حدیث و سنّت

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



‌عربی لغت کے لحاظ سے،حدیث قدیم کی ضد ہے جس کے معنی جدید اور نئی چیز کے ہیں۔
[۱] لسان العرب، ابن منظور، ج۱، ص۵۸۲۔
چاہے وہ فعل ہو یا قول۔ علمِ حدیث کی اصطلاح میں حدیث اس کلام کو کہا جاتاہے جو اقوال، افعال یا ِاحوالِ معصومؑ کی حکایت کرے، حدیث کو خبر،سنت اور روایت سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔شیخ بہائیؒ کے قول کے مطابق شیعہ مذہب میں غیر معصوم کے اقوال، افعال اور احوال پر بھی حدیث کا اطلاق ہوسکتا ہے۔
[۲] الوجیزه، لبرہان الحق جمال الملہ بہاءالدین العاملی، ص۱۔

اہل سنّت کے نزدیک، حدیث اورسنّت ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں۔ کیونکہ رسول خداؐ سے منسوب تمام اقوال، افعال، احوال اور صفات کو حدیث یا سنت سے تعبیر کرتے ہیں۔ بعض نے حدیث میں (نیا پن اور جدیدیت) کے معنی کو مدّنظر رکھتے ہوئے اسے قدیم کے مدِّ مقابل قرار دیا ہے۔ان کے نزدیک قدیم سے مراد، اللہ کی کتاب قرآن ہے اور جدید سے مراد وہ چیزیں ہیں جن کی نسبت رسولِ خداؐ کی طرف دی جاتی ہے۔
[۳] شرح البخاری، شیخ الاسلام ابن حجر۔
[۴] تدریب الراوی فی شرح «تقریب» النداوی،السیوطی، طبع مصر، ۱۳۰۷هـ، ص۴۔
[۵] علوم الحدیث ومصطلحه، ڈاکٹرصبحی صالح، ص۵۔

سنت کا لفظ اس کے لغوی معنی کو مد نظر رکھتے ہوئے پیغمبر خدا ص کی سیرت طیبہ میں سرانجام شدہ دینی طور طریقوں پر اطلاق آتا ہے، اس بنیاد پر اگر حدیث اس طرح سے عام ہو کہ پیغمبر خدا کے قول و فعل کی حکایت کرے تو وہ پیغمبر ہی سے مخصوص اعمال کی سنت ہے۔ ہم کسی عمل پر پیغمبر ص کی رضامندی اور موافقت کو کبھی قرآن، اجماع اور عقل سے ثابت کرسکتے ہیں اور کبھی اطمینان بخش روایات اور نقل کی روشنی میں پیغمبر ص کی کسی عمل اور فعل کی تائید کو ثابت کرسکتے ہیں۔
ہم یہاں احادیث پر عمل کرنے کے مبانی کے سلسلے میں ان احادیث کو موضوع بحث قررار دیتے ہیں جن احادیث کو پیغمبر خدا سے منقول اور مروی ہونے کے اعتبار سے دیکھا جاتا ہے تاکہ شیعہ اور اہل سنت مذھب میں حدیث کی حکایتی پہلو کے بارے میں موجود شرایط پر بحث کی جاسکے۔
عربی لغت کے لحاظ سے سنت متعدد معانی میں استعمال ہوتی ہے،جیسے طریقہ، عادت،رواج اور قانون وغیرہ۔ یہ جملہ اصل مقالہ میں موجود نہیں۔ اصل مقالہ میں یہ جملے موجود نہیں ہیں یہ جملہ پہلے والے جملات سے مربوط نہیں۔


اثباتِ حدیث کے دلائل

[ترمیم]

سنّت اور حدیث کو، فقط دو چیزوں کے ذریعے اثبات کیا جاسکتاہے:خبرمتواتر اور خبرواحد۔خبرمتواتر ، ایسی حدیث کو کہتے ہیں جس کے بیان کرنے والوں کی تعداد اتنی کثیر ہو کہ ان کا آپس میں جھوٹ پر اتفاق کرلینا عادتا محال ہو بشرطیکہ یہ حالت تمام طبقات میں موجود ہو۔ یعنی طبقہ اول کے راویوں، جنہوں نے صاحب سنت یعنی پیغمبر خدا سے مطلوبہ سنت کو نقل کیا ہے، میں بھی کثرت ہونی چاہیے، اسی طرح دوسرے اور تیسرے طبقہ کے راویوں میں بھی اتنی ہی کثرت ہونی چاہیے۔(یہ جملے اصل مقالہ میں موجود تھے لیکن ترجمہ نہیں کیا گیا تھا)
تمام علمائے حدیث کا اتفاق ہے کہ متواتر خبر کو نقل کرنے والوں میں عدالت شرط نہیں ہے؛اسی طرح شیعہ اور اکثر اہل سنّت علماء کے نزدیک، خبر متواتر میں روایوں کی کوئی خاص تعداد بھی مقرر نہیں ہے؛ البتہ بعض اہل سنّت علماءنے ، تواتر میں ایک خاص عدد کا تعین کیا ہے؛لہذا قاضی ابو بکر کے نزدیک وہ خبر متواتر ہے جس کے راوی کم سے کم پانچ اور اصطخری کے نزدیک کم از کم دس ہونا ضروری ہے، بعض نے بارہ افراد(نقباء بنی اسرائیل کی تعداد کے مطابق)،کچھ نے کم از کم بیس افراد، بعضوں نے چالیس افراد،بعض نے ستر اور چند ایک علماء نےکم ازکم تین سو سے زیادہ (اصحابِ بدرکی تعداد) کی شرط لگائی ہے۔شہید ثانیؒ نے اپنی کتاب البدایۃ میں مذکورہ تمام اقوال کو باطل قرار دیا ہے۔
[۶] ضیاءالدرایۃ للسید ضیاءالدین العلامۃ، چاپ حكمت قم، ص۱۸-و۱۹، بی تا۔
اسی طرح ابن حجر عسقلانی نے شرح نخبہ میں، خبر تواتر میں عدد کے تعین کو بے معنی قرار دیا ہے۔
[۷] علوم الحدیث و مصطلحه، الدكتور صبحی الصالح، ص۱۴۷-۱۴۸۔

بلکہ تواتر میں اہم نکتہ یہ ہے کہ اس سے ہمیں، راویوں کا جھوٹ پر متفق نہ ہونے کا یقین حاصل ہوجائے اور یہی چیز ہمارے لیے مفید علم ہو؛ یعنی تواتر ایسی حالت ہے کہ اگر کوئی عام شخص اس کے بارے میں مطلع ہوجائے تو اس کو سنّت اور حدیث ہونے کے بارے میں قطع اور یقین حاصل ہو جائے۔
خبرواحد علمائے حدیث کی اصطلاح میں ایسی خبر کوکہتے ہیں جو تواتر کی حد کو نہ پہنچے، چاہے اس کو نقل کرنے والے راوی ایک ہو یا اس سے زیادہ ہو؛ اور خبرواحد میں واحد متعدد کے مقابلے میں نہیں ہے بلکہ واحد سے مراد، عدمِ تواتر ہے۔بالفاظِ دیگر، خبر متواتر بشرط شئی ہے یعنی خبر متواتر میں تواتر کا ہونا شرط ہے اور خبر واحد بشرطِ لا ہے یعنی بشرطِ عدم تواتر، اور خبر لابشرط ہے؛ یعنی اس میں نہ تواتر شرط ہے اور نہ عدمِ تواتر۔اسی بناء پر خبر مستفیض اور خبر مشہور کو خبر واحد کی اقسام مٰن سے تصور کیا جاتا ہے ۔
[۸] مقالہ شیخ محمدجواد مغنیہ، «العمل بالحدیث وشروطہ عند الامامیہ»، در مجموعه مقالات «الوحده الاسلامیه»، جمع و ترتیب عبدالكریم بی آزار الشیرازی، بیروت، الاعلمی، ص۳۲۶۔
شیخ بہائیؒ اپنی کتاب الوجیزہ میں لکھتے ہیں:اگر راویوں کی تعداد ہر طبقہ میں اس قدر ہو کہ ان کا جھوٹ پر اتفاق اور سازباز کرنے کا خوف نہ ہو تو یہ متواتر حدیث کہلائے گی؛ یعنی متواتر حدیث ایسی خبر ہے جو بذات خود قطع اور یقین کا فائدہ دےبصورت دیگر وہ خبرآحاد شمار ہوگی کہ جو صرف ظن اور گمان کا فائدہ دیتی ہے۔اگر ہر طبقہ میں راویوں کی تعداد تین سے زیادہ (اور یقین کا فائدہ نہ دے) تو خبر مستفیض، اور اگر تین سے کم ہو تو خبر غریب کہلائے گی۔
[۹] الوجیزه، شیخ بهایی، ص۲۔

خبر مشہور اس روایت کو کہا جاتا ہے جو زبان زدِ عام وخاص ہو اور احادیث کی کتابوں میں مشہور ہوگئی ہو اگرچہ اس کو نقل کرنے والا ایک شخص ہو۔

حدیث پر عمل کرنے کی بنیاد

[ترمیم]

ہر وہ خبر جس کے صدورکا علم،داخلی یا خارجی قرائن کی رو سے ثابت ہو، وہ بلا شک وشبہ حجّت اور معتبر ہے اور اس پر عمل کیا جائے گا۔لیکن اس کا معتبر ہونا، شہرت ، استفاضہ یا تواتر کی وجہ سے نہیں ،بلکہ اس کے صدور کے بارے میں علم اور یقین کی بناء پر ہے؛کیونکہ علم اور یقین کی حجیّت ذاتی ہے ۔علماءحدیث کے مطابق «انما الاعمال بالنیات ولكل امری ما نوی» والی حدیث اس طرح کی احادیث کی ایک مثال ہے۔
گذشتہ مطالب سے یہ بات واضح ہوجاتی ہےکہ خبر متواتر اور خبر مقرون بالقرینہ، دونوں صدور کے حوالے سے قطع اور یقین کا فائدہ دیتی ہیں اور سب علماءکے نزدیک ،ایسی احادیث مقبول اور قابلِ اعتماد ہیں۔لیکن وہ خبر جو تواتر کی حد تک نہ پہنچےاور اس کے صدور کا علم بھی حاصل نہ ہو، اس کے بارے میں مختلف پہلوؤں سے بحث وتحقیق ہوتی ہے جن میں اہم ترین پہلو، اس خبر کا سلسلہ سند ، سلسلہ سند میں موجود راویوں کی شرایط اور اس کے صدور کا علم ہے جس کی بدولت، حدیث کو اس کے قائل یعنی پیغمبرؐ یا امامؑ کی طرف نسبت دی جاتی ہے؛ کیونکہ اسناد ہی کسی حدیث کی بنیاد اور اساس ہوتی ہے۔

حدیث کی تقسیم شیخ بہائی کی نظرمیں

[ترمیم]

شیخ بہائیؓ،حدیث کو سند کے اعتبار سے، مندرجہ ذیل چھ قسموں میں تقسیم کرتے ہیں:
۱-صحیح:اس حدیث کو کہا جاتا ہےجس کا سلسلہ سند ، امامی اور ان روایوں پر مشتمل ہو جن کی تعدیل کے ذریعے مدح کی گئی ہو۔تعدیل کے ذریعے مدح کے معنی یہ ہیں کہ کسی عادل شخص کی جانب سے ان کے لئے ثقہ، حجّت اور عینٌ جیسے الفاظ استعمال کئے گئے ہوں۔
۲-حسن:وہ حدیث جس کی سند میں موجود ایک روای شاذ ہو اور باقی سب یا بعض کی تعدیل وتوثیق ہوئی ہو، حسن کہلاتی ہے۔
۳-قوی: وہ حدیث ہے جس کے راوی مسکوت عنہ ہوں ۔یعنی ان کے بارے میں کسی قسم کی جرح یا تعدیل وارد نہ ہوئی ہو۔
۴-موثق:اس حدیث کو کہا جاتا ہے جس کی سندکے سب یا بعض راوی غیر امامی ہوں البتہ سب کی تعدیل ہوئی ہو ۔
۵-ضعیف: جس حدیث میں مذکورہ چار قسموں کی خصوصیات موجود نہ ہوں ضعیف کہلاتی ہے۔
۶-مقبول: مقبول وہی حدیثِ ضیعف ہے اس فرق کے ساتھ کہ اس کے مضمون پر عمل کرنا مشہور ہوچکا ہو۔
[۱۰] الوجیزه، شیخ بهایی، ص۳۔


سنی راویوں کے بارے میں شیعہ علماء کا نظریہ

[ترمیم]

شیعہ علماء میں سے بعض نے راوی حدیث کا امامی ہونا، شرط قرار دیا ہے ؛لیکن جیساکہ شیخ بہائی اور دیگر شیعہ محققین کی تقسیم بندی سے یہ بات واضح ہےکہ کسی بھی حدیث پر عمل کرنے میں بنیادی شرط ، اس کے راوی کی سچائی کے بارے میں وثوق اور اطیمنان کا حصول ہے، چاہے وہ امامی ہو یا غیر امامی ہو۔
علاّمہ حلی نے کتاب الخلاصہ میں اور قمی نے کتاب قوانین الاصول کے پہلے جزء میں اس مطلب کو صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے؛قمی کتاب قوانین الاصول میں رقمطراز ہیں:
ایسے افراد جو شیعہ نہیں ہیں لیکن ان کی توثیق ہوئی ہو ، ان کی روایات قابل قبول ہیں؛کیونکہ کسی بھی روایت کی صحت اس کے راوی کے بارے میں تحقیق سے ثابت ہوتی ہے۔پس جب یہ بات معلوم ہوجائے کہ فلاں راوی ، روایات کو نقل کرنے میں جھوٹ نہیں بولتا تو اس کی روایت مسلّم طور پر ثابت ہے۔
[۱۱] قوانین الاصول، قمّی، جزء اول۔

مامقانی نے اپنی کتاب تنقیح المقال میں تحریر کیا ہے:
امام علیہ السلام کی صریح حدیث کے مطابق ہمیں چاہیے کہ ہم غیر شیعہ(اہل سنت ) کی روایتوں کو قبول کریں لیکن اگر راوی نے اپنی رائے یا نظریہ پیش کیا تو اسے ٹھکرا دیں، اس بنیاد پر غیر امامی راوی اگر موثق ہو ہو تو اس پر عمل کرسکتے ہیں، علمائے حدیث کی اصطلاح میں ایسے شخص کو ثقہ کہا جاتا ہے۔
[۱۲] تنقیح المقال، الشیخ عبدالله المامقانی،ج۱، ص۲۰۶۔

شیخ انصاری اپنی کتاب رسائل میں لکھتےہیں:
امام صادقؑ سے روایت ہے : «خذوا ما رووا،وذروا ما رأوا» یعنی جو وہ (مخالفین ) روایت کرتے ہیں انہیں قبول کرو اور ان کے آراء کو ترک کرو۔
اس کے بعد شیخ انصاری کہتے ہیں:
متواتر روایات سے ثابت ہے کہ ان روایات کو قبول کرنا چاہیے جن کے صدور کے بارے میں اطمینان حاصل ہوتا ہے، متواتر روایات سے ثابت ہے۔
[۱۳] الرسائل، شیخ انصاری، بحث خبر واحد۔

سید محمد تقی حکیم اپنی کتاب الاصول العامہ میں یوں تحریر کرتے ہیں:
شیعہ مذہب کے مطابق ان لوگوں کی روایات جو عقیدے میں ان کے مخالف ہیں،حجّت اور معتبر ہیں بشرطیکہ ان کی روایت سے وثوق اور اطمینان حاصل ہو؛اور ایسے روایوں کی احادیث کو موثّقات سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ موثقات دوسری دیگر احادیث کی طرح حجّت ہیں اور شیعہ کتب اس قسم کی روایات سے بھری پڑی ہیں۔۔
[۱۴] الاصول العامہ، سید محمدتقی حكیم، چاپ اول،ص۲۱۹۔

امام خمینیؓ اس بارے میں دوسروں سے بڑھ کر، ان سنّی راویوں کی توثیق کو بھی ترجیح دیتے ہیں جن کے بارے میں کوئی خاص توثیق وارد نہیں ہوئی ہے جیسے سکونی اور نوفلی کہ جو امام صادقؑ کے اصحاب میں سے تھے۔
[۱۵] كتاب الطهاره، امام خمینی ره، چاپ قم، ج۲،ص۱۶۔

مذکورہ نظریے کا عملی نمونہ یہ ہے کہ شیعوں کے بزرگ علماء نے موثّق سنی روایوں کی احادیث کو اپنی کتب میں کثرت سے نقل کیا ہے ؛جیسے کتاب تفسیر الصافی، محجّۃ البیضاء فیض کاشانی، جامع السعادات نراقی، السوق فی الدولۃ الاسلامیہ علامہ سید جعفر مرتضی عاملی،تفسیر ابو الفتوح رازی، تفسیر مجمع البیان، تفسیر منہج الصادقین،شرح اللّمعۃ ، منیۃ المرید اور مسکّن الفؤاد شہید ثانی وغیرہ۔شیخ زین الدین، جو کہ شہید ثانی کے لقب سے مشہور ہیں کی ولادت ۹۱۱ق میں ہوئی؛ آپ نے شیعہ اور سنّی دونوں کے اساتید سے کسبِ فیض کیا اور آپ نے بعلبک کے مدرسہ نوریہ میں پانچ سال پانچ فقہی مذاہب کی تدریس کی ۔
[۱۶] مقدمہ كتاب: مسكّن الفؤاد، الشهید الثانی، تحقیق مؤسسه آل البیت، ۱۴۰۷هـ ق، ص۹ـ۱۰۔

علامہ محمد حسین طبا طبائی صحابہ کی احادیث کے بارےمیں یوں تحریر کرتے ہیں:
وہ احادیث جو صحابہ سے نقل ہوتی ہیں،اگر رسولِ خداؐ کے قول یا فعل پر مشتمل ہوں اور اہل بیتؑ کی حدیث کے برخلاف نہ ہوں ،قابل قبول ہیں؛اور اگران میں صحابی کی رائے کا بیان ہوتو وہ حجّت نہیں ہے ؛اور صحابہ کے آراء ونظریات کا حکم دیگر مسلمانوں کی طرح ہے،اور صحابہ خود بھی ایک دوسرے کے ساتھ(قول وفعل کو قبول کرنے میں) عام مسلمانوں کی طرح سلوک کرتے تھے۔
[۱۷] شیعه در اسلام، استاد علامہ سید محمدحسین طباطبایی، قم، ۱۳۸۹ق، ص۴۶۔


شیعہ راویوں کے بارے میں اہل سنّت کا نظریہ

[ترمیم]

اہل سنّت کے بعض متعصب افراد نے حدیث کے راوی میں یہ شرط لگأئی ہے کہ اس سے تشیّع کی بو بھی نہیں آنی چاہیے۔
[۱۸] فواتح الرحموت، المطبوع مع المستصفی، ج۲، ۱۴۰۷۔
لیکن اہل سنّت کے اکثر علماء اور محققین کا شیعہ روایوں کے بارے میں وہی نظریہ ہے جو بزرگ شیعہ علماء نے سنیّ روایوں کے بارے میں اپنایا ہے ۔ مثلاً فخررازی کہتے ہیں:کیا اس مسلمان کی روایت جو عقیدے کے لحاظ سے ہمارا مخالف ہو،مثلاً ان لوگوں کی روایت جو خدا کی جسمانیت کے قائل ہیں اور اسی وجہ سے ہم انہیں کافر قرار دیتے ہیں ، قابل قبول ہے یا نہیں؟۔درست بات یہ ہے کہ اگر ایسے لوگوں کے مذہب میں جھوٹ جائز ہو تو ان کی روایت قابل قبول نہیں ہے؛ لیکن اگر ان کا مذہب جھوٹ کو حرام قرار دیتا ہے تو اس صورت میں ان کی روایت قابل قبول ہےاور یہ ابو الحسن بصری کا قول ہے۔
[۱۹] مقالہ مرحوم شیخ محمد محمد مدنی، رئیس فقید دانشكده شریعت دانشگاه الازہر، درمجموعہ مقالات دارالتقریب: «الوحده الاسلامیہ»، جمع و ترتیب نویسنده، ص۳۶۲۔

طوفی حنبلی کہتے ہیں:اگر محدّث نقدِ حدیث اور اسے پرکھنے میں مہارت رکھتا ہو تو وہ ان اہل بدعت روایوں سے بھی روایات نقل کرسکتا ہے جو اپنے بدعت کی وجہ سے فاسق کہلاتے ہیں جیسے عباد بن یعقوب جو شیعوں کے درمیان غلو میں مشہور ہے اور حریز بن عثمان جو حضرت علیؑ سے بغض رکھتا تھا۔
[۲۰] مقالہ مرحوم شیخ محمد محمد مدنی، رئیس فقید دانشكده شریعت دانشگاه الازهر، درمجموعه مقالات دارالتقریب: «الوحده الاسلامیہ»، جمع و ترتیب نویسنده به نقل از: نزههالخاطر، الشیخ عبدالقادر احمدبن مصطفی بدران، ج۱، ص۲۸۱ به بعد۔

اہلِ اصول اور احمد بن حنبل وشافعی اس سلسلے میں قائل ہیں کہ روای کی جرح وتعدیل اس صورت میں قابل قبول ہے کہ اس کا سبب بیان نہ کیا گیا ہو؛ اور تعدیل یعنی کسی کو عادل قرار دینے میں عدالت کے سبب کو بیان کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ ان موارد میں شخص کی عدالت کا استصحاب کیا جاتا ہے۔ یہ اس بات کی نشاندہی ہے کہ ایک مسلمان کی حالت کو بحیثیت مسلمان عدالت پر حمل کیا جائے گا۔
[۲۱] مقالہ مرحوم شیخ محمد محمد مدنی، رئیس فقید دانشكده شریعت دانشگاه الازهر، درمجموعہ مقالات دارالتقریب: «الوحده الاسلامیہ»، جمع و ترتیب نویسنده ص۳۶۴۔


حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. لسان العرب، ابن منظور، ج۱، ص۵۸۲۔
۲. الوجیزه، لبرہان الحق جمال الملہ بہاءالدین العاملی، ص۱۔
۳. شرح البخاری، شیخ الاسلام ابن حجر۔
۴. تدریب الراوی فی شرح «تقریب» النداوی،السیوطی، طبع مصر، ۱۳۰۷هـ، ص۴۔
۵. علوم الحدیث ومصطلحه، ڈاکٹرصبحی صالح، ص۵۔
۶. ضیاءالدرایۃ للسید ضیاءالدین العلامۃ، چاپ حكمت قم، ص۱۸-و۱۹، بی تا۔
۷. علوم الحدیث و مصطلحه، الدكتور صبحی الصالح، ص۱۴۷-۱۴۸۔
۸. مقالہ شیخ محمدجواد مغنیہ، «العمل بالحدیث وشروطہ عند الامامیہ»، در مجموعه مقالات «الوحده الاسلامیه»، جمع و ترتیب عبدالكریم بی آزار الشیرازی، بیروت، الاعلمی، ص۳۲۶۔
۹. الوجیزه، شیخ بهایی، ص۲۔
۱۰. الوجیزه، شیخ بهایی، ص۳۔
۱۱. قوانین الاصول، قمّی، جزء اول۔
۱۲. تنقیح المقال، الشیخ عبدالله المامقانی،ج۱، ص۲۰۶۔
۱۳. الرسائل، شیخ انصاری، بحث خبر واحد۔
۱۴. الاصول العامہ، سید محمدتقی حكیم، چاپ اول،ص۲۱۹۔
۱۵. كتاب الطهاره، امام خمینی ره، چاپ قم، ج۲،ص۱۶۔
۱۶. مقدمہ كتاب: مسكّن الفؤاد، الشهید الثانی، تحقیق مؤسسه آل البیت، ۱۴۰۷هـ ق، ص۹ـ۱۰۔
۱۷. شیعه در اسلام، استاد علامہ سید محمدحسین طباطبایی، قم، ۱۳۸۹ق، ص۴۶۔
۱۸. فواتح الرحموت، المطبوع مع المستصفی، ج۲، ۱۴۰۷۔
۱۹. مقالہ مرحوم شیخ محمد محمد مدنی، رئیس فقید دانشكده شریعت دانشگاه الازہر، درمجموعہ مقالات دارالتقریب: «الوحده الاسلامیہ»، جمع و ترتیب نویسنده، ص۳۶۲۔
۲۰. مقالہ مرحوم شیخ محمد محمد مدنی، رئیس فقید دانشكده شریعت دانشگاه الازهر، درمجموعه مقالات دارالتقریب: «الوحده الاسلامیہ»، جمع و ترتیب نویسنده به نقل از: نزههالخاطر، الشیخ عبدالقادر احمدبن مصطفی بدران، ج۱، ص۲۸۱ به بعد۔
۲۱. مقالہ مرحوم شیخ محمد محمد مدنی، رئیس فقید دانشكده شریعت دانشگاه الازهر، درمجموعہ مقالات دارالتقریب: «الوحده الاسلامیہ»، جمع و ترتیب نویسنده ص۳۶۴۔


مأخذ

[ترمیم]

اندیشہ قم ویب سائٹ۔    


اس صفحے کے زمرہ جات : مقالات اندیشہ قم




جعبه ابزار