اصحاب اعراف
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
قرآن کریم نے ’’اصحاب اعراف‘‘ کے نام سے ایک گروہ کا ذکر کیا ہے کہ جس کی مناسبت سے ایک مکمل
سورت کا نام اعراف ہے۔ اس سورت میں ان افراد کیلئے دو تعبیرات ’’اصحابِ اعراف‘‘ اور ’’رجالِ اعراف‘‘ استعمال ہوئی ہیں۔ آیا ان دونوں سے مراد ایک ہی جماعت یا گروہ ہے یا یہ دو الگ جماعتیں ہیں کہ جن سے مراد
انبیاء و
آئمہؑ یا مومنین یا گنہگار یا یہ سب گروہ ہیں؟! پھر یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا اسلام سے ما قبل دیگر
ادیان میں بھی جنت و دوزخ کے مابین واقع کسی ایسے مقام کا تصور ملتا ہے یا نہیں؟! اس حوالے سے زیر نظر مضمون میں وضاحت کی جائے گی۔
[ترمیم]
یہ
کلمہ دو مرتبہ
قرآن کریم میں استعمال ہوا ہے،یہی استعمال اعراف کے بارے میں مختلف نظریات کے وجود میں آنے کا سرچشمہ ہے۔
سورہ اعراف کی آیات
میں جنت و دوزخ کے ذکر کے بعد ارشاد ہوتا ہے: ’’ اور (اہل جنت اور اہل جہنم) دونوں کے درمیان ایک حجاب ہو گا اور اس کی بلندیوں پر کچھ ایسے افراد ہوں گے جو ہر ایک کو ان کی شکلوں سے پہچان لیں گے اور اہل جنت سے پکار کر کہیں گے: تم پر سلامتی ہو، یہ لوگ ابھی جنت میں داخل نہیں ہوئے ہوں گے مگر امیدوار ہوں گے اور جب ان کی نگاہیں اہل جہنم کی طرف پلٹائی جائیں گی تو وہ کہیں گے: ہمارے پروردگار ہمیں ظالموں کے ساتھ شامل نہ کرنا اور
جہّنم والے جنّت والوں سے پکار کر کہیں گے کہ ذرا ٹھنڈا پانی یا خدا نے جو رزق تمہیں دیا ہے اس میں سے ہمیں بھی پہنچاؤ تو وہ لوگ جواب دیں گے کہ ان چیزوں کو اللہ نے کافروں پر حرام کر دیا ہے‘‘۔
[ترمیم]
اصحاب، صاحب کی جمع ہے اور لغت میں اس کا معنی رفیق و ہمراہ ہے؛
و
اعراف عُرف، کی جمع ہے، لغت میں اس باغیچے کو کہا جاتا ہے جو چشموں کی سطح سے بالاتر اور بلندیوں کے اوپر واقع ہو۔
بعض نے ہر بلند مقام کو اعراف کہا ہے؛
تاہم قرآنی اصطلاح میں اعراف
بہشت و
جہنم کے مابین حائل دیوار ہے۔
اعراف لغت میں ’’عرف‘‘ کی جمع ہے اور عرف کے مختلف استعمالات ہیں؛ منجملہ یہ کہ پہاڑ کی چوٹی، اسی طرح ریت کے ٹیلے وغیرہ کو
عرف کہا جاتا ہے
مذکورہ آیات کی تفسیر میں بعض مفسرین نے ’’عُرف‘‘ کا لغوی مفہوم ’’ہر بلند پایہ اور اونچی چیز‘‘ قرار دیا ہے
اور اسی بنیاد پر آیات میں مذکور اعراف سے مراد بہشت و دوزخ کے مابین واقع حجاب کو قرار دیا ہے
اور اکثریت نے اس
حجاب کی تفسیر ان دونوں کے مابین واقع دیوار کو قرار دیا ہے۔
بعض دیگر مفسرین نے عرف کے رائج استعمالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اعراف کو بہشت و دوزخ کے مابین واقع دیوار کے نچلے حصے کو قرار دیا ہے۔
[ترمیم]
قدیم مفسرین سے منقول بعض روایات جیسے
حسن بصری ، سدی و زجاج سے منقول روایت میں وضاحت کے بغیر اعراف کو ’’معرفت‘‘ بمعنی شناخت کے مادہ سے
مشتق قرار دیا گیا ہے۔
اور اس نکتے کو صدر الدین شیرازی جیسے مفکرین نے اہمیت دی ہے، چنانچہ وہ ’’عرشیہ‘‘
میں اعراف کے ’’عرفان‘‘ سے
اشتقاق کو مورد توجہ قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اہل اعراف علم و معرفت میں کامل ہیں کہ لوگوں کے ہر گروہ کو چہروں سے پہچانتے ہیں۔ بہرصورت تفسیری کتب میں تکرار کے ساتھ یہ بیان کیا گیا ہے کہ اعراف جنت و دوزخ کے مابین دیوار یا حائل ہے۔ تابعی مفسر مجاہد نے اشارہ کیا ہے کہ یہ ایسی دیوار ہے جس کا ایک دروازہ بھی ہے۔
اسی
تفسیر کے سلسلے میں بعض متاخر علما نے اعراف میں مذکور دیوار کو
سورہ حدید میں مذکور دیوار قرار دیا ہے جسے خدا تعالیٰ آخرت میں مومنین و منافقین کے درمیان قرار دے گا اور اس دیوار کا ایک دروازہ ہے کہ جس کا باطن بہشت پر سایہ فگن ہے اور رحمت کا حامل ہے اور اس کا ظاہر آگ کے عذاب کی طرف ہے۔
[ترمیم]
ایک مرفوع حدیث میں منقول ہے کہ اعراف بہشت کی دیوار ہے اور اس میں نہریں جاری ہیں اور درخت و میوے اگتے ہیں۔
بعض مفسرین نے اعراف کو
دیوار کی بجائے بہشت و دوزخ کے مابین حائل ریت کے ٹیلے یا گھاٹیاں قرار دیا ہے۔
سعید بن جبیر تابعی نے اعراف کو بہشت و دوزخ کے مابین حائل پہاڑ قرار دیا ہے،
ابن لہیعہ نے پہاڑ کے اس پار ایک گھاٹی کی طرف اشارہ کیا ہے۔
بعض اوقات اس بنیاد پر ایک عجیب تصور بھی کیا گیا ہے کہ آخرت میں
کوہ احد جنت و جہنم کے مابین واقع ہو گا اور اس بارے میں ایک حدیث کا حوالہ بھی دیا گیا ہے کہ جس میں
کوہ احد کی تعریف کی گئی ہے۔
بعض روایات میں اعراف اور پل صراط کے مابین تعلق قائم کیا گیا ہے اور اعراف کو ’’صراط‘‘ سے بلند مقام کہا گیا ہے
نیز اسے
صراط بھی قرار دیا گیا ہے۔
[ترمیم]
قرآن کریم میں دو گروہوں کو ’’اصحاب اعراف‘‘ »
اور "و علی الاعراف رجال" »
سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ’’رجال‘‘ سے مراد مرد و خواتین دونوں ہیں اور مردوں کا ذکر من باب الغلبہ کیا گیا ہے۔ بیان کیا گیا ہے کہ
مفسرین کے مابین اس گروہ کے بارے میں
اختلاف نظر ہے؛ ایک گروہ نے اصحابِ اعراف اور ’’وعلی الاعراف رجال‘‘ میں فرق کیا ہے اور کہا ہے: ’’وعلی الاعراف رجال‘‘ سے مراد گنہگار
مومنین ہیں اور ’’اصحابِ اعراف‘‘ روزِ قیامت کے
شفیع ہیں؛ یعنی پیغمبر اور
آئمہؑ جو
اعراف کے رجال کی
شفاعت کریں گے۔
بعض نے اصحابِ اعراف اور اعراف کے رجال کو ہم معنی قرار دیا ہے۔
اس کا جو معنی بھی ہو تمام مفسرین کا اصحابِ اعراف کے بارے میں اتفاق ہے کہ ان کا
خدا کے نزدیک بلند مقام ہے اور وہ مقامِ شفاعت کے حامل ہیں؛ تاہم یہ اتفاق اعراف کے رجال کے مورد میں نہیں ہے۔
[ترمیم]
قرآن کریم کی آیات کے مطابق
قیامت کے دن لوگ تین گروہوں میں تقسیم ہوں گے: وہ گروہ جو اہل ایمان میں سرفہرست ہیں اور ان کا نامہ عمل نیکیوں سے بھرپور ہے اور انہیں
بہشت نصیب ہو گی؛ دوسرا گروہ جو
کفر و
نفاق کے سرغنوں اور ان کے پیروکاروں کا ہے کہ جن کا نامہ عمل سیاہ ہو گا اور وہ اللہ کے غضب سے
دوزخ میں ڈال دئیے جائیں گے؛ اس کے مابین ایک تیسرا گروہ ہے کہ اگرچہ
دنیا میں وہ اہل کفر و نفاق نہ تھے مگر ان کے اعمال اس قدر نہیں ہے کہ انہیں
عذاب سے رہائی ملے بلکہ وہ در حقیقت اللہ کی وسیع
رحمت کے امیدوار ہیں:
«وَ عَلَی الْأَعْرافِ رِجالٌ یَعْرِفُونَ کلاًّ بِسِیماهُم ...»
اور اعراف پر کچھ آدمی ہوں گے جو سب کو ان کی صورتوں سے پہچان لیں گے۔
’’رجالِ اعراف‘‘ وہ گنہگار
مومن ہیں جو اپنے ایمان کی وجہ سے
جہنم نہیں گئے اور دوسری طرف سے ان کے گناہ بہشت میں داخل ہونے سے مانع ہیں، تاہم
انبیا اور
آئمہ کی شفاعت کے امیدوار ہیں اور یہ اہل بہشت اور جہنمیوں کو ان کے چہرے اور رنگ سے تشخیص دیں گے۔
یہ جب اہل بہشت کو دیکھیں گے تو عقیدے کے اشتراک کی وجہ سے انہیں سلام کریں گے اور امیدوار ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ کی
رحمت و
مغفرت ان کے شامل حال ہو اور کچھ شفیع، ان کی شفاعت کریں گے۔:
«...وَ نادَوْا أَصْحابَ الْجَنَّةِ أَنْ سَلامٌ عَلَیکمْ لَمْ یدْخُلُوها وَ هُمْ یَطْمَعُون»
تو وہ اہل بہشت کو پکار کر کہیں گے کہ تم پر سلامتی ہو۔ یہ لوگ بھی بہشت میں داخل تو نہیں ہوں گے مگر امید رکھتے ہوں گے۔
جب ان کی نگاہیں دوزخیوں پر پڑیں گی اور ان کے عذاب کو دیکھیں گے تو خوف کے مارے خدا سے دعا کریں گے کہ ہمیں ظالمین میں سے قرار نہ دینا!
«وَ إِذا صُرِفَتْ أَبْصارُهُمْ تِلْقاءَ أَصْحابِ النَّارِ قالُوا رَبَّنا لاتَجْعَلْنا مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِین»
« اور جب ان کی نگاہیں پلٹ کر اہل دوزخ کی طرف جائیں گی تو عرض کریں گے کہ اے ہمارے پروردگار ہم کو ظالم لوگوں کے ساتھ شامل نہ کیجیو!
الوجه فيه أن الانسان لا يحب إلقاء النظر إلى ما يؤلمه النظر إليه وخاصة في مثل المورد الذي يشاهد الناظر فيه أفظع الحال وأمر العذاب وأشقه الذي لا يطاق النظر إليه غير أن اضطراب النفس وقلق القلب ربما يفتح العين نحوه للنظر إليه كأن غيره هو الذي صرف نظره إليه وإن كان الانسان لو خلي وطبعه لم يرغب في النظر ولو بوجه نحوه ،
جہنمیوں پر نگاہ کو "صُرِفَتْ أَبْصارُهُمْ" کے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان اس چیز کی طرف دیکھنا پسند نہیں کرتا جس کی طرف دیکھنے سے اس کو تکلیف ہو، بالخصوص ایسے مقام پر کہ جہاں پر دیکھنے والا بدترین صورتحال اور سخت ترین عذاب کو دیکھے کہ جس کی طرف دیکھنے کی ہمت نہ ہو مگر قلبی تشویش اور اضطراب کے باعث وہ آنکھ کو کھول کر اس منظر کو دیکھتا ہے، گویا اس کے غیر نے اس کی نظر کو پھیرا ہے اور انسان بذات خود اسے دیکھنے میں رغبت نہیں رکھتا۔
گنہگاروں کی دعا اس حالت میں ہے کہ ابھی بہشت میں داخل نہیں ہوئے ہوں گے تاہم پیغمبرؐ یا اماموں سے شفاعت کی امید رکھتے ہوں گے جو ان کے ہمراہ ہیں اور جب گنہگاروں کو دیکھیں گے کہ انہیں دوزخ کی طرف لے جایا جا رہا ہو گا تو ان کی امید صرف خدا سے ہو گی اور اس سے پناہ مانگیں گے کہ انہیں ظالمین میں سے قرار نہ دے۔
[ترمیم]
مفسرین نے اعراف پر بحث سے پہلے ’’اصحابِ اعراف‘‘ کے بارے میں گفتگو کی ہے۔ ایک جماعت کے نزدیک اہل اعراف اہل دوزخ سے برتر اور اہل بہشت سے کم تر جگہ پر ہوں گے۔ ابن عباس،
حذیفہ ،
ابن مسعود اور شعبی، ضحاک، سعید بن جبیر جیسے تابعین سے منقول مشہور نظریے کی بنیاد پر اور اسی طرح شیعہ کے آئمہ امام باقرؑ و امام صادقؑ سے بھی منقول ہے کہ اہل اعراف،
مومنین کا ایک گروہ ہے کہ جنہیں گناہوں نے بہشت سے دور کر دیا ہے اور حسنات نے انہیں دوزخ کی آگ سے دور کر رکھا ہے، اس مطلب کی وضاحت میں ایک قول یہ ہے کہ ان کے گناہ حسنات کے برابر ہیں۔ اس نظریے کی رو سے آخرکار یہ خدا کے لطف سے بہشت میں وارد ہوں گے۔
بعض اوقات روایات میں اصحاب اعراف ان مومنین کو کہا گیا ہے کہ جو اپنے والدین کی اجازت کے بغیر
جنگ پر گئے اور راہ خدا میں قتل ہو گئے اور آخرکار بہشت میں وارد ہوں گے۔
بعض نے اہل بہشت و دوزخ کے درمیان کھڑے اس گروہ کو ’’عُجَب‘‘ کا شکار،
مقروض یا
یا زنازادے
قرار دیا ہے۔ اسی طرح ایک قول ہے کہ اعراف ان لوگوں کا مسکن ہے جن پر دنیا میں شرعی تکلیف نہیں تھی اور وہ ایسے اعمال بجا نہیں لائے تھے کہ جن کی رو سے وہ بہشت یا
جہنم کے مستحق ٹھہرتے۔
ایک روایت میں شیعہ کے آئمہؑ سے اعراف کا صریح ذکر کیے بغیر منقول ہے کہ مؤمن جنّوں کو بہشت نہیں ملے گی اور خدا نے بہشت و دوزخ کے مابین ایک مقام کو جنوں اور گنہگار شیعوں کیلئے قرار دیا ہے۔
مذکورہ تفاسیر کے برخلاف بعض مفسرین نے اصحابِ اعراف کو سب سے بلند پایہ اہل بہشت قرار دیا ہے جو شفاعت یا شہادت کی غرض سے مقام اعراف پر فائز ہوں گے۔
امام علیؑ ،
امام باقرؑ اور
امام صادقؑ سے منقول روایات اس امر کی حکایت کرتی ہے کہ
پیغمبر اکرمؐ اور اہل بیتؑ ہی وہ ہیں جو مومنین کو ان کے چہروں سے پہچانتے ہوں گے اور
حق کے پیروکاروں کی مدد کریں گے، انہیں روانہ بہشت کریں گے۔
ایک روایت میں ابن عباس سے منقول ہے کہ اصحابِ اعراف؛
عباس ،
حمزہ اور
علیؑ ہیں۔
بعض دیگر تفاسیر میں اصحابِ اعراف کی تفسیر پیغمبروں کے ایک گروہ، ہر امت میں سے
عادل گواہوں جو آخرت میں لوگوں کے اعمال پر
شہادت دیں گے،
ہر امت میں سے
عادل گواہ جو آخرت میں لوگوں کے اعمال پر
شہادت دیں گے،
افضل مومنین،
متواضع مرد،
یا
صالح علما کی جماعت
سے کی گئی ہے؛ چنانچہ تابعی مفسر ابو مجلز نے اہل اعراف کو ملائکہ کے افراد قرار دیا ہے جو اہل بہشت اور دوزخیوں کو پہچانتے ہوں گے۔
اصحابِ اعراف کا خدا کے نزدیک ایک بلند مقام ہے، چونکہ وہ دوزخی افراد کو دیکھ رہے ہوں گے اور انہیں مخاطب کر کے کہیں گے:
«وَ نادى أَصْحابُ الْأَعْرافِ رِجالًا یعْرِفُونَهُمْ بِسِیماهُمْ قالُوا ما أَغْنى عَنْکمْ جَمْعُکمْ، وَ ماکنْتُمْ تَسْتَکبِرُونَ»
اور اہل اعراف (کافر) لوگوں کو جنہیں ان کی صورتوں سے شناخت کرتے ہوں گے پکاریں گے اور کہیں گے (کہ آج) نہ تو تمہاری جماعت ہی تمہارے کچھ کام آئی اور نہ تمہارا تکبّر (ہی سودمند ہوا)!
روایات میں آیا ہے کہ اصحابِ اعراف سے مراد آئمہ ہدیؑ ہیں۔
ایک قول یہ ہے کہ اصحابِ اعراف انہیں چہرے کی سیاہی اور ان کی بری حالت کی بدولت پہچانیں گے۔
بعض نے یہ بھی کہا ہے: اصحابِ اعراف
کفار کے سرغنوں کو
دنیا میں پہچانتے تھے،
آخرت میں بھی انہیں چہروں سے پہچانتے ہوں گے۔
اصحابِ اعراف ، دوزخیوں کو ندا دیتے وقت کہیں گے: تمہاری
ثروت و
جمعیت نے تمہیں کوئی نفع نہیں دیا اور حق و
عبادت کے سامنے سر تسلیم خم نہ کرنے کی وجہ سے تم بد بخت ہوئے۔ ہم تمہیں نصیحت کر رہے تھے جبکہ تم مال و متاع کو جمع کرنے کے پیچھے تھے اور ہماری نصیحت کو قبول نہیں کر رہے تھے اور آج یہ مال اندوزی اور تکبر نے تمہیں کوئی فائدہ نہیں دیا ہے۔
پھر جہنمیوں کی سرزنش کرتے ہوئے کہتے ہیں:
«أَهؤُلاءِ الَّذِینَ أَقْسَمْتُمْ لاینالُهُمُ اللَّهُ بِرَحْمَةٍ ادْخُلُوا الْجَنَّةَ لاخَوْفٌ عَلَیکمْ وَ لا أَنْتُمْ تَحْزَنُونَ»
«
(پھر مومنوں کی طرف اشارہ کر کے کہیں گے) کیا یہ وہی لوگ ہیں جن کے بارے میں تم قسمیں کھایا کرتے تھے کہ خدا اپنی رحمت سے ان کی دستگیری نہیں کرے گا (تو مومنو) تم بہشت میں داخل ہو جاؤ تمہیں کچھ خوف نہیں اور نہ تم کو کچھ رنج واندوہ ہو گا۔
اصحابِ اعراف جو دوزخیوں کو ان کے چہروں سے پہچانتے ہوں گے؛ کہیں گے: کیا تم نے دیکھا کہ
دنیا میں تمہارا جمع کردہ تمہارے کام نہیں آیا؟! کیا تم ہی نہیں تھے جو ان کے بارے میں قسم اٹھاتے تھے: ہرگز اللہ کی
رحمت ان کو نصیب نہیں ہو گی؟! دیکھ لو کہ وہ بہشت میں داخل ہوں گے مگر تم غلطی پر تھے۔ پھر اہل بہشت کو کہیں گے: بہشت میں داخل ہو جاؤ نہ تم پر کوئی خوف ہے اور نہ تم اندوہناک ہو۔
اس بیان کے ساتھ
شرک و
کفر کے سرغنوں کی سرزنش کریں گے جو اہل ایمان و اسلام کے بارے میں کہتے تھے: ہرگز
پیغمبرؐ پر ایمان اور اسلام کی قبولیت ان کو فائدہ نہیں دیں گے اور لوگوں کو
شرک اور
دین اسلام کے خلاف مزاحمت کی دعوت دیتے وقت یہ قسم اٹھاتے تھے کہ
پروردگار ہرگز مسلمانوں کو کامیابی و سعادت عطا نہیں کرے گا۔
امام صادقؑ سے منقول ایک روایت میں ’’اصحابِ اعراف‘‘ کی ان دو تفاسیر یعنی برگزیدہ مومنین اور گنہگاروں کے اعراف میں جمع ہونے کا ذکر ہے۔ اس روایت کی بنیاد پر خدا نیک لوگوں کو بہشت بھیجنے کے بعد ہر امت میں سے پیغمبروں اور خلفا کو اس امت کے گنہگاروں کے پاس مقامِ اعراف پر قرار دے گا اور گنہگاروں کو انتباہ کے مراحل سے گزارنے کے بعد پیغمبروں اور خلفا کی
شفاعت کے ساتھ ان کے گناہوں کو معاف کر دے گا اور انہیں
جنت عطا کر دے گا۔
ایک
روایت میں عبد اللہ بن حرث، ابن عباس سے نقل کرتے ہیں جب خدا اہل اعراف کے گناہ معاف کرنا چاہے گا تو انہیں ’’نہرِ حیات‘‘ نامی نہر کی طرف روانہ کرے گا جب اس سے اپنے بدن پاک کریں گے تو ان کے چہرے کا رنگ بہتر ہو جائے گا، پھر وہ
خدا کی بارگاہ میں حاضر ہوں گے اور ان کی بہشت میں داخل ہونے کی درخواست قبول کر لی جائے گی۔ انہیں بہشت کے مسکین کہا جائے گا اور ان کے سینوں کے اوپر ایک سفید علامت ہے جو انہیں دیگر اہل بہشت سے نمایاں کرے گی۔
ابن عربی کے بقول
قیامت کے دن تنہا تکلیف جو باقی ہو گی، سجدہ ہے، جب اصحابِ اعراف کو
سجود کی ندا دی جائے گی اور وہ جب سجدہ بجا لائیں گے تو ان کی
حسنات کا پلڑا ان کے
گناہوں کے پلڑے سے وزنی ہو جائے گا اور اسی لیے وہ بہشت میں داخل ہوں گے۔
قرآنی آیات کا بغور جائزہ لینے کے بعد یہ واضح ہوتا ہے کہ جن تفاسیر میں اصحاب اعراف کو اہل بہشت اور دوزخیوں کے مابین موجود گنہگار قرار دیا گیا ہے، (مثلا جہاں ارشاد ہے: وہ ابھی بہشت میں داخل نہیں ہوئے ہیں مگر (بہشت میں داخل ہونے کے) امیدوار ہیں اور جب ان کی آنکھ دوزخیوں پر پڑیں گی، وہ کہیں گے: پروردگارا! ہمیں ظالمین میں سے قرار نہ دے) انہوں نے اصحاب اعراف کو مذکورہ کلمات کا فاعل قرار دیا ہے جبکہ اصحابِ اعراف کو برگزیدہ مومنین اور گواہ قرار دینے والی تفاسیر کی رو سے ان کلمات و جملات کے قائل یا فاعل وہ اہل بہشت ہوں گے جو اس وقت تک بہشت میں داخل تو نہیں ہوئے مگر انہیں جنت ملنے کی امید ہے۔
بہرصورت، بہشت و دوزخ کے مابین ایک منزل کا
تصور قدیم ادیان میں بھی موجود تھا۔ اوستا کے مختلف حصوں اور دیگر
زرتشتی دینی کتب میں اوسائی کلمہ ’’میسوانہ‘‘ یا پہلوی کلمہ ’’ھمستکان‘‘ اس مقام کا نام ہے کہ جہاں پر وہ لوگ ہوں گے جن کی نیکیاں اور بدیاں ہم پلہ ہوں۔ میسوانہ، لغت میں آمیختہ کے معنی میں ہے اور اس مقام کو اس وجہ سے اس کلمے سے تعبیر کیا گیا ہے کہ ان لوگوں کا کردار نیکی و گناہ سے مختلط ہے اور ’’ھمستکان‘‘
لغت میں ہمیشہ یکساں کے معنی میں ہے اور اس کا مذکورہ مقام پر
اطلاق اس لیے کیا گیا ہے کیونکہ اس مقام پر آنے والے افراد کے نیک اور بد اعمال ہم پلہ ہیں۔
ھمستکان کے منجملہ اوصاف جو زرتشتی کتابوں میں آئے ہیں، ان میں وہ عبارت بھی ہے جو
پہلوی کتاب مینوی خرد
میں منقول ہے جو اس امر کی حکایت کرتی ہے کہ
سرما اور
گرما کے سوا ان پر کوئی آفت نہیں آئے گی۔
مسیحی عقائد میں بھی بہشت و دوزخ کے مابین ایک منزل موجود ہے جسے لاطینی میں پورگاتوریوس کہتے ہیں کہ جس کا معنی ہے پاک کنندہ۔ وہ شخص جس کی خطا ناقابل بخشش ہے، مگر
موت کے وقت وہ اللہ کی
رحمت کے مشمول ہو جائے گا؛ وہ اس جگہ رہیں گے اور وہ آخری فیصلے تک حالتِ انتظار میں ہوں گے اور آخرکار پاک ہو کر بہشت میں جائیں گے۔ مکتوب توضیحات اور مسیحی نقاشیوں سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ پورگاتورپوس کا تصور بہشت و دوزخ کے مابین حد فاصل ہے کہ جس کے ساکن ایک طرف سے دوزخیوں اور دوسری طرف سے اہل بہشت کو دیکھیں گے؛ یہ تعبیر اعراف کے بارے میں اسلامی تعلیمات کے ساتھ قابل موازنہ ہے۔
اسلامی فرہنگ میں اعراف کا کلمہ بہشت و دوزخ کی درمیانی منزل کے عنوان سے زیادہ
مشہور نہیں ہوا اور بالخصوص متاخر متون میں
برزخ کی اصطلاح کہ جس کا اصل اطلاق موت و قیامت کے مابین حائل
عالم کیلئے ہے؛ اسے اعراف کے مترادف کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔
صوفیا کی
اصطلاح میں اعراف ہر ممکن الوجود میں حق کا شہودی مقام ہے جبکہ یہ ایسی صفات سے مزین ہے کہ وہ شے ان کی مظہر ہے اور یہ وہی اطراف پر اِشراف کا مقام ہے جسے سورہ اعراف کی آیت ۴۶ سے سمجھا گیا ہے۔
[ترمیم]
(۱) محمد بن بابویه، الاعتقادات، به کوشش عصام عبدالسید، قم، ۱۴۱۳شمسی۔
(۲) محمد بن بابویه، معانی الاخبار، به کوشش علیاکبر غفاری، قم، ۱۳۶۱شمسی۔
(۳) محییالدین بن عربی، الفتوحات المکیه، به کوشش عثمان یحیی، قاهره، الهیئة المصریة العامه۔
(۴) عبدالله بن قتیبه، تفسیر غریب القرآن، به کوشش احمد صقر، بیروت، ۱۳۹۸ھ/۱۹۷۸ء۔
(۵) ابن منظور، لسان۔
(۶) محمد ازهری، تهذیب اللغه، به کوشش عبدالله محمدهارون و دیگران، قاهره، ۱۳۸۴ھ/۱۹۶۴ء۔
(۷) ابراهیم پورداود، «همستکان»، تعلیقات بر خرده اوستا، بمبئی، ۱۳۱۰ش/۱۹۳۱ء۔
(۸) تفسیر، منسوب به محییالدین بن عربی، به کوشش مصطفی غالب، بیروت، ۱۹۷۸ء۔
(۹) محمداعلی تهانوی، کشاف اصطلاحات الفنون، کلکته، ۱۸۶۲ء۔
(۱۰) علی جرجانی، التعریفات، قاهره، ۱۳۰۶شمسی۔
(۱۱) عبیدالله حسکانی، شواهد التنزیل، به کوشش محمدباقر محمودی، بیروت، ۱۳۹۳ھ/۱۹۷۴ء۔
(۱۲) سیوطی، الدر المنثور، قاهره، ۱۳۱۴شمسی۔
(۱۳) محمد صدرالدین شیرازی، الشواهد الربوبیه، به کوشش جلالالدین آشتیانی، مشهد، ۱۳۴۶شمسی۔
(۱۴) محمد صدرالدین شیرازی، عرشیه، اصفهان، ۱۳۴۱شمسی۔
(۱۵) محمد صفار، بصائر الدرجات، تهران، ۱۴۰۴شمسی۔
(۱۶) فضل طبرسی، مجمع البیان، صیدا، ۱۳۳۳شمسی۔
(۱۷) طبری، تفسیر۔
(۱۸) محمد طوسی، التبیان، به کوشش احمد حبیب قصیر عاملی، نجف، ۱۳۸۳ھ/۱۹۶۴ء۔
(۱۹) عبدالرزاق کاشانی، اصطلاحات الصوفیه، لاهور، ۱۹۸۱ء۔
(۲۰) محمد عیاشی، تفسیر، تهران، ۱۳۸۱شمسی۔
(۲۱) محمد فخرالدین رازی، التفسیر الکبیر، بیروت، داراحیاء التراث العربی.
(۲۲) یحیی فراء، معانی القرآن، به کوشش احمد یوسف نجاتی و محمدعلی نجار، قاهره، ۱۹۷۲ء۔
(۲۳) فرات کوفی، تفسیر، نجف، ۱۳۵۴شمسی۔
(۲۴) قرآن کریم۔
(۲۵) محمد قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، بیروت، ۱۹۶۵ء۔
(۲۶) علی قمی، تفسیر، نجف، ۱۳۸۶-۱۳۸۷شمسی۔
(۲۷) محمد کلینی، الکافی، به کوشش علیاکبر غفاری، تهران، ۱۳۹۱شمسی۔
(۲۸) مصباح الشریعه، منسوب به امام جعفر صادق (علیهالسلام)، بیروت، ۱۴۰۰ھ/ ۱۹۸۰ء۔
(۲۹) محمد مفید، تصحیح اعتقادات الامامیه، قم، ۱۴۱۳شمسی۔
(۳۰) مینوی خرد، ترجمه احمد تفضلی، تهران، ۱۳۵۴شمسی۔
[ترمیم]
[ترمیم]
دانشنامه بزرگ اسلامی، مرکز دائرة المعارف اسلامی، ماخوذ از مقالہ «أعراف»، ج۹، ص۳۶۸۳۔ سایت معارف قرآن۔