خبر واحد کی حجیّت
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
خبر واحد وہ ہے جو
تواتر کی حد تک نہ پہنچے اور اس کے بارے میں
علم اصول فقہ اور
علم درایہ میں بحث ہوتی ہے۔
[ترمیم]
معصومؑ سے منقول اس روایت کو خبر واحد کہتےہیں جو
تواتر کی حدّ تک نہ پہنچی ہو اور وہ بذات خود (قرائن سے ہٹ کر)
علم کا فائدہ نہ دے بلکہ مفید
ظنّ ہو، چاہے اسے نقل کرنے والا ایک ہو یا زیادہ۔
خبر واحد کی حجیت یعنی موضوعات اور احکام شرعی میں اس سے استدلال کرنا درست ہے۔
[ترمیم]
علمائے مسلمین میں اختلاف ہے کہ آیا خبر واحد قطعی قرینہ کے بغیر حجت ہے یا نہیں؟!
شیعہ علما کے درمیان اختلاف درحقیقت اس بات پر ہے کہ آیا خبر واحد کی حجیت پر کوئی قطعی دلیل موجود ہے یا نہیں؟! کیونکہ ان کے نزدیک خبر واحد ظنی ہوتی ہے اور ظن بذات خود حجت نہیں جب تک اس کی حجیت پر کوئی قطعی دلیل قائم نہ ہو جائے۔
[ترمیم]
خبر واحد کے قائل علماء جیسے
شیخ طوسیؒ و دیگر ۔۔۔ اس بات کے مدعی ہیں کہ خبر واحد کی حجیت پر قطعی دلیل موجود ہے اور یہ ظنِ خاص کے عنوان سے حجت ہے۔ مگر خبرِ واحد کی حجیت کا انکار کرنے والے علماء جیسے
سیدمرتضیؒ قائل ہیں کہ خبر واحد کی حجیت پر کوئی قطعی دلیل موجود نہیں ہے۔ کلی طور پر خبر واحد کی حجیت کے بارے میں تین نظریات پائے جاتے ہیں:
اخباری علماء اس بات کے قائل ہیں کہ مشہور کتب حدیث جیسے
کتب اربعہ اور
کامل الزیارات میں منقول احادیث، سب کی سب
مقطوع الصدور ہیں لہذا ان کتب کی روایات قطعی طور پر
حجت ہیں۔
بعض علماء جیسے
سید مرتضیٰ ،
سید ابن زہرہ،
علامہ طبرسی،
قاضی ابن براج اور
ابن ادریس بطور کلی قطعی قرائن کے بغیر خبر واحد کی حجیت کو ردّ کرتے ہیں۔ یہ بزرگان اپنے نظریے کو ثابت کرنے کیلئے بعض قرآنی آیات،
روایات اور
اجماع سے تمسک کرتے ہیں۔
مشہور
شیعہ فقہاء، ایسی خبر واحد جو قطعی قرائن سے خالی ہو؛ کو ظنِ خاص کے عنوان سے حجت مانتے ہیں۔ تاہم ان فقہاء کے درمیان جزوی اختلاف موجود ہے مثلا: بعض علماء، کتب اربعہ کی تمام روایات کو ظنِ خاص کے طور پر حجت مانتے ہیں اور کچھ علما جیسے
صاحب مناہج، کتبِ اربعہ کی شاذ اور غیر معروف روایات کو چھوڑ کر بقیہ کو حجت تصور کرتے ہیں۔ بعض دیگر جیسے
صاحب معارج الاصول، کتب اربعہ کی ان روایات کی حجیت کے قائل ہیں جن کے اوپر اصحاب نے عمل کیا ہو۔
[ترمیم]
سید احمد بن طاؤس سے پہلے علماء کے نزدیک، خبر واحد دو قسموں
معتبر اور غیر معتبر میں تقسیم ہوتی تھی۔سید ابن طاؤس پہلے شخص ہیں جنہوں نے، معصومینؑ سے منقول أحادیث کو چار اقسام یعنی
حدیث صحیح،
حدیث موثق،
حدیث حسن اور
حدیث ضعیف میں تقسیم کیا۔
بعض علماء نے، حدیث کی مذکورہ تقسیم کی علت ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ چونکہ زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ صحیح حدیث کو غیر صحیح سے تمیز دینے والے قرائن ناپید ہو گئے تھے نیز متأخرین کے زمانے میں حدیث کی بنیادی اور قدیم کتابیں (اصول) بھی زیادہ تر مفقود ہو گئی تھیں، لہذا متأخرین کے پاس، صحیح اور ضعیف احادیث میں فرق کرنے کیلئے ان کو مذکورہ چار اقسام میں تقسیم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا اور یہ تقسیم
سند اور
راوی کے حالات کو مدّنظر رکھتے ہوئے کی گئی ہے۔
احادیث کی مذکورہ چار قسمیں
اصول حدیث کہلاتی ہیں۔
علمِ درایۃ کے علماء نے ان چار اصلی اقسام کے علاوہ ، دیگر متعدد فرعی اقسام بھی ذکر کی ہیں جیسے
حدیثِ مسند،
حدیثِ مشہور،
حدیثِ منقطع،
حدیثِ غریب اور
حدیثِ موقوف وغیرہ۔
بعض علماء نے
خبر واحد کی ۳۰ اقسام بیان کی ہیں اور بعض دیگر نے ۴۵ قسموں میں تقسیم کیا ہے۔
[ترمیم]
خبر واحد جب قطعی قرائن کے ہمراہ ہو، جیسے
آیاتِ محکمات یا
سنتِ محکمہ یا
اجماع یا
دلیل عقل کی موافق ہو، تو ایسی صورت میں اس کی
حجیّت میں کوئی شک وشبہ اور اختلاف نہیں ہے اور اگر خبر واحد پر ایسا کوئی قرینہ موجود نہ ہو تو خواہ اس سے ظنِّ قوی حاصل ہو،پھر بھی اس کی حجیّت میں اختلاف ہے اور یہ اختلاف درحقیقت اس بات میں ہے کہ آیا خبر واحد کی حجیّت پر کوئی
قطعی دلیل موجود ہے یا نہیں؟ کیونکہ بذات خود ظنّ کی عدم حجیّت میں کوئی شک نہیں ہے مگر یہ کہ اس کی حجیّت پر قطعی دلیل قائم ہو جائے۔
بعض قدما، خبر واحد پر قطعی دلیل نہ ہونے کی بناء پر، اس کی حجّیت کو قبول نہیں کرتے تھے لیکن
ابن ادریس سے لے کر آج تک سب، خبر واحد کی حجیّت کے قائل ہیں۔ لہذا متأخرین، معاصرین اور بہت سارے قدما، خبرواحد کی حجّیت پر دلیل قطعی کی بنیاد پر ، اس کو حجّت قرار دیتے ہیں۔
[ترمیم]
خبرِواحد کی حجیّت کو دو مرحلوں میں زیرِ بحث لا یا جاتا ہے:
پہلے مرحلے میں، اس نظریے کے مقابلے میں خبر واحد کی حجیّت کو ثابت کیا جاتا ہے جو مطلقا خبر واحد کی حجیّت کو ردّ کرتا ہے۔ اس مقام پر خبرِ واحد کی حجیّت پر قرآنی آیات جیسے
آیتِ نباء ،
آیتِ نفر،
روایات،
اجماع اور
سیرتِ عقلاء کے ذریعے استدلال کیا جاتا ہے۔
دوسرے مرحلے پر، یہ قبول کرنے کے بعد کہ خبر واحد بعض موارد میں حجیّت رکھتی ہے، اس بات کو ثابت کیا جاتا ہے کہ
ثقہ کی خبر واحد یا
عادل کی خبر واحد اگر حسی ہو تو وہ حجیّت رکھتی ہے چاہے واسطے کے ساتھ ہو یا بلا واسطہ۔
[ترمیم]
علماء اصول کے درمیان اس بات پر اختلاف ہے کہ حجیّت خبر واحد، اصولی مسئلہ ہے یا فقہی۔ مشہور علماء نے اسے اصولی مسئلہ قرار دیا ہے۔ مرحوم آخوند خراسانی اپنی کتاب
کفایۃ الاصول میں لکھتے ہیں : «و لا یخفی ان هذه المسالة من اهم المسائل الاصولیة». یعنی یہ بات مخفی نہ رہے کہ حجیّت خبر واحد کا مسئلہ ، اصول فقہ کے اہم ترین مسائل میں شمار ہوتاہے۔
[ترمیم]
حجیّتِ خبر واحد کی بحث میں موردِ اختلاف وہ خبر ہے جس پر کوئی قطعی قرینہ موجود نہ ہو اور وہ امارات میں سے شمار ہوتی ہو۔ اگر کسی خبر پر قطعی قرینہ قائم ہو جائے تو اس میں کوئی کلام نہیں ہے کیونکہ اس صورت میں وہ امارہ نہیں رہے گی بلکہ بابِ قطع میں داخل ہوجائے گی۔
[ترمیم]
خبرِ واحد کی حجیّت کیلئے ،
راوی کی وثاقت اور
نقلِ حدیث میں اس کا قابلِ اعتماد ہونا کافی ہے، راوی کا عقیدہ اس کی خبر کی قبولیت پر اثر انداز نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ فقہاء امامیہ نے دیگر فرقوں جیسے
زیدیہ،
واقفیہ اور
فطحیہ کے
ثقہ راویوں کی نقل کردہ روایات کو قبول کیا ہے۔
اگرچہ علماء کی ایک جماعت نے، کسی راوی کی روایت کو قبول کرنے کیلئے، اس کی
عدالت کو لازم قرار دیا ہے
اور بعض دیگر نے راوی کے نقلِ حدیث میں
ضابط ہونے کو بھی ضروری قرار دیا ہے۔
بعض نے کہا ہے کہ ثقہ راوی کی روایت پر عمل کرنے کی شرط یہ ہے کہ وہ
عادل راوی کی روایت کے متعارض نہ ہو کیونکہ عادل کی روایت کے ساتھ
تعارض کی صورت میں عادل کی خبر کو مقدم کیا جائے گا۔
[ترمیم]
قدما کا کسی
خبر پر عمل کرنا، اس کے معصومؑ سے صادر ہونے کے وثوق اور اطمینان پر مبنی تھا اور معصومؑ سے صدورِ خبر کا وثوق مختلف قرائن جیسے ناقلِ حدیث کا امامی عادل ہونا، اصول حدیث میں سے کسی اصل میں ہونا جیسے
اصل زرارہ وغیرہ اور اس خبر پر
شیعہ فقہاء کے عمل کی شہرت؛ سے حاصل ہوتا تھا۔
متأخرین کی چونکہ مذکورہ قرائن اور اصول حدیث تک رسائی ممکن نہ تھی اس لئے انہیں احادیث کو چار قسموں میں تقسیم کرنا پڑا اور انہیں کسی
حدیث کی تصحیح کیلئے، اس کی سند اور راویوں کے احوال جاننے کیلئے
علم الرجال کا سہارا لینا پڑتا ہے۔
[ترمیم]
جب دو
جامع الشرائط روایات بظاہر ایک دوسرے کی مخالف ہوں تو ایسی صورت میں
جمع عرفی کے ذریعے ان میں جمع کیا جائے گا اور اسی جمع کے مطابق عمل ہو گا، جیسے
عام و
خاص اور
مطلق و
مقید کا تعارض وغیرہ اور اگر جمع عرفی ممکن نہ ہو تو
مرجحّات کی طرف رجوع کیا جائے گا اور اگر دونوں میں کسی ایک کو ترجیح دینا ممکن نہ ہو تو اس صورت میں آیا
مکلّف سے مطلوبہ عمل ساقط ہو جائے گا؟! یا ان دونوں پر عمل کرنے میں اسے
اختیار ہوگا؟! علماء کے درمیان اس مسئلہ میں اختلاف ہے۔
[ترمیم]
[ترمیم]
فرہنگنامہ اصول فقہ، تدوین توسط مرکز اطلاعات و مدارک اسلامی، ص۳۹۷، مأخوذ از مقالہ «حجیت خبر واحد»۔ فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت، ج۳، ص۴۲۹-۴۳۳۔