کسی کیلئے مال و روزی باقی نہیں رہتے۔
میں نے اسی قول کی بنیاد پر آپ کے زیر اختیار زمین، حیوانات اور جنگی ہتھیار آپ کے والد کی امت کے حوالے کر دئیے ہیں تاکہ جنگ کے میدانوں میں کافروں کا مقابلہ کر کے مرتدین و منحرفین کا قلعم قمع کر دیں۔ میرے کام کو تمام مسلمان قبول کرتے ہیں اور میں نے ہرگز آمریت و استبداد سے کام نہیں لیا ہے یہ ہے میرا کام، پروگرام اور طریقہ۔ اب میں آپ سے کہتا ہوں کہ میرا تمام مال آپ کا ہے، نہ اس میں سے تھوڑا سا جمع ہو گا اور نہ ہی کسی دوسی جگہ پر ذخیرہ ہو گا۔ آپ اپنے والد کی امت کی سردار ہیں اور اپنی اولاد کی شجرہ طیبہ ہیں اور ہمیں آپ کی فضیلت میں کوئی تردید نہیں ہے اور آپ کی اصل و فرع کو بے حیثیت نہیں سمجھا جا سکتا، میں کہتا ہوں کہ میرا مال آپ کے زیر اختیار ہے اور آپ کے اذن و رضا کے بغیر اس میں تصرف نہیں ہو گا۔ کیا آپ سمجھتی ہیں کہ میں اس معاملے میں آپ کے پدر کی مخالفت کروں؟!

←← صدیقہ کبریٰؑ کا ابوبکر کو جواب


سبحان اللہ! میرے والد بزرگوار رسول خدا کتاب خا سے نہ تو روگردان تھے اور نہ ہیہ اس کے احکام کے مخالف تھے بلکہ آپ حکم قرآن کے تابع اور اس کی سورتوں کے پیروکار تھے۔ کیا تم نے رسول خدا پر جھوٹ باندھ کر اس کے ذریعے دغابازی پر اجماع کر لیا ہے؟! تمہارا کام، آپ ؐکے زمانہ حیات میں حیلہ گروں کے بے نتیجہ فتنوں اور شرور سے مختلف نہیں ہے، مگر یہ کہ تم نے آپ ؐکی رحلت کے بعد اپنے منصوبوں کا آغاز کیا ہے! یہ خدا کی کتاب ہے، عادل حاکم اور ایسی ناطق کہ جس کا کلام اختلافات کو ختم کرنے والا ہے۔ اس کتاب میں زکریا کی داستان میں پڑھتے ہیں: وہ (یحییٰ) مجھ سے اور آل یعقوب سے میراث پائے؛ اور سلیمان کی داستان میں فرماتا ہے: سلیمان نے داؤد سے میراث پائی۔ خدائے واحد قرآن میں کس طرح حصوں کی کیفیت بیان کر رہا ہے، ارث پانے والوں کو مشخص کر رہا ہے۔ مرد و زن کے حصوں کا اعلان فرما رہا ہے تاکہ بیمار دل کوئی بات نہ کر سکیں اور آئندہ کے لوگ اشتباہ کا شکار نہ ہوں۔ کس قدر زیبا ہے کلام خدا کہ فرمایا: بے شک تمہارے نفسوں نے تمہارے سامنے ایک امر کو خوشنما بنا کر پیش کر دیا ہے۔ پس میرے لیے صبر جمیل ہی مناسب ہے اور جو باتیں تم بنا رہے ہو اس پر خدا ہی سے مدد طلب کی جائے گی۔
[۲۲] سورہ یوسف، آیت ۱۸۔


←← ابوبکر کا جواب الجواب


ابوبکر نے ایک مرتبہ پھر لب کشائی کی:
خدا بھی سچا اور خدا کا رسول بھی سچا اور ان کی بیٹی بھی سچی کہ جو حکمت کی کان، ہدایت و رحمت کی قیام گاہ اور دین کا پائیدار محور ہیں۔ آپ کی درست فکر اور صائب کلام کا کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ یہ مسلمان میرے اور تمہارے درمیان موجود ہیں کہ جنہوں نے مجھے حاکم بنایا ہے اور میں نے سب کی متفقہ رائے سے فدک کو آپ سے (چھین کر اپنے قبضے میں) لیا ہے۔ یہ سب شہادت دیتے ہیں کہ میں نے اس اقدام میں نہ مطلق العنانی کی ہے، نہ تکبر کیا ہے، نہ جفا کی ہے اور نہ ہی خود دوسروں پر مقدم کیا ہے۔

←← صدیقہ کبریٰ کا حاضرین سے خطاب


فاطمہؑ سے برداشت نہ ہوا اور مسجد میں بیٹھے لوگوں کی طرف رخ کر کے فرمایا:
اے انسانوں کا وہ گروہ جو باطل اختیار کرنے میں جلدی کرنے والا ہے اور جسے فعل قبیح کرنے سے کوئی باک نہیں ہے۔ کیا تم لوگ قرآن میں غور و فکر نہیں کرتے یا تمہارے دلوں پر تالے لگے ہوئے ہیں۔
[۲۳] سورہ محمد آیت ۲۴۔
بے شک تمہارے دلوں پر تمارہے فعل بد کا زنگ چڑھ چکا ہے جس نے تمہارے کانوں اور آنکھوں کو بالکل بیکار کر دیا ہے۔ جو تاویل تم نے کی ہے وہ بہت بری ہےاور جو اشارہ تم نے کیا ہے وہ بہت لغو اور بدتر ہے اور جسے تم نے حق کے بدلے میں اختیار کیا ہے وہ شر عظیم ہے۔
خدا کی قسم! تم اس کے بوجھ کو بہت بھاری اور اس کے انجام کو ہولناک پاؤ گے جب تمہارے سامنے سے پردے ہٹا دئیے جائیں گے اور اس کے پیچھے چھپی ہوئی مصیبت ظاہر ہو جائے گی اور روز قیامت تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارے لیے وہ کچھ ظاہر ہو گا جس کا تمہیں گمان تک نہ ہو گا۔ اس وقت باطل پرست نقصان اٹھائیں گے۔

←← حضرت فاطمہؑ کا پدر سے راز و نیاز


پھر بنت پیغمبر نے اپنے پدر کی قبر مطہر کی طرف رخ کر کے یہ اشعار کہے:

آپ کے بعد برے حالات اور فتنے پیدا ہوئے ،

اگر آپ موجود ہوتے تو انہیں تحمل نہ کرتے۔

ہم نے آپ کو ایسے کھویا ہے جیسے زمین اپنے برسنے والے بادل کے پانی کو کھو دیتی ہے،

آپ کی امت کا شیرازہ بکھر چکا ہے؛ آپ خود آ کر دیکھیں کہ انہوں نے راہ حق سے انحراف کر لیا ہے۔

آپ ہمارے درمیان سے جا چکے ہیں اور عالم بقاء کی طرف چلے گئے،

مگر اپنی رحلت کے ساتھ آسمانی وحی کا سلسلہ بند کر گئے۔

جونہی آپ ؐکی رحلت ہوئی؛ اور ہمارے اور آپ ؐکے درمیان مٹی حائل ہوئی،

لوگوں نے اپنے سینوں میں دبے خفیہ عزائم ہمارے سامنے ظاہر کر دئیے۔

لوگوں نے ہم سے ترش روئی اختیار کر لی ہے،

آپ کے جانے کے بعد ہمیں حقیر سمجھ لیا گیا اور آج ہمارے حقوق غصب ہو رہے ہیں۔

اے پدر بزرگوار! آپ ؐدنیا کیلئے روشنی اور چودہویں کا چاند تھے کہ جس کی پرتو سے سب بہرہ مند ہوتے تھے،

اور خدائے قادر کی طرف سے آپ پر آسمانی کتاب نازل ہوتی تھی۔

جبرئیل آیاتِ الہٰی لا کر ہمیں مانوس رکھتے تھے اور جب سے آپ ؐرخصت ہوئے ہیں تو تمام اچھائیاں چھپ گئی ہیں۔

کاش! ہمیں آپ ؐسے پہلے موت آ گئی ہوتی،

مگر آپ نے آنکھیں بند کیں اور ہماری جان پر بھاری غم و اندوہ آن پڑا۔

آپ ؐکی رحلت کے ساتھ ایسی سختیاں اور بلائیں ہم پر ٹوٹیں،
کہ عرب و عجم میں سے کوئی ان میں مبتلا نہیں ہوا۔
[۲۴] ابن اثیر نے نھایۃ اور صاحب تاج العروس نے فقط پہلے دو اشعار کو تھوڑے اختلاف کے ساتھ نقل کیا ہے۔
[۲۵] بعض نے ان دو اشعار کو ہمارے طرح ذکر کیا ہے۔
ابن عبد ربہ نے العقد الفرید میں دوسرا شعر اور آخری سے پہلا شعر ثبت کیا ہے۔
[۲۶] تاہم علی بن عیسی اربلی نے کتاب کشف الغمہ میں داستان ان الفاظ میں نقل کی ہے: صدیقہ کبریٰ نے پدر کے مزار کی جانب رخ کر کے ھند ابن اثاثہ کے نظم کردہ اشعار پڑھے۔
[۲۷] تاہم بظاہر پہلے دو شعر ھند بن اثاثہ سے مربوط ہیں جبکہ دیگر اشعار حضرتؑ کی زبان سے نقل کیا گیا ہے۔

حضرت زہراؑ کی گھر واپسی

[ترمیم]

کتاب ’’بلاغات النساء‘‘ کے مؤلف لکھتے ہیں: ہمیں ہرگز کوئی ایسا دن یاد نہیں ہے کہ جب مرد و زن نے اس دن کی مثل گریہ و زاری کی ہو۔ سید مرتضیٰ، شیخ طوسی اور دوسروں نے اپنی روایات میں نقل کیا ہے کہ عالم اسلام کی ممتاز خاتون اس خطاب کے بعد گھر واپس آ گئیں۔ امیر المومنینؑ آپؑ کا انتظار کر رہے تھے اور اپنی زوجہ کی واپسی کیلئے چشم براہ تھے۔ چند لمحے گزر گئے۔ صدیقہ کبریٰ نے کچھ دیر استراحت کی۔

← امیر المومنینؑ سے خطاب


پھر امامؑ کی طرف متوجہ ہو کر یہ فرمایا:
اے فرزند ابو طالب! آپ ایک جنین کی طرح پردہ نشین ہو گئے اور ایک متہم کی طرح سے گھر میں بیٹھ رہے۔ آپ نے شاہبازوں کے پر توڑے ہیں اور اب کمزور پرندوں کے پر آپ سے خیانت کرنے لگے ہیں۔
یہ ابو قحافہ کا بیٹا میرے والد کے ہبہ اور میرے بچوں کا رزق مجھ سے چھین رہا ہے اور اس نے کھل کر مجھ سے دشمنی کی ہے اور میں نے اسے اپنا بدترین دشمن پایا ہے۔ اب ہماری مظلومیت کی یہ حالت ہے کہ انصار نے اپنی مدد ہم سے روک لی ہے، مہاجرین نے ہم سے تعلقات منقطع کر لیے ہیں اور لوگوں نے ہماری مدد سے چشم پوشی اختیار کر لی ہے۔ اب نہ تو کوئی دفاع کرنے والا ہے اور نہ ہی کوئی روکنے والا ہے۔ میں اپنے غصے کو ضبط کر کے گھر سے گئی تھی اور ستم رسیدہ بن کر واپس آئی ہوں۔
آپ نے اسلام کی مصلحت کی خاطر جس دن سے تلوار نیام میں کر لی، اس دن سے اپنے آپ کو خانہ نشین بنا لیا، اس سے قبل آپ بھیڑیوں کو پھاڑا کرتے تھے اور اب کیوں خاک نشین بن گئے۔ آپ نے کسی بداندیش گفتگو کرنے والے کو نہ روکا اور کسی باطل کو دور نہ کیا جبکہ میرے تو اختیار میں کچھ نہیں ہے۔
ہائے یہ کتنا سخت دن ہے، کاش! اس توہین و تذلیل سے قبل مجھے موت آ جاتی، میرا پشت پناہ اللہ ہے جو اس سے غضبناک ہو اور آپؑ کی حمایت کرے، ہر صبح میرے اوپر آفتیں نازل ہو رہی ہے، ہر شام مجھ پر آفتیں پڑ رہی ہیں، ہمارا سہارا اس دنیا سے چلا گیا اور بازو کمزور ہو گیا۔ میں والد کی خدمت میں اپنے اوپر ہونے والے ظلم کی شکایت کروں گی اور اپنے اوپر ہونے والے ستم کی فریاد رب کے حضور کروں گی۔
اے پروردگار! تو ہی سب سے زیادہ قوت و طاقت رکھنے والا ہے اور تیرا عذاب اور تیری سزا سب سے زیادہ سخت ہے۔

← امیر المومنینؑ کا جواب


امامؑ نے یہ باتیں سنیں اور جانتے تھے کہ ان کی زوجہ کا غم زدہ دل فریاد کناں ہے اور اب صبر و سکون کی تاب نہیں رکھتا؛ اس لیے آپؑ سے مخاطب ہو کرفرمایا:
آفتیں نازل ہوں آپ کے دشمن اور بدخواہ پر، نہ آپ پر اے خدا کے مصطفیٰ و خاتم الانبیاء کی دختر! غم نہ کیجئے اور رنج و افسردگی کو خود سے دور کیجئے۔ میں نے اپنی شرعی ذمہ داریاں انجام دینے میں کوتاہی نہیں کی ہے اور جو کچھ میرے بس میں تھا؛ میں نے اس میں کوئی سستی نہیں کی ہے، اگر آپ آئندہ کی روزی کا سوچ رہی ہیں تو یقین رکھیں کہ یہ روزی آپ تک پہنچے گی اور جو کچھ فدک کے بدلے خدائے عظیم نے آپ کو عطا فرمایا ہے، اس سے کہیں زیادہ ہے جو آپ سے چھین لیا گیا ہے۔ اس لیے خدائے مہربان پر امید رکھیں اور وہی کافی ہے۔

← حضرت زہراؑ کا سکوت


زہراؑ نے جواب دیا: خدا میرے لیے کافی ہے اور میں نے فدک سے چشم پوشی کر لی ہے۔
[۲۸] قارئین پر مخفی نہ رہے کہ حضرت فاطمہؑ کے بیانات اور امام امیر المومنینؑ سے گلے شکوے ان دونوں پاک چہروں کی عصمت سے کسی طرح کی منافات نہیں رکھتے؛ بلکہ صرف اس چیز کی علامت ہے کہ بنت پیغمبر ناانصافیوں کے مقابلے میں سکوت نہیں کرتی تھیں اور وقت کے صاحبان اقتدار کی ناپسندیدہ رفتار سے رنجیدہ ہوتی تھیں اور فریاد بلند کرتی تھیں؛ جیسے حضرت موسیٰؑ کوہ طور سے واپسی اور اپنی امت کی گوسالہ پرستی کو ملاحظہ کر کے غضب ناک ہوئے اور ہارونؑ کے ساتھ سختی سے پیش آئے حالانکہ ہارون ان کے بھائی اور مددگار تھے(مؤلف)۔

رسول خدا ص کی جانسوز رحلت کے بعد ، زہراؑ مسلسل غم زدہ اور گریہ کناں رہیں۔ امام باقرؑ نے فرمایا: جس دن سے اسلام کے عظیم پیغمبر ص نے دنیا سے آنکھیں بند کیں، کسی نے فاطمہؑ کے لبوں پر مسکراہٹ نہیں دیکھی، یہاں تک کہ لقائے الہٰی کی منزل پر فائز ہو گئیں۔ شیخ مفید نے مجالس میں اور شیخ طوسی نے امالی میں لکھا ہے: جب صدیقہ طاہرہ بستر بیماری پر دراز ہوئیں تو اپنے ہمسر سے عرض کیا کہ اس بات کو مخفی رکھیں اور کسی کو ان کی بیماری سے آگاہ نہ کریں۔ امامؑ نے اس خواہش کو انجام دیا اور بذات خود بنت پیغمبر ؐکی تیمار داری کا ذمہ اتھا لیا اور اسماء بنت عمیس کو بھی اس مسئلے کو پوشیدہ رکھنے کی سخت تاکید کے ساتھ اپنی زوجہ کی تیمار داری پر مامور کیا۔ زہراؑ کی بیماری شدید ہو گئی اور موت کی علامات ظاہر ہونے لگیں۔ اسلام کی دل شکستہ اور غمزدہ خاتون نے امامؑ سے خواہش کی کہ خود آپؑ کے غسل، کفن اور دفن کی ذمہ داری ادا کریں، انہیں رات کے وقت سپرد خاک کریں اور ان کی قبر کا نشان مخفی کر دیں۔ امامؑ نے یہ وصیتیں پوری کیں، زہراؑ کے پاکیزہ بدن کو سپرد خاک کر کے قبر شریف کو مخفی کر دیا۔ آخری لمحات میں مٹھی بھر قبر کی خاک کو اٹھایا، سخت غم و اندوہ آپؑ پر حاوی ہو چکا تھا، حضرتؑ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور آزردہ دل کے ساتھ نبی کریم ؐکے مزار کی جانب رخ کر کے درد دل کیا۔
[۲۹] اس شکوے اور درد دل کو بارہویں گفتار کے ضمن میں نقل کریں گے۔

میرے باپ قربان پیغمبر ؐکی لخت جگر پر کہ جن کی میراث تباہ ہو گئی اور آنحضرت ؐکی رحلت کے بعد جن کی حرمت شکنی کی گئی۔ آپؑ اپنی آرزو کو پہنچ گئیں مگر انتہائی نحیف اور تھکن کا شکار ہونے کے بعد؛ پدر کی کمی نے آپؑ کی طاقت کو کم کر دیا اور آپؑ کی آنکھوں سے اشک جاری کر دئیے۔ رات کے وقت سپرد خاک ہوئیں اور کسی نے ان کا پیکر نہیں دیکھا اور آپؑ کا مزار بھی ابھی تک آشکار نہیں ہوا ہے۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. ۱ ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ میں لکھتے ہیں: یہ ابوبکر جوھری، عالم، محدث، ادیب، متقی، ثقہ اور دانا تھے۔
۲. اس کے ضمن میں کشف الغمہ کے مورد اعتماد نسخے کے ضمن میں کہتے ہیں: یہ نسخہ سنہ ۳۲۲ ہجری کے ربیع الثانی میں مؤلف کیلئے قرائت کیا گیا اور انہوں نے مذکورہ خطاب کو چند طرق سے اپنے اساتذہ سے روایت کیا ہے(مؤلف)۔
۳. خطبے کے فارسی ترجمے میں صرف اصل متن کو ملاک قرار دیا گیا ہے اور لفظی اختلافات کو صرف عربی متن میں نقل کیا گیا ہے(مؤلف)۔
۴. سورہ آل عمران، آیت ۱۰۲۔
۵. سورہ توبہ، آیت ۲۸۔
۶. سورہ توبہ، آیت ۱۲۸۔
۷. سورہ توبہ کی آیت ۴۹ کی طرف اشارہ۔
۸. سورہ آل عمران، آیت ۸۵۔
۹. سورہ مائدہ، آیت ۵۰۔
۱۰. سورہ نمل، آیت ۱۶۔
۱۱. سورہ مریم، آیت ۶۔
۱۲. سورہ انفال، آیت ۷۵۔
۱۳. سورہ نساء، آیت ۱۰۔
۱۴. سورہ بقرہ، آیت ۱۸۰۔
۱۵. سورہ انعام، آیت ۶۷۔
۱۶. سورہ آل عمران، آیت ۱۴۸۔
۱۷. قَیْلہ ایک خاتون کا نام ہے کہ انصار (قبیلہ اوس و خزرج) جس کی نسل سے تھے۔
۱۸. سورہ توبہ، آیت ۱۳۔
۱۹. سورہ ابراہیم، آیت ۸۔
۲۰. سورہ شعراء، آیت ۲۲۷۔
۲۱. حضرت زہراؑ کے خطبے کا اردو ترجمہ کتاب بیت الاحزان مترجمہ محمد حسن جعفری سے ماخوذ ہے۔
۲۲. سورہ یوسف، آیت ۱۸۔
۲۳. سورہ محمد آیت ۲۴۔
۲۴. ابن اثیر نے نھایۃ اور صاحب تاج العروس نے فقط پہلے دو اشعار کو تھوڑے اختلاف کے ساتھ نقل کیا ہے۔
۲۵. بعض نے ان دو اشعار کو ہمارے طرح ذکر کیا ہے۔
۲۶. تاہم علی بن عیسی اربلی نے کتاب کشف الغمہ میں داستان ان الفاظ میں نقل کی ہے: صدیقہ کبریٰ نے پدر کے مزار کی جانب رخ کر کے ھند ابن اثاثہ کے نظم کردہ اشعار پڑھے۔
۲۷. تاہم بظاہر پہلے دو شعر ھند بن اثاثہ سے مربوط ہیں جبکہ دیگر اشعار حضرتؑ کی زبان سے نقل کیا گیا ہے۔
۲۸. قارئین پر مخفی نہ رہے کہ حضرت فاطمہؑ کے بیانات اور امام امیر المومنینؑ سے گلے شکوے ان دونوں پاک چہروں کی عصمت سے کسی طرح کی منافات نہیں رکھتے؛ بلکہ صرف اس چیز کی علامت ہے کہ بنت پیغمبر ناانصافیوں کے مقابلے میں سکوت نہیں کرتی تھیں اور وقت کے صاحبان اقتدار کی ناپسندیدہ رفتار سے رنجیدہ ہوتی تھیں اور فریاد بلند کرتی تھیں؛ جیسے حضرت موسیٰؑ کوہ طور سے واپسی اور اپنی امت کی گوسالہ پرستی کو ملاحظہ کر کے غضب ناک ہوئے اور ہارونؑ کے ساتھ سختی سے پیش آئے حالانکہ ہارون ان کے بھائی اور مددگار تھے(مؤلف)۔
۲۹. اس شکوے اور درد دل کو بارہویں گفتار کے ضمن میں نقل کریں گے۔


ماخذ

[ترمیم]

از کتاب ’’وفاة الصدیقة الزهراء علیها السلام‘‘، عبد الرزاق المقرم۔    






جعبه ابزار