سیرت نبوی میں مہمان نواری کی منزلت

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



مہمان نواز ہونا اور مہمان کی خاطر تواضع کرنا انسان کے باعظمت ہونے کی علامت ہے۔ مہمان نواز ہونا ان اعلیٰ صفات میں سے ہے جسے نبی اکرم ﷺ نے خود اختیار کیا اور اس کی تاکید فرمائی۔ سیرت رسول اللہ ﷺ میں متعدد ایسے واقعات ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ مہمان نوازی کو اہمیت دیتے تھے اور مہمان نواز شخص کی عزت و احترام کو ملحوظ رکھتے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں مہمان نوازی کے آداب خصوصی طور پر بیان کیے گئے ہیں اور انہیں اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔


مہمان نوازی جود و کرم کی علامت

[ترمیم]

مہمان نواز ہونا انسان کے جود و کرم اور با مروت ہونے کی علامت ہے۔ دینی متون میں مہمان نوازی کی صفت کو محبوب ترین صفات قرار دیا گیا ہے۔ اگر رسول اللہ ﷺ کی زندگانی کا مطالعہ کیا جائے تو ہمیں جہاں مہمان نوازی قدر و قیمت کا احساس ہو گا وہاں نمایاں طور پر یہ اعلی صفت سیرت و کلام رسول‌ اللہ ﷺ میں جلوہ گر دکھائی دے گی۔

مہمان نواز ہونا فضل الہی ہے

[ترمیم]

رسول اللہ ﷺ کی نظر میں مہمان نوازی سے محبت کرنا اور اس طرف رغبت رکھنا اللہ تعالی کے فضل و کرم اور بندہ پر اس کی عنایات میں سے ہے۔ اللہ تعالی اپنے مخصوص بندوں کو اس عظیم صفت سے متصف فرماتا ہے۔ آنحضرت ﷺ سے منقول ہے: صرف متقی مؤمن مہمان کی ضیافت و پذیرائی کو پسند کرتا ہے۔ روایت میں نقل ہوا ہے کہ ايک دن رسول اللہ ﷺ کا گزر ایک ایسے شخص کے پاس سے ہوا جس کے پاس گائے اور اونٹ تھے لیکن اس نے مہمان کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد آپ ﷺ کا گزر ایک ایسی خاتون کے پاس سے ہوا جس کے پاس فقط بھیڑ بکریاں تھیں لیکن اس عورت نے رسول اللہ ﷺ کے لیے بکرا ذبح کیا اور اس کو تیار و آمادہ کر کے آنحضرت ﷺ کے سامنے پیش کر دیا۔ اس ماجرا کو دیکھ کر آپ ﷺ نے اپنے اصحاب سے فرمایا: ان دو افراد کے اعمال کو تم سب نے دیکھا۔ حقیقت یہ ہے کہ مہمان نوازی جیسی اعلی خصلتیں اللہ تعالی کے دستِ قدرت میں ہے وہ جسے عطا کرنا چاہے اس کو عطا کرتا ہے۔

مہمان نوازی کی تلقین

[ترمیم]

دین اسلام نے مہمان نوازی کی خصوصی تلقین کی ہے۔ انبیاء و آئمہ علیہم السلام بالخصوص رسول اللہ ﷺ کی سیرت میں مہمان نوازی نمایاں ترین صفات میں سے تھی۔ رسول اللہ ﷺ مہمان نوازی بہت اہمیت دیا کرتے تھے يہاں تک کہ آپ ﷺ سے منقول ہے: الضَّيْفُ دَلِيلُ الْجَنَّة؛مہمان بہشت کی طرف رہنمائی کرنا والا ہے۔ ایک روایت میں آنحضرت ﷺ سے منقول ہے کہ مہمان اللہ تعالی کا مخصوص ہديہ ہے۔ نیز وارد ہوا ہے: إذا أراد الله بعبد خيرا أهدى له هدية قيل: يا رسول الله وما تلك الهدية؟ قال: ضيف ينزل به برزقه ويرحل وقد غفر لأهل المنزل؛آپ ﷺ نے فرمایا: جب اللہ تعالی کسی قوم کے ساتھ نیکی کا ارادہ کرتا ہے تو ان کی جانب ایک ہدیہ بھیجتا ہے، آنحضرت ﷺ سے دریافت کیا گیا: اے اللہ کے رسول ﷺ وہ ہديہ کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: مہمان! مہمان وہ ہدیہ ہے جو رزق و روزی کے نزول کا باعث بنتا ہے اور جب وہ واپس جاتا ہے تو اہلخانہ کے گناہوں کی مغفرت کا باعث بن جاتا ہے۔
[۵] ابن ابی فراس، ورام، تنبیہ الخواطر ونزہۃ النواظر(مجموعۃ ورام)، ج۱، ص۶۔
ایک روایت میں رسول اللہ ﷺ سے وارد ہوا ہے کہ جب تک میری امت کے لوگ دوستی کو ایک دوسرے کے ساتھ آشکار کرتے رہیں گے، امانتوں کو ادا کرتے رہیں گے، اللہ تعالی کے حرام کردہ سے اجتناب کرتے رہیں گے، مہمان کی مہمان نوازی کرتے رہیں گے، نماز کو ادا کرتے رہیں گے اور زکات کو ادا کرتے رہیں گے ان میں خیر و برکت قائم دائم رہے گی اور امت کی طرف سے اگر ان امور کو ترک کر دیا گیا تو وہ قحط و خشک سالی کا شکار ہو جائیں گے۔

مہمان نوازی گناہوں سے مغفرت کا سبب

[ترمیم]

اللہ تعالی کی عظیم رحمتوں میں سے ایک مختلف اسباب و اعمال کی بناء پر انسان کے جرائم اور گناہوں سے مغفرت کرنا ہے۔ وہ اعمال جن کی وجہ سے انسان کے گناہ جھڑ جاتے ہیں اور اس کی مغفرت ہوتی ہے ان میں سے ایک مہمان کی مہمان نوازی کرنا ہے۔ ایک روایت میں رسول اللہ ﷺ سے وارد ہوا ہے کہ مہمان کو کھانا کھلانا میزبان کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے۔ ایک روایت میں نقل ہوا ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: میرے ماں باپ آپ ﷺ پر فدا ہوں! میرا ہر روزانہ کا معمول ہے کہ میں وضو کو بطور احسن انجام دیتا ہوں، نماز پڑھتا ہوں، اپنے مال کی زکات بھی وقت پر ادا کرتا ہوں، مہمان کی بہترین انداز میں مہمان نوازی کرتا ہوں اور نیت يہ کرتا ہوں کہ اس عمل سے اللہ کے قریب ہو سکوں، يہ سن کر آپ ﷺ نے فرمایا: آفرین ہو تم پر، آفرین ہو تم پر، آفرین ہو تم پر، تمہارے اس عمل سے تمہارے اوپر جہنم کے تمام راستے بند کر دیئے گئے ہیں، اگر تم واقعی ایسا کرتے ہو تو اللہ تعالی نے تمہیں بخل سے پاک رکھا ہوا ہے۔

ایک توہم اور علاج

[ترمیم]

انسان جب مادی حساب کتاب کرتا ہے تو اس کو مہمان نوازی سے اپنے مال کا خرچ ہونا اور دوسرے پر بے جا عنایات کا وسوسہ پیدا ہوتا ہے۔ ایسے شیاطین اس کے خیالات کو قوت دے کر مہمان نوازی جیسی عظیم سعادت سے روکنا چاہتے ہیں۔ بہت سے لوگ ایسے حساب کتاب کرتے ہیں کہ فلاں نے مجھے کیا کھلایا تھا کہ میں اس کو کھلاؤں!! یا فلاں نے مجھے بلایا تھا کہ میں اس کو دعوت دوں!! دین اسلام اس طرزِ تفکر کا مخالف ہے اور اللہ تعالی کی رضا مندی اور صفاتِ کمال میں سے ہونے کی وجہ سے مہمان نوازی کا درس دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے خیر و برکت اور رزق میں اضافہ کا سبب مہمان نوازی کو قرار دیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ سے منفول ہے: مہمان کی وجہ سے گھر میں خیر و برکت کا نزول ہوتا ہے۔ ایک جگہ آپ ﷺ سے وارد ہوا ہے: جس گھر میں کھانا کھلایا جاتا ہو اس گھر کی طرف خیر و برکت اس تیزی سے داخل ہوتی ہے جیسے تیز دھار تلوار اونٹ کے کوہان میں داخل ہو جاتی ہے۔

مہمان نواز نہ ہونا قابل مذمت صفت

[ترمیم]

دین اسلام نے جن صفات کی مذمت کی ہے اور جن اعمال سے بچنے کی تلقین کی ہے اس میں سے ایک مہمان نوازی سے فرار کرنا اور بخیل و کنجوس ہونا ہے۔ رسول اللہ ﷺ ایسے گھرانے کو پسند نہیں فرماتے تھے جو مہمان نواز نہیں ہوتا تھا۔ آنحضرت ﷺ سے روایت میں وارد ہو ا ہے: جس گھر میں مہمان داخل نہیں ہوتا اس گھر میں ملائکہ و فرشتے داخل نہیں ہوتے۔ جو شخص مہمانوں کو قبول کرنے سے بھاگتا تھا رسول اللہ ﷺ اس کی سرزنش فرماتے اور اس کی ہدایت کرتے، جیساکہ ایک حدیث میں وارد ہوا ہے کہ مہمان نوازی کرنے کی صورت میں امت خیر و برکت میں رہے گی اور اگر یہ اعلی صفات اٹھ جائیں تو ہلاکت و بربادی اور قحط و خوش سالی نصیب میں آتی ہے۔ متقی ہندی نے ایک روایت نقل کی ہے جس میں رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں: بئس القوم لا ینزلون الضیف؛ بدترین لوگ وہ ہیں جن کی طرف کوئی مہمان نہیں آتا۔

مومن کی دعوت قبول کرنا

[ترمیم]

مسلمان بھائی کی دعوت قبول کرنا دوسرے مسلمانوں کے لیے ضروری ہے۔ دعوت قبول کرنے کی کی طرف اسلام نے ابھارا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے تاکید کے ساتھ تلقین فرمائی ہے کہ کوئی مسلمان دعوت دے تو اس کو قبول کرو۔ آپ ﷺ کی سیرتِ طیبہ میں اس پہلو کے کئی واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ آپ ﷺ نے تمام مسلمانوں سے مخاطب ہوتے ہوۓ فرمایا:أُوصِي الشَّاهِدَ مِنْ أُمَّتِي وَ الْغَائِبَ أَنْ يُجِيبَ دَعْوَةَ الْمُسْلِمِ وَ لَوْ عَلَى خَمْسَةِ أَمْيَالٍ فَإِنَّ ذَلِكَ مِنَ الدِّينِ؛ میں اپنی امت کے حاضر و غائب کو وصیت کرتا ہوں کہ وہ مسلمان کی دعوت کو قبول کریں اگرچے انہیں اس کے لیے پانچ میل کا سفر کیوں نہ طے کرنا پڑے، کیونکہ یہ عینِ دین ہے۔
[۲۱] عسقلاني، ابن حجر، التہذیب، ج۹، ص۹۴۔
اسی طرح ایک اور روایت میں وارد ہوا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: لو أنَّ مؤمناً دعاني إلى طعام ذراع شاة لأجبته؛ اگر مومن مجھے دعوت دے اور کھانے میں بکری کی آگے کی ران (دستی) پیش کرے تو میں اس کی دعوت کو ضرور قبول کروں گا کیونکہ یہ دین میں سے ہے۔رسول اللہ ﷺ کے نزدیک مومن بھائی کی دعوت کو قبول نہ کرنا کراہت کے زمرے میں آتا ہے۔ روایات کے مطابق مومن کی دعوت کو قبول کرنا چاہیے اور کافر و منافق اور فاسق کی دعوت قبول کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ روایت میں وارد ہوا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے جناب ابو ذر سے فرمایا: لا تاکل طعام الفاسقین، فاسقین کا دیا ہوا کھانا نہ کھاؤ۔

اللہ تعالی کی خاطر مہمان نوازی

[ترمیم]

ہر شیء کے لیے آفت ہے اسی طرح مہمان نوازی کی بھی آفات ہیں جن میں سے ايک آفت يہ ہے کہ دعوت و مہمان نوازی سے مقصود نمود و نمائش و ریا کاری و فخر و مباہات ہو۔ ہونا تو یہ چاہیے مہمان نوازی اللہ تعالی اور مومنین کی تکریم کی خاطر کی جائے لیکن اس کی بجائے مہمان نوازی دنیا داری اور دنیاوی روابط قائم کرنے کا ایک بہانہ بن کر رہ جاتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ حضرت ابوذرؓ کو مہمان نوازی کی تلقین کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: اے ابو ذر! تم جسے اللہ کی خاطر چاہتے ہو اسے اس کھانے میں سے کھلاؤ جو تم خود کھاتے ہو اور اس شخص کی غذا میں سے بھی کھاؤ جو تمہیں اللہ کی خاطر چاہتا ہے۔

مہمان نوازی کے آداب

[ترمیم]

مہمان نوازی کے بہت سے آداب وارد ہوۓ ہیں جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں:
۱. ايک اہم ترین ادب مہمان کا اکرام بجالانا ہے۔ متعدد روایات میں رسول اللہ ﷺ نے مہمان کا اکرام بجالانے کا امر دیا ہے ان میں سے ایک روایت میں آپ ﷺ کا فرمانا ہے: ہر وہ شخص جس کا اللہ اور روز قیامت پر ایمان ہے اسے چاہیے کہ وہ مہمان کی تعظیم بجالاۓ۔
۲. مہمان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا تناول کرنا: مہمان نوازی اور مہمان کی عزت و آبرو کے آداب میں سے ایک مہمان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانا ہے۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں: جو شخص چاہتا ہے کہ اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت کرے تو اسے چاہیے کہ اپنے مہمان کے ساتھ کھانا کھاۓ۔
[۳۴] ورام، مسعود بن عیسی، مجموعہ ورام، ج۲، ص۱۱۵۔
ایک اور جگہ وارد ہوا ہے کہ جو اپنے مہمان کے ساتھ مل کر کھانا کھاۓ اس کے اور اس کے ربّ کے درمیان کوئی حجاب باقی نہیں رہے گا۔
[۳۵] ورام، مسعود بن عیسی، مجموعہ ورام، ج۲، ص۱۱۵۔
م

۳. مہمان نوازی کے آداب میں سے ایک ادب یہ ہے کہ جس دن مہمان نے آنا ہو اس دن میزبان مستحبی روزہ نہ رکھے۔ کیونکہ میزبان کا روزے سے ہونا مہمان کے لیے کھانا کھانے میں ایک قسم کی رکاوٹ بن سکتا ہے یا ہو سکتا ہے وہ کھانا کھانے میں شرم محسوس کرے یا تکلف سے کام لے۔

۴. مہمان کو پریشانی سے بچانا، روایات میں وارد ہوا کہ رسول اللہ ﷺ میزبان کو ہر اس کام سے منع فرماتے تھے جس سے مہمان کے لیے کسی قسم کی پریشانی پیدا ہو۔ ‌آپ ﷺ فرماتے تھے کہ مہمان کو زحمت یا کسی سختی میں مت ڈالو جس سے وہ پریشان ہو اگر تم نے مہمان کو غم و غصہ میں لایا تو دراصل تم نے اللہ کو غضبناک کیا اور جو اللہ کو غصے میں لاۓ اللہ اس پر رحم نہیں کرتا۔»

۵. مہمان سے کسی قسم کا کام نہ کروانا: اگر مہمان کو بلا کر مہمان سے مختلف لیے جائیں تو دین اسلام نے اس کو مہمان نوازی کے خلاف شمار کیا ہے، رسول اللہ ﷺ شدت سے منع فرمایا کرتے تھے کہ مہمان سے کام مت لیں۔ آپ ﷺ فرماتے تھے کہ مہمان سے کوئی کام کروانا عقل کے خلاف ہے۔
[۴۰] شیبانی، محمد بن حسن، الجامع الصغیر، ج۲، ص۵۰۔
[۴۱] علی بن حسام، علاءالدین، کنزل العمال، ج۹، ص۲۴۸۔


۶. دانتوں میں خلال کے لیے اہتمام کرنا بھی مہمان کے حقوق میں سے ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس امر کی طرف خصوصی توجہ مبذول کرائی ہے۔

۷. دعوت کے بعد مہمان کو دروازے تک چھوڑنے جانا آداب مہمان نوازی میں سے ہے۔ رسول اللہ ﷺ سے منقول ہے کہ مہمان کے حقوق میں سے ایک حق یہ ہے کہ اس کو گھر کے دروازے تک چھوڑنے کے لیے جاؤ۔»

دعوت کے آداب

[ترمیم]

جب کسی کو دعوت پر بلایا جاتا ہے اور جس نے دعوت دی ہے وہ میزبان اور جس نے دعوت کو قبول کیا ہے وہ مہمان کہلاتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دعوت دو طرفہ عمل ہے۔ میزبان پر مہمان کی جانب سے چند فرض عائد ہوتے ہیں جو اسے پورا کرنا ضروری ہیں۔ اسی طرح مہمان کے بھی چند فرائض ہیں جنہیں اسے پورا کرنا چاہیے۔ مہمان کے لیے درج ذیل آداب کی رعایت کرنا ضروری ہے:
۱. کوئی شخص جس دن دعوت پر مدعو ہو وہ اس دن مستحبی روزہ رکھنے سے پرہیز کرے کيونکہ اس سے میزبان کی زحمات کا ضائع کرنا لازم آتا ہے۔ [مستحبی روزہ] لیکن اگر میزبان کو مطلع کر کے جاۓ یا اس کی اجازت سے روزہ رکھے تو کوئی حرج نہیں۔ روایات میں منقول ہے کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ اپنے اصحاب میں سے کسی کے گھر تشریف لے گئے، جب وہاں پر کھانے کے لیے دسترخوان بچھایا گیا اور کھانا پیش کیا گیا تو حاضرین میں سے ایک شخص نے کھانا کھانے سے انکار کر دیا اور کہا کہ میرا روزہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ سنا تو فرمایا: تمہارے مسلمان بھائی نے تمہارے اہتمام کے لیے بہت زحمت کی اور تم کہہ رہے ہو کہ تمہارا روزہ ہے۔ اگر تمہارا مستحبی روزہ ہے تو افطار کر لو اور کسی دن مستحبی روزہ رکھ لینا۔

۲. مہمان کو جن آداب کی رعایت کرنا چاہیے ان میں سے ایک یہ ہے کہ کسی شخص کو بطور مہمان مدعو کیا جائے تو وہ اپنے ہمراہ دیگر افراد کو نہ لے کر جائے۔ بعض اوقات ایسا دیکھنے کو ملتا ہے کہ جب کسی کو دعوت دی جاتی ہے تو وہ اپنے ہمراہ اپنے بچوں یا کسی نہ کسی دوست کو لے جاتا ہے۔ روایات میں وارد ہوۃا ہے کہ اس عمل سے رسول اللہ ﷺ منع فرمایا کرتے تھے۔ آنحضرت ﷺ سے منقول ہے کہ آپ ﷺ فرماتے ہیں: جب تمہیں کسی دعوت پر مدعو کیا جاۓ تو اپنے بچے کو ساتھ مت لے جاؤ کیونکہ يہ کام حرام اور غاصبانہ ہے۔

مہمان نوازی کتنے دن؟

[ترمیم]

کسی کے ہاں زیادہ دن تک مہمان بن کر ٹھہرنے کی مذمت وارد ہوئی ہے، رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں: الضیافه اول یوم و الثانی و الثالث و ما بعد ذلک فانها صدقه تصدق بها علیه؛ مہمان نوازی تین دن تک ہے، اس کے بعد ضیافت صدقہ ہے جو اس مہمان پر خرچ کیا رہا ہے۔ ایک اور روایت میں رسول اللہ ﷺ سے منقول ہے کہ آپ ﷺ فرماتے ہیں: کسی مسلمان کے لیے یہ بات مناسب نہیں کہ وہ اپنے میزبان کے ہاں اتنی مدت ٹھہرا رہے کہ اسے گناہ میں مبتلا کر دے۔ پوچھا گیا کہ کیسا گناہ؟ کس طرح سے میزبان کو گناہ میں ڈالا جا سکتا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اس قدر طولانی مدت میزبان کے ہاں ٹھہرے رہنا کر يہاں تک کہ اس کے پاس مہمان کی پذیرائی کے وسائل و اسباب ختم ہو جائیں۔

دعوت میں تکلف سے کام لینا

[ترمیم]

دعوت کے دوران چند امور پر رسول اللہ ﷺ بہت تاکید فرمایا کرتے تھے ان میں سے اہم ترین امر يہ بھی ہے کہ دعوت کے دوران مہمان اور ميزبان ہر دو تکلف سے کام مت لیں۔ سلمان فارسی جو مکتب نبوت کے شاگرد ہیں، رسول اللہ ﷺ سے نقل کرتے ہیں: ان لا نتکلف للضیف ما لیس عندنا و ان تقدم الیه ما حضرنا.
[۵۵] طبرانی، سلیمان بن احمد، معجم الکبری، تحقیق حمدی عبدالحمید السلفی، ج۶، ص۲۳۵، دار احیاء التراث العربی، چاپ دوم .
[۵۶] نیشابوری، ابو عبدالله، مستدرک، تحقیق یوسف عبدالرحمان المرعشی، ج۴، ص۱۲۳.
مہمان کے لیے ضروری ہے کہ بغیر کسی تکلف کے میزبان کی پزیرائی کو خندہ پیشانی سے قبول کرے چاہے میزبان نے مختصر دعوت کا ہی اہتمام کیوں نہ کیا ہو، رسول اللہ ﷺ سے نقل ہوا ہے: مرد کی عظمت میں سے ہے کہ جو اس کا بھائی اس کے سامنے پیش کردے اسے قبول کرے اور تکلف سے کام مت لے۔ایک اور جگہ پر رسول اللہ ﷺ کا فرمانا ہے: «مرد کے لیے يہ امر گناہ ہے کہ جو اپنے بھائیوں کے سامنے پزیرائی کے لیے پیش کرے اسے حقیر جانے، اور مہمانوں کے لیے بھی یہ امر شائستہ نہیں کہ جو ان کے سامنے پیش کیا گیا اسے حقیر سمجھیں۔» ایک روایت میں وارد ہوا ہے کہ ایک سفر کے موقع پر رسول اللہ ﷺ نماز پڑھنے میں مصروف تھے اور اتنے میں چند سوار افراد آۓ اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھیوں سے ان کا حال احوال پوچھا، آپ کی ستائش بیان کی اور کہنے لگے کہ ہمیں جلدی نہ ہوتی تو منتظر رہ کر رسول اللہ ﷺ سے ملاقات کرلیتے لیکن چونکہ وہ نماز پڑھ رہے ہیں اس لیے ہم رخصت چاہتے ہیں ہمارا سلام ان تک پہنچا دیجیے گا، انہوں نے يہ پیغام دیا اور وہاں سے چلے گئے۔ جب رسول اللہ ﷺ نماز سے فارغ ہوۓ اور ان کو پیغام دیا گیا تو شدید غصے کی حالت میں فرمایا: چند افراد آپ کے پاس آۓ انہوں نے میری احوالپرسی کی اور میرے لیے سلام بھیجا لیکن آپ لوگوں نے ان کو نیچے اتر آنے کی بھی دعوت نہ دی اور کھانے کے لیے کچھ پیش نہ کیا اور ان کی پزیرائی نہ کی؟

سیرت نبی ﷺ میں مہمان نوازی

[ترمیم]

رسول اللہ ﷺ کا معمول تھا کہ آپ ﷺ اپنے گھر والوں يا غلاموں اور خادموں کے ساتھ کھانا تناول فرمایا کرتے تھے لیکن جب مہمان آ جاتا تو مہمان کے ساتھ کھانا کھایا کرتے۔ آپ ﷺ کے نزدیک بہترین کھانا وہ کھانا ہوتا تھا جو آپ ﷺ کسی مہمان کے ساتھ بیٹھ کر تناول کیا کرتے تھے۔
[۶۳] محدث نوری، حسین، مستدرک الوسائل، ج۱۶، ص۲۳۱۔
رسول اللہ ﷺ کا يہ معمول تھا کہ جب بھی مہمان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے تو پہلے مہمان سے تقاضا کرتے تھے کہ وہ کھانا کھانا شروع کرے اور جب تک مہمان شروع نہ ہوتا آپ ﷺ غذا کی جانب ہاتھ نہیں بڑھاتے تھے، اور جب تک مہمان کھانا کھاتا رہتا آپ ﷺ بھی اس کے ساتھ شریک رہتے جب مہمان سیر ہو جاتا تب آپ ﷺ بھی کھانے سے ہاتھ کھینچ لیتے۔ علماء کرام نے اس کی وجہ يہ بیان کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ يہ اس لیے انجام دیتے تھے کہ مہمان کسی قسم کے شرم یا تکلف میں نہ پڑ جاۓ۔ اگر کسی محفل میں سب کے ساتھ کھانا کھانے بیٹھتے تو سب سے پہلے کھانا کھانا شروع کرتے اور سب سے آخر میں کھانے سے ہاتھ کھینچتے تاکہ سب پیٹ بھر کر جتنا ان کا جی چاہ رہا ہے بغیر کسی جھجھک کے کھائیں۔ روایات میں وارد ہوا ہے کہ آپ ﷺ بغیر کسی رکاوٹ یا تکلف کے ہر امیر یا غریب کی دعوت قبول کر لیا کرتے تھے۔ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا کہ میزبان بہت غریب ہوتا اور رسول اللہ ﷺ کے شایان شان اہتمام نہ کر پاتا لیکن آپ ﷺ کبھی بھی کسی میزبان کو يہ سب محسوس نہ ہونے دیتے اور لطف اندوز ہو کر کھانا تناول کرتے۔
[۶۸] طبرسی، رضی الدین، مکارم الاخلاق، ص۱۵۔
[۶۹] ترمذی، ابو عیسی، الشمائل المحمدیۃ، ص۱۹۰۔
[۷۰] ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۱، ص۲۷۹۔
[۷۱] حنبل، احمد، مسند حنبل، ج۵، ص۱۴۷۔
رسول اللہ ﷺ دعوت کے دوران تکلف سے کام نہیں لیتے تھے بلکہ فرماتے تھے: لا احب المتکلفین؛ تکلف سے کام لینے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

میزبان کی اجازت سے دعوت پر جانا

[ترمیم]

ایک روایت میں وارد ہوا ہے کہ اہل مدینہ میں سے ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ اور ان کے پانچ ساتھیوں کو کھانے پر مدعو کیا، دعوت کے دن رسول اللہ ﷺ اور ان کے پانچ ساتھی میزبان کے ہاں جا رہے تھے کہ راستے میں ایک اور ساتھی بھی شامل ہوگئے اس طرح رسول اللہ ﷺ اور ان کے چھ ساتھی میزبان کے ہاں پہنچ گئے، اس سے پہلے کہ رسول اللہ ﷺ میزبان کے گھر میں داخل ہوں اس چھٹے ساتھی سے کہا کہ وہ گھر کے باہر موجود رہے، رسول اللہ ﷺ میزبان کے گھر گئے اس چھٹے ساتھی کو اپنے ساتھ لانے کی اطلاع دی اور میزبان سے اس کو اندر لانے کی اجازت مانگی جب میزبان نے اجازت دی تو اس چھٹے ساتھی کو بھی دعوت میں شامل کرلیا گیا۔
[۷۵] محدث نوری، حسین، مستدرک الوسائل، ج۱۶، ص۲۰۷۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی دعوت پر ہمیں باقاعدہ دعوت نہ دی گئی ہو وہاں پر شرکت نہیں کرنی چاہیے اسی طرح کسی ایسے فرد کو اپنے ساتھ دعوت پر لے جانا جسے مدعو نہ کیا گیا ہو مناسب نہیں۔

میزبان کو پزیرائی کی پاداش دینا

[ترمیم]

رسول اللہ ﷺ کے مشہور و معروف و باعظمت صحابی جابر بن عبداللہ انصاری نقل کرتے ہیں کہ ایک دن ابوال ہیثم انصاری نے رسول اللہ ﷺ اور ان کے چند اصحاب کو کھانے کی دعوت پر مدعو کیا، کھانا کھا لینے کے بعد رسول اللہ ﷺ نے اصحاب کو مخاطب کر کے فرمایا: اپنے میزبان بھائی کو ثواب اور پاداش عطا کرو، اصحاب نے پوچھا کہ کس طرح سے اسے ثواب پہنچائیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جب مہمان اپنے میزبان کے گھر میں داخل ہوتا ہے، اس کے کھانے میں سے کھاتا ہے اور مشروب میں سے پیتا ہے تو اسے چاہیے کہ میزبان کے لیے دعاء خیر کرے يہی دعاء خیر میزبان کے لیے پاداش ہے۔
[۷۶] جزری، ابن اثیر، جامع الاصول من احادیث الرسول، ج۵، ص۱۰۱۔
رسول اللہ ﷺ ایسی دعوت کو ناپسند فرماتے تھے جس میں امیروں کو تو مدعو کیا گیا ہوتا لیکن اس میں غریبوں کو مدعو نہیں کیا ہوتا۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. عاملی، شیخ حر، وسائل الشیعۃ، ج۲۴، ص۲۷۹۔    
۲. کاشانی، ملا محسن، المحجۃ البیضاء فی تہذیب الاحیاء، ج۳، ص۳۲۔    
۳. شعیری، تاج الدین، جامع الاخبار، ج۱، ص۱۳۶۔    
۴. متقی ہندی، علی، کنزل العمال فی سنن الاقوال و الافعال، ج۹، ص۲۶۷۔    
۵. ابن ابی فراس، ورام، تنبیہ الخواطر ونزہۃ النواظر(مجموعۃ ورام)، ج۱، ص۶۔
۶. شعیری، تاج الدین، جامع الاخبار، ص۱۳۶.    
۷. عاملی، شیخ حر، وسائل الشیعۃ، ج۱۵، ص۲۵۴۔    
۸. شعیری، تاج الدین، جامع الاخبار، ص۱۳۶۔    
۹. کاشانی، ملا محسن، المحجة البیضاء، ج۳، ص۳۲۔    
۱۰. حمیری قمی، عبد الله بن جعفر، قرب الاسناد، ص۷۵۔    
۱۱. عاملی، شیخ حر، وسائل الشیعۃ، ج۲۴، ص۲۸۰۔    
۱۲. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۴، ص۵۱۔    
۱۳. تمیمی، نعمان بن محمد، دعائم الاسلام، ج۲، ص۱۰۶۔    
۱۴. شعیری، تاج الدین، جامع الاخبار، ص۱۳۶۔    
۱۵. محدث نوری، حسین، مستدرک الوسائل، ج۱۶، ص۲۵۸،۔    
۱۶. نوری، حسین، مستدرک الوسائل، ص۲۵۸۔    
۱۷. شعیری، تاج الدین، جامع الاخبار، ص۱۳۶۔    
۱۸. کاشانی، ملا محسن، المحجۃ البیضاء، ج۳، ص۳۲۔    
۱۹. متقی ہندی، علی بن حسام، کنز العمال، ج۹، ص۲۴۴۔    
۲۰. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۶، ص۲۷۴۔    
۲۱. عسقلاني، ابن حجر، التہذیب، ج۹، ص۹۴۔
۲۲. کاشانی، ملا محسن، المحجۃ البیضاء، ج ۳، ص ۳۵۔    
۲۳. عاملی، شیخ حر، وسائل الشیعۃ، ج۲۴، ص۲۶۸۔    
۲۴. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۶، ص۲۷۴۔    
۲۵. خالد برقی، احمد بن محمد، المحاسن، ج۲، ص۴۱۱۔    
۲۶. طوسی، محمد بن علی، امالی، ص۵۳۵۔    
۲۷. طبرسی، حسن بن فضل، مکارم الاخلاق، ص۴۶۵۔    
۲۸. طوسی، محمد بن علی، امالی، ص۵۳۵۔    
۲۹. دیلمی، حسن بن ابی‌ الحسن، اعلام الدین، ص۱۹۸، ۰۸۔    
۳۰. طبرسی، حسن بن فضل، مکارم الاخلاق، ص۴۶۵۔    
۳۱. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۲، ص۶۶۷۔    
۳۲. شعیری، محمد، جامع الاخبار، ص۱۳۶۔    
۳۳. حنبل، احمد بن محمد، مسند احمد، ج۲۶، ص۲۹۵۔    
۳۴. ورام، مسعود بن عیسی، مجموعہ ورام، ج۲، ص۱۱۵۔
۳۵. ورام، مسعود بن عیسی، مجموعہ ورام، ج۲، ص۱۱۵۔
۳۶. شیخ صدوق، محمد بن علی ابن الحسین، علل الشرایع، ج۲، ص۳۸۴۔    
۳۷. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۴، ص۱۵۲۔    
۳۸. کاشانی، ملا محسن، المحجۃ البیضاء، ص۳۱۔    
۳۹. کاشانی، ملامحسن، المحجۃ البیضاء، ص۳۱-۳۲۔    
۴۰. شیبانی، محمد بن حسن، الجامع الصغیر، ج۲، ص۵۰۔
۴۱. علی بن حسام، علاءالدین، کنزل العمال، ج۹، ص۲۴۸۔
۴۲. شیخ صدوق، محمد بن علی ابن الحسین، من لا یحضره الفقیہ، ج۳، ص۳۵۷۔    
۴۳. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۶، ص۲۸۵۔    
۴۴. صدوق، محمد بن علی بن الحسین، عیون اخبار الرضا، ج۲، ص۶۹۔    
۴۵. قضاعی، محمد بن سلامۃ، مسند شہاب، ج۲، ص۱۸۴۔    
۴۶. قزوینی، محمد بن یزید، سنن ابن ماجہ، ج۲، ص۱۱۱۴۔    
۴۷. شیخ صدوق، محمد بن علی بن حسین، علل الشرایع، ج۲، ص۳۸۴۔    
۴۸. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۴، ص۱۵۱۔    
۴۹. کاشانی، ملا محسن، المحجۃ البیضاء، ص۳۵-۳۶۔    
۵۰. نجفی، محمد حسین، جواہر الکلام فی شرح شرائع الاسلام، ج۲۹، ص۵۰۔    
۵۱. خالد برقی، احمد بن محمد، المحاسن، ج۲، ص۴۱۱۔    
۵۲. راوندی، قطب الدین، الدعوات، ص۱۴۲، ۱۴۰۷۔    
۵۳. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۶، ص۲۸۳۔    
۵۴. شیخ صدوق، محمد بن علی ابن حسین، الخصال، ص۱۴۸۔    
۵۵. طبرانی، سلیمان بن احمد، معجم الکبری، تحقیق حمدی عبدالحمید السلفی، ج۶، ص۲۳۵، دار احیاء التراث العربی، چاپ دوم .
۵۶. نیشابوری، ابو عبدالله، مستدرک، تحقیق یوسف عبدالرحمان المرعشی، ج۴، ص۱۲۳.
۵۷. کلینی، محمد بن یعقوب، اصول‌ کافی، ج۵، ص۱۴۳.    
۵۸. عاملی، شیخ حر، وسائل الشیعه، ج۲۴، ص۲۷۶.    
۵۹. خالد البرقی، أحمد بن محمد بن، المحاسن، ج۲، ص۴۱۴.    
۶۰. کلینی، محمد بن یعقوب، اصول کافی، ج۶، ص۲۷۵.    
۶۱. أصحابه خالد البرقی، أحمد بن محمد بن، المحاسن، ج۲، ص۲۱۱.    
۶۲. طبرسی، رضی الدین، مکارم الاخلاق، ص۲۷۔    
۶۳. محدث نوری، حسین، مستدرک الوسائل، ج۱۶، ص۲۳۱۔
۶۴. طبرسی، رضی الدین، مکارم الاخلاق، ص۲۶۔    
۶۵. عاملی، شیخ حر، وسائل الشیعۃ، ج۲۴، ص۳۲۰۔    
۶۶. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۶، ص۲۸۶۔    
۶۷. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۶، ص۲۸۵۔    
۶۸. طبرسی، رضی الدین، مکارم الاخلاق، ص۱۵۔
۶۹. ترمذی، ابو عیسی، الشمائل المحمدیۃ، ص۱۹۰۔
۷۰. ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۱، ص۲۷۹۔
۷۱. حنبل، احمد، مسند حنبل، ج۵، ص۱۴۷۔
۷۲. برقی، احمد بن محمد، المحاسن، ج۲، ص۴۱۵۔    
۷۳. مغربی، قاضی نعمان، دعائم الاسلام، ج۲، ص۳۲۶۔    
۷۴. طبرسی، رضی الدین، مکارم الاخلاق، ص۲۲۔    
۷۵. محدث نوری، حسین، مستدرک الوسائل، ج۱۶، ص۲۰۷۔
۷۶. جزری، ابن اثیر، جامع الاصول من احادیث الرسول، ج۵، ص۱۰۱۔
۷۷. راوندی، قطب الدین، الدعوات، ص۱۴۱۔    
۷۸. کاشانی، ملا محسن، المحجۃ البیضاء، ص۳۷۔    


مأخذ

[ترمیم]

سایت پژوہہ، یہ تحریر مقالہ نگاہی به موقعیت میہمان در سیره و گفتار پیامبر ﷺ سے مأخوذ ہے، مشاہدہِ لنک کی تاریخ:۱۳۹۵/۰۵/۲۶۔    






جعبه ابزار