تفسیر قرآن میں روایات کا کردار

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



قرآن کریم کی آیات کے بعد،معصومینؑ کی راویات، تفسیرکا اہم ترین منبع شمار ہوتی ہیں۔


صدر اسلام میں تفسیری روایات

[ترمیم]

معصومؑ کا کلام، قرآن کی توضیح اور تبیین کا سرچشمہ ہونے کی بحث ،نزولِ قرآن کے زمانے میں ہی شروع ہوئی تھی،لہذا اللہ نے اپنے رسول حضرت محمّد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو بطور شارح ومبینِ قرآن متعارف کروایا۔ارشاد باری تعالی ہے: وانزلنا الیک الذکر لتبین للناس ما نزل الیهم ولعلهم یتفکرون (اے رسول) آپ پر بھی ہم نے قرآن اس لیے نازل کیا ہے تاکہ آپ لوگوں کیلئے وہ باتیں کھول کر بتا دیں جو ان کے لیے نازل کی گئی ہیں اور شاید وہ (ان میں) غور کریں۔
اس بنا پر رسولِ خداؐ کے ہم عصر لوگ، آپؐ ہی سے قرآنی آیات کی تفسیر، اس کے مجمل و مقیّد اور عام خاص کی وضاحت ،دریافت کرتے تھے اور آپ ؐ کے بیانات کو بغیر کسی تشویش کے قبول کرتے تھے۔آپؐ کی رحلت کے بعد صحابہ بھی قرآن کی تفسیر میں آپؐ کے فرامین سے استناد کرتے تھے۔ بعد میں آنے والے مفسرین اور علوم قرآن کے ماہرین نے بھی روایات کو تفسیرِ قرآن کا ایک منبع ہونے کی حیثیت سے قبول کیا ہے۔
[۴] طبری، ابوجعفر، محمد بن جریر، جامع البیان، ج۱، ص۲۵ ـ ۲۶۔
[۵] طبری، ابوجعفر، محمد بن جریر، جامع البیان ، ج۱، ص۳۲۔
اور بعض مسلمان علماء اس بات کے قائل ہیں کہ قرآن کریم کی تفسیر کا ایک ہی قابل ِ اعتماد ذریعہ ہے اور وہ روایات ہیں۔

تفسیری روایات کی اقسام

[ترمیم]

معصومینؑ سے منقول، دیگر روایات کی طرح، تفسیری روایات بھی مختلف مواقع اور مناسبات میں صادر ہوئی ہیں لہذا معصومینؑ سے صدورِ روایات کے اسباب کے بارے میں آگأہی حاصل کرنا نہایت ضروری ہے؛کیونکہ اہل بیتؑ بعض اوقات کسی کے جواب میں حدیث ارشاد فرماتے تھے؛کبھی خود قرآن کی کسی آیت سے استدلال اور احتجاج کے وقت بیان فرماتے؛ کبھی کھبار قرآن کے کسی مشکل لفظ کی وضاحت فرماتے؛اور بعض مواقع پر آیات کے باطنی معنی کو بھی بیان فرماتے۔لہذا تفسیر اور قرآن فہمی میں غلطی اور لغزش سے بچنے کیلئے ضروری ہے کہ روایات کے ذریعے تفسیر سے قبل، اسبابِ ورد حدیث کی معرفت اور شناخت حاصل ہوجائے۔
اس اعتبار سے مذکورہ نکتے کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے کہ روایی تفاسیر کے مؤلفین نے اپنی کتب میں حدیث کی ذکرشدہ اقسام میں کوئی فرق بیان نہیں کیا،اور بعض روایات کے متون کے حوالے سے تو سرے سے کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔

روایات اور الفاظ کے معانی

[ترمیم]

قرآن فہمی اور تفسیر کا پہلا مرحلہ،مفردات سے آشنائی کا ہے اور قرآنی الفاظ ومعانی میں اہم بات یہ ہے کہ قرآنی الفاظ کے ان معانی سے آگاہی حاصل کی جائے جو زمانہ نزول میں مقصود ہوتے تھے،اس سلسلے میں اہم ترین ذریعہ وہ روایات ہیں جو نزول قرآن کے زمانے یا اس کے کچھ عرصہ بعد، معصومینؑ سے صادر ہوئی ہیں۔انہی روایات میں سے بعض کا یہاں تذکرہ کیا جاتا ہے۔

← منخنقہ، موقوذه، متردیہ اور نطیحہ کے معنی


سورہ مائدہ کی تیسری آیت میں مذکور مفردات منخنقہ ،متردیہ،نطیحہ اور موقوذہ کی وضاحت کے سلسلے میں،عبد العظیم حسنی نے امام جوادؑ سے ایک روایات نقل کی ہے جس میں فرمایا ہے: کہ منخنقہ اس حیوان کو کہا جاتا ہےجو گلا گھٹ کر مرجائے؛موقوذہ وہ حیوان ہے جسےکوئی بیماری موت کے گھاٹ اتار دے؛ متردیہ بلند جگہ پہاڑ وغیرہ سے گر کر مرنے والے جانور کو کہتے ہیں اور نطیحہ وہ حیوان ہے جو دوسرے حیوان کے سینگ لگنے سے مرجائے۔

← روایات میں سحت کے مصادیق


لغوی لحاظ سے سحت کے معنی نابود ہونے، تباہ ہونے، اور ختم ہونے کے ہیں اور روایات معصومینؑ میں سحت کے مختلف مصادیق بیان کیے گئے ہیں۔امام صادقؑ کے واسطے سے امیر المؤمنین ؑ سے منقول ایک روایت میں مندرجہ ذیل چیزوں کو سحت کے مصادیق میں سے قرار دیا ہے: وہ رقم جو مردار اور کتے کے عوض لی جاتی ہے،وہ رقم جو بدکار اور فاحشہ عورت کو دی جاتی ہے، قاضی قضاوت اور فیصلوں کے دوران جو رشوت وصول کرلیتا ہےاورکاہن اور جادوگر کا معاوضہ۔

← تضرّع کے معنی


سورہ مؤمنون کی آیت ۷۴ میں وارد کلمہ تضرع و ما یتضرعون کے بارے میں امام صادقؑ سے مروی ہے کہ تضرع کےمعنی ہاتھوں کو بلند کرنے کے ہیں؛ اسی آیت کے بارے میں آپؑ ہی سے منقول ایک اور راویت میں وارد ہے کہ استکانت کے دعا اور تضرع کے معنی نماز میں ہاتھوں کو بلند کرنے کے ہیں۔

← قرآن میں کفر کی اقسام


امام صادق علیہ السلام نے ایک روایت میں ،قرآن میں مذکور کفر کے مختلف استعمالات کی تفصیل بیان فرمائی ہے:

←← انکار


۱- کفر بمعنی انکار، اس کی دو قسمیں ہیں:
أ- ربوبیت کا انکار، جیساکہ سورہ بقرہ کی چھٹی آیت میں ارشاد ہے:ان الذین کفروا سواء علیهم ءانذرتهم‌ام لم تنذرهم لا یؤمنون
ب-واضح حقیقت کا انکار، سورہ بقرہ کی آیت ۹۸ میں ارشاد ہے: فلما جاءهم ما عرفوا کفروا به

←← کفرانِ نعمت


سورہ نمل کی آیت۴۰ میں کفر بمعنی کفرانِ نعمت استعمال ہوا ہے: هذا من فضل ربی لیبلونی ااشکر‌ام اکفر اور اسی طرح سورہ بقرہ میں ارشاد ہے: فاذکرونی اذکرکم واشکروا لی ولا تکفرون

←← اللہ کے حکم پر عمل نہ کرنا


سورہ بقرہ کی آیت ۸۵ میں کفر، اللہ کے احکامات پر عمل نہ کرنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے: افتؤمنون ببعض الکتاب وتکفرون ببعض...

←← برائت اور بیزاری


قرآن کریم میں کفر برائت اور بیزاری کے معنی میں بھی استعمال ہواہے، جیسے: کفرنا بکم وبدا بیننا وبینکم العداوة والبغضاء ابدا حتی تؤمنوا بالله وحده ،ایک اور مقام پر ارشاد ہے: ... و ثم یوم القیامة یکفر بعضکم ببعض ویلعن بعضکم بعضا.

مفہومِ آیت بیان کرنی والی روایات

[ترمیم]

اس نوع کی روایات میں آیات کی تفسیر اور تشریح بیان ہوتی ہے جوکہ آیت کو سمجھنے میں ممدومعاون ثابت ہوتی ہیں۔ان روایات میں سے بعض کو بطور مثال یہاں ذکر کیا جاتا ہے:

← عبد اللہ بن سنان کی روایت


عبد اللہ بن سنان نے امام صادقؑ سے روایت کی ہے کہ آپؑ نے سورہ حج کی آیت ۳۶ فاذکروا اسم الله علیها صواف فاذا وجبت جنوبها... کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ: یہ اونٹ کے نحر کے وقت اللہ نام لینا) اس وقت ہوتا ہے جب اونٹ کو نحر کرنے کیلئے کھڑا کردیا جاتا ہے اور اس کی ٹانگیں باندھ دیے جاتے ہیں اور وجبت جنوبها» سے وہ وقت مراد ہے جب اونٹ زمین پر گر جائے

← ایک اور روایت


امام صادق علیہ السلام سےلا اقسم بهذا البلد وانت حل بهذا البلد کی تفسیر کے بارے میں مروی ہےکہ قریش مکہ کی عظمت واحترام کےقائل تھے، لیکن رسولِ خداؐ کی ہتک ِ حرمت کرتے تھے؛لہذا خدا نے فرمایا: کہ اس سر زمین کی قسم نہیں جس میں تیری بے حرمتی ہوتی ہے۔اللہ تعالی کا مقصود یہ ہے کہ اس سرزمین میں تیری حرمت باقی نہیں رہی، تجھے جھٹلایا گیا، اور سب وشتم کیا گیا؛ حالانکہ اس سرزمین آپؐ کے علاوہ سب کو عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا حتی کہ کوئی شخص اس سرزمین میں اپنے باپ کے قاتل کا بھی مؤاخذہ نہیں کرتا تھا اور حرم کے درخت کا اس قدر احترام ہوتا تھا کہ اسے بطورِ شفاء استعمال کرتے تھے، لیکن رسول اللہؐ کی حرمت کے قائل نہیں تھے جس کی وجہ سے خداوند متعال نے انہیں سرزنش کیا۔

← امام باقرؑکی روایت


روایت میں وارد ہوا ہے کہ عمروبن عبید امام باقرؑ کا امتحان لینے کیلئے آپؑ کی خدمت میں حاضر ہوا، اور امام سے مخاطب ہوکر کہا: میں تجھ پر قربان ہوجاؤں! اولم یر الذین کفروا ان السماوات والارض کانتا رتقا ففتقناهما کا مطلب کیا ہے؟ یہ رتق اور فتق کیا ہے؟
امام باقرؑ نے اس کے جواب میں فرمایا: یعنی آسمان بند تھا؛بارش نہیں ہوتی تھی اور زمین بند تھی کوئی پودا نہیں اگاتی تھی۔ عمروبن عبید نے ایک اور سؤال پوچھتے ہوئے کہا کہ میری جان تجھ پر فدا ہو! اللہ کی اس آیت ومن یحلل علیه غضبی فقد هوی میں غضب خدا سے کیا مراد ہے؟ امام نے فرمایا:غضبِ خدا سے اس کا عذاب مراد ہے۔اے عمرو!جو شخص یہ گمان کرے کہ کوئی چیز خدا کو ئی متغیر کرتی ہے اس نے درحقیقت کفر کیا۔

بطونِ آیات بیان کرنے والی روایات

[ترمیم]

اس قسم کی روایات میں، ایسے معانی اور مصادیق بیان کیے جاتے ہیں جو بظاہر آیت کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتیں یا وہ ایسے مفاہیم اور مصادیق ہوتے ہیں جو صدورِ روایات کے زمانے میں موجود نہیں تھیں لیکن چونکہ آیت اور کلامِ معصوم میں ایک خاص ارتباط پایا جاتا ہے اسلئے بیانِ معصومؑ کو آیت کے اوپر منطبق کیا جاتاہ ہے۔لیکن اس انطباق کا مطلب،آیت کے ظاہری مصداق کی نفی ہرگز نہیں اور اس بات کی دلیل یہ ہے کہ بعض روایات میں آیات کے ظاہری اور باطنی مصادیق ایک ساتھ بیان ہوئے ہیں۔
یہاں مذکور روایات کے تین نمونے ذکر کیے جاتے ہیں:

← عبد اللہ بن سنان کی روایت


عبد اللہ بن سنان ذریح محاربی سے نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں :میں نے امام صادقؑ سے عرض کیا:کہ خداوند متعال نے اپنی کتاب مجھے ایک حکم دیا ہے میں اس کا مطلب جاننا چاہتا ہوں۔امام نے فرمایا: وہ کیا ہے؟ میں نے کہا وہ قرآن کی آیت ثم لیقضوا تفثهم ولیوفوا نذورهم امامؑ نے فرمایا: اس کے معنی مونچوں اور ناخن وغیرہ کو کاٹنے کے ہیں؛ میں نے کہا: میں تجھ پر قربان جاؤں! ذریح تو آپ کا حوالے دیکر کہتے ہیں کہ آپ نے انہیں مذکورہ آیت کے بارے میں فرمایا ہے کہ ثم لیقضوا تفثهم کے معنی امام سے ملاقات و لیوفوا نذورهم»سے مراد مناسک کو انجاد دینا ہے؟ امام نے فرمایا: ذریح درست کہتے ہیں اور تم بھی سچ کہتے ہو؛ بے شک قرآن کا ظاہر اور باطن ہے اور ذریح سے بڑھ کر کون ہے جو ان (معانی) کو تحمل کرے؟


← داوود جصاص کی روایت


داوود جصاص سے ایک روایت منقول ہے جس میں وہ کہتا ہے کہ میں نے امام صادقؑ کو فرماتے ہوئے سنا ہےکہ :آیت وعلامات وبالنجم هم یهتدون میں نجم، رسول خداؐ ہیں اور علامات ائمہؑ‌ ہیں۔

←← وضاحت


یہ بات واضح ہے کہ مذکورہ روایت میں امامؑ نے آیت کا باطنی معنی بیان فرمایا ہے؛یعنی اہل بیت عصمت وطہارت لوگوں کو ضلالت وگمراہی کی ظلمتوں اور تاریکیوں سےنکال کر نور اور ہدایت کی طرف رہنمائی فرماتے ہیں؛ کیونکہ آیت کا ظہور،ان ستاروں کے بارے میں ہے جن کے ذریعے لوگ بیابانوں اور سمندروں میں رہنمائی حاصل کرتے ہیں ؛ یہی ظاہری معنی ایک اور روایت میں بھی وارد ہوا ہے۔
=

← ایک اور روایت

=
امام صادقؑ اپنے اباء واجداد کے ذریعے رسول اللہؐ سے نقل فرماتے ہیں کہ:وبالنجم هم یهتدون سے مراد ستاره جدی ہے؛کیونکہ وہ ایسا ستارہ ہے جو غروب نہیں ہوتا؛ قبلہ کی بنا اسی پر ہےاور خشکی اور سمندروں والے اس کے ذریعے رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔

←← ایک اور نمونہ


حادثه پیروزی بنی‌اسرائیل بر فرعونیان و وراثت زمین که مورد نزول آیه شریفه ونرید ان نمن علی الذین استضعفوا فی الارض ونجعلهم ائمة ونجعلهم الوارثین ونمکن لهم فی الارض ونری فرعون وهامان وجنودهما منهم ما کانوا یحذرون کا ظہور بنی اسرائیل کی فرعونیوں پر فتح اور زمین کی وراثت کے میں ہوتا ہے »، یعنی آیت کا ظاہر اس واقعہ کو بیان کرتا ہے جس میں اللہ تعالی نے فرعون و ہامان اور ان کے لشکر کو ہلاک کیا اور مؤمنین اور مستضعفین کو سرزمین مصر کا وارث بنا دیا۔لیکن بعض روایات میں مذکورہ آیت کی یوں تأویل بیان کی گئی ہے کہ اس سے مرادمستضعفینِ ال محمدؐ ہیں جنہیں اللہ تعالی امام مہدیؑ کے ذریعے غلبہ ونصرت عطا کرے اور ان کے دشمنوں کو ذلیل وخوار فرمائےگا۔
بعض روایات میں اس مطلب کو صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ مذکورہ آیت کی تنزیل بنی اسرائیل کے بارے میں ہے اور اس کی تأویل اہل بیتؑ کے بارے میں ہے۔

تفسیری روایات کے متون پر ایک نظر

[ترمیم]

قرآنی آیات کی تفسیر،تأویل اور بطون بیان کرنے والی روایات، مختلف شیعہ اور سنی کتب میں پراگندہ صورت میں موجود ہیں،جیسے اہل سنت کی صحاح ستہ، کنزالعمال اور مستدرک علی الصحیحین وغیرہ۔اسی طرح شیعہ کتب حدیث جیسے کتب اربعہ اور بحار الأنوار وغیرہ؛ لہذا قرآنی محقق کےلیے ضروری ہے کہ تفسیری روایات کی تحقیق کے دوران مذکورہ مصادر اور جوامع کو مد نظر رکھے۔
مذکورہ جوامع حدیثی کے علاوہ، بعض علماء نے تفسیری روایات کو یکجا کرنے کی کوشش کی ہے اور انہوں نے اس سلسلے میں باقاعدہ کتب تالیف کی ہیں جوکہ ہماری دسترس میں ہیں۔ اہل سنت کی مشہور ترین کتبِ تفسیر میں سے الدر المنثور فی التفسیر بالمأثورجلال الدین سیوطی کی ہے، اور ان سے پہلے جامع البیان عن تأویل آی القرآن محمد بن جریر طبری کی تحریر کردہ ہے۔
شیعہ روایی تفاسیر کے اہم ترین مجموعے، تفسیر علی بن ابراہیم قمی، تفسیر عیاشی، تفسیر فرات کوفی، تفسیر نعمانی، تفسیر نور الثقلین اور البرہان فی تفسیر القرآن ہیں۔

ایک اہم نکتہ

[ترمیم]

ایک اہم نکتہ یہاں ذکر کرنا ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ مفسّر کو مذکورہ تفاسیر کے اصلی منابع سے غفلت نہیں کرنی چاہیے؛ کیونکہ اکثر تفاسیر، تحقیق اور تصحیح شدہ صورت میں دستیاب ہیں۔

آخری اہم ترین نکتہ

[ترمیم]

اس نکتے کی طرف توجہ ضروری ہے کہ قرآن کریم کی سب آیات کے ذیل میں روایات وارد نہیں ہوئی ہیں، اور جو تفسیری روایات کا ذخیرہ موجود ہے اس کا بھی ایک بہت بڑا حصہ، اسناد کے غیر معتبر ہونے کی بنا پر، تفسیر کا منبع قرار نہیں دیا جاسکتا۔اس بنا پر یہ اعتقاد رکھنا کہ قرآن فہمی اور تفسیر رسول خداؐ اور اہل بیتؑ کے بیانات کے بغیر جائز نہیں ہے، دعوی بلا دلیل اور گمانِ باطل ہے۔اسی طرح صحابہ اور تابعین کے اقوال بھی روایات اور سنت میں سے شمار نہیں ہوتے اور اور نہ ہی ان کے ذریعےسے قرآن کی تفسیر کی جاسکتی ہے۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. نحل/سوره۱۶، آیه۴۴۔    
۲. ذهبی، محمدحسین، التفسیر و المفسرون، ج۱، ص۳۷۔    
۳. شیخ طوسی، محمد بن حسن، تفسیر التبیان، ج۱، ص۶ ۷۔    
۴. طبری، ابوجعفر، محمد بن جریر، جامع البیان، ج۱، ص۲۵ ـ ۲۶۔
۵. طبری، ابوجعفر، محمد بن جریر، جامع البیان ، ج۱، ص۳۲۔
۶. مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۶۵، ص۱۴۷۔    
۷. مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۱۰۳، ص۴۲۔    
۸. مؤمنون/سوره۲۳، آیه۷۶۔    
۹. مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۹۳، ص۳۳۷۔    
۱۰. حویزی، عبد علی بن جمعه، تفسیر نور الثقلین، ج۳، ص۵۴۹۔    
۱۱. بقره/سوره۲، آیت۶۔    
۱۲. بقره/سوره۲، آیت۸۹۔    
۱۳. نمل/سوره۲۷، آیت۴۰۔    
۱۴. بقره/سوره۲، آیت۱۵۲۔    
۱۵. بقره/سوره۲، آیت۸۵۔    
۱۶. ممتحنہ/سوره۶۰، آیت۴۔    
۱۷. عنکبوت/سوره۲۹، آیت۲۵۔    
۱۸. حج/سوره۲۲، آیه۳۶۔    
۱۹. مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۶۵، ص۳۰۱۔    
۲۰. بلد/سوره۹۰، آیه۱ ۲۔    
۲۱. مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۲۴، ص۲۸۴۔    
۲۲. انبیاء/سوره۲۱، آیت۳۰۔    
۲۳. طه/سوره۲۰، آیت۸۱۔    
۲۴. مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۴، ص۶۷۔    
۲۵. حج/سوره۲۲، آیه۲۹۔    
۲۶. مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۹۹، ص۳۱۸۔    
۲۷. نحل/سوره۱۶، آیه۱۶۔    
۲۸. مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۱۶، ص۸۸۔    
۲۹. مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۸۴، ص۶۶۔    
۳۰. قصص/سوره۲۸، آیه۵ ۶۔    
۳۱. مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۵۱، ص۵۴۔    
۳۲. مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۵۱، ص۵۴۔    
۳۳. مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۵۳، ص۲۶۔    


مأخذ

[ترمیم]

سایٹ اندیشہ قم، مأخوذ از مقالہ تفسیر میں رویات کا کردار»، تاریخ بازیابی ۱۳۹۴/۱۲/۱۷۔    


اس صفحے کے زمرہ جات : مقالات اندیشہ قم




جعبه ابزار