فدک کا ماجرا
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
واقعہ
فدک میں
خیانتکار ہاتھوں نے ملوث ہو کر اپنی ترجیحات اور
نفسانی خواہشات کے مطابق تبدیلیاں ایجاد کر دیں۔ البتہ بکاؤ قلم نے ان تحریفات میں بنیادی کردار ادا کیا۔ اس سے قبل ’’سابقہ غاصبین‘‘
امیرالمومنین ؑ اور
صدیقہ کبریٰ کے استدلالات پر کسی قسم کا اعتراض نہ کر سکے۔ لہٰذا جب انہیں دلیل و
منطق کے محاذ پر شکست ہو گئی تو انہیں
اہل بیتؑ سے مربوط واقعات کی تحریف کر کے ان کی
حجیت کو زائل کرنا تھا۔ اس بنا پر بہت زیادہ تفاوت ہے ان مطالب میں جو اہل بیتؑ کے پیروکار فدک کے بارے میں کہتے ہیں اور ان باتوں میں جو مکتبِ
خلفا اس بارے میں کہتا ہے۔
[ترمیم]
واقعے کی صحیح صورت (جو کجی سے پاک علمائے تفسیر، حدیث اور تاریخ کے نظریات کا خلاصہ ہے) یہ ہے کہ رسول خداؐ نے فتح
خیبر کے بعد اہلیانِ فدک سے فرمایا: تمہیں اس قلعے میں کیسے امان ملے گی، میں تمہارے قلعوں کی طرف آؤں گا اور انہیں
فتح کر لوں گا۔ انہوں نے کہا کہ ان کے دروازوں پر تالے لگے ہوئے ہیں اور ان کی چابیاں ایک محفوظ مقام پر ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: اس کی چابیاں مجھے دے دی گئی ہیں، پھر انہیں نکال کر ان کے سامنے رکھ دیا۔
یہودی کلید بردار کے پاس گئے اور چابیوں کے صندوق کو خالی پایا۔ پس انہیں معلوم ہو گیا کہ یہ کوئی عظیم امر ہے۔ آنحضرتؐ سے سوال کیا: یہ چابیاں کس نے آپ کو دی ہیں؟! فرمایا: جس نے
موسیٰ بن عمرانؑ کو
الواح دی تھیں! پس ان میں سے ایک گروہ
مسلمان ہو گیا اور کچھ پیغمبرؐ کے تابع فرمان ہو گئے، معاہدہ یہ طے پایا کہ وہیں پر رہیں گے اور اپنی سالانہ آمدنی میں سے پانچواں حصہ پیغمبرؐ کو دیں گے۔
لہٰذا فدک بلاشرکت غیرے رسول خداؐ کی
ملکیت قرار پایا اور اس کی دلیل بھی یہ ہے کہ یہ حملوں اور
جنگ سے ہاتھ نہیں آیا تھا۔
[ترمیم]
پھر آیت شریفہ نازل ہوئی: وَءَاتِ ذَا ٱلۡقُرۡبَیٰ حَقَّهُ.۔
اور قرابت دار کو اس کا حق ادا کرو۔
نبی کریمؐ نے اپنی دختر اطہرؑ کو طلب کیا اور انہیں فرمایا:
اِنَّ فَدَکاً وَ لِاَعَقِابِکِ مِنْ بَعْدِکِ، ۔
جَزَاءً عَمَّا کَانَ لِاُمِّکَ خَدِیْجَةَ مِنَ الْحَقِّ وَ هٰذِه فَدَک نَحْلَة لَّکِ بِذٰلِکَ.
فدک آپ کا اور آپ کی اولاد کا ہے، یہ آپ کی ماں
خدیجہ کے حق کی جزا ہے، یہ فدک آپ کیلئے بخشش وتحفہ ہے۔
[ترمیم]
اس کے بعد رسول خداؐ نے امیرالمومنین ؑ کو امر کیا کہ فدک کی ملکیتی سند لکھ کر
فاطمہؑ کے حوالے کر دیں۔
حضرت امیرؑ نے اسے لکھا اور خود شہادت دی، رسول خداؐ کے خادم اور
ام ایمن نے بھی اس پر
گواہی دی۔
زہرائے مرضیہ نے اپنے پدر امجد کی خدمت میں عرض کیا: جب تک آپ بقید حیات ہیں، میں اس میں کوئی تصرف نہیں کروں گی کیونکہ آپ اس میں اور میری جان و مال پر تصرف کیلئے اولیٰ ہیں۔
پیغمبر اکرمؐ نے آپؑ کو اس کے انجام اور طاقتوروں کے طمع سے مطلع کیا اور فرمایا کہ میرے بعد انقلاب اور تبدیلیاں رونما ہوں گی۔ پھر لوگوں کو اپنے گھر میں جمع کیا اور فدک کو فاطمہؑ کے حوالے کرنے پر مبنی
قرآن کا حکم ان کیلئے بیان فرمایا۔
[ترمیم]
فدک کی زرعی املاک سے حاصل ہونے والا منافع (جسے ہر سال زہرائے اطہرؑ کا وکیل آپ کی خدمت میں لاتا تھا) چوبیس ہزار دینار۔
اور ایک قول کی بنا پر ستر ہزار دینار۔
ہوتا تھا۔
صدیقہ کبریٰؑ اس پوری رقم کو
بنی ہاشم اور
مہاجرین کے ضرورت مندوں میں تقسیم فرما دیتی تھیں؛ یہاں تک کہ روز مرہ کے اخراجات کیلئے بھی آپ کے ہاتھ میں کوئی چیز باقی نہیں رہتی تھی۔ یہ چیز
رسول اعظمؐ کی لخت جگر سے باعث تعجب نہیں ہے کہ آپؑ محدّثہ تھیں،
ملائکہ کی سرگوشیاں سنتی تھیں؛ چنانچہ (بعد از پیغمبر) ایک فرشتہ گزشتہ و آئندہ کے واقعات آپؑ کیلئے بیان کرتا تھا اور فاطمہؑ اسے ایک
صحیفے میں جمع فرماتی تھیں کہ جو
اہل بیتؑ کی
اصطلاح میں ’’
مصحف فاطمہؑ ‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔
جی ہاں! خاندانِ رسالت کی دختر نیک اختر نے یہ خصوصیت اپنے پدر
خاتم الانبیاء سے وراثت پائی کہ
خدا نے
زمین کے خزانے آپؐ کے اختیار میں قرار دئیے تھے مگر آپؐ دنوں کو بھوک کاٹتے تھے۔ آپ کی حبیبہ انسیہ حوراء اور
سیدۃ نساء العالمین بھی اسی طرح تھیں کہ پیغمبر کے
نور اقدس اور
ملکوتی روح سے
مشتق ہونے کے بعد اپنے پدر کی
سیرت سے پیچھے نہیں رہتی تھیں اور
دنیا کی کامیابی یا ناکامی کو اہمیت نہیں دیتی تھیں۔
مزید برآں فاطمہ اطھرؑ اپنے
شوہر مکرم کی سیرت کو بھی اپنا نصب العین قرار دیتی تھیں کہ
مورخین نے حضرتؑ کی بخشش کو چالیس ہزار
دینار۔
اور حتی چار لاکھ دینار بھی تحریر کیا ہے۔
یہ وہ رقم ہے جو اگر بنو ہاشم میں تقسیم کر دی جاتی تو ان کی ضروریات کا باب بند ہو جاتا۔ تاہم حضرت امیرؑ یہ امداد صرف بنی ہاشم سے مختص نہیں کرتے تھے بلکہ
مہاجرین و
انصار کے ضرورت مندوں کی بھی دستگیری فرماتے تھے۔ یہ بخشش و سخاوت اس قدر زیادہ تھی کہ اپنے خانوادے کے اخراجات کیلئے بھی آپ کے پاس کچھ نہیں بچتا تھا اور کبھی مجبور ہو کر اپنا کوئی سامان جیسے
تلوار یا
ردا بیچ کر روز مرہ کی غذا کا بندوبست فرماتے تھے۔
یہ ان کی شان ہے جو اس پست دنیوی زندگی سے کنارہ کش ہو چکے تھے،
مبدا اعلیٰ کے ساتھ متصل تھے اور
ممکنات پر فیضِ الہٰی کا واسطہ تھے۔
[ترمیم]
حضرت صدیقہؑ کی جانب سے فدک کا مطالبہ اس کے منافع اور آمدنی میں رغبت کی وجہ سے نہیں تھا۔ کیا آپؑ، امیرالمومنین ؑ اور
حسنینؑ نے
مسکین،
یتیم اور
اسیر کو اپنی ذوات پر ترجیح نہیں دی حتی تین دنوں تک پانی کے سوا کچھ تناول نہیں فرمایا۔ پس ان کی ثنا میں
قرآن نازل ہوا جس کی
دن رات تلاوت ہوتی ہے:
وَیُطۡعِمُونَ ٱلطَّعَامَ عَلَیٰ حُبِّهِۦ مِسۡکِینٗا وَیَتِیمٗا وَاَسِیرًا ۞ اِنَّمَا نُطۡعِمُکُمۡ لِوَجۡهِ ٱللَّهِ لَا نُرِیدُ مِنکُمۡ جَزَآءٗ وَلَا شُکُورًا.۔
اور باوجود یہ کہ ان کو خود طعام کی خواہش (اور حاجت) ہے فقیروں اور یتیموں اور قیدیوں کو کھلاتے ہیں۔ ہم صرف اللہ کی مرضی کی خاطر تمہیں کھلاتے ہیں ورنہ نہ تم سے کوئی بدلہ چاہتے ہیں نہ شکریہ۔
ایسی صورتحال میں فاطمہؑ کا فدک یا غیر فدک سے کیا سروکار؟! آپؑ کی جانب سے
انصاف کا مطالبہ صرف اس غرض سے تھا کہ حیران و گمراہ
امت کو الہٰی
خلافت کو ہتھیا لینے والوں کی غلط روش سے آگاہ کرے اور ان چہروں کو بے نقاب کریں کہ جنہوں نے خدا و رسولؐ کی اجازت کے بغیر مسلمانوں کے امور کی زمام کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا تھا۔
وَلَوۡ اَنَّ اَهۡلَ ٱلۡقُرَیٰٓ ءَامَنُواْ وَٱتَّقَوۡاْ لَفَتَحۡنَا عَلَیۡهِم بَرَکَٰتٖ مِّنَ ٱلسَّمَآءِ وَٱلۡاَرۡضِ وَلَٰکِن کَذَّبُواْ فَاَخَذۡنَٰهُم بِمَا کَانُواْ یَکۡسِبُونَ.۔
اگر ان بستیوں کے لوگ ایمان لے آتے اور پرہیزگار ہوجاتے۔ تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکات (کے دروازے) کھول دیتے مگر انہوں نے تو تکذیب کی۔ سو ان کے اعمال کی سزا میں ہم نے ان کو پکڑ لیا۔
فَاَصَابَهُمۡ سَیِّـَٔاتُ مَا کَسَبُواْۚ وَٱلَّذِینَ ظَلَمُواْ مِنۡ هَـٰٓؤُلَآءِ سَیُصِیبُهُمۡ سَیِّـَٔاتُ مَا کَسَبُواْ وَمَا هُم بِمُعۡجِزِینَ.۔
ان پر ان کے اعمال کے وبال پڑ گئے۔ اور جو لوگ ان میں سے ظلم کرتے رہے ہیں ان پر ان کے عملوں کے وبال عنقریب پڑیں گے۔ اور وہ (خدا کو) عاجز نہیں کرسکتے۔
اَفَمَن یَهۡدِیٓ اِلَی ٱلۡحَقِّ اَحَقُّ اَن یُتَّبَعَ اَمَّن لَّا یَهِدِّیٓ اِلَّآ اَن یُهۡدَیٰۖ فَمَا لَکُمۡ کَیۡفَ تَحۡکُمُونَ۔
بھلا جو حق کا رستہ دکھائے وہ اس قابل ہے کہ اُس کی پیروی کی جائے یا وہ کہ جب تک کوئی اسے رستہ نہ بتائے رستہ نہ پائے۔ تو تم کو کیا ہوا ہے کیسا انصاف کرتے ہو؟
جی ہاں! دنیا پرست
حریصوں نے
گمان کیا کہ فدک اور اس کی زرعی زمینوں پر قبضہ کر کے امیرالمومنین ؑ کی
معاشی حالت کو کمزور کرنے کا باعث بنیں گے اور لوگوں کو حضرتؑ سے دور کر دیں گے اور اپنی جاہ طلبی میں بھی کامیاب ہو گئے۔ مگر ان کی اس دشمنی سے الٹ نتیجہ نکلا اور
فاطمہ زہراؑ کی جانب سے
انصاف کی فریاد نے انہیں ہر ایک کے سامنے رسوا کر دیا۔
[ترمیم]
مفضل بن عمر امام صادقؑ سے نقل کرتے ہیں کہ جب ابوبکر نے مقامِ خلافت کو سنبھال لیا تو عمر نے انہیں کہا کہ علیؑ اور ان کے خانوادے کو
خمس،
غنائم اور فدک سے محروم کر دے اور
استدلال کیا کہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو ان کے
شیعہ خلیفہ کو چھوڑ کر دنیا کی طمع میں علیؑ کے گرد جمع ہو جائیں گے!
ابوبکر نے اس کی رائے کو قبول کر لیا اور اس کے مشورے پر عمل درآمد کیا۔
منجملہ یہ حکم دیا کہ حضرت فاطمہؑ کے
وکیل کو فدک کی
زمینوں سے بے دخل کر دیا جائے۔ صدیقہ اطھرؑ ابوبکر کے پاس گئیں اور فرمایا: تو نے میرے وکیل کو کیوں بے دخل کیا ہے؟! حالانکہ پیغمبرؐ نے وہ جگہ مجھے بخش دی ہے۔
ابوبکر نے کہا: اس دعوے پر
گواہ ہیں؟! فاطمہؑ امیرالمومنین، حسنین،
اسماء بنت عمیس اور
ام سلمہ کو لے آئیں۔ انہوں نے گواہی دی لیکنام ایمن نے اس وقت تک گواہی نہیں دی جب تک ابوبکر سے یہ اقرار نہیں لیا کہ پیغمبر اکرمؐ سے سن چکا ہے کہام ایمن اہل
بہشت میں سے ہے۔ پھرام ایمن نے کہا: میں گواہی دیتی ہوں کہ رسول خدا نے فدک فاطمہ کو بخش دیا تھا۔
مگر عمر نے ان کی شہادت کو رد کر دیا اور کہا: علی ان کے شوہر ہیں، حسنین بیٹے ہیں اور یہ اپنے فائدے میں گواہی دیں گے۔
اسماء بنت عمیس
جعفر بن ابی طالب ( امیرالمومنین ؑ کے بھائی) کے زیر اختیار ہے اور بنی ہاشم کے مفاد میں ہی گواہی دیں گی۔
ام سلمہ کو فاطمہ سے محبت ہے لہٰذا ان کی طرفداری کر رہی ہیں۔
جبکہام ایمن
عجمی عورت ہے، اس کی
عربی فصیح نہیں ہے۔
[ترمیم]
کتنے تعجب کی بات ہے کہ
سید الاوصیاء اور رسول خداؐ کے دو پھولوں اور جنتی جوانوں کے سردار کی نسبت ایسی جسارت ہو! کس طرح ان کی طرف صرف دنیوی مفاد کی خاطر ناحق اقدام اٹھانے کی
نسبت دی جا سکتی ہے!
کَبُرَتۡ کَلِمَةٗ تَخۡرُجُ مِنۡ اَفۡوَٰهِهِمۡۚ۔
یہ بڑی (جسارت کی) بات ہے جو ان کے
منہ سے نکلتی ہے، یہ تومحض
جھوٹ بولتے ہیں۔
گویا وہ فراموش کر چکے ہیں کہ خدا نے صراحت کے ساتھ ان کی
عصمت کی ضمانت دی ہے۔
اِنَّمٰا یُرِیدُ اَللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ اَلرِّجْسَ اَهْلَ اَلْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیراً.۔
بے شک اللہ کا ارادہ ہے کہ تم اہل بیت سے ناپاکی کو دور رکھے اور تمہیں پاک وپاکیزہ رکھے!
اس سے بڑی
تہمت کیا ہو گی کہ دنیوی گھاس پھوس اور فدک کو ہتھیانے کیلئے
متقین کے امیر کی طرف جھوٹ کی نسبت دے دی حالانکہ پیغمبرؐ نے آپؑ کے بارے میں فرمایا ہے:
عَلِیٌّ مَعَ اَلْحَقِّ وَ الْحَقُّ مَعَه لاَ یَفْتَرِقَانِ اَبَداً.۔
وجود علی کا ستارہ خورشید حق کے گرد گھومتا ہے اور حق ان کے وجود کے گرد گردش کرتا ہے۔
اس نص نبوی (جو فریقین کے نزدیک متفق علیہ ہے) کو دیکھتے ہوئے ایک دقیق راز سمجھ آتا ہے کہ جو پیغمبر اکرمؐ کے پیش نظر تھا اور وہ یہ کہ مختلف نظریات اور ایک دوسرے کے مخالف
مکاتب و
مذاہب کی پیدائش کے وقت بھی امیرالمومنین امت کے تنہا مرجع اور ہادی ہیں اور ’’صراط مستقیم‘‘ کے تنہا مصداق ہیں۔ مذکورہ گرانقدر کلام حضرت امیرؑ کی خلافتِ عامہ کے متعدد دلائل میں سے ایک ہے۔ یہاں پر مقصود یہ خبر دینا نہیں ہے کہ مولائے متقیان ہمیشہ
سچ بات کہتے ہیں کیونکہ یہ ان اشخاص کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جن کی عدالت کی تائید مقصود ہو بلکہ مقصود یہ ہے کہ معاشرتی اور عقائدی مشکلات و مسائل پیدا ہونے کی صورت میں صرف امیرالمومنین ؑ ہی امت کے رہبر ہیں اور بس (اس بنا پر آپؑ کو مسلمانوں کا پیشوا ہونا چاہئے) ۔ اس امر کا شاہد لسان
وحی سے متعدد موارد میں مذکورہ بالا حدیث کا صدور ہے کہ اگر مذکورہ نقطہ نظر حضرت رسالت کے پیش نظر نہ ہو تو اسے متعدد بار کہنے پر کوئی فائدہ مترتب نہیں ہو گا۔
فخر رازی نے اس حقیقت کو سمجھ لیا تھا، پس وہ اپنی تفسیر میں بسم اللہ کے
جھر میں بیان کرتے ہیں:
تواتر کے ساتھ حدیث میں آیا ہے کہ علی بن ابی طالبؑ بسم اللہ الرحمن الرحیم کو بلند آواز سے کہتے تھے، جو بھی علی بن ابی طالب کے راستے سے متمسک ہے، وہ
ہدایت یافتہ ہے۔ اس کی دلیل بھی پیغمبرؐ کا یہ قول ہے کہ: خدایا! جہاں پر علی ہو،
حق کو اس کے ساتھ قرار دے۔
[ترمیم]
امام المتقینؑ پر اس تہمت سے قطع نظر اب دیکھتے ہیں کہ آپؑ کی
زوجہ مطہرہ کی نسبت کیا الزام تراشی کر رہے ہیں۔
ابوبکر صدیقہ کبریٰؑ سے فدک کی مالکیت پر بینیہ اور دلیل طلب کر رہا ہے حالانکہ فاطمہ دوسرے مالکین کی طرح اپنی زمینوں میں تصرف کر رہی تھیں اور کسی نے فدک کی اراضی پر مالکیت کا دعویٰ بھی نہیں کیا تھا، آپؑ کا وکیل بھی وہاں کے امور کی نظارت اور سرپرستی کر رہا تھا۔ جیسا کہ
فقہی قواعد میں مسلم ہے کہ ثبوتِ ید کے بعد
بینہ کی ضرورت نہیں رہتی۔
مزید برآں بینیہ
مدعی سے اس وقت طلب کی جاتی ہے کہ خلافِ
واقع کا احتمال ہو۔ مگر زہراؑ کی عصمت کی قرآن نے ضمانت دی ہے اور آپؑ کے بارے میں کسی خطا و
گناہ کا احتمال نہیں ہے۔ اس بنا پر ممکن نہیں ہے کہ آپ نادرست دعویٰ دائر کریں اور (العیاذ باللہ) مادی طمع کی بنیاد پر اپنے پدر کی مقدس شریعت کے خلاف چلیں۔
علم الھدیٰ اور ان کے شاگرد
شیخ طوسیؒ بیان کرتے ہیں کہ: مسلمان
فرقوں میں سے کسی ایک نے بھی صدیقہ اطھرؑ کی سچائی اور صداقت میں اختلاف نہیں کیا۔ تنہا اختلاف اس میں ہے کہ آیا انہوں نے جس چیز (فدک) کا دعویٰ کیا، وہ انہیں بینہ پیش کیے بغیر سپرد کی جائے یا ضروری ہے کہ اپنے دعوے پر شاہد لے کر آئیں۔
تاہم آپؑ سے دلیل مانگنا اسلامی
فقہ کے خلاف ہے کیونکہ مدعی سے اس وقت دلیل طلب کی جاتی ہے کہ جب احتمال ہو کہ وہ خلاف واقع بات کر رہا ہے، مگر جن حالات میں ہمیں قطع ہو کہ مدعی سچ کہہ رہا ہے تو یہاں بینہ کی ضرورت نہیں ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پیغمبر اکرمؐ نے
خزیمہ بن ثابت کی شہادت کو قبول کر لیا اور اسے دو افراد کی گواہی کے برابر قرار دیا، اس کے باوجود کہ وہ خرید و فروخت کے وقت موجود نہیں تھے (اگلے اقتباس میں اسے ذکر کریں گے) اور صرف رسول خداؐ کے صدق پر اعتماد کیا۔ صاحب شریعت کے توسط سے خزیمہ کی شہادت قبول کرنے سے یہ مطلب ثابت ہوتا ہے کہ بینہ صرف دفعِ احتمال اور
یقین پیدا کرنے کیلئے طلب کی جاتی ہے اور جب مدعی کے صدق کا
قطعی علم پہلے سے حاصل ہو تو بینہ طلب کرنے کی کوئی (عقلی و شرعی) صورت باقی نہیں رہتی۔ اسی بنیاد پر
قاضی کیلئے
جائز ہے کہ اپنے قطعی عمل پر یقین کرے۔۔
خزیمہ کی
شہادت کا معاملہ یہ ہے کہ حضور اکرمؐ نے ایک گھوڑا ایک عربی سے خریدا اور گھوڑے کے مالک سے فرمایا کہ اسے اپنے ہمراہ لے آؤ تاکہ اس کی قیمت ادا کر دوں۔ تاہم چند افراد جو پیغمبر کی خرید سے بے خبر تھے؛ اس عرب کے گرد جمع ہو گئے اور اسے خریدنے پر مصمم ہو گئے حتی بعض نے گھوڑے کے مالک کو زیادہ قیمت کی تجویز بھی دے دی۔ اعرابی نے رسول خداؐ کو آواز دی: اگر خریدنا چاہتے ہیں تو خرید لیں ورنہ میں اسے بیچ دوں گا۔ حضرتؐ نے فرمایا: کیا میں نے اسے خریدا نہیں ہے؟! اعرابی نے انکار کیا۔ اس وقت خزیمہ پہنچے اور گواہی دی کہ رسول اللہؐ گھوڑا اس سے خرید چکے ہیں۔ نبی اکرمؐ نے فرمایا: خزیمہ! تم خرید و فروخت کے وقت موجود نہیں تھے تو کس طرح گواہی دے رہے ہو؟!
کہا: یا رسول اللہ! ہم نے آپ پر آسمانی وحی کے نزول کی تصدیق کی؛ کیا اب آپ کی بات کو سچ نہ مانیں؟!
اس واقعے کے بعد خاتم الانبیاء نے اس کی شہادت کو دو افراد کے برابر قرار دیا اور خزیمہ کا لقب ذو الشھادتین معروف ہو گیا۔
[ترمیم]
فاطمہؑ نے
عرف و
شریعت کے ذریعے ثابت کیا کہ فدک پیغمبرؐ نے آپ کو بخش دیا تھا اور اسے واپس کیا جائے۔ مگر خلفا نے یہ حق تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور فدک کو اپنے پاس رکھا۔ زہرائے اطہرؑ نے یہاں ایک اور طریقہ اختیار کیا۔ یوں کہ
میراث کا مسئلہ پیش کیا اور فرمایا: یہ میرے پدر کی وراثت ہے اور میں ان کی تنہا
وارث ہوں، لہٰذا یہ مجھے منتقل ہو گا۔ مگر ابوبکر نے پیغمبرؐ سے ایک حدیث نقل کی کہ: ہم پیغمبر کوئی وراثت چھوڑ کر نہیں جاتے اور
حدیث کے گواہوں میں
عائشہ،
حفصہ اور
اوس بن حدثان نامی شخص کو پیش کیا۔
فاطمہؑ نے فرمایا: یہ پہلی جھوٹی گواہی ہے، میں کس طرح اپنے والد سے وراثت نہیں پاؤں گی جبکہ قرآن کریم کی نص ہے کہ
سلیمان نے
داؤد سے اور
یحییٰ نے
زکریا سے وراثت پائی؟! ۔
کیا یہ صحیح ہے کہ ارث کے مسائل میں ایسا حکم ہو جو نبی اور انبیاء کے خصائص میں سے ہو مگر آپؐ نے اس کا علم صرف اور صرف ابوبکر، عائشہ، حفصہ اور اوس بن الحدثان کو دیا ہو اور یہ ’’باب مدینۃ العلم‘‘ سے بھی مخفی رہ گیا ہو؟! یہاں تک کہ انہوں نے اپنی زوجہ کو اجازت دی ہو کہ خلافِ شریعت امر کا دعویٰ کریں جبکہ اس دعویٰ میں اس کی معاونت بھی کریں؟! اور کیوں آپ نے یہ اجنبیوں کیلئے ظاہر کیا مگر اپنی بیٹی اور اس کو نہیں بتایا کہ جن کی ان سے وہ منزلت ہے جو
ہارون کی
موسیٰ سے تھی؛ حالانکہ اسے ان سے مخصوص کرنے کی بجائے ان دونوں کے سامنے بیان کرنا، اولیٰ تھا تاکہ یہ دونوں بعد میں اس کا مطالبہ کر کے کسی تنازعے کو ہوا نہ دیں کہ جس کے نتیجے میں ایسی بحث و جدال شروع ہو جو بعد میں
تازیانے اور
تلواریں چلنے میں بدل جائے۔
مزید برآں امیرالمومنین اپنی پیدائش سے وفات رسول تک نبیؐ سے کبھی جدا نہیں ہوئے، آپؐ کے دریائے علوم و معارف سے بہرہ مند ہوتے تھے اور تمام
ملکات و معارف میں آپؐ کے نقش قدم پر چلتے تھے، چنانچہ فرماتے ہیں:
وَ لَقَدْ عَلِمْتُمْ مَوْضِعِی مِنْ رَسُولِ اَللَّهِ (صلیاللهعلیهوآلهوسلّم) بِالْقَرَابَةِ وَ اَلْمَنْزِلَةِ اَلْخَصِیصَةِ وَضَعَنِی فِی حِجْرِهِ وَ اَنَا وَلَدٌ یَضُمُّنِی اِلَی صَدْرِهِ وَ یُمِسُّنِی جَسَدَهُ وَ یُشِمُّنِی عَرْفَهُ. وَ کَانَ یَمْضَغُ اَلشَّیْءَ ثُمَّ یُلْقِمُنِیهِ وَ مَا وَجَدَ لِی کَذْبَةً فِی قَوْلٍ وَ لاَ خَطْلَةً فِی فِعْلٍ وَ لَقَدْ قَرَنَ اَللَّهُ بِهِ مِنْ لَدُنْ اَنْ کَانَ فَطِیماً اَعْظَمَ مَلَکٍ مِنْ مَلاَئِکَتِهِ یَسْلُکُ بِهِ طَرِیقَ اَلْمَکَارِمِ وَ مَحَاسِنَ اَخْلاَقِ اَلْعَالَمِ لَیْلَهُ وَ نَهَارَهُ وَ لَقَدْ کُنْتُ اَتَّبِعُهُ اِتِّبَاعَ اَلْفَصِیلِ اَثَرَ اُمِّهِ یَرْفَعُ لِی فِی کُلِّ یَوْمٍ عَلَماً مِنْ اَخْلاَقِهِ وَ یَاْمُرُنِی بِالاِقْتِدَاءِ بِهِ.۔
تم جانتے ہی ہو کہ رسول اللہ سے قریب کی عزیز داری اور مخصوص قدرومنزلت کی وجہ سے میرا مقام ان کے نزدیک کیا تھا میں بچہ ہی تھا کہ رسول نے مجھے گود میں لے لیا تھا۔ اپنے سینے سے چمٹائے رکھتے تھے۔ بستر میں اپنے پہلو میں جگہ دیتے تھے اور اپنی خوشبو مجھے سنگھاتے تھے۔ پہلے آپ کسی چیز کو چباتے پھر اس کے لقمے بنا کر میرے منہ میں دیتے تھے انہوں نے نہ تو میری کسی بات میں جھوٹ کا شائبہ پایا نہ میرے کسی کام میں لغزش و کمزوری دیکھی اللہ نے آپ کی دودھ بڑھائی کے وقت ہی سے فرشتوں میں سے ایک عظیم المرتبت ملک (
روح القدس) کو آپ کے ساتھ لگا دیا تھا جو انہیں شب و روز بزرگ خصلتوں او ر پاکیزہ سیرتوں کی راہ پر لے چلتا تھا اور میں ان کے پیچھے یوں لگا رہتا تھا جیسے اونٹنی کا بچہ اپنی
ماں کے پیچھے۔آپ ہر روز میرے لیے
اخلاق حسنہ کے پرچم بلند کرتے تھے اور مجھے ان کی پیروی کا حکم دیتے تھے۔
ایک اور حدیث میں فرماتے ہیں:
لَمْ یجْمَعْ بَیتٌ وَاحِدٌ یوْمَئِذ فِی الْاِسْلاَمِ غَیرَ رَسُولِ اللّهِ صَلَّی اللهُ عَلَیهِ وَ آلِهِ وَ خَدِیجَةَ وَ اَنَا ثَالِثُهُمَا. اَرَی نُورَ الْوَحْی وَ الرِّسَالَةِ، وَ اَشُمُّ رِیحَ النُّبُوَّةِ. وَ لَقَدْ سَمِعْتُ رَنَّةَ الشَّیطَانِ حِینَ نَزَلَ عَلَیهِ الْوَحْی. فَمَنِ اِسْتَسْقَی عُرُوقُهُ مِنْ مَنْبَعِ اَلنُّبُوَّةِ وَ رَضَعَتْ شَجَرَتُهُ مِنْ ثَدْیِ اَلرِّسَالَةِ وَ تَهَدَّلَتْ اَغْصَانُهُ مِنْ تَبِعَةِ اَلْاِمَامَةِ وَنَشَاَ فِیْ دَارِ الْوَحْیِ وَرُبِّیَ فِیْ بَیْتِ التَّنْزِیْلِ وَلَمْ یُفَارِقِ النَّبِیَّ فِی حَالَ حَیاتِه الیٰ حَالِ وَفَاتِه لا یُقَاسُ بِسَائِرِ النّاسِ.۔
اس وقت رسول اللہ اور (ام المومنین) خدیجہ کے گھر کے علاوہ کسی گھر کی چار دیواری میں
اسلام نہ تھا البتہ تیسرا ان میں میں تھا میں وحی و رسالت کا نور دیکھتا تھا اور نبوت کی خوشبو سو نگھتا تھا۔ جب آپ پر (پہلے پہل) وحی نازل ہوئی تو میں نے
شیطان کی ایک چیخ سنی، پس جس کی رگیں نبوت کے منبع سے سیراب ہوئیں، جس کا شجرہ خزینہ رسالت سے مستفید ہوا، جس کی ٹہنیاں امامت کی ذمہ داری سے پربار ہیں، جس نے دار وحی میں پرورش پائی، بیتِ تنزیل میں تربیت پائی اور پیغمبرؐ سے زندگی بھر جدا نہیں ہوا؛ اس کا عام لوگوں سے کوئی مقایسہ نہیں ہو سکتا۔
[ترمیم]
ابوبکر نے فدک واپس کرنے سے گریز کیا اور زہراؑ مایوس ہو کر گھر واپس آ گئیں۔ ملکوتی حزن و ملال کے آثار آپ کے محجوب چہرے پر مشاہدہ کر رہے تھے۔ اس وقت فرما رہی تھیں: اللّٰهُمَّ اِنَّهُمَا ظَلَمَا بِنْتَ نَبِیِّکَ حَقَّهَا، فَاشْدُدْ وَطْاَتَکَ عَلَیْهِمَا.
خدایا! ان دونوں نے تیرے نبی کی بیٹی پر ظلم کیا ہے، اس کا حق غصب کیا ہے تو ان دونوں پر اپنی پکڑ سخت کر دے!
اس کے بعد امیرالمومنین ؑ اپنی مظلومہ زوجہ اور حسن و حسینؑ کے ساتھ چالیس دنوں تک مہاجرین و انصار کے گھروں میں جاتے رہے اور ان سے فاطمہؑ کا حق واپس لینے کیلئے تعاون چاہا مگر کوئی نصرت کو آمادہ نہ ہوا۔
معاذ بن جبل کے پاس بھی گئے اور بنت پیغمبرؐ نے فدک کے غصب اور اپنے وکیل کو بے دخل کیے جانے اور مہاجرین و انصار کی جانب سے ساتھ نہ دینے کا حال بیان کیا۔
معاذ نے کہا: اس صورت میں مجھ اکیلے کی نصرت بے ثمر ہو گی۔ فاطمہؑ ناراض ہو کر وہاں سے اٹھیں اور فرمایا: آئندہ ہرگز تم سے بات نہیں کروں گی۔ معاذ کے بیٹے نے یہ منظر دیکھ کر اپنے باپ سے کہا: میں بھی تم سے بات نہیں کروں گا جب تک فاطمہؑ کے پدر بزرگوار کے پاس نہ پہنچ جاؤں (تاکہ وہاں پر معلوم ہو کہ) کیوں تم نے آپؐ کی بیٹی کی ندا پر لبیک نہیں کہا؟!
[ترمیم]
(ان واقعات کے بعد) امیرالمومنین ؑ نے فاطمہؑ سے کہا کہ جب ابوبکر تنہا ہو تو اس کے پاس جائیں؛ کیونکہ وہ عمر سے زیادہ رحم دل ہے۔ فاطمہؑ نے ایسا ہی کیا اور ابوبکر سے فرمایا:
تو میرے پدر کی جگہ پر بیٹھا ہے اور ان کے جانشین ہونے کا دعویدار ہے، اگر فدک تیرے اختیار میں ہے اور میں اس کا مطالبہ کر رہی ہوں تو تمہارے اوپر
واجب ہے کہ مجھے واپس کر دو۔
ابوبکر نے فاطمہؑ کے کلام کی تصدیق کی اور فدک کی ملکیت کی تحریر لکھ کر اسے بنت پیغمبر کے حوالے کر دیا۔
فاطمہؑ تحریر لے کر وہاں سے باہر آئیں۔ راستے میں عمر نے آپ کو دیکھا اور متوجہ ہو گیا کہ ابوبکر کے پاس سے آ رہی ہیں۔ پوچھا کہ کس کام سے آئی ہیں؟!
زہراؑ نے اسے فدک واپسی کی سند کے بارے میں بتایا۔ عمر نے ابوبکر کی تحریر کو طلب کیا مگر فاطمہؑ نے پیش کرنے سے اجتناب کیا۔ عمر نے اس سینے پر لات رسید کی کہ جہاں سے پیغمبر بہشت کی خوشبو سونگھا کرتے تھے اور تحریر زبردستی آپ سے چھین لی، ۔
اس پر تھوکا اور اسے پھاڑ دیا۔ استدلال بھی کیا کہ: یہ عام مسلمانوں کے
غنائم کا حصہ ہے، اس پر گواہ عائشہ، حفصہ اور اوس بن حدثان ہیں!! فاطمہ مظلومہ نے فرمایا: میری سند کو تو نے پھاڑا ہے، خدا تیرا پیٹ پھاڑے۔
! ٓ
پھر عمر ابوبکر کے پاس آیا اور کہا: فاطمہ کیلئے پدر کی وراثت تو نے لکھ کر اسے دے دی، اگر
عرب تیرے ساتھ جنگ کریں گے تو کہاں سے اس کے اخراجات کو پورا کرو گے۔
!!
[ترمیم]
[ترمیم]
ماخوذ از کتاب ’’وفاة الصدیقة الزهراء علیها السلام‘‘، عبد الرزاق المقرم ص ۷۴ تا ۷۸۔