آیت اللہ محمد یزدیؒ
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
"آیت اللہ محمد یزدی" (۱۹۳۱ء تا ۲۰۲۰ء)، شہنشاہیت کے تاریک دور میں ایک مجاہد، انقلابی اسکالر اور
اسلامی جمہوریہ ایران کی تشکیل کے بعد ایک مدبر اور مفکر تھے۔ آپ نے انقلاب سے پہلے اور بعد میں بہت سی سیاسی اور مزاحمتی سرگرمیاں انجام دیں۔ ابتدائی دینی تعلیم
اصفہان اور
قم میں حاصل کی پھر
امام خمینیؒ کی شاگردی کا اعزاز حاصل ہوا۔ آیت اللہ یزدی نے ،
تعلیم اور
تدریس کے ساتھ ساتھ فقہی ، اصولی ، قرآنی ، تاریخی اور عقائدی موضوعات پر گرانقدر تحقیقات و تالیفات یادگار چھوڑی ہیں۔
آیت اللہ یزدی نے بالخصوص
قم کی سطح پر اسلامی انقلاب کی تحریک کے تسلسل اور کامیابی میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے جابرانہ
پہلوی دور حکومت میں دیگر علمائے کرام اور فقہا کے ساتھ مل کر ، امام خمینیؒ کے سیاسی نظریات کی پیروی کرتے ہوئے ظلم و ستم کے سیکولر منصوبوں کو زبان و بیان سے بے نقاب کیا اور
جبر کے خاتمے ،
اسلامی حکومت کے قیام اور
معاشرے میں اسلامی عدالت کے نفاذ کے سلسلے میں اپنی الہٰی ذمہ داری کو بہترین انداز سے انجام دیا۔
انقلاب اسلامی کی فتح کے بعد ، آپ
ولایت فقیہ کے حامی تھے۔ اس حوالے سے، آپ نے امام خمینیؒ کی طرف سے بہت سی اہم ذمہ داریاں قبول کیں اور امام کی وفات کے بعد بھی ، رہبر معظم
حضرت آیتالله خامنہ ای کے حکم سے متعدد عہدوں پر فائز رہے ، آپ کے اہم مناصب میں سے عدلیہ کی سربراہی،
مجلس خبرگان کی سربراہی،
شورائے نگہبان کی رکنیت،
جامعہ مدرسین کے مہتمم سمیت دیگر کئی عہدے شامل ہیں۔
آیت اللہ محمد یزدی ، آخر کارایک طولانی علمی اور سیاسی جدوجہد کے بعد ۹ دسمبر ، ۲۰۲۰ کو ۸۹ برس کے سن میں انتقال کر گئے اور قم شہر میں
حضرت معصومہ کے مزار کے پہلو میں سپرد خاک کیے گئے۔
[ترمیم]
شیخ محمد یزدی ۱۹۳۱ میں
اصفہان شہر کے دروازے کے پاس واقع محلے میں پیدا ہوئے۔ آپ کی والدہ اصفہان کے مشہور خاندان دواتگر سے تعلق رکھنے والے ہنر مند استاد عبدالکریم کی دختر تھیں۔ استاد عبدالکریم دھات سے کندہ کاری کے ماہر تھے۔ ان کا تزئینی کام چند سال پہلے تک
امام رضاؑ کے حرم مطہر کے رواقوں میں ظروف اور دیگر آرائشی سامان کی صورت میں موجود تھا۔ آپ کی والدہ ایک
پاک دامن اور
پرہیزگار خاتون تھیں جبکہ والد متقی و پرہیزگار عالم دین تھے، اس اعتبار سے آیت اللہ یزدی بچپن سے ہی اپنے والدین کی بہترین تربیت اور دیکھ بھال سے بہرہ مند ہو گئے تھے۔ انہی چیزوں کی برکت سے آپ کی شخصیت سازی ہوئی اور آپ زندگی بھر
خدا کی رضا اور دینی علوم کی تعلیم و تدریس میں مشغول رہے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم شہر کے اسکول اور اپنے فاضل والد سے حاصل کی۔
[ترمیم]
والد اور چچا (شیخ محمد یزدی) کی آپ کے ساتھ جذباتی وابستگی نے آپ کے ذہن میں
دینی تعلیم کا ایک خوبصورت چہرہ ترسیم کر دیا تھا۔ یہ وابستگی باعث بنی کہ آپ نے
حوزه علمیہ میں ایک خاص شوق اور رغبت کے ساتھ علم کے حصول کا آغاز کیا ۔آپ بارہ سال کی عمر میں
دینی علوم کے طالب علم کی حیثیت سے باضابطہ طور پر
حوزہ علمیہ اصفہان میں داخل ہوئے۔ آپ اپنی زندگی کی راہ کے تعیّن بالخصوص
دینی تعلیم کا شعبہ اختیار کرنے کے حوالے سے اپنے والدین کے کردار کے بارے میں رقمطراز ہیں : ہمارے والد اور چچا کی ہمیشہ تاکید تھی کہ ہمارے خاندان سے دینی تعلیم کا سلسلہ کبھی منقطع نہ ہو ۔ میں بھی ہمیشہ اسی بات میں دلچسپی رکھتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ میری اولاد بھی اسی راہ پر گامزن رہے۔ میرا موقف یہ ہے کہ جبر و زبردستی کر کے آپ نتیجہ حاصل نہیں کر سکتے۔ بہتر یہ ہے کہ باپ بیٹے میں دوستی کا رشتہ ہو اور انہیں بغیر کسی روک ٹوک کے سیدھے راستے پر گامزن کریں ۔خوش قسمتی سے یہ طریقہ کار، کار آمد ثابت ہوا اور ابھی میرے دو بیٹے دینی تعلیم کے حصول میں مشغول ہیں۔
شیخ محمدیزدی نے اپنے ابتدائی اور کچھ تخصصی مضامین کو مدرسہ کاسہ گران، مدرسہ ملا عبد الله،
جده بزرگ اور
مدرسه صدر میں شہر کے اساتذہ سے بہت سنجیدگی اور دلچسپی سے پڑھا۔ کچھ ہی سالوں میں آپ
عربی ادب ،
منطق ،
فقہ ،
اصول ،
فلسفے اور
الہیات سے اچھی طرح واقف ہو گئے تھے۔
[ترمیم]
آیت اللہ بروجردی امام خمینیؒ سمیت دیگر علمائے قم کے شدید اصرار پر ۱۹۴۴ء میں باضابطہ طور پر
قم تشریف لے آئے تھے۔ قم میں اس عظیم مجتہد کی موجودگی حوزه علمیہ کی رونق اور روز افزون ترقی کا باعث بنی۔
اہل بیتؑ کے علوم کی پیاس رکھنے والے افراد کو
حوزه علمیه قم نے اپنی طرف متوجہ کیا۔ لہذا ، وہ دینی علوم کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے پورے ایران سے اس مقدس مقام کی جانب کوچ کرنے لگے۔ شیخ محمد یزدی نے بھی اپنے اصفہان کے اساتذہ سے مشورے کے بعد سنہ۱۹۴۷ء کو سولہ برس کے سن میں اعلیٰ تعلیمی مراحل کی تکمیل کیلئے قم
ہجرت کی۔ یہاں آپ نے بلند پایہ علما و مجتہدین کے سامنے زانوئے تلمذ طے کیا اور آخر کار آپ درجہ
اجتہاد پر فائز ہو گئے۔
[ترمیم]
آیت اللہ یزدی تعلیم میں دلچسپی، ذوق و شوق، خاص رغبت، استقامت اور سنجیدگی کے علاوہ دیگر عوامل کو بھی حصول علم کی راہ میں کامیابی کیلئے اہم سمجھتے ہیں اور وہ یہ ہیں:
آپ اساتذہ کی علمی صلاحیت، سادہ اور فصیح اظہار بیان کے علاوہ اخلاقی فضائل و کمالات کو ان کی شاگردی کیلئے ایک اہم شرط سمجھتے تھے تاکہ ان سے استفادہ کرنے کے بعد شاگرد کامیابی سے علمی و روحانی منازل کو طے کر سکے۔ لہذا ، وہ کسی استاد کو منتخب کرنے کے سلسلے میں بہت محتاط تھے اور جہاں بھی انہیں یہ احساس ہوتا کہ وہ کسی استاد سے بھرپور فائدہ نہیں اٹھا رہے ہیں تو فورا دوسرا استاد اختیار کر لیتے تھے۔ استاد بدلنے کے حوالے سے اپنے دوستوں کو ہمیشہ یہ کہتے: "میرے لئے اہم بات یہ ہے کہ طالب علم کو وقت ضائع کرنے سے گریز کرنا چاہئے اورجب بھی اسے یہ احساس ہو کہ ایک درس سے مطلوبہ فائدہ نہیں مل رہا تو اسے چھوڑ کر دوسرے استاد کی طرف رجوع کرنا چاہئے‘‘۔
آیتالله یزدی
آیتالله محقق داماد کے
درس خارج کو چھوڑنے کے بارے میں کہتے ہیں:
ان سالوں میں، مرحوم محقق داماد قم کے مشہور اساتذہ میں سے تھے اور طلبہ ان کے درس کے گرویدہ تھے۔ میں نے بھی ان کے درس میں جانے کا فیصلہ کر لیا لیکن دو تین درسوں کے بعد پھر شرکت نہیں کی ۔ دوستوں نے مجھ سے کہا: آپ کیوں ان کے درس میں شرکت نہیں کرتے؟ میں نے جواب دیا: مجھے ان کا درس پسند نہیں ہے، وہ بہت مشکل اصطلاحات استعمال کرتے ہیں کہ جن سے میں مستفید نہیں ہو سکتا ۔ اس کے باوجود، ایک بڑے عالم جو اس وقت بھی
زندہ ہیں اور ایک بڑے شہر میں سکونت پذیر ہیں؛ نے اصرار کیا کہ میں مرحوم جناب داماد کی کلاس میں شرکت کروں۔ آخر میں نے جواب دیا کہ میں بہت زیادہ تقلید پذیر ہوں۔ میں جس بھی استاد کے درس میں شرکت کرتا ہوں ان کی تمام اخلاقی خصوصیات کو اپنے اندر جذب کر کے اسی طرح عمل کرتا ہوں؛ چونکہ آقائے داماد کا (علمی مسائل میں ) اپنے مخالفین پر نقد کا طریقہ کار مجھے پسند نہیں ہے، اس لیے ڈرتا ہوں کہ میں بھی اس حالت میں مبتلا ہو جاؤں ۔ لہذا اجازت دیں کہ میں ان کے درس میں موجود علمی نکات کو ان کے آپ جیسے شاگردوں سے اخذ کر لیا کروں۔
آیت اللہ محمد یزدی اپنی علمی کامیابی میں نظم و ضبط کے کردار کے حوالے سے کہتے ہیں :ان دنوں میں حوزه علمیه قم کی نئی شروعات کی وجہ سے کافی حد تک
نظم و ضبط کا خیال رکھتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ طلبہ کی اکثریت فجر کی آذان سے پہلے بیدار ہو جاتی تھی۔ اکثر لوگ نماز جماعت کے لئے مسجد بالا سر میں آتے تھے۔ وہاں پر کئی
نماز جماعت پڑھی جاتی تھیں۔ ان میں سے پہلی نماز جماعت مرحوم
آیت اللہ مرعشی نجفی پڑھاتے تھے۔ ہم آقائے نجفی کی جماعت سے پہلے ایک مباحثہ کیا کرتے تھے جو آذان صبح تک جاری رہتا تھا۔ نماز کے بعد بھی دوستوں کے ساتھ ایک اور مباحثہ کیا کرتے تھے۔ پھر کمرے میں آ کر ناشتہ کرتے تھے۔ کمرے کے کاموں کے حوالے سے بھی کاموں کی تقسیم کا ایک جالب شیڈول بنا رکھا تھا اور ہر کسی کے ذمے کوئی نہ کوئی کام ہوتا تھا۔
حوزہ کے اکثر بلکہ سب دروس بالخصوص فقہ و اصول کے دروس استاد کے تکلم اور شاگرد کے سماع سے منعقد ہوتے ہیں اور ان دروس سے استفادے کی غرض سے انہیں لکھا جاتا ہے۔ آیت اللہ محمد یزدی بھی اس امر کی طرف متوجہ تھے اور اپنے تمام دروس کو تحریر کیا کرتے تھے۔ آپ نے
امام خمینیؒ کی جانب سے مسجد سلماسی قم میں تدریس کردہ اصول کے خارج کا مکمل دورہ تحریر کیا اور اسی طرح
آیت اللہ محمد علی اراکی، شیخ عباس علی شاہرودی اور دیگر علما کے دروس کو لکھا کرتے تھے۔
آیت اللہ یزدی کا ایک اور اسلوب یہ تھا کہ آپ روز مرہ کے دروس کا مباحثہ کرنے کے علاوہ کسی خاص متن یا اپنی جمع کردہ درسی تقریرات کا بھی مباحثہ کرتے تھے۔ اس کا ہدف پہلے سے متعین شدہ کسی موضوع پر علمی بحث کرنا ہوتا تھا کہ جس کیلئے متعدد کتب پر تحقیق و مطالعہ اور علمی و روائی منابع کی طرف مراجعہ کرنا ضروری ہوتا تھا۔ اس طرح کے مباحثے سے طلبہ کے اندر تحقیق کی روح کو تقویت ملتی ہے اور دونوں ہم بحث ایک دوسرے کی علمی زحمت و کاوش سے بہرہ مند ہوتے ہیں اور یہ بذات خود ایک قسم کی تدریس ہے۔ مباحثے کا یہ انداز بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے بالخصوص ان طلبہ کیلئے کہ جنہوں نے مقدمات کے مراحل کو مکمل کر لیا ہے اور استاد تک ان کی دسترس کم ہوتی ہے۔
انہوں نے یہ انداز امام راحلؒ کی نصیحت پر اختیار کیا اور اس کے ثمرات سے بہت زیادہ فوائد حاصل کیے۔ آیت اللہ یزدی نے
امام خمینیؒ کے
نجف اشرف میں قیام کے زمانے میں ان سے ملاقات کی اور امام نے گفتگو کے ضمن میں ان سے کہا:
اجتماعی بحوث سے بھی غافل نہ ہوں۔ بعض اجتماعی بحوث کا فائدہ درس خارج میں شرکت سے زیادہ ہے۔
[ترمیم]
آیت اللہ یزدی نے اپنے آبائی وطن اور اسی طرح
حوزہ علمیہ قم میں بہت سے اساتذہ کے سامنے زانوئے تلمذ طے کیا، جن میں سے بعض یہ ہیں:
۱. شیخ علی یزدی، (متوفی ۱۳۶۴شمسی)
۲. سید مرتضی موحد ابطحی: آیت اللہ سیدمرتضی موحد ابطحی، اصفہان شہر کے مشہور عالم اور فقیہ تھے۔ آپ مرزا ابوالقاسم طبیب، شیخ محمدرضا نجفی، میر سید علی نجف آبادی اور سیدمحمد نجف آبادی کے شاگردوں میں سے تھے اور مسجد یزد آباد اصفہان میں نماز جماعت منعقد کرواتے تھے اور مذہبی کاموں میں مشغول رہتے تھے۔ بعض اوقات طبابت بھی کرتے تھے۔۔ آیت اللہ یزدی، نے عربی زبان و ادب کی تعلیم ان سے حاصل کی۔۔
۳. شیخ محمد حسن فقیہ ایک پرہیزگار عالم اور انتہائی متواضع بزرگ تھے اور شاگردوں کی تربیت میں بہت کوشاں رہتے تھے۔ آیت اللہ یزدی نے معالم اور لمعہ کا ایک حصہ اس عظیم فقیہ سے پڑھا۔
۴. علامہ حاج سید ضیاء الدین
۵. شیخ عباس علی ادیب حبیب آبادی ابن حاج محمد جعفر کی ولادت ۱۳۱۵قمری کو اصفہان کے علاقے برخوار کے ایک گاؤں حبیب آباد میں ہوئی۔ آپ نوجوانی میں حوزہ علمیہ اصفہان میں داخل ہو گئے تھے اور اس شہر کے عظیم اساتذہ میرزا احمد مدرس، محمدرضا نجفی، سید محمد درچهای اور نور اللہ مسجدشاہی، سے اسلام علوم کی تعلیم حاصل کی اور بلند علمی درجات پر فائز ہو گئے۔ آپ ایک ماہر ادیب و شاعر تھے اور آپ کا تخلص ’’نادم‘‘ تھا۔ انہوں نے فارسی اور عربی زبانوں میں بہت سے اشعار یادگار چھوڑے۔ اس عظیم فقیہ کی یادگار کتابوں میں سے بعض یہ ہیں: احسن التقاویم در اوقات شرعی اصفهان و کاشان، دیوان اشعار، شرح دعای ندبہ و قبلة البدان یا معرفة القبله۔
۶. شیخ حسن نجف آبادی
۷. آقا رحیم ارباب
آیت اللہ یزدی، نے کچھ مدت تک حکیم متالہ آقا رحیم ارباب کے درسِ فلسفہ میں شرکت کی۔۔
۸. شیخ ابوالفضل زاہدی
۹. آیتالله محمد لاکانی
۱۰. سیدحسین بدلا، (متوفی ۱۴۲۵قمری)
۱۱. سیدرضا صدر، (متوفی ۱۴۱۵قمری)
۱۲. آیتالله بروجردی
۱۳. امام خمینی
۱۴. شیخ مرتضی حائری
۱۵. آیت اللہ مرعشی نجفی
۱۶. سید محمد حسین طباطبائی
۱۷. آیت اللہ شیخ محمد علی اراکی
۱۸. شیخ عباس علی شاہرودی.
۱۹. آیت اللہ میرزا ہاشم آملی
۲۰. سیدمحمدرضا گلپایگانی
۲۱. آیت اللہ محمد مجاهدی
۲۲. شیخ عبدالجواد جبل عاملی اصفهانی
۲۳. سیدمحسن فرید اراکی
۲۴. آیتالله سید محمدباقر سلطانی
[ترمیم]
اسلامی احکام و
معارف کی تدریس آیت اللہ یزدی کی زندگی بھر ایک نمایاں اور دائمی مصروفیت رہی۔ آپ اسلامی معارف کی ترویج اور دینی علوم کے مبلغین اور شاگردوں کی تربیت کیلئے زمانہ طالب علمی کے آغاز سے ہی
قم کے اندر مروجہ حوزوی کتب بالخصوص
فقہ،
فلسفہ اور
اخلاق کی تدریس میں مشغول رہے۔ آپ تدریس کو تحقیق و تالیف کے میدان میں اپنی کامیابی کے عوامل میں سے شمار کرتے تھے۔
[ترمیم]
آیت اللہ یزدی کی ایک اہم علمی و مذہبی فعالیت، دینی فریضے اور قرآنی ذمہ داری کی بنیاد پر اسلامی احکام کی ترویج و تبلیغ تھی۔ آپ نے ابتدائے شباب سے ہی اس امر کو اہمیت دی۔ اہم دینی مسائل کو معاشرے کی ضرورت کے پیش نظر فصیح و بلیغ بیان سے پیش کرنا آپ کا امتیازی وصف تھا؛ حتی جہاں ایک بار تشریف لے جاتے، آپ کے خطابات کا لوگ استقبال کرتے تھے۔ آیت اللہ محمد یزدی نے جب خود کو اس امر میں بہت کامیاب دیکھا تو اسے بہت زیادہ وقت دینے لگے اور علم و معرفت کے پیاسوں کو
آیات و
روایات سے سیراب کرتے تھے اور ان کے اندر روحانی اور معاشرتی تحول کا باعث بنتے تھے۔
[ترمیم]
آیت اللہ محمد یزدی حصول علم میں بہت زیادہ سعی و کوشش کرتے تھے اور اپنے وقت سے دینی معارف کے کسب و تحصیل میں بہت زیادہ استفادہ کرتے تھے۔ اس رو سے ہر وہ مسئلہ جو آپ کو حصول علم سے دور کر دیتا تھا؛ سے پرہیز کرتے تھے یہاں تک کہ انہوں نے
ماہ رمضان میں تبلیغ کا سلسلہ بھی ترک کر دیا اور حوزوی علوم کی تحقیق پر پوری توجہ مرکوز کر دی مگر اپنے استاد کی رہنمائی اور نصیحت سے حصول علم اور تبلیغ کے مابین توازن برقرار کیا اور دونوں کی اہمیت کو درک کرتے ہوئے نظام الاوقات کو مرتب کیا اور دونوں میدانوں میں اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے رہے، پھر آپ کو دونوں میں ٹکراؤ محسوس نہ ہوا بلکہ دونوں کو ایک دوسرے کا تکمیل کنندہ محسوس کرنے لگے۔ آپ نے اپنی یادداشتوں میں تحریر کیا ہے:
اہم مذہبی مناسبتیں جیسے:
محرم،
صفر، رمضان اور
فاطمیہ بہت زیادہ تھیں کہ جن میں تبلیغ کیلئے جانا پڑتا تھا۔ یہی امر باعث بنا کہ میرا بہت زیادہ وقت صرف ہونے لگا اور اپنے دروس سے پیچھے رہ جاتا تھا۔ اس بات پر میں راضی نہیں تھا۔ ایک مرتبہ میں نے فیصلہ کیا کہ تبلیغی پروگرام کو منسوخ کر دیتا ہوں۔ لہٰذا ماہ رمضان کے آغاز پر (اپنے شہر میں تبلیغ کیلئے دعوت دینے والوں) کی درخواست کو مسترد کر دیا اور کہا: امسال، میرا کوئی ارادہ نہیں ہے کہ کہیں جاؤں ۔۔۔ یہاں تک کہ ماہ رمضان کے آغاز سے دو دن پہلے میں اپنے ایک استاد مرحوم سید محسن فرید کو ملنے گیا۔۔۔ انہوں نے مجھے دیکھتے ہی سخت رویہ اپنا لیا ۔۔۔ ۔
میں نے عرض کیا: ہم سے کیا خطا ہوئی ہے؟!
فرمایا: میں نے سنا ہے کہ آپ نے
وعظ اور
خطابت کو چھوڑ دیا ہے۔ آپ کو معلوم نہیں کہ اب وہ زمانہ ہے کہ لوگ، یخرجون من دین الله افواجا؟ خدا کی قسم! اگر میں آپ کی طرح منبر پر جانے کی صلاحیت رکھتا تو ضرور جوانوں کے ساتھ رابطہ برقرار کرتا اور معاشرے میں جاتا۔ آپ خدا کو کیا جواب دو گے؟! میں نے عرض کیا: حقیقت یہ ہے کہ جب لوگ ہم سے ملتے ہیں تو ہمارے عقیدت مند بن جاتے ہیں اور درسی ایام میں بھی درس و بحث میں مشغول نہیں رہنے دیتے۔ انہوں نے فرمایا: بہرحال، بندہ آپ جیسوں کی عوام میں موجودگی کو بھی
واجب عینی سمجھتا ہوں اور تعلیم جاری رکھنے کو بھی ۔۔۔ ؛ کیونکہ حوزہ علمیہ نے آپ کی پرورش کیلئے اخراجات برداشت کیے ہیں اور یہ اخراجات ضائع نہیں ہونے چاہئیں۔ پھر میں نے کہا: اگر آپ ایسا فرماتے ہیں تو آپ کی خدمت سے جانے کے بعد جہاں سے بھی دعوت آئے گی، میں اسے قبول کر لوں گا۔
آیت اللہ یزدی اس واقعے کے بعد امر تبلیغ میں مصمم ہو گئے اور جہاں سے بھی ضرورت کا احساس ہوتا۔ اپنے ارشادات سے لوگوں کے مابین برکت و ہدایت کا منشا قرار پاتے۔
[ترمیم]
اسلامی انقلاب سے دو عشرے قبل بالخصوص انقلاب کی کامیابی کے نزدیکی سالوں کا مطالعہ کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ آیت اللہ یزدی نے اسلامی انقلاب کی تشکیل، تسلسل اور کامیابی میں خاص طور پر
قم کے مذہبی شہر میں اہم کردار ادا کیا۔ آپ نے
پہلوی حکومت کے زمانے میں
امام خمینی کے سیاسی اصولوں سے متاثر ہو کر دیگر علما و فقہا کے ہمراہ شاہی ظلم و استبداد کے خلاف قلم و بیان کے ساتھ جدوجہد کی تاکہ اسلامی حکومت قائم ہو۔
آیت اللہ یزدی کی سیاسی مسائل سے آشنائی اور آپ کی سیاسی شخصیت کی تشکیل قم آمد کے ابتدائی سالوں میں ہوئی اور
شہید نواب صفوی، واحدی اور دیگر مجاہدین کی قیادت میں کام کرنے والی طاغوت شکن تنظیم
فدائیان اسلام سے آشنائی ان کی جانب سے شائع کردہ پہلی کتاب (حکومتِ اسلامی) کے مطالعے سے ہوئی اور اسی کتاب سے آپ کو اسلام کے سیاسی مسائل اور اصولوں سے آگاہی ہوئی اور ان کی نشستوں میں شرکت کر کے اپنی معلومات میں اضافہ کرتے تھے۔۔
تاہم آپ امام خمینیؒ کی براہ راست اور بالواسطہ ہدایات سے زیادہ متاثر تھے۔ آیت اللہ یزدی کے امام خمینیؒ کے ساتھ روابط کی بازگشت قم کی مسجد سلماسی میں امام کے اصول کے درس خارج میں سالہا سال تک شرکت کی طرف ہے۔ آپ اور امام کے دیگر نمایاں شاگرد درس کے اختتام پر امام کے گرد حلقہ وار جمع ہو جاتے تھے اور علمی سوال و جواب کے علاوہ سیاسی مسائل میں بھی دلچسپی لیتے تھے اور امام بھی مختلف سیاسی شعبہ جات کے حوالے سے افراد کی ذمہ داریاں بیان کرنے کے علاوہ اپنے سیاسی مبانی کی وضاحت بھی کرتے تھے۔ آیت اللہ یزدی امام خمینیؒ کی ہدایات کے زیر اثر یہ سمجھتے تھے کہ محرم، صفر، فاطمیہ اور ماہ رمضان کے تبلیغی ایام میں دینی تعلیمات کو بیان کرنے کے علاوہ سیاسی مسائل کو بھی بیان کیا جائے تاکہ پہلوی حکومت کے فتنہ و فساد کو بے نقاب کیا جائے۔ اس لیے تبلیغ کے ایام میں پہلوی شہنشانی حکومت کے خلاف خطاب کرتے تھے اور امام خمینیؒ کو عوام کا واحد نجات دہندہ قرار دیتے تھے جو انہیں طاغوت کے تسلّط سے آزاد کروا سکتے ہیں۔۔
[ترمیم]
۱۔ ہفت روزہ بعثت و انتقام کی تاسیس، آیت اللہ محمد یزدی کی پہلی سیاسی فعالیت شمار ہوتی ہے۔ آپ
آیتالله مصباح یزدی اور دیگر انقلابیوں کے ساتھ مل کر یہ ہفت روزہ شائع کرتے تھے اور اس میں روز مرہ کے مسائل و مشکلات کو پیش کرتے تھے۔۔
۲۔ قم کے انقلابی عوام کے ساتھ نشستوں کی تشکیل آیت اللہ یزدی کی ایک اور فعالیت تھی۔ آپ کہتے ہیں: ’’شاہی ظلم و ستم کے خلاف جدوجہد کے ایام میں بندہ قم کے انہی معزز افراد کے ہمراہ ایک مخفی نشست منعقد کرتا تھا۔ البتہ یہ پہلے اعلانیہ ہوتی تھی مگر چونکہ
ساواک کو مسئلہ تھا اور آئے روز یہ جہنمی ادارہ ہمارے لیے مشکلات کھڑی کرتا تھا تو یہ تجویز سامنے آئی کہ یہ نشست مخفیانہ انداز سے منعقد کی جائے۔ نشست کی ابتدا میں افراد کی تعداد دس سے بیس افراد پر محیط تھی۔ ان میں سے بعض لوگ قم کے کاروباری طبقے سے تعلق رکھتے تھے اور حضرت امامؒ کے عقیدت مند تھے۔ بعض اوقات یہ افراد اپنے گھر میں نشست کا اہتمام کرتے تھے ۔۔۔ البتہ ہمارا اجتماع بابرکت تھا اور اس کے نتیجے میں چند مسلح گروہ تشکیل پائے جو حکومت کے خلاف جدوجہد کیلئے دستی بم تیار کرتے تھے ۔۔۔ شاید آپ نے سنا ہو کہ قم میں پہلی مسلح تحریک انہی دوستوں کی جانب سے شروع کی گئی اور انہوں نے قم کے نزدیک واقع ایک فوجی مرکز پر حملہ کیا کہ جس کے دوران ایک شخص شہید بھی ہوا۔ شہید کا جنازہ قم منتقل کیا گیا اور انہیں شہدائے انقلاب کے ساتھ جگہ دی گئی۔۔
ان نشستوں کے بعض سرگرم کارکنوں کے نام یہ ہیں: آقائے علی محمدی، نماز جمعہ تہران کمیٹی کے موجودہ سربراہ،حاج حسین سلیمانی جو اس وقت
مشہد میں مقیم ہیں اور صبوری کہ جو ہوٹلوں کی صنعت سے وابستہ ہیں۔۔
۳۔ آیت اللہ یزدی نے دربار سلطنت کی جانب سے قرآن شائع کیے جانے کی مخالفت کی اور اس پر احتجاج کیا۔
قرآن کی اشاعت منجملہ ان اقدامات میں سے تھا کہ جسے شاہ کی حکومت کی جانب سے عوام کو فریب دینے کی غرض سے شائع کیا گیا تھا۔ اشاعت کے بعد قرآن ملک کے تمام صوبوں میں بھیجا گیا اور ہر شہر کے حکومتی عہدیداروں کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ تقریبات منعقد کر کے قرآن کو ایسے مناسب مقامات پر رکھا جائے جو لوگوں کی نگاہوں کے سامنے ہوں تاکہ اس طرح شاہ اور اس کی حکومت کو قرآنی اور اہداف قرآن پر عمل پیرا ظاہر کیا جا سکے۔ آیت اللہ یزدی نے اس کام کو عوام فریبی قرار دیا اور اپنے ایک بیان میں یہ کہا: ’’اگر شاہ واقعا قرآن سے عقیدت رکھتا ہے تو اپنی اہلیہ کو
حجاب اوڑھنے کیلئے کہے اور شراب نوشی کو ترک کر دے‘‘۔
آپ نے مزید یہ کہا تھا: ’’یہ وہی قرآن ہے جو نیزے پر بلند کیا گیا تھا اور اس طرح
علیؑ کے قتل کی راہ ہموار کی گئی‘‘۔ ۔
۴۔ شاہ نے حوزات علمیہ کی بنیادیں گرا دینے کیلئے مدارس کو اوقاف کے زیر انتظام لانے کا بل پس کیا مگر آیت اللہ یزدی نے اس کی مخالفت کی۔ پروگرام یہ تھا کہ دینی علوم کے طلبہ ادارہ اوقاف کے تحت تعلیم حاصل کریں گے اور فارغ التحصیل ہونے کے بعد انہیں ڈگری سے نوازا جائے گا۔ آیت اللہ یزدی نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے: میں نے اپنے درس اخلاق (جو
مدرسہ فیضیہ میں منتقل ہو چکا تھا) میں اس پالیسی کی مخالفت کا اعلان کیا اور واضح کیا کہ اس پالیسی کا مقصد حوزہ علمیہ کے ساتھ مقابلہ اور ہمارے طلبہ میں تفرقہ ڈالنا ہے اور ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ اس نصاب کے تحت چلیں جو مراجع تقلید نے طلاب کیلئے ترتیب دیا ہے اور یہ بے معنی بات ہے کہ ہم اپنے نصاب میں حکومت سے وابستہ ایک ادارے کہ جس کا نام اوقاف ہے؛ کی حمایت کریں جو طلبہ کیلئے نصاب مرتب کرے گا اور ان مدارس کو اوقاف کے مدارس کا عنوان دیا جائے گا۔ آپ نے مزید کہا: وہ طالب علم جو ان مدارس میں تعلیم حاصل کرے گا، بلاتردید اسلام و مسلمین کے کام کا نہیں ہو گا اور اسے دینی طالب علم کا نام دینا شائستہ نہ ہو گا۔۔
۵۔ انقلابی خطاب اور
بروجن شہر میں امام خمینیؒ کا رہبر و امام کے عنوان سے تعارف؛
۶۔ بندر لنگہ کے مقام پر سنہ ۱۳۵۳شمسی میں
حزب رستاخیز کی تاسیس اور اہداف کی مخالفت۔
۷۔ امام خمینیؒ کے بیانات کی اشاعت اور انہیں ایران کے دور دراز شہروں تک ارسال کرنا؛
۸۔ خط امام کے پیرو مسلح گروہوں کے ساتھ رابطہ، ان کی تائید اور تقویت۔
۹۔ ۱۹ دی سنہ ۱۳۵۶شمسی کو قم کے عظیم قیام میں کردار؛
۱۰۔ قم میں پہلے دھرنے کا اہتمام؛ پہلا دھرنا جو
تہران میں پہلوی حکومت کے خلاف دیا گیا، وہ تہران یونیورسٹی میں
مطہری اور
بہشتی کی قیادت میں دیا گیا تھا۔ آیت اللہ یزدی نے ان کی حمایت اور پورے ایران میں انقلابی تحریک شروع کرنے کی غرض سے قم کے اندر دھرنے کی کال دی۔ آپ اپنے چند دوستوں کے ہمراہ
مسجد اعظم قم تشریف لائے اور مسجد کے پہلے شبستان میں آیت اللہ بروجردی کی قبر کے پاس اجتماع منعقد کر کے دھرنا دینے کا اعلان کر دیا اور لوگوں کی بڑی اکثریت آپ کے ساتھ ملحق ہو گئی۔ یہ دھرنا چند دنوں تک جاری رہا اور کسی کشیدگی یا لڑائی کے بغیر اختتام پذیر ہوا۔
[ترمیم]
شاہ کی حکومت کو بے نقاب کرنے اور حکومت مخالف اقدامات کی قیادت کرنے پر آیت اللہ یزدی کو کئی مرتبہ
قم،
اہواز،
چالوس،
خمین اور
کرمانشاہ میں قید کیا گیا اور قزل قلعہ تہران، کرمانشاہ اور
بوشہر کے جیلوں میں رکھا گیا اور اسی طرح دور کے بد آب و ہوا شہروں میں جلا وطن بھی کیا گیا۔
کنگان، بوشہر، مغربی اسلام آباد اور گیلان کا شہر رودبار وہ شہر ہیں کہ جہاں آیت اللہ یزدی نے جلاوطنی کاٹی۔
خطاب پر پابندی، جیل اور جلا وطنی میں سے کوئی بھی ہتھکنڈہ آپ کو اپنے مشن سے پیچھے نہیں ہٹا سکا۔ آپ اپنی یاد داشت میں کہتے ہیں:
’’میں ہر مرتبہ جب جلا وطنی گزار کر واپس آتا تھا تو پھر سے اپنی انقلابی سرگرمیوں اور خطابات کا آغاز کر دیتا تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ آرام سے بیٹھ جاؤں اور دستبردار ہو جاؤں، میں نے طے کر رکھا تھا کہ ہر بار اس قدر کام کا سلسلہ آگے بڑھاؤں کہ دوبارہ گرفتار کیا جاؤں۔ خوش قسمتی سے
ماہ مبارک رمضان کے ایام میں جس علاقے میں بھی خطاب کیلئے جاتا تو مہینے کے اختتام تک اپنے خطابات کو جاری رکھتا سوائے ایک بار کہ جب
مسجد جامع قم میں خطابات جاری تھے مگر آخری عشرے میں مجھے گرفتار کر لیا گیا اور باقی دن دیگر دوستوں نے پروگرام کا سلسلہ آگے بڑھایا۔
امام خمینیؒ جو خود
نجف اشرف میں جلا وطن کیے گئے تھے اور آیت اللہ یزدی کے انقلابی اقدامات سے آگاہ تھے، کبھی منہ زبانی اور کبھی خط ارسال کر کے انہیں استقامت اور ثابت قدمی کی تلقین کرتے تھے۔ امام نے خرداد ۱۳۵۷شمسی کو آیت اللہ یزدی کے نام خط میں یہ لکھا:
سلام و تحیت کے بعد، آپ کا نامہ موصول ہوا، جناب عالی کی سلامتی و سعادت کی خدا سے دعا کرتا ہوں، بحمد اللہ تعالیٰ آپ اسلامی انقلاب کا ہر اول دستہ ہیں، آپ نے اپنے اہم فرائض پر عمل کیا اور کر رہے ہیں، آپ حوزات علمیہ کیلئے سرفرازی کا باعث ہیں اور ان لوگوں کے عذر کا توڑ ہیں جو اس حساس موقع پر خاموشی اختیار کر کے اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوئے بیٹھے ہیں یا اس کے علاوہ خاموش رہنے کا حکم بھی دیتے ہیں۔ هنیئا لکم.
امام خمینیؒ اپنے خط کے دوسرے حصے میں آیت اللہ یزدی سے خطاب کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
حوزہ علمیہ قم کے فضلائے محترم کی ثابت قدمی اور جوان طبقے کا مصائب پر
صبر بہت زیادہ امیدوار کنندہ ہے۔ اہل حق کا قبل از
اسلام اور آغازِ اسلام سے قیام، ہمیشہ سخت مشکلات کے ہمراہ رہا ہے کہ آپ لوگوں پر ظالم حکومت کا دباؤ اس کی نسبت بہت آسان ہے۔ اس کے باوجود داخلی اور بیرونی مشکلات کو دیکھتے ہوئے اس استقامت پر میں آپ کا شکرگزار ہوں۔
[ترمیم]
آیت اللہ یزدی اسلامی انقلاب کی کامیابی تک ہمیشہ طاقت فرسا زحمات کو برداشت کر کے ایرانی علما اور عوام کے شانہ بشانہ بہترین صورت میں اپنی الٰہی ذمہ داری کو انجام دیتے رہے اور
اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد بھی ایک فداکار، مخلص اور
ولایت فقیہ کے ناصر کے طور پر مصروف عمل رہے۔ اس سلسلے میں آپ نے امام خمینیؒ کی جانب سے بہت سی ذمہ داریوں کو قبول کیا اور امام کی رحلت کے بعد بھی متعدد مناصب پر رہبر معظم
آیت اللہ خامنہ ای کے حکم پر فائز ہوتے رہے۔
آیت اللہ یزدی کی سیاسی اور اجتماعی سرگرمیوں کے پس منظر سے ان کے اسلامی حکومت کی تشکیل پر کامل یقین کا پتہ چلتا ہے۔ انہوں نے اپنے عمل سے اس عقیدے کو سچ ثابت کیا اور اسلامی جمہوریہ ایران کے مقدس اہداف کی ترقی کیلئے کبھی کسی کوشش سے دریغ نہیں کیا۔ آپ نے ہمیشہ مختلف ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھایا یہاں تک کہ امام خمینیؒ نے انہیں انقلاب سے وفادار اور اسلام و انقلاب کے درد سے آشنا قرار دیا۔ اسی طرح
شورائے نگہبان کے فقہا کی رکنیت کے حکم نامے میں یہ عبارت موجود ہے:
جناب عالی جو دیندار، ثقہ اور اسلام و انقلاب کے درد آشنا ہیں؛ کو شورائے نگہبان کے رکن کی حیثیت سے مقرر کرتا ہوں۔۔
سنہ ۱۳۵۷شمسی میں امام خمینیؒ کی قم آمد اور آیت اللہ یزدی کے گھر میں سکونت،
سے امامؒ کے آپ پر گہرے اعتماد کا پتہ چلتا ہے۔ یہ بہت بڑا اعزاز ہے جو ہر کسی کو نصیب نہیں ہوا۔
آیت اللہ مصباح یزدی اسلامی جمہوریہ ایران کے قیام، استحکام اور بقا کیلئے آیت اللہ یزدی کی انتھک کوششوں کے بارے میں کہتے ہیں:
آپ کی اخلاقی اور انفرادی خصوصیات میں سے ایک دینی و معاشرتی مسائل کی نسبت حساسیت ہے کہ جس نے ہمیشہ جوانی کے ایام سے اب تک آپ کی فکری اور عملی جہت کو متعین کر دیا ہے۔ انقلاب سے پہلے کئی مرتبہ گزشتہ حکومت کے خلاف اپنے احتجاجی خطابات اور امام کی حمایت کی پاداش میں آپ کو قید اور جلا وطن کیا گیا اور انقلاب کی کامیابی کے بعد احساس ذمہ داری کرتے ہوئے اہم ذمہ داریوں کو پورا کیا۔۔
آیت اللہ یزدی کی انقلاب کے بعد بعض اہم ذمہ داریاں یہ ہیں:
۱. سنہ ۱۳۵۷ شمسی کو امام خمینیؒ کی قم آمد کے موقع پر استقبال کے انتظامات سنبھالنا اور قم میں امام کی رہائش کا بندوبست؛
۲. سنہ ۱۳۵۷شمسی کو قم میں امام کے دفتر کی ذمہ داری؛
۳. دادگاه انقلاب اسلامی قم کی سربراہی؛
۴. انقلاب کے بعد قائم ہونے والی پہلی اور دوسری مجلس شورائے اسلامی پارلیمنٹ) کی رکنیت؛ .
۵. شورائے نگهبان کی رکنیت؛ ۔
۶. سنہ ۱۳۶۰شمسی میں آیتالله دستغیب کی شہادت کے بعد شیراز میں امام جمعہ کے فرائض کی ادائیگی؛
۷. مجلس خبرگان رهبری کے دوسرے دورے میں صوبہ تهران کی نمائندگی؛
۸. آئین کی تدوین پر مقرر نظارتی کمیٹی کی رکنیت؛
۹. بعض شہروں کی سیاسی و اجتماعی مشکلات کے حل کیلئے امام کی جانب سے نمائندگی؛. امام خمینیؒ نے سنہ ۱۳۵۸ شمسی کو ایک حکم نامے میں آپ کو خطاب کرتے ہوئے یہ لکھا:
بسمہ تعالیٰ، جناب حجۃ الاسلام آقای حاج شیخ محمد یزدی دامت افاضاته!
ضروری ہے کہ جناب عالی عوام کی رہنمائی، نظم امور اور شرعی قضاوت کیلئے کرمانشاہ، اسلام آباد، ایلام اور مغربی صوبوں کے دیگر شہر کہ جہاں سفر کو آپ ضروری سمجھتے ہوں؛ جائیں اور مقررہ فرائض کی ادائیگی کے ساتھ لوگوں کو اتحاد اور یکجہتی کی دعوت دیں اور تفرقہ و اختلاف سے ڈرائیں اور اس حساس موقع پر جو ان کی حساس ذمہ داری ہے، اس کی نسبت انہیں آگاہ کریں۔ خدا تعالیٰ سے اسلام و مسلمین کی عظمت اور سب کی کامیابی کیلئے دعا گو ہوں۔
۱۰. امام خمینیؒ کی رحلت کے بعد قاضی القضاۃ کے عنوان سے تقرری؛
۱۱. تہران کے موقت امام جمعہ؛
۱۲. جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم کی رکنیت
[ترمیم]
آیت اللہ یزدی تعلیم و تدریس کے ساتھ ساتھ فقہی، اصولی، قرآنی، تاریخی اور اعتقادی موضوعات میں تحقیق و تالیف میں مشغول رہے۔ ظالم پہلوی حکومت کے خلاف جدوجہد کے دوران کہ جب آپ دور کے شہروں میں جلا وطنی یا قید کاٹ رہے ہوتے تھے اور اسلامی انقلاب کے بعد کہ جب آپ حکومتی عہدوں پر فائز رہے؛ آپ نے کبھی تحقیق و تالیف کا سلسلہ منقطع نہیں کیا اور ہمیشہ اپنے گرانقدر علمی افکار کو کتابی صورت دینے میں مشغول رہتے۔
آیت اللہ مصباح یزدی اس حوالے سے کہتے ہیں:
جناب آقای یزدی پچاس برس سے زائد کا عرصہ ہے کہ اسلامی علوم کی تعلیم و تدریس اور تحقیق میں مشغول ہیں۔ بالخصوص
فقہ و
اصول میں مشغول ہیں۔ حساس نوعیت کی وقت گیر ذمہ داریوں میں مشغول ہونے کے باوجود آپ نے اپنے علمی کاموں کو جاری رکھا اور آپ کی بہت سی کتب طبع ہو چکی ہیں۔ یہ امر فقہی و تفسیری اور ان جیسے علمی مسائل سے آپ کی وابستگی اور استعداد کا ثبوت ہے۔۔
آیت اللہ یزدی کی تحقیق و تالیف میں شبانہ روز زحمتوں سے اسلامی علوم میں دسیوں گرانقدر تالیفات سامنے آئیں جن کے نام یہ ہیں:
۱. لباس مصلی؛ یہ کتاب آیت اللہ بروجردیؒ کے فقہی دروس کا مجموعہ ہے جو ۷۳۵ صفحات پر مشتمل ہے۔
۲. کتاب بیع؛ یہ کتاب، امام خمینیؒ کے دروس کی تقریر ہے جسے ۳۸۵ صفحات میں تدوین کیا گیا ہے۔
۳. انقضاء فی الاسلام؛
۴. بحث فی الغناء؛
۵. المتنجس متنجس کالنجس؛
۶. قاعده لاضرر؛
۷. بحث حول العرش؛
۸. الجهاد فی الاسلام؛
۹. الذبح فی الحج و القربان فی الاسلام؛
یہ آثار آیت اللہ یزدی کے دروس کی تقریرات ہیں اور ابھی تک شائع نہیں ہوئی ہیں۔
۱۰. مجمع الرسائل؛
۱۱. مسئلہ خمس؛
۱۲. ثلاث رسائل فقهیہ؛
۱.اصول الفقہ، اصول کے درس خارج کا ایک دورہ ہے جسے ۱۱۱۸ صفحات میں تحریر کیا گیا ہے اور یہ امام خمینی کے اصول کے دروس کی تقریرات ہیں۔
۲. مباحث الفاظ، ۳۱۸ صفحات پر مشتمل ہے اور ابھی تک شائع نہیں ہوئی ہے۔
۱. فقہ القرآن نامی کتاب آیات الاحکام (فقہی آیات) کے بارے میں ہے۔ جلاوطنی کے ایام میں کنگان، بوشہر اور مغربی اسلام آباد میں اسے تحریر کیا گیا تھا۔ آپ اس کے حوالے سے کہتے ہیں: دیگر قلمی آثار میں سے ایک قرآن کی آیات الاحکام پر تحقیق ہے۔ یہ کام کنگان شہر (جہاں پہلی مرتبہ مجھے جلا وطن کیا گیا) میں انجام دیا۔ اس کے بعد ہمیں اسلام آباد منتقل کر دیا گیا اور کچھ عرصہ میں نے تنہائی میں گزارا اور مذکورہ کتاب کی تکمیل میں مشغول رہا ۔۔۔ آخرکار چار جلدوں پر مشتمل کتاب آمادہ ہوئی کہ جس کا نام ’’فقہ القرآن‘‘ رکھا، ہماری آیات الاحکام کا امتیاز اس عنوان کی دیگر کتب سے یہ ہے کہ اس کی ترتیب ممتاز ہے اور فقہ کی معروف ترتیب سے مختلف ہے حتی اس کتاب میں ایسے ابواب آئے ہیں جو دیگر آیات الاحکام کی کتب میں موجود نہیں ہیں از قبیل حکومت اور ولایت۔۔ یہ کتاب، انتشارات اسماعیلیان قم، کی جانب سے دو جلدوں میں طبع کی گئی ہے۔
۲. اسس الایمان فی القرآن: اس کتاب کا موضوع قرآن کریم کی نگاہ سے اصول دین ہے۔ یہ کتاب کرمانشاہ کے زندان میں شاہ کے دور میں لکھی گئی اور اب شائع ہو چکی ہے۔
۳. تفسیر من فاتحة الکتاب
۱. بشر و خداشناسی؛
۲. گمشده شما: یہ کتاب اصول دین اور شیعہ کے تعارف کے بارے میں ہے جو سنہ ۱۳۴۸شمسی میں انتشارات دار الفکر قم کی جانب سے شائع کی گئی ہے۔
۳. اسلام کی آئیڈیولوجیکل بنیادیں: یہ کتاب بھی اصول دین اور توحید ، عدل اور نبوت کے بارے میں ہے اور جامعہ مدرسین کی جانب سے سنہ ۱۳۶۲شمسی کو طبع کی گئی ہے۔
۴. امامت در شیعه؛
۵. میری یہ تحریر ایک شیعہ مخالف عالم کہ جس کا نام مردوخ ہے؛ کے خطوط کے جواب میں ہے اور ابھی تک شائع نہیں ہوئی ہے۔
۶. مردوخ صاحب کے الزامات کا جواب، یہ کتاب سنہ ۱۳۴۰ شمسی کو چاپ خانہ علمیہ قم کی جانب سے شائع کی گئی ہے اور اسے مردوخ کردستانی نام کے ایک فرد کی تہمتوں کے جواب میں لکھا گیا ہے۔
۷. اسلام، همگام با زمان (اسلام زمانے کے ساتھ ہم گام)؛
۸. مجموعه مقالات: یہ کتاب مختلف عقائدی مقالات پر مشتمل ہے۔ اسے جامعہ مدرسین نے سنہ ۱۳۶۲شمسی میں شائع کیا ہے۔
۹. ولایت فقیه یا حکومت اسلامی کے بارے میں دروس؛
۱۰. نبذ من المعارف الاسلامیه: یہ کتاب عربی زبان میں اصول دین و مذہب کا ایک دورہ ہے اور عقلی روش کے مطابق ہے اور شائع ہو چکی ہے۔
۱. روشنی و شخصیت؛
۲. سیری در تاریخ حدیث؛
۳. سازندگی محیط؛
۴. روانشناسی اسلامی؛
۵. علم النفس الاسلامی (ترجمه روانشناسی اسلامی)؛
۶. شرح و تفسیر قانون اساسی؛
۷. حسین بن علی را بهتر بشناسیم: یہ کتاب انقلاب سے قبل تالیف کی گئی۔ اس کا موضوع قیام عاشورا اور امام حسینؑ کی تحریک کی تحلیل ہے۔ اس کتاب میں عزاداری اور ذکر مصیبت منعقد کرنے کی کیفیت کے بارے میں ضعیف نقاط کو بیان کیا گیا ہے اور استدلالی طور پر ان کا جائزہ لیا گیا ہے۔ ان کی تحلیل کے ضمن میں راہ حل بھی پیش کیا گیا ہے۔
قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ اس کتاب مین صدر اسلام کے واقعات کی محمد رضا شاہ پہلوی کی حکومت کے حالات کے ساتھ تطبیق کی گئی ہے۔ اس لیے پہلے ایڈیشن کے بعد جب اس کا عوام اور مفکرین کی جانب سے استقبال دیکھنے کو ملا؛ اس پر ساواک کی طرف سے پابندی عائد کر کے ضبط کر لیا گیا۔
آیت الله یزدی نے مذکورہ کتابوں کے علاوہ بہت سے مقالات و رسائل بھی تحریر کیے ہیں کہ جن میں سے زیادہ تر ملکی مجلات جیسے مجلہ نور علم میں زیور طبع سے آراستہ ہوئے ہیں۔
[ترمیم]
جامعہ مدرسین اور مجلس خبرگان رہبری کے سربراہ آیت اللہ شیخ محمد یزدی، آخر کار عرصہ دراز تک علمی و سیاسی جہاد انجام دینے کے بعد ۱۹ آذر ۱۳۹۹ شمسی بمطابق ۹ دسمبر ۲۰۲۰ء کو ۸۹ سال کی عمر میں انتقال فرما گئے اور قم شہر میں
حضرت معصومہؑ کے حرم میں سپرد خاک ہوئے۔۔
[ترمیم]
[ترمیم]
سایت فرهیختگان تمدن شیعہ، ماخوذ از مقالہ«محمد یزدی»، تاریخ نظرثانی ۱۳۹۹/۴/۲۵